ترتیب: مولانا حافظ محمد یوسف
(بمقام مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ)
نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم۔ اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ان اللہ یامرکم ان تؤدوا الامنت الی اہلہا۔
جن عزیزوں نے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے حدیث شریف کے دورے میں کامیابی حاصل کی ہے اور تجوید میں کامیابی حاصل کی ہے اور جن برخورداروں نے قرآن کریم یاد کیا ہے، سب کو مبارک ہو۔ اللہ تعالیٰ کا انعام اور احسان ہے کہ جو چیز اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے یعنی دین، اس کا علم حاصل کرنے کی آپ کو توفیق عطا فرمائی ہے۔ دین کی بنیاد ہے قرآن کریم اور اس کی تشریح اور تفصیل احادیث، فقہ اسلامی اور دیگر علوم میں ہے۔ قرآن پاک کا صحیح الفاظ کے ساتھ پڑھنا بھی اس کی توفیق ہے اور بہت بڑا انعام ہے۔ اس انعام کے مقابلے میں دنیا ومافیہا کی کوئی شے حقیقت نہیں رکھتی، لیکن اس سلسلے میں آ پ پر بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ جو حضرات دورۂ حدیث شریف سے فارغ ہوئے ہیں، وہ اچھی طرح سنیں کہ آج تک آپ کی ذمہ داری آپ پر نہ تھی، مدرسے پر تھی۔ اب آئندہ آپ نے اس ذمہ داری کو خود نبھانا ہے اور جو امانت اساتذہ نے آپ کے سپرد کی ہے، اس کو کماحقہ آگے پہنچانے کی کوشش کرنی ہے۔
یہ خیال نہ کریں کہ آپ کو بنا بنایا مدرسہ مل جائے گا۔ ایسے بھی ہو سکتے ہیں کہ انھیں کسی مدرسے میں مدرس کی حیثیت سے کام کرنا ہوگا۔ ایسے بھی ہوں گے جن کو خود دینی مدرسہ قائم کرنا پڑے گا اور اس کے لیے بڑی محنت مشقت کی ضرورت ہے۔ بغیر محنت مشقت کے کچھ نہیں ہوتا۔ آپ نے جو پڑھا ہے، اس کے بارے میں یہ ہرگز خیال نہ کریں کہ جاتے ہی ہمارے سامنے بڑی بڑی جماعتیں بیٹھی ہوں۔ آپ کو پڑھانے کے لیے تھوڑے سے افرا دبھی مل جائیں تو اس کو غنیمت سمجھیں۔ ہمارے اکابر کا جو طریقہ تھا، آپ نے پڑھا اور سنا ہوگا۔ سب سے پہلے جو دیوبند میں مدرسہ قائم ہوا چھتے والی مسجد میں، انار کے درخت کے نیچے، پڑھانے والے استاذ کا نام بھی محمود تھا اور پڑھنے والے شاگرد کا نام بھی محمود حسن تھا جو بعد میں شیخ الہندؒ قرار پائے۔ ایک استاذ ہے، ایک ہی شاگرد ہے۔ اگر وہ استاذ یہ خیال کرتے کہ میرے سامنے اچھی خاصی جماعت ہو، پھر میں کام کروں گا تو پھر تو کام کا آغاز ہی نہ ہوتا۔ اس لیے آپ تلامذہ کی قلت وکثرت کے چکر میں نہ پڑیں کہ زیادہ ہوں تو پڑھائے اور کم ہوں تو نہ پڑھائے۔ آپ یہ سمجھیں کہ ہمارا کام پڑھانا ہے۔
ہمارے استاذ محترم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی مراد آباد جیل میں قید ہو گئے تو قاری محمد طیب صاحب، جو اس وقت دار العلوم دیوبند کے مہتمم تھے، ان سے ملاقات کے لیے گئے۔ انھوں نے پوچھا کہ حضرت! آپ کا کیا مشغلہ ہے تو فرمایا کہ میں تعلیم الاسلام پڑھاتا ہوں۔ قاری محمد طیب صاحب نے دل لگی کے طور پر، ظرافت کے طور پر کہا کہ حضرت، خوب ترقی کی ہے کہ بخاری شریف اور ترمذی شریف پڑھانے کے بعد اب تعلیم الاسلام پڑھاتے ہیں۔ حضرت مدنی کا جواب یہ تھا کہ وہاں بخاری شریف اور ترمذی شریف پڑھنے والے تھے، یہاں تو قیدی ہیں، ان کو تعلیم الاسلام پڑھاتا ہوں۔ کام جو پڑھانا ہوا۔ تو پڑھانا آپ کا کام ہے۔ جس معیار پر جس درجے کا طالب علم ملے، اس کو پڑھائیں۔ ابتدا میں یہ کوشش نہ کریں کہ ہمیں بڑی کتابیں ملیں۔ چھوٹی کتابیں بھی پڑھانے کا موقع ملے تو اس سے ہی آغاز کریں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پڑھنے پڑھانے کو نہ چھوڑیں اور اس کو اپنا مقصود بنائے رکھیں۔ یہ آپ کے سروں پر بھاری ذمہ داری ڈال دی گئی ہے۔ اس کوبھولنا نہیں۔ پڑھنا پڑھانا آپ کا شغل ہو۔ چھوٹی کتابیں ہوں، تھوڑے طالب علم ہوں، پس ماندہ علاقہ ہو، غریب علاقہ ہو، آپ ان چیزوں کو خاطر میں نہ لائیں۔ بس یہ سمجھیں کہ ہم نے پڑھانا ہے، خواہ تکلیفیں ہوں۔ ہر ایک کو ہر قسم کی سہولت ہر جگہ میسر نہیں ہوتی۔
دوسری بات یہ ہے کہ اپنے اکابر علماے دیوبند کثر اللہ تعالیٰ جماعتہم کا دامن نہ چھوڑنا۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح دین کو ان حضرات نے سمجھا اور سمجھایا اور عمل کیا اور عملی زندگی کا نمونہ بن گئے، یقین جانیے اس وقت پوری دنیا میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ بے شک مصر میں جامعۃ الازہر آپ کو زبان سکھلائے، اسی طرح مدینہ یونی ورسٹی میں زبان اور جدید عربی آ پ کو آ جائے اور دیگر مدارس میں یہی قصہ ہے، لیکن دین کا یہ عمق اور گہرائی آپ کو ان شاء اللہ العزیز کہیں بھی نہیں ملے گی۔ ملے گی تو ان حضرات کے فیض یافتہ لوگوں سے جو حضرت شاہ ولی اللہؒ ، ان کے تلامذہ، ان کے تلامذہ اور آگے ان کے شاگردوں کے ذریعے پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، افغانستان وغیرہ وغیرہ ملکوں میں ہیں۔ علم کی گہرائی آپ کو انھی کے پاس ملے گی۔ کبھی اپنی ذاتی رائے کو ذہن میں نہ جگہ دیں۔ اسی طرح کبھی اپنے اکابر سے ہٹ کر، کٹ کر جو شخص بظاہر کتنی ہی معقول باتیں کرے، معقول نہیں، دھوکہ ہے، فریب ہے۔ اپنے اکابر کے دامن کو ہر مسئلہ میں ان کی طرف رجوع کرنا، ان کی زندگی دیکھنا۔
تیسری بات یہ کہ بے شک مالی طور پر آپ کو پریشانیاں پیش آئیں گی، لیکن آپ نے یہ نہیں دیکھنا کہ فلاں مدرسے میں مجھے زیادہ تنخواہ ملتی ہے، فلاں میں کم ملتی ہے۔ زیادہ تنخواہ کی وجہ سے آپ ادھر مائل ہو جائیں، اس بات کو ذہن میں بھی نہ آنے دیں۔ یہ سوچنا ہے کہ جہاں کے لوگوں کو علم کی زیادہ ضرورت ہو، گو آپ تکلیف میں ہوں، اس جگہ کو ترجیح دینا۔ اگر آپ آسودگی کے درپے ہوں گے تو بہت سی مشکلات پیش آئیں گی۔ اسی طرح حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے فتاویٰ رشیدیہ میں لکھا ہے کہ یہ جو دینی مدارس ہیں، ان میں جو قواعد وضوابط ہوتے ہیں، چونکہ علما نے مرتب کیے ہوتے ہیں تو مدرسے کے ان قواعد وضوابط کی پابندی مدرس پر واجب ہے۔ جس وقت حاضری ہے، اس وقت حاضر ہوں۔ جو چھٹی کا وقت ہے، چھٹی ہو۔ اگر کہیں جانا ہو تو درخواست کے بغیر نہ جائیں۔ آزاد خیالی نہ کریں کہ جب چاہے اٹھے کھڑے ہوئے، جب چاہے بیٹھ گئے۔
حضرت مولانا محمد زکریا صاحب سہارنپوریؒ کا یہ معمول تھا کہ اگر سبق کے درمیان میں کوئی شخص آجاتا اور اس کا تعلق سبق سے نہ ہوتا اور وہ کوئی بات پوچھتا تو حضرت گھڑی پر وقت دیکھتے اور اتنا وقت نوٹ کر لیتے۔ جب مہینہ گزرتا تو اتنے وقت کی تنخواہ کٹوا دیتے تھے کہ یہ وقت تعلیم کے دور میں خرچ نہیں ہوا۔ میں خود ذاتی طور پر کئی سال پریشان رہا، اس لحاظ سے کہ تعویذ اور دم والے بھی دور دراز سے آ جاتے ہیں، مرد بھی اور بیبیاں بھی۔ اگر دور سے آئے ہوں تو ان سے یہ کہنا کہ اس وقت ٹائم نہیں، چلے جاؤ تو اس کا برا اثر ہوگا۔ تو میں ان کو سبق کے درمیان تعویذ بنا دیتا اور دم کر دیتا۔ میں نے سوچا کہ اس سلسلے میں کیا کروں؟ تو ہمیں مدرسے کی طرف سے سالانہ پچیس چھٹیوں کی اجازت تھی۔ الحمد للہ میں نے حتی الوسع وہ پچیس چھٹیاں نہیں کیں۔ ایسے سال بھی گزرے ہیں کہ دو دو تین تین چار چار سال تک پورے سال میں ایک بھی چھٹی نہیں کی۔ وہ جو پچیس چھٹیاں ہماری مدرسے کی طرف سے تھیں، جو لوگ درمیان میں آ جاتے تھے، ان کے وقت کی کمی کو پورا کرنے کے لیے میں سالانہ پچیس چھٹیاں نہیں کرتا تھا اور الحمد اللہ میرا پلہ پھر بھی بھاری ہے۔ سبق کے دوران کسی سے گپ مارنا، غیر ضروری بات کرنا درست نہیں۔ ان چیزوں کو ملحوظ رکھیں۔
حق تعالیٰ نے ہر طرح کی مخلوق پیدا کی ہے۔ ہر ایک کا ذہن ایک طرف ہے بلکہ ممکن ہے دوسرے اساتذہ کے ذہن کچھ اور ہوں۔ ہوں صحیح العقیدہ، لیکن ذہن میں تفاوت ہو۔ مہتمم صاحب سے ذہن نہ ملتا ہو، وہاں کے جو اراکین اور معاونین ہیں، ان سے ذہن نہ ملتا ہو۔ ان سلسلوں کو ملحوظ رکھنا۔ بد مزگی پیدا نہ ہو۔ سوچ سمجھ کر اگر کوئی معقول وجہ ہے تو ان کو بتائے کہ یہ بات ہے۔ میرے خیا ل میں معقول قسم کے اراکین ومعاونین کبھی اس میں قیل قال نہیں کریں گے، لیکن اپنی رائے کو دخل نہ دیں کہ میں یوں کروں گا، وہ کروں گا۔ ایسا سبق لے کر یہاں سے نہ جائیں۔
ادب کے ساتھ احترام کے ساتھ ایک دوسرے کی قدر کریں اور اپنے دیگر اساتذہ کی بھی۔ تلامذہ کے ساتھ نہایت نرمی سے پیش آئیں۔ آپ یہ سمجھیں کہ یہ ہماری نسبی اولاد ہے۔ جیسے ان کی بعض غلطیوں پر درگزر کرتے ہیں، ان کی غلطیوں سے بھی درگزر کریں۔ ہاں جو قابل گرفت ہے، اس میں اصلاح آپ کا فریضہ ہے۔ بعض دفعہ نرمی سے، بعض دفعہ گرمی سے اس کی اصلاح کریں لیکن ان کو اپنے بیٹے سمجھیں، اپنی اولاد سمجھیں۔ اس دور میں دین حاصل کرنے کے لیے دور دراز سے آئے ہیں تو اپنے ادارے کے ساتھ جہاں بھی ہوں اراکین جہاں بھی ہوں، ان کے ساتھ نہایت ہی سلوک سے رہیں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ یہ کہیں کہ آپ یہ پڑھ کر آئے ہیں؟ یہ سبق ہمارا نہیں اور نہ یہ سبق مولوی کی شان کے لائق ہے۔ کوئی چیز مزاج کے خلاف ہوگی، طبیعت کے خلاف ہوگی، اس لیے سب چیزوں کو برداشت کرنا۔ آپس میں الفت محبت کے ساتھ رہنا۔
جو سبق پڑھانا ہو، بغیر مطالعہ کے ہرگز نہ پڑھائیں۔ میرے خیال میں چالیس سے زیادہ مرتبہ میں نے بخاری شریف پڑھائی ہے، لیکن آخری سبق تک میں نے بغیر مطالعہ کے نہیں پڑھائی۔ سبق بغیر مطالعہ کے نہ پڑھائیں۔ اس کے حواشی دیکھیں، شروح دیکھیں، طالب علموں کو اچھی طرح مطمئن کریں۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ نماز کی پابندی کریں۔ جماعت کی پابندی کریں۔ آپ خود اگر نماز باجماعت کی پابندی نہیں کریں گے تو یقین جانیے آپ کے شاگردوں پر آپ کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔
باقی جو قرا حضرات ہیں، وہ بھی سن لیں۔ بچے قراء ت پڑھتے ہیں۔ کمزوری ہوتی ہے تو انھیں بے تحاشا پیٹتے ہیں۔ یہ بھی غلط ہے۔ اگر آپ نے سزا دینی ہے تو ایسا کریں کہ ان کو تھوڑی دیر کے لیے کھڑا کر دیں۔ ایسا نہ کہ بے چارے کو مار مار کر لہولہان کر دیں۔ ماں بھی دوڑتی ہوئی آئے، باپ بھی دوڑتا ہوا آئے کہ میں نے آپ کو بکرا ذبح کرنے کے لیے تو نہیں دیا تھا، پڑھنے کے لیے دیا تھا۔ میری باتیں نوٹ کرنا۔ زیادہ سختی کرنی ہو تو ان کو کھڑا کر دینا۔
جن بچوں نے قرآن کریم حفظ کیا ہے، ان سے گزارش ہے کہ بیٹو، قرآن پاک کا یاد کرنا بھی مشکل ہے۔ اگر آسان ہوتا تو ہر مسلمان مرد وعورت قرآن کے حافظ ہوتے، لیکن اس کو آخر دم تک محفوظ رکھنا بہت مشکل ہے۔ بیٹو! قرآن کریم کو بھول نہ جانا۔ ابوداؤد شریف کی روایت ہے اور مسند احمد میں اور حدیث کی دوسری کتابوں میں بھی ہے کہ جس نے قرآن کریم کو یاد کیا اور پھر بھول گیا تو قیامت کے دون اس کو کوڑھی کر کے اٹھایا جائے گا، ہاتھ پاؤں گرے ہوئے ہوں گے۔ بیٹو! ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن آپ کوڑھی اٹھیں۔ اللہ کے فضل وکرم سے اچھی شکلیں صورتیں اور اعضا نصیب فرمائے ہیں۔
اور بیٹو! قرآن کریم کے بارے میں آتا ہے کہ حجۃ لک او علیک۔ یا تو تیرے حق میں گواہی دے گا یا تیرے خلاف گواہی دے گا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ قرآن پاک کی زبان بھی ہوگی۔ جیسے اس وقت میں بولتا ہوں، آپ سمجھتے ہیں، اسی طرح قرآن بولے گا۔ اگر کسی نے قران پاک کو عمل میں لایا ہے تو قرآن کریم کہے گا کہ پروردگار، اگر اس سے غلطی ہوئی ہے تو درگزر فرما۔ میں سفارش کرتا ہوں۔ روزہ بھی سفارش کرے گا، اور قرآن کریم بھی او رحق تعالیٰ اس کی سفارش کو قبول فرمائے گا۔ اور اگر کسی نے قرآن کے خلاف زندگی بسر کی تو حجۃ علیک، یہ اس کے خلاف گواہی دے گا کہ اے پروردگار، یہ پڑھتا یوں تھا اور کرتا یوں تھا۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے احیاء العلوم میں حضرت انس رضی اللہ کا موقوف اثر نقل کیا ہے۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ رب تال للقرآن والقرآن یلعنہ۔ بہت سے ایسے ہیں کہ قرآن پڑھتے ہیں اور قرآن ان پر لعنت بھیجتا ہے۔ مثلاً پڑھنے والا پڑھتا ہے: اقیموا الصلوۃ اور نماز کی پابندی نہیں کرتا۔ یہ آیت بزبان حال کہے گی کہ ملعون! پڑھتا کیا ہے اور کرتا کیا ہے؟ جب پڑھے گا، آتوا الزکوۃ اور اس پر زکوٰۃ آتی ہے لیکن نہیں دیتا تو یہ آیت بزبان حال اس پر لعنت بھیجے گی کہ آتوا الزکوۃ پڑھتے ہو لیکن زکوٰۃ دیتے نہیں۔ جب یہ پڑھے گا کہ لعنت اللہ علی الکاذبین اور خود جھوٹ بولتا ہے تو یہ آیت لعنت بھیجے گی کہ اے ملعون، پڑھتا ہے لعنت اللہ علی الکاذبین اور خود جھوٹ میں ڈوبا ہوا ہے۔ ایسے ہی پڑھتا ہے لاتقربوا الزنی، زنا کے قریب نہ جاؤ اور خود اس میں آلودہ ہے تو یہی آیت بزبان حال اس پر لعنت کرے گی۔ اسی طرح جب پڑھے گا لا تقربوا مال الیتیم، یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ اور خود یتیم کا مال کھا جاتا ہے تو بھی لعنت کا مستحق ہوگا۔
ایک بات اچھی طرح سمجھنا اور بھولنا نہیں۔ عام لوگوں میں جب کوئی فوت ہو جاتا ہے تو اس کا تیجا بھی ہوتا ہے، ساتواں بھی ہوتا ہے، دسواں بھی ہوتا ہے اور چالیسواں بھی ہوتا ہے۔ ایسے بھی مرنے والے ہوتے ہیں جن کی اولاد میں نابالغ بچے ہوتے ہیں۔ اب لوگ یہ کرتے ہیں کہ ابھی شرعی طور پر مال تقسیم نہیں کیا ہوتا اور مرنے والے کے متروکہ مال سے تیجا بھی کر دیتے ہیں، ساتواں بھی، دسواں بھی اور چالیسواں بھی کر دیتے ہیں اور حفاظ اور قرا کو بلا کر ان سے قرآن کریم پڑھواتے ہیں۔ ان دنوں کی تعیین کے ساتھ ایسے موقع پر قرآن پڑھ کر کچھ لینا اور کھانا حرام ہے اور پھر اس طرح مشترکہ کھاتے سے صدقہ خیرات کرنا بالاتفاق حرام ہے، اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔ کوئی شخص مال تقسیم ہونے کے بعد اپنے مال سے، جس کا وہ مالک ہے، صدقہ خیرات کرے بغیر ایام کی تعیین کے تو وہ جائز ہے۔ مشترکہ کھاتے سے صدقہ خیرات سے بچو۔
اگر کسی نے مکان بنایا ہے اور وہ مکان کی خوشی میں حفاظ اور قرا کو لے جائے تو کھائیں اور اتنا کھائیں کہ ہفتہ بھر کے لیے پیٹ بھر جائے۔ اگر کوئی بیمار ہے، اس کی صحت کے لیے پڑھنا ہے تو پھر کھا سکتے ہیں کہ یہ خوشی کا مقام ہے۔ لیکن ایصال ثواب کے لیے کوئی قرآن پڑھائے تو اس پر کوئی شے کھانا حرام ہے اور خاص طور پر مشترکہ کھاتے سے ہوگا تو حرام ہوگا۔ نابالغ کی اجازت شرعاً معتبر نہیں۔ اسی طرح غیر حاضر وارث ہو تو اس کی غیر موجودگی میں مشترکہ کھاتے سے صدقہ کرنا حرام ہے۔ عام لوگ شکوہ کرتے ہیں کہ مولوی صاحب، آپ بڑے سخت مسئلے بیان کرتے ہیں۔ وہ باہر سے لوگ آئے ہیں، وہ کہاں سے کھائیں؟ دور دراز سے بھی رشتہ دار آتے ہیں۔ اس کی صورت عموماً یہ ہوتی ہے کہ ایک دن د و دن تین دن میت کے گھر میں کھانا نہیں پکتا۔ اس کے عزیز رشتے دار، پڑوسی کھانا بھیج دیتے ہیں۔ یہ کھانا جائز ہے۔ حضرت جعفرؓ موتہ کے مقام پر شہید ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل خانہ سے فرمایا کہ اصنعوا لآل جعفر طعاما فانہم اتاہم ما یشغلہم (ابن ماجہ، مسند احمد وغیرہ) تم ایسا کرو کہ چونکہ ان کو بڑا صدمہ ہے اور وہ پکا نہیں سکیں گے تو ان کو کھانا پکا دو۔ اگر وہ کھانا ہو تو کھا سکتے ہیں، لیکن اگر میت کے گھر میں مشترکہ کھاتے سے پکا ہوا ہو تو اس کے قریب نہ جانا۔ نہ مولوی کھائیں نہ پیر کھائیں۔ پھر عجیب لوگوں کا دھندا ہے کہ کہتے ہیں کہ یہ ایصال ثواب ہے۔ بھئی ایصال ثواب کا تو یہ مطلب ہوتا ہے کہ کسی غریب کو کھلائے۔ آپ تجربہ کر کے دیکھیں کہ ایسے موقع پر اگر کوئی غریب آ جائے تو لوگ دھکے دیتے ہیں۔ کھاتا کون ہے؟ دادا، ماموں، سسر، داماد، بہنوئی، یہ کھا جاتے ہیں۔ اگر اس کا نام ایصال ثواب ہے تو یہ روزانہ گھروں میں کھاتے ہیں، بھئی ان کا تو حق نہیں ہے۔ فتاویٰ رشیدیہ وغیرہ میں تصریح ہے کہ جو نفلی صدقہ ہوتا ہے، اس کا کھانا امیر کے لیے مکروہ ہے۔
اس لیے بیٹو! ایسا نہ ہو کہ قرآن کریم آپ کے خلاف ہو اور لعنت بھیجے۔ یہ میں نے مثال کے طور پر دو تین باتیں بیان کی ہیں، ورنہ سارا قرآن کریم اسی مد میں ہے کہ رب تال للقرآن والقرآن یلعنہ۔ بہت سے ایسے قرآن کو پڑھنے والے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے۔ تو علما اور قرا حضرات اور حفاظ بھی میری باتوں کو ملحوظ رکھیں۔ اللہ پاک سب کو توفیق نصیب فرمائیں۔ آمین