حضرت شیخ الحدیثؒ کی ہستی ایک مایہ ناز ہستی تھی۔ ان کے علمی کمالات سے دنیا خوب واقف ہے۔ میرے جیسا بے علم شخص ان کے علمی مقام کو کیا بیان کر سکتاہے، لیکن اللہ رب العزت کا مجھ پر احسان عظیم ہے کہ دونوں بزرگ بھائیوں کے سایہ شفقت میں رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے مجھے دین کی سمجھ عطا فرمائی۔ ایک دن میں اورمیرا دوست حاجی محمد شریف مسجد نور سے حضرت صوفی صاحب ؒ کا درس سن کر باہر نکل رہے تھے اور آپس میں حضرات شیخین ؒ کے علمی کمالات کی بات ہو رہی تھی تو حاجی شریف صاحب کہنے لگے کہ یہ بہت بڑے لوگ ہیں۔ میں نے جواباً کہا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم ۔ یہ دونوں بھائی بھی ہمارے لیے نعمت عظمیٰ ہیں۔
حضرت صوفی صاحب ؒ فرمایا کرتے تھے کہ ایک بزرگ حاجی امداداللہ مہاجر مکی ؒ کے پاس گئے اور دارالعلوم دیوبند کے لیے دعا کی درخواست کی۔ عرض کیا کہ حضرت ہمارے مدرسہ کے لیے دعا کریں ۔ حاجی امداداللہ مہاجر مکی ؒ فرمانے لگے، واہ بھائی واہ! پیشانی رات کو ہم رگڑتے رہے اور مدرسہ آپ کا ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے دیوبند کو بہت مستجاب الدعوات شخصیات عطا فرمائیں۔ ان میں سے امام اہل سنت حضرت شیخ الحدیث ؒ کی شخصیت کی ہستی بھی ہے۔ جب مدرسہ نصرۃ العلوم للبنات کا مستقل طور پر علیحدہ تعلیم کا آغاز ہوا تو حضرت نے فرمایا کہ ایک شخص لندن سے میرے پا س آیا اور مجھ سے اس بات پر اصرار کرنے لگا کہ مجھ سے ایک وعدہ کریں کہ جو بات میں کہوں گا، آپ اس کو ضرور مانیں گے۔ حضرت نے فرمایا کہ میں نے اس شخص سے کہا کہ پہلے آپ بات کریں، پھر میں اس کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ وہ شخص اصرار کرتا رہا اور میں انکار کرتا رہا۔ کافی بحث ومباحثہ کے بعد وہ کہنے لگا کہ میری دو بچیاں ہیں۔ میں چاہتاہوں کہ آپ ان کو اپنے گھرمیں رکھ کر تعلیم پیغمبر سے آراستہ کریں اور ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی کرتے رہیں۔ حضرت اس شخص کی بات کو سن کر فرمانے لگے کہ نہ بابا نہ، میں ایسا نہیں کر سکتا۔ ایک تو میرے بچے جوان ہیں اور دوسرا میرے گھر میں اتنی جگہ نہیں ہے۔
حضرت فرماتے ہیں کہ وہ شخص میرا یہ جواب سن کر بڑی مایوسی کے ساتھ واپس چلا گیا۔ اس بات کو بیان کرنے کے بعد اسی موقع پر حضرتؒ نے انتہائی خلوص سے دعا مانگی کہ اے اللہ مدرسہ نصرۃ العلوم کے معاونین ومنتظمین اور اس کے متعلقین کو یہ توفیق عطا فرما کہ وہ ایک رہایشی مدرسہ قائم کریں جس میں طلبہ کی طرح طالبات کے لیے بھی تمام شعبہ جات قائم کیے جائیں۔ ایک عرصہ تک تواس جامعہ میں مقامی طالبات کے لیے تعلیم کاسلسلہ جاری رہا، لیکن اب الحمدللہ حضرات شیخین ؒ کی پر خلوص دعاؤں کے ساتھ اب رہایشی طالبات کا بھی انتظام ہو چکاہے۔ جب اس جامعہ کی تعمیر نو کا آغاز کر نا تھا تو مہتمم جامعہ نصرۃ العلوم مولانا حاجی محمد فیاض خان مدظلہ نے اعلان کیا کہ جامعہ للبنات کی تعمیر کے لیے ایک کروڑ کا خرچہ ہے۔ میں نے یہ اعلان سنا تو اس بات کو بالکل بعید نہ جانا کیونکہ حضرت کی پر خلوص دعاؤں کے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے تھے۔ مجھے اس بات کا یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ حضرتؒ کی مخلصانہ دعاؤں کے صدقے ایک کروڑ کاجلد ہی انتظام فرما دیں گے۔
جامع مسجد نور میں ایک بابا جی ہوتے تھے جن کا نام محمد ایوب تھا۔ وہ مسجد نورکے خادم تھے اور حضرات شیخینؒ کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ جب بابا جی فوت ہو گئے توان کی تجہیز وتکفین کے بعد ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ پھرہم تدفین کے بعد ان کے لیے دعاے مغفرت کر کے سب لوگ واپس آگئے، لیکن امام اہل سنت ؒ بابا جی کی قبر پر کھڑے ہو کر دعا مانگتے رہے۔ میں نے دیکھا کہ دعا کے دوران آپ کی عاجزی وانکساری میں اضافہ ہوتا گیا۔ آپ کی عاجزی دیکھ کر یوں معلو م ہوتاتھا کہ آپ دعا قبول کروا نے کے لیے زور دے رہے ہیں۔ آپ کی یہ حالت دیکھ کر میں نے یہ محسوس کیاکہ آپ کا شمار بھی مستجاب الدعوات ہستیوں میں ہے۔ آپ کے بابا جی کی قبر پر کھڑے ہوکر دیر تک دعا مانگنے سے مجھے صحابی رسول کا وہ قول یاد آگیا جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ مجھے دفنانے کے بعد میری قبر پر اتنی دیر کھڑے رہنا جتنی دیر اونٹ ذبح کرنے کو لگتی ہے۔
ایک دفعہ ہم نصرۃ العلوم کے پرانے مہمان خانہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی ؒ بھی وہاں تشریف فرما تھے اور حضرت شیخ الحدیثؒ بھی موجود تھے۔ مولانا غلام غوث ہزاروی ؒ نے ایک حدیث پڑھی اور حضرت شیخ سے فرمانے لگے کہ حضرت یہ کس درجہ کی حدیث ہے۔ آپ نے بلاتاخیر جواب ارشاد فرمایا کہ یہ حسن درجہ کی حدیث ہے۔ مولانا غلام غوث ہزاروی ؒ فرمانے لگے کہ میں نے ایک مضمون لکھا تھا تو جماعت اسلامی کے کسی آدمی نے اس حدیث پر اعتراض کیا کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے تومیں نے یہ حدیث لکھ کر اعظم گڑھ میں مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒ کے پاس بھیجی۔ انہوں نے بھی یہی فرمایا تھا کہ یہ حدیث حسن درجہ کی ہے۔ اب اس بات کی تصدیق آپ سے بھی ہو گئی ہے تو میں مطمئن ہو چکا ہوں۔
چودھری بشیراحمد پبلک میڈیکل سٹور والے ہندوستان کی سرحد کے قریب ایک قصبہ ہے، غالباً وہ وہاں کے رہایشی تھے۔ وہ مولانا خیر محمد جالندھری کو سالانہ جلسہ پر بلاتے تھے۔ ایک دن بشیر احمد صاحب حضرت صوفی صاحب ؒ کے پاس تشریف لائے اور کہنے لگے کہ پاکستان بننے کے بعد میں مولانا خیر محمد جالندھری ؒ کے پا س ملتان گیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ جو کتاب فاتحہ خلف الامام کے عنوان سے تحریر فرما رہے تھے، وہ کس مرحلے میں ہے؟ مولانا خیر محمد ؒ نے فوراً جواب میں فرمایاکہ آپ گوجرانوالہ سے آئے ہیں تو وہاں مولانا سرفراز خان صفدرؒ نے ’’احسن الکلام‘‘ لکھ دی ہے۔ اس عنوان پر اب کسی دوسری کتاب کی ضرورت نہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے واپس آکر حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کے ساتھ رابطہ قائم کیا اور ان کی تصنیف حاصل کی اور ان کی کتاب کا بغور مطالعہ کیا۔ مطالعہ کے بعد مجھے یقین ہوگیا کہ واقعی اب اس کے بعد کسی اور کتاب کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ حضرت شیخ الحدیثؒ کے ساتھ پہلے میرا کوئی تعارف نہیں تھا۔ جب میں نے ان سے کتاب لی اور کتاب پڑھی تو اس کے بعد میرے ان سے تعلقات بڑھتے چلے گئے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو خوابوں کی تعبیر کا بھی بہت زیادہ ملکہ عطا فرمایا تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا آپ پر احسان عظیم تھا۔ میرے ایک دوست کو اکثر خواب میں سانپ نظر آتے تھے اور خواب میں وہ سانپ کے ساتھ لڑتا تھا۔ اس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ پریشان تھا۔ ایک دن اس نے میرے سامنے اس کا تذکرہ کیا تو میں اسے حضرت ؒ کے پا س لے گیا۔ حضرت نے اس شخص کو تسلی دی اور فرمایا کہ بھائی فکر کی کوئی بات نہیں۔ تعبیر اس کی یہ ہے کہ آپ کو دولت ملے گی، لیکن مشقت کے ساتھ ملے گی۔ حضرت کا یہ جواب سن کر وہ شخص مطمئن ہوکر چلا گیا۔ چودھری میڈیکل سٹور (کالج روڈ) کے مالک طاہر صاحب نے مجھ سے اپنی والدہ کا خواب بیان کیا کہ انھوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ دودھ گرم کر رہی ہے اور اوپر سے دودھ میں سانپ گر گیا۔ طاہر صاحب کی والدہ اس وجہ سے بہت پریشان بلکہ بیمار ہو گئیں۔ میں نے اس بات کا تذکرہ حضرت ؒ سے کیا تو حضرت فرمانے لگے کہ بھائی پریشانی والی بات کوئی نہیں۔ اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دولت دیں گے اور اس کے ساتھ ایمان بھی سلامت رہے گا۔ اسی طرح ایک خواب میری بیوی نے دیکھا کہ ہمارے گھر کی چھت پر ہوائی جہاز رک گیا ہے۔ میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت سے یہ خواب بیان کیا تو حضرت بہت پریشان ہوئے اور فرمانے لگے کہ بھائی رزق میں تنگی ہو گی اور جو اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اوپر سے نازل ہوتی ہیں، وہ رک گئی ہیں۔
حضرات شیخین ؒ دونوں میرے مشفق ومربی بزرگ تھے۔ حضرت شیخ الحدیثؒ سے جب بھی میں نے کوئی با ت کی تو حضرت نے حوصلہ افزائی فرمائی۔ ۱۹۷۷ء کا واقعہ ہے کہ مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ میں اجلاس ہوا۔ حضرت کے ساتھ میں تھا اور دس پندرہ ساتھی اور بھی تھے۔ ہم سب حضرت ؒ کے ساتھ اجلاس میں شرکت کے لیے جا رہے تھے۔ میں سب سے پیچھے تھا تو حضرت نے پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھا اور میرے پاس تشریف لائے۔ مجھ سے فرمانے لگے کہ صوفی صاحب، کیا ہم تحریک شروع کر دیں تو لوگ ہمارا ساتھ دیں گے؟ میں نے حضرت کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت لوگوں میں بہت جوش ہے۔ لوگوں کے جوش وجذبہ کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ضرور ساتھ دیں گے۔ حضرت ؒ کی یہ بات سن کر مجھے حیرانی اس بات پر ہوئی کہ میں حضرت ؒ کاادنیٰ سا خادم ہوں اور مجھ سے اتنی اہم بات کا مشورہ کر رہے ہیں۔ حضرات شیخینؒ کا عمر بھریہ مزاج رہا کہ ہرموڑ پر حوصلہ افزائی فرمائی اور کبھی حوصلہ شکنی نہیں کی۔
مدرسہ انوا رالقرآن للبنات میں طالبات کے ختم قرآن کے موقع پر اکثر حضرت ؒ کو دعوت دیتا۔ اگر آپ کی کوئی مصروفیت نہ ہوتی تو آپ ضرور تشریف لاتے۔ اگر کوئی عذر ہوتا تو معذرت فرمالیتے۔ ایک مرتبہ میں نے حضرت ؒ کو دعا کے لیے دعوت دی تو اس وقت حضرت ؒ کے ساتھ دو گن مین بھی ہوتے تھے۔ آپ مجھ سے فرمانے لگے ، صوفی جی میرے ساتھ دو آدمی ہوتے ہیں جنہوں نے جا کر اپنا کام کرنا ہوتا ہے، اس لیے میں معذرت چاہتا ہوں۔ فرمانے لگے کہ کیا پہلے میں نے کبھی آپ کے حکم کی نافرمانی کی ہے؟ جب انہوں نے میرے لیے حکم کا لفظ بولا تو میں پانی پانی ہو گیا اور اس کے بعد کچھ بھی نہ بو ل سکا۔
جب مدرسہ انوارالقرآن للبنات کی پہلی کلاس کی طالبات نے حفظ قرآن کریم مکمل کیا تو حضرت شیخ الحدیثؒ تشریف لائے۔ حضرت نے طالبات کا آخری سبق سنا تو طالبات کے تلفظ کی ادائیگی اور منزل کی پختگی کو خواب سراہا اور حاضرین مجلس اور طالبات کو وعظ ونصیحت فرمائی۔ اس کے بعد مدرسہ کی تعمیر وترقی کے لیے خصوصی دعا فرمائی۔ جب حضرت واپس جانے لگے تومیری بچیوں نے حضرت ؒ کو سلام کیا۔ حضرت ؒ نے سر پر دست شفقت رکھا اور پھر مزید دعاؤں سے نوازا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ حضرت ؒ کی دعاؤں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج مدرسہ انوارالقرآن ترقی کی طرف گامزن ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے میری چاروں بچیوں کو حضر تؒ کی طرف سے حدیث شریف میں اجازت ملی ہے۔