( ۱ )
باسمہ تعالیٰ
مخدومنا المکرم حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب، دامت برکاتکم
حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب ، دامت برکاتکم
حضرت مولانا سعید احمد پالن پوری صاحب ،دامت برکاتکم
ودیگر اکابر واساتذہ مادر علمی دارالعلوم دیوبند
مزاج گرامی!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضرت والدمحترم مولانا محمد سرفرازخان صفدر نوراللہ مرقدہ کی وفات حسرت آیات کی المناک خبر آپ سب لوگوں تک پہنچ چکی ہوگی۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ وہ دارالعلوم دیوبند کے فیض یافتہ اور اس مادر علمی کے فکر ومسلک کے ترجمان تھے جن کی علمی ودینی جدوجہد میں دیوبند ی مسلک کا تعارف اور اس کا دفاع ہی ہمیشہ اولین ترجیح رہا ہے اور انہوں نے کم وبیش پون صدی تک مسلسل اس کے لیے خدمات سرانجام دی ہیں۔ اس لیے میں دارالعلوم دیوبند کو اس کے ایک مایہ ناز سپوت کی وفات پر تعزیت کا حقدار سمجھتا ہوں اور حضرت ؒ کے پورے خاندان کی طرف سے اس عریضہ کے ذریعہ دارالعلوم دیوبند کے منتظمین ، اساتذہ اور طلبہ سے تعزیت کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔ اللہ رب العزت انہیں جوار رحمت میں جگہ دیں اور ہم سب کو ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔
ابوعمار زاہدالراشدی
خادم الحدیث مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ
( ۲ )
دیوبند، ۵؍ مئی۔ پاکستان کے ممتاز عالم دین مولانا سرفراز خان صفدر کا آج مختصر علالت کے بعد گوجرانوالہ (پاکستان) میں انتقال ہو گیا۔ مولانا صفدر کا شمار برصغیر ہند وپاک کے جید علما میں ہوتا تھا۔ موصوف دار العلوم دیوبند کے فاضل تھے اور شیخ الاسلام حضرت مدنی کے تلامذہ میں سے تھے۔ مختلف موضوعات پر ان کی درجنوں تصانیف موجود ہیں۔ اسلام کے خلاف اٹھنے والے باطل فتنوں کے رد میں آپ کی کتابیں خاص وعام میں یکساں مقبول ہیں۔ مولانا کی ولادت ۱۹۱۴ء میں ہوئی۔ گوجرانوالہ (پاکستان) کے مدرسہ نصرۃ العلوم میں ایک طویل عرصہ تک بحیثیت شیخ الحدیث علم دین اور حدیث وفقہ کی خدمات انجام دیتے رہے۔ علم حدیث سے آپ کو کافی شغف تھا۔
جنازہ میں علما، فضلاے مدارس عربیہ کی بڑی تعداد موجود تھی۔ یہ اطلاع دیتے ہوئے دار العلوم دیوبند کے شعبہ کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کے نائب ناظم مولانا شاہ عالم گورکھپوری نے بتایا کہ مولانا سرفراز خان صفدر کا انتقال ملت کا ناقابل تلافی نقصان ہے۔ ان کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوا ہے، وہ پر ہونا مشکل ہے۔ کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کے دفتر میں ان کے لیے ایصال ثواب کیا گیا۔
( ہفت روزہ الجمعیۃ، نئی دہلی)
( ۳ )
الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سید المرسلین، وعلی آلہ واصحابہ اجمعین۔
شیخ الحدیث والتفسیر امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ تلمیذ رشید شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ اور خلیفہ مجاز حضرت اقدس حضرت مولانا حسین علی صاحبؒ ، قافلہ اہل حق کے سپہ سالار ، عظیم محدث ، عظیم مفسر ، اس دنیاے فانی سے رخصت ہوگئے اور عزیمت واستقامت کے رہروعلماے کبار اور اولیاے ذی احترام کے پاس پہنچ گئے ۔ دارالعلوم دیوبند نے علم وعمل، زہد وورر ع ، تقویٰ وتدین، فضل وکمال، اخلاص واتباع سنت کے حامل افراد کا جو قافلہ تیار کیا تھا، حضرت مولانا بھی اس قافلے کے ہم سفر تھے۔ فقیر کے ان کے ساتھ تعلقات تقریباً پون صدی پر محیط ہیں۔ ویسے تو ان کے ساتھ بہت ساری قدریں مشترک ہیں، لیکن دو قسم کے رشتے بڑے اہم ہیں۔ ایک یہ کہ ایشیا کی عظیم درس گاہ دارالعلوم دیوبند اور دیوبند میں مرجع الخلائق شیخ العرب والعجم سید حسین احمد مدنی ؒ سے اکتساب فیض اور ان کی پاکیزہ صحبت جواللہ جل شانہ نے ہمیں نصیب فرمائی۔ اسی طرح ہمارے حضرت قدوۃ السالکین محبوب العارفین حضرت اعلیٰ خواجہ ابوالسعد احمد خان صاحبؒ کاتعلق خانقاہ موسیٰ زئی شریف سے تھا اور حضرت مولانا کے مرشد کامل حضرت مولانا حسین علیؒ کا تعلق بھی خانقاہ موسیٰ زئی شریف سے تھا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے رشد وہدایت کے ان مراکز کے ساتھ ہمیں نسبت عطا فرمائی۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خداے بخشندہ
حضرت مولانا کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی صلاحیتوں نے نوازا تھا۔ گوناگوں صفا ت کے مالک تھے۔ ان کا سایہ بہت سے فتنوں کے لیے سد باب رہا۔ ان کا تبحر علمی بے مثال تھا۔ وہ علماے دیوبند کے علم وعمل کے وارث تھے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے جو کام بھی شروع کیا، مستقل مزاجی کے ساتھ کیا اور ہمیشہ عزیمت پر عمل کیا۔ اپنی پوری زندگی دین حق کی حفاظت میں صرف کی اور جب بھی کسی اہل باطل نے اسلام کے مسلمہ اصولوں میں کسی ایک اصول کے خلاف قلم اٹھایا تو حضرت مولانا نے بطریق احسن اس کا تعاقب کیا۔ و جادلہم بالتی ھی احسن کاعملی نمونہ پیش کیا اور دلائل کے میدان میں ہمیشہ سرفراز ہی رہے، لیکن اس مشکل گھاٹی سے گزرتے ہوئے کبھی آپ نے اپنے اکابرین کی تحقیقات سے سرمو انحراف نہیں کیا۔ نیز جس طرح آپ نے اپنے قلم کے ذریعے اسلام کی نظریاتی سرحدوں کا پہرا دیا، اسی طرح عملی تحریکات میں بھی شریک رہے۔ بالخصوس ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں آپ نے نمایاں کردار ادا کیا اور ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تقریباً ۱۰ ماہ جیل کاٹی۔ اللہ تعالیٰ ان کی مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔ وہ دین کا روشن چراغ تھے جن سے بے شمار دینی مشعلیں روشن ہوئیں۔ ان کو ایک عالم حق اور باعمل بااخلاص ہونے کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
خدارحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
فقیر دعا گوہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے جوار رحمت وغفران ورضوان میں جگہ عطا فرمائے اور امت میں ایسے افراد زہاد پیدا فرمائے جو اقامت دین کا فریضہ اسی طرح ادا کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے اہل وعیال اور متعلقین کرام پر ہمیشہ اپنے فضل وکرم کا سایہ رکھے۔
آخر میں اپنے عزیزوں حضرت مولانا زاہد الراشدی، حضرت مولانا عبدالقدوس قارن، حضرت مولانا عبدالحق خان بشیر ودیگر صاحب زادگان سے عرض کروں گا کہ وہ اپنے والد محترم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہمت اور استقامت کے ساتھ دین حق پر سختی سے کار بند رہیں اور اپنی اولاد کو بھی اس پر کار بند رکھیں تاکہ یہ چراغ بجھنے نہ پائے۔
[مولانا] ابوالخلیل خان محمد
خانقاہ سراجیہ، کندیاں شریف
( ۴ )
برادران محترم جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب زید مجدہ واخوانہ الکرام
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
استاذ محترم امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات حسرت آیات پوری علمی دنیا کے لیے بہت بڑا سانحہ اور اکابر دیوبند کی اس نشانی کا رخصت ہو جانا بہت بڑا خسارہ ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے ناچیز کو تلمذ کا شرف اس طرح حاصل ہے کہ حضرت والا نے ناچیز کی درخواست پر روایت حدیث کی اجازت بھی خاص شفقت سے عطا فرمائی تھی جو ناچیز کے لیے بڑی سعادت ہے۔ ہر حاضری اور ملاقات کے موقع پر حضرت رحمۃ اللہ علیہ جس شفقت سے برتاؤ فرماتے تھے، اس کا دل پر گہرا نقش ہے۔
نماز جنازہ میں کوشش کی کہ ہم دونوں بھائیوں میں سے کوئی حاضر ہو جائے، لیکن وقت پر سیٹ نہ مل سکی۔ مجبوراً میں نے اپنے بھانجے مولوی ناظم اشرف، استاذ جامعہ اشرفیہ لاہور اور رفیق دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور مولانا محمد افتخار بیگ دونوں سے درخواست کی کہ وہ نماز جنازہ میں جا کر آپ حضرات کی خدمت میں میری طرف سے تعزیت بھی پیش کریں۔ الحمدللہ نماز جنازہ میں ان کی شرکت ہو گئی، مگر ٹریفک کے بے پناہ ہجوم کے باعث کئی گھنٹوں کی مسلسل کوشش کے باوجود آپ حضرات تک رسائی نہ ہو سکی۔
بلاشبہ یہ غم بہت صبر آزما ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی کامل مغفرت فرما کر درجات عالیہ سے نوازے اور آپ حضرات اور ہم سب پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی برکات سے ہمیشہ مالامال رکھے۔
براہ کرم ناچیز کی طرف سے سب بہن بھائیوں اور اہل خانہ کی خدمت میں تعزیت کے ساتھ سلام پہنچا دیا جائے۔
(مولانا مفتی) محمد رفیع عثمانی
صدر دار العلوم کراچی
( ۵ )
محترم المقام مولانا زاہدالراشدی، مولانا عبدالقدوس قارن،
مولانا عبدالحق خان بشیر، مولا نا عزیرالرحمن ومولانا رشید الحق خان عابد
اور دیگر فرزندان وعزیز واقارب حضرت امام اہل سنتؒ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
طالبین بخیر ہیں۔ شاعر نے کہا:
ھیھات لا یاتی الزمان بمثلہ
ان الزمان بمثلہ لبخیل
گردش لیل ونہار میں بار بار یہ حقیقت مجسم شکل میں نظر آتی ہے: کل نفس ذائقۃ الموت یعنی
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ، کل ہماری باری ہے
جو نفس بھی اس کائنات میں آیا، اسے واپس جانا ہی ہے، مگر ایسے نفوس معدود ے چند ہوتے ہیں جو اپنی ذات میں انجمن، ایک محفل اور ایک ادارہ ہوتے ہیں، بلکہ اگریہ کہاجائے تو بے جانہ ہو گا کہ ایسے نفوس اپنی ذات میں علم وعمل کاا یک جہان اور اخلاق وہدایت کی ایک دنیا بسائے ہوتے ہیں، اور ان کے اٹھ جانے سے ایک فرد کی ہی کمی نہیں ہوتی بلکہ پوری سبھا ہی اجڑ جاتی ہے۔ ایک عہد کا خاتمہ ہوتا ہے اور ایک قرن کا اختتام ہو جاتا ہے۔ ایسے افراد کا دنیا سے کوچ کرجانا سیکڑوں، ہزاروں بلکہ بعض اوقات لاکھوں انسانوں کے دنیا سے چلے جانے سے زیادہ باعث ضیاع وزیاں ہوتا ہے۔
علامہ ظفر احمد عثمانیؒ کی ہمہ جہت شخصیت کے سانحہ ارتحال پر محدث العصر علامہ محمد یوسف بنوریؒ نے فرمایا تھا:
’’ حضرت عثمانیؒ کی وفات سے مسند علم وتحقیق، مسند تصنیف وتالیف، مسند تعلیم وتدریس اور مسند بیعت وارشاد بیک وقت خالی ہو گئیں۔ اب ان کو پر کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا‘‘۔
حالانکہ حضرت عثمانیؒ کی وفات کے وقت جید اکابر علما کی ایک جماعت بقید حیات تھی، اس لیے یہ عبارت حضرت امام اہل سنت ؒ کی ذات گرامی کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ آپ کامذاق و مزاج یقیناًتحقیق وتصنیف، تعلیم وتدریس اور اصلاح وارشاد کے تال میل سے بنا تھا۔
وما کان قیس ھلکہ ھلک واحد
ولکنہ بنیان قوم تہدما
موجودہ دور کے تقریباً تمام فرق باطلہ وضالہ کے خلاف آ پ کے خامہ عنبر شمامہ سے وہ متین تحریرات نکلیں کہ جن کا ٹھوس جواب اب تک مخالفین سے نہ بن پڑا۔ دبستان تنقید میں آپ نے جس اعتدال، میانہ روی اور ظرافت کی روش کو زندہ کیا، وہ ہر شخص کے بوتے کی بات نہیں۔ اسی ظرافت واعتدال نے آپ کی تحریرات کو ’’از دل خیزد بردل ریزد‘‘ کا مصداق بنا دیا۔ آپ کی تحقیقات کا یہ قوس وقزحی مجموعہ تا قیامت اہل خبر ونظر کے مشام جان کو معطر کرتا رہے گا۔
حضرت اقدس ؒ کی وفات حسر ت آیات کے دن اساتذۂ جامعہ کا تعزیتی اجلاس ہوا جس میں حضرت مرحومؒ کے لیے ایصال ثواب اور دعاے مغفرت اور پس ماندگان ومتعلقین کے لیے صبر کی دعا کی گئی۔ جنازہ میں تقریباً اساتذۃ اور طلباے کرام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ آہ!
داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے
چمکتا آفتاب کسی ایک کی ملکیت نہیں ہوتا۔ ڈھلتے اور ڈوبتے سورج کا نقصان کسی ایک کا نقصان نہیں ہوتا۔ یہ نفوس قدسیہ پوری قوم کا سرمایہ، پوری کائنات کا اجتماعی اثاثہ اورپوری امت کی پونجی ہوتے ہیں۔ ہم سب لائق تعزیت ہیں کہ یہ نقصان ہم سب کا نقصان اور یہ دکھ ہم سب کا دکھ ہے۔ لیکن نسبی تعلق کی وجہ سے آپ حضرات زیادہ قابل تعزیت ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ رب العزت حضرتؒ کو کروٹ کروٹ سکون وسرور نصیب فرمائے اور آپ اخلاف کو حضرت ؒ کی سچی جانشینی کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین۔
آپ حضرت امام اہل سنت ؒ کے دیرینہ ساتھی اور شاگرد حضرت شیخ الحدیث مولانا عبدالقیوم ہزاروی صاحب مدظلہ العالی، حضرت مہتمم جامعہ مولانا ظہور احمد علوی صاحب مدظلہ العالی، جملہ اساتذہ جامعہ اور تمام طلبہ کرام کی طرف سے تعزیت قبول فرمائیں۔ حضرت ؒ کے خاندان کے خوردوبزرگ کو بھی ہماری طرف سے تعزیت ۔
جان کر من جملہ خاصان میخانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ مجھے
والسلام مع الاکرام ۔ بہ احترامات فراواں
جملہ اساتذہ کرام وطلبہ جامعہ محمدیہ، F-6/4اسلام آباد
( ۶ )
مکرمی ومحترمی مولانا زاہدالراشدی صاحب زادکم اللہ عزاً وشرفاً
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اعصابی تناؤ، درد اور اسہال کے عارضہ میں گھر میں لیٹا ہوا تھا کہ میرے بیٹے حافظ عبدالرحمن سلمہ اللہ نے فون پر اطلاع دی کہ حضرت مولانا شیخ الحدیث صاحب کا انتقال ہو گیا ہے اور عصر کے بعد نماز جنازہ ہے۔ اس خبر نے طبیعت کو مزید بوجھل بنا دیا اور مسلسل ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ پڑھتا رہا۔ حضرت کے انتقال کا صدمہ آپ کا اہل خانہ کا اور احباب ومتو سلین نصرۃ العلوم کاہی نہیں بلکہ تمام اہل توحید کا صدمہ ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ حضرت مرحوم کی دینی وعلمی خدمات کو قبول فرمائے اور بشری کمزوریوں کو اپنے عفو وکرم کی بنا پر معاف فرمائے۔ آپ اور آپ کے علاوہ ہزاروں ان کے تلامذہ یقیناًان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں اور اجرو ثواب میں اور رفع درجات میں اضافے کا باعث ہیں۔ دل چاہتا تھاکہ حضرت مرحوم کے جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل کروں مگر صحت کی خرابی کے سبب اس سے محروم رہا۔ بس یہی دعا ہے کہ ’’اللھم اغفر لہ وارحمہ وارفع درجتہ فی المہدیین والحقہ بالنبیین والصدیقین والشہداء والصالحین۔ آمین یا رب العالمین۔
محترم عمار صاحب کو بھی سلام عرض ہے۔
[مولانا] ارشاد الحق اثری
ادارۂ علوم اثریہ، فیصل آباد
( ۷ )
آج بروز شنبہ علی الصبح ہی آپ کے والد ماجد اور ملک کے مشہور عالم دین رحمۃ اللہ علیہ کے وصال پر ملال کی خبر سن کر بہت ہی ملال ہوا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ دلی دعا ہے کہ رب کریم ان کی قبر کو روضہ جنت بنا کر آپ کو دار قرار کی حقیقی مسرتوں سے نوازیں اور بالخصوص دینی تعلیمات کی برکات کا مشاہدہ کراتے رہیں۔ آمین آمین ویرحم اللہ عبدا قال آمینا
نجم المدارس میں قرآن مجید کے ختمات سے ایصال ثواب کی کوشش کی گئی، والقبول من اللہ الغفور الرحیم۔ آپ سب حضرات سے اپنے لیے حسن خاتمہ اور حفاظت عن المعاصی والمصائب کی دعا کی پرزور درخواست ہے اور یہ کہ نجم المدارس کو بھی اللہ تعالیٰ صالح طلبہ وصالح اساتذہ اور صالح معاونین سے آباد رکھے اور ہم جیسے براے نام خدام کو بھی صالح بنا دے۔ واللہ علی ما یشاء قدیر۔
بھائی قاضی عبد اللطیف صاحب جو کہ عرصہ سے بیمار ہیں اور بھائی قاضی محمد اکرم صٍاحب نیز برخورداران قاضی حافظ عبد الحلیم اور قاضی حافظ محمد نسیم سلمہم سب سلام مسنون اور حضرت مرحوم کے لیے آپ کو پیغام تعزیت عرض کرتے ہیں۔ یغفر اللہ لنا ولکم وہو ارحم الراحمین۔
[مولانا قاضی] عبد الکریم غفرلہ ولوالدیہ
مدرسہ عربیہ نجم المدارس کلاچی
( ۸ )
سیدی وسندی حضرت والد ماجد قاضی عبد الکریم صاحب مدظلہ حضرت الشیخ کے سانحہ وفات سے بے حد متاثر ہیں۔ اس لیے تعزیت نامہ احقر کے سپرد کیا کہ اہتمام کے ساتھ روانہ کر دیا جائے۔ مکرر سہ کرر تعزیت کناں ہوں۔ احقر خود بیمار ہے اور بیماری بھی ایسی کہ سفر دشوار ہو گیا ہے، ورنہ خود حاضری کرتا اور نجم المدارس کلاچی کی نمائندگی ہو جاتی۔
ما کل ما یتمنی المرء یدرکہ
تجری الریاح بما لا تشتہی السفن
کا قصہ ہے۔ بصد مجبوری تحریر پر اکتفا ہے۔
۷۰ء میں جبکہ بندہ دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں شریک دورۂ حدیث شریف تھا، جمعیۃ طلبا کے ایک اجلاس میں حقانیہ سے میں نے نمائندگی کی تھی۔ اسلوب قریشی کا دور تھا۔ سب سے پہلے حضرت کی زیارت اس موقع پر ہوئی تھی۔ حضرت کی نورانی صورت اور تقریر ابھی تک یاد ہے۔ قومی اتحاد کے جلسے جلوسوں کے موقع پر حضرت کی جلوس کی قیادت اور سرخ لکیر سے آگے جاتے ہوئے یہ جملہ کہ ’’میں مسنون عمر پوری کر چکا ہوں‘‘ حضرت کی جرات واستحضار آخرت کا ہم پس ماندگان کے لیے ایک عظیم درس حیات ہے۔ بہرحال حضرت کے سوانح حیات پر آپ تفصیل سے بہت جلد تحریر فرما دیں کہ بہتوں کا بھلا ہوگا۔ میرے جیسا نالائق تو بجز اس رونے کے اور کیا کر سکتا ہے۔ نجم المدارس کلاچی میں تمام اسباق میں حضرت کا ذکر خیر چلتا رہا۔
اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
(مولانا) قاضی عبد الحلیم
خادم التدریس والافتاء، مدرسہ عربیہ نجم المدارس کلاچی
( ۹ )
حضرت والا واقعی علم وتحقیق، تحریر وبیان، حق گوئی وبے باکی، عزم وہمت، جرات واستقلال میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے۔ وہ سرمایہ ملت کے نگہبان اور اپنے اکابر واسلاف کی روایات کے امین تھے۔ انہو ں نے پوری زندگی دین حنیف کی پاسبانی کا صحیح او ر بھرپور فریضہ انجام دیا۔ اللہ تعالیٰ ان کو کروٹوں چین نصیب فرمائے، ان کو اپنے فضل وکرم سے غریق رحمت فرما کر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور آپ سبھی جملہ پس ماندگان ووابستگان کو صبر جمیل واجر جزیل عطا فرمائے۔
[مولانا] شبیر احمد
دارالعلوم زکریا، جنوبی افریقہ
( ۱۰ )
اللہ تعالیٰ آپ کو جملہ خاندان سمیت صبر جمیل اور اجر جزیل عطا فرمائے۔ حضرت والا نور اللہ مرقدہ کو جنت الفردوس میں عالی مقامات عطا فرمائے۔ واقعی صدمہ بہت بڑا ہے اور سب کے لیے ہے۔ سب کے جذبات یہی ہیں۔ ان کا خلا اب کیسے پر ہوگا؟ کریم ہی کرم فرمائیں۔
ان دنوں احقر بھی جنوبی افریقہ کے سفر پر ہے۔ ۱۶؍مئی کو ایسٹ لنڈن شہر میں ( جو جنوبی افریقہ کا خوبصورت ترین شہر ہے اور ساحل سمندر پر واقع ہے) میں نے بعد فجر ساحل سمند رپر ساتھیوں کے ساتھ مجلس ذکر اور نماز اشراق کے بعد میزبان کے گھر آرام کیا۔ اس دوران درج ذیل خواب دیکھا:
مجھے بتایا گیا کہ مرشدی شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب گھرتشریف لانے والے ہیں اور چند روز قیام فرمائیں گے۔ میں بہت خوش ہوا اور اسی غرض سے وضو کرنے کا ارادہ کیا۔ وضو کے لیے جانے لگا کہ حضرت اچانک خدام کی معیت میں تشریف لائے۔ میں ایک طرف سے وضو کے لیے گیا کہ بے وضو ملاقات نہ ہو، اتنے میں دیکھا کہ حضر ت شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدر ؒ بھی کھڑ ے ہیں۔ اور بھی کچھ حضرات ہیں۔ حضرت شیخ ؒ نے حضرت کے والد گرامی کو دیکھا، بہت محبت سے ملاقات کی اور خیر وخیر یت دریافت کر کے آگے ہمارے ہاں تشریف لے گئے۔ اتنے میں آنکھ کھل گئی۔ فرحمہم اللہ رحمۃ واسعۃ۔
(مولانا) محمد عزیزالرحمن
حال مقیم جوہانسبرگ، جنوبی افریقہ
( ۱۱ )
امیر اہل سنت سرفراز ملت حضرت مولانا سرفرا ز خان صفدرؒ کی وفات کی خبر سے انتہائی صدمہ پہنچا۔ بلوچستان کے دینی حلقوں میں رنج وغم کی لہر دوڑ گئی۔ مدارس میں قرآن خوانی اور مساجد میں خصوصی دعائیں ہوئیں۔ تعزیتی اجتماعات میں علما نے ان کی دینی خدمات کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔ وہ ملت اسلامیہ کی متاع تھے ۔ اس دور میں ان کی دینی شخصیت پاکستان کے عوام کے لیے قیمتی اثاثہ تھی۔ اس نفسانفسی کے دور میں تمام اہل علم حضرات ان کا نام ادب واحترام سے لیتے تھے۔ وہ دینی یا دیوبندی سیاسی حلقوں میں غیر متنازعہ تھے۔ دینی مسائل میں سب ان پر اعتماد کرتے تھے۔
میں نے حضرت کا نام پہلی مرتبہ ۱۹۶۷ء میں سنا جب میرے والد صاحب ملک محمد حسین مرحوم نے مولانا سید شمس الدین شہید ؒ کے والد حضرت مولانا محمد زاہد مرحوم سے کہاکہ شمس الدین کو بہتر دینی تعلیم کے لیے گوجرانوالہ مولانا سرفراز خان صفدر صاحب کے مدرسہ میں بھیج دیں۔ والد صاحب نے ایک خط مولانا محمد اکرم مرحوم( اکرم فاؤنڈری) والوں کے نام تحریر کیا جس میں مولانا شمس الدین کے، مولانا محمد سرفراز خان صاحب کے مدرسہ میں داخلے کی درخواست کی تھی۔
میری حضرت سے پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب ۲۰۰۳ء میں، میں حج بیت اللہ کی سعادت کے لیے گیا تھا۔ جدہ ائیرپورٹ پر ہم ٹرمینل میں بسوں کے انتظار میں تھے کہ اتنے میں کراچی کے عالم دین جو بنوری ٹاؤن کے مدرس تھے، ان سے ملاقات ہوئی۔ علیک سلیک کے بعد انہو ں نے بتایا کہ میرے ساتھ مفتی محمد جمیل خان، مولاناسعید احمد جلال پوری بھی تشریف لائے ہیں۔ میں جلدی جلدی حج ٹرمینل سے ائیرپورٹ کی طرف آیاتو حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان ایک وہیل چیئرکو دھکیل رہے تھے۔ میں نے مفتی صاحب کو سلام کیا اور یہ تصور کیا کہ کرسی پر مفتی صاحب کے کوئی بزرگ ہو ں گے۔ مفتی صاحب نے بتایا کہ حضرت مولانا سرفرا ز خان صفدر ہیں تو ہم حیران ہوگئے۔ مفتی جمیل خان صاحب کا جوبت ہمارے ذہنوں میں تھا، وہ پاش پاش ہو گیا کہ ان سے بھی بڑی دینی ہستیاں اور شخصیات موجود ہیں۔ مجھے حضرت کی اعلیٰ شخصیت کا انداز ہ ہو گیا کہ وہ اہل علم میں کتنا مقام رکھتے ہیں۔ منیٰ میں ہمارے خیمے مفتی محمد جمیل صاحب کے حج گروپ کے قریب ہی تھے۔ مانسہرہ کے کچھ ساتھی حضرت مولانا سرفراز خان صفدر ؒ سے ملاقات کے لیے جا رہے تھے۔ میں بھی ہمراہ ہو گیا۔ علما ان کے اردگرد بیٹھے تھے اور علمی باتیں ہو رہی تھیں۔ ہم نے حضرت سے مصافحہ کیا اور اد ب سے بیٹھ گئے اور جب رخصت ہونے لگے تو دعا کی درخواست کی۔ حضرت نے مجھے دیکھا اور فرمایا، نماز جماعت سے ادا کیا کرو اور ختم نبوت کا کام نہ چھوڑنا۔ میں گم سم ہو گیا۔ اس کے بعد اب کوشش ہوتی تھی کہ نماز باجماعت ادا کروں۔ ان دنوں بائی پاس کی وجہ سے بیٹھ کر نماز ادا کرتا ہوں۔ حضرت کا چہرہ اور فرمان میرے سامنے آ جاتا ہے اور سوچتا ہوں کہ حضرت کو میری کمزوری کا علم کیسے ہوا۔ مولانا عبدالقادر ڈیروی فرماتے ہیں کہ حضرت صاحب کشف تھے۔
یہ صرف آپ کا غم نہیں بلکہ پوری امت اسلامیہ کے لیے سانحہ ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات بلند کرے ۔ ہمیں ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
فیاض حسن سجاد
ہفت روزہ اخبار جہاں کراچی
(۱۲)
اس میں شک نہیں کہ آپ کے والد محترم ایک عظیم انسان تھے جنہوں نے علمی میدان میں، تصنیف وتالیف میں، ردباطل میں، حق بات کہنے اورلکھنے میں، اہل سنت دیوبند کے فرائض ترجمانی انجام دینے میں، باطل عقائد ونظریات کے حامل افراد وجماعت کے تعاقب میں، اور تدریسی خدمات سرانجام دینے میں وہ کارنامے انجام دیے جو رہتی دنیا اور نئی نسل کے لیے یقیناًمشعل راہ اورقابل تقلید نمونے ہیں۔ ایسی عظیم ہستیاں صدیوں میں پیدا ہوا کرتی ہیں۔ یہ بھی عجیب اور محیرالعقول بات ہے کہ راقم الحروف نے آخری ملاقات میں دیکھا کہ حضرت ؒ کے حواس بالکل صحیح وسالم ہیں۔ پلنگ پر لیٹے لیٹے ایسے ایسے علمی نکات اور اعتراضات فرما رہے تھے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت ؒ کو اعلیٰ علیین میں جگہ دے، متعلقین ومنتسبین کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین ثم آمین۔
مولانا محمد صدیق اراکانی
مدیر ماہنامہ حق نوائے احتشام کراچی
(۱۳)
دعاہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کے تمام گناہوں، خطاؤں اور کوتاہیوں سے درگزر فرمائے، تمام بھلائیوں، نیکیوں اور حسنات کو خوب بڑھا چڑھا کر قبول فرمائے، خاص اپنے سایہ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کی قبر کو جنت کے باغوں میں تبدیل فرما دے۔ آمین۔
سچی بات تو یہ ہے کہ والدین کا کوئی بدل نہیں ہے۔ ان کا وجود ایک گھنے سایہ دار درخت کی مانند ہوتا ہے جس کے سایے تلے انسان اپنی ساری عمر گزار دیتا ہے اور اسے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وقت کیسے گزرگیا۔ لہٰذا اس نعمت سے محرومی بڑی محرومی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس طرح ایک ڈوبتا ہوا انسان مدد کے لیے پکارتا ہے اور تنکا بھی اس کا سہارا بن جاتا ہے، بعینہ اس طرح اس دنیا سے رخصت ہوجانے والا بھی مددکا طالب ہوتاہے اور دعاے مغفرت اس کا سہارا بن جاتی ہے۔ پس اب ساری عمر انہیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ یہ ان کا حق ہے اور آپ کا فرض۔ یوں بھی والدین کے لیے دعاے مغفرت اولاد کے لیے مفید ہے۔ ان کی خدمت اور اطاعت میں جو کمی، کسر رہ گئی ہو، اس طرح اس کا مداوا ہو جا تا ہے۔
حضرت مولانا نے دین کی ترویج واشاعت میں جو خدمات ایک طویل عرصہ انجام دی ہیں، لاکھوں افراد اس کے گواہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مساعی جلیلہ کو قبول فرمائے اور ہم سب کو بھی بیش از بیش کی توفیق مرحمت فرمائے۔
سید منور حسن
امیر جماعت اسلامی پاکستان
( ۱۴ )
آپ کے والدِ محترم کے انتقال کی افسوسناک اطلاع موصول ہوئی ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ میری دعا ہے کہ اللہ رب العزت آپ کے والد کی نیکیوں کو شرف قبولیت بخشے، سیئات سے در گزر فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین
اس فانی دنیا میں رشتوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور ان میں باپ کی شفقت و محبت کا کوئی نعم البدل ملنا محال ہے۔ باپ اولاد کے لیے شجر سایہ دار ہوتا ہے اور اس کے جدا ہو جانے سے اس سایہ سے محرومی ہوجاتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی رہنا تو ہمارے ایمان کا تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے آگے انسان بے بس ہے اور اہلِ ایمان تو ہر حال میں راضی برضا رہتے ہیں۔ میری طرف سے تعزیت کے جذبات تمام گھر والوں کو پہنچا دیجیے۔ اللہ آپ کو اور دیگر اہلِ خانہ کو صبر جمیل اور اجر جزیل سے نوازے۔ آمین۔
لیاقت بلوچ
قیم جماعت اسلامی، پاکستان
(۱۵)
عظیم الشان علمی شخصیت کا اس دنیا سے اٹھ جانا یقیناًموت العالِم موت العالَم کے مصداق سبھی حلقوں اور طبقات کے لیے بڑے المیہ سے کم نہیں۔ انہوں نے تو اپنی پوری زندگی تدریس و تعلیم اور نشر و فروغِ اسلام میں کھپادی۔ انہوں نے نورانی کرنوں کو ہر سو بکھیرا اور بہت سے چراغ روشن کیے۔ اللہ تعالیٰ ان کی عظیم خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازیں، ان کے درجات بلند فرمائیں، انہیں اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائیں اور آپ کی شکل میں ان کے صدقہ جاریہ کو تادیر جاری و ساری رکھیں۔ علم و فضل کی شمعیں فروزاں رہیں اور امتِ مسلمہ آپ کی راستی فکر سے مستفید ہوتی رہے۔ ان لمحاتِ اَلم میں تعزیتی کلمات کو قبول فرمائیے اور بے خبری پر عرقِ ندامت بھی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صبر جمیل سے نوازیں اور مرحوم و مغفور پر ان کی سدا بہار رحمتیں سایہ فگن رہیں۔ آمین۔
ڈاکٹر زاہد اشرف
مدیر ماہنامہ المنبر فیصل آباد
(۱۶)
حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر ؒ ہمارے اسلاف کی گرا نقدر دینی وعلمی نشانی تھے۔ وہ علم وفضل کے آفتاب وماہتاب کی مانند مطلع پر جلوہ افروز رہے۔ اہل حق کی صحیح ترجما نی کا حق جس انداز میں انہوں نے ادا کیا ہے، وہ مسند خالی ہوگئی ہے۔ اب تو دور دور تک تاریکی ہی تاریکی نظر آرہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں جن اعلیٰ وارفع صلاحیتوں سے نوازا تھا، اس سطح کی دینی وعلمی اور محقق شخصیت نظر نہیں آ رہی۔ مادی اندھیرا توکسی متبادل سے دور کیا جا سکتا ہے مگر یہ باطنی تاریکی دور کرکے انسانوں کا دل ودماغ منور کرنے والے مراکز انوار وبرکات ختم ہو رہے ہیں۔ خانقاہیں اجڑ گئی ہیں، علمی وتحقیقی چشمے خشک ہوگئے ہیں اور تعلیم وتربیت گاہیں بانجھ ہو گئی ہیں۔ دور تک کوئی جگنو ہے نہ ستارہ روشن۔ ایسا گھٹاٹوپ اندھیرا ہے کہ ڈر لگتاہے والی حالت اور کیفیت پیدا ہے۔ اب تو اس صدمے کی صحیح نقشہ کشی کے لیے الفاظ بھی ختم ہیں۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
اللہ تعالیٰ حضرت مولانا محمد سرفراز خاں صفدرؒ کو اپنے خاص جوار رحمت میں مقام علیین پر سرفراز کرے اور آپ سب اہل خانہ کو صبرواستقامت کی توفیق کے ساتھ ان کے نقش قدم پر چلنے والا اور اعتدال وتوازن کے ساتھ زندگی کے مراحل طے کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین۔
مولانا مجاہد الحسینی
فیصل آباد
(۱۷)
شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا سرفرازخان صفدرؒ کی وفات کی وحشت انگیز اور المناک خبر سن کر نہایت ہی صدمہ اور افسوس ہوا۔ ان کی وفات پورے ملک کے لیے ایک زبردست سانحہ اور بہت بڑے حادثہ سے کم نہیں ہے۔ مرحوم بیک وقت بہت بڑے محدث، مفسر، مفکر، مصنف، مولف ، مناظر، صاحب نسبت بزرگ ، ادیب ،خطیب ، دلوں کے طبیب تھے۔ آپ علم وفضل اور زہد وتقویٰ کے پیکرا ور اتحاد امت کے علمبردار تھے۔ آپ کی شخصیت ہمہ گیر تھی۔ آپ کی وفات سے ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جس کا بظاہر صدیوں تک پورا ہونا مشکل ہے۔
آپ کے والد صاحب مرحوم اس اعتبار سے خوش قسمت ہیں کہ وہ اپنے پیچھے آپ جیسی نیک وصالح اولاد چھوڑ کر گئے ہیں جوبیک وقت عالم وفاضل بھی ہیں اور شیخ الحدیث بھی، جن کے قلم سے بیسیوں کتابیں نکل کر خراج تحسین وصول کر چکی ہیں، جن کو بین الاقوامی حالات پر مکمل پر عبور حاصل ہے اوراسی تناظر میں اخبارات اور رسائل میں آپ کے مضامین شائع ہوتے ہیں۔ آپ کے دیگر بھائی اور بہنیں بھی جود ینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، وہ ان کے لیے مستقل صدقہ جاریہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کو جنت الفردوس کا اعلیٰ مقام نصیب فرمائے اور تمام افراد خانہ کواس عظیم حادثہ کو برداشت کرنے کاعزم اور حوصلہ عطافرمائے۔
حافظ مسعود قاسم قاسمی
مہتمم جامعہ قاسم العلوم فقیر والی
(۱۸)
حضرت امام اہل سنت نوراللہ مرقدہ کے سانحہ ارتحال کی خبرسنی تو دل مسوس کر رہ گیااور زبان پر کلمہ استرجاع جاری ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان للہ ما اخذ ولہ ما اعطی وکل شئ عندہ باجل مسمّٰی۔ بروقت اطلاع ملنے کے باوجود بعض عوارض کی وجہ سے نماز جنازہ میں شرکت کی سعادت سے محروم رہا جس کا ہمیشہ قلق رہے گا۔ تاہم ہنگامی طور پر مسجد ومدرسہ میں تعزیتی ودعائیہ تقریب کا ضرور اہتمام کیا گیا۔
میں خود کو ہمیشہ حضرت کا ایک ادنیٰ عقیدت مند سمجھتا رہا ہوں جس کا آغاز زمانہ طالب علمی سے ہی ہوگیا تھا۔ ان کی گراں قدر تالیفات سے نہ صرف یہ کہ استفادہ کرتا رہا بلکہ ان کے ذریعے اہل باطل سے گاہے بگاہے ’’مجادلہ‘‘ بھی ہو تا رہا۔ ایک خاموش قاری اور ادنیٰ عقیدت مند کی حیثیت سے حضرتؒ کے بارے میں میرا تاثر یہ ہے کہ موصوف صحیحین کی اس حدیث کے کامل مصداق تھے جس میں صلحائے امت کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’ھم قوم لا یشقی جلیسہم ولا یخاب انیسہم‘‘،جب کہ ان کی سیرت وکردار اور تصنیفات وتالیفات کے حوالہ سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہماری جامعات بالخصوص ہزارہ یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی لاہور اس عنوان کو ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالات میں شامل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیں۔
۱۹۱۴ء میں ضلع مانسہرہ کے ایک غیرمعروف گاؤں’’ ڈھکی چیڑاں‘‘ سے سفر زیست کا آغاز کرنے والے کے متعلق کون تصور کر سکتا تھا کہ و ہ اپنے علم وعمل کی بدولت اتنا بلند مقام حاصل کرلے گا کہ ۵؍مئی ۲۰۰۹ء کو ایک دوسرے دورافتادہ مقام ’’گکھڑ‘‘ میں اسے الوداع کہنے کے لیے ملک بھر سے ہزاروں علما وصلحا جمع ہو جائیں گے؟
میرا مولانا محمد منظور نعمانیؒ کے ساتھ بھی بڑا گہرا فکری تعلق رہا ہے۔ یہ دونوں حضرات ایک ہی نظریہ ومشن سے وابستہ تھے۔ ایک ہی مادر علمی کے فیض یافتہ تھے۔ دونوں کامقصد زیست بھی ایک ہی یعنی اعلاے کلمۃ اللہ، غلبہ اسلام، نشر کتاب وسنت اور ردفرق باطلہ تھا۔ عمر میں اگرچہ حضرت نعمانیؒ ( ۱۹۰۵۔۱۹۹۷ء) نوسال بڑے تھے مگرکام کی مقدار کے اعتبار سے حضرت شیخ سبقت لے گئے تھے، مگریہ عجیب اتفاق ہے کہ دونوں حضرات ایک ہی تاریخ میںیعنی ۴۔۵؍مئی کی درمیانی شب میں داغ مفارقت دے گئے۔
حضرت ؒ کا داعی اجل کو لبیک کہنا ہم سب کے لیے ایک اجتماعی، ملی اور عظیم دینی صدمہ ہے مگر خود ان کے حق میں ایسی ترقی، ایسی رفعت وبلندی اور ایسی نعمت ہے کہ اگر اس دنیا میں اس کا مشاہدہ ہو جائے تو اس کے اشتیاق میں ایک ایک لمحہ کاٹنا مشکل ہو جائے اوریہاں جینے کی آرزو باقی نہ رہے۔ حضرت کے انتقال سے نہ صر ف پاکستان بلکہ عالم اسلام ایک حق گو اور عالم باعمل سے محروم ہوگیا ہے ۔ جو جانتے نہیں، انہیں تو بتانا کیا! اور جو نہیں جانتے، انہیں کیسے بتایا اور باورکرایا جائے کہ اس ایک ذات سے محروم ہوکر ہم کس نعمت سے محروم ہوگئے ہیں۔
آہ! وہ سلف صالحین کی چلتی پھرتی یادگار، وہ مجسمہ زہدو ایثار ، وہ پیکر تقدس اور وہ کوہ استقامت اب ہم کہاں دیکھ پائیں گے جسے دیکھ کر ایمان کے بجھے ہوئے ذرات میں چمک اور تازگی پیدا ہوتی تھی، جس کا قرب پا کر دلوں میں ذوق عمل اور تعلق باللہ کی امنگ بیدار ہو جاتی تھی، جس نے اس دور انحطاط میں ہر طرح کے مواقع کے باوجود زہد وایثار ہی کو اپنی اصلی دولت سمجھا، جس نے گوشہ خلوت میں بیٹھ کر نہیں بلکہ کارزار حیات کے ان میدانوں میں رہ کر اپنے دامن تقدس کو بے داغ رکھا۔
اس موقع پر بدوی کا ایک شعر پیش خدمت ہے جس سے زیادہ حضرت عبداللہ بن عباس کو کسی کی تعزیت نے تسلی نہیں دی تھی۔
خیر من العباس اجرک بعدہ
واللہ خیر منک للعباس
باری تعالیٰ حضرت ؒ کی مساعی جمیلہ کو شرف قبول بخشے، انہیں اپنی رحمت ومغفرت ورضوان سے نوازے اور جنت الفردوس نصیب فرمائے اور آپ کو مع جملہ متعلقین کو اجر جزیل اورصبر جمیل عطافرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
قاضی محمد طاہر علی الہاشمی
مرکزی جامع مسجد حویلیاں، ہزارہ
(۱۹)
نہایت حزن وملال کے ساتھ یہ خبر سنی گئی کہ آپ کے والد گرامی ممتاز عالم دین مولانا سرفراز خان صفدر رحلت فرما گئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی دینی، دعوتی، تعلیمی ، تدریسی اور علمی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور بشری لغزشوں کو معاف کر دے۔ آپ سمیت تمام لواحقین اور متعلقین کو صبر جمیل سے نوازے۔ آمین۔
[مولانا] محمد یاسین ظفر
پرنسپل جامعہ سلفیہ، فیصل آباد
(۲۰)
مولانا سرفرازخان صفدر ؒ کا انتقال عالم اسلام کے لیے عموماً اور پاکستان اور دائرۂ علم وادب کے لیے خصوصاً بہت بڑا سانحہ ہے۔ یقیناًیہ ایک فرد اور ایک شخص کی موت نہیں ہے۔ یہ ایک عالم اور جہان کی موت ہے۔ اس غم میں عالمی رابطہ ادب اسلامی آپ کے ساتھ برابر کا شریک ہے۔ اس حوالے سے شعبے میں ایک تعزیتی اجلاس بھی منعقد ہوا جس کی روداد اخبارات میں چھپ چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اعلیٰ علیین میں جگہ نصیب کرے اور آپ کو اور خاندان کے تمام لوگوں کو صبرجمیل عطا فرمائے۔ آمین۔
ڈاکٹر محمود الحسن عارف
نائب صدر عالمی رابطہ ادب اسلامی پاکستان
(۲۱)
مرحوم سب کے لیے اسلاف کی ایک نشانی تھے۔ ان کی وفات سے ایک بہت بڑا علمی خلا پیدا ہو گیا ہے۔ اللہ مرحوم کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے نسبی اور تعلیمی پسماندگان کوصبر جمیل عطا فرماوے۔ آمین۔ مجھے امیدہے کہ آپ کی علمی اور فکری سرگرمیوں کی وجہ سے مرحوم کے ساتھ لگاؤ رکھنے والے لاکھوں اہل علم کی ڈھارس بندھی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ آپ اور ہم سب کا حامی وناصر ہو۔ آمین۔
ڈاکٹر قبلہ ایاز
چیئرمین شعبہ مطالعات سیرت
شیخ زاید اسلامک سنٹر، پشاور
(۲۲)
اللہ رب العزت خالق کائنات ہیں اور اس دارفانی میں خالق کائنات کا نظام ہے کہ روزانہ ہزاروں افراد آتے ہیں اور ہزاروں افرادکوچ کر جاتے ہیں کیوں کہ حکم ربانی ہے: ’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ اور اس دار فانی میں کچھ چیزوں کا مثل مل جاتا ہے، مگر کچھ چیزیں ایسی گوہر نایاب ہوتی ہیں کہ ان کا مثل ملنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی انسانوں میں کچھ افراد کا مثل تو مل جاتاہے اورکچھ گوہر ہوتے ہیں جن کا مثل صدیوں میں کہیں پیدا ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’انما الناس کالابل الماءۃ لا تکاد تجد فیہا راحلۃ‘‘۔ آپ نے جو تشبیہ دی ہے، وہ بالکل ٹھیک ہے، اس لیے کہ لوگ تو بہت ہوتے ہیں مگر ایسے لوگ کم ہوتے ہیں جن کا تعلق علما کے طبقہ سے ہے۔ پھر ان علما میں بھی جو گوہر نایاب ہوتے ہیں، جن کی لوگ اقتدا کرتے ہیں، جو باطل قوتوں کے لیے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوتے ہیں، ایسے افراد جو صدیوں میں پائے جاتے ہیں، اگر وہ ہمارے درمیان سے کوچ کر جائیں تو کہنا پڑتا ہے کہ موت العالم موت العالم۔ کیوں کہ علم کا انتزاع علما ہی کی صورت میں ہوتا ہے۔ انہی گوہر نایاب میں ایک شخصیت امام اہل سنت ، قاطع شرک وبدعت، شیخ الحدیث حضرت مولانا سرفراز خان صفدر ؒ کی تھی جو کہ تمام علما کے لیے اپنے وقت کے شمس الائمہ کی حیثیت رکھتے تھے، جنہوں نے پوری زندگی قرآن وحدیث کے لیے وقف کر ر کھی تھی، جنہوں نے شرک وبدعت کی جڑیں کاٹ کر رکھ دیں اور آپ کی شخصیت ہمیشہ باطل فرقوں کے خلاف مذہب احناف کی سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئی۔
آج کل کے دور میں علمی شخصیت خصوصاً حضرت جیسی شخصیت کا مثل ملنا بہت ہی مشکل ہے۔ درحقیقت آپ کے جو علمی کارنامے ہیں، وہ ہمارے سامنے ہمیشہ آب وتاب کے ساتھ چمکتے اور دمکتے رہیں گے۔ ہم افسوس کا اظہار تو کر سکتے ہیں، مگر افسوس کے علاوہ اورکچھ نہیں کیونکہ آپ کے چلے جانے سے جو خلا آگیا ہے، وہ تاقیامت شاید پورا نہ ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات بلند کرے اور جنت الفردو س میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور آپ کو اور ان کے تمام جسمانی اور روحانی لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین۔
حضرت کی شخصیت پر چند اشعار ذہن میں آئے ہیں، جو درج ذیل ہیں:
وکنت سراج القوم بل نجم افقہم
وبدرھم بل شمسہم حین تطفل
حسام لجمع المسلمین وسہمہم
وسم زعاف للاعادی مثمل
وکنت لنا بحرا وکنز دقائق
وغایۃ تحقیق اذا الامر یعضل
ومشکاۃ مصباح ومصباحہا الذی
اضاء لنا دھرا اذا اللیل الیل
سید نجم الحسن امروہوی
جامعہ دارالعلوم یاسین القرآن، کراچی
(۲۳)
پہلے مولانا خبیب احمد مرحوم کا اچانک سانحہ پیش آیا جن کے جنازہ میں یہ ناکارہ بھی شریک تھا۔ یہ بہت غم ناک واقعہ تھا جس میں آپ کے صدمہ کے ساتھ ہم جہلم کے لوگ بھی بہت متاثر ہوئے اور گہرے صدمہ سے دوچار ہوئے، کیونکہ ان کے وجود سے اپنے ملک میں کام کرنے کے لیے ہمیں بہت سہارا اور تعاون حاصل تھا۔ ہم لوگ اپنے علاقہ میں تنہا ہو کر رہ گئے ہیں۔ اور اس واقعہ کے فوراً بعد ہمارے اکابرین کا آخری سایہ بھی ہم سے اٹھ گیا جن کی جدائی ہمارے لیے ایک قسم کی جانکاہ اور جان لیوا ثابت ہوئی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ظاہر ہے آپ کو اپنے والد ماجد نور اللہ مرقدہ کی جدائی کا جو صدمہ پہنچا ہوگا، وہ ناقابل بیان ہی تصور ہوگا۔ اللہ پاک کے حضور میں ہم حضرت نور اللہ مرقدہ کی مغفرت اور بلندئ درجات کے لیے دعا ہی کر سکتے ہیں۔ اس کے سوا ہم پس ماندگان کر تو کچھ نہیں سکتے۔ اس ناکارہ کی دل کی گہرائی سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت حضرت مولانا سرفراز خان کو جنت الفردوس میں مقام عالی عطا فرماویں اور آپ کو اپنے والد ماجد مرحوم کی جانشینی کا اعلیٰ استحقاق نصیب فرماویں اور یہ سلسلہ رشد وہدایت ودعوت مع عزیمت رہتی دنیا تک آپ کے خاندان میں جاری وساری رہے، آمین ثم آمین۔
بندہ محمد حسین
ڈیوز بری۔ یوکے
(۲۴)
جامع المعقول والمنقول حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر صاحب رحمہ اللہ کی رحلت کی خبر پر بہت صدمہ ہوا ہے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ اس کٹھن دور میں ایسے بزرگوں کی جدائی ایک عظیم سانحہ سے کم نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ سانحہ صبر واستقامت کے ساتھ برداشت کرنے کی توفیق ارزانی فرمائے۔ آمین۔ یوں تو حضرت شیخ رحمہ اللہ علما وطلبا کی ایک بڑی جماعت کے روحانی باپ ہیں، لیکن نسبی والد کا مقام ومرتبہ وضاحت کا محتاج نہیں۔ ان کی جدائی زندگی میں مشکلات ضرور پیدا کر دیتی ہے، تاہم صبر کے سوا چارہ نہیں ہے۔ صدر انجمن انجینئر مختار فاروقی، ماہنامہ حکمت بالغہ اور قرآن اکیڈمی جھنگ کے تمام اراکین اس غم میں آپ کے برابر کے شریک ہیں۔
مفتی عطاء الرحمن
قرآن اکیڈمی جھنگ
(۲۵)
آپ کے والد صاحبؒ کی خبر ہمارے حلقہ میں، خاص کر مہاجرین کے علاقہ میں آگ کی طرح پھیل گئی اور جمعیۃ اور معہد الفاروق الاسلامی کاکسی بازار میں قرآن خوانی اور دعائیں کرائی گئیں۔ آپ کی وفات ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اللہ تعالیٰ مولانا محمد سرفراز صاحبؒ کی مغفرت فرما کر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ ان کے پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق نصیب ہو اور ان کی وفات سے پیدا ہونے والے خلا کو پر فرمائے۔
الشیخ نور محمد عباس (نائب امیر مرکزی )
جمعیۃ خالد بن ولید الخیریہ، کاکسی بازار۔ بنگلہ دیش
(۲۶)
شیخ الحدیث علامہ مولانا جناب سرفراز خان صفدر ؒ کے انتقال کی خبر نہ صرف ہمارے لیے بلکہ پورے عالم اسلام کے لیے ایک غم عظیم کا باعث تھی۔ مرحوم نے اپنی پوری زندگی اسلام کی بقا، دین مبین کے احیا اور امت مسلمہ کی سرفرازی کے لیے وقف کررکھی تھی۔ آپ کا طرزبیان، انداز فکر، دل نشین گفتاراور سادگی طبع بلاشبہ فی زمانہ اپنی مثال آپ تھی۔ عالم اسلام کی ابتر حالت پر آپ کی تڑپ اوررنجیدگی نفس، مرحوم کی تقریر وتحریر سے بالکل عیاں تھی۔ ایسے عظیم انفاس کے نقوش کے لیے بے شک انسانیت کو ایک عرصہ طویل انتظار کی زحمت برداشت کرنا پڑتی ہے۔ اگرچہ دنیوی سامان عیش وتعیش آپ کے قدموں میں تھے، مگر مرحوم نے ان کو دھتکارتے اور خاطر میں نہ لاتے ہوئے فروغ علوم قرآن وحدیث کو اپنی حیات وآخرت کا اثاثہ جانا اور اسی مشغلہ صالح میں تمام عمر مشغول رہے۔ اللہ پاک مرحوم کے کار خیر کا اجر عظیم عطا فرمائیں اور ان کی نیک اور عظیم کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطافرمائیں۔ آمین۔ تحریک منہاج القرآن کے جملہ اراکین، رفقا اور وابستگان اس غم میں آپ کے ساتھ شریک ہیں اور دعاگوہیں کہ اللہ پاک آپ کو صبر جمیل عطافرمائیں اور آپ کو مرحوم کااچھا نعم البدل ثابت ہونے کی توفیق عطافرمائیں۔ آمین۔
عمران علی ایڈووکیٹ (ضلعی امیر)
محمد سرفراز حسین نیازی (ضلع ناظم)
تحریک منہاج القرآن ضلع گوجرانوالہ
(۲۷)
میں نے مرحوم کی کبھی زیارت نہیں کی۔ ان کی تصویر بھی آج پہلی بار اخبارات میں دیکھی ہے، لیکن مرحوم کا جب بھی ذکر آیا، اس پر محبت اور احترام کا جذبہ غالب تھا۔ میں ایک گناہگار شخص ہوں، لیکن اللہ تعالیٰ کی ایک مہربانی مجھ پر یہ بھی ہے کہ وہ اپنے نیک بندوں کی محبت میرے دل میں رکھ دیتا ہے۔ میں مرحوم کی مغفرت کے لیے دعا گو ہوں۔ اب انہیں جو سفر درپیش ہے، اس میں اللہ تعالیٰ آسانیاں فرمائیں۔ آپ کو اور آپ کے خاندان کویہ صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کے والد گرامی مرحوم آپ پر بہت خوش ہوں گے۔ ان کی خوشی آپ کے لیے دعا کا درجہ رکھتی ہے۔ ان کی دعاؤں کے سایے میں آپ ترقی وکامرانی کے منازل طے کریں گے ۔ ان شاء اللہ
جاوید اختر بھٹی
ریلوے روڈ ملتان
(۲۸)
’’آپ کے والد جناب مولانا سرفرازخان صفدرؒ کی وفات کی خبر ملی۔ اس خبر سے مجھے انتہائی دکھ اور صدمہ ہوا ہے۔ اذیت اور اندوہ کے ان لمحات میں میری ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہیں۔ میری دعا ہے کہ مرحوم کو جنت میں بلند درجہ اور اعلی مقام عطا فرمائے۔ آمین۔ میری دعا ہے کہ آپ کو اور آ پ کے سوگوار خاندان کے سارے غمزدہ افراد کو حوصلہ کے ساتھ یہ صدمہ برداشت کرنے کے لیے صبر اور ہمت عطا فرمائے۔ آمین۔ ‘‘
ضیا کھوکھر
میڈیا کنسلٹنٹ، پرائم منسٹر سیکرٹریٹ، اسلام آباد
(۲۹)
مجھے حضرت ؒ کی زیارت کبھی نصیب نہیں ہوئی، مگر ان کے علم وفضل اور ا ن کے زہدوتقویٰ کی بابت بہت سنتا رہا ہوں، چنانچہ ان کی نماز جنازہ میں لاکھوں عقیدت مندوں کی شرکت بلاسبب نہیں تھی۔ مجھے اپنی اس محرومی پر ہمیشہ ملال رہے گا۔ تاہم آپ کے لیے یہ صدمہ ذاتی نوعیت کا ہی ہے۔ ہم سب ایک بہت بڑے عالم دین سے محروم ہوگئے ہیں، جب کہ آپ کے لیے یہ صدمہ دہرا ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت ؒ کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور آپ کو اور دوسرے اہل خانہ کو ان کی جدائی کا صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
عطا ء الحق قاسمی
کالم نگار روزنامہ جنگ لاہور
(۳۰)
مولانا محمد سرفراز خان صفدر دار فانی سے دار البقاء کی طرف رخصت ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ حضرت کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور آپ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
حضرت مولانا دور حاضر میں اسلاف کی ایک نشانی تھے۔ ان سے جو خیر پھیلا، اس کا ایک زمانہ گواہ ہے۔ انھوں نے دین کی جس طرح خدمت کی، اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ہاں محفوظ ہو گیا۔ ازروے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ’’انسان کی موت کے بعد سارے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں، سوائے تین کاموں کے ، یعنی صدقہ جاریہ، علم نافع، اولاد صالح۔‘‘ دو کام تو حضرت نے بھی ایسے کیے جو تا قیام قیامت ان کے نامہ اعمال میں خیر کے اضافے کا سبب بنتے رہیں گے۔ ایک علم دین جو ان کے ذریعے عام ہوا جس کا ثبوت سینکڑوں بلکہ ہزاروں طلبا ہیں جو دنیا کے کونے کونے میں پائے جاتے ہیں، اور دوسری اولاد صالح جس میں آپ جیسے پایے کے علماے کرام اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے موجود ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ صدقہ جاریہ کے خاص مفہوم میں بھی ان کی خدما ت ہوں گی۔
مجھے اگرچہ براہ راست ان سے استفادہ کا موقع نہیں ملا، تاہم دو ایسے واقعات کا حضرت کے حوالے سے تذکرہ کروں گا جنھوں نے مجھے بہت متاثر کیا اور وہ حضرت کی ناقابل فراموش شخصیت کے گہرے نقوش میرے دل ودماغ پر چھوڑ گئے۔
ایک واقعہ کا تعلق آپ کی شاہکار تالیف ’’راہ سنت‘‘ سے ہے جس نے مجھے بہت متاثر کیا بلکہ میر ی کایا پلٹ دی۔ واقعہ اس طرح ہے کہ میں پانچویں جماعت کاطالب علم تھا اور اس وقت آزاد کشمیر کے ایک دور دراز گاؤں میں رہتا تھا۔ ہمارے قریب ہی ایک جامع مسجد تھی جس میں سنت وبدعت کے حوالے سے بحث چل پڑی۔ اس میں اتنی شدت آئی کہ معاملہ نزاع تک پہنچ گیا، جیسا کہ اس طرح کے مباحث میں بالعموم ہوتا ہے۔ میں کم عمر ہونے کے باوجود اس سے بہت متاثر بلکہ پریشان ہوا۔ انھی دنوں مجھے جستجو ہوئی کہ یہ جانوں کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسی صورت پیدا فرما دی کہ مجھے حضرت مولانا کی تالیف ’’راہ سنت‘‘ کہیں سے مل گئی۔ میں نے کم سنی اور کم علمی کے باوجود اس کا مطالعہ کیا تو مجھے بہت فائدہ ہوا اور سنت وبدعت کا فرق بھی سمجھ میں آ گیا اور سب سے بڑی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس تالیف کے سبب سنت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائی اور بدعت سے حتی الوسع اجتناب کا داعیہ پیدا کر دیا۔ اس موضوع پر بعد میں مزید کتب پڑھنے کا اتفاق ہوا، لیکن جو اثرات حضرت مولانا کی بے مثال تالیف کے مطالعہ سے دل ودماغ پر مرتب ہوئے، وہ آج بھی برقرار ہیں۔
دوسرا واقعہ آج سے تقریباً پندرہ سال پہلے کا ہے۔ اس وقت اخبارات کے ذریعہ معلوم ہوا کہ حضرت مولانا نے مسلک دیوبند سے متعلق علما کے مختلف دھڑوں کو متحد ویکجا کرنے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب نہ ہو سکے اور اس کا اعتراف انھوں نے کسی اخبار نویس کے استفسار پر کیا۔ پیرانہ سالی میں انھوں نے سفر اختیار کیا اور مفتی محمود مرحوم ومغفور اور مولانا عبد الحق مرحوم ومغفور کے جانشینوں سے ملاقاتیں کیں۔ ہم تصور کر سکتے ہیں کہ حضرت نے کس طرح ان حضرات کو سمجھایا ہوگا اور کیا امیدیں لے کر وہ ان کے پاس گئے ہوں گے اور پھر جب ان کی یہ کوشش بارآور ثابت نہ ہوئی تو ان پر کیا بیتی ہوگی!!آپ کی اس بے لوث کوشش اور عالی ظرفی کے ناقابل فراموش اثرات قلب وجگر میں ایسے نقش ہوئے کہ آج بھی ان کی تازگی محسوس ہوتی ہے۔
اس واقعہ کے نقل کرنے میں پیش نظر جہاں حضرت کی شخصی عظمت کو اجاگر کرنا ہے، وہاں پر یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ اگر ان کی تشنہ تکمیل خواہش پر عمل کرتے ہوئے اب بھی مسلک دیوبند کے سارے دھڑے متحد ہو کر اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے کوشاں ہو جائیں تو حضرت کی روح کو یک گونہ تسکین حاصل ہوگی اور شاید کہ ملت اسلامیہ پاکستان اپنی منزل (نفاذ اسلام) کے حصول میں کامیاب ہو جائے۔ وما ذلک علی اللہ بعزیز۔
ضمیر اختر خان (ونگ کمانڈر)
شعبہ مذہبی امور، ایئر ہیڈکوارٹرز پشاور
(۳۱)
حضرت مولانا محمد سرفراز خان صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات حسرت آیات پر جامعہ قاسم العلوم گلگشت ملتان میں تعزیتی اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں تمام اساتذہ کرام نے شرکت کی۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد اکبر خان صاحب نے مولانا کی زندگی کے مختلف کامیاب گوشے ذکر کیے اور طلبہ کو تلقین کی کہ ایسے گراں مایہ بزرگوں کے نقش قدم پر چل کر دارین کی سعادت حاصل کریں۔ دار التحفیظ میں قاری غلام یاسین صاحب کی زیر سرپرستی ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی ہوئی۔ بعد ازاں مدیر جامعہ جو مولانا سرفراز خان صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے ایک سال بحری جہاز میں سفر حج کے بھی رفیق تھے، انھوں نے مولانا مرحوم کی مغفرت اور بلندئ درجات کی دعا کرائی۔
اللہ تعالیٰ حضرت مولانا مرحوم ومغفور کی تمام دعائیں آپ کے حق میں اور آپ کی زیر نگرانی مختلف ادارے جو دینی خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کے لیے قبول فرمائے۔ ہم ہمیشہ آپ کی کامرانیوں اور کامیابیوں کے لیے دعاگو رہیں گے۔
مولانا محمد یاسین (مدیر)
مولانا محمد اکبر (شیخ الحدیث)
جامعہ قاسم العلوم ملتان
(۳۲)
آپ کی ساری زندگی توحید ورسالت اور اسلام کی سربلندی کے لیے وقف تھی۔ اللہ تعالیٰ نے جب تک چاہا، ان سے کام لیا اور وقت مقرر پر اپنی امانت واپس لے لی۔ ان للہ ما اخذ ولہ ما اعطی وکل شئ عندہ باجل مسمّٰی۔ اس چھٹی پر میں حضرت سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا تو آپ نے سلام کا جواب دینے کے بعد پوچھا کہ کوئی پریشانی تو نہیں ہے یا سعودیہ جانے میں کوئی مشکل تو نہیں ہے؟اس کے بعد میر ے لیے خصوصی دعا فرمائی۔ اب ان دعاؤں کے لیے کان ترستے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ حضرت کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور تمام اہل خانہ اور آپ کو اور ہم سب کو صبر کی توفیق دے۔ آمین ثم آمین۔
قاری عبد الرؤف بن قاری محمد بشیرؒ
گکھڑمنڈی (حال القطیف۔ سعودی عرب)
(۳۳)
یہ خبر سن کر انتہائی صدمہ ہوا کہ ولی کامل استاذ العلماء حضرت مولانا سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ دار فانی سے دار البقاء کی طرف مراجعت کرگئے اور آپ بلکہ ہم سب کو داغ مفارقت دے گئے۔ اللہ تعالیٰ حضرت استاذی المکرم کو رحمت خاصہ اور علیین میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق دے۔ وہ تو بقول راجا بابا
بہ نور حقیقی منور بود
زظلمت مجازی مطہر بود
کیونکہ ان کی متاع قال اللہ وقال الرسول تھی:
بجز ہو ہو اللہ ندارد متاع
بجز نور رحمت ندارد شفاع
وہ تو سراپا اس شعر کے مصداق تھے:
بجز ذکر ہرگز ندارد متاع
بجز ذکر جاناں ندارد شفاع
ان کا ذکر جمیل اور علم کی حسین یادیں ہمیشہ تازہ رہیں گی اور وہ اور ان کا پھیلایا اور پڑھایا ہوا علم تاقیامت صدقہ جاریہ رہے گا، کیونکہ وہ ایک عظیم شخصیت تھے جن کے بارے میں راجا بابا کے یہ الفاظ بالکل صحیح لگتے ہیں کہ
کسے راکہ تکیہ بود بر خدا
کند بادشاہی بہ ہر دو سرا
ہم شیخ الحدیث والقرآن اور امام المفسرین کے لیے رفع درجات کی دعا کرتے اور اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے دار البقاء میں ہمیشہ ہمیشہ کی نعمتوں اور سرفرازی کے خواست گار ہیں۔
پروفیسر عبد الماجد و دیگر رفقا
SIRST، مانسہرہ، پاکستان
(۳۴)
من نالائق بندہ غلام حسین احرار نے تین مرتبہ شرف زیارت وملاقات کی سعادت حاصل کی۔ اپریل ۱۹۹۱ء میں حضرت ڈیرہ اسماعیل خان تشریف لائے۔ دومرتبہ گوجرانوالہ دورۂ حدیث کے بعد شرف زیارت حاصل ہوا۔
آپ کے چچا مولانا عبدالحمید خان سواتی ؒ سے چار بار ملاقات ہوئی۔ دروس القرآن کی جلدیں حاصل کرتا اور دعائیں لیتا۔ جس دن ان کی وفات ہوئی، لاہور میں جماعت احرار ؍تحفظ ختم نبوت کا مرکزی انتخاب تھا۔ وفات کا سن کر بہت طبیعت میں رنج جا گزیں ہوا۔ مغرب کا وقت قریب تھا۔ حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن شاہ بخاری مدظلہ کچھ ساتھیوں کے ہمراہ جنازہ میں شرکت کے لیے روانہ ہو چکے تھے۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلیٰ مراتب نصیب فرمائے۔ تمام پسماندگان کو سانحہ عظیم پر صبرواستقامت عطا فرمائے۔ دینی چشمہ کو دن دگنی رات چوگنی ترقی دے۔
ڈاکٹر غلام حسین احرار بن مولانا قطب الدین
جامع مسجد مین بازار روڈ، ژوب شہر
(۳۵)
آپ کے والد ماجد حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کی افسوس ناک خبر بذریعہ اخبارات معلوم ہوئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ حضرت مولانا کی دینی خدمات اہل علم کے لیے بڑی حوصلہ افزا تھیں۔ انھوں نے ہر محاذ پر دین کی خدمت کرنے کو اپنی زندگی کا عظیم مقصد بنایا ہوا تھا اور پوری زندگی اس میں وقف کر دی۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ان کی تمام دینی وعلمی خدمات قبول فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے اور ہم سب کو ان کی علمی میراث کی کماحقہ قدر کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ ہم آپ کے ساتھ اور حضرت مولانا کے دیگر تمام پس ماندگان کے ساتھ اس صدمہ میں شریک ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
مولوی محمود حسن بن حافظ محمد اسماعیل
مہتمم مدرسہ عربیہ مظہر العلوم کھڈہ کراچی
(۳۶)
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر برصغیر پاک وہند کے نامور شیوخ الحدیث کی صف میں شامل تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی اسلام کی اشاعت کے لیے وقف کی ہوئی تھی۔ آپ نے جہاں مذاہب باطلہ کی تردید میں گراں قدر علمی وملی خدمات سرانجام دیں اور ان فتنوں کی بیخ کنی میں عملی تحریکوں میں قائدانہ کردار ادا کیا، وہاں فقہ حنفی کی ترویج وترقی اور دفاع میں غیر مقلدین کا علمی انداز میں تعاقب کیا۔ آپ کے ہزاروں تلامذہ وطن عزیز اور بیرون ملک میں تدریسی وتحریکی فرائض بخوبی سرانجام دے رہے ہیں جو یقیناًآپ کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔
مفتاح العلوم سرگودھا میں تقریب ختم بخاری کے موقع پر آپ کی زیارت کرنے کا موقع ملا۔ اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے اور آپ کو صبر جمیل سے نوازے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ان کے نقش قدم پر دین کی خدمت کرنے کی توفیق دے اور قومی وعالمی سطح پر علمی مسائل کو کتاب وسنت اور فقہ حنفی کے دائرہ کار میں رہ کر حل کرنے کی علمی استعداد میں اضافہ فرمائے۔
عطا محمد جنجوعہ
کوٹ بھائی خان،براستہ جھاوریاں، سرگودھا
(۳۷)
حضرت اقدس نور اللہ مرقدہ کا سانحہ ارتحال دیر سے گوش گزار ہوا۔ بنوں کے اخبارات میں یہ خبر شائع نہیں ہوئی۔ زبانی معلوم ہوا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس نصیب فرمائے۔
عرصہ دراز سے بندہ حضرت اقدس سے ملاقات اور اجازت حدیث کی سند حاصل کرنے اور شرف تلمذ حاصل کرنے کا انتہائی خواہش مند تھا۔ کئی بار پروگرام بنایا، حتیٰ کہ ایک مرتبہ تو اپنے جملہ طلبہ حدیث اور مدرسہ کے شیخ الحدیث صاحب کے ساتھ اجتماعی ملاقات کا پروگرام طے ہوا، مگر کسی وجہ سے روبعمل نہ ہو سکا۔ ہر سال طلبہ دورۂ حدیث کو مرحوم کے بارے میں بتاتا کہ اسلاف کی آخری نشانی ہیں۔ جو آپ سے ملا اور سند حدیث حاصل کی، خوش قسمت ہوگا۔ بدقسمتی سے بندہ اس سعادت سے محروم رہ گیا اور آفتاب علم وعمل ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہو گیا۔ اللہ جل جلالہ ہم سب کو آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
[مولانا] حفیظ الرحمن المدنی
مہتم جامعہ عربیہ معراج العلوم بنوں
(۳۸)
قبلہ حضرت مکرم شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کے انتقال پرملال کی خبر سن کر انتہائی صدمہ ہوا۔ ایک ولی آغوش رحمت میں چلا گیا۔ حضرت مرحوم کی وفات سے بلامبالغہ ملت اسلامیہ کو ناقابل برداشت نقصان پہنچا ہے۔ آپ فرق باطلہ کا قلع قمع کرنے کے لیے ساری عمر کوشاں رہے اور علمی وتدریسی فیوض سے ایک جہاں کو آباد کیا۔ آپ کی یہ علمی وتحقیقی خدمات جلیلہ ہمارے قلوب سے تاقیامت محو نہ ہوں گی۔ مسلمانان پاکستان کے لیے حضرت کا وجود مسعود ایک بڑی نعمت تھا۔
دار العلوم عزیزیہ میں ایصال ثواب اور مزید بلندئ درجات کے لیے ختم قرآن حکیم کا اہتمام کیا گیا اور جمعۃ المبارک کے موقع پر مرکزی جامع مسجد میں دعاے مغفرت کی گئی۔ اللہ رب کریم آپ کو اور جملہ متعلقین کو صبر واستقلال کی توفیق دے۔ آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم۔
صاحبزادہ ابرار احمد بگوی
دار العلوم عزیزیہ، بھیرہ، ضلع سرگودھا
(۳۹)
اپنی کوتاہیوں اور بقول خود مصروفیتوں کی وجہ سے آپ کے والد محترم کی نماز جنازہ میں شامل نہ ہو کر جس سعادت سے محروم ہوا، اس ناقابل تلافی نقصان کا احساس مجھے ہمیشہ رہے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ مرحوم کی آخرت کی منازل آسان فرماتے ہوئے انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور آپ کو اور آپ کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ مرحوم کی وفات سے مسلک کا جو نقصان ہوا ہے، اس کی تلافی فرمائے۔ آمین
سید مقبول حسین ایڈووکیٹ
اوکاڑہ
(۴۰)
استاد العلماء حضرت اقدس کے سانحہ ارتحال نے موت العالم موت العالم کا سکتہ طاری کر دیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
فضلاے دیوبند اپنی ذات میں ایک انجمن، ایک ادارہ اور ایک تحریک کی ہمہ گیری لیے ہوتے ہیں۔ حضرت رحمہ اللہ نے فرق باطلہ کے تعاقب میں وہ کام کیا جو ایک مستقل ادارہ سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ حضرت والا نے یہ تمام کام انفرادی طو رپر بعون اللہ مکمل کیا اور وہ بھی اس طرح کہ ان کی ہر کتاب اپنے موضوع پر ایک ریفرنس بک بن گئی۔ حضرت رحمہ اللہ بیک وقت مفسر قرآن، محدث عظیم اور فقیہ دوران تھے۔ گلستان سعدی پڑھ کر ایک مستشرق نے کہا تھا کہ ایک شخص اتنے متنوع موضوعات پر نہیں لکھ سکتا۔ یہ کتاب ایک ادارے نے لکھی ہے۔ حضرت والا بھی اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے۔
حضرت صوفی صاحب کے بعد حضرت الاستاذ مولانا محمد سرفراز خان صفدر کی وفات سے لگتا ہے کہ پاکستان میں علماے دیوبند کے فیوضات وبرکات کا دروازہ بند ہونے لگا ہے۔ وہ علمی تبحر، وہ اخلاص وللہیت، تقویٰ وطہارت کا وہ معیار اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ آپ سے کیا تعزیت کریں۔ ایک جہان یتیم ہو گیا ہے۔ علماے دیوبند کے فیوض وبرکات کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ دیوبند کے کتاب تعارف (وزٹنگ بک) پر ایک انگریز نے لکھا کہ ’’یہ لوگ خود مجتہد ہیں، لیکن مقلد ہیں۔‘‘ حضرت والا بھی اسی مقام کے حامل تھے۔
ادارۂ علم وادب آپ کے غم میں برابر کا شریک ہے۔ رب العالمین حضرت والا کو اعلیٰ علیین میں اپنا قرب نصیب فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
حق نواز خلیل۔ اسماعیل گوہر
علی اکبر خان ایڈووکیٹ۔ اجمل خان
وممبران ادارۂ علم وادب۔ بفہ
(۴۱)
آپ کے لیے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا مگر حقیقت یہ ہے کہ دین سے محبت رکھنے والے بے شمار لوگ یتیم ہو گئے ہیں کہ علم کا روشن چراغ بجھ گیا۔ اللہ رب العزت کا ان پر احسان ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اپنے بیٹوں، پوتوں کو اپنی شعور سے اپنائی راہ کے راہی دیکھ گئے اور بیٹوں پوتوں کی خوش نصیبی کہ انھیں ایسا قابل قدر باپ اور دادا نصیب ہوا۔ یہ انعام الٰہی اور سعادت ہے۔ والد کسی عمر میں بھی بچھڑیں، جدائی کا کرب تو سہنا ہی پڑتا ہے۔ میں چونکہ اس کیفیت سے گزر چکا ہوں، اس لیے آپ کے غم کی گہرائی سے بخوبی آگاہ ہوں۔
اللہ تعالیٰ سے بصمیم قلب دعا ہے کہ وہ مولانا محترم کو اپنے جوار رحمت میں اعلیٰ مقام سے نوازے اور جملہ اہل خانہ کو ان کے لیے بہترین صدقہ جاریہ بنا دے۔ آمین یا رب العالمین
عبد الرشید ارشد
جوہر آباد
(۴۲)
شیخ الحدیث والتفسیر اما م اہل سنت رحمہ اللہ تعالیٰ کا سانحہ ارتحال پوری امت مسلمہ کے لیے قیامت سے کم نہیں۔ حضرت رحمہ اللہ کے انتقال کا غم صرف ان کے خاندان کا نہیں، بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے ہے۔ ہماری دعا ہے کہ حق تعالیٰ حضرت اقدس کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائیں اور پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق مرحمت فرمائیں۔
[مولانا] شاہ محمد
جامعہ قاسمیہ رحمن پورہ لاہور
(۴۳)
شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ کی وفات سے ازحد صدمہ ہوا۔ انھوں نے نہایت خلوص، بے غرضی اور کاوش سے تمام عمر دین کی خدمت میں بسر کی۔ ان کی وفات ایک عظیم سانحہ ہے اور یہ ایسا خلا ہے جو پورا نہ ہوگا۔ وہ اسلاف کی نشانی، اکابر کی یادگار اور سیرت وکردار کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ دین کے ایسے سچے خادم ہم سے جدا ہو رہے ہیں۔ خدا کرے آپ لوگ ان کے مشن کو جاری رکھیں اور اسی خلوص، لگن، بے غرضی اور تن دہی سے دین اسلام کی خدمت انجام دیں۔
بشیر احمد
علامہ اقبال کالونی، راول پنڈی
(۴۴)
حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کا سانحہ ارتحال بلاشبہ امت مسلمہ کے لیے شدید صدمہ ہے۔ حضرت آثار خیر کی آخری نشانیوں میں سے تھے۔ ان کے بعد فتنوں کے پھیلنے اور غلبے کی رفتار یقیناًبہت تیز ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ہی اس امت کی حفاظت فرمائیں اور حضرت شیخ الحدیث مرحوم ومغفور کے تلامذہ واولاد کو ان کی برکات وفیوض سے سے مالامال فرمائیں۔
[مولانا] سراج الحق نعمانی
لال کرتی، نوشہرہ کینٹ
(۴۵)
حضرت کی رحلت کا صدمہ دیگر صدموں سے کہیں زیادہ بڑھ کر صدمہ ہے۔ پورے ایک سال کے بعد حضرت اپنے بھائی مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ سے جا ملے۔ اکابر کا اس طرح یکے بعد دیگرے اس دار فانی سے چلے جانا، یہ قرب قیامت کی نشانی ہے۔ قحط الرجال کا زمانہ آ چکا ہے۔ ان جیسے اکابر علماے کرام، بزرگان دین اور اللہ والوں کا سایہ ہمارے سروں سے اٹھ جانا علم کا ختم ہونا ہے۔ حضرت کی مفارقت سے پاکستان ایک عظیم اور عبقری شخصیت سے محروم ہو گیا۔
دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت مرحوم کی دینی خدمات وحسنات کو قبول فرما کر اعلیٰ علیین میں جگہ نصیب فرمائے اور اپنے مقرب بندوں میں شامل فرمائے۔
حافظ محمد طیب لدھیانوی
جمشید روڈ، کراچی
(۴۶)
اخبارات سے یہ جانکاہ اطلاع ملی ہے کہ آپ کے والد گرامی قدر حضرت مولانا سرفراز خان صفدر صاحب کا وصال ہوگیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ شدید دکھ ہوا ہے اور اسی کے اظہار کے لیے یہ خط لکھ رہا ہوں۔ میری آپ سے کوئی واقفیت نہیں ہے اور نہ ہی آپ مجھے جانتے ہیں، لیکن حضرت مولانا مرحوم کے علمی مقام ومرتبے اور آپ کے طرز عمل نے مجھے یہ خط لکھنے پر مجبور کیا ہے۔ میں کبھی کبھار آپ کا ماہنامہ ’الشریعہ‘ پڑھتا ہوں۔ چونکہ آپ ایک متوازن فکر کی حامل شخصیت ہیں، اس لیے آپ کا دل کی گہرائیوں سے قدر دان ہوں اور ایک قلبی تعلق آپ سے قائم ہو چکا ہے۔ میری جانب سے دلی تعزیت قبول فرمائیں۔
موت العالم موت العالم والی بات مولانا سرفراز صفدرؒ پر بہرطور صادق آتی ہے۔ ان کے جانے سے ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوا ہے۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ یہ خلا پر نہیں ہو سکے گا۔ یقیناًآپ میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ آپ اپنے والد گرامی قدر کی راہ پر چلتے ہوئے خلا کو پر کریں گے، لیکن بہرحال ہمارے اوپر سے ایک شجر سایہ دار ہٹ گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حضرت مولانا سرفراز خان صفدر مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور آپ کو ہی نہیں، ہم سب کو بھی صبر جمیل عطا فرمائے، اس لیے کہ ہم مولانا سرفراز صفدر مرحوم کی رحلت کو اپنا نقصان سمجھ رہے ہیں۔
میرا رونا نہیں، رونا ہے یہ سارے گلستاں کا
امید ہے کہ میرے نام سے آپ منفی تاثر نہ لیں گے اور اس خط کو میرے قلبی جذبات کا مظہر سمجھتے ہوئے قبول فرمائیں گے۔ دکھ ہوا ہے تو خط لکھا ہے۔
سید مزمل حسین جعفری
اسلام آباد
(۴۷)
آپ کے والد ماجد شیخ الحدیث کی وفات حسرت آیات کی خبر سن کر ازحد صدمہ ہوا اور بے ساختہ زبان پر انا للہ وانا الیہ راجعون جاری ہوا۔ نہ معلوم کتنی دیر کلمہ استرجاع زبان پر رہا اور آنکھوں سے آنسوؤں کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ گزرا ہوا دور مجھے یاد آ گیا۔ آپ میرے شیخ امام الموحدین رحمۃ اللہ علیہ سے تعلق رکھنے والے تھے۔ یہ ناچیز اس غم میں آپ کے ساتھ برابر کا شریک ہے۔ یہ صدمہ تنہا آپ کا نہیں، یہ ناچیز بھی اسی طرح قابل تعزیت ہے جیسے آپ ہیں۔ ناچیز ضعیف ہے، اس لیے آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہو سکا۔ امید ہے آپ میری ضعیفی کے عذر کو قبول فرمائیں گے۔
اللہ تعالیٰ شیخ الحدیثؒ کو اعلیٰ علیین میں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے، آمین۔
(مولانا) نور حسین عبد اللہ بابا جی
ٹیکسلا، ضلع راول پنڈی
(۴۸)
آپ کے والد محترم شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدر کی وفات کا سن کر دلی صدمہ پہنچا۔ بے شک یہ اللہ تعالیٰ کا قائم کردہ نظام ہے۔ یہاں کسی کو ثبات نہیں۔ حضرت مرحوم ایک سچے اور عالم باعمل انسان تھے۔ مرحوم کی علمی اور مذہبی خدمات صدیوں قائم رہیں گی۔ یقیناًعالم اسلام ایک بڑے عالم، محقق اور برگزیدہ شخصیت سے محروم ہو چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور آپ سب کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ ادارہ آپ کے غم میں برابر کا شریک ہے۔ مرکزی شاہی مسجد میں مرحوم کے ایصال ثواب کے لیے خصوصی طور پر دعا کی گئی۔
صدر واراکین انجمن اصلاح المسلمین
پنڈی بھٹیاں ضلع حافظ آباد
(۴۹)
امام اہل سنت حضرت اقدس مولانا سرفراز خان صاحب صفدر رحمۃ اللہ علیہ کی خبر وفات نے دل کو مجروح کیا۔ بلاشبہ وہ ایک نامور عالم دین اور مفسر قرآن تھے، لیکن سب سے بڑھ کر وہ علماے حق کے موثر ترجمان تھے اور انھوں نے اپنی تصانیف میں اسلاف کے فکر ونظر کی جو ترجمانی فرمائی، ان شاء اللہ تعالیٰ وہ ان کے نامہ اعمال میں مستقل اضافے کا ذریعہ بنتی رہے گی۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ مرحوم کو اپنا قرب خاص عطا فرماویں اور ہم سب کو بالعموم اور ان کے اہل وعیال کو بالخصوص صبر جمیل سے نوازیں۔ بندہ بھی ان شاء اللہ تعالیٰ دعائیں اور ایصال ثواب کرتا رہے گا۔
[مولانا] عبد العزیز نقشبندی
کوئٹہ
(۵۰)
امام اہل السنۃ والجماعۃ، آیت السلف، محقق اعظم شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا سرفراز خان صفدر قدس سرہ کے سانحہ ارتحال سے جہاں حضرت کی صلبی اولاد اور خاندان غم زدہ ہے، وہاں حضرت کی ہزاروں کی تعداد میں بکھری ہوئی روحانی اولاد احساس یتیمی کا شکار ہے۔ مفسر قرآن داعئ حق حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی رحمۃ اللہ علیہ کے تھوڑے عرصے بعد حضرت کی جدائی ملک وملت کے لیے عظیم سانحہ ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان للہ ما اعطی ولہ ما اخذ وکل شئ عندہ باجل مسمی۔
اللہ تعالیٰ نے ان دونوں حضرات سے امت کی صلاح وفلاح کا جو کام لیا، وہ یقیناًسنہرے حروف سے تاریخ میں محفوظ رہے گا اور ہر موقع پر ان کے اصلاحی کارناموں سے برابر استفادہ جاری رہے گا۔ حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے بستر علالت پر رہ کر بھی جس خاموشی کے ساتھ دینی کاموں اور دینی تحریکات کی سرپرستی کی، وہ قابل رشک وقابل تقلید ہے۔ ان کی تصنیفی وتالیفی خدمات سے احقاق حق اور ابطال باطل کا جو فریضہ ادا ہوا، اس سے علماے حق کا طبقہ ہمیشہ احسان مند رہے گا۔ ان کے فراق کے غم میں آپ تنہا نہیں، بلکہ ان کی روحانی اولاد اور عقیدت مندوں کی بڑی تعداد برابر کی شریک ہے۔ بجا طو رپر کہا جا سکتا ہے کہ
حال ما در ہجر صفدر کم تر از یعقوب نیست
او پسر گم کردہ بود و ما پدر گم کردہ ایم
اللہ تعالیٰ حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کے مرقد پر باران رحمت نازل فرمائے، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے اور لواحقین ومتعلقین کو صبر جمیل کی توفیق کے ساتھ جادۂ مستقیم پر قائم رکھے۔ آمین
[مولانا] ابو الظہیر ہدایت اللہ
جامعہ عربیہ مرکزیہ تجوید القرآن، سرکی روڈ کوئٹہ
( ۵۱ )
شیخ الحدیث حضرت مولانا سرفراز خان صفدر صاحب مرحوم ومغفور کی رحلت کی خبر سنی۔ دل کو سخت جھٹکا لگا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت میں اعلیٰ درجات نصیب فرمائے اور ان کی دینی خدمات کو اور آپ جیسے مخلص اور اہل علم اولاد کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے، آمین۔
حضرت والا کے دنیا سے رحلت فرمانے سے دینی حلقوں میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوا ہے جس کا پورا ہونا مشکل ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے ہاں جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں اور سب پس ماندگان کو صبر جمیل سے نوازے۔ آمین
قاری محمد شریف
برطانیہ، لندن
( ۵۲ )
آپ کے والد گرامی اور ہم سب کے مرشد ومربی حضرت اقدس مولانا محمد سرفراز خان صاحب صفدر نور اللہ مرقدہ کی وفات عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ حضرتؒ کی دینی وملی خدمات اظہر من الشمس ہیں۔ پوری زندگی باطل قوتوں کے خلاف برسرپیکار رہے۔ ان کی وفات سے جہاں آپ متاثر ہوئے ہیں، وہاں ان کے بلامبالغہ ہزاروں تلامذہ، معتقدین ومتوسلین بھی مغموم ہیں لیکن اب سوائے صبر اور انا للہ وانا الیہ راجعون کہنے کے کوئی چارۂ کار نہیں۔
اللہ تعالیٰ آپ اور جملہ پس ماندگان کو یہ صدمہ جانکاہ برداشت کرنے کی ہمت عطا فرمائے اور ہم سب کو ان کا مشن جاری رکھنے کی توفیق بخشے اور حضرت مولانا کے درجات کو بلند فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
(مولانا) گل احمد الاظہری
چکوٹھی۔ تحصیل ہٹیاں بالا۔ ضلع مظفر آباد
( ۵۳ )
امام المفسرین حضرت شیخ صفدرؒ کی رحلت ایک بہت بڑا سانحہ ہے اور حقیقتاً موت العالم موت العالم کا مصداق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونو ں بھائیوں کو بہت کچھ دیا تھا۔ علم وعمل، زہد وتقویٰ کا پہاڑ تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان سے خوب دین کا کام لیا۔ اکابرین دیوبند کی طرح ہر میدان میں، چاہے جس فتنے کے خلاف بھی ہو، کمربستہ اور مستعد نظر آئے۔ تصنیف وتالیف میں بھی ان سے سابق کوئی نہ تھا۔ وعظ وتبلیغ میں بھی کسی سے پیچھے نہ تھے اور درس وتدریس میں تو بے مثال اور یکتا تھے۔ کون سی خوبی تھی جو ان سے دور تھی۔ ان کی زندگی بھی قابل رشک تھی اور موت بھی قابل رشک ہے۔ دور دراز سے سفر کر کے لاکھوں لوگوں کی جنازہ میں شرکت ان کے محبوب الی الناس اور مقبول عند اللہ ہونے کی واضح دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں بھائیوں کو اولاد بھی آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرمائی تھی۔ راقم کی بدقسمتی تھی کہ حضرت شیخ صفدرؒ کی زیارت سے محروم رہا، لیکن ان کی علمی شخصیت سے بہت ہی گہرا تعارف تھا۔ ان کی کتابوں سے خوب استفادہ کیا۔ واقعی ان کی وفات علامات قیامت میں سے ہے اور ان کی وفات کی خبر سن کر بہت دکھ پہنچا۔ اللہ تعالیٰ حضرت کو جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ہم سب کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
(مولانا) حفظ الرحمن
مدرسہ تجوید القرآن رحمانیہ، خانوخیل، ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
( ۵۴ )
آنجناب کے والد گرامی قدر استاذ العلماء شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ کی وفات ایک خاندان کا نہیں بلکہ قومی سانحہ ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ حضرت اقدس کی وفات سے صرف اولاد ہی نہیں بلکہ اہل حق یتیم ہوئے ہیں۔ حضرت کی دینی خدمات ناقابل فراموش ہیں اور تاریخ کے دامن پر انمٹ نقوش کی طرح ہمیشہ ثبت رہیں گی۔ ان کی تحریر وتدریس کے ذریعے جس طرح انسان سازی کا کام ہوا ہے، وہ اب ہمیشہ کے لیے باطل قوتوں کے تابوت میں آخری کیل گاڑتے رہیں گے۔ حضرت کی وفات سے پیدا ہونے والا خلا پر ہونا مشکل ہے۔ یہی وہ شخصیت ہے جس کے بارے میں فرمایا گیا کہ موت العالم موت العالم۔
ہماری جماعت سپاہ صحابہ پاکستان اس غم میں برابر کی شریک ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ اور آپ کے خاندان سمیت متعلقین کو صبر جمیل کی توفیق بخشے اور حضرت اقدس کے درجات بلند فرمائے اور جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین۔
ڈاکٹر خادم حسین ڈھلوں
مرکزی سیکرٹری جنرل سپاہ صحابہ
( ۵۵ )
لکھوں تو کیا لکھوں! اس سانحہ فاجعہ کے بعد خود کو بھی قابل تعزیت تصور کرتا ہوں۔ میرا ذاتی تجزیہ اور احباب کا فیصلہ یہ ہے کہ حضرت نور اللہ مرقدہ کی وفات حسرت آیات سے ہم خود ایک عظیم سایے سے محروم ہو گئے ہیں۔ وہ جنھیں زندگی میں ایک دو بار حضرت رحمہ اللہ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا، ان کا حال یہ ہے تو آپ تو پھر ان کے حقیقی فرزند اور مسند حدیث کے عظیم وارث ہیں۔ اللہ کریم ہم کو صبر جمیل نصیب فرمائے اور حضرت نور اللہ مرقدہ کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے، اپنی رحمت کی صورت میں پر فرمائے۔ آمین
(مولانا) محمد زبیر فہیم
جامعہ حنفیہ مدنیہ بصیر پور، اوکاڑہ
( ۵۶ )
روزنامہ اسلام میں یہ افسوس ناک خبر پڑھی کہ پاکستان کی مایہ ناز علمی وروحانی شخصیت استاذ العلماء حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ انتقال فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کی وفات موت العالم موت العالم کا مصداق ہے۔ اللہ کریم آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے۔ آپ کی وفات سے انتہائی صدمہ ہوا۔ حضرت کی وفات سے علمی دنیا میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے۔ اللہ نے حضرت کو بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا۔ بہت بڑے جید عالم، باعمل، محدث، مفسر، محقق، مصنف، معتدل، سادگی پسند اور اسلام کا بہترین نمونہ تھے۔ اللہ کریم ان کی یہ بہترین خدمات قبول فرمائے۔ آپ جیسے حضرات کو آپ کے لیے صدقہ جاریہ بنائے اور آپ تمام برادران کو ان کا صحیح خلف الرشید بنائے، آمین۔ اس عظیم صدمہ پر اللہ صبر جمیل کی توفیق بخشے۔
(مولانا) محمد امین ربانی
مدرسہ ربانیہ فیض العلوم، جوہر آباد
( ۵۷ )
ہمیں ہفت روزہ خدام الدین لاہور اور ماہنامہ شریعت (سندھی) سکھر سندھ کے ذریعے یہ ہوش ربا خبر پہنچی کہ آپ کے والد محترم فضیلۃ الشیخ مولانا سرفراز صفدر صاحب اس دنیاے فانی سے رخصت ہو کر عالم جاودانی کو سدھار گئے۔ آپ بہت بڑے محدث تھے، تفسیر قرآن پر بہت گہری نظر تھی، صاحب طرز ادیب تھے اور بلند پایہ خطیب تھے۔ ان کے پایے کے علما اس دور میں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ وہ صحیح معنوں میں ایک عبقری انسان تھے۔ انھوں نے ساری زندگی درس وتدریس، تصنیف وتالیف اور صحافت وخطابت کے ذریعے خدمت دین میں بسر کی۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سوائے صبر کے اور چارہ نہیں۔ فصبر جمیل۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم کو اور آپ کو صبر کی توفیق بخشے اور مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ آمین
عبد اللہ بلوچ
عبد اللہ بن مسعود لائبریری
ڈاک خانہ کھپرو، ضلع سانگھڑ
( ۵۸ )
آپ صاحبان کے حقیقی جبکہ ہمارے روحانی والد شیخ الحدیث حضرت مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کی وفات سے جو عظیم صدمہ، نقصان اور خلا پیدا ہوا، وہ شاید ہی پر ہو سکے۔ موت العالم موت العالم۔ آپ کے اٹھ جانے سے دینی حلقے واقعی یتیم ہو گئے اور علمی مجلسیں بے رونق ہو گئی ہیں۔ ظلمت، جہالت اور ضلالت میں آپ کی ذات مینار رشد وہدایت تھی۔
امام اہل سنت کی اصاغر پروری، شفقت ومحبت جو احقر کے ساتھ حاضری کے موقع پر کرتے تھے، اب بھی محسوس کر رہا ہوں۔ والد صاحب حضرت مولانا اظہار الحق مدظلہ ناظم جامعہ حقانیہ اور جملہ خاندان حقانی آپ کے ساتھ اس غم میں برابر کے شریک ہیں۔ نماز جنازہ میں عم محترم شیخ الحدیث مولانا سمیع الحق مدظلہ کے ہمراہ شرکت کی، لیکن رش کی وجہ سے ملاقات اور تعزیت نہ ہو سکی، اس لیے یہ کلمات تعزیت پیش ہیں۔
حافظ محمد عرفان الحق حقانی
دار العلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک
( ۵۹ )
حضرت مولانا سرفراز خانؒ کی وفات پر مجھے اور اہل جامعہ کو بہت افسوس اور صدمہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور دین کے لیے جو قربانیاں انھوں نے دیں، انھیں اپنی بارگاہ میں قبول ومنظور فرمائے اور ان کو ان کے لیے ذخیرۂ آخرت اور صدقہ جاریہ بنائے اور ان کے تمام لواحقین کو صبر جمیل اور اجر عظیم عطا فرمائے، آمین
مولانا محمد اسعد زکریا قاسمی
جامعہ اسلامیہ انوار العلوم، ایف بی ایریا، کراچی
( ۶۰ )
آپ کے والد گرامی اور ہم سب کے بزرگ اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ تعزیت کے مستحق ہم سب ہیں۔ ہاں، آپ زیادہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی بال بال مغفرت فرما کر درجات بلند فرمائے اور آپ سب کو خدمت کا اجر اور صبر عطا فرمائے۔ آمین
ہماری عقیدت کئی وجوہ سے تھی۔ آپ کا تعلق، سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کا تعلق، علم وفضل کی ڈیڑھ سو برس پرانی روایت سے ہمارا ادنیٰ قلبی تعلق، یہ سب تعلق حضرت اقدس رحمہ اللہ کے ذکر سے تازہ ہو جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سعادتوں میں سے ہمیں بھی کچھ عطا فرما دے جو اس نے حضرتؒ کو عطا فرمائی تھیں۔ فون پر حاضری اس لیے نہیں دی کہ کچھ کہہ نہ سکتا۔ قلم وقرطاس کا سہارا ایسے میں غنیمت معلوم ہوتا ہے۔
بھائی عمار صاحب کی خدمت میں بھی سلام اور جذبات تعزیت۔
ڈاکٹر سید عزیز الرحمن
اسسٹنٹ پروفیسر دعوہ ریجنل سنٹر، کراچی
( ۶۱ )
آپ کے والد محترم حضرت علام، فقیہ العصر حضرت شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صاحب کی وفات حسرت آیات کی خبر سن کر گہرا صدمہ ورنج ہوا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ حضرت مرحوم ومغفور کی علمی، فنی، تحقیقی خدمات اور کارناموں کو نہ صرف یاد رکھا جائے گا بلکہ علما، طلبا اور اہل فن سبھی رہتی دنیا تک حضرت مرحوم ومغفور کے ممنون احسان رہیں گے۔
دعا ہے کہ اللہ کریم حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے اس فیض کو تاقیامت جاری وساری رکھیں کہ آپ جیسے بلند ہمت وحوصلہ صاحب علم وکمال اشخاص اس مبارک مشن کی ترقی کا سبب بنے رہیں۔ اللہ تعالیٰ حضرت کو اعلیٰ علیین میں مقام عطا فرمائے فرمائے اور ان کی لحد پر بے شمار رحمتیں نازل فرمائے۔
یہ ناکارہ آپ کے اس دکھ وغم میں برابر شریک ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت مرحوم ومغفور کے خانوادہ کی عزتوں اور وجاہتوں میں مزید اضافہ فرمائے اور اس سانحہ کو برداشت کرنے پر اجر جزیل عطا فرمائے۔ آمین
صاحبزادہ محمد سعید انصاری
بن حضرت مولانا محمد ادریس انصاریؒ
خانقاہ نقشبندیہ غفوریہ، صادق آباد
( ۶۲ )
امام اہل السنت والجماعت، ابو حنیفہ وقت، ترجمان دیوبند، سیدی ومرشدی حضرت شیخ الحدیث نور اللہ مرقدہ کی وفات کی جانکاہ خبر ملی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اس اطلاع کے ملتے ہی دل پر ایک چوٹ لگی اور حسرت ہوئی کہ کاش ہم اس عظیم ہستی سے محروم نہ ہوتے۔ حضرت شیخ مرحوم کی موت ایک عالم کی موت نہیں، بلکہ موت العالم موت العالم کا مصداق ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور تمام پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق دے۔ الحمد للہ حضرت والا نور اللہ مرقدہ نے اپنے پیچھے ایسی اولاد اور علمی ذخیرہ چھوڑا ہے جو ان کے لیے صدقہ جاریہ اور باقیات صالحات ہیں۔
اللہ اغفر لہ وارحمہ وادخلہ واسکنہ فی الجنۃ۔ آمین ثم آمین
حافظ خیر محمد
جامعہ خیر المدارس العربیہ۔ بلوچی قلعہ۔ کوئٹہ
( ۶۳ )
آپ کے والد محترم حضرت مولانا سرفراز خان صفدر صاحب کے انتقال کی خبر ملی جو مجھ پر ایک گہرے غم اور دکھ کا اثر چھوڑ گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ بلاشبہ آپ کے والد محترم ایک عالم باعمل اور امام اہل سنت تھے۔ ان کی وفات عالم اسلام کے لیے ایک عظیم سانحہ ہے جس سے تمام دینی حلقوں کو بالعموم اور اہل سنت کو بالخصوص ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں ان کے شاگرد اور معتقدین ان کے لیے تاقیامت صدقہ جاریہ ہیں، کیونکہ ان کی تعلیم وتدریس کا سلسلہ قائم رہے گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ دین کے لیے ان کی محنت کو قبول کر کے سفر آخرت کا بہترین سامان بنا دے اور ان کے درجات کو بلند کرے۔
ہم آپ کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ان کا صحیح جانشین بنائے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
الحاج محبوب احمد ملک
تحصیل نائب ناظم بھکر
( ۶۴ )
آپ کے والد محترم ہم سب ہی کی مشترکہ متاع عزیز تھی۔ ہم سب ہی تعزیت کے لائق ہیں، تاہم آپ کا خونی رشتہ تھا۔ آپ کو ان کی جدائی کا جس قدر صدمہ ہوا ہے، اس کا اندازہ دوسرے لوگ نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے نیک مخلص بندوں میں شامل فرما کر ان کی دینی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے۔
برادر محترم حضرت حافظ ممتاز علی صاحب مرحوم کی دعوت پر مولانا مرحوم بھکر تشریف لائے اور اپنے مواعظ حسنہ سے عوام کو محظوظ فرمایا۔ ہمیں بفضلہ تعالیٰ للہ فی اللہ آپ کے علمی وعملی گھرانے سے محبت ہے۔ حضرت والا کا سانحہ ارتحال علمی وعملی دنیا میں بہت بڑا خلا ہے جس کو پر نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صبر جمیل اور اجر جزیل سے نوازے۔
حافظ اعجاز علی
برادر اصغر حافظ ممتاز علی صاحب مرحوم
جامعہ رشیدیہ بھکر
( ۶۵ )
حضرت والد گرامی کا سایہ اٹھنا یقیناًآپ تمام برادران اور لواحقین کے لیے بہت بڑا صدمہ ہے۔ اللہ کریم سب کو صبر عطا فرمائے، آمین۔ جامعہ فرقانیہ کے اساتذہ کرام، طلبہ ومنتظمین کے لیے بھی یہ صدمہ ہے، کیونکہ حضرت کی شفقت ہمیشہ ہمیں حاصل رہتی تھی اور جامعہ کے بانی مولانا عبد الحکیمؒ کے ساتھ بھی ان کا خاص تعلق تھا۔ ۲۰۰۰ تک جامعہ کے سیکڑوں طلبہ موقوف علیہ کے بعد دورۂ حدیث کی تکمیل کی سعادت حضرت ہی سے حاصل کرتے رہے ہیں۔
الحمد للہ حضرت کے جنازہ میں شریک ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ جامعہ کے اساتذہ اور بعض طلبہ بھی شریک ہوئے۔ یہ تعزیتی کلمات پیش خدمت ہیں۔ قبول فرمائیں۔
ابو زبیر قاری محمد زرین
ناظم اعلیٰ جامعہ فرقانیہ راولپنڈی