لماذا تبکی الاعین یا حبیبی
لماذا صارت افئدۃ ھواء؟
جس چیز کا آغاز ہے، اس کا انجام بھی ہے۔ تین چیزوں کے بارے میں کسی دور میں کسی بھی جگہ کبھی دورائیں نہیں رہیں: ایک یہ کہ موت ایک اٹل، حتمی اور یقینی امر ہے۔ نہ اس سے راہ فرار، نہ گریز کی کوئی سبیل۔ حتی یاتیک الیقین کے جاندار اور شاندار الفاظ اسی حقیقت کے یقینی ہونے پر دلالت کررہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اس کا وقت متعین ہونے کے باوجود اسے پردۂ خفا میں رکھا گیا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ گھڑی کون سی ہے جب موت کا فرشتہ روح قبض کرے گا۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ ایک لمحے کی نہ تقدیم ہوگی، نہ تاخیر۔ افراد کے لیے بھی یہی ضابطہ ہے اور اقوام کے لیے بھی یہی قانون عالمگیر ہے۔ اذا جاء اجلہم لایستاخرون ساعۃ ولایستقدمون۔
ایک ہی قانونِ عالمگیر کا ہے سب اثر
بوے گل کا باغ سے گل چیں کا دنیا سے سفر
تیسری بات یہ کہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس جگہ پر داعی اجل کو لبیک کہے گا۔ بای ارض تموت کے الفاظ اسی ازلی اور ابدی صداقت کی گواہی دیتے ہیں۔ بات یہ بھی قابل ذکر ہے کہ موت کی ماہیت وکنہ قابل فہم ہے نہ قابل گرفت۔ موت کا لفظ لرزہ خیز تصور کا مظہر سہی، مگر جب وہ آجاتی ہے تو Death is a leveller کے مصداق نہ کوئی منصب مانع ہے نہ جاہ، نہ پست نہ بلند، نہ نشیب نہ فراز، نہ طبیب نہ دوا۔ ہر طبیب بے بس اور ہردوا ناکارہ وازکار رفتہ۔
چوں قضا آید طبیب ابلہ شود
آں دوا در نفع خود گمرہ شود
پھر نہ کوئی تعویذ گنڈا نہ جھاڑ پھونک نہ دوا نہ دارو نہ دم نہ درود۔ بیماریوں کے علاج تو ہیں، موت کا کوئی علاج نہیں۔
واذا المنیۃ انشبت اظفارہا
الفیت کل تمیمۃ لا تنفع
بڑے بڑے صاحبان شوکت وحشمت نہ رہے، آخر بلانے والے نے انہیں موت کا پیالہ پلاہی دیا۔
این ا لملوک التی کانت مسلطۃ
حتی سقاہا بکاس الموت ساقیہا
یہی و جہ ہے کہ سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کو کثرت سے یاد کرنے کی تلقین فرمائی کہ دلو ں کے صیقل کرنے کا، بہترین ذریعہ ہے۔ فرمایا :
ان ہذہ القلوب لتصدا کما یصدا الماء الحدید، قیل: ماجلاء ھا یا رسول اللہ؟ قال: کثرۃ ذکرۃ الموت وتلاوۃ القرآن۔
تاہم وہ لوگ جن کی نگاہ اس جہان کی دلچسپیوں سے گزر کر آخرت کی راحتوں اورنعمتوں پر جا ٹکتی ہے، ان کے لیے موت تمام تر حسرت سامانیوں کے باوجود زندگی کے رجائی طرز فکر کی ترجمان بن جاتی ہے۔ وہ خود چلے جاتے ہیں مگران کا نام اورکام دور تک اور دیر تک اپنے اثرات قائم رکھتا ہے۔
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں
موت کا بس صر ف ظاہری جسم تک چلتا ہے، روح اس کی دسترس اور دست برد سے بالکل محفوظ رہتی ہے۔
فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا
ترے وجود کے مرکز سے دور رہتاہے
یہی وجہ ہے کہ شہیدان راہ وفا کے فراق جان وتن کو ’بل احیاء ولکن لاتشعرون‘ کے حیات بخش اعلان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ایسے لوگوں کے پیش نظر حیات جاودانی کے حصول کے لیے زندگی ہی میں ان گنت مواقع موجود ہوتے ہیں جن سے وہ اپنے کارہاے نمایاں کے ذریعے فائز المرام ہوتے ہیں۔ بظاہرا یسا لگتا ہے کہ وہ اسی زندگی کے انہماکات میں کھوئے ہوئے ہیں، مگر دراصل وہ توشہ آخرت کے لیے اپنی تمام تر خداداد توانائیوں کو بروے کار لاتے ہوئے بھرپور زندگی گزارتے ہیں اور خود افروزی اور جگر سوزی سے ’’آج‘‘ سے اپنے ’’کل‘‘ کے لیے عیش دوام کا استحقاق پید کر لیتے ہیں۔
وہ کل کے غم وعیش یہ کچھ حق نہیں رکھتا
جو آج خود افروز وجگر سوز نہیں ہے
ایسوں ہی کے لیے حالی نے کہا تھا :
دنیاے دنی کو نقش فانی سمجھو
روداد جہاں کو اک کہانی سمجھو
پر جب کرو آغاز کوئی کام بڑا
ہر سانس کو عمر جاودانی سمجھو
حضرت شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدرمرحوم کی زندگی بھی کچھ ایسی ہی بھر پور زندگی تھی۔ بچپن میں مستقبل کے سنہرے سپنے دیکھے مگر حالات کی سنگینیوں سے شاہراہ حیات کے جھاڑ جھنکاڑسے گزرتے ہوئے بے داغ شباب تک پہنچے، تحصیل علم وحکمت کی امنگوں اور ترنگوں کی اوگھٹ گھاٹیوں سے گزرتے گزرتے میدان عمل میں اترے۔ یہاں حالات کی گردشیں تیز تر ہوگئیں۔ اشاعت دین کے لیے تعلیم وتدریس کامنہاج واضح اختیار کیا اور پھر یہی میدان آپ کی تگ وتاز کامرکز ومحور بن گیا۔ ان کی تقریری وتحریری خدمات کا جائزہ لیاجائے تو ہزاروں مواعظ اور کوئی پچاس کے قریب کتابوں کاتحریری سرمایہ ان کے تبلیغی کارناموں کا گواہ ہے۔ ان تحریروں کوایک نظر دیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ ان کی قرآن وحدیث میں ژرف نگاہی، استنباط واستخراج مسائل کی خدادا دصلاحیت، تفقہ فی الدین سے مسائل کی تہہ تک پہنچنے کی استعداد، اپنی بات کو مستحکم استدلال سے باور کرانے کا ملکہ ان کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا نقطہ نظر قائم کرتے ہیں اور پھر اپنے موقف کے لیے جس طرح استشہاد کرتے ہیں، مخالف سے مخالف اور معاند سے معاند بھی استدلال کی اس آہنی دیوار کے مقابلے میں اپنی آرا وقیاسات کو ریگ رواں پاتا ہے۔
وہ اولاً قرآن مجید سے دلائل وبراہین کے انبار لگا دیتے ہیں۔ ثانیاً حدیث رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے نقطہ نظر کو تقویت دیتے ہیں۔ پھر تعامل صحابہ کے سہارے آگے بڑھ کر اسلاف کے آثار واقوال کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ اس سارے سرمایے کی روشنی میں اپنے موقف کی سچائی کو ثابت کرتے اور پھر اس پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ جاتے ہیں۔ پھر مخالفت کاکوئی سا بھی جھکڑ ان کے پاے استقلال میں ڈگمگاہٹ پیدا نہیں کر پاتا۔ یہاں جن حقائق کو پیش کیا گیا ہے، وہ خالص اور ٹھوس دینی حقائق ہیں۔ جس موضوع پر قلم اٹھایا، اس میں ان کی تحریریں حرف آخر ثابت ہوئیں۔ اصل چیز دین کے محض تحریری افکار وتصورات نہیں، مقرون اعمال واشکال ہیں۔ شیخ مرحوم نے ان کے لیے جو اساسیات اسلام پیش کیں، وہ اسلام کی سچی تعبیرہیں۔ بدعات کی بیخ کنی دین کے اساسیات میں سے ہے۔ جب دین میں غیر ضروری، مفاد پرستانہ، خود غرضانہ آمیزشیں در آئیں تو دین اپنی اصل شکل میں نہیں رہ سکتا۔ ہر دور کے مجددین ومجتہدین نے سب سے زیادہ زور اسی نکتے پر دیا ہے۔ ایمانیات ہوں یا عبادات، اخلاق وعادات ہوں یا صالحیت عمل کی راہیں، ان میں بدعات واختراعات کی پچریں لگا کر دین کو خالص رکھا نہیں جا سکتا، در آنحالیکہ ادھر فرمان الٰہی ہے: وما امروا الا لیعبدو اللہ مخلصین لہ الدین۔
حضرت کی مساعی جمیلہ اس سمت میں بے پناہ ہیں۔ دین خالص ہوگا تو تحقیقی عمل ثمر بار ہوگا۔ آپ نے اپنی علمی تحقیقات میں وہ اصول ومبادیات پیش کیے ہیں جن پر پورے دین کی اساس ہے۔ اگر بدعات کو شامل دین کر کے ملمع سازیوں سے ان پر ایمانی، فکری، عملی اور اخلاقی اعمال کے بلند بام پلازے بھی تعمیر کر لیے جائیں تو دین کی بنیادیں کھوکھلی ہی رہ جائیں گی۔ محاذ کوئی سا کیوں نہ ہو، نیچریوں، دہریوں، دین سے انحرافی راہیں اختیار کرنے والوں، جبہ وقبہ کی آڑ میں دین فروشوں اور نام نہاد پشمینہ پوش صوفیوں، غالی رافضیوں، سب کا تعاقب جس استقامت سے کیا، وہ قابل دید بھی تھی اور قابل داد بھی۔ حضرت دو دھاری تلواربن کر چومکھی لڑتے رہے اوراللہ نے اس سرفراز کو سرفراز ہی فرمایا، شرک وبدعت کی صفوں کا صفدر ہی بنایا۔
گزشتہ صدی کے پانچویں دھاکے سے لے کر اختتام صدی کے کچھ عرصہ پہلے ۱۹۹۶ ء تک الکلام الحاوی، ضوء السراج فی تحقیق ا لمعراج، تبرید النواظر، گلدستہ توحید، احسن الکلام فی ترک القراء ۃ خلف الامام، صرف ایک اسلام بجواب دواسلام، راہ سنت، تفریح الخواطر، عیسائیت کاپس منظر، درود شریف پڑھنے کا شرعی طریقہ، تسکین الصدور، طائفہ منصورہ، شوق حدیث، الکلام المفید فی اثبات التقلید، ارشادالشیعہ، خزائن السنن اور آخر میں توضیح المرام (مطبوعہ ۱۹۹۶ء) تک کم وبیش نصف صدی کو محیط ۴۷ گراں قدر تصانیف ان کے علم وعرفان، تحقیق وتدقیق، مختلف دینی موضوعات پر ان کی گرفت اور خالصتہً للہیت پر مبنی فکری منہاج کا پتہ دیتی ہیں۔ ایک سطح بیں شخص کہہ سکتا ہے کہ یہ تحقیقی کاوشیں بڑی قابل قدر سہی، مگر ان میں مسلکی رنگ نمایاں طو رپر جھلکتا ہے اورمجموعی طور پر اسلامی فکر کی نمائندگی نہیں کرتیں۔ ان میں فروعی مسائل زیر بحث لائے گئے ہیں جس سے اس علمی مواد کی افادیت محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ دیوبندیت اور بریلویت کی جنگ میں شمشیر برہنہ ہو کر معرکہ آرا بھی رہے اور معرکۃ الآراء تصانیف بھی پیش کیں، مگر عالم اسلام کے اجتماعی مسائل اپنے وسیع تر تناظر میں مفقود ہیں۔ حق یہ ہے کہ یہ خیال بڑا ہی سطحی ہے۔ اس کے پیچھے جو منفی سوچ کا ر فرما ہے، اس سے معاندت کی بو آتی ہے۔ اگر وسعت نظر اور فکرکی گہرائی اسی چیز کا نام ہے کہ ہر رطب ویابس موضوع پر قلم فرسائی کی جائے تو واقعتا وہ یہا ں نہیں ہے۔
ان کے اخلاف میں ہمارے مکرم شیخ الحدیث حضرت مولانا زاہد الراشدی، حضرت مولانا عبدالقدوس قارن، حافظ عبدالحق خان بشیر، مولانا محمد فیاض خان سواتی، (آپ کے بھتیجے) اور دیگر اولاد واحفاد شامل ہیں جن میں ایک چمکتا نام حافظ محمد عمار خان ناصر کا بھی ہے جو تحقیق کے میدان میں ان کے ’’طابق النعل بالنعل‘‘ ثابت ہو رہے ہیں اور ہونہار بروا کے چکنے چکنے بات کے مصداق اسلامی فکر کی ترویج واشاعت میں اس خورد سالی میں کئی سال خوردہ لوگوں کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔ مکر می حضرت مولانا زاہدالراشدی اوران کے لخت جگر عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر اپنے فکر ونظر اور موقف کے اعتبار سے بعض حلقوں میں اس وجہ سے مورد مسؤلیت ہیں کہ وہ اپنے اسلاف کے موقف سے کسی قدر ہٹ رہے ہیں۔ اس ضمن میں حضرت مولانا زاہدالراشدی کامسکت جواب ’’الشریعہ‘‘ میں تفصیلاً آبھی چکا ہے، تاہم یہ بات واضح کر دینا بھی ضروری ہے کہ یہ لوگ اصلاً واصالۃً اسی منہاج کے وارث ہیں جن پر ان کے بزرگ عمر بھر چلتے رہے، البتہ شیخ مرحوم کا سفر ایک خاص سمت میں جاری رہاکہ بدعات ومحدثات اور اختراعات فی الدین کا ازالہ ہوگا تو دین خالص ہوگا، اور دین خالص ہوگا تو اخلا ص سے اس پر چلنا نصیب ہوگا۔ اخلاف میں شان اخلاص تو وہی ہے مگر یہاں عصری تقاضوں کے پیش نظر بزرگوں کے موقف میں تبدیلی کیے بغیر بعض دیگر پہلو بھی در آتے ہیں اور یہ کوئی بری بات نہیں، ورنہ تقلید کورانہ کا ٹھپہ لگ جاتا تو یہ بری بات ہوتی۔
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کشی
رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے
عزیزمکرم اپنے جدامجد کے کارناموں کو تنظیم وترتیب اور اشاریہ کے دائرے میں لاکر مراجعت عامہ کے لیے سہل الحصول بنانے کی فکر میں بہت پہلے سے تھے اور اب امیدہے کہ وہ بسرعت تمام یہ کام کر گزریں گے۔
آپ کی پاکبازانہ زندگی کے مختلف پہلو، علمی شغف، تدریسی مہارت، علمی وجاہت، تحقیقی کارنامے، سوانح حیات اور دیگر احوال وآثار کے بہت سے پہلوؤں پر بہت سی تحریریں سامنے آچکی ہیں او ر ابھی بہت زیادہ تحریریں صفحہ قرطاس پر جلد وجود پذیر ہوں گی۔ ان کے اخلاف، قریبی احباب، ہم عصر علما وفقہا، معتقد ومرید اور تلامذہ کا ایک جم غفیر ان کی زندگی کے کئی پہلوؤں کی شفاف سیرت کے کئی گوشے نمایاں کرے گا۔ کچھ قلم کار ان کے تحریری کارہا ے نمایاں کو موضوع وار زیر بحث لائیں گے تو کئی ان کی تحقیقی کاوشوں کا استحسان یا انتقاد کریں گے۔ جہاں تک مرحوم کے ذاتی احوال کا تعلق ہے، ان کے اہل خاندان، اولاد واخلاف اور احفاد واسباط سے بہتر ان پر کوئی بھی قلم نہیں اٹھا سکتا۔ مجھ جیسے بے بضاعت ان کی صاف ستھری زندگی، ان کے کردار کے محاسن اور ان کی سیرت کے مکارم کے بارے میں ہی کچھ عرض کر سکتے ہیں۔ میر اسر فخر سے بلند ہو جاتا ہے جب میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ بے شمار خو ش نصیبوں کی طرح اپنے دور کے عظیم محدث کے سامنے زانوے تلمذ تہ کیا۔ بقو ل اقبال ؒ
نسیم وتشنہ ہی اقبال کچھ ا س پر نہیں نازاں
مجھے بھی فخر ہے شاگردئ داغِ سخن داں کا
میرے لیے یہ امر بے حد اعزاز وافتخار اور وقار واعتبار کا باعث ہے۔ وہ بخاری شریف پڑھاتے یوں گویا ہوتے گویا سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں باریاب ہوں، فرط محبت وعقیدت میں ادھر سے سن کر ادھر اپنے تلامذہ کو سرکار کے فرمودات سے نواز رہے ہوں (حالانکہ سلسلہ رواۃ کی کڑی سے کڑی ملنے سے بات وہاں تک مرفوع ہوتی ہے) اور توضیحات وتشریحات سے منشاے رسول تک پہنچنے کی کامیاب کوشش کر رہے ہوں۔ ان کے تدریسی اوقات میں ہم یوں محسوس کرتے گویا خیر القرون میں جی رہے ہوں، دنیا ومافیہا سے بے خبر۔ ایسے لگتا گویا ع
بلبل چہک رہا ہے ریا ض رسول میں
ان کا طریقہ تدریس فکر انگیز بھی تھا اور دل نشیں بھی۔ الفا ظ کی نشست وبرخاست ہر طرح کے حشو وزوائد سے پا ک ہوتی۔ علمی وجاہت کی وجہ سے بات میں ر س ہوتا۔ حدیث کے مفاہیم کی وضاحت، رواۃ کی جرح وتعدیل،ا سماء الرجال کے فن میں نکتہ رسی بھی، جزئیات رسی بھی، ان پر انتقاد ی گفتگو، ان کے سوانح پر گہرائی اور گیرائی سے نگاہ ٖڈالنا، ان کے حالات کا احاطہ، حدیث کے الفاظ کے زینوں سے اتر کر معنویت کی گہرائی تک رسائی اور ان کی روح تک اترنا، ان کے طرز تدریس کا طرۂ امتیاز تھا۔ آواز کی شیرینی، صوتی اثرات میں محبت رسول کی دل گدازی، دلوں میں ایمان وایقان کی قندیلیں روشن کرتی چلی جاتی۔ وہ وحی کی روشنی میں چلتے اور توحید کے نغمات سے زمزمہ پرداز ہوتے۔ اس پر مستزاد یہ کہ استقامت علی الحق کے نتیجے میں ان کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ موتیوں کے تول تلتا اور جواہر ریزوں کے بھاؤ آنکا جاتا۔ ان کی جلوتیں اور خلوتیں اسلاف کا نمونہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس حسین تھیں۔ لاکھوں تشنگان علم وحکمت نے اس سر چشمہ دعوت وارشاد سے اپنی پیاس بجھائی اور کتنے ہی راہ گم کردہ راہی منزل شناس ہوئے۔ بعض مواقع پر تبلیغ دین کے سلسلہ میں بعض کوتاہیوں کا شدت سے احساس فرماتے اور ان کوتاہیوں کے ازالے کی کوششوں کو بھی دعوت وارشاد ہی کا حصہ سمجھتے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ یورپ کا تبلیغی دورہ فرما کر واپس آئے تو اس ہیچ مدان نے آنجناب کے تاثرات جاننے کی آرزو کی۔ فرمایا، عدیم صاحب! مجھے اس بات کا شدید احساس ہوا ہے کہ علما کو انگریزی زبان پر دسترس ہونی چاہیے، بلکہ جس جس ملک میں دعوت وتبلیغ کا کام کریں، اس ملک اور خطے کی زبان کا جاننا ان کے لیے نہایت ضروری ہے۔ محض سرسری زبان دانی نہیں، ماہرانہ دسترس کے ساتھ۔ میں نے قبل ازیں اس امر کا اس شدت کے ساتھ احساس نہیں کیا تھا۔ یورپ میں جا کر مجھے معلوم ہوا کہ بات کے ابلاغ کے لیے مقامی زبان کس قدر موثر اور کارگر ہوتی ہے۔ ترجمان لاکھ اداے مطلب کریں، دل سے نکلی ہوئی بات دل میں نہیں اتر سکتی جب تک یک زبانی نہ ہو۔ ہم زبانی ہوگی تو ہم دلی کی راہ ہموار ہوسکے گی، ورنہ تو وہی بات ہو گی کہ ع
زبان یارمن ترکی ومن ترکی نمی دانم
ایک بات جو میرے لیے اچنبھے کی رہی، وہ یہ کہ ان کی تقریر بالعموم ادبی چاشنی تو لیے ہوتی، بعض جملے تیر ونشتر کا کام دیتے، ان میں مخالف کے لیے بے پناہ کاٹ ہوتی، مگرایسے لگتا جیسے آ پ کو شعروشاعری سے کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ لیکن اس کے برعکس ان کی بعض تحریروں میں خشک سے خشک اور سنجیدہ سے سنجیدہ مضامین میں بھی وہ ایسے خوبصورت اور برمحل اشعار استعمال کرتے کہ یوں لگتا جیسے علمی، تفسیری، فقہی اور دوسرے دینی سرمایے کے ساتھ ساتھ مختلف اردو، فارسی اور عربی اشعار کے دواوین بھی ان کے زیر نظر رہتے۔ بعض شعر تو موقع ومحل کی نسبت سے پوری عبارت میں بجلی کا سا اثر بھر دیتے ہیں۔ یوں ان کی تحریریں ادبی شکوہ کے ساتھ ساتھ دل آویز شعروں سے بھی مزین ہو گئی ہیں۔
اب میں حضر ت کے شخصی مکارم کے بہت سے پہلوؤں میں سے چند ایک کی طرف اشارہ کرتا ہوں جن سے آپ کی بھر پورزندگی کے کئی رخ سامنے آ سکتے ہیں۔
محنت وجانفشانی اور فرض شناسی
قدرت نے انہیں جو بے پناہ صلاحیتیں عطا فرمائی تھیں، ان میں سے ایک محنت شاقہ اور جہد ناتمام بھی ہے۔ فرمایا کرتے تھے کہ بسااوقات ایک لفظ یا ایک علمی نکتہ کی تہہ تک پہنچنے کے لیے مجھے گرمیوں کی شدید حبس انگیز راتوں میں اس قدر جانفشانی کرنا پڑی کہ شوق جستجو میں صبح ہو جاتی۔ میرے ذہن سے خلجان نہ جاتا تھا تا آنکہ مسئلہ حل نہ ہو جاتا۔
خیال آتا ہے کہ کیسے لوگ تھے جن کے دنوں کی تڑپ اور شبوں کا گداز مادی وسائل حیات کے حصول کے لیے نہیں، دین متین کے چھتنار درخت کی آبیاری کے لیے وقف تھا۔ آج امت کوان کاممنون احسان ہو نا چاہیے کہ ان کی کوشش پیہم اور پژوہش مسلسل سے ظاہری وسائل کی عدم دستیابی کے باوجود مسائل کی وہ تنقیح ہوئی کہ حق کھل کر سامنے آگیا اور باطل کو بھاگتے ہی بنی کہ اس کا مقدر ہی فرارہے۔ جاء الحق وزہق الباطل ان الباطل کان زہوقا۔ ضلالتوں کے پردے چھٹ جانے کے بعد جو چیز باقی رہ جاتی ہے، وہ حق ہی تو ہوتاہے۔
مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ گکھڑ سے مدرسہ نصرۃ العلوم آتے ہوئے راستے میں آپ کی گاڑی کسی پل کی parapet سے ٹکرا گئی۔ ڈرائیور کا تساہل تھا یا کوئی اورسبب۔ یہ خبر طلبہ میں بالخصوص اور دوسرے لوگوں میں بالعموم پھیل گئی۔ راقم ان دنوں حضرت کے زیرسایہ دورۂ حدیث کے درس بخاری میں شریک تھا۔ ابھی راستہ ہی میں تھا کہ اطلاع ملی کہ حضرت کو حادثہ پیش آ گیا ہے اور و ہ مدرسہ نہیں جا سکے۔ میں بھاگم بھا گ پریشانی کے عالم میں جاے حادثہ پر پہنچا۔ وہاں کوئی شخص موجود نہ تھا۔ ٹریفک معمول کے مطابق جاری تھی۔ ادھر ادھر سے معلوم کیا، پتہ نہ چلا۔ آخر ایک واقف حال نے بتایا کہ یہاں کچھ دیر پہلے ایک موٹر کار کے ساتھ حادثہ پیش آیا تھا۔ ان لوگوں کو ہسپتال لے گئے ہیں۔ سول ہسپتال سے معلوم ہوا کہ حادثہ ہوا توتھا مگر سنگین نہ تھا۔ اس ادھیڑ بُن میں تھا کہ حضرت کی عیادت کے لیے گکھڑ جاؤں یا مدرسہ پہنچوں۔ آخر فیصلہ کیا کہ پہلے مدرسہ ہی سے حادثے کے پورے احوال سے باخبر ہوکر حضرت کی رہایش گاہ پر گکھڑ حاضری دوں گا۔ امید وبیم کے عالم میں مدرسہ نصرۃ العلوم پہنچا۔ حیرت ومسرت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ کیا دیکھتا ہوں کہ کلاس باقاعدہ لگی ہوئی ہے، حضرت تشریف فرماہیں اور اقوال وفرمودات پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے موتی رول رہے ہیں۔
وے صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں
اب جن کے دیکھنے کو اکھیاں ترستیاں ہیں
سخت متعجب ہوا کہ کہاں حادثہ کی خبر بد سنی اور کوئی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ سخت پریشانی میں ادھر ادھر بھاگا پھرا، مگر یہاں آکر دیکھا توہر چیز معمول پر ہے۔ خاموشی سے ایک طرف گوشے میں بیٹھ گیااور معمول کے مطابق شریک درس ہوگیا۔ حضرت کی آواز میں قدرے کمزوری کے آثار تھے۔ درس وقت مقررہ پر ختم ہوا تو قریب گیا۔ حسب معمول شفقت فرمائی۔ اس روزکے حادثہ کے بارے میں استفسار کیا اور شریک درس ہونے تک کی ساری کہانی سنائی۔ متبسم چہرے کے ساتھ فرمایا، اللہ تعالیٰ نے خیروعافیت سے رکھا، معاملہ کچھ زیادہ سنگین نہ تھا۔ عرض کیا، آپ کچھ روز کے لیے چھٹی کر لیں تاکہ آرام مل جائے اور آثار نقاہت زائل ہو جائیں او ر پھر سے صحت یاب اور تازہ دم ہو کر تدریس کا آغاز کر سکیں۔ میری اس گزارش پر کچھ زیادہ توجہ نہ فرمائی۔ ہاں ہوں فرماتے رہے۔ چونکہ چوٹیں آئی تھیں، ایک دو دن تک ڈاکٹر کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے آرام فرمایا۔ ابھی اچھی طرح صحت یاب بھی نہ ہوئے تھے کہ اچانک معلو م ہوا کہ کل سے کلاس شروع ہے۔ آپ حسب معمول کلاس لینے لگے۔ مزید آرام کا مشورہ دیا گیا تو فرمایا کہ مجھے گھر بیٹھنے سے الجھن محسوس ہوتی ہے۔ تعلیم وتعلم میں جی لگا رہتا ہے اور اس میں خوشی محسوس کرتا ہوں۔ میرا احساس ہے کہ آپ فطرتاً معلم ومبلغ پید اکیے گئے تھے۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان واجب الاذعان پیش نظر رہتا کہ بعثت معلماً او راس شغف میں آپ کا دل مسرت وانبساط کے جذبات سے لبریز رہتا۔
شگفتگئ طبع
’المزح فی الکلام کالملح فی الطعام‘ کے مصدا ق طبیعت میں شگفتگی او ر خوش مزاجی کا عنصر موجود تھا۔ متانت وسنجیدگی کی یبوستوں میں ڈھلا ہوا مزاج نہ تھا۔ عام علماے دین کی طرح ہمہ وقت سنجیدگی کا پیکر بنے ہوئے زعم علم میں عام لوگوں سے کٹے ہوئے نہیں رہتے تھے۔ ہر خاص وعام کو خندہ پیشانی سے ملتے۔ بایں ہمہ وجاہت علمی ہنستے بھی اور ہنسابھی دیتے، اگرچہ شیخ کے ہنسنے میں تبسم غالب ہوتا اور ضحک وقہقہہ مغلوب۔ غالباً ۱۹۸۵ء کا واقعہ ہے، میں ان دنوں گورنمنٹ کالج شکرگڑھ سے گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ آ چکا تھا۔ حضرت کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ ازرہ تفنن طبع فرمایا، آپ ماہانہ کتنی تنخواہ لیتے ہیں؟ غالباً ان دنوں زیادہ سے زیادہ کوئی تین ہزار روپے تنخواہ ہوگی۔ دوسرا سوال کیا کہ آپ روزانہ کتنے پیریڈ پڑھاتے ہیں؟ عرض کیا، کبھی تین اور کبھی off session میں دو یا ایک پیریڈ روزانہ۔ دونوں کا جواب پا کر محض شگفتگی طبع کی خاطر فرمایا، مجھے بھی کسی کالج میں پروفیسر تعینات کروا دیں۔ یہ محض تفنن طبع تھا اور بس۔ وجہ یہ تھی کہ اپنے نظام الاوقات اور شب وروز کی محنت شاقہ کا موازنہ کالج کے اساتذہ کے کام کے ساتھ کر کے محض انبساط طبع مقصود تھا۔ میں نے عرض کیا، حضرت! کالجوں میں کیا دھرا ہے۔ بڑی بڑی عالی شان عمارتیں ہیں۔ اتنے بڑے بڑے مکانوں کے مکین علمی طور پر آپ جیسی قدآور شخصیتوں کے سامنے تو بالکل کوتہ قد بونے لگتے ہیں۔ آپ جس ڈگر پر چل کر شب وروز مصروف تعلیم وتبلیغ ہیں، کالجوں اور بے چارے کالجوں والوں کو کہاں نصیب! کچھ دیر کے بعد بات کارخ کسی اور موضوع کی طرف پھر گیا۔
غمگساریوں سے لبریز دل
اللہ تعالیٰ نے آپ کو جہاں دل ودماغ کی خوبیوں سے نوازا تھا، ان میں ایک رقتوں اور غم گساریوں بھرا دل بھی تھا۔ ہر شخص آپ کے مشفقانہ رویے سے یہی سمجھتا تھا کہ آپ اسی کے لیے زیادہ شفیق ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ راقم کو تو بے حد شفقتوں سے نوازتے۔ تدریسی اوقا ت میں ان کا نظام الاوقات بندھا ٹکا ہوتا۔تاہم اس کے علاوہ جب کبھی بھی ملاقات کے لیے حاضری ہوتی، گھربار کے حالات دریافت فرماتے، بچوں کے بارے میں ضرور استفسار فرماتے۔
ایک دفعہ میری ایک چار سالہ بچی گم ہوگئی۔ دو دن اور ایک رات تک پوراگھر، اعزہ، اقربا، درد وغم کی صلیب پر لٹکے رہے۔ وہ کسی نہ کسی طرح لاہور پہنچ گئی اور لاہو ر ریڈیو اسٹیشن سے ملی جہاں ایک نہایت ہی ہمدرد انسان بچی کے وارثوں کی تلاش میں اعلان کروانے کے لیے اسے لے گیا۔ ادھرمیں بھی روتا رلاتا دردر کی خاک چھانتا لاہور ریڈیو اسٹیشن پہنچ گیا کہ بچی کی گمشدگی کا اعلان کرواؤں۔ ہم دونوں کی ملاقات ریڈیو اسٹیشن پر ڈرامائی طور پر ہو گئی۔ بچی کی گمشدگی کے واقعے سے مجھ پر قیامت گزر گئی۔ باپ بیٹی کا یوں ملنا معجزے سے کم نہ تھا۔ بچی مجھے دیکھ کر بے تابانہ مجھ سے لپٹ گئی او ر میں ضبط گریہ نہ کر سکا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکرکیا۔ اس واقعے کی حضرت کو اطلاع ملی تو ڈھیروں دعائیں فرمائیں۔ اس کے بعد کی اکثر ملاقاتوں میں مجھ سے اس واقعے کے بارے میں دریافت فرماتے رہتے، حتی کہ بچی جوان ہوگئی او ر اپنے گھر چلی گئی، وہ بحمداللہ صاحب اولاد ہے مگر میرے حضرت پھر بھی میرے ساتھ ہمدردی فرماتے اور فرمایا کرتے، بچھڑ جانے کے ان دو دنوں اور ایک رات کو یاد کر کے آپ کے احساسات واضطراب کو محسو س کرتا ہوں کہ اللہ نے والدین کے دل میں اولاد کے لیے بے پناہ شفقتیں بھر دی ہیں۔ آپ میرے ساتھ شریک اضطراب ہوتے اور میرے بچوں کے لیے خصوصی دعا فرماتے۔ آج میں جو کچھ ہوں اور میرے بچے جس وقار واعتبار کی زندگی بسر کر رہے ہیں، میں سمجھتاہوں کہ میرے والدین کے بعد حضرت کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔
عمومی کردار
طبیعت میں سادگی، مزاج میں انکسار، اخلاق میں ملنساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
فروتنی است دلیل رسیدگان کمال
کہ چوں سوار بمنزل رسد پیادہ شود
اسلاف کی پاکبازانہ زندگیوں کا نہایت حسین ودل آویز عکس تھے۔ تقویٰ وطہارت، زہد وورع اور فقر وقناعت کی خوب صورت تصویر تھے۔
دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوے اسد اللہٰی
تقریر کرتے تو لچھے دار لفظوں اور گھن گرج سے کام نہیں لیتے تھے، ان خطیبوں کی طرح جن کی زبان پر فصاحت وبلاغت کے دریا بہہ رہے ہوں، مگردل لذت شوق سے محروم ہوں۔
لبھاتا ہے دل کو کلام خطیب
مگر لذت شوق سے بے نصیب
یہاں ٹھہراؤ تھا، رچاؤ تھا، دلائل وبراہین اور منطقی در وبست کی آراستگی تھی۔ لفظوں کی شعبدہ بازیوں اور جملوں کی قلابازیوں کے بجائے یہاں علمی حقائق سے لبریز وعظ ہوتے۔ نہ زبان وبیان کی مسجع ومرصع رنگینیاں، نہ حرف وصوت کی سنگینیاں۔ یہاں تو طبیعت سادہ، لفظ سادہ، بیان سادہ، طرز ادا سادہ، مگر یہ سادگی اپنے اندر بے پناہ رعنائیاں لیے ہوتی۔ بولتے تو موتی رولتے، قرآن وحدیث کے سمندروں سے چن چن کر ایسے بے شمار گہر ہاے آبدار اور ان گنت لولوے لالا پیش کرتے کہ عوام کے لیے بھی ان میں دلکشی اور پند پذیری کا سامان ہوتا اور اہل علم کے لیے بھی ان میں علم وحکمت اور عرفان وآگہی کے بے شمار پہلو ہوتے۔ تشنگان علم وآگہی دیار وامصار سے کھچے چلے آتے اور زبان حال سے تو کیا، زبان قال سے پکار اٹھتے:
لما سمعت الناس شدو ا رحالہم
الی بحرک الطامی اتیت بجرتی
کم وبیش پون صدی تک علم وعرفان کی تلاش کا یہ راہی باد یہ پیمائی کرتے ہوئے اس منزل تک آ پہنچا جہاں رہروانِ راہ محبت کے لیے گھنی چھاؤں والا شجر سایہ دار بن چکا تھا۔ کتنے ہی آبلہ پا مسافروں نے اس چھتنار درخت کے سایے میں اپنی دکھتی پیٹھ کو سہار ا دیا۔
کتنے ہی راہیوں نے سکھ پایا
اے گھنے پیڑ تیری چھاؤں میں
آ پ کے چھوڑے ہوئے قیمتی علمی ورثے کے اولاً توان کے صلبی ورثہ واقربا ہی وارث ہیں جو بحمداللہ اس دشت کے سیاح ہیں۔ بعدا زاں جس طرح العلماء ورثۃ الانبیاء ہوتے ہیں، اس طرح اس خرمن علم وحکمت کے وہ تمام خوشہ چین جانے کب کب، کہاں کہاں،کون کون لوگ مستفید ومستفیض ہوکر اس میراث کے وارث بنیں گے اور اس روشنی کو آگے پھیلاتے رہیں گے۔
کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ اللہ نے ایک ہی شخص میں جہاں بھر کی خوبیاں بھر دی ہیں اور یہ اللہ کی قدرت سے کچھ بعید نہیں۔
لیس علی اللہ بمستنکر
ان یجمع العالم فی واحد
ایک شخص میں گفتار واظہار کی اس شان کی خوبیاں ہوتی ہیں کہ وہ بولتا ہے تو ایک زمانہ اپنی تمام تر سماعتوں کو سمیٹے ہوئے اس کی جنبش لب کا منتظر رہتا ہے۔ انتظار رہتا ہے کہ وہ بولے اور ہمہ تن گوش ہو کر اس کی رسیلی گفتگو سے حظ اندوز ہوں اور اس سے بات کرنے کا موقع مل جائے تو زہے نصیب!
سنا ہے بولیں تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں
مگرجب اس شخص کو قریب سے دیکھا تو گفتار کا غازی تو پایا مگر اس کے کردار سے گھن آنے لگی۔ قال اور حال میں فرسنگوں کا فاصلہ محسوس ہوا۔ اس کے قال کی مزے د اریاں اس کے حال کی بدمزگیوں میں ڈھل گئیں اور اس سے دلی نفرت اور طبعی کراہت محسوس ہونے لگی۔ تاریخ میں اس قبیل کے کئی شاعر، فلسفی، بے عمل عالم، بڑے بڑے موجد ودریافت کنندگان او ر سائنس دان بآسانی تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ مگر یہاں عالم ہی دوسرا ہے۔ قال، قال اللہ وقال الرسول کی حسن کاریوں کے سانچے میں ڈھلا ہوا اور حال میں شفاف سیرت کی جھلک جھمک اور مضبوط کردار کی چمک دمک نمایاں نظر آتی ہے۔ بات سن کر آدمی گرویدہ ہو جاتا، مل کر حسن اخلاق او ر حسن سیرت کامعترف ہو جاتا، جتنا جتنا تعلق خاطر بڑھتا جاتا، اتنا اتنا حسن عقیدت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا۔ سراپا استعجاب بن کر دل پکار اٹھتا ہے۔
دیدہ ودل تمام آئینہ
آدمی اور اس قدر شفاف!
پایان کار یہی کہوں گا کہ اللہ جل مجدہ مرحوم کو اپنے سایہ غفران میں ڈھانپ لے۔ جس منہاج پر انہوں نے بھرپور علمی، تبلیغی، اخلاقی، روحانی، تصنیفی، اصلاحی وفلاحی زندگی گزاری، ہر شخص کی زبان ان کی صالحیت فکر ونظر اور صلاحیت دل ودماغ کی مداح ہے۔ ہمیں یقین کامل ہے کہ وہ اپنے رب کے ہاں جزاے جزیل کے مستحق ہیں۔
بجا کہے جسے دنیا، اسے بجا سمجھو
زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھو