پروفیسر غلام رسول عدیم

کل مضامین: 15

ظلماتِ وقت میں علم و آگہی کے چراغ (۲)

مدرسہ نصرۃ العلوم۔ چوک گھنٹہ گھرسے مغرب کی جانب مسجد نور سے ملحق مرسہ نصرۃالعلوم ضلع گوجرانوالہ کی عظیم دینی درس گاہ ہے ۔ ۱۳۷۱ء بمطابق۱۹۵۲ء کومدرسہ کی بنیاد رکھی گئی ۔مدرسہ کی سہ منزلہ عظیم لشان عمارت ۴۷کمروں پرمشتمل ہے ،جن میں ۱۹۰طلباء کی اقامتی گنجائش ہے۔ مدرسہ کے مہتمم حکیم صوفی عبدالحمیدسواتی (فاضل دارالعلوم دیوبند،فاضل دارالمبلغین لکھنؤ، مستندنظامیہ طبیہ کالج حیدرآباددکن )ایک عالم باعمل اور درویش صفت انسان ہیں۔ یوں تومدرسہ انجمنِ نصرۃ العلوم کے تحت چل رہاہے مگرمہتمم کی پرکشش شخصیت مدرسے کے جملہ انصرامی امور کامحورومرکزہے۔ وہ...

ظلماتِ وقت میں علم و آگہی کے چراغ (۱)

تعلیم وہ عظیم کام ہے جس پر خداکے سب سے زیادہ برگزیدہ بندے مامور ہوئے۔ ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر جناب خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء اس منصبِ جلیل پر فائز رہے ہیں اور تعلیم وہ اعلیٰ کام ہے جس کے ذریعے رسولانِ برحق کے سچے فرمانبرداروں نے ہر دور میں نورِ نبوت سے فیضیاب ہو کر اپنی زندگیوں کو منور کیا۔ فضیلت علم کے باب میں سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات میں خاصا وقیع مواد موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسانی زندگی مختلف خانوں میں بٹتی گئی تو تعلیم وتعلم کا عمل بھی الگ الگ خانوں میں تقسیم کر دیا گیا ۔ ایک...

رمضان المبارک ۔ حسنات کا گنج گراں مایہ

اسلامی کیلنڈر کا نواں مہینہ جس کی فضیلتوں اور برکتوں کا شمار ممکن نہیں، واحد وہ مہینہ ہے جس کا ذکر قرآن مجیدمیں آتا ہے اور دو مناسبتوں سے آیا ہے۔ اول یہ کہ یہی وہ ماہ مقدس ہے جس میں نزول قرآن کا آغاز ہو ایا قرآن لوحِ محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل کیا گیا اور پھر حکمتِ الٰہی اور ضرورتِ بشری اور حکمتِ خداوندی سے ۲۲؍سال اور ۷؍ ماہ اور ۱۴؍دن کے عرصے میں نجماًنجماً، آیۃً آیۃً، سورۃً سورۃً، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اترتا رہا۔ شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ (البقرۃ۲:۱۸۵)۔ ’’رمضان وہ مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔‘‘...

اک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی

’’لماذا تبکی الاعین یا حبیبی، لماذا صارت افئدۃ ھواء؟‘‘ جس چیز کا آغاز ہے، اس کا انجام بھی ہے۔ تین چیزوں کے بارے میں کسی دور میں کسی بھی جگہ کبھی دورائیں نہیں رہیں: ایک یہ کہ موت ایک اٹل، حتمی اور یقینی امر ہے۔ نہ اس سے راہ فرار، نہ گریز کی کوئی سبیل۔ حتی یاتیک الیقین کے جاندار اور شاندار الفاظ اسی حقیقت کے یقینی ہونے پر دلالت کررہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اس کا وقت متعین ہونے کے باوجود اسے پردۂ خفا میں رکھا گیا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ گھڑی کون سی ہے جب موت کا فرشتہ روح قبض کرے گا۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ ایک لمحے کی نہ تقدیم ہوگی، نہ تاخیر۔ افراد کے لیے...

دجال ۔ ایک تجزیاتی مطالعہ

دینی موضوعات پر لکھنا اور تحقیق وتفحص سے لکھنا کنج کاوی بھی چاہتا ہے اور تلوار کی دھار پر چلنے کے فن کا بھی تقاضا کرتا ہے۔ تاہم اس پژوہش کاری اور احقاق حق کے لیے جان مارنے والے کو جب تخلیقی راہیں سوجھنے لگتی ہیں تو اس کی تحریر میں بلا کا بانکپن اور غضب کی دلکشی آجاتی ہے۔ اس کشش وانجذاب میں قاری بسا اوقات بے بس ہو کر رہ جاتا ہے۔ وہ از خود گرفتہ ہو کر محقق کے سامنے خود انداز وخود سپر ہو جاتا ہے اس لیے کہ اس کے سوا اس کے پاس چارۂ کار ہی نہیں رہ...

شرح خواندگی میں اضافہ اور دینی مراکز

صدر گرامی قدر اور سامعین کرام! علم و تعلیم کی فضیلت اور اہمیت کے بارے میں کسی دور میں بھی دو رائیں نہیں رہیں۔ جب سے انسان نے شعور کی آنکھ کھولی ہے انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی دوائر میں بھی تعلیم و تعلم کا عمل جاری رہا ہے۔ قرآنی مضامین میں علم اور اہلِ علم کی قدر افزائی خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ قرآن اہلِ علم کو رفیع الدرجات قرار دیتا ہے يرفع اللہ الذين آمنوا منكم والذين اوتوا العلم درجات ’’اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جن کو علم عطا کیا گیا بلند درجوں پر فائز کرے گا‘‘ (المجادلہ...

معجزہ کیا ہے؟

اسی عنوان سے پروفیسر لیونیاں نے ایک پوری کتاب لکھی ہے What is Miracle۔ اس میں پروفیسر موصوف لکھتے ہیں: ’’معجزے کے مسئلے نے قدیم ترین ایام سے لے کر اس وقت تک انسانی ذہن کو مشغول رکھا ہے۔ انسان کو ہمیشہ معجزات پر اعتقاد رہا ہے بلکہ باوجود متعدد مشکلات کے وہ معجزات سے متعلق اپنے اعتقادات پر ثابت قدم رہا ہے۔ یہ اعتقاد اور یقین مذہب کا ایک اہم عنصر ہے۔ پیغمبر اور ہادیانِ دین اکثر معجزے دکھاتے رہے ہیں اور ان کی صداقت کی آزمائش ان کی معجزات دکھانے کی قدرت ہی سے ظاہر ہوتی...

’’مغرب پر اقبال کی تنقید‘‘

اقبالیات کا موضوع اردو ادب کا معتد بہ حصے کو شامل ہے۔ اس موضوع پر لکھنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ ہر سال علامہ اقبال کے سوانح حیات اور فکر و فن پر لکھا جاتا ہے۔ یہ عمل تواتر کے ساتھ جاری ہے اور اس تسلسل میں انقطاع یا اختتام کی کوئی وجہ بھی نہیں۔ اس لیے کہ علامہ اقبال کی فکری جہتیں علومِ معاشرت کے ساتھ ساتھ الہامی علوم اور الٰہیات سے بھی متعلق ہیں۔ وہ ایک شاعر اور مفکر کی حیثیت سے ایک ترشے ہوئے ہیرے کی طرح بو قلموں شخصیت کے مالک تھے۔ لہٰذا ان کی عظیم شخصیت کی مثکال سے انعکاس پذیری اور ان کے فکر کی مشکوۃ سے اپنے فانوسِ بصیرت کو جگمگانے کےلیے استینار...

’’بنیاد پرستی‘‘ کی اصطلاح کا اصل پس منظر

پیشتر اس کے کہ اس بات کی وضاحت کی جائے کہ بنیاد پرستی کیا ہے، اس انگریزی لفظ کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے جس کا یہ ترجمہ ہے۔ بنیاد پرستی انگریزی لفظ Fundamentalism کا ترجمہ ہے۔ اس لفظ کے سامنے آتے ہی اصل لفظ کی کئی جہتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ لفظ Fundus کے معنی اناٹومی میں ہیں اساس، عضو، آنکھ کی گہرائی، وہ حصہ جس میں کوئی عضو واقع ہو۔ اصلاً یہ علمِ تشریح الاعضا (Anatomy) سے متعلق ہے اور اس کے معنی مقعد، قاعدہ، اساس یا پیندہ کے ہیں۔ اسی سے اسمِ صفت Fundamental بنا، جس کے معنی ہیں بنیادی، اساسی، اولیہ، اولی۔ چونکہ دورِ حاضر میں مختلف علمی سطحوں پر علوم و فنون کے ہزاروں...

مقالاتِ سواتی (حصہ اول)

مقالہ نگاری ایک نہایت وقیع فن ہے۔ اس میں مقالہ نگار حشو و زوائد اور طوالت اور اطناب سے بچ بچا کر نہایت اختصار و اجمال کے ساتھ اپنا مدعا بیان کرتا ہے۔ وہ لفظوں کے اسراف سے بچتا ہوا کم گوئی مگر نغز گوئی کے ساتھ اپنی بات کہتا ہے اور نہ صرف یہ کہ کہتا ہے بلکہ سے منواتا ہے۔ مقالہ ایک مدلل اور بادرکن تحریر ہوتی ہے۔ کسی موضوع پر کتاب لکھنا بھی ایک عمدہ کام ہے، مگر ایک جامع مقالے میں اپنے خیالات کو سمو دینا اور پھر اپنے نقطہ نظر کو بڑی چابک دستی سے دوسرے کے دل میں اتار دینا عمدہ تر کام بھی ہے اور مشکل...

شعرِ جاہلی اور خیر القرون میں ارتقائے نعت

شعر و شاعری عرب معاشرے کی ایک ناگزیر ضرورت تھی۔ قبائل و احزابِ عرب شاعر قبیلے کی آنکھ کا تارا، عزتِ نفس کا پاسبان اور غیرت کا نشان تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ آج جاہلی عرب کے بارے میں جو کچھ معلومات ہمارے پاس موجود ہیں اس کا بیشتر حصہ انہی شعراء کے ملکۂ سخن کا مرہونِ منت ہے۔ بادیہ نشین عرب فطرت کے نہایت قریب تھے اس لیے ان کے اطوار و عادات میں فطری بے ساختہ پن بدرجۂ اتم موجود تھا۔ تکلف، تصنع اور مبالغہ آمیزی ان کی عادت کے خلاف تھی۔ بات میں کھرا پن ضرور مگر کھراپن لہجے کی صداقت ہوتا ہے۔ آج کل کی اصطلاح میں انہیں حقیقت پسندانہ رویے کا مالک کہنا چاہیے۔...

دُشمنانِ مصطفٰی ﷺ کے ناپاک منصوبے

سچ کڑوا ہوتا ہے، یہ ہر دور کی مانی ہوئی حقیقت ہے۔ عرصۂ دہر میں جب بھی کوئی سچائی ابھری، ہر زمانے کے حق ناشناس لوگوں نے اس پر زبانِ طعن دراز کی بلکہ بسا اوقات مقابلے کی ٹھان لی۔ کیسے ممکن تھا کہ دنیا کی سب سے بڑی صداقت کا ظہور ہو اور وہ بغیر کسی پس و پیش کے تسلیم کر لی جائے۔ یہ صداقت سرزمینِ عرب سے ابھری تو ایک زمانہ اس کے درپے آزار ہو گیا۔ اپنے آپ کو منوانے کے لیے حقیقتِ ابدی کو مہینوں نہیں سالوں لگے تاہم ؏ ’’حقیقت خود منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی‘‘۔ تئیس سال میں یہ عظیم صداقت مانی گئی اور اس شان سے مانی گئی کہ دنیا انگشت بدنداں رہ گئی ؏ ’’فلک...

رشاد خلیفہ - ایک جھوٹا مدعئ رسالت

ایک اطلاع کے مطابق امریکہ کے ایک مشہور مدعی رسالت ڈاکٹر رشاد خلیفہ کو ۳۱ جنوری ۱۹۹۰ء رات دو بجے تیز دھار آلے سے قتل کر دیا گیا۔ یہ خبر انٹرنیشنل عربی اخبار ’’المسلمون‘‘ کے حوالے سے ہفت روزہ ختم نبوت کراچی بابت ۹ تا ۱۶ مارچ ۱۹۹۰ء (جلد ۸ شمارہ ۳۸) میں چھپی ہے۔ ڈاکٹر رشاد خلیفہ کا مسکن امریکہ کی ریاست Arizona (اریزونا) کا شہر Tucson (ٹوسان) تھا۔ وہ ایک عرصۂ دراز سے بظاہر قرآن و اسلام کی خدمت کر رہا تھا مگر بباطن اسلام کی جڑیں کاٹ رہا تھا تا آنکہ تین سال قبل رسالت کا دعوٰی...

اقبالؒ — تہذیبِ مغرب کا بے باک نقاد

مہینوں اور سالوں میں نہیں صدیوں اور قرنوں میں کسی قوم میں کوئی ایسی شخصیت جنم لیتی ہے جس کے لیے نسلِ انسانی عمروں منتظر رہتی ہے اور جب وہ شخصیت منقہ شہود پر جلوہ گر ہوتی ہے تو صدیوں اس کی یاد ذہنوں کو معنبر رکھتی، سوچوں کو اجالتی، فکر کی آبیاری کرتی اور دلوں کو گرماتی اور برماتی رہتی ہے ؎ ’’عمر ہا در کعبہ و بت خانہ می نالد حیات۔ تاز بزمِ عشق یک دانائے راز آید بروں‘‘۔ یہاں پیغمبرانِ الٰہی خارج از بحث ہیں کہ وہ چیدہ اور برگزیدہ ہوتے اور منصبِ اصطفاء و اجتباء پر فائز ہوتے ہیں، وہ از خود دعوتِ فکر و عمل لے کر نہیں اٹھتے مگر ان کے پاس اپنے بھیجنے...

شاہ ولی اللہ یونیورسٹی گوجرانوالہ

تعلیم نام ہے ایک نسل کے تجربات کو منظم و مرتب حیثیت سے دوسری نسل تک پہنچانے کا۔ درسگاہیں یہی کام انجام دیتی ہیں۔ گزشتہ صدی میں برصغیر میں تعلیمی نظام جس نہج پر چل رہا تھا اس میں ایک ایسی تبدیلی پیدا ہو گئی جو ایک طرف تو کسی حد تک خوشگوار خیال کی گئی مگر اس کا ایک پہلو بے حد کرب انگیز ثابت ہوا۔ ایک عرصے سے رائج علوم میں ہلچل پیدا ہوئی، ساتھ ہی افکار بدلے، اطوار بدلے اور زاویہ ہائے نظر میں ایک انقلاب آ گیا۔ ۱۸۳۴ء میں انگریزی کے سرکاری زبان قرار دیے جانے سے پرانے لسانی سانچے ٹوٹنے لگے۔ ۱۸۵۷ء کے آتے آتے انگریزی زبان و ادب نے برصغیر میں اپنا خاص مقام...
1-15 (15)