۷ جمادی الاولیٰ ۱۴۳۰ھ کو پاکستان کے مشہور عالم دین، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کے شاگرد رشید حضرت مولانا ابو زاہد محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
شب وروز کے ہنگاموں میں نہ جانے کتنوں کے بارے میں یہ خبر ملتی ہے کہ وہ ہم سے رخصت ہو گئے، لیکن ایسے بہت کم ہوتے ہیں جن کی وفات کی خبر دلوں پر بجلی سی گرا دے، جن کا آفتاب زندگی مشرق میں غروب ہو تو مغرب والے اندھیرا محسوس کریں اور جن کی یاد ان لوگوں کے دل میں بھی ہوک پیدا کر دے جو ان سے رشتہ داری کا رسمی رابطہ بھی نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ پر اپنی رحمتوں کی بارش برسائے، وہ ایسے لوگوں میں سے تھے جو اپنے خلوص وللہیت، مجاہدانہ عزم وعمل، زہد وتقویٰ، دینی غیرت وحمیت، اشاعت دین اور پرخلوص دینی خدمات کی وجہ سے علمی اور دینی حلقوں میں ہر دل عزیز شخصیت کے مالک تھے۔ جو شخص بھی علم دین، مذہب اسلام کی صحیح ترجمانی اور تعلیمات اسلام کو خیر القرون کے نہج پر سمجھنے کی کچھ بھی قدر وقیمت اپنے دل میں رکھتا ہے، اس کے لیے مولانا مرحوم رحمۃ اللہ علیہ کی وفات ایک عظیم سانحہ ہے۔
فضلاے دار العلوم دیوبند میں جن اہل علم اور بااخلاص علما نے برصغیر خصوصاً خطہ ہندستان، پاکستان وافغانستان کو اپنے ایمان ویقین اور دین کی صحیح ترجمانی کر کے جگمگایا تھا، اب وہ ایک ایک کر کے کافی تعداد میں رخصت ہو چکے ہیں۔ ہم لوگوں سے رخصت ہو کر ہر جانے والا اپنے پیچھے ایسا مہیب خلا چھوڑ کر جا رہا ہے جس کے پر ہونے کی امید نظر نہیں آتی۔ جہاں تک علم، حروف، نقوش اور فنی مہارت کی بات ہے تو اس کے شناوروں کی آج بھی زیادہ کمی نہیں ہے اور امید ہے کہ بعد میں بھی اس کی زیادہ کمی محسوس نہ ہوگی، لیکن دین کا وہ ٹھیٹھ مذاق ومزاج، خلوص وللہیت، تقویٰ وطہارت، سادگی وقناعت اور تواضع وانکساری کا وہ البیلا انداز جو کتابوں سے نہیں بلکہ بزرگوں کی نظر کرم اور ان کی صحبت سے حاصل ہوتا ہے، اب مسلسل سمٹ رہا ہے اور اس خسارے کی تلافی کا کوئی راستہ بھی نظر نہیں آ رہا ہے۔
حضرت مولانا سرفراز خان صفدر کی پیدایش اپنے آبائی وطن میں ۱۹۱۴ء میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے قرب وجوار میں حاصل کی، علم حدیث کے لیے دار العلوم دیوبند کا سفر کیا اور دار العلوم دیوبند میں داخلہ لے کر حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ اور شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب امروہویؒ جیسی نابغہ روزگار ہستی کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا۔ دار العلوم دیوبند سے آپ نے غالباً ۱۹۴۱ء میں فراغت حاصل کی ہے۔ حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ دار العلوم دیوبند کے ایام طالب علمی کے بارے میں ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنے دور طالب علمی کا مختصر مگر بہترین حصہ حضرت شیخ الاسلام اور اساتذۂ دار العلوم دیوبند کی خدمت میں گزارا، ان سے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم حاصل کی اور ساتھ ساتھ ان اساتذہ کی مشفقانہ تربیت سے فیض یاب ہونے کی کوشش کی۔ (شیخ الاسلام نمبر، شائع کردہ مدرسہ اسعد بن زرارہؓ پاکستان)
حضرت مولانا مرحومؒ دار العلوم سے فراغت کے بعد اپنے علاقہ میں گئے اور وہیں خدمت دین میں لگ گئے۔ آ پ کا مشغلہ درس وتدریس اور تصنیف وتالیف کا رہا۔ آپ ایک عرصہ تک مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے شیخ الحدیث رہے۔
حضرت مولانا مرحوم کو کبھی دیکھنے کا موقع نصیب نہ ہوا اور نہ براہ راست ان سے کبھی گفتگو ہوئی۔ ہاں، ان کی تصنیف کردہ کتابوں سے استفادہ کرنے کا خوب موقع ملا۔ خصوصاً دار العلوم دیوبند کی مایہ ناز انجمن ’’انجمن تقویۃ الاسلام شعبہ مناظرہ‘‘ سے منسلک ہونے کے بعد اکثر فرق باطلہ کے رد میں پروگرام کی تیاری کے لیے حضر ت مولانا مرحومؒ کی کتابیں نظر سے گزریں۔ حضرت مولانا مرحوم فرق باطلہ اور اسلام کے خلاف اٹھنے والے ہر فتنہ کے خلاف ہمیشہ تیار رہتے تھے اور ان کے دنداں شکن جواب دینے کے لیے ہر وقت کمر بستہ رہتے تھے۔ حضرت مولانا کی تصانیف اس کی واضح دلیل ہیں۔ آپ نے اسلام مخالف عقائد رکھنے والوں اور اسلامی تعلیمات کو مسخ کر کے پیش کرنے والوں کے خلاف لکھا اور خوب لکھا۔ حدیث نبوی پر بھی آپ نے قلم اٹھایا ہے اور ترمذی شریف کی بہت ہی عمدہ اور جامع شرح لکھی ہے۔
کل تصانیف کی تعداد تقریباً تین درجن ہے۔ اخیر عمر کی تصانیف جو ابھی دیوبند نہیں پہنچی ہیں، بندہ کو ان کا علم نہیں۔ اسلامی تعلیمات، عقائد اسلام، شرک وبدعت کے خلاف، اندرون خانہ اسلامی تعلیمات کو مسخ کرنے والوں کے خلاف اور حدیث نبوی پر آپ نے کافی علمی ورثہ چھوڑا ہے۔ مرحوم کی ہر کتاب اپنے موضوع پر مکمل، جامع، واضح اور مدلل ہے۔ ان کی ہر کتاب لائق استفادہ ہے۔ اسلامی لبادے میں رہ کر اسلام کو نقصان پہنچانے والوں سے پردہ اٹھانے، اندرون خانہ سازش کرنے والوں کو سمجھنے اور اسلامی تعلیمات میں شرک وبدعت کی آمیزش کرنے والوں کے خلاف تحریک چلانے کے لیے مرحوم کی کتابیں کافی کارآمد ہیں۔ ان کتابوں میں تسکین الصدور، ازالۃ الریب، انکار حدیث کے نتائج، الکلام المفید، احسن الکلام، آنکھوں کی ٹھنڈک، راہ سنت وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ابھی گزشتہ سال آپ کی تصنیف ’’انکار حدیث کے نتائج‘‘ پر کل ہند تحفظ ختم نبوت دار العلوم دیوبند کے نائب ناظم حضرت مولانا شاہ عالم گورکھپوری نے منکرین حدیث کے تعارف پر مشتمل ایک قیمتی مقدمہ شامل کر کے شاہی کتب خانہ دیوبند سے شائع کیا ہے جس سے کتاب کی افادیت دوبالا ہو گئی ہے۔ بندہ اسی کتاب کے مطالعہ میں مصروف تھا کہ حضرت مولانا شاہ عالم صاحب کے ذریعے ہی ہمارے ممدوح کے انتقال کی خبر ملی جس سے یہ امید ہمیشہ کے لیے منقطع ہو گئی کہ دنیا میں حضرت ممدوح سے کہیں ملاقات ہو سکے گی۔
علم وفضل کی دنیا میں کبھی کمی نہیں رہی، لیکن اخلاص اور دین کی سچی تڑپ وہ جنس گراں ہے جو کہیں خال خال ہی ملتی ہے۔ اس اعتبار سے مولانا مرحوم کی وفات ملت کا ایسا نقصان عظیم ہے جس کی تلافی ممکن نہیں۔ مولانا کے ساتھ موجودہ صدی کی ایک تاریخ رخصت ہو گئی۔ وہ ان مقدس ہستیوں میں سے تھے جن کا صرف وجود بھی نہ جانے کتنے فتنوں کے لیے آڑ بنا رہتا تھا۔ اللہ تعالیٰ مولانا پر اپنی رحمتیں نازل فرما کر دار آخرت کا سکون اور چین نصیب فرمائے اور مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین
(بشکریہ ہفت روزہ الجمعیۃ، نئی دہلی)