دنیا میں آنے والا ہر انسان اللہ جل شانہ کی نعمتوں سے فیض یاب ہوتا ہے اور ہر انسان، بالخصوص اہل ایمان کا حق ہے کہ ان نعمتوں کے شکرانے کے طور پر اللہ تعالیٰ کے احکام کو بجا لائیں اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کریں اور اس کے لیے خصوصی محنت کریں۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنھوں نے دنیا میں اپنی آمد کے مقصد: ’وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون‘ کو پہچانا۔ انھی ہستیوں میں سے ایک ہستی ہمارے نانا جان حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کی تھی جنھیں آج دنیا امام اہل سنت کے لقب سے یاد کرتی ہے۔
یوں تو ان کا ہر عمل ہمارے لیے بہترین نمونہ تھا اور وہ ان ہستیوں میں سے تھے جن کا سونا جاگنا، کھانا پینا اور ہر کام اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی کی خاطر ہے، تاہم یہاں میں صرف چند باتوں کا ذکر کروں گی۔
کھانے سے پہلے اور بعد میں نانا جان کے ہاتھ دھلوائے جاتے تھے اور اس خدمت کے لیے ہماری آپس میں لڑائی ہوا کرتی تھی۔ جب نانا جان نے مصنوعی دانت لگوائے اور اس کے بعد ہم پہلی مرتبہ گکھڑ گئے تو میں کھانے کے بعد نانا جان کے ہاتھ دھلوانے کے لیے برتن لے کر گئی۔ سامنے ٹرے میں ان کے مصنوعی دانت بھی پڑے ہوئے تھے۔ میں نے پریشان ہو کر نانا جان کی طرف دیکھا تو وہ بہت سنجیدہ تھے۔ میں نے پوچھا کہ نانا جان، یہ دانت کس کے ہیں؟ فرمانے لگے کہ میرے ہیں، لیکن یہ دال صحیح طرح گلی نہیں تھی، اس لیے چباتے ہوئے میرے دانت اتر گئے ہیں۔ پھر جب میرا پریشان چہرہ دیکھا تو مسکرانے لگے اور فرمایا کہ یہ میرے مصنوعی دانت ہیں جنھیں دھونے کے لیے اتارا ہے۔ چنانچہ میں نے دانتوں کو دھو دیا اور اس کے بعد جتنے دن بھی وہاں رہی، روزانہ انھیں دانت دھو کر دیتی رہی۔
نانا جان کے گھر میں ضرورت کی ہر چیز موجود ہوتی تھی تاکہ بوقت ضرورت کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے، لیکن وہ فضول خرچی کے سخت خلاف تھے۔ ایک مرتبہ کسی کام سے اوپر کی منزل پر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ کمرے کا پنکھا تو چل رہا ہے، لیکن کوئی فرد موجود نہیں۔ فرمایا کہ دنیا میں تو بجلی کا ضیاع ہے ہی جس کا بل میں ادا کر دوں گا ، لیکن آخرت میں جب پوچھ ہوگی تو کون جواب دے گا؟
نانا جان کے حوالے سے میری زندگی کا ایک خوب صورت واقعہ یہ ہے کہ جب میں نے بخاری شریف شروع کی تو میرا اصرار تھا کہ پہلا سبق نانا جان سے پڑھنا ہے۔ جامعہ حنفیہ جہلم کے سالانہ جلسے کے موقع پر ناناجان تشریف لائے تو میرے اصرار پر امی جان نے نانا جان سے عرض کیا کہ یہ بخاری شریف کا آغاز آپ کے پاس کرنا چاہتی ہے، اس لیے آپ اسے پہلا سبق پڑھا دیں۔ فرمایا کہ میں تو عبارت سنتا ہوں۔ میں ڈر رہی تھی کہ کہیں کوئی غلطی نہ ہو جائے۔ بہرحال ابو جان اور امی جان کی موجودگی میں، میں نے حدیث جبریل پڑھی اور الحمد للہ عبارت صحیح پڑھی۔ بعدمیں نانا جان کی طرف دیکھا تو آپ خوشی سے مسکرا رہے تھے۔
میرے شوہر قاری غلام حسن صاحب جب تعلیم سے فارغ ہوئے تو ہم نانا جان کی ملاقات کے لیے ان کے پاس گئے۔ انھی دنوں گکھڑ کے قریب کولار نامی گاؤں سے کچھ حضرات ان کے پاس اس غرض سے آئے تھے کہ انھیں مدرسہ کے لیے معلم او رمعلمہ کی ضرورت ہے۔ نانا جان نے ہمیں فرمایا کہ آپ لوگ وہاں چلے جائیں کیونکہ ان کا بہت اصرار ہے۔ پھر جب ہم کولار جانے سے پہلے ان کے پاس ملاقات کے لیے گئے تو فرمایا کہ دین کی خدمت بغیر کسی دنیاوی غرض کے کرنا اور وہاں کے لوگوں کو ان کے مزاج کے مطابق ڈیل کرنا۔ فرمایا کہ سختی کے بغیر نرمی سے ان کی اصلاح ایسے طریقے سے کرنا جس سے وہ اپنی توہین محسوس نہ کریں۔ یہ بھی فرمایا کہ نورانی قاعدہ دل جمعی سے پڑھانا کیونکہ اکثر علما اور قرا حضرات نورانی قاعدہ پڑھانے کو اپنی توہین تصور کرتے ہیں، لیکن میرے نزدیک سب سے اہم سبق یہی ہے۔ یہ بھی فرمایا کہ عقائد کی اصلاح پر خاص توجہ دینی ہے اور اس کے مقصد کے لیے تعلیم الاسلام اور بہشتی زیور پڑھانا ہے۔
جب بھی ان کی خدمت میں حاضری ہوتی تو یہ ضرور پوچھتے کہ کون کون سے اسباق پڑھاتی ہو؟ میرے بتانے پر خوشی کا اظہار کرتے۔ کولار میں قاعدہ، ناظرہ قرآن پاک، حفظ قرآن اور درس نظامی کے سال اول، دوم وسوم کے علاوہ ترجمہ قرآن مجید کی تین کلاسیں بھی میرے ذمے تھیں۔ میں نے جب تفصیل بتائی تو نانا جان کہنے لگے کہ کیا سب کا حق ادا کر لیتی ہو؟ میں نے کہ الحمد للہ آپ کی دعا سے پوری کوشش کرتی ہوں۔ اس پر فرمایا کہ اپنی صحت کا بھی خیال رکھنا کیونکہ صحت ہو تو سب کچھ ہو جاتا ہے۔ پھر ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ دین کی خدمت کی توفیق عطا فرمائیں۔
میرے شوہر قاری غلام حسن صاحب کا تعلق چھچھ کے علاقے سے ہے، چنانچہ ان سے استفسار فرماتے کہ چھچھ میں اس وقت وقت کون کون سے علما ہیں؟ وہ مولانا یوسف شاہ صاحب ہارون والے، مولانا حافظ رفیع صاحب اور مولانا سیف الرحمن صاحب حیدر والے کا نام لیتے تو نانا جی اپنے اساتذہ کا تذکرہ کرتے۔ ایک مرتبہ فرمایا کہ ہم علماے چھچھ کی وجہ سے اس علاقے کو سمرقند اوربخارا سے تشبیہ دیا کرتے تھے۔ دعا کیا کرتے تھے کہ جو علما موجود ہیں، اللہ تعالیٰ انھیں عمر دراز اور دین کی توفیق کی خدمت عطا کرے۔
جب ہم کولار میں قیام پذیر تھے تو میرا ایک سالہ بیٹا محمد حیان فوت ہو گیا۔ سردی کے موسم میں رات تقریباً گیارہ بجے کا وقت تھا۔ ہم گکھڑ پہنچے تو نانا جان آرام فرما رہے تھے۔ ہم نے ان کو جگانا مناسب نہ سمجھا اور اٹک کے لیے روانہ ہوگئے۔ واپسی پر بھی جلدی کی وجہ سے ان سے ملے بغیر کولار چلے گئے تو نانا جان نے ماموں جان راشد سے کہہ کر مجھے بلوایا اور تسلی دی۔ مجھے دیکھ کر اپنے آنسو صاف کرنے لگے اور اتنی پیاری بات کہی کہ میرے دل سے غم کی کیفیت دور ہونے لگی۔ فرمایا کہ لوگ دنیا کی سندوں کے پیچھے بھاگتے ہیں، تم تو جنت کی سند حاصل کر چکی ہو۔ یہی الفاظ مجھے پیر طریقت حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائے تھے کہ تمہارے لیے تمھارا فوت شدہ بیٹا جنت کی سند ہے۔
نانا جان ہمارے دادا جان حضرت مولانا قاضی عبد اللطیف صاحب جہلمیؒ کا بہت احترام کرتے تھے۔ ہم جب بھی چھٹیوں میں ننھیال جاتے تو نانا جان ان کا حال دریافت کرتے اور واپسی پر ہمیں نصیحت کر کے بھیجتے کہ حضرت قاضی صاحب کی خدمت اچھی طرح کرنا، ان کا جسم دبانا اور ان کا جو بھی کام ہو، ضرور کرنا۔
والد محترم قاری خبیب احمد عمرؒ کی وفات کے بعد پانچویں دن میں نانا جان کی خدمت میں حاضر ہوئی تو جیسے ہی مجھے کمرے میں داخل ہوتے دیکھا، کانپتے ہوئے بلند آواز سے انا للہ پڑھنے لگے۔ میں نے تسلی دی کہ ناناجان! ہم سب حوصلے میں ہیں، آپ پریشان نہ ہوں۔ پھر امی جان کا پوچھا کہ وہ روتی تو نہیں؟ میں نے کہا کہ نہیں، وہ حوصلے میں ہیں۔ میرے ذہن میں یہ تھا کہ اگر بتایا تو نانا جان پریشان ہوں گے۔ کہنے لگے کہ نہیں، وہ روتی ہے۔ تم مجھے تسلی دینے کے لیے ایسا کہہ رہی ہو۔ بار بار یہی بات دہراتے رہے۔ واپسی پر پھر کہا کہ امی کا خیال رکھنا۔
اپنے ان بزرگوں کے اندر جتنی بھی صفات ہم نے دیکھیں، ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم نے کبھی ایک بار بھی انھیں سنت اور احکام شریعت کے خلاف کوئی کام کرتے نہیں دیکھا۔ سفر وحضر میں، قیام وطعام میں اور شب وروز میں کبھی کوئی کام ایسا نہیں دیکھا جسے دینی لحاظ سے ان کی کمزوری کہہ سکیں۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کی اولاد کو ان کے نقش قدم پر چلائیں اور ہم سب کی کمزوریوں ا ور کوتاہیوں کے باوجود ہمیں ان کی حسنات کے سلسلے کو آگے بڑھانے کی توفیق دیں۔ اللہ کرے کہ ان کی اولاد میں بھی مولانا سرفراز خان صفدرؒ ، مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ ، مولانا عبد الحمید خان سواتیؒ ، مولانا قاضی مظہر حسینؒ اور مولانا قاری خبیب احمد عمرؒ جیسے عالم پیدا ہوں۔ آمین