بنام: حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری ؒ (کراچی)
باسمہ سبحانہ
محترم المقام شیخ الحدیث جناب حضرت مولانا محمد یوسف صاحب بنوری دامت برکاتہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ مزاج اقدس؟
غالباً ذوالقعدہ کی ابتدامیں حضرت مولانا محمد ادریس صاحب دام مجدہم کا ایک گرامی نامہ موصول ہوا تھا جس میں ماہ شعبان کے بینات کے ایک اہم مضمون کی طرف توجہ دلائی گئی تھی، مگر شومئی قسمت کہ کثرت مشاغل کی وجہ سے پڑھنے کاموقع نہ مل سکا۔ ایام اضحی کی تعطیلات میں پڑھنے کا عزم تھا، مگر پے در پے تکالیف اور علالت کی وجہ سے پھربھی پڑھنے کا وقت نہ نکال سکا۔ آج ہی اس کو پڑھا اور دل سے دعائیں نکلیں۔ راقم الحروف تو تقریباً بیس سال سے علماء کرام اور طلبہ عظام کی توجہ تصنیف وتالیف اور تحریر وانشا کی طرف مبذول کراتا رہا ہے مگر کاش کہ وہ اس کام کی تحسیس ہی کرتے اور معذرت ودعا سے یاد فرما دیتے۔ باوجودیکہ میرا مستقل کام تو تدریس وخطابت ہے مگر اور بھی کئی کام گلے کا ہار بنے ہوئے ہیں، تاہم محض اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور بزرگوں کی نیک دعاؤں کی برکت سے کافی عرصے سے بقدر ہمت وطاقت تالیف وتصنیف کا کام جاری ہے۔ آپ کے قلب مبارک پر اللہ تعالیٰ نے جو رائے القا فرمائی ہے، راقم کی عرصہ دراز سے یہ قلبی آرزو تھی مگر اپنے قریب کے حلقہ میں بھی راقم اس میدان میں تنہا وبے یار ومددگار تھا۔ اللہ تعالیٰ آنجناب کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ آپ نے وقت کی اہم ضرورت کو شاندار اور وزن دار الفاظ میں واقعات کی روشنی میں علماء کرام کے سامنے پیش فرمایا ہے۔ امید ہے کہ آپ کو من سن سنۃ حسنۃ کے مطابق اس تحریک کا ثواب ضرورملے گا اور بہت سے غافل اور بے خبر علماء کرام کو حقیقت حال سے آگاہی ہوگی جو دور حاضر کی بے پناہ آندھیوں کی طرف دیکھنے اور سر اٹھانے کی سعی بھی نہیں کرتے بلکہ اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے، جن آندھیوں کا ایک ایک جھونکا حدود اربعہ سے بزبان حال پکار پکار کر یہ کہہ رہا ہے کہ
ہواؤں کا رخ بتا رہا ہے، ضرور طوفان آ رہا ہے
نگاہ رکھنا سفینہ والو، اٹھی ہیں موجیں کدھر سے پہلے
اس کام کی راہ میں علماء کرام کی مالی پریشانیاں اس قدر زیادہ ہیں کہ اگر درس وتدریس کے مشغلوں سے نگاہ ہٹاتے ہیں تو پھر عالم اسباب میں ان کا کوئی دوسرا مشغلہ نہیں اور ہمارے مدارس میں بالعموم مدرسین حضرات کے سپرد اتنے اسباق ہوتے ہیں کہ وہ دوسرا کام کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ان کو مطالعہ اور تدریس ہی سے فرصت نہیں ہوتی۔ راقم الحروف کا اپنا یہ حال ہے کہ ’’سکہ بند‘‘ پاکستانی ہونے کے باوجود آج تک کراچی نہیں دیکھ سکا۔ بہرحال اس کار خیر کے محرک ہونے کی وجہ سے آپ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اہم مسائل کی ایک فہرست بنا کر ارباب بصیرت علماء کرام کو جتنے بھی ممکن ہو سکیں، کسی مناسب جگہ اورموزوں موقع پریکجا کرنے کی سعی فرمائیں اور اجتماعی صورت میں تبادلہ خیالات ہو اور پھر ان پر تحقیق ہو۔ مدارس عربیہ میں تحریر وانشا اور تصنیف وتالیف کی ضرورت کا احساس پیدا کرنے کا کام بھی کافی کاوش اور کوشش کے بعد ہی کامیاب ہو سکتا ہے۔
دعوات صالحہ میں یاد فرمائیں۔
والسلام
احقر ابوالزاہد محمد سرفراز
خطیب جامع مسجد گکھڑ
مدرس مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ
(ماہنامہ بینات کراچی ذو الحجہ ۱۳۸۴ھ)
بنام: حضرت مولانا عبدالحقؒ (اکوڑہ خٹک)
۱۴؍ اگست ۱۹۶۸ء
الیٰ محترم المقام جناب حضرت مولانا صاحب دام مجدکم
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
الحمدللہ کہ کتاب تسکین الصدور فی تحقیق احوال الموتی فی البرزخ والقبور طبع ہوچکی ہے۔ ایک نسخہ ہدیۃ بذریعہ رجسٹری پارسل ارسال خدمت ہے۔ اپنی زرّیں رائے مبارک اور قابل اصلاح مواضع کی اصلاح سے جلدی آگاہ فرمائیں تاکہ اور آرا کے ساتھ اس کی بھی جلدی طباعت ہوجائے اور تصدیقات کتاب کے ساتھ شامل کر دی جائیں۔ جتنی جلدی ہوسکے بہتر ہوگا۔ صحت ان دنوں بفضلہ تعالیٰ قدرے اچھی ہے۔ مزید دعا فرمائیں۔
والسلام
احقر محمد سرفراز گکھڑ گوجرانوالہ
بنام: مولانا مفتی محمد تقی عثمانی (کراچی)
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
منجانب ابی الزاہد
الیٰ محترم المقام حضرت العلام مولانا ............ صاحب عثمانی دامت برکاتہم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج سامی؟
آپ کا گرامی نامہ تو کافی دنوں سے موصول ہو چکا ہے، مگر راقم اثیم اس انتظار میں رہا کہ قدرے فرصت ملے تو استاد محترم حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے بارے ایک مقالہ تحریر کیا جائے کہ ایک طرف تو آنجناب کے وقیع حکم کی تعمیل ہو جائے اور دوسری طرف حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ سے اپنی عقیدت کا اظہار بھی ہو جائے، لیکن افسوس کہ فرصت نہ مل سکی۔ ع ما کل ما یتمنی المرء یدرکہ۔
بے حد مصروف ہونے کی وجہ سے قلم ہاتھ میں نہ پکڑ سکا۔ آج ہی خدا خدا کر کے تھوڑا سا وقت نکالا اور ناچار چند غیر مربوط جملے ارسال کیے جا رہے ہیں۔ فرصت ہوتی تو تسلی اور اطمینان سے کچھ عرض کیا جاتا، مگر مجبوری ہے اور ویسے بھی یہ حقیر کب اس قابل ہے کہ بزرگوں کی توصیف کے بارے میں کچھ لکھ اور عرض کر سکے۔ ولنعم ما قیل
نغمہ کجا ومن کجا ساز سخن بہانہ ایست
سوے قطار می کشم ناقہ بے زمام را
اگر یہ غیر مربوط جملے رسالہ البلاغ میں درج ہونے کے قابل ہوں تو درج فرما دیں۔ ع
گر قبول افتد زہے عز وشرف
اور اگر حذف واضافہ اور ترمیم کے بعد یا ناقص جملے اندراج کے قابل ہوں ، تب بھی آپ کو کلی اختیار ہے۔
رموز مملکت خویش خسرواں دانند
دعوات صالحات ومستجابات میں فراموش نہ فرمائیں۔ بفضلہ تعالیٰ راقم اثیم سراپا تقصیر بھی ہمہ وقت دعا جو ہونے کے ساتھ ساتھ دعاگو بھی رہتا ہے۔ حاضرین مجلس سے سلام مسنون ارشاد فرمائیں۔
والسلام
احقر ابو الزاہد محمد سرفراز از گکھڑ ضلع گوجرانوالہ
۱۸؍ جمادی الاولیٰ ۱۳۹۸ھ/۲۷؍ اپریل ۱۹۷۸ء
بنام: مولانا سمیع الحق (اکوڑہ خٹک)
(۱)
۶؍ ربیع الاول ۱۳۹۵ھ بمطابق ۲۰؍ مارچ ۱۹۷۵ء
الیٰ محترم المقام جناب برادرم حضرت مولانا سمیع الحق صاحب دام مجدہم
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟
عدیم 7 الفرصت ہونے کی وجہ سے آپ کا مایہ ناز رسالہ ’’الحق‘‘ مستقل مطالعہ کرنے کا موقع نہیں مل سکتا۔ کبھی کبھار کوئی مضمون سامنے آجاتا ہے۔ الحمدللہ تعالیٰ بہت اچھے انداز سے آپ اسے مرتب فرماتے اور مضامین لکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور مزید سے مزید احقاق حق اور ابطال باطل کی توفیق بخشے، آمین ثم آمین۔ ع اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
ماہ مارچ ۱۹۷۵ء کے شمارہ میں حضرت مولانا مفتی محمد فریدصاحب مدرس ومفتی دارالعلوم حقانیہ کا دعاکے بارے میں ایک مضمون ہے جو صفحہ۴۸ سے شروع ہوتا ہے اور صفحہ ۵۴ پر ختم ہوتا ہے۔7 اس میں بعض اُمور اپنے اکابر کی تحقیق اور عمل کے سراسر خلاف ہیں اور پھر صوبہ سرحد میں بعض بلکہ اکثر علاقوں میں اس پر اصرار کرنے والوں کے لیے حقانیہ کے مفتی صاحب کایہ فتویٰ سونے پر سہاگہ کا کام دے گا، اس لیے اکابر کی تحقیق کے پیش نظر خیرخواہی کے طور پر گزارش ہے کہ مفتی محمد فرید صاحب لکھتے ہیں ’’علماء پر مخفی نہیں کہ خیرالقرون میں ہیئت مروجہ سے (کہ امام اور قوم ہاتھ اٹھائیں) دعا کرنا معمول نہ تھا، نہ فرائض کے بعد اور نہ سنن مؤکدہ کے بعد، نہ اللہم انت السلام پڑھنے کے وقت اور نہ دیگر ذکر ودعا کرنے کے وقت۔ ومن ادعیٰ فعلیہ الدلیل ولن یأتوابہ ولوکان بعضہم لبعض ظہیرا‘‘ً (النح بلفظہٖ صفحہ ۵۲) نیز لکھتے ہیں ’’پس ہیئت اجتماعی کے ساتھ دعا کرنا فرائض کے بعد ہو یا رواتب کے بعد بدعت ہے جبکہ بطور التزام ہو اور بلاالتزام جائز ہے، البتہ افضلیت میں اختلاف ہے۔‘‘ (صفحہ ۵۴) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مفتی صاحب سُنن اور نوافل کے بعد اجتماعی صورت میں دعا ثابت کرنے کے لیے پہلے تو فرائض کے بعد کی دعا کو کمزور کرتے ہیں، پھر فرائض اور رواتب کے بعد کی اجتماعی طور پر دعا کو (جو ان کا مقصد ہے) ایک سا درجہ دیتے ہیں اور پھر بلاوجہ چیلنج بازی پر اُترآئے ہیں۔ مفتی ہند حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اللہ صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ کامشہور رسالہ نفائس مرغوبہ اسی مسئلہ کے مثبت اور منفی پہلو پر لکھا گیا ہے اور دیگر متعدد اکابر کی اس پر تصدیقات بھی ہیں، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ فرائض کے بعد اجتماعی صورت میں دعا جائز اور ثابت ہے اور سنن ونوافل کے بعد اجتماعی صورت میں دعا بدعت اور مکروہ ہے۔ راقم اس پر حوالے اور عبارات نقل کرنا تطویل سمجھتا ہے۔ اسی رسالہ کا مطالعہ کر لیا جائے اور نور الایضاح وغیرہ کی مجمل عبارت پر بنیاد رکھ کر اس بدعت کو ہر گز تقویت نہ پہنچائی جائے۔ وماعلینا الاالبلاغ۔
حضرت مولانا صاحب دامت برکاتہم کی خدمت میں سلام مسنون ارشاد فرمائیں اور دعوات صالحات کی التجاء پیش کریں۔ راقم اثیم بھی بفضلہ تعالیٰ دعاگو ہے۔ (حضرت مفتی محمد فرید صاحب نے بعض روایات کے ترجمہ میں بھی مطلب برآری سے کام لیا ہے، مگر ہمارا مقصد مناظرانہ موشگافیوں سے گریز کرتے ہوئے صرف اکابر کے مسلک کی حفاظت کرنا ہے۔ واللّٰہ علیٰ مانقول وکیل)
والسلام
احقر ابوالزاہد محمد سرفراز از گکھڑ
(۲)
باسمہ سبحانہ
۲۶؍ جمادی الاخریٰ ۱۴۰۱ھ بمطابق ۲۴؍جنوری ۱۹۹۰ء
من ابی الزاہد
الیٰ محترم المقام جناب حضرت العلام مولانا الحاج سمیع الحق صاحب دام مجدہم
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
اُمید ہے کہ آپ خیروعافیت سے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ عافیت ہی رکھے، آمین۔
محترم! جب آپ تشریف لائے تھے تو میں نے جمعیۃ کے دو دھڑوں میں مصالحت کی التجا کی تھی۔ آپ کے اندازوبیان میں خاص لچک تھی۔ اس کے بعد حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مدرسہ نصرۃ العلوم تعزیت کے سلسلہ میں حاضر ہوئے۔ چونکہ دن کا وقت تھا اور اخبارات میں بھی ان کی آمد کی اطلاع طبع ہوچکی تھی، بنابریں علماے کرام اور عوام کی خاصی تعداد جمع ہوگئی۔ تعزیت اور طلبہ کو تعلیم پر توجہ کرنے کے بارے میں چند منٹ بیان بھی ہوا۔ راقم الحروف نے اُن سے مصالحت کے بارے میں گفتگو کی۔ انہوں نے یہ تحریر لکھ کر مجمع کے سامنے پڑھی اور میرے حوالہ کی جس میں غیر مشروط طور پر شرکت کا اظہار کیا گیا ہے جس پر حاضرین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ مجمع برخاست ہونے کے بعد ایک بزرگ نے جومکہ مکرمہ سے آئے تھے، مجھے الگ کرکے یہ کہا کہ مولانا فضل الرحمن صاحب نے تو ایثاروقربانی کا ثبوت دے دیا ہے، مگر مولانا سمیع الحق صاحب آمادہ نہیں ہوں گے۔ میں نے تعجب کے طور پر کہا کیوں؟ انہوں نے کہا دیکھ لینا۔ پھر فیصل آباد کے ایک صاحب نے بھی ایسی ہی بات کہی جس سے راقم نے یہ انداز لگایا کہ اُن کا ذہن یہ بن چکا ہے یا بنا دیا گیا ہے کہ مصالحت میں رکاوٹ صرف مولانا سمیع الحق صاحب ہیں۔ راقم اثیم خود تو معذور ہے ورنہ اس اصلاح بین الناس کے کارِخیر میں خود حاضر ہوتا، اس لیے اپنے لڑکے قاری محمد اشرف ماجد کو خدمت اقدس میں بھیجا جا رہا ہے اور راقم اثیم کو آپ سے اُس ایثار اور قربانی سے زیادہ کی توقع ہے جس کا اظہار مولانا فضل الرحمن صاحب نے کیا ہے۔ اگر ایسی پُراُمید تحریر آپ عنایت فرمادیں تو پھر اگلا قدم اُٹھانے اور مصالحت میں کوئی دیر نہیں۔ بہت جلد یہ دینی قوت جمع ہوجائے گی اور اتفاق واتحاد کی برکت سے دینی اور دُنیوی کامیابی حاصل ہوگی۔ و ما ذلک علی اللہ بعزیز۔
حاضرین مجلس سے سلام مسنون ارشاد فرمائیں اور نیک دعاؤں میں نہ بھولیں۔ بفضلہ تعالیٰ یہ عاصی وخاطی بھی داعی ہے۔
والسلام
احقر محمد سرفراز از گکھڑ
بنام: مولانا ابو عمار زاہد الراشدی (گوجرانوالہ)
(۱)
باسمہ سبحانہ
منجانب ابی الزاہد
عزیزم زاہد سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ میرے پہلے دونوں خطوط مل چکے ہوں گے۔ ہم بحمد اللہ تعالیٰ ۲۲؍ دسمبر بروز جمعہ المسجد الحرام پہنچ چکے ہیں۔ خلاف معمول سرد ہوائیں چل رہی ہیں۔ لوگوں نے اپنے گرم کپڑے سوئٹر اور کوٹ وغیرہ پہن رکھے ہیں، اوپر کمبل اوڑھ رہے ہیں، لیکن ایک میں ہوں اور ایک دو بنگالی نظر آئے ہیں کہ وہ بھی میری طرح احرام میں ہیں۔ احرام کی وجہ سے ہم سر بھی نہیں ڈھانپ سکتے اور مچھر بھی بے پناہ ہیں۔ کل ہی دس ریال کی ایک مچھر دانی خریدی ہے اور کئی راتوں کے بعد گزشتہ رات کچھ نیند پڑی ہے۔ گھر سے آنے کے بعد آج تک اطمینان سے نیند نہیں آ سکی۔ تین دن کی مسلسل محنت سے اور دوستوں کی بے [حد] کوشش سے شعب ابی طالب میں بہت ہی کم قیمت کا مکان ساڑھے چھ سو ریال پر ملا ہے، یعنی پاکستانی تقریباً دو ہزار روپیہ، مگر پانی دیگر کئی مکانوں کی طرح اس میں بھی نہیں ہے۔
اس سال اشیا کی اتنی گرانی ہے کہ بیان سے باہر ہے اور مکانوں کی اس قدر دقت ہے کہ الحفیظ والامان۔ راقم جب پہلی دفعہ آیا تھا تو ہمیں فی کس ۸۹۲ ریال، ایک من گندم اور دس سیر چاول ملے تھے مگر اب فی کس صرف ۶۳۵ ریال ملے ہیں۔ لوگ اپنے ساتھ خوب راشن لائے ہیں۔ جو راشن نہیں لا سکے تو وہ دیگر سامان اور کم از کم گھی فروخت کے لیے لائے ہیں۔ ہمارے محترم حاجی محمد صادق صاحب تقریباً ایک من گھی لائے ہیں، لیکن راقم صرف دس سیر چاول اور تقریباً ۵ سیر گھی اور تقریباً اڑھائی سیر کھانڈ لایا ہے اور بس۔ مکان کے کرایہ کے علاوہ مدینہ طیبہ کا کرایہ ۱۰۲ ریال ، وہاں مکان کا کرایہ اور دیگر خرچہ، پھر عرفات اور منیٰ کا کرایہ ستر ریال، پھر جدہ کا کرایہ، پھر قربانی، یہی چیزیں اس رقم میں پوری نہیں ہو سکتیں۔ اس لیے راقم نے ایک وقت کی چائے بالکل چھوڑ دی ہے اور ایک وقت صرف قہوہ ہم پیتے ہیں اور کبھی کھانا بھی صرف ایک ہی وقت کھاتے ہیں۔ یہاں آٹا پاکستانی سکہ کے لحاظ سے ۸۵ روپے من ہے، آلو چار روپے سیر ہیں، پالک پانچ روپے سیر ہے، بھنڈی توری نو روپے سیر ہے۔ وعلیٰ ہذا القیاس یہی سلسلہ دیگر اشیا کا ہے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ۷؍ فروری کے جہاز سے واپسی ہو جائے۔ دعا کرنا اور اس وقت تک بھی ہمارا خرچہ پورا ہونا مشکل ہے۔ پچانوے فیصدی لوگوں نے ۳۳ سو روپیہ فی کس جمع کرایا تھا، ہمارا صرف ۲۹۸۲ ہے اور باقی وہ لوگ دیگر اشیا بھی ساتھ لائے ہیں۔ فروخت کر کے اپنا گزارا کر رہے ہیں اور ہر ایک کے پاس بڑا راشن ہے۔ آنے کے بعد یہ حقیقت کھلی ہے۔
راقم نے سب اہل خانہ، آپاں ایمنہ کے جملہ اہل خانہ، اوربٹ صاحب کے جملہ اہل خانہ، اور بے جی معراج صاحبہ کے جملہ اہل خانہ اور ماسی صاحبہ کے جملہ اہل خانہ اور ڈاکٹر صاحب کے جملہ اہل خانہ اور باقی تمام بزرگوں دوستوں اور عزیزوں کے لیے نام لے لے کر اور رو رو کر دعائیں کی ہیں، اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ سب مل کر میرے حق میں دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اتمام حج کی توفیق بخشے۔ احرام لمبا ہے اور موسم نامناسب ہے۔ راقم کا نزلہ وزکام زوروں پر ہے۔
میری طرف سے محترم جناب بٹ صاحب اور خالہ صاحبہ، ملک صاحب، ماسٹر اللہ دین صاحب، ماسٹر بشیر احمد صاحب اور بھائی محمد علی صاحب غرضیکہ تمام نمازیوں کو نمازوں اور جمعہ کے موقع پر سلام مسنون عرض کرنا اور بچوں کی تعلیم اور نماز کا خوب خیال رکھنا۔ حضرت مولانا قاری عبد الحلیم صاحب اور مولانا غلام علی صاحب اور قاری محمد انور صاحب اور قاری علی احمد صاحب اور قاری محمد ہاشم صاحب و قاری محمد رفیق صاحب و قاری محمد اسحاق صاحب وقاری محمد بشیر صاحب اور قاری محمد یوسف صاحب اور قاری محمد داؤد صاحب اور تمام قاری کلاس کے طلبہ اور دیگر جملہ طلبہ کو اور رائیکا میدا والے بزرگ کو اور محترم محمد ایوب صاحب ڈار کو اور اپنے جملہ اہل خانہ اورماسی صاحبہ اور آپاں ایمنہ کو جملہ اہل خانہ کو سلام مسنون عرض کرنا او ر خصوصاً بے جی معراج صاحبہ کو۔ بچوں کو نماز اور سبق کی بڑی تاکید ہے۔ دونوں کو تاکید ہے کہ گھر کے نظام کو ملحوظ رکھیں اور کفایت شعاری سے کام لیں۔ سب بچوں کو پیار۔
والسلام
احقر ابو الزاہد محمد سرفراز از شعب ابی طالب
معرفت معلم سعید کامل، محلہ اجیاد مکہ مکرمہ
(۲)
باسمہ سبحانہ
منجانب ابی الزاہد
عزیزم زاہد سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ میرے تمام خطوط مل چکے ہوں گے اور ان سے حالات معلوم ہو چکے ہوں گے۔ اس دفعہ راقم کو خاصی تکلیف رہی ہے۔ ایک تو طوالت احرام کی وجہ سے ۔ کبھی کبھی ایسی سرد ہوائیں چلتی ہیں کہ وطن میں جنوری میں چلنے والی ہواؤں کو بھی مات کر دیتی ہیں اور رات کو نیند نہیں آتی۔ سردی کی وجہ سے سر درد کرتا ہے اور حاجی صاحب اور دیگر ساتھی شاہی خراٹے مارتے ہیں۔ گکھڑ سے روانگی کے بعد آج تک ایک رات بھی اطمینان سے سونا نصیب نہیں ہوا۔ بہرحال سب دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ حج مبرور کی توفیق عطا فرمائے اور میرے گناہوں کا کفارہ بنائے اور محترم جناب محمد شفیع صاحب ڈار مرحوم کا حج قبول فرمائے۔ آمین۔
ویسے میں کوشش کر رہا ہوں کہ فروری کی ابتدا میں جہاز کی تبدیلی ہو جائے۔ اگر خدا نخواستہ اس میں کامیابی نہ ہو سکے تو پھر طلبہ کے اسباق وغیرہ کی وجہ سے سخت پریشانی ہے۔
جملہ اہل خانہ کو اور آپاں ایمنہ کے گھرمیں اور تمام حاضرین اور سامعین کو سلام مسنون عرض کرنا اور ہمارے حق میں سبھی دعا کرنا۔ ہم بھی اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے دعاگو ہیں۔ یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے عزیزہ زیب النساء کو بلال احمد عطا فرمایا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو صحیح معنی میں بلال بنائے، بغیر اس کے کہ وہ کالا ہو۔ لیکن تم نے یہ نہیں لکھا کہ زیب النساء گکھڑ میں ہے یا گوجرانوالہ میں ہے؟ تمام بچوں کو نماز اور تعلیم کی سخت تاکید ہے۔
محترم جناب قاری عبد الحلیم صاحب، مولانا غلام علی صاحب، قاری محمد انور صاحب اور باقی تمام قرا حضرات اور طلبہ اور نمازیوں کو جمعہ کے موقع پر سلام مسنون عرض کرنا۔ اخویم مولانا فتح علی شاہ صاحب کو بہت بہت سلام کہنا۔ قاری عبد الحلیم صاحب سے کہہ دینا کہ محترم جناب مرزا عبد اللطیف صاحب ان کے خسر بھی آئے ہوئے ہیں اور ان سے ملاقات ہوئی ہے۔
احقر ابو الزاہد محمد سرفراز
معرفت معلم سعید کامل مدنی
محلہ جیاد، مکہ مکرمہ
۲؍ذو الحجہ ۱۳۹۲ھ/ ۷؍ جنوری ۱۹۷۲ء
(۳)
باسمہ سبحانہ
من ابی الزاہد
الیٰ عزیز القدر زاہد الراشدی سلمہ اللہ تعالیٰ من الحساد والآفات
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تمہارا ارسال کردہ جمعیۃ علماے اسلام کا براے منظوری، منشور موصول ہوا۔ راقم اثیم ابتدا ہی سے جمعیۃ علماء اسلام سے وابستہ ہے اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی پر تازیست قائم رکھے۔ آمین ثم آمین۔ راقم کا ان دنوں دماغ مستحضر نہیں۔ علیل ہے۔ جمعیۃ علماء اسلام کا جو منشور ہے، وہ اپنی کوشش اور اخروی نجات کے لیے ضرور ہونا چاہیے، مگر اس میں بعض چیزیں تو محض شیخ چلی کے پلاؤ کا مصداق ہیں۔ عملاً ان کا پتہ چلے گا، کاغذی کاروائی سے کیا معلوم ہو سکتا ہے؟ اقلیتی فرقوں میں بعض مرتد اور زندیق ہیں، ان کے لیے شرعاً ہم مسلک لوگوں کے لیے تعلیمی ادارے قائم کرنے کی گنجایش کہاں ہے؟ اور پاکستان میں آزاد ومنصفانہ انتخابات کا تصور بھی نہیں ہو سکتا۔ اور اس میں اور بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو قابل فہم اور قابل عمل نہیں ہیں اور ’’۲۲ نکات کی روشنی میں ترامیم کی جائے گی‘‘ کے جملہ کی بھی سمجھ نہیں آتی۔ گویا یہ اس کے رد کے مترادف ہے۔ بینکوں میں مضاربت، سرکاری اداروں کا تعلیم نصاب اور زکوٰۃ وعشر کے نظام پر نظر ثانی ایک چیستان ہے۔
بہرحال اخلاص کے ساتھ کوشش کرتے رہنا چاہیے تاکہ نجات اخروی کا سامان ہو۔ حاضرین مجلس سے سلام مسنون عرض کرنا۔
والسلام
احقر ابو الزاہد محمد سرفراز از گکھڑ
۲۰؍ رجب ۱۴۰۸ھ/۱۰؍ مارچ ۱۹۸۸ء
(۴)
باسمہ سبحانہ
من ابی الزاہد
عزیزم زاہد سلمہ اللہ تعالیٰ
ہدیہ مسنونہ کے بعد عرض ہے کہ سنا ہے کہ دیوبندی بریلوی مصالحت ہوا چاہتی ہے۔ راقم کا وہ بیان جو جناب نیازی صاحب کے نکات کے جواب میں تھا، ابھی تک کیوں شائع نہیں ہوا؟ یہ بہت غیر ذمہ دارانہ حرکت ہے۔ چونکہ ان کے ’’کنزالایمان‘‘، ’’خزائن العرفان‘‘ اور مولویوں پر پابندی ہے، وہ اس بھنور سے اس حیلہ اور تدبیر سے اپنی راہ ہموار کرتے ہیں کہ ’’فیصلہ ہفت مسئلہ‘‘ کوسامنے رکھ کر اپنا کام ڈھیلے ڈھالے دیوبندیوں کے ذریعے نکالیں۔ اگر وہ اس پر فیصلہ چاہتے ہیں تو ہماری طرف سے یہ شرط ہوگی کہ وہ تحریر کر دیں کہ تمام علماے دیوبند مسلمان ہیں اور ہم ان کی تکفیر کرنے والوں کی تائید نہیں کرتے۔ اگر عبارات کا مسئلہ سامنے آئے تو ہماری طرف سے یہ شرط ہے کہ ان کے اکابر کی جو عبارات خلاف شرع اور قابل اعتراض ہیں، ان کی بھی وہ اصلاح کریں۔ اور اگر وہ یہ کہیں کہ ہمارے اکابر کی عبارات خلاف شرع اور قابل اعتراض نہیں ہیں تو ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ اس کے لیے فریقین ثالث مقرر کر لیں جن میں علما کے علاوہ جج صاحبان بھی ہوں۔ جو فیصلہ وہ کریں، سب کو منظور ہو۔ اگر ہماری پیش کردہ شرائط وہ تسلیم نہیں کرتے تو ون وے ٹریفک اور ایک ہاتھ سے تالی بجانے کے ہم قائل نہیں ہیں۔ ہم اس کو کبھی برداشت نہیں کریں گے کہ وہ تو بدستور ہمارے اکابر کی تکفیر کرتے رہیں اور ہم بے غیرت ہو کر برداشت کرتے رہیں اور ان کا وقت پاس ہو جائے۔ ان مذکورہ شرائط کے خلاف صلح کرنے والے دیوبندیوں کی ہم علی الاعلان مخالفت کریں گے۔ ان شاء اللہ العزیز۔
والسلام
احقر ابو الزاہد محمد سرفراز
۱۵؍ ربیع الثانی ۱۴۰۶ھ/۲۸؍ دسمبر ۱۹۸۵ء
بنام: جملہ فرزندان گرامی
باسمہ سبحانہ
من ابی الزاہد
الیٰ جملہ عزیزان سلمکم اللہ تعالیٰ
ہدیہ مسنونہ کے بعد، راقم اثیم اب قبر کے کنارے پر ہے۔ اللہ تعالیٰ خاتمہ علی الایمان کرے، آمین۔ راقم اثیم پریشان بھی ہے اور تم سب پر افسوس بھی ہے۔ وہ یہ کہ تم سے کم تنخواہ لینے والے اور تم سے بعد ملازم ہونے والے احباب نے اپنے سر چھپانے کے لیے مکانات بنا لیے ہیں اور تم لوگوں نے مساجد اور مدارس کے عارضی حجروں کو ہی پناہ گاہ بنا لیا ہے۔ موت ہر ایک کے لیے ہے اور ہر وقت ہے۔ البقاء للہ تعالیٰ وحدہ۔ آج اگر تم میں سے کسی کی وفات ہو جائے تو بمشکل ایک ماہ تک تمہارے بچوں کو اصحاب اختیار وہاں چھوڑیں گے۔ اس وقت بچوں کو جو پریشانی ہوگی، وہ بالکل عیاں ہے .... اور لوگ ظاہری قدر تم سب سے میری زیادہ کرتے ہیں، لیکن راقم اثیم گوجرانوالہ کی جیل میں دو ماہ پھر دس ماہ ملتان جیل میں رہا۔ گکھڑ کے کسی فرد نے میری خبر نہیں لی، اس لیے کہ چلتی کا نام گاڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ جزاے خیر عطا فرمائے میاں جی مرحوم کو، دوسرے تیسرے ماہ ملتان جا کر میری خبر لے آتے تھے اور ضرورت کی اشیا دے آتے تھے۔ اس لیے اشد تاکید ہے کہ غیرت کرو اور جلدی اپنے مکان بناؤ اور منہ کے ذائقہ کو لگام دو اور جلدی اس طرف توجہ کرو۔ سرمایہ نہ ہو تو دفعۃً سارا مکان ایک دفعہ نہیں بنتا۔ تمہیں معلوم ہے کہ یہ رہایشی مکان تیس سال میں بنا ہے اور ابھی تک نامکمل ہے۔ غیرت کرو اور کاہلی ترک کر دو۔
والسلام
ابو الزاہد محمد سرفراز
۱۴؍ شوال ۱۴۲۱ھ/۱۰؍ جنوری ۲۰۰۱ء
بنام: مولانا احسان اللہ احسان (ڈیرہ اسماعیل خان)
(۱)
باسمہ سبحانہ
من ابی الزاہد
الیٰ عزیز القدر جناب مولانا حافظ .............. صاحب دام مجدہم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کامحبت نامہ موصول ہوا۔ آپ کے اصرار وذرہ نوازی کا شکریہ۔
عزیز القدر! ہمارا سلسلہ نقشبندی مجددی ہے اورہمارے مرشد حضرت مولانا حسین علی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے شاگرد اور حضرت خواجہ سراج الدین صاحب موسیٰ زئی شریف کے خلیفہ تھے۔ ہمارے ابتدائی وظائف پانچ ہیں:
(۱) تیسرا کلمہ چوبیس گھنٹوں میں دو سو مرتبہ
(۲) سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم " " "
(۳) درود شریف نماز والا " " "
(۴) استغفر اللہ من کل ذنب واتوب الیہ " " "
(۵) قرآن کریم کی حسب توفیق تلاوت
اس کے علاوہ جو وظائف اور اذکار آپ کرتے یا کر سکتے ہیں، کوئی پابندی نہیں۔ وضو ہو تو نور علیٰ نور، نہ ہو تو پھر بھی وظائف کر سکتے ہیں۔
آپ کو تحریری طور پر بیعت میں شامل کر لیا گیا ہے۔ حاضرین سے سلام مسنون عرض کریں۔
والسلام
العبد الضعیف ابو الزاہد محمد سرفراز۔ از گکھڑ
۲۱؍ محرم الحرام ۱۴۲۴ھ/۲۵؍ مارچ ۲۰۰۳ء
(۲)
باسمہ سبحانہ
من ابی الزاہد
الیٰ عزیز القدر
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کامحبت نامہ موصول ہوا۔ یاد آوری کا تہہ دل [سے] ہزار شکریہ۔
عزیز القدر! اگر وہ صاحب اہل علم، صاحب عمل اور اہل حق میں سے ہیں اور جھکنے والوں نے ہاتھ چومنے کے لیے سر جھکائے ہیں تو کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ افراط وتفریط سے بچ کر ہاتھ چومنے جائز ہے اور ہاتھ چومنے کے لیے جھکنا ممنوع نہیں ہے۔ یہ ایک طبعی امر ہے۔ اور اگر اس کے سوا ایسی کاروائی ہوئی ہے تو اس میں کلام ہے۔ اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین
دوستوں سے سلام مسنون عرض کریں اور راقم کے لیے خاتمہ علی الایمان کی دعا کریں۔
پیر ایک ہی ہوتا ہے۔ یکے گیر ومحکم گیر۔
والسلام
العبد الضعیف ابو الزاہد محمد سرفراز۔ از گکھڑ
۱۳؍ محرم الحرام ۱۴۲۴ھ/۱۷؍ مارچ ۲۰۰۳ء
بنام:مجلس منتظمہ شاہ ولی اللہ یونیورسٹی گوجرانوالہ
باسمہ سبحانہ
من ابی الزاہد
الیٰ اعضاء واراکین شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالیٰ یونیورسٹی دامت معالیکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج سامی؟
آج ہی راقم اثیم کو ایک درخواست ملی ہے جس کو پڑھ کر انتہائی دکھ اورحیرت ہوئی ہے۔ ہم لوگ آپ کے اس دور میں دینی اور نیک جذبہ کی اور حصول مال کی تگ ودو کی تہہ دل سے قدر کرتے ہیں کہ آپ حضرات کی مساعی جمیلہ سے خاصی پیش رفت ہوئی ہے اور پہلے ہی دن سے آپ نے ہمارے نام برائے نام سرپرستوں میں رکھے ہیں۔ ہم آپ کی دیانت پراعتماد کرتے ہوئے کبھی بھی دخیل نہیں ہوئے۔ ہمیں کوئی خبر نہیں ہوتی کہ یونیورسٹی میں کون رکھا جاتا ہے اور کون نکالا جاتا ہے اور کب رکھا جاتا ہے اور کب نکالا جاتا ہے؟ صرف ہم گنہگاروں کا نام ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر کسی ملازم میں کوئی کوتاہی ہو اورمعصوم تو کوئی بھی نہیں ہوتا تو اولاً اس کو تنبیہ ہونی چاہیے اور ثانیاً اگر واقعی قصور وار ہو تو قاعدہ کے مطابق اس کو فارغ بھی کیا جا سکتا ہے مگر دفعۃً سب کو فارغ کر دینا شرعاً اخلاقاً عرفاً اور قانوناً ہرگز ہرگز صحیح نہیں ہے۔ ان کے جملہ مطالبات کہ ہمیں بحال کیا جائے اور ضابطہ کے مطابق ہمارے ساتھ سلوک کیا جائے اور سالانہ ترقی کا خیال ملحوظ رکھا جائے، سب جائز اور صحیح ہیں۔ البتہ وزیر اعظم صاحب کے اعلان ریلیف فنڈ ۳۰۰ روپے ماہانہ کے نہ تو ہمارے غیر سرکاری ادارے پابند ہیں اورنہ اس پر بشمولیت نصرۃ العلوم کسی نے عمل کیا ہے۔ راقم اثیم کی ذاتی رائے یہ ہے کہ بلا کسی قیل وقال کے ا س پر فوراً عمل کیا جائے اور اگر اس پر میٹنگ کی ضرورت ہو تو یکم جون ۱۹۹۷ء بروز اتوار آٹھ بجے صبح پابندئ وقت کے ساتھ مدرسہ نصرۃ العلوم میں رکھی جائے اور وقت کی خاص طور پر پابندی کی جائے۔ واللہ الموفق
والسلام
ابو الزاہد محمد سرفراز
۲۰؍ محرم ۱۴۱۸ھ/۲۸؍ مئی ۱۹۹۷ء
بنام: حافظ محمد عمار خان ناصر
(۱)
باسمہ سبحانہ
من ابی الزاہد
الیٰ عزیز القدر! عزیزی محمد عمار خان ناصر سلمہ اللہ تعالیٰ
ہدیہ مسنونہ کے بعد۔ راقم اثیم نے ’’امام اعظم ابو حنیفہؒ اور عمل بالحدیث‘‘ سرسری طور پر دیکھی ہے۔ نگاہ بھی نہیں ٹکتی اور حافظہ اور دماغ بھی ساتھ نہیں دیتا۔ چونکہ یہ تمہاری پہلی کتاب ہے اور نہایت ہی اہم مسئلہ پر ہے، اس کو موافق خوشی کی نگاہ سے اور مخالف سخت تنقیدی نگاہ سے دیکھیں گے اور جواب لکھنے والے ضرور جواب لکھیں گے، جلد یا بدیر، کیونکہ خاموشی اس فریق کی لغت میں نہیں ہے اور کسی ایسے اجہل اور منہ پھٹ کو جواب کے لیے آمادہ کریں گے جو رسالوں سے چن چن کر حضرت امام ابوحنیفہؒ پر قرآن کریم، احادیث اور حضرات صحابہ کرامؓ کے حوالوں کے خلاف حوالے نقل کرکے ایک طرف تو خوب خوب دل کی بھڑاس نکالے گا اور دوسری طرف اپنی جماعت کے افراد کو تردیدی کتاب کا مژدہ سنا کر داد تحسین حاصل کرے گا اور وہ اسی کتاب سے چند کمزورحوالے نقل کر کے ساری دنیا میں تشہیر کریں گے، کیونکہ اس فرقہ کے پاس مالی وسائل اور پروپیگنڈا کے کرتبوں کی کمی نہیں۔ اس لیے روزانہ تھوڑا تھوڑا وقت نکال کر ایک تو کتابت کی عربی رسم الخطی کی غلطیاں درست کرو۔ ابن ابی شیبۃ اور ابن ماجۃ وغیرہ تا سے لکھو اور مؤطا میں ہمزہ لکھو اور دوسرے جس جس کتاب کا حوالہ دیا ہے، کسی کی نقل پر اعتماد نہ کرو، خود اصل کتابوں سے دیکھ کر تصحیح کرو اور اس سلسلہ میں جلد بازی نہ کرو۔ آرام آرام سے التزام کے ساتھ یہ کام کرو۔ اگر اس کتاب کی صحیح معنی میں تصحیح اور خدمت ہو جائے تو ایک بہت بڑا علمی کارنامہ ہوگا۔ ابھی کتاب میں کتابت کی اغلاط، حوالوں کی کمی اور اصل کتابوں کی طرف عدم مراجعت وغیرہ وغیرہ کی خامیاں اور امور کی خاصی کمی ہے۔ میری یہ کتاب اپنی رہنمائی کے لیے پاس رکھو اور مجھے اس کے عوض میں اور کتاب دے دو۔ صرف ابتدائی حوالے اس پر میری یادداشت کے لیے درج کر دو۔
بحمد اللہ تعالیٰ وفضلہ تمہاری قیمت تو زیادہ ہے۔ میں یتیم ہوں، اس لیے صرف پانچ سو روپیہ تمہیں انعام دے رہا ہوں۔
والسلام
ابو الزاہد محمد سرفراز
۱۳؍ربیع الاول ۱۴۱۷ھ/۳۰؍جولائی ۱۹۹۶ء
(۲)
باسمہ سبحانہ
الیٰ عزیز القدر! عزیزم ناصر سلمہ اللہ تعالیٰ
ہدیہ مسنونہ کے بعد۔ راقم اثیم نے کتاب ’’امام ابوحنیفہؒ اور عمل بالحدیث‘‘ سرسری طور پر دیکھی۔ دماغ اور بصارت کی کمی سے پوری طرح تنقیدی نگاہ سے نہیں دیکھ سکا۔
(۱) بحمد اللہ تعالیٰ اردو بڑی سلیس اور عام فہم ہے اور بجز چند مقامات کے کسی مقام میں مطلب سمجھنے میں الجھن نہیں رہتی۔ وفقک اللہ تعالیٰ بازید من ہذا بکرمہ العمیم۔
(۲) بعض مقامات میں کتابت کی اغلاط رہ گئی ہیں۔ پوری لگن سے ان کی اصلاح کرو۔
(۳) امام ابن ابی شیبۃؒ یا دیگر بعض محدثین کے نام بغیر توصیفی الفاظ، امام، حافظ، محدث وغیرہ بعض مقامات پر مذکور ہیں۔ بعض توصیفی القاب کا ضرور خیال رہے اور آئندہ طبع میں اصلاح ہو جائے۔
(۴) امام ابن ابی شیبۃؒ کے اعتراض تو نقل کر دیے ہیں، مگر صفحات اور جلد کا حوالہ کہیں بھی درج نہیں۔ یہ کم فرصت لوگوں کے لیے تکلیف دہ چیز ہے، اس لیے ہر ہر اعتراض کی جلد اور صفحہ کا ضرور حوالہ ہونا چاہیے۔
(۵) جن کتابوں کے ج .... اور ص ..... کر کے لکھا ہے، محنت کر کے حوالے درج کرو۔
(۶) ص ۱۱۰، ص ۱۱۱ اور ص ۱۱۲ میں عبارتیں آگے پیچھے اور صفحات میں گڑبڑی ہو گئی ہے۔ ان کی اصلاح درکار ہے۔
(۷) ص ۱۲۳ اور ص ۱۲۴ میں بات رہن کی ہو رہی ہے اور الفاظ بجائے راہن اور مرتہن کے خریدار اور بائع کے استعمال کیے گئے ہیں۔
(۸) بعض مقامات میں جوابات میں کتابوں کے حوالے نہیں دیے گئے، حالانکہ کسی نہ کسی کتاب اور بزرگ کا حوالہ ضروری ہوتا ہے تاکہ دیکھنے والا کتاب کی طرف رجوع کر سکے۔ اور جن کتابوں سے جوابات نقل کیے گئے ہیں، ان کے صفحے اور جلدوں کا ضرور خیال رکھو۔ اس سے کتاب کی قدر بڑھ جاتی ہے۔
(۹) اکثر مقامات میں بخاری مع الفتح کا حوالہ دیا گیا ہے اور ظاہر امر ہے کہ فتح الباری آسانی سے نہیں ملتی اور بخاری شریف مل جاتی ہے۔ اس لیے آئندہ طبع میں بخاری کا حوالہ ہونا چاہیے۔
(۱۰) رسم الخطی کا اکثر جگہوں میں خیال نہیں رکھا گیا۔ مثلاً فقہاء کی جگہ فقہا اور علماء کی جگہ علما درج ہے اور ترضی اور ترحیم کے اشارہ کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے، جبکہ صحابی کے نام کے ساتھ ؓ اور ہر بزرگ کے نام کے ساتھ ؒ کا اشارہ کم از کم ہونا چاہیے اور حضرات صحابہ کرامؓ کے نام کی ابتدا [میں] حضرت ضرور ہونا چاہیے۔
(۱۱) امام صاحبؒ پر کیے گئے اعتراضات میں ایسے بھی ہیں جن میں امام صاحبؒ متفرد نہیں بلکہ حضرات ائمہ اربعہؒ میں سے دوسرے بعض امام بھی ان کے ساتھ ہیں۔ مثلاً ص ۲۰۶ اور ص ۲۰۷ میں تیمم کا مسئلہ ہے کہ حضرت امام مالکؒ اور امام شافعیؒ بھی ان کے ساتھ ہیں۔ ان کی کتابوں سے ان کے حوالے درج کرنے سے مسئلہ کی پوزیشن مزید قوی ہو جائے گی۔ اور اسی طرح ہمت کر کے دیگر تمام اعتراضات میں حضرات ائمہ اربعہؒ اور دیگر حضرات فقہاء کرامؒ کے نام اور حوالے درج کرنے سے امام صاحبؒ کی رائے کا وزن خوب بڑھ جائے گا۔
(۱۲) ص ۲۰۶ [پر] نمبر ۱ میں حضرت جابرؓ کی روایت نقل کی ہے، حالانکہ یہ روایت حضرت ابن عمرؓ کی ہے۔ امام دارقطنیؒ اور امام بیہقیؒ اس کو موقوف قرار دیتے ہیں اور امام حاکمؒ اور ذہبیؒ اس کو شاہد کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ (خزائن کودیکھو)
(۱۳) اب چونکہ پوری دنیا میں دینی کتابیں بڑی فراوانی سے طبع ہوتی ہیں اور جلدوں اور صفحات کی تلاش میں پریشانی ہوتی ہے، اس لیے ہر کتاب کے مطبع کا حوالہ ہونا چاہیے۔ یہاں گکھڑ میں طحاوی کے دو نسخے الگ الگ مطبع کے ہیں مگر کسی کا حوالہ دوسرے نسخہ سے مطابقت نہیں رکھتا، اس لیے محنت اور لگن سے اس کا انتظام کرو۔
(۱۴) کیا تمہارے پاس دارقطنی کا کوئی نسخہ ہے جس کی تین جلدیں ہیں یا چار؟
بنام: مولانا عبد القیوم حقانی (خالق آباد، نوشہرہ)
باسمہ سبحانہ
من ابی الزاہد
الیٰ محترم المقام حضرت العلام جناب مولانا ............. صاحب دام مجدہم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج سامی؟
آپ کا محبت نامہ تو کافی دنوں سے موصول ہو چکا ہے مگرمصروفیت، علالت اورکاہلی کی وجہ سے جواب میں تاخیر ہوئی۔ بار خاطر نہ ہو۔
محترم! علالت کی وجہ سے دماغ مستحضر نہیں رہتا۔ حسب ارشاد چند بے ربط جملے تحریر کر دیے ہیں۔ معیار کے مطابق ہوں تو درج کر دیں ورنہ کوئی شکوہ نہیں۔ نوجوان طبقہ میں بفضلہ تعالیٰ آپ کی تحریر بڑی شستہ، مدلل اورمعنی خیز ہوتی ہے۔ دعا ہے: اللہم زد فزد۔
اس وقت قلم کا فتنہ عروج پر ہے۔ بے دین پروفیسر اور صحافی دین کی بنیادی باتوں تک کامذاق اڑاتے ہیں۔ ان باطل پرستوں کی علمی اور تحقیقی طو رپر سرکوبی فریضہ وقت ہے۔ تقریباً نصف صدی تک راقم اثیم اپنی ناقص بساط کے مطابق باطل پرستوں کا تعاقب کرتا رہا ہے، مگر اب کبر سنی اور علالت کی وجہ سے رہ گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے دین کا محافظ ہے۔ سرحد میں آپ کے لیے اور کراچی میں حضرت مولانا محمد یوسف صاحب لدھیانوی کے لیے خصوصیت سے دعائیں کرتا رہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ اللہ تعالیٰ آپ حضرات کو مزید سے مزید احقاق حق اور ازالہ باطل کے لیے قوت، ہمت اور جرات بخشے۔ ویرحم اللہ عبدا قال آمینا۔
حاضرین مجلس سے سلام مسنون ارشاد فرمائیں اور مقبول دعاؤں میں فراموش نہ کریں۔ تین چار شدید بیماریوں کا شکار ہوں۔ عمر قمری لحاظ سے ۷۷ سال ہے۔ خاتمہ بر ایمان کے لیے خصوصی دعا کریں۔ بفضلہ تعالیٰ یہ عاصی بھی ہمہ وقت احباب ومتعلقین کے لیے داعی رہتا ہے۔
والسلام
احقر ابو الزاہد محمد سرفرازاز گکھڑ
۲۴؍ محرم ۱۴۰۹ھ/۷؍ ستمبر ۱۹۸۸ء
بنام: مولانا قاضی محمد اسرائیل گڑنگی (مانسہرہ)
باسمہ سبحانہ
من ابی الزاہد
محترم المقام حضرت العلام مولانا قاضی محمد اسرائیل گڑنگی صاحب دام مجدہم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟
آپ کا رقعہ اور قیمتی کتابوں کا ہدیہ سنیہ موصول ہوا۔ سب کا ایک ساتھ شکریہ۔ جزاکم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء فی الدارین۔
محترم! گونا گوں علالتوں میں مبتلا ہوں۔ آنکھوں میں موتیا بھی اترا ہوا ہے اور بینائی بھی صحیح نہیں ہے۔ بڑی مشقت سے محض کتابوں کے کچھ صفحات پڑھے، دل باغ باغ ہو گیا کہ تقریری اور تحریری لحاظ سے ایک پس ماندہ خطہ میں اللہ تعالیٰ نے صاحب قلم پیداکیا ہے جس نے عمدہ پیرایہ میں نہایت آسان لہجہ میں دینی عقائد، اعمال اور اخلاق وغیرہا کی صحیح تعبیر کی ہے۔ قلبی دعا ہے کہ
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
تالیف کے ساتھ درس وتدریس کا پڑھ کر اور خوشی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ مزید سے مزید توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین۔ اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرزند ارجمند کو حافظ، قاری، عالم اور مدرس ومقرر ومولف بنائے۔ وما ذالک علی اللہ بعزیز۔ جملہ حاضرین کو درجہ بدرجہ سلام مسنون عرض کریں اور مقبول دعاؤں میں نہ بھولیں اور خاتمہ علی الایمان کی دعا کریں۔ بفضلہ تعالیٰ یہ خاطی وعاصی بھی داعی ہے۔
والسلام
ابو الزاہد محمد سرفراز گکھڑ
۱۸ ؍ جمادی الاولیٰ ۱۴۱۸ھ/۲۱ ستمبر ۱۹۹۷ء
بنام: مولانا نور محمد آصف (بھاؤ گھسیٹ پور، ضلع گجرات)
باسمہ سبحانہ
من ابی الزاہد
الیٰ محترم المقام حضرت العلام مولانا .........صاحب دام مجدہم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟
آپ کا محبت نامہ موصول ہوا۔ یاد آوری، کرم فرمائی، حسن ظنی اور ذرہ نوازی کا تہ دل [سے] صد شکریہ، ورنہ من آنم کہ من دانم۔ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔
محترم! آپ جس عمل پر ہیں، اس پر ڈٹ جائیں۔ اللہ تعالیٰ استقامت عطا فرمائے اور کسی کی حق کے مقابلہ میں پروا نہ کریں۔
محترم! دو مصیبتوں والا معاملہ یہاں فٹ کرنا سخت نادانی ہے۔ معصیت اور ہے، مصیبت اور ہے۔ آپ نے گلستان میں ایک بزرگ کا واقعہ پڑھا ہوگا جنھوں نے کہا کہ الحمد للہ کہ بمصیبتے گرفتار ہستم نہ بمعصیتے۔ سو گناہ ایک طرف ہو، ایک بدعت اس پر بھاری ہے کیونکہ گناہ سے دین کا نقشہ نہیں بدلتا اور بدعت سے نقشہ بدلتا ہے۔ ہمت سے کام لیں۔
صحت اچھی نہیں۔ گھر میں بھی بیماری ہے۔ دعا کریں۔ یہ خاطی بھی داعی ہے۔
والسلام
احقر ابو الزاہد محمد سرفراز از گکھڑ
۱۷؍ ذو القعدہ ۱۴۰۹ھ/۲۲؍ جون ۱۹۸۹ء
بنام: مولانا مفتی شیر محمد (جامعہ اشرفیہ، لاہور)
باسمہ سبحانہ
من ابی الزاہد
الیٰ محترم المقام حضرت العلام مولانا مفتی ............ صاحب دام مجدہم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج سامی؟
آپ کا شفقت نامہ موصول ہوا۔ آپ سے قبل حضرت مولانا محمد عبد اللہ صاحب دام مجدہم کا احمد پور شرقیہ سے بھی اسی مضمون کا خط ملا تھاکہ تحفہ اثنا عشریہ حضرت شاہ عبد العزیز صاحبؒ ہی کی تالیف ہے۔ دہلی کے حالات کی ناسازگاری کی وجہ سے حضرت نے توریہ سے کام لیا اور اپنے تاریخی نام پر کتاب شائع فرمائی۔ آپ دونوں بزرگوں کی رائے صحیح ہے اور اس غلطی پر آگاہ فرمانے کا صمیم قلب سے صد شکریہ۔ ان شاء اللہ العزیز آئندہ طبع میں اس کی اصلاح کر لی جائے گی اور کیا ہی اچھا ہو کہ آپ مزید اغلاط کی نشان دہی بھی فرمائیں تاکہ ان کی بھی اصلاح کر لی جائے۔
راقم اثیم کی صحت اچھی نہیں رہتی۔ گھر میں بھی بیماری اور پریشانی ہے۔ دعا فرمائیں اور حاضرین مجلس سے سلام مسنون ارشاد فرمائیں اور مقبول دعاؤں میں نہ بھولیں۔ بفضلہ تعالیٰ یہ آثم وعاصی بھی داعی ہے۔
والسلام
احقر ابو الزاہد محمد سرفراز از گکھڑ
۲۸؍ ربیع الاول ۱۴۰۹ھ/۱۰؍ نومبر ۱۹۸۸ء
بنام: قائدین وکارکنان سپاہ صحابہؓ پاکستان
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
۱۷؍رجب ۱۴۱۲ھ/ ۲۳؍ جنوری ۱۹۹۱ء
من ابی الزاہد
الیٰ محترم المقام حضرت العلام جناب مولانا ............صاحب دام مجدہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاجِ سامی؟
گزارش ہے کہ ’’سپاہِ صحابہ رضی اللہ عنہم‘‘ کے حضرات نے ایران کی طاغوتی طاقت کے بل بوتے اور شہ پر چلنے اور ناچنے والی رافضیت کا پاکستان میں جو دروازہ بند کیا ہے، وہ نہ صرف یہ کہ وقت کی اہم ضرورت ہے بلکہ دینی لحاظ سے بھی فرضِ کفایہ ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ حضرات کی اس مبارک کوشش کو کامیاب کرے اور دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
اگر بارِ خاطر نہ ہو تو چند ضروری باتیں عرض کرنے کی جسارت کر رہا ہوں :
۱۔ جو ذہن آپ حضرات نے نوجوانوں کا بنایا ہے یابنائیں گے، وہی وہ اپنائیں گے۔ کیونکہ اکثریت اُن کی علم دین بھی نہیں رکھتی اور اکابر کو بھی نہیں دیکھا۔ جو آپ اُن کو بتائیں گے، اُسی کو وہ حرفِ آخر سمجھیں گے اور تَن من دھن کی بازی لگائیں گے۔ واللہ المؤفق
۲۔ نوجوان جذباتی ہوتے ہیں اور جذبات میں بہت کچھ ’’کر‘‘اور’’کہہ ‘‘ جاتے ہیں۔ شدت اور سختی سے کبھی مسائل حل نہیں ہوئے اور نہ قوت وطاقت سے کسی فرد یا نظریہ کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ صدر صدام حسین کی ضد اور نادانی کی وجہ سے تیس سے زائد طاقتور حکومتیں بھی اُسے ختم نہ کرسکیں اور وہ ابھی تک جیتا جاگتا ہے۔ اس لیے گزارش ہے کہ نوجوانوں کو قولاً اور فعلاً شدت اختیار کرنے سے سختی کے ساتھ روکیں۔ رافضیوں کے کفر میں تو شک ہی نہیں مگر ’’درو دیورا‘‘پر ’’کافر، کافر‘‘ لکھنے اور ’’نعرہ بازی‘‘ سے بجائے فائدہ کے نقصان ہوگا۔ عیاں را چہ بیاں
۳۔ ممکن ہے بعض جذباتی اور سطحی اذہان میری اس تحریر سے یہ اخذ کریں کہ میں ’’بِک‘‘ گیاہوں یا ’’دَب‘‘ گیا ہوں تو یہ نظریہ درست نہ ہوگا۔بفضلہ تعالیٰ یہ گناہگار انتہائی غربت اور جوانی کے زمانہ میں بھی نہ بکا ہے نہ دبا ہے، اب اسی (۸۰) سال کی عمر میں قبر کے پاس پہنچ کر کیسے ’’بِک‘‘یا ’’دَب‘‘ سکتا ہے؟
۴۔ کافی عرصہ ہوا ہے حضرت مولانا عطاء المنعم شاہ صاحب دام مجدہم نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سرکاری طور پر یوم منانے کی تحریک شروع کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ میں نے اُن کو مفصل خط لکھا تھا کہ آپ کے والد محترم امیر شریعت رحمہ اللہ تو بدعات کو مٹانے کے لیے لٹھ لیے پھرتے تھے، آپ اس بدعت کو کیسے جاری کرتے ہیں۔ میرے خیال میں میرا عریضہ ضرور مؤثر ہوا اور اُس کے بعد اُن کا کوئی بیان اس بدعت کے ایجاد کرنے کا میرے علم میں نہیں۔
۵۔ آپ حضرات کی طرف سے زورو شور کے ساتھ حضرات خلفاء راشدین کے ایام سرکاری طور پر منوانے کا مطالبہ آتا ہے۔ آپ جن اکابر کے دامن سے وابستہ ہیں، اُن کی تاریخ دیکھ لیجیے، کبھی ایسی بدعات کے ایجاد کا تصور بھی اُنہیں نہیں آیا۔ عوام تو نہیں جانتے مگر آپ تو علما ہیں، وسیع مطالعہ کے مالک ہیں، اس کاروائی کے بدعت ہونے کے بارے میں آپ حضرات کے سامنے کتابوں کے حوالہ پیش کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ ولاریب فیہ
۶۔ آپ حضرات کا مطالبہ صرف اور صرف ’’خلافت راشدہ‘‘کا نظام قائم کرنے کا ہونا چاہیے جو حکمران اور سرمایہ دار طبقوں کے لیے پیام موت ہے۔ ایام منوانے کی بدعت کے پیچھے ہر گز نہ پڑیں۔ خلافت راشدہ کے نظام کے نافذ کرنے کے مطالبہ میں عنداللہ تعالیٰ بھی آپ سرخرو ہوں گے اور عوام کا تعاون بھی حاصل رہے گا۔
۷۔ اگر خدانخواستہ آپ کے ایام منانے کی کوئی شق منظور کر لی گئی تو حکمران طبقہ بھی اور عوام بھی یہ باور کریں گے کہ’’ اِن کو اَب خاموش رہنا چاہیے، ان کا مطالبہ پورا ہو گیا ہے‘‘۔ اِس سے آپ کے اصل مقصد پر زد پڑے گی۔ بھٹو صاحب نے جمعہ کے دن کی چھٹی کرنے پر کہہ دیا تھا کہ’’ لو! اب اسلام نافذ ہوگیا ہے اور کیا چاہتے ہو؟‘‘اور ہاں میں ہاں ملانے والے ہر دور میں رہتے ہیں ،اب بھی کمی نہیں ہے۔
۸۔ زہریلے قسم کے اہل بدعت سخت پروپیگنڈا کر رہے ہیں ۔ماہ جنوری ۱۹۹۱ء کا ’’رضائے مصطفی‘‘ ضرور بر ضرور دیکھیں۔ وما علینا الاالبلاغ
والسلام
ابو الزاہد محمد سرفراز۔ از گکھڑ
(۲)
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
من ابی الزاہد
الیٰ محترم المقام جناب ............ صاحب دام مجدہم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج سامی؟
آپ کا مکتوب موصول ہوا۔ یاد آوری اور ذرہ نوازی کا تہ دل [سے] ہزار شکریہ، ورنہ من آنم کہ من دانم۔
محترم! میں نے واقعی انجمن سپاہ صحابہؓ اور جمعیۃ علماء اسلام کے بعض حضرات کو تحریر بھیجی ہے، نتیجہ کا مجھے علم نہیں۔
آپ کو معلوم ہے کہ راقم اثیم دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہے اور اس مکتب فکر کے حضرات نے توحید وسنت کی نشر و اشاعت اور شرک وبدعت کی علمی اور عملی لحاظ سے جس طرح تردید اور سرکوبی کی ہے، وہ اظہر من الشمس ہے اور خود راقم اثیم نے بھی ’’راہ سنت‘‘ وغیرہ کتب میں جو کچھ بیان کیا ہے، وہ آپ کے پیش نظر ہی ہوگا۔ عیاں را چہ بیاں۔
پورے ہفتہ کے دنوں میں جمعہ سید الایام ہے: ان یوم الجمعۃ سید الایام (ابن ماجہ ص ۷۷ ومشکوٰۃ ص ۱۲۰) اور لیلۃ الجمعۃ کی فضیلت کا کون مسلمان انکار کر سکتا ہے؟ مگر بایں ہمہ حضرت ابو ہریرہؓ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں:
قال لا تختصوا لیلۃ الجمعۃ بقیام من بین اللیالی ولا تختصوا یوم الجمعۃ بصیام من بین الایام الا ان یکون فی صوم یصوم احدکم (مسلم ج ۱ ص ۳۶۱)
’’آپ نے فرمایا کہ تم راتوں میں سے جمعہ کی رات کو قیام اور عبادت کے لیے مختص نہ کرو اور دنوں میں سے جمعہ کے دن کو روزہ کے لیے مخصوص نہ کرو، ہاں مگر جب جمعہ ان دنوں میں آ جائے جن میں تم روزہ رکھتے ہو (یعنی رمضان اور ایام بیض وغیرہ)۔‘‘
کون مسلمان رات کی عبادت اور قیام کا انکار کر سکتا ہے؟ اور کون روزہ کی فضیلت کا منکر ہو سکتا ہے؟ مگر آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے امت کو یہ سبق دیا کہ تم اپنی طرف سے کسی نیکی کے لیے رات اور دن کے متعین کرنے کے مجاز نہیں۔ حضرات خلفاے راشدین تو کجا، ہم اس کے قائل ہیں کہ جس مجلس میں اللہ تعالیٰ کے کسی نیک بندے کا ذکر ہوا، وہاں خدا تعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے۔ ان حضرات کا ذکر تو دین ہی کا ایک پہلو اور شعبہ ہے، مگر غیر قوموں کی نقالی کر کے حضرات خلفاے راشدین کے پیش کردہ نظام کو نہ اپنانا اور صرف مخصوص دنوں میں ایام منا لینا ان سے مذاق کے مترادف ہے۔ ایام تو نکمی قومیں منایا کرتی ہیں جن کو صرف بزرگوں کے نام سے تعلق ہوتا ہے، کام سے نہیں۔ بزرگوں کی صحیح پیروی کرنے والی قومیں تو اپنے بزرگوں کے کام اور ان کے لائے ہوئے پروگرام پر عمل پیرا ہوتی ہیں۔ نری محبت اور دعواے عقیدت سے کچھ نہیں بنتا۔ محض غیروں کی نقالی کہ وہ خاص دن مناتے ہیں، ہم بھی منائیں، اسلامی روح کے خلاف ہے۔
حضرت ابو واقد اللیثی (الحارث بن عوف المتوفی ۶۸ھ) سے روایت ہے:
ان رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم لما خرج الی حنین مر بشجرۃ للمشرکین یقال لہا ذات انواط یعلقون علیہا اسلحتہم فقالوا یا رسول اللہ! اجعل لنا ذات انواط کما لہم ذات انواط فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم سبحان اللہ! ہذا کما قال قوم موسی اجعل لنا الہا کما لہم آلہۃ والذی نفسی بیدہ لترکبن سنۃ من قبلکم ۔ ہذا حدیث حسن صحیح (ترمذی ج ۲ ص ۴۱ ومسند احمد ج ۵ ص ۲۱۸)
’’جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حنین کی طرف نکلے تو ایک درخت کے قریب سے گزرے جو مشرکین کے ہاں متبرک تھا جس کو ذات انواط کہتے تھے اور (حصول تبرک کے لیے) وہ اس پر اپنے ہتھیار لٹکاتے تھے۔ (بعض) صحابہ نے کہا ہمارے لیے بھی ذات انواط مقرر کریں، جیسا کہ ان کا ہے۔ آپ نے فرمایا: سبحان اللہ، یہ تو ایسا ہے جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہا تھا کہ ہمارے لیے بھی ایک الٰہ بنائیں جیسا کہ ان (کنعانیوں) کا ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ میں میری جان ہے، تم ضرور ان لوگوں کے طریقے پرچلو گے جو تم سے پہلے ہوئے۔‘‘
مشرکین کا عقیدہ تو ان کے ساتھ تھا، مگر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے بارے میں، جو آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے فیض یافتہ اور آپ سے تربیت پانے والے تھے، یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ درخت کو الٰہ بنانے کے درپے تھے اور آپ سے اس کی اجازت چاہتے تھے کہ کسی درخت کو ان کا الٰہ بنایا جائے۔ معاذ اللہ تعالیٰ۔ یہی کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے محض تبرک کے لیے کسی درخت کی تعیین کا مطالبہ کیا تھا، لیکن آپ نے اس پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور لفظ سبحان اللہ فرما کر ان کی تردید فرمائی اور پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا حوالہ دیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ مسلمانوں کو غیروں کی نقالی نہیں کرنی چاہیے۔ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دن منایا اور مناتے ہیں اور اس امت کے بعض لوگوں نے ’لترکبن سنۃ من کان قبلکم‘ پر عمل پیرا ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کا دن بعنوان میلاد منانا شروع کر دیا جو شریعت کے لحاظ سے تو بدعت ہے ہی، عشق ومحبت کے اعتبار سے بھی بدعت ہے تو اپنے محبوب کی ہر دن اور ہر آن یاد کرنے کی بجائے ایک ہی دن مقرر کیا جائے اوراس میں خوشی کا اظہار کیا جائے، محبوب کی محبت کا تو یہ تقاضا ہر گز نہیں۔ محبوب کا ذکر تو پورے سال، ہر ماہ، ہر دن، ہر گھڑی، ہر آن مطلوب ہے۔ یہاں سال کی انتظار کا کیا معنی؟
قاصد پیام شوق کو اتنا نہ کر طویل
کہنا فقط یہ ان سے کہ آنکھیں ترس گئیں
معلوم نہیں کہ آپ کی عمر کیا ہے؟ راقم اثیم جوان تھا۔ ۱۹۲۹ء کے لگ بھگ جناب حاجی عنایت اللہ صاحب قادری، جو پہلے ہندو تھے، پھر مسلمان ہوئے۔ جب ہندو تھے تو رام لیلیٰ کا جلوس نکالتے تھے۔ مسلمان ہوئے تو انھوں نے میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا جلوس ایجاد کیا۔ اس کے موجد جناب قادری صاحب تاہنوز لاہور میں زندہ ہیں۔ ان کے اس کاروائی میں دست راست مولوی عبد المجید صاحب ساکن پٹی، جو ’’ایمان‘‘ رسالہ بھی نکالتے تھے اور دست چپ سابق میئر لاہور میاں شجاع الرحمن کے والد الحاج عبد القادر صاحب تھے جو دونوں بزرگ وفات پا چکے ہیں۔ بانی ابھی تک زندہ ہیں۔ عجیب بات ہے کہ یہ جلوس بریلوی مسلک کے علما، مشائخ اور مفتیوں کو حتیٰ کہ ان کے اعلیٰ حضرت کو بھی نہیں سوجھا، مگر ایک نومسلم ہندو کی یہ کاروائی اب عشق، محبت اور دین بن گئی ہے ور جلوس نہ نکالنے والوں پر آوازے کسے جاتے ہیں اور ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ فالی اللہ تعالیٰ المشتکی۔ ا ن بے چاروں نے یہ کاروائی آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت میں کی ہے، مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس محبت کی شریعت میں کیا قدر ہے؟ اگر واقعی یہ محبت ہوتی تو حضرات خلفاے راشدین اور بقیہ حضرات صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور تا ہنوز حضرات سلفؒ سے یہ ہرگز نہ چھوٹتی۔ حافظ ابن کثیرؒ (المتوفی ۷۷۴ھ) نے کیا خوب فرمایا ہے:
واما اہل السنۃ والجماعۃ فیقولون فی کل فعل وقول لم یثبت عن الصحابۃ رضی اللہ عنہم ہو بدعۃ لانہ لو کان خیرا لسبقونا الیہ لانہم لم یترکوا خصلۃ من خصال الخیر الا وقد بادروا الیہا (تفسیر ابن کثیر ج ۱ ص ۱۵۴)
’’بہرحال اہل السنت والجماعت یہ کہتے ہیں کہ جو فعل اور قول حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے ثابت نہیں، وہ بدعت ہے کیونکہ اگر وہ فعل اور قول بہتر ہوتا تو وہ اس کی طرف سبقت کرتے، اس لیے کہ خیر کی کوئی خصلت ایسی نہیں جس کی طرف انھوں نے مبادرت نہ کی ہو۔‘‘
سنت اور بدعت کو پرکھنے کے لیے یہ بہترین کسوٹی ہے، بشرطیکہ کوئی شخص ضد اور عناد کو نہ چھوڑنے کی قسم نہ کھا چکا ہو اور بدعت کی نحوست سے اس کی قلبی استعداد ختم نہ ہو چکی ہو۔ حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر بدعتی کے لیے توبہ کا دروازہ بند کر دیا ہے۔ حضرت انسؒ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان اللہ حجب التوبۃ عن کل صاحب بدعۃ۔ (رواہ الطبرانی فی الاوسط ورجالہ رجال الصحیح غیر ہارون بن موسیٰ الفروی وہو ثقۃ: مجمع الزوائد ج ۱۰ ص ۱۸۹)
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے ہر بدعتی پر توبہ کا دروازہ بند کر دیا ہے۔‘‘
ایک تو بدعت کی سیاہی اور نحوست سے حق کے قبول کرنے کی استعداد ہی ختم ہو جاتی ہے اور دوسرے جب بدعت کو آدمی کارثواب سمجھے گا تو توبہ کیوں کرے گا؟ توبہ تو گناہ اور کار بد سے ہوتی ہے نہ کہ نیکی اور کار ثواب سے، مگر اس کے لیے حقیقت شناسی ضروری ہے۔ ہر نگاہ کام نہیں دیتی۔
اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا
مومن کا شیوہ یہ ہے کہ اپنی ذاتی محبت اور اپنی پسند کو شریعت اور آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت اور پسند پر قربان کر دے۔ حضرت انسؓ (المتوفی ۹۳ھ) کی روایت ہے کہ:
قال لم یکن شخص احب الیہم من رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قال وکانوا اذا راوہ لم یقوموا لما یعلمون من کراہیتہ لذلک (شمائل ترمذی ص ۲۴ ومسند احمد ج ۳ ص ۱۳۲)
’’حضرات صحابہ کرام کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب کوئی اور نہ تھا اور فرماتے ہیں کہ صحابہ آپ کو دیکھتے تو کھڑے نہ ہوتے تھے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آپ اس کو پسند نہیں کرتے۔‘‘
یہ ہے اصلی اور صحیح محبت کہ حضرات صحابہ کرامؓ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب سمجھتے ہوئے بھی آپ کے تشریف لانے پر احتراماً وتعظیماً نہیں کھڑے ہوتے تھے، حالانکہ شرعاً یہ جائز تھا اور ہے، مگر آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم چونکہ اس کاروائی کو پسند نہ فرماتے تھے، اس لیے حضرات صحابہ کرام اپنی پسند پر آپ کی پسند کو ترجیح دیتے تھے۔ او رمطیع وفرماں بردار مومن کا یہی کام ہے اور صرف یہی ہونا چاہیے۔
وہی بالا ہیں جو دنیا میں اپنا نیک وبد سمجھیں
یہ نکتہ وہ ہے جس کو اہل دل اہل خرد سمجھیں
اس ضروری تمہید کے بعد شق وار جوابات ملاحظہ فرمائیں:
۱) اثنا عشری فرقہ ہو یا کوئی اور باطل فرقہ، ان میں باہمی اتحاد، اپنے مسلک سے گہری وابستگی، مالی ایثار اور قربانی کا جو جذبہ ہے، وہ مجموعی لحاظ سے اہل حق میں مفقود ہے۔ ان کی اپنی اپنی تنظیمیں ہیں اور مشترک نقطہ پر بھی ان کا اتفاق مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسر ہوں یا وزیر اپنے مسلک والوں کی رعایت ہم دردی اور ان کی ترقی برملا کرتے ہیں، جبکہ اپنے آپ کو سنی کہلانے والے برملا اپنے کو سنی کہنے کی ہمت اور جرات بھی نہیں کرتے اور رافضیوں کا تقیہ مفت میں ان کو الاٹ ہو گیا ہے اور عموماً اہل حق کے جلسوں اور محفلوں میں شریک ہونا اپنے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ نتیجہ بالکل واضح ہے کہ فعال گروہ اور غیر فعال کبھی برابر نہیں ہو سکتا۔
۲) اہل السنت والجماعت میں اتفاق، اتحاد، یک جہتی اور مسلکی جذبہ نہ ہونے کی وجہ سے اثنا عشری ساری سرکار کو استعمال کرتے ہیں اور ان کی شنوائی ہوتی ہے، حالانکہ تقریباً تین فیصد ان کی آبادی ہے اور آپ حضرات ستانوے فی صد ہوتے ہوئے بھی اپنے مطالبات نہیں منوا سکتے۔ اتنا مطالبہ تو قانوناً آپ کا حق ہے کہ قومی خزانہ اور سرکاری گاڑیاں ایک فرقہ کے لیے کیوں استعمال ہوتی ہیں؟
۳) آپ کا یہ مطالبہ ہونا چاہیے کہ جس طرح محرم کے ابتدائی دنوں میں گانے بجا نے کے پروگرام معطل ہوتے ہیں، اسی طرح بارہ مہینے یہ خرافات بند ہونی چاہییں کیونکہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔
۴) اور جس طرح ریڈیو، ٹی وی وغیرہ سرکاری اداروں میں حضرات اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مناقب اور فضائل بیان کیے جاتے ہیں اور کھلی اجازت ملتی ہے، اسی طرح حضرات خلفاے راشدین اور دیگر حضرات صحابہ کرام حضرت امیر معاویہ اور حضرت ابو سفیان کے فضل وکمال کے بیان کی بھی کھلی اجازت ہو اور [ان کی توہین وتنقیص پر مشتمل] ایسا لٹریچر جو فارسی زبان میں ہو یا اردو غیرہ میں، قدیم کتابوں میں ہو یا جدید میں، سب ضبط ہونا چاہیے۔
ہماری قلبی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے کہ ملک میں امن وامان کو برقرار رکھتے ہوئے اور قانون کی پابندی کرتے ہوئے اپنے مطالبات آپ منوا سکیں اور نوجوان طبقہ کی ذہنی تربیت اور ان کو جادۂ اعتدال میں رکھنے کی سعی کرتے رہیں۔ وما علینا الا البلاغ۔
احقر ابو الزاہد محمد سرفراز
۲۴؍ رجب ۱۴۱۲ھ/۳۰؍ جنوری ۱۹۹۲ء
بنام: شبیر احمد خان میواتی (ندوۃ المعارف، لاہور)
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
من ابی الزاہد
الیٰ محترم المقام جناب مولانا ............. صاحب دام مجدہم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج سامی؟
آ پ کا مکتوب گرامی ملا۔ یاد آوری کا تہ دل [سے] صد شکریہ۔
محترم! آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ حضرت مولانا قاری عبد الرشید صاحب مرحوم کے بارے میں ان کی دینی خدمات پر مضمون درکار ہے۔ راقم علیل اور بے حد مصروف رہتا ہے۔ کچھ لکھنے کے لیے دماغ مستحضر نہیں ہے۔ اتنا ہی عرض کر سکتا ہے کہ مرحوم نوجوان علما میں بڑے مستعد، حساس اور صحیح عقیدہ کی اشاعت میں بڑے مخلص تھے۔ کئی مرتبہ میرے پاس آئے اور آخری مرتبہ آئے اور یہ کہا کہ آپ ہمارے اکابر کی نشانی ہیں اور آپ کی بات موثر ہے۔ سپاہ صحابہؓ کے قائدین حضرات تو بڑے مصلح اور مبلغ لوگ ہیں، نوجوان طبقہ میں بعض جذباتی ہیں، ان کی اصلاح ہونی چاہیے ورنہ مسلک کو سخت نقصان پہنچے گا۔ ان کی تحریک پرراقم نے یہ خط لکھا اور متعدد ذمہ دار حضرات تک پہنچایا۔ جواب آیا تو اس کا جواب الجواب بھی لکھا ہے جو مطبوع ہے۔ اس کے محرک مرحوم ہی تھے۔
یہ خط بھی ارسال ہے۔ کلاً یا بعضاً اشاعت کی اجازت ہے۔ اس سے زیادہ کچھ لکھنا اب میرے بس میں نہیں ہے۔ حاضرین سے سلام مسنون ارشاد فرمائیں اور نیک دعاؤں میں نہ بھولیں۔ بفضلہ تعالیٰ یہ خاطی بھی داعی ہے۔
والسلام
ابو الزا ہد محمد سرفراز
۲۰؍ محرم ۱۴۱۴ھ/۲۲؍ جولائی ۱۹۹۲ء
بنام: مولانا مشتاق احمد چنیوٹی (جامعہ عربیہ، چنیوٹ)
باسمہ سبحانہ
من ابی الزاہد
الیٰ محترم المقام حضرت العلام مولانا ........... صاحب دام مجدہم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟
آپ کا گرامی نامہ موصول ہوا۔ حسن عقیدت اور خوش اعتمادی کا شکریہ!
محترم!
(۱) راقم اثیم ایک اشد مجبوری کی وجہ سے انگلستان چلا گیا تھا۔ چند دن ہوئے کہ واپس آیا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ مولانا مفتی عبد الشکور صاحب چھٹی پر ہیں۔ ابھی تک آئے نہیں۔ اس لیے ان سے بات کیے بغیر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ علاوہ ازیں گزارش ہے کہ آپ خود صاحب بصیرت ہیں۔ تحریر فرما دیں۔ اگر کوئی کمی ہوگی (اور کس مصنف کی کتاب میں نہیں ہوتی؟) تو ان شاء اللہ العزیز دوسرے ایڈیشن میں اصلاح ہو جائے گی۔ ہمت سے کام لیں۔ واللہ ینصرک۔
(۲) آپ آگے بھی اجازت دے سکتے ہیں، لیکن کسی ایسے لالچی آدمی کو نہ دیں جو لوگوں کی کھالیں اتارے اور ان کے پاس صرف ہڈیاں ہی رہنے دے۔ عمل کے لیے چلہ یہ ہے کہ تین نفلی روزے رکھے جائیں۔ پھر تعویذ موثر ہوگا۔ آپ کے والد ماجد صاحب دام مجدہم کو بھی اسی شرط کے ساتھ اجازت ہے جو پہلے آپ کو تحریر کی گئی ہے۔
(۳) (الف) راقم اثیم نے ایک قسم کا حلف اٹھایا ہوا ہے کہ خود حوالہ نہیں بتائے گا۔ جویندہ یابندہ۔
(ب) راقم اثیم نے پہلے عرض کیا تھا کہ ہمارے پاس جو فتاویٰ عبد الحئ ہے، فارسی اوراردو کا مجموعہ ہے۔ اس کی تین ہی جلدیں ہیں۔ ممکن ہے مترجمین نے سہولت کے لیے اسے اردو کی چار جلدوں میں طبع کرا دیا ہو۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
(۴) ہمارا مدرسہ پہلے رجسٹرڈ بھی نہ تھا اور اس کا وفاق المدارس سے الحاق بھی نہ تھا، مگر چند مجبوریوں کی وجہ سے اب رجسٹرڈ بھی ہے اور ملحق بھی۔ آپ کا یہ خیال نظر انداز کرنے کے قابل نہیں کہ الحاق کے بعد فوج اور سکولوں میں چلے جائیں گے اور ہمارا مشاہدہ ہے کہ ایسا ہوا ہے، لیکن اپنا پچاس سالہ تجربہ یہ ہے کہ فوج اور سکول میں وہی جاتے ہیں جو علمی طو رپر کمزور ہوتے ہیں اور صرف سند کے سہارے جیتے ہیں اور وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ہم عربی مدارس میں طلبہ کو مطمئن نہیں کر سکتے۔ راقم اثیم کا خیال ہے کہ ان کا وہاں جانا ہی بہتر ہے تاکہ وہاں بھی مسلک کا کچھ نہ کچھ بیان اور اثر ہو، ورنہ اہل بدعت وغیرہ وہاں چھا گئے تو پھر بہت نقصان ہوگا۔ اور نصرۃ العلوم کے کئی فارغ فوج اور سکولوں میں ڈٹ کر مسلک کا کام کرتے ہیں اور بڑی جرات کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو مزید توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
باقی رہے وہ حضرات جو بخوبی کتابیں پڑھا سکتے ہیں، گو وہ تعداد میں بہت کم ہوتے ہیں، لیکن ماشاء اللہ ہر سال ضرور ہوتے ہیں۔ وہ آپ کی طرح طبعاً فوج اور سکول میں جانے سے نفرت کرتے ہیں۔ وہ مدارس ہی کا رخ کرتے ہیں اور درس نظامی پڑھانے میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔ اور وفاق المدارس سے فارغ شدہ حضرات کے لیے مدارس میں کھپت کی اتنی جگہ ہی نہیں ہوتی اور نہ طلبہ نئے مدرس پر پوری طرح مطمئن ہوتے ہیں۔ یہاں تو سالہا سال کے بعد کہیں پوزیشن قائم ہوتی ہے، الا من شاء اللہ تعالیٰ۔ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اور درس نظامی سے فارغ ہونے والوں، سب کو حسن نیت کی توفیق ارزاں فرمائے اور اس پر استقامت عطا فرمائے۔
حضرت والد صاحب دام مجدہم اور دیگر حاضرین مجلس سے سلام مسنون عرض کریں۔ مقبول دعاؤں میں نہ بھولیں۔ بفضلہ تعالیٰ طالب دعا بھی داعی بالخیر ہے۔
والسلام
احقر ابو الزاہد محمد سرفراز از گکھڑ
۲؍ اکتوبر ۱۹۷۸ء
بنام: مولانا مفتی محمد اسلم حاصل پوری
باسمہ سبحانہ
من ابی الزاہد
الیٰ محترم المقام جناب مولانا ........... صاحب دام مجدہم
وعلیکم وعلیٰ من لدیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج سامی؟
آپ کا محبت نامہ موصول ہوا۔ یاد آوری کا تہ دل سے ہزار شکریہ!
محترم! تین نفلی روزے رکھیں اور بغیر طمع ولالچ کے مخلوق خدا کے فائدہ کی خاطر تعویذات لکھ دیں۔ اگر کوئی اپنی مرضی سے تھوڑی یا زیادہ خدمت کر دے تو بالکل حلال وطیب ہے، لا ریب فیہ۔ مگر طلب کرنا ہمارے اکابر کے طریقہ کے خلاف ہے۔ اسی شرط پر اوروں کو بھی اجازت دے سکتے ہیں، کیونکہ مخلوق خدا کو فائدہ پہنچانا عمدہ نیکی ہے۔ راقم اثیم کی قلبی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو علم وعمل اور نفع رسانی کی زندگی عطا فرمائے، وما ذالک علی اللہ بعزیز۔
استاد محترم حضرت العلام مولانا صاحب دام مجدہم اور دیگر حضرات سامعین واساتذہ کرام سے خصوصاً مولانا مشتاق احمد صاحب سے سلام مسنون عرض کریں۔ راقم اثیم خود بھی علیل ہے۔ گھر میں بھی علالت ہے۔ دعوات مستجابات میں نہ بھولیں۔ بفضلہ تعالیٰ یہ خاطی وعاصی بھی داعی ہے۔
والسلام
احقر ابو الزاہد محمد سرفراز از گکھڑ
۲۱؍شوال ۱۴۱۰ھ/۱۷؍مئی ۱۹۹۰ء
بنام: مولانا محمد عبد المعبود (راول پنڈی)
(۱)
باسمہ سبحانہ
الیٰ محترم المقام جناب حضرت مولانا ....... صاحب دام مجدکم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟
یاد آوری کا تہ دل صد در صد شکریہ۔
آپ بہتر یہ ہے کہ تقویۃ الایمان مصنفہ حضرت شاہ اسمٰعیل شہید (المتوفی ۱۲۴۶ھ) کا مطالعہ کریں۔ آپ اہل علم ہیں اور اہل نظربھی، آپ کے سامنے حقیقت بے نقاب ہو جائے گی۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے اعبدوا ربکم واکرموا اخاکم (الحدیث) کے ترجمہ میں فائدہ بیان کرتے ہوئے یہ تحریر فرمایا ہے کہ عبادت تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہو سکتی ہے، اپنے بھائی کی یعنی میری عزت کرو۔ تم چھوٹے بھائی ہو، میں بڑا ہوں۔ (محصلہ) جس مقام پرانھوں نے لکھا ہے، ہرگز ہرگز وہاں توہین کا کوئی پہلو نہیں نکلتا۔ نا انصافی کا دنیا میں کوئی علاج نہیں ہے۔ تقویۃ الایمان راول پنڈی وغیرہ سے مل جائے گی۔ ضرور مطالعہ فرمائیں۔
اپنے احباب سے سلام مسنون عرض کریں اورمیرے حق میں دعائے خیر کرتے رہیں۔
والسلام
احقر ابو الزاہد از گکھڑ
۲۱؍ شوال ۱۳۷۷ھ/۱۱؍ مئی ۱۹۹۸ء
(۲)
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
من ابی الزاہد
الیٰ محترم المقام حضرت العلام جناب مولانا ............. صاحب دام مجدہم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج سامی؟
آپ کا محبت نامہ ملا۔ یاد آوری، کرم فرمائی، حسن ظنی اور ذرہ نوازی کا صمیم قلب سے ہزار شکریہ، ورنہ من آ نم کہ من دانم۔ کیا پدی اور کیا پد ی کا شوربا!
محترم! آپ کا گرامی نامہ تو کافی دنوں سے موصول ہو چکا ہے مگر مدرسہ نصرۃ العلوم میں نصاب کی تکمیل پھر سالانہ امتحان کے سلسلے کی مصروفیت، فیصل آباد، سیالکوٹ اور شیخوپورہ وغیرہ کے تین چار پروگرام، پھر بروز جمعہ ساڑھے گیارہ [سال] عمر کے پوتے کا مسجد کی چھت سے گر کر فوت ہو جانا اور مہمانوں کی بکثرت آمد ایسے عوارضات پیش آئے کہ جلدی جواب نہ دیا جا سکا، لہٰذا تاخیر جواب بار خاطر نہ ہو۔
محترم! حضرت مولانا غلام غوث صاحب ہزاروی رحمہ اللہ تعالیٰ نے مانسہرہ میں مولوی غلام محمد صاحب بالاکوٹی عرضی نویس کے اہتمام میں انجمن اصلاح الرسوم کے عنوان سے ایک مدرسہ قائم کیا تھا جس میں راقم اثیم نے حضرت سے تعلیم الاسلام کے چند اسباق پڑھے تھے۔ پھر حضرت کے مزاج کی تیزی کی وجہ سے بوجوہ وہ مدرسہ نہ چل سکا اور حضرت نے بفہ میں اپنا مطب قائم کر لیا۔ وہاں کوئی مدرسہ نہ تھا۔ راقم اثیم مسجد میں رہتا تھا اور ان کے مطب میں دوائیاں کوٹتا اور بناتا تھا۔ حضرت اکثر باہر دورے اور مریضوں کی دیکھ بھال پر رہتے تھے۔ وہاں مطب میں راقم اثیم نے حضرت سے نحو میر کے چند اسباق پڑھے تھے اور پھر وہاں سے چلا گیا۔ حضرت کی وفات پر راقم اثیم کا ایک مضمون مرزا غلام نبی صاحب جانباز کے تبصرہ میں شائع ہوا تھا۔ اس کو مہیا کر کے ضرور ملاحظہ فرمائیں۔ امید ہے کہ تلاش پر کہیں سے مل جائے گا۔ جویندہ یابندہ۔
حاضرین سے سلام مسنون ارشاد فرمائیں اور نیک دعاؤں میں نہ بھولیں۔ بفضلہ تعالیٰ یہ آثم وخاطی بھی داعی ہے۔
والسلام
احقر ابو الزاہد محمد سرفراز از گکھڑ
۲۳؍ رجب ۱۴۱۰ھ/۲۰؍ فروری ۱۹۹۰ء
بنام: مفتی ایاز احمد حقانی (شب قدر فورٹ، چارسدہ)
الیٰ محترم المقام حضرت العلام مولانا ............... صاحب دام مجدہم
وعلیکم وعلیٰ من لدیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟
آپ کا نوازش نامہ تو کافی دنوں سے موصول ہو چکا تھا۔ یاد آوری، کرم فرمائی، حسن ظنی اور ذرہ نوازی کا صمیم قلب سے صد شکریہ، ورنہ من آنم کہ من دانم۔ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ!
محترم! راقم اثیم بے حد مصروف رہتا ہے۔ کبر سنی اور علالت اس پر مستزاد ہے۔ اور صوابی کی نسبت سے آپ کے شفقت نامہ کا جواب اور بھی ضروری تھا مگر سفر برطانیہ کی وجہ سے اسباق کے خاصے ناغے ہو گئے تھے اور بمشکل ۶ رجب تک تفسیر قرآن کریم، بخاری شریف، ترمذی شریف وغیرہ ختم ہوئے۔
گاڑی میں آتے آتے راقم اثیم نے ’’النصیحۃ‘‘ کے چند صفحات پڑھے، مگر عریضہ لکھنے میں تاخیر ہو گئی۔ معذرت خواہ ہوں۔
وللارض من کاس الکرام نصیب
دیگر مضامین بھی بحمد اللہ تعالیٰ خاصے مفید ہیں، لیکن غلام احمد قادیانی کے کفریہ عقائد کا مضمون بڑا مدلل، باحوالہ اور مفید ہے۔ صوبہ سرحد میں ایسے مضامین سے نوخیز مگر مادر پدر آزاد طبیعتوں پر اتمام حجت ہوگی، گو ماننا نہ ماننا اپنی مرضی کا ہے۔ بعض انگریزی خواں یہ سمجھتے ہیں کہ قادیانی فرقہ خادم (درحقیقت ہادم) دین ہے مگر مولوی ان کو تبلیغ نہیں کرنے دیتے، کیونکہ وہ غلام احمد قادیانی اور اس کے چیلوں کے واضح کفریات سے بالکل بے خبر ہوتے ہیں اور اس اختلاف کو حنفی، شافعی وغیرہ کے اختلاف کا درجہ دیتے ہیں، جبکہ قادیانی بھی اپنے کفریہ عقائد پر ڈٹے ہوئے ہیں اور معاذ اللہ تعالیٰ اسے اسلام کا رنگ دینے کی قسم اٹھائے ہوئے ہیں۔ ایسے موقع پر حق کو واضح کرنا اور بھی ضروری ہو جاتا ہے تاکہ نیک وبد میں پرکھ کرنے والے غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔
وہی بالا ہیں دنیا میں جو اپنا نیک وبد سمجھیں
یہ نکتہ وہ ہے جس کو اہل دل اہل خرد سمجھیں
بہت ناکامیوں کے بعد بھی اصرار خود بینی
اسے دانائی سمجھیں یا کہ نادانی کی حد سمجھیں
راقم اثیم کا تازہ رسالہ ’’ختم نبوت کتاب وسنت کی روشنی میں‘‘ ضرور مطالعہ وملاحظہ کریں جو اجلاس عالمی ختم نبوت کے اجتماع دار العلوم دیوبند کے لیے مقالہ کی شکل میں تیار کیا گیا تھا مگر ویزہ نہ مل سکنے کی وجہ سے وہاں نہ پہنچایا جا سکا۔ مکتبہ حنفیہ گوجرانوالہ نے طبع کر دیا ہے۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ’’النصیحۃ‘‘ کو صحیح معنی میں مسلمانوں کے لیے نصیحت بنائے اور اسے مقبول خواص وعوام کرے۔ آمین ثم آمین۔ پروف دیکھنے کے لیے اور اغلاط کی درستگی کے لیے کوئی مستعد اور جفاکش آدمی مقرر کریں۔ بعض مقامات میں طباعت کی صفائی نہیں ہوتی۔ واللہ الموفق
حاضرین مجلس سے سلام مسنون ارشاد فرمائیں اور دعوات مستجابات میں نہ بھولیں۔ بفضلہ تعالیٰ یہ خاطی بھی داعی ہے۔
والسلام
احقر ابو الزاہد محمد سرفراز خان
صدر مدرس مدرسہ نصرت العلوم گوجرانوالہ
۸ رجب ۱۴۰۷ھ/۹ مارچ ۱۹۸۷ء
بنام: قاری جمیل الرحمن کشمیری (ریاض، سعودی عرب)
باسمہ سبحانہ
من ابی الزاہد
الیٰ محترم المقام جناب قاری ........... صاحب دام مجدہم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟
آپ کا گرامی نامہ موصول ہوا۔ حسن عقیدت اور یاد آوری کا تہ دل [سے] ہزار شکریہ۔
محترم!
۱۔ پیر کا انتخاب اپنے اپنے مذاق اور صواب دید پر ہوتا ہے۔ اس میں کسی کا نام لینا بے کار ہے۔ آپ اس میں خود رائے قائم کریں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سمجھ عطا فرمائی ہے اور جہاندیدہ ہیں۔
۲۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی اہلیہ محترمہ کو صحت کاملہ وعاجلہ سے اور نرینہ اولاد سے نوازے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا گناہ ہے اور بڑے زمانہ کے بعد بھی رحمت خداوندی ہوتی رہتی ہے۔ یہ وظیفہ کثرت سے پڑھیں: وَیَہَبُ لِمَن یَشَاءُ الذُّکُورَ اور رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْداً وَأَنتَ خَیْْرُ الْوَارِثِیْنَ۔ اول آخر میں تین تین مرتبہ نماز والا درود شریف پڑھیں اور درمیان میں پانچ یا سات مرتبہ یہ پڑھیں۔ اللہ تعالیٰ خوشی عطا فرمائے، آمین۔
۳۔ یہ پڑھ کر خوشی ہوئی کہ اہلیہ محترمہ کو بھی حج کی سعادت نصیب ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ حج مبرور نصیب فرمائے۔
۴۔ عین طواف کے وقت کعبہ کی طرف رخ نہ کرنا۔ اس مسئلہ کو نہ بھولیں اور نہ کسی کی کاروائی سے متاثر ہونا۔ ہاں حجر اسود اور رکن یمانی کے سامنے چونکہ ٹھہراؤ کا وقت ہے، اس وقت کعبہ کی طرف منہ پھیرنا درست ہے۔
۵۔ روضہ اقدس پر راقم اثیم کا نام لے کر صلوٰۃ وسلام عرض کرنا۔ تاکید ہے۔
۶۔ ۱۵؍ جولائی کو عزیزم زاہد الراشدی، مولانا چنیوٹی، علامہ خالد محمود اور ضیاء القاسمی لندن روانہ ہو چکے ہیں اور وہاں سے ان شاء اللہ العزیز حج کے لیے روانہ ہوں گے۔
حاضرین مجلس سے سلام عرض کریں اور نیک دعاؤں میں نہ بھولیں۔
والسلام
احقر ابو الزاہد محمد سرفراز از گکھڑ
۲۶؍ شوال ۱۴۰۵ھ/۱۸؍ جولائی ۱۹۸۵ء
بنام: مولانا مفتی محمد شریف عابر (مسجد گنبدوالی، جہلم)
(۱)
باسمہ سبحانہ
من ابی الزاہد
الیٰ محترم المقام جناب مفتی .............. صاحب دام مجدہم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج سامی؟
آپ کا گرامی نامہ تو کافی دنوں سے موصول ہو چکا ہے، مگر دورۂ تفسیر میں بے حد مصروفیت اور رمضان مبارک کے دیگر مشاغل کی وجہ سے جواب میں تاخیر ہو گئی ہے۔
محترم! راقم اثیم اب عمر کے اس حصہ کو پہنچ گیا ہے کہ کتابوں کی ورق گردانی اور تحقیق مسائل پہاڑ نظر آتے ہیں۔ مشکل سے اپنی ڈیوٹیاں دیتا ہوں۔ اب میدان آپ لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ دوڑنا بھی آپ کا کام ہے۔
محترم! لا نکفر احدا بذنب کے حوالے اور اصول بالکل صحیح ہے۔ سبِ صحابہ کرام کو (بغیر حضرات شیخینؓ وحضرت سیدہؓ عند البعض والبحث فی المرقات وغیرہ) گناہ کہتے ہیں، کفر نہیں کہتے۔ روافض کی تکفیر حضرات صحابہ کرامؓ کی تکفیر کی وجہ سے ہے (بقیہ وجوہ کے علاوہ) کیونکہ اس میں اولئک ہم المومنون حقا کی تکذیب اور انکار لازم آتا ہے جو بجائے خود کفر ہے۔ حضرت گنگوہیؒ سب کی وجہ سے تکفیر نہیں کرتے، دیگر وجوہ کی بنا پر کرتے ہیں جو ارشاد الشیعہ میں مفصل موجود ہیں۔ راقم کے پاس فتاویٰ رشیدیہ طبع جید برقی پریس دہلی ہے، مبوب نہیں ہے۔ یہ عبارت مجھے اپنے نسخہ میں نہیں مل سکی ’’اور بندہ بھی ان کی تکفیر نہیں کرتا‘‘۔ یہ آپ مہربانی کر کے اصل نسخہ میں تلاش کر کے لکھیں۔ راقم میں ہمت نہیں ہے۔
حاضرین مجلس سے سلام مسنون عرض کریں اور نیک دعاؤں میں نہ بھولیں۔ بفضلہ تعالیٰ یہ عاصی وخاطی بھی داعی ہے۔
آپ نے فتاویٰ رشیدیہ کی جس عبارت کی تاویل کی ہے، وہ درست نہیں ہے۔ غور فرما لیں۔
والسلام
احقر ابو الزاہد محمد سرفراز از گکھڑ
۲۵؍ رمضان ۱۴۱۰ھ/۲۱؍ اپریل ۱۹۹۰ء
(۲)
حضرت العلام مولانا .......... صاحب دام مجدم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزان؟
آپ کی جواب دہی کا صد شکریہ۔
محترم! فتاویٰ رشیدیہ طبع جدید برقی پریس دہلی حصہ دوم ص ۴۵ میں مجھے یہ عبارت نہیں مل سکی۔ غور فرمائیں۔ ص ۴۴ میں ناچ اور اسراف وغیرہ گناہوں کا ذکر ہے۔ ان گناہوں کی وجہ سے عدم تکفیر ہے۔ ص ۴۵ میں ’’الجواب صحیح بندہ رشید احمد‘‘ اور ص ۴۵ سطر ۸ میں رشوت کا مسئلہ ہے۔ غور فرما کر مجھے حقیقت حال سے آگاہ فرمائیں۔ شکریہ
والسلام
احقر ابو الزاہد محمد سرفراز
۳۰؍ رمضان ۱۴۱۰ھ
(۳)
باسمہ سبحانہ
۹؍ شوال ۱۴۱۰ھ/۵؍ مئی ۱۹۹۰ء
من ابی الزاہد
الیٰ محترم المقام جناب حضرت مولانا مفتی .............صاحب دام مجدہم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟
آپ کا گرامی نامہ ملا اور فوٹو اسٹیٹ کاپیاں بھی موصول ہوئیں۔ آپ کی اس تکلیف فرمائی کا تہ دل سے صد شکریہ، مگر محترم! مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا۔ راقم کے پاس جو فتاویٰ رشیدیہ ہے، اس کے ٹائٹل اور جلد دوم ص ۴۵ کی فوٹو اسٹیٹ کاپیاں ارسال ہیں۔ مشین صاف نہ ہونے کی وجہ سے کاپیاں اگرچہ صاف نہیں لیکن مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ یہ فتویٰ بنام حکیم غلام احمد صاحب ہے اور بقلم مولانا محمد یحییٰ صاحب ہے اور جلد دوم بھی ہے اور صفحہ بھی ۴۵ ہے، مگر زمین وآسمان کا فرق ہے۔ غور فرمائیں کہ کہیں جعل سازوں نے فتاویٰ رشیدیہ کا حلیہ ہی نہ بگاڑ دیا ہو۔ خوب غور کریں۔
اگر یہ ثابت ہو جائے کہ یہ فتاویٰ رشیدیہ کی ہی عبارت ہے تو تطبیق یوں ہوگی کہ فتاویٰ رشیدیہ ج ۲ ص۳۲ میں رافضی کو کافر کہا گیا ہے اور اس عبارت میں شیعہ کی تکفیر نہیں کی۔ شیعہ اور رافضی کا فرق ارشاد الشیعہ ص ۲۰ میں ملاحظہ کر لیں۔ علامہ ذہبیؒ میزان الاعتدال کے مقدمہ میں اور علامہ سیوطیؒ تدریب الراوی ص ۲۱۸ میں لکھتے ہیں، واللفظ لہ:
البدعۃ (ای فی الشیعۃ) علیٰ ضربین، صغری کالشیع بلا غلو او بغلو کمن تکلم فی حق من حارب علیا فہذا کثیر فی التابعین وتابعیہم مع الدین والورع والصدق فلو رد ہولاء لذہب جملۃ من الآثار ثم بدعۃ کبریٰ کالرفض الکامل والغلو فیہ والحط علیٰ ابی بکر وعمر والدعاء الی ذلک فہذا النوع لا یحتج بہم ولا کرامۃ اھ۔ شیعہ اور رافضی کا فرق کیا ہے۔
الغرض ارشاد الشیعہ ص ۲۰ کو غور سے پڑھیں گے تو ان شاء اللہ العزیز رافضی اور شیعہ کا فرق اور تکفیر وعدم تکفیر کی وجہ واضح ہو جائے گی اور فتاویٰ رشیدیہ کی دونوں عبارتوں میں تطبیق پیدا ہو جائے گی۔ مگر فتاویٰ رشیدیہ اصل کون سا ہے اور جعلی کون سا ہے، یہ اشکال تاہنوز باقی ہے۔ راقم کے پاس تو نسخہ پاکستان بننے سے پہلے کا ہے اور یہی صحیح ہے۔
نیک دعاؤں میں نہ بھولیں۔
والسلام
احقر ابو الزاہد محمد سرفراز از گکھڑ
(۴)
باسمہ سبحانہ
من ابی الزاہد
الیٰ محترم المقام جناب حضرت مولانا ............. صاحب دام مجدہم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟
یاد آوری کا صمیم قلب سے صد شکریہ۔
محترم! راقم اثیم نے جب بھی کسی پر اعتماد کر کے حوالے درج کیے، وہیں علمی مار کھائی ہے۔ فیصل آباد سے ایک رسالہ نکلتا تھا، پاکستانی۔ یہ حوالہ اس سے لیا گیا تھا اور آپ سے پہلے بھی دو چار اہل علم مخلص ساتھیوں نے اس کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ان شاء اللہ العزیز اس کو کتاب سے نکال دیا جائے گا۔ آپ کا بہت بہت شکریہ
حاضرین مجلس سے سلام مسنون عرض کریں اور نیک دعاؤں میں نہ بھولیں۔ بفضلہ تعالیٰ یہ خاطی بھی داعی ہے۔
والسلام
احقر ابو الزاہد محمد سرفراز از گکھڑ
۲؍ جمادی الاولیٰ ۱۴۰۸ھ/۲۴؍ دسمبر ۱۹۸۷ء
بنام: مولانا شبیر احمد انور (رحیم یار خان)
(۱)
باسمہ سبحانہ
منجانب ا۔ ب۔ ز
الی محترم المقام جناب مولانا .............. صاحب دام مجدہم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج سامی؟
نوازش نامہ موصول ہوا۔ صد شکریہ
۱۔ کھڑے ہو کر قبر کی طرف منہ کر کے دعا کرنے کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض حضرات نے ایک صورت اور بعض نے دوسری صورت لے لی ہے۔ جس پر چاہے، عمل کرے۔
۲۔ فتاویٰ عبد الحئ میں دعا بعد از عید کا جواز ثابت ہے۔ اس مسئلہ میں بھی اختلاف ہے۔ شدت مناسب نہیں ہے۔ کبھی کر لے، کبھی ترک کر دے۔
۳۔ خاک شفا کا کھانا حرام ہے۔ ہاں بطور تبرک پھوڑے پھنسی پر مل اور لگا سکتا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
(۲)
باسمہ سبحانہ
منجانب ابی الزاہد
الیٰ محترم المقام جناب حضرت مولانا ............. صاحب دام مجدہم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟
آپ کا نوازش نامہ موصول ہوا۔ یاد آوری کا صد شکریہ
محترم! زیارت کسی قابل قدر اور بزرگ ہستی کی ہونی چاہیے۔ راقم جیسے اثیم تو ہر جگہ موجود ہیں۔ پھر ایسوں کی زیارت کا کیا مطلب؟
آپ کا کوئی عریضہ مسئلہ پر مشتمل جہاں تک راقم کو یاد ہے، مجھے نہیں ملا۔ اونچی ایڑی والی جوتی اگرچہ عورتوں کے لیے حرام تو نہیں، لیکن مکروہ ضرور ہے اور حدیث من تشبہ بقوم فہو منہم کی زد میں ہے۔ لہٰذا شریف اور دین دار عورتوں کو ہرگز یہ استعمال نہیں کرنی چاہیے۔ ہمارے گھروں میں بفضلہ تعالیٰ ایسی جوتیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔
مدرسہ نصرۃ العلوم والوں کا گزشتہ دو سال کی طرح امسال بھی ارادہ ہے کہ یکم شعبان تا ۲۵ رمضان قرآن کریم کا تفسیری دورہ ہو۔ اللہ تعالیٰ توفیق مرحمت فرمائے۔
تمام بزرگوں اور دوستوں کو سلام مسنون عرض کریں اور ہمارے حق میں دعا کرتے رہیں۔ ہم بھی بفضلہ تعالیٰ دعاگو ہیں۔
والسلام
احقر ابو الزاہد محمد سرفراز از گکھڑ
۳۰؍ جمادی الاخریٰ ۱۳۹۸ھ/۷؍ جون ۱۹۷۸ء
(۳)
باسمہ سبحانہ
منجانب ابی الزاہد
الیٰ محترم المقام جناب حضرت مولانا ............ صاحب دام مجدہم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟
آپ کا نوازش نامہ موصول ہوا۔ یاد آوری کا شکریہ
قریب کے زمانہ میں آپ کا کوئی گرامی نامہ راقم کو موصول نہیں ہوا۔
شادی کے موقع پر رنگ ڈالنا، یہ ہندوانہ رسم ہے۔ مسلمانوں کو اس سے پرہیز کرنی چاہیے۔ بخاری ج ۲ ص ۷۵۹ میں روایت ہے کہ حضرت عبد الرحمنؓ بن عوف نے شادی کی، وعلیہ صفرۃ الحدیث۔ اور مشکوٰۃ ج ۲ ص ۲۷۸ میں ہے، ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم رای علیٰ عبد الرحمنؓ بن عوف اثر صفرۃ فقال ما ہذا الحدیث۔ حدیث تو صحیح ہے لیکن اس سے رنگ ڈالنا ثابت نہیں ہوتا۔ چنانچہ علامہ طیبیؒ وغیرہ لکھتے ہیں، یحتمل الانکار فانہ کان ینہی عن التضمخ بالخلوق فاجاب بانہ لیس تضمخا بل شئ علق بہ من مخالطۃ العروس ای من غیر قصد او من غیر اطلاع اھ۔ ہامش مشکوٰۃ ج ۲ ص ۲۷۸
الغرض اس روایت سے یہ مسئلہ ثابت نہیں ہوتا بلکہ نفی ہوتی ہے۔
بحمد اللہ تعالیٰ مسجد نور محکمہ اوقاف نے واپس کر دی ہے۔ اسباق شروع ہیں۔ راقم کی صحت بھی فی الجملہ اچھی ہے۔ مزید دعا کرتے رہیں اور اپنے بزرگوں اور دوستوں سے سلام مسنون عرض کریں۔
والسلام
احقر ابو الزاہد محمد سرفراز از گکھڑ
۱۳؍ ذو القعدہ ۱۳۹۷ھ/۲۷؍ اکتوبر ۱۹۷۷ء
بنام: حافظ بشیر احمد چیمہ (دوبئی)
(۱)
باسمہ سبحانہ
من ابی الزاہد
الیٰ عزیز القدر مولانا حافظ بشیر احمد صاحب دام مجدہم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟
آپ کا محبت نامہ مع ہدیہ کے موصول ہوا، جزاکم اللہ تعالیٰ فی الدارین خیرا۔
عزیز القدر! کراچی کا سفر میرے لیے گو تکلیف دہ تھا، مگر بحمد اللہ تعالیٰ جماعت اور مسلک کے لیے بہت ہی مفید رہا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو استقامت علیٰ الدین مرحمت فرمائے۔ اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں، وہ قادر مطلق ہے۔
عزیز القدر! بخاری شریف کی تقریر کا حصہ اول جو عزیزم عابد نے مرتب کیا، احسان الباری لفہم البخاری طبع ہو گیا ہے اور ترمذی شریف کی تقریروں کا مجموعہ بھی عابد نے مرتب کیا ہے۔ تین جلدوں میں ہے، طبع ہو گیا ہے۔ وہ تینوں جلدیں اکٹھی کر دی گئیں۔ اس کا نام خزائن السنن ہے۔ ویسے بخاری اور ترمذی کی تقریروں کی کیسٹیں متعدد حضرات کے پاس ہیں۔ ایک فوج کے بریگیڈیئر ہیں، مستنصر باللہ۔ انھوں نے بڑے اہتمام کے ساتھ لی ہیں۔ اس سال بھی اسباق میں کیسٹیں لگی ہوتی ہیں۔ غالباً قاری عبید اللہ عامر انتظام کر رہے ہیں۔ کوئی آنے والا ہو تو خزائن السنن اور احسان الباری آپ کو ہدیۃً بھیجی جا سکتی ہیں۔ ہمیں آنے جانے والے کا پتہ نہیں چلتا۔
تمام حضرات علماے کرام اور احباب اور عزیزم رشید احمد کو سلام مسنون عرض کریں۔ طبیعت کمزور ہو گئی ہے۔
والسلام
ابو الزاہد محمد سرفراز۔ از گکھڑ
۹؍ جمادی الاولیٰ ۱۴۱۳ھ/۵؍ نومبر
(۲)
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
من ابی الزاہد
الیٰ عزیز القدر محترم جناب حافظ بشیر احمد صاحب دام مجدہم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟
آپ کا ارسال کردہ ہدیہ مبلغ ایک ہزار موصول ہو چکا ہے۔ یہ حقیر تحفہ نہیں، بلکہ کثیر وخطیر تحفہ ہے۔ جزاکم اللہ تعالیٰ فی الدارین احسن الجزاء کما یلیق بشانہ الاعلیٰ۔
عزیز القدر! ہمیں یہ فخر اور خوشی کیا کم ہے کہ آپ وہاں اہل حق کی نمائندگی کرتے ہیں اور دین کو علماً وعملاً اصلی شکل وصورت میں پیش کرتے ہیں اور مسلک حق کی اشاعت کرتے ہیں اور غلط نظریات واعمال کے سامنے دیوار ہیں۔ اللہم زد فزد۔
عزیز القدر! راقم کی طبیعت دن بدن کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ گھر میں اہلیہ مزوجہ عابد وماجد بھی علیل ہیں اور سبھی زیر علاج اور محتاج دعا ہیں۔ ماجد مع بیوی اور بچوں کے آب وہوا کی تبدیلی کے سلسلہ میں وطن گئے ہوئے ہیں۔ ساجد اور راشد بھی ساتھ ہے۔ عزیزم زاہد، شاہد اور ناصر افغانستان گئے ہیں۔ گرمی بڑی شدت کی ہے۔ بجلی، گیس اور اشیا کی قیمتیں بجٹ کے بعد خوب بڑھ گئی ہیں۔ ملک میں افرا تفری ہے۔ امن وسکون مخدوش ہے۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔
عزیز رشید احمد اور جملہ باقی واقف کار علماء کرام اور ساتھیوں سے سلام مسنون عرض کریں اور نیک دعاؤں میں نہ بھولیں۔ بفضلہ تعالیٰ ہم بھی دعاگو ہیں۔ اہلیہ اور عزیزم حماد کی طرف سے بہت بہت سلام۔
والسلام
احقر ابو الزاہد محمد سرفراز از گکھڑ
۱۴؍ ذو الحجہ ۱۴۰۹ھ/۱۸؍ جولائی ۱۹۸۹ء
بنام: مولانا محمد مفتی عیسیٰ خان گورمانی
(۱)
باسمہ سبحانہ
منجانب ابی الزاہد
الیٰ محترم المقام جناب حضرت مولانا ............ صاحب دام مجدکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟
آپ کا ارسال کردہ خط جس میں حوالے درج تھے، موصول ہوا۔ صد شکریہ!
اہل بدعت نے تبرید النواظر کی ایک عبارت پر اعتراض کیا ہے اور اس کو ایک سازش کے رنگ میں پاکستان بھر میں اچھالنا چاہتے ہیں۔ وہ عبارت یہ ہے:
’’اور اس مسئلہ کو انھوں (حضرت ملا علی ن القاریؒ ) نے شرح شفا میں پیش کیا ہے کہ لا لان روحہ حاضر فی بیوت المسلمین۔ ------- بعض نسخوں میں حرف لا چھوٹ گیا ہے جس سے بعض لوگوں کو یوں ہی بلاوجہ اشتباہ ہوا ہے۔ الخ‘‘ (حاشیہ تبرید ص ۱۶۵)
اہل بدعت کا کہنا ہے کہ یہ افترا ہے۔ شرح شفا میں لا کا لفظ کوئی نہیں ہے۔ چونکہ تبرید النواظر کو لکھے کافی سال ہو چکے ہیں اور راقم کے پاس اس وقت شرح شفاء موجود نہیں ہے، اس لیے آپ تکلیف فرما کر شفاء میں اس عبارت : ’ان لم یکن فی البیت احد فقل السلام علیک ایہا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘ کی شرح میں شرح شفا ء ملا علی ن القاریؒ کی یہ عبارت سیاق وسباق کے ساتھ مکمل لکھ کر جلدی ارسال فرمائیں۔ شکریہ۔ ’لان روحہ روح النبی علیہ السلام حاضر فی بیوت اہل الاسلام‘۔
صحت اچھی نہیں رہتی۔ دعا فرمائیں۔ ان شاء اللہ حضرت مولانا سے ملاقات کی کوشش کروں گا۔
اگر شرح شفا کے دو تین مختلف مطبع کے نسخے دست یاب ہو جائیں تو بہتر رہیں گے۔
والسلام
احقر ابو الزاہد از گکھڑ
۱۵؍ رمضان ۱۳۸۶ھ/۲۸؍ دسمبر ۱۹۶۶ء
(۲)
باسمہ سبحانہ
من ابی الزاہد
الیٰ محترم المقام جناب مولانا مفتی محمد عیسیٰ صاحب دام مجدہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج سامی؟
میر ے پاس دار الافتاء دار العلوم کراچی کا ایک استفتا از دست عزیزم قارن سلمہ اللہ تعالیٰ پہنچا ہے جس پر آپ کے دستخط اور تصدیق بھی ہے۔ آپ بفضلہ تعالیٰ ذمہ دار، صاحب الرای اور افتا کے مجاز ہیں۔ اگر آپ کے نزدیک صحیح ہے تو راقم اثیم کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ آپ اپنے افتاء میں نہ صرف معذور بلکہ ماجور ہوں گے، لیکن راقم اثیم اپنے آپ کو تائید کرنے پر آمادہ نہیں پاتا جس کی کئی وجوہ ہیں:
(۱) یہ فتویٰ صرف سرکاری رؤیت ہلال کمیٹی کے دفاع کے لیے ہے۔ اس کے ارکان بھی باوجود علما ہونے کے انسان ہیں۔ نہ معصوم ہیں اور نہ مجتہد ہیں۔ ان سے غلطی کا امکان بلکہ وقوع ہو سکتا ہے اور اغلب یہی ہے۔
(۲) فقہی منقولہ جزئیات اور حوالے، خاص کر حضرت امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ کا فتویٰ صحیح اور حق ہے اور وہ وہاں رفع اختلاف کر سکتا ہے جہاں حنفی ہی حنفی ہوں۔ جہاں حضرات فقہاء کرامؒ کے باغی بھی موجود ہوں تو وہاں ان کا قول کیونکر رافع خلاف ہوگا یا ہو سکتا ہے؟
(۳) اگر غیر مقلدین آپ حضرات سے یہ سوال کریں کہ حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد تو یہ ہے: صوموا لرؤیتہ وافطروا لرؤیتہ فان غم علیکم فاکملوا عدۃ شعبان ثلاثین (متفق علیہ، مشکوٰۃ ج ، ص ۱۷۴) تو کیا تمہارے نزدیک حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا قول معمول بہ ہے یا حضرت امام محمدؒ کا؟
(۴) اس فتویٰ سے نئے اختلاف کا ایک وسیع دروازہ کھل جائے گا اور بے دین پروفیسر اور ترقی پسند صحافی اخبارات کے ذریعہ آپ کی عزت کی دھجیاں اڑائیں گے اور وہ اس کے لیے فارغ اور ایسے امور کے متلاشی ہوتے ہیں، جبکہ آپ حضرات دینی مشاغل میں مصروف اور قلم کے کمزور ہیں۔
(۵) راقم اثیم کی یہ ناقص رائے ہے کہ اس سلسلہ میں علماء کرام کو بالکل سکوت اختیار کر لینا چاہیے۔ اگر بدھ کو چاند نظر آ گیا (جس کا بظاہر امکان نہیں ہے) تو رؤیت ہلال کمیٹی کا فیصلہ درست ہو جائے گا اور اگر جمعرات کو نظر آ گیا اور اغلب یہی ہے کہ ان شاء اللہ العزیز نظر آ جائے گا تو بھی ان کی ساکھ برقرار رہ جائے گی اور اگر جمعرات کو بھی نظر نہ آیا تو وہی ہر طرف سے مورد طعن ہوں گے کما لا یخفیٰ۔ علماء کرام کی آبرو تو بچ جائے گی۔ یہ ٹانگ کیوں اڑاتے ہیں؟
(۶) ہاں یہ خدشہ قوی ہے کہ حکومت بجائے علماء پر اعتماد کرنے کے آئندہ نرے بے دین ماہرین فلکیات پر اعتماد کرے جو مسئلہ کی رو سے علما کے لیے قابل قبول نہ ہوگا تو اس کا ازالہ اس استفتا کی تائید ہی پر منحصر نہیں ہے۔ اس کے لیے جدا اور الگ کوشش درکار ہے۔ اس پر غور کر لیں۔
(۷) راقم اثیم دیانتاً یہ سمجھتا ہے کہ اس وقت علماء کرام کا اس فتویٰ کو نشر کرنا فرقہ واریت کو مزید تقویت پہنچائے گا اور تاڑ میں رہنے والے اس کو خوب اچھالیں گے جس کا دفاع موثر نہیں ہوگا۔ دوسروں کو بچاتے بچاتے خود ہی نہ پھنس جائیں۔ بقول شخصے ع
تماشا خود نہ بن جانا تماشا دیکھنے والو!
(۸) پہلے بھی رمضان اور عید کے چاند کے بارے میں اختلاف ہوتے رہے ہیں۔ اب کی بار بھی دیکھ اور سن لیا جائے۔ فتویٰ جاری کر کے مزید خلیج کو وسیع نہ کیا جائے۔ ہذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب والمآل۔
نیک اوقات میں دعاؤں میں نہ بھولیں۔ طبیعت قدرے ناساز ہے۔ یہ خاطی بھی داعی ہے۔
والسلام
احقر ابو الزاہد محمد سرفراز از گکھڑ
۲۲؍ رمضان ۱۴۰۷ھ/۲۰؍ مئی ۱۹۸۷ء
بنام: مولانا قاری خبیب احمد عمر جہلمیؒ
باسمہ سبحانہ
منجانب ابی الزاہد
عزیزم خبیب احمد سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟
بوقت شام ہم نے عزیزم محمد ارشد سے اخبار کے حوالہ سے حادثہ کی خبر سنی تو بے حد پریشان ہوئے۔ کھانا پینا سب کو بھول گیا۔ پھر معلوم ہوا کہ عزیزم صوفی عبد الحمید نے عزیزم حامد کو جہلم بھیجا ہے۔ اس کی انتظار میں تھے کہ عزیزم قارن اور محمد شفیق آ گئے اور بعد از مغرب جہلم روانہ ہو گئے۔ فون پر رابطہ قائم کیا تو معلوم ہوا کہ لائن خراب ہے۔ رات سب نے سخت بے قراری کی گزاری، حتیٰ کہ عزیزم محمد شفیق ڈیڑھ بجے شب آیا اور اس وقت راقم اثیم جاگ رہا تھا۔ اس سے حقیقت حال معلوم ہوئی تو اطمینان ہوا۔ الحمد للہ تعالیٰ علیٰ ذالک۔
حضرت مولانا غلام یحییٰ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی موتِ شہادت کا بے حد صدمہ ہے۔ موصوف بہترین مدرس، مرنجاں مرنج اور من کل الوجوہ اپنے اکابر کے دامن سے وابستہ تھے، لیکن موت وحیات انسان کے بس کی نہیں ہے۔
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
نہ اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے
لیکن ان کی عمر اتنی ہی ہوگی۔ قضاے مبرم ٹلتی نہیں۔ وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہو۔ دعا ہے کہ مرحوم کو رب العزت جنت الفردوس مرحمت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق بخشے اور مدرسہ کو نعم البدل استاد عطا فرمائے۔ ہم اراکین مدرسہ اور مولانا مرحوم کے متوسلین کے غم میں برابر کے شریک ہیں اور میرا یہ عریضہ حضرت مفتی صاحب دام مجدہم اور دیگر حضرات کوسنا دینا اور نیک دعاؤں میں نہ بھولنا۔ ہم بھی ہمہ وقت دعاگو ہیں۔ جملہ اہل خانہ کو درجہ بدرجہ سلام مسنون عرض کریں اور دعوات عزیزوں کو پہنچا دیں۔
اگر راقم اثیم کا عریضہ پہنچنے تک عزیزم حامد نہ آیا ہو اور اس کی خاص ضرورت بھی نہ ہو تو بھیج دینا۔ اگر ضرورت ہو تو دو چار دن اور رہ جائے۔
والسلام
احقر ابو الزاہد محمد سرفراز از گکھڑ
۱۲؍ شوال ۱۴۰۱ھ/۱۳؍ اگست ۱۹۸۱ء
بنام: اہلیہ قاری خبیب احمد عمر جہلمیؒ (دختر امام اہل سنتؒ )
باسمہ سبحانہ
من ابی الزاہد
الیٰ عزیزۃ القدر! عزیزہ سعیدہ سلمہا اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جہلم کے سیلاب کی خبریں اخبارات میں پڑھ کر بہت ہی پریشانی تھی۔ کئی بار ٹیلی فون پر رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی۔ اتنے میں ساجد آ گیا۔ اس نے کہا کہ میں رات جہلم میں تھا۔ جانیں بفضلہ تعالیٰ محفوظ ہیں، باقی بہت سا نقصان ہوا ہے۔ اجمالی طو رپر کچھ تسلی ہوئی۔
مجھے کراچی والوں نے سخت مجبور کیا تھا۔ وعدہ کے مطابق میں اور عزیزم قارن ہوائی جہاز کے ذریعہ کراچی گئے۔ وہاں عزیزم عبد الحق بھی ملا۔ پانچ دن انتہائی مصروفیت کے رہے۔ پرسوں ہی ہم واپس آئے ہیں اور اپنے لیے ایک حکیم صاحب سے دوائی بھی لایا ہوں۔ دردوں کی تکلیف بہت زیادہ ہے۔ دعا کرنا۔
عزیزم زاہد کا خط لندن سے آیا ہے۔ وہ عارضی طو رپر وہاں رک گیا ہے۔ عزیزم عابد کا کوئی پتہ نہیں کہ کہاں ہے! عزیزم شاہد سعودیہ چلا گیا ہے۔ باقی گھر میں فی الجملہ خیریت ہے۔ عزیزم حامد، عزیزہ میمونہ اور عالیہ بڑوں کو سلام اور بچوں کو دعوات عرض کرتے ہیں۔
حضرت مولانا صاحب دام مجدہم اگر آئے ہوں، عزیزم خبیب کو اور جملہ اہل خانہ کو درجہ بدرجہ میری طرف سے سلام مسنون عرض کرنا اور بچوں کوپیار۔
میں اپنی گرہ سے تمہارے اور بچوں کے لیے مبلغ دو ہزار روپے (۲۰۰۰) بھیج رہا ہوں۔
والسلام
ابو الزاہد محمد سرفراز۔ از گکھڑ
۲۵؍ ربیع الاول ۱۴۱۳ھ/۲۴؍ ستمبر ۱۹۹۲ء
بنام: حافظ نثار احمد الحسینی (حضرو، اٹک)
باسمہ سبحانہ
من ابی الزاہد
الیٰ محترم المقام حضرت العلام مولانا ........... صاحب زید مجدہم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟
آپ کا محبت نامہ موصول ہوا۔ یاد آوری، کرم فرمائی، حسن ظنی اور ذرہ نوازی کا صمیم قلب سے ہزار شکریہ، ورنہ من آنم کہ من دانم۔ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا!
محترم! راقم الحروف کو جو تھوڑی سی علمی شد بد ہے، وہ استاذنا المکرم حضرت مولانا عبد القدیر صاحب دامت برکاتہم اور ان جیسی دیگر گراں قدر وبزرگ شخصیتوں کی برکت سے حاصل ہے، ورنہ ع نغمہ کجا ومن کجا ساز سخن بہانہ ایست۔
محترم! راقم اثیم بے حد مصروف رہتا ہے۔ کبر سنی (عمر قمری لحاظ سے ۷۶ سال ہے) اور علالت اس پر مستزاد ہے۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ بقیہ کتب کی تکمیل کی توفیق بخشے، آمین۔
محترم! آپ نے بزم احناف کے عنوان سے جو جماعت تشکیل دی ہے، آپ حضرات صد مبارک کے مستحق ہیں، مگر افسوس ہے بہت دیر سے کی ہے۔ اب لیٹ نکالنے کی مسلسل سعی کریں اور حضرت الاستاذ المحترم مولانا عبد القدیر صاحب دامت برکاتہم کی کتاب خلف الامام کے بارے میں فوراً طبع کروائیں۔ بڑے قیمتی اور علمی مواد اس میں موجود ہیں۔
راقم اثیم ان دنوں علیل ہے۔ دعا فرمائیں اور حاضرین مجلس سے سلام مسنون عرض کریں۔ یہ خاطی بھی داعی ہے۔
والسلام
ابو الزاہد محمد سرفراز
۶؍ رجب ۱۴۰۸ھ/۲۵؍ فروری ۱۹۸۸ء
بنام: مولانا سید لعل شاہ بخاریؒ (واہ کینٹ، ضلع راول پنڈی)
باسمہ سبحانہ
من جانب ابی الزاہد
الیٰ محترم المقام جناب حضرت مولانا سید .............. صاحب بخاری دام مجدکم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟
محبت نامہ موصول ہوا۔ یاد آوری، کرم فرمائی اور ذرہ نوازی کا تہ دل سے صد شکریہ!
۱۔ ’’راہ سنت‘‘ اور دیگر کتابوں میں جو حوالے درج ہیں، تقریباً اٹھانوے فیصدی راقم نے خود کتابوں سے لیے ہیں۔ ایک دو فیصدی حوالے جن کی اصل کتابیں دست یاب نہیں ہو سکیں، وہ راقم نے اکابر کی کتابوں سے نقل کیے ہیں۔ ’’محیط‘‘ راقم کو نہیں مل سکی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے، اس کا حوالہ حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ کی کتاب ’’النفائس المرغوبہ‘‘ یا ’’دلیل الخیرات‘‘ سے لیا گیا ہے۔ فالج کے بعد اب حافظہ بے حد کمزور ہے۔
۲۔ ’’مجموعہ خانی‘‘ کا حوالہ بھی انھی کی کتاب سے ماخوذ ہے اور اگر عبارت یہی ہو جو آپ نے نقل فرمائی ہے کہ ’’بعد تکبیر چہارم سلام گوید ودعا نخواند وفتویٰ بریں قول است‘‘ ، تب بھی ہمارا مدعا اس سے ثابت ہے۔ ہماری بحث سے یہ خارج نہیں ہو جاتی، کما لا یخفیٰ۔
پہلے قومی اور صوبائی الیکشن کے دھندے میں مبتلا رہے۔ وہاں سے ناکامی کے ساتھ فراغت ہوئی تو اب اسباق کے سلسلہ میں مصروف ہیں۔ عارضہ قلب، تبخیر، اعضا کا سن ہو جا، بواسیر اور ناسور کئی ایک تکالیف شدت کے ساتھ درپیش ہیں۔ خاص اوقات میں دعا فرمائیں اور حاضرین مجلس سے سلام مسنون ارشاد فرمائیں۔
والسلام
ابو الزاہد از گکھڑ
یکم ذو القعدہ ۱۳۹۰ھ/۳۱؍ دسمبر ۱۹۷۰ء
بنام: مولانا مجیب الرحمن (ڈیرہ اسماعیل خان)
باسمہ سبحانہ
من ابی الزاہد
الیٰ محترم المقام جناب مولانا ............ صاحب دام مجدہم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج؟
آپ کا محبت نامہ موصول ہوا۔ یاد آوری کا ہزار شکریہ!
محترم! نگاہ بھی کمزور ہو گئی ہے اور صحت بھی اچھی نہیں۔ خاتمہ علی الایمان کے لیے دعا کریں۔ مختصر جوابات عرض ہیں:
۱۔ کتابت کی غلطی کی وجہ سے بجائے فیہا کے جو ضمیر کتب سماویہ کی طرف راجع ہے، فیہ لکھا گیا ہے جو بظاہر قرآن کریم کی طرف راجع سمجھی جاتی ہے جو قطعاً غلط ہے۔ فیض الباری ج ۴ ص ۵۳۷ میں قال ابن عباس سے لے کر فکان التفسیر یختلط بالتوراۃ من ہذا الطریق تک عبارت دیکھیں، بات بخوبی واضح ہو جائے گی۔
۲۔ اس بے سند اور بے ثبوت قول سے قرآن کریم میں تحریف کیسے ثابت ہوگی؟
۳۔ بعضہم سے رافضی مراد ہیں اور وہ تو تحریف کے قائل ہیں۔ ان مردودوں کے قول سے قرآن کریم میں تحریف کیونکر ثابت ہو سکتی ہے؟ کلبی اور سدی دونوں رافضی، کذاب اور وضاع ہیں۔ ان کی نقل اہل حق کے لیے کیسے حجت ہو سکتی ہے؟
۴۔ کبریت احمر میرے پاس نہیں ہے اور آج کل میں مدرسہ نہیں جاتا۔ سیاق وسباق سے پتہ چلے گا کہ اس کا قائل کون ہے؟ تائید کرتا ہے یا تردید کرتا ہے؟ پھر ایک غیر معصوم کے غلط قول سے قرآن کریم میں تحریف کیسے تسلیم ہو سکتی ہے؟
۵۔ شیعہ واقعی تحریف کے قائل ہیں۔ راقم اثیم کی کتاب ’’ارشاد الشیعہ‘‘ میں اس کی مفصل باحوالہ بحث درج ہے۔ اس کو ضرور ملاحظہ کریں۔ مکتبہ صفدریہ، نزد مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ سے مل سکتی ہے۔
حاضرین سے سلام مسنون عرض کریں اور مقبول دعاؤں میں نہ بھولیں۔ بفضلہ تعالیٰ یہ عاصی وخاطی بھی داعی ہے۔
والسلام
ابو الزاہد محمد سرفراز۔ از گکھڑ
۱۵؍ رمضان ۱۴۱۵ھ/۱۶؍ فروری ۱۹۹۵ء
بنام: مولانا ڈاکٹر عبد الدیان کلیمؒ (پشاور یونیورسٹی، پشاور)
(۱)
باسمہ سبحانہ
من ابی الزاہد
الیٰ محترم المقام حضرت العلام مولانا ............. کلیم صاحب دام مجدہم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج سامی؟
آپ کا شفقت نامہ موصول ہوا۔ صمیم قلب سے شکریہ!
محترم! راقم اثیم کس کھاتے میں ہے کہ آپ اسے علماء سرحد کی فہرست اور تاریخ میں شامل کرنا چاہتے ہیں؟ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا! ہاں اگر طلباء صوبہ سرحد میں درج کریں تو شاید مناسب حال ہو۔
ان دنوں دورۂ تفسیر شریف شروع ہے (یکم شعبان سے) جس میں مختلف ملکوں اور علاقوں کے تقریباً تین سو علما اور طلبا شریک ہیں۔ اوسطاً پانچ گھنٹے مسلسل مجھے پڑھانا ہوتا ہے۔ ان دنوں کھانسنے اور سر کھجلانے کی فرصت بھی نہیں ملتی اور آخر رمضان شریف تک یہ سلسلہ ان شاء اللہ العزیز جاری رہے گا۔ تکمیل کے لیے خصوصی دعا فرمائیں، کیونکہ الدعاء بظہر الغیب مقبول ہوتی ہے۔
محترم! کچھ حالات قلم بند کیے تھے۔ محترم جناب خواص خان صاحب مرحوم آف ہیڑاں ڈاک خانہ بٹل ضلع مانسہرہ نے اپنی مطبوعہ کتاب ’’علماء ہزارہ‘‘ میں کچھ حالات درج کیے ہیں۔ نیز محترم جناب مولانا قاری فیوض الرحمن صاحب دام مجدہم نے ، جو آج کل فوج میں شاید کرنل کے عہدہ پر ہیں، انھوں نے بھی کہیں لکھے ہیں اور غالباً عزیزم زاہد الراشدی نے ترجمان اسلام میں بھی لکھے تھے۔ ان دنوں مصروفیت کی وجہ سے اس سے ملاقات نہیں ہو سکی اور نہ مسودات کی تلاش کا وقت ملتا ہے۔ ان شاء اللہ العزیز رمضان شریف کے بعد آپ کو مختصر ا مسودہ ارسال کر دیا جائے گا۔
عزیزوں اور حاضرین مجلس سے سلام مسنون ارشاد فرمائیں اور نیک دعاؤں میں نہ بھولیں۔ گھر میں بھی شوگر اور بلڈ پریشر کی تکلیف ہے اور راقم اثیم اور عزیزم صوفی کی طبیعت بھی ناساز ہے اور ہم عصاۃ بھی داعی ہیں۔
والسلام
ابو الزاہد محمد سرفراز۔ از گکھڑ
۲۵؍ شعبان ۱۴۰۷ھ/۲۴؍ اپریل ۱۹۸۷ء
(۲)
باسمہ سبحانہ
من ابی الزاہد
الیٰ محترم المقام حضرت العلام مولانا .............. صاحب دام مجدہم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟
آپ کا پیارا گرامی نامہ موصول ہوا اور عزیز م حافظ شمس الرحمن سلمہ اللہ تعالیٰ کے رمضان مبارک میں قرآن کریم سنانے کی خوشی پر خوشی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ مزید سے مزید ہمت بخشے، آمین۔ آپ نے خوشی سنائی ہے اور میں نہ سناؤں تو دنگل میں مقابلہ تو برابر نہ رہا۔ بحمد اللہ تعالیٰ ۱۹؍ جون کو عزیزم عبد الحق سلمہ اللہ تعالیٰ کی شادی حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحب کی صاحبزادی سے چکوال میں ہو چکی ہے۔ جو مٹھائی آپ پہلی خوشی پر ہمیں کھلانا چاہتے ہیں، وہی دور سے اس خوشی میں تناول فرما لیں کہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی۔ تلک بتلک۔ ان شاء اللہ العزیز بشرط زیست باقی وجدانی اور ذوقی باتیں بعد از ملاقات ہوں گی۔ آپ کے مفید مشوروں سے ان شاء اللہ العزیز ہم ضرور استفادہ کریں گے۔
آج ہی بحمد اللہ تعالیٰ مدرسہ نصرۃ العلوم میں اسباق شروع ہو چکے ہیں۔ اتمام کی دعا فرمائیں۔ حاضرین مجلس سے سلام مسنون ارشاد فرمائیں اور الدعاء بظہر الغیب کو فراموش نہ کریں۔ ہم بھی داعی ہیں۔
والسلام
ابو الزاہد محمد سرفراز۔ از گکھڑ
۲۰؍ شوال ۱۴۰۶ھ/۲۸؍ جون ۱۹۸۶ء
(۳)
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
من ابی الزاہد
الیٰ محترم المقام حضرت العلام مولانا ..............صاحب دام مجدہم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟
آپ کا بشارت نامہ موصول ہوا کہ عزیز کی شادی خانہ آبادی ہو رہی ہے۔ بڑی خوشی ہوئی۔ خلوص دل سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ خیر وعافیت کے [ساتھ] خوشی کی تقریب دیکھنے اور طے کرنے کا موقع عطا فرمائے، آمین ثم آمین۔
محترم! آپ کو معلوم ہوگا کہ راقم طویل سفر سے معذور ہے۔ آٹھ سال ہو گئے ہیں کہ وطن نہیں جا سکا، حالانکہ اپنے کئی بزرگ اور قریبی رشتہ [دار] اور ماموں فوت ہو گئے ہیں۔ صرف تعزیت کے خطوط ہی لکھتا رہا ہے۔ دو تین بیماریاں ایسی ہیں کہ سفر سے مانع ہیں۔ گزشتہ سال علاج وغیرہ کے سلسلہ میں مجبوری کے تحت برطانیہ جانا ہوا، مگر ناکام ہو کر لوٹ آیا کیونکہ مصارف کی بھاری چٹان اٹھانے کے قابل نہیں تھا۔ بس یوں سمجھیے کہ کرایہ کے تاوان کے نیچے دب کے آ گیا۔ اس لیے حاضری سے معذوری ہے۔ دوبارہ اور سہ بارہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کامیابی کے ساتھ یہ مرحلہ طے کرنے کی توفیق بخشے، آمین۔
حاضرین مجلس کو درجہ بدرجہ سلام مسنون ارشاد فرمائیں اور دعوات مستجابات میں نہ بھولیں۔ بحمد اللہ تعالیٰ یہ آثم بھی داعی ہے۔ (ان دنوں تکلیف زیادہ ہے)
والسلام
ابو الزاہد محمد سرفراز۔ از گکھڑ
۲۶؍ صفر ۱۴۰۸ھ/۲۰؍اکتوبر ۱۹۸۷ء
بنام: مولانا مفتی محمد اسماعیل (احمد پور شرقیہ، بہاول پور)
(۱)
باسمہ سبحانہ
من ابی الزاہد
الیٰ محترم المقام جناب حضرت العلام مولانا ............ صاحب دام مجدہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟
حضرت مولانا ظفر احمد صاحب قاسم دام مجدہم جامعہ خالد بن الولید ٹھینگی ضلع وہاڑی (پاکستان) سے تشریف لائے تھے۔ انھوں نے راقم اثیم سے یہ کہا کہ آپ سفارش کریں کہ حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب بطور مدرس ہمارے پاس تشریف لے آئیں۔ چونکہ موصوف خود یہاں گکھڑ تشریف لائے تھے اور مجھ سے وعدہ لیا تھا، اس لیے عرض ہے کہ اگر آپ کا مدرسہ والوں سے کوئی معاہدہ نہ ہو اور حالات ٹھینگی جانے کی اجازت دیتے ہوں تو آپ مولانا موصوف سے رابطہ رکھیں۔ خوب غور وفکر کے بعد نفی یا اثبات کے فیصلہ سے راقم اثیم کو بھی آگاہ کر دیں۔
طبیعت اچھی نہیں رہتی۔ نیک دعاؤں میں نہ بھولیں۔ بفضلہ تعالیٰ یہ خاطی بھی داعی ہے۔ حاضرین مجلس سے سلام مسنون عرض کریں۔
میری اہلیہ کا انتقال ہو چکا ہے۔ اس کی مغفرت کی دعا بھی کریں۔
والسلام
احقر ابو الزاہد محمد سرفراز از گکھڑ
۱۷؍ جمادی الاخریٰ ۱۴۰۹ھ/۲۶؍ جنوری ۱۹۸۹ء
(۲)
باسمہ سبحانہ
من ابی الزاہد
الیٰ محترم المقام جناب حضرت مولانا ............ صاحب دام مجدہم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج سامی؟
آپ کا محبت نامہ ملا۔ یاد آوری کا تہ دل سے صد شکریہ!
محترم! میں نے حسب وعدہ آپ کو ایک پیغام پہنچایا تھا۔ نہ جبر ہے اور نہ کوئی کر سکتا ہے۔ صاحب البیت ادریٰ بما فیہ۔آپ نے جو فیصلہ کیا ہے، ان شاء اللہ العزیز اسی میں آپ کی بھلائی اور ترقی ہوگی۔ مولانا کو خط لکھ دیں کہ میں اپنے حالات سے مجبور ہوں، گو سفارش بھی ہوئی تھی۔ ان کو اطلاع ضرور دے دیں۔
حاضرین مجلس سے سلام مسنون عرض کریں اور نیک دعاؤں میں نہ بھولیں۔ راقم علیل ہے اور یہ عاصی بھی داعی ہے۔
والسلام
احقر ابو الزاہد محمد سرفراز از گکھڑ
۱۶؍ رجب ۱۴۰۹ھ/۲۳؍ فروری ۱۹۸۹ء
بنام: مولانا ابو طاہر فتح خان اعوان (کٹاس)
باسمہ سبحانہ
من ابی الزاہد
الیٰ محترم المقام جناب مولانا ............ صاحب دام مجدہم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج سامی؟
آپ کا محبت نامہ موصول ہوا۔ یاد آوری کا ہزار شکریہ!
محترم! راقم اثیم کا وہی عقیدہ ہے جو المہند میں اور راقم اثیم کی کتابوں تسکین الصدور اور سماع الموتی غیرہ میں درج ہے اور اسی پر قائم ہے۔ حضرت قاضی نور محمد صاحبؒ ، حضرت قاضی شمس الدین صاحبؒ اور حضرت مولانا غلام اللہ خان صاحبؒ وغیرہ حضرات کا عند القبر صلوٰۃ وسلام کے سماع کا وہی عقیدہ تھا جو راقم کا ہے۔ ہاں عام سماع موتی جو خود اختلافی مسئلہ ہے، اس میں وہ دوسری طرف تھے۔
۱۔ طے یہ ہوا تھا کہ [مولانا قاضی شمس الدینؒ کا] جنازہ قاضی عصمت اللہ صاحب پڑھائیں گے، مگر عین موقع پر [سید عنایت اللہ] شاہ صاحب آ گئے۔ کھڑے ہو گئے اور مجبوراً مجھے بھی کھڑا رہنا پڑا۔
۲۔ مولانا عبد الرحیم صاحب کا حیات الانبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے بارے وہی عقیدہ ہے جو راقم کا ہے۔ انھوں نے اپنے والد محترم ومرحوم کا رسالہ بھی طبع کرایا ہے جس میں اس مسئلہ کی تصریح ہے۔
۳۔ مسلک کے لحاظ سے میرا [منکرین حیات الانبیاء کے ساتھ] کوئی تعلق نہیں ہے۔
۴۔ بحمد اللہ تعالیٰ وہی ہے جو راقم کی کتابوں میں درج ہے اور پہلے سے زیادہ مضبوط ہے۔
۵و ۶ میں راقم اثیم کا وہی جواب ہے جو دار العلوم دیوبند کے صدر مفتی حضرت مولانا سید مہدی حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا ہے جو تسکین الصدور کی ابتدا میں درج ہے۔
حاضرین سے سلام مسنون عرض کریں اور مقبول دعاؤں میں نہ بھولیں۔ بفضلہ تعالیٰ یہ عاصی وخاطی بھی داعی ہے۔
والسلام
ابو الزاہد محمد سرفراز
۳۰؍ ربیع الاول ۱۴۱۸ھ/۶؍ اگست ۱۹۹۷ء
بنام: محمد یعقوب ہاشمی (سیکرٹری تعلیمات، حکومت جموں وکشمیر مظفر آباد)
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
منجانب ابی الزاہد
الیٰ محترم المقام جناب ہاشمی صاحب دام مجدکم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا طویل نوازش نامہ موصول ہوا۔ یاد آوری، کرم فرمائی، حسن ظنی اور ذرہ نوازی کا تہ دل سے صد شکریہ!
آپ نے سات دن کے اندر اندر جناب شیخ محمود احمد صاحب کی ارسال کردہ تقریر کے بارے میں اور خصوصیت سے تین نکات : زکوٰۃ کی شرح، قطع ید کا مفہوم قرآن وسنت کی روشنی میں اور قرآنی احکامات کے مفہوم اور معانی میں تبدیلی کے امکانات کے متعلق قرآن وسنت کی روشنی میں راے طلب کی ہے۔ ایک مصروف ترین آدمی کے لیے، جو روزانہ مختلف جگہوں میں تین ڈیوٹیاں باقاعدہ دیتا ہو اور علالت اس پر مستزاد ہو، یہ تو بہت مشکل ہے کہ وہ با حوالہ ذمہ داری سے کچھ لکھے اور پھر اس پر نظر ثانی کرے، اس کو صاف کرے اور اس کی نقل لے او رپھر اس کو ارسال کرے اور سات دن کے اندر وہ منزل مقصود تک پہنچ بھی جائے۔ جب ایک ہی نکتہ پر لکھنا شروع کیا تو کئی صفحات مرتب ہو گئے اور باقی دو امور پر ابھی لکھنا باقی ہے۔ اگر آج یا کل عریضہ نہ لکھا جائے تو آپ کو سات دن کے اندر اندر ملنا مشکل ہے، اس لیے مناسب سمجھا گیا کہ آپ کو فی الحال اپنی حتمی رائے اور آخری فیصلہ سے آگاہ کر دیا جائے۔ اگر آپ کو تفصیل کے ساتھ موصوف کی صریح غلطیوں پر آگاہی درکار ہو تو جمعیۃ علماے اسلام کے سرکاری ترجمان کی کسی قریبی اشاعت میں ملاحظہ فرمائیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ جناب شیخ محمود احمد کے زکوٰۃ کی شرح، قطع ید اور قرآنی احکامات کے مفہوم اور معانی میں تبدیلی کے امکانات کے بارے میں جو کچھ بھی نظریات ہیں، وہ سراسر غیر اسلامی اور خالص ملحدانہ ہیں اور قرآن وسنت اور فقہ اسلامی کی روشنی میں بالکل مردود ہیں اور اس قابل ہیں کہ ان کو ع ’اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں‘۔ حکومت آزاد کشمیر کا ایسے شخص کو ناظم تعلیمات کے عہدہ پر بایں ہمہ ہیجان برقرار رکھنا شرعاً بھی ناجائز ہے اور سیاسی طور پر بھی بالآخر اس کا وہی حشر ہوگا جو پاکستان میں ادارۂ تحقیقا ت اسلامیہ کے سربراہ ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب جیسے ملحد کا ہو چکا ہے۔ اس لیے حکومت آزاد کشمیر غیور مسلمانوں کی اسلامی غیرت کو ہرگز چیلنج نہ کرے اور ان کو فوراً اس عہدہ سے الگ کر دے۔
من آنچہ شرط بلاغ است با تو می گفتم
تو از سخن من پند گیر وخواہ ملال
والسلام
احقر ابو الزاہد محمد سرفراز
خطیب جامع مسجد گکھڑ
۲۴؍ محرم ۱۳۹۱ھ/۲۲؍ مارچ ۱۹۷۱ء
بنام: محمد یونس شامی
۴؍ جمادی الاخریٰ ۱۴۰۷ھ/۳؍ فروری ۱۹۸۷ء
باسمہ سبحانہ
من ابی الزاہد
الیٰ محترم المقام جناب محمد یونس شامی صاحب دام مجدہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟
گزارش ہے کہ آپ ہمارے دیرینہ اور مخلص ساتھی ہیں اور ان شاء اللہ العزیز توقع کی جا سکتی ہے کہ آئندہ بھی رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ توفیق بخشے، آمین۔
محترم! آپ کے خلوص، سادگی اور علوم دینیہ پر عبور نہ رکھنے کی وجہ سے بعض دوست ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ الدین النصیحۃ کے طور پر چند باتیں عرض ہیں:
۱) خلیفۃ اللہ جن کا ذکر احادیث میں آتا ہے، وہ امام مہدی علیہ السلام ہی ہیں۔ مشکوٰۃ ج ۲ ص ۴۷۱ میں ’خلیفۃ اللہ المہدی‘ کے الفاظ حدیث میں موجود ہیں۔
۲) امام مہدی علیہ السلام کا نام محمد اور والد محترم کا نام عبد اللہ ہوگا اور حدیث میں ہے: ’المہدی من عترتی من ولد فاطمۃ‘ (ابوداؤد ج ۲ ص ۲۳۲)
۳) اور حدیث ہی میں ہے کہ وہ ’من اہل المدینۃ‘ ہوں گے۔ (ابوداؤد ج ۲ ص ۲۳۳)
۴) اور حدیث ہی میں ہے: ’یملک العرب رجل من اہل بیتی‘ (ابوداؤد ج ۲ ص ۲۳۲)
اس سے ثابت ہوا کہ وہ عرب کے بادشاہ ہوں گے اور صاحب اقتدار ہوں گے۔
۵) ان کی بیعت ابتداءً ا حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان کی جائے گی۔ (ابوداؤد ج ۲ ص ۲۳۳)
۶) اور وہ ’یملک سبع سنین‘ (ابوداؤد ج ۲ ص ۲۳۲) سات سال بادشاہی کریں گے۔
۷) اور اپنے دور اقتدار اور حکومت میں زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے اور ظلم وجور کو مٹا دیں گے۔ (ابوداؤد ج ۲ ص ۲۳۲) یعنی خداداد اقتدار سے نہ کہ وعظ سے۔
محترم! یہ اوصاف فاطمی النسل اور عربی کے ہیں جو اہل مدینہ سے ہوں گے۔ یہ اوصاف کسی اور میں اور خصوصاً کسی پاکستانی میں جبکہ اسے حکومت بھی حاصل نہ ہو، ہرگز نہیں پائے جاتے۔ اللہ تعالیٰ غلط فہمی دور فرمائے۔ آمین
والسلام
ابو الزاہد محمد سرفراز
خطیب جامع مسجد گکھڑ
بنام: مولانا ہارون مطیع اللہ (کراچی)
باسمہ سبحانہ
من ابی الزاہد
الیٰ عزیز القدر جناب مولانا ........... صاحب دام مجدہم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج؟
آپ کا خط ملا۔ حضرت مولانا عطاء اللہ صاحب مرحوم کی وفات کا سنا۔ سخت صدمہ ہوا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مولانا مرحوم ہمارے دیرینہ ساتھی اور راقم اثیم کے شاگرد تھے۔ موطا امام مالکؒ انھوں نے کوہ مری میں مجھ سے پڑھا تھا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس نصیب فرمائے اور جملہ پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین
راقم بھی علیل ہے۔ خاتمہ علی الایمان کی دعا کریں۔
والسلام
ابو الزاہد محمد سرفراز
۱۴؍ محرم ۱۴۲۰ھ/یکم مئی ۱۹۹۹ء