شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد القدیر مومن پوری رحمہ اللہ
حضرت امام اہل سنت مولانامحمدسرفرازخان صفدررحمہ اللہ کے اساتذہ میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمدمدنی رحمہ اللہ ، امام المؤحدین حضرت مولاناحسین علی رحمہ اللہ اور شیخ الحدیث حضرت مولاناعبدالقدیرمومن پوری رحمہ اللہ اپنے فیوضات کی وجہ سے نمایاں ہیں۔ حضرت امام اہل سنت رحمہ اللہ نے حضرت مدنی رحمہ اللہ سے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض لیا، حضرت مولاناحسین علی رحمہ اللہ سے تفسیراور تصوّف کا فیض لیااور مولاناعبدالقدیررحمہ اللہ سے فقہ اور فنون کی پختگی حاصل کرنے کے ساتھ ان کی شفقتوں سے نوازے گئے۔ حضرت مولاناعبدالقدیررحمہ اللہ سے آپ نے مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ میں پڑھا۔ مولاناعبدالقدیررحمہ اللہ نے آپ کی خداداد صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے نہ صرف آپ کو توجہ سے پڑھایا بلکہ اپنے سامنے آپ سے تدریس کروائی اور آپ کو طلبہ کی ایک مستقل جماعت دی۔ اس طرح زمانہ طالب علمی میں حضرت امام اہل سنت رحمہ اللہ کی تدریسی صلاحیتوں کے جوہر کھلے۔ حضرت ا مامِ اہل سنت رحمہ اللہ احقرکے نام اپنے ایک مکتوب گرامی میں لکھتے ہیں:
’’آپ کامحبت نامہ موصول ہوا۔ یادآوری، کرم فرمائی، حسن ظنی اور ذرّہ نوازی کا صمیم قلب سے ہزار شکریہ، ورنہ من آنم کہ من دانم ۔ کیاپِدّی اور کیا پِدّی کا شوربا۔
محترم! راقم الحروف کو جو تھوڑی سی علمی شُدبُد ہے، وہ استاذناالمکرم حضرت مولاناعبدالقدیرصاحب دامت برکاتہم اور ان جیسی دیگر گراں قدر وبزرگ شخصیتوں کی برکت سے حاصل ہے، ورنہ نغمہ کجاومن کجا سازسخن بہانہ ایست۔‘‘ (مکتوبہ ۶رجب ۱۴۰۸ھ/۲۵فروری ۱۹۸۸ء)
حضرت مولانا عبدالقدیرؒ کی یہ شفقتیں حضرت امام اہل سنت پرآخرتک رہیں۔ حضرت مولاناعبدالقدیرؒ کی مستقل تصانیف دوہی ہیں جو حضرت امام اہل سنت کے دفاع میں لکھی گئیں۔ ’’تدقیق الکلام‘‘آپ نے ’’احسن الکلام‘‘کے دفاع میں اور ’’ارشادالعلماء‘‘ آپ نے’’تسکین الصدور‘‘کے دفاع میں لکھی۔ اس طرح حضرت امام اہل سنت کے رحمہ اللہ کے اساتذہ میں حضرت مولانا عبدالقدیر رحمہ اللہ کی شخصیت نمایاں ہے۔ ’’الشریعہ‘‘ کی اشاعت خاص کی مناسبت سے حضرت مولانا عبدالقدیررحمہ اللہ کے مختصر حالاتِ زندگی نذر قارئین ہیں۔
حضرت مولاناعبدالقدیررحمہ اللہ مومن پور علاقہ چھچھ ضلع اٹک میں۱۹،۱۳۱۸ھ/۱۹۰۱ء میں پیداہوئے۔ آپ کے والد مولاناعبدالرحیم رحمہ اللہ مومن پورمیں تدریس کرتے تھے اور گزراوقات کے لیے خوداپنی ذاتی زمینوں میں کھیتی باڑی کرتے تھے۔ آپ کے دادامحمدحسن رحمہ اللہ بھی نیک سیرت اورعلاقہ کے متموّل حضرات سے تھے۔ آپ قریشی النسل ہیں۔ آپ کے آباواجداد سلطان محمود غزنوی رحمہ اللہ کے ساتھ عرب سے ہند میں جہادکے لیے آئے اور ہندسے کشمیر، ہزارہ کے راستہ صدیوں کا سفرطے کرتے ہوئے علاقہ ’’چھچھ‘‘ میں آباد ہو گئے۔ اس علاقہ کی علمی فضا کا شہرہ دور دور تک تھا۔ تشنگان علم اس علاقہ کو’’چھچھ ہزارہ کالبخارا‘‘ کہتے تھے۔ رب تعالیٰ نے یہاں کے علمی ماحول میںآپ کے آباو اجدادکی فطرتی صلاحیتوں اورخاندانی خصوصیات کوعلمِ دین کی خدمت کی سعادت بخشی۔
حضرت مولاناعبدالقدیررحمہ اللہ نے قرآن مجیداورابتدائی تعلیم گھرپرحاصل کی۔ پرائمری تک اپنے گاؤں مومن پور کے اسکول میں میں پڑھا۔ عربی، صرف ونحوکے لیے آپ مومن پورگاؤں کے قریب قصبہ ’’جلالیہ‘‘ میں حضرت مولانا سعدالدین رحمہ اللہ کی خدمت میں رہے۔ حضرت مولاناسعدالدین رحمہ اللہ نے حدیث حضرت مولانااحمدعلی سہارنپوری رحمہ اللہ سے، فقہ حضرت مولاناعبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ سے اور فنون حضرت مولانالطف اللہ علی گڑھی رحمہ اللہ سے پڑھے تھے۔ آپ کاعلمی شہرہ دور دور تک تھا۔ مولاناسعدالدین رحمہ اللہ سے شرح جامی تک کتب پڑھنے کے بعد آپ نے ۱۳۴۱ھ/۱۹۲۲ء میں جامعہ مظاہرعلوم سہارنپور میں داخلہ لیا اور مختصرالمعانی اور میرقطبی وغیرہ کتب مظاہر علوم میں پڑھیں۔ ۱۳۴۲ھ/۱۹۲۳ء تا ۱۳۴۵ھ/۱۹۲۶ء چارسال دارالعلوم دیوبندمیں مولانااعزازعلی رحمہ اللہ ، مولانا رسول خان رحمہ اللہ ، مولانا محمد ابراہیم بلیاوی رحمہ اللہ اور مولاناعبدالسمیع رحمہ اللہ سے درجہ موقوف علیہ کی کتب جلالین، ہدایہ اوّلین، توضیح تلویح،رسالہ قطبیہ اور مشکوٰۃ شریف پڑھنے کے بعدآپ پنجاب میں فنون کی مشہور درس گاہ موضع ’’انھی‘‘ پھالیہ ضلع گجرات آگئے۔ یہاںآپ نے مولاناغلام رسول رحمہ اللہ (م ۱۳۵۱ھ/۱۹۳۳ء) اور مولانا ولی اللہ رحمہ اللہ (م۱۳۹۳ھ/۱۹۷۳ء) سے فنون آلیہ کی کتب میں ملکہ حاصل کیا۔ موضع ’’انھی‘‘ میںآپ نے مولاناغلام رسول رحمہ اللہ سے ’’تفسیر‘‘، ’’ہدایہ آخرین‘‘، ’’بیضاوی‘‘، ’’جلالین‘‘، ’’میر زاہد‘‘، ’’امور عامہ‘‘، ’’قاضی مبارک‘‘، ’’مسلم الثبوت‘‘، ’’عبدالغفور‘‘،’’متن متین‘‘وغیرہ کتب اورفلسفہ منطق کی دوسری انتہائی کتب مولاناولی اللہ رحمہ اللہ سے پڑھیں۔
اس زمانہ میں علمِ حدیث کاطوطی ڈابھیل میں بول رہا تھا۔ طالبان علمِ حدیث کشاں کشاں حضرت امام المؤحدین مولاناعلامہ محمدانورشاہ کشمیری رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضرہوتے اوراس بحر بے کراں سے مستفیض ہوتے۔ آپ بھی عازمِ ڈابھیل ہوئے۔ ۴۹،۱۳۴۸ھ/۳۰،۱۹۲۹ء کاتعلیمی سال آپ نے جامعہ اسلامیّہ ڈابھیل میں گزارا۔ حضرت علامہ محمدانورشاہ کشمیری رحمہ اللہ سے صحیح بخاری شریف،علامہ شبیراحمدعثمانی رحمہ اللہ سے جامع ترمذی شریف اور حدیث کی دوسری کتب صحیح مسلم، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ وغیرہ مولاناسراج احمدرشیدی رحمہ اللہ سے پڑھیں۔ جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں آپ کاسلسلہ نمبرفضلاء۱۳۴۹ھ/ ۱۹۳۰ء میں۱۰۳ہے ۔
جامعہ اسلامیّہ ڈابھیل سے فراغت کے بعددوسال آپ اپنے گاؤں موضع’’مومن پور‘‘رہے اورفنون کی انتہائی کتب کی تدریس فرمائی۔ جامعہ اسلامیّہ ڈابھیل کی انتظامیّہ نے آپ کی علمی پختگی اورتدریسی صلاحیتوں کا شہرہ سن رکھا تھا۔ ذوالحجہ ۱۳۵۱ ھ /مارچ۱۹۳۳ء میںآپ کو جامعہ اسلامیّہ ڈابھیل میں تدریس کی دعوت دی گئی۔ آپ نے تدریس کے لیے اپنے مادرِعلمی کوترجیح دی اورڈابھیل تشریف لے گئے۔ ذوالحجہ ۱۳۵۱ھ/مارچ۱۹۳۳ء تا شوال ۱۳۵۵ھ/ دسمبر۱۹۳۶ء تین تعلیمی سال آپ نے جامعہ اسلامیّہ ڈابھیل میں مختلف درسی علوم وفنون کی انتہائی کتب کادرس دیا۔ روئیدادجامعہ اسلامیّہ ڈابھیل میں آپ کوعربی مدرس لکھا گیاہے۔ جامعہ اسلامیّہ میں مدرس حدیث کے بعدیہ دوسرا اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ آپ شوال ۱۳۵۵ھ/دسمبر۱۹۳۶ء میں ڈابھیل سے واپس تشریف لے آئے۔ گوجرانوالہ میں مولانا عبدالعزیز سیہالوی رحمہ اللہ (م۱۳۵۹ھ/ ۱۹۴۰ء) نے جامع مسجدشیرانوالہ باغ سے متصل مدرسہ انورالعلوم کے نام سے ایک دینی مدرسہ جاری کیا تھا۔ آپ کو بھی یہاں تدریس کی دعوت دی گئی، چنانچہ شوال ۱۳۵۵ء/دسمبر۱۹۳۶ء میںآپ گوجرانوالہ تشریف لے آئے۔ یہاں آپ نے ۱۳۵۵ھ/۱۹۳۶ء تا۱۳۶۵ھ/۱۹۴۵ء دس سال تدریس فرمائی۔ یہیںآپ سے حضرت مولاناصوفی عبدالحمیدسواتیؒ اور حضرت مولانامحمدسرفرازخان صفدرؒ (۱۳۶۱،۱۳۶۰، ۱۳۵۹ھ/۴۲،۴۱،۱۹۴۰ء) نے تین سال پڑھا۔ ۱۳۶۵ھ/۱۹۴۵ء میں جامعہ اسلامیّہ ڈابھیل کی انتظامیہ نے آپ کو دوبارہ ڈابھیل آنے کی دعوت دی، چنانچہ ذوالحجہ ۱۳۶۵ھ/ اکتوبر۱۹۴۶ء تاشوال۱۳۶۶ھ/اگست ۱۹۴۷ء آپ نے دو سال جامعہ اسلامیّہ ڈابھیل میں تدریس فرمائی۔ شوال ۱۳۶۶ھ/اگست ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہندپرقیام پاکستان کااعلان ہوگیا اور ہندوستان پاکستان اوربھارت دو ملکوں میں تقسیم ہو گیا جس کی وجہ سے آپ کا ڈابھیل میں رہناممکن نہ رہا اور آپ وطن واپس آگئے۔
۱۳۶۶ھ/۱۹۴۷ء تا۱۳۷۰ھ/۱۹۵۱ء پانچ سال آپ نے ’’مدرسہ عربیّہ فضل العلوم‘‘،چاہ میاں صاحب حضرو میں تدریس فرمائی۔ ۱۳۷۰ھ/ ۱۹۵۱ء میں حضرت مولانامحمدانورشاہ کشمیری رحمہ اللہ کے شاگردرشیدحضرت مولانا عبدالحنان تاجکی رحمہ اللہ نے آپ کواوکاڑہ میں تدریس کی دعوت دی، چنانچہ۱۳۷۰ھ/۱۹۵۱ء تا ۱۳۷۵ھ/۱۹۵۶ء پانچ سال آپ نے اوکاڑہ میں تدریس فرمائی۔ ان پانچ سالوں میں دوسال عیدگاہ اورتین سال جامع مسجدگول چوک میں گزرے۔ حضرت مولانا محمد امین صفدراوکاڑوی رحمہ اللہ (م۳شعبان ۱۴۲۱ھ/۳۱اکتوبر ۲۰۰۰ء) اسی زمانہ میں غیرمقلدین کی طرف سے آپ سے بحث مباحثہ کے لیے آئے اورپہلے ہی دن غیرمقلدین کی دھوکہ دہی اوراحناف کی حقّانیّت کے قائل اورآپ کی علمیّت کے اسیرہو گئے اور چند ہی ملاقاتوں کے بعدغیرمقلدیت سے توبہ کرکے باقاعدہ حضرت مولاناعبدالحنان تاجکی رحمہ اللہ اور آپ سے علمِ دین پڑھا۔ آپ نے مولاناامین صفدراوکاڑوی رحمہ اللہ سے فرمایا: سطحی علم فتنہ ہے، پختہ علم پڑھو۔ چنانچہ صرف کی گردانوں سے آپ نے ابتدا کروائی۔ ۱۳۷۵ھ/۱۹۵۶ء تا ۱۳۸۷ھ/۱۹۶۷ء بارہ سال آپ نے قاسم العلوم فقیر والی میں تدریس فرمائی۔
۱۳۸۷ھ/۱۹۶۷ء میںآپ کوشیخ الحدیث حضرت مولانانصیرالدین غورغشتویؒ (۱۳۸۸ھ/۱۹۶۹ء) نے اپنے ہاں غورغشتی بلالیا۔ حضرت شیخ الحدیثؒ نے اس وقت ضعف کی وجہ سے تدریس چھوڑدی تھی چنانچہ ۱۳۸۷ھ/۱۹۶۷ء تا ۱۳۹۰ھ/۱۹۷۰ء تیرہ سال آپ نے غورغشتی میں تدریس فرمائی۔ ۱۳۹۰ھ/ ۱۹۷۰ء میں آپ لائل پور (موجودہ فیصل آباد) تشریف لے گئے اور ۱۳۹۳ھ/۱۹۷۳ء تک یہاں تدریس فرمائی۔ شیخ القرآن حضرت مولاناغلام اللہ خانؒ (م ۱۹۸۰ ء) آپ کے زمانہ جامعہ اسلامیہّ ڈابھیل کے ساتھی تھے۔ ڈابھیل میںآپ نے ہی شیخ القرآن کودورہ حدیث کے لیے بلایاتھا جو اس وقت دارالعلوم دیوبند میں دورۂ حدیث میں داخلہ لے چکے تھے۔ آپ نے انہیں لکھاکہ فنِ حدیث کے امام علامہ محمدانورشاہ کشمیری چراغِ سحری ہیں، آپ ڈابھیل آجائیں۔شیخ القرآنؒ اس پردارالعلوم دیوبندسے جامعہ اسلامیہّ ڈابھیل آگئے۔
شیخ القرآن رحمہ اللہ نے آپ کواپنے مدرسہ تعلیم القرآن راولپنڈی آنے کی دعوت دی، چنانچہ ۱۳۹۳ھ/۱۹۷۳ء میں آپ تعلیم القرآن راولپنڈی تشریف لے آئے اور تاوفات (۱۴۱۱ھ/۱۹۹۰ء) آپ نے تقریباً ۱۸ سال کاطویل عرصہ تعلیم القرآن میں درس نظامی کے علوم وفنون کی انتہائی کتابوں اور حدیث شریف میں صحیح بخاری اور جامع ترمذی وغیرہ کی تدریس فرمائی۔ تعلیم القرآن کی اٹھارہ سالہ تدریس سمیت آپ نے کل تریسٹھ سال کاطویل عرصہ علوم دینیہ کی تدریس میں گزارا اور ہزارہاطلبہ نے آپ سے فیض پایا۔ آپ کادرس سادہ اوربے تکلف ہوتا تھا۔ آپ کی زیادہ توجہ متن پرہوتی۔ درسی گپ شپ اورلچھے دارتقریرنہ آپ کو آتی تھی اور نہ اسے کبھی اختیارکرنے کی کوشش کی۔ وقت پرسبق شروع کرتے، وقت پرختم کرتے۔ کتاب کادرسی حصہ تعلیمی سال میں ختم کردیتے تھے۔ ’’قاسم العلوم‘‘ فقیروالی کے زمانہ تدریس میں چندطلبہ جوگپ شپ اورلچھے دار تقریرکے شوقین تھے، مولانا فضل محمد رحمہ اللہ (مہتمم مدرسہ)کے پاس گئے اورسبق کی شکایت کی۔ یہ ’’مختصرالمعانی‘‘ کا سبق تھا۔ دوسرے روز مولانا فضل محمد رحمہ اللہ نے ستون کے پیچھے سے خودسبق سناتوان طلبہ کو بلا کر فرمایا، میں نے ’’مولانا عبدالقدیر رحمہ اللہ کا سبق سنا ہے۔ میراجی چاہتاہے میں خود ان سے ’’مختصرالمعانی‘‘پڑھوں۔ تم کس بنیاد پر شکایت کرتے ہو؟‘‘ آخرزمانہ میںآپ کی ایک آنکھ کی نظرختم ہوگئی تھی۔ دوسری آنکھ سے معمولی نظر آتا تھا۔ مطالعہ اور کتاب دیکھ کرپڑھاناممکن نہ رہاتھا، مگربفضل اللہ درسیات آپ کویادتھیں۔ طالب علم فقط عنوان الباب سناتاتھاتوآپ متعلقہ عنوان کی پوری تقریربیان فرما دیتے۔ احقر کو ’’تعلیم القرآن‘‘میںآپ کے درس بخاری کے سماع کی سعادت نصیب ہوئی تویہ منظرخوددیکھاکہ’’صحیح بخاری‘‘آپ کے سامنے نہیں تھی، طلبہ باب کاعنوان سناتے، آپ حدیث کے جملہ مباحث، ادلّہ، ترجیحات، تقابل، متن، سند تمام مباحث یوں بیان فرماتے جیسے ابھی آپ یا دکر کے آئے ہیں۔
تریسٹھ سالہ دور تدریس میں ہزارہاعلما نے آپ سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ جن مدارس میںآپ نے پڑھایاہے، اگر ان مدارس کے ریکارڈ میں دیکھا جائے تو آپ سے مستفیض ہونے والے علماومشاہیرکی اچھی خاصی فہرست جمع ہوسکتی ہے۔ آپ کے مرشد حضرت مولاناعبدالدیان رحمہ اللہ نے آپ سے آپ کے مشہورتلامذہ کا پوچھا تھا تو آپ نے جواب میں لکھا:
’’بخدمت حضرت عالی جاہ پیرطریقت دام ظلہ وعزمجدہ
بعدالسلام علیکم عرض یہ ہے کہ آپ نے شاگردوں کے متعلق دریافت فرمایاتھا۔ اس وقت استحضارنہ تھا، اب خیال آیاکہ عرض کردوں۔ مولانا سرفراز صاحب اور صوفی عبدالحمید صاحب کے علاوہ مولانااحسان الحق صاحب مہتمم ومدرس مدرسہ تعلیم القرآن راولپنڈی، مولانا محمد خلیل احمدصاحب خطیب جامع مسجدسکھر، مولانا محمد صابر صاحب صدرمدرس مدرسہ اشاعت القرآن حضرو، مولاناعبدالسلام صاحب مدرس مدرسہ اشاعت القرآن اور مولانا رشید احمد صاحب مہتمم مدرسہ کامل پورموسیٰ چھچھ ضلع اٹک، مولاناعبدالسلام صاحب خطیب فیکٹری واہ۔یہ سب حضرات دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، جزاہم اللہ خیرالجزاء واللہ الموفق۔
طالب دعابندہ عبدالقدیرعفی اللہ عنہ ازراولپنڈی‘‘
(ماہنامہ ’’نصرۃ العلوم‘‘جلدنمبر۵ شمارہ نمبر۴ فروری ۲۰۰۰ء ص۴۱)
مزاج واخلاق
اللہ تعالیٰ نے آپ کوفطرت سلیمہ اوراخلاقِ عالی سے نوازا تھا۔ نہایت سادہ طبیعت اور منکسر المزاج تھے۔ گپ شپ، ہنسی مزاح اور فضولیات میں وقت لگاناآپ سے کوسوں دورتھا۔ نہ زیادہ تعلقات بنانے کاذوق تھا، نہ سیروتفریح کاشوق تھا۔ تدریس مطالعہ اورعبادت وریاضت، یہ آپ کاتمام عمرمشغلہ رہا۔ نمازنہایت خشوع وخضوع سے پڑھتے اور تلاوت بلند آوازسے ترتیل کے ساتھ کرتے تھے۔ احقرایک مرتبہ ’’مومن پور‘‘آپ کے گھر مرشدی مولانا قاضی محمد زاہدالحسینی رحمہ اللہ کا ایک پیغام لے کرحاضرہواتوآپ گھرکے صحن میں چارپائی پرقبلہ روتھے، سرہانہ پر قرآن مجیدرکھے تلاوت فرمارہے تھے اور آپ کی تلاوت کی آوازباہردروازہ پرسُنی جا رہی تھی۔ جب گھرتشریف لاتے تو اپنی ذاتی زمینوں میں خود کھیتی باڑی کرتے تھے۔ کھیتی باڑی میں اُس دورمیں دوبیلوں سے ہَل جوت کرخودبیلوں کے ساتھ لکڑی کے ہَل پر کھڑے ہوکربیلوں کے ساتھ بھاگنا پڑتا تھا۔ آپ یہ مشکل کام ایک مشّاق زمیندارکی طرح کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضر ت مولانا عبدالدیان کلیمؒ آپ کے ہاں ’’مومن پور‘‘ تشریف لائے توآپ اس دِن ہل چلا کر اپنا کام ختم کر چکے تھے۔ مرشدنے مرید سے فرمایش کی کہ آپ ذرا مجھے بھی دکھائیں کہ آپ نے ہل کس طرح چلایاہے۔ بخاری پڑھاتے ہوئے تومیں نے آپ کو دیکھا ہے، ہل چلاتے ہوئے بھی دیکھ لوں۔ آپ نے مرشدکی فرمایش پردوبارہ بیل جوتے اور لکڑی کے ہل پرکھڑے ہو کر مخصوص زمینداری آواز جو زبان کو کروٹ دے کر دائیں طرف سے نکالی جاتی ہے، نکالی اور بیلوں کے ساتھ کھیت میں دوڑ لگا کر دکھایا۔
آپ کے شاگردرشیدمفسرقرآن حضرت مولاناصوفی عبدالحمید سواتی رحمہ اللہ آپ کے اخلاق اور سادگی پر اپنے مشاہدات نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’احقر عبدالحمید سواتی نے مولانا عبدالقدیر مرحوم کو قریب سے دیکھا ہے۔ نمازباجماعت کے بہت پابندتھے اور طلبہ سے بھی شدیدپابندی کراتے تھے۔ کبھی تادیباً مارتے بھی تھے۔ رات کے آخری حصہ میں تہجدکی نماز بھی مختصرسی پڑھتے۔ اگرامام کسی وقت نہیں ہوتاتھاتونمازبھی خودپڑھاتے تھے۔ مغرب کی نمازکے بعدچھ نوافل بھی پابندی سے ادافرماتے تھے۔ اگرکبھی درس قرآن دینے والے بزرگ نہ ہوتے تودرس قرآن بھی دیتے تھے۔ حضرت شیخ الاسلام مولانا مدنی رحمہ اللہ اورامیرشریعت سیدعطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کے ساتھ ان کے انگریزمخالف کارناموں اورنظریات کی وجہ سے والہانہ عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ امیرشریعت کی تقریر اگر قریب ہوتی تو ضرور سننے کے لیے جاتے تھے۔ سبق کاناغہ کبھی نہیں کرتے تھے سفر کے سوا۔ عام علما کی طرح کسی سے رشک ورقابت یا حسدوبغض نہیں رکھتے تھے۔ علما اکثراحساس کمتری میں مبتلاہوتے ہیں۔ مولانااس قسم کی تمام آفات سے خالی تھے۔ صاف دھلے ہوئے کپڑے بغیراستری کے ہی زیب تن فرماتے تھے۔ احقرنے تقریبًاتین سال دوران تعلیم آپ کی خدمت میں گزارے تھے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا سرفرازصفد رتو آپ کے اجل تلامذہ میں سے تھے، ان کی ذہانت اورفطانت کی وجہ سے مولاناان کابہت خیال فرماتے تھے، لیکن احقراپنی طبعی خاموشی اور مسکینی اور اس لیے کہ صبح کی نمازباجماعت ادا کرتا تھا، اس لیے احقر کابہت لحاظ فرماتے تھے۔‘‘ (ماہنامہ’’نصرۃ العلوم‘‘ گوجرانوالہ، فروری ۲۰۰۰ء ص۳۵)
’’احقرعبدالحمیدسواتی نے حضرت مرحوم سے تین سال تک ۱۹۳۹، ۴۰، ۴۱ء میں پڑھا تھا۔ چنانچہ معقولات میں ملاحسن، حمداللہ، قاضی مبارک، میرزاہد، ملاجلال، میر زاہد، رسالہ قطبیہ، میرزاہدامورعامہ، فقہ میں ہدایہ آخرین، تفسیر میں جلالین شریف مکمل، تفسیربیضاوی سورۃ بقرہ تک پڑھی تھیں۔ فلسفہ میں میبذی اور شمس بازغہ کتابیں پڑھی تھیں۔ مولانانہایت سادہ لباس پہنتے تھے۔ طبیعت میں انکسار تھا۔ مشین کابناہوادیسی کھدر کا لباس ہوتا تھا اور معمولی سے کلے پردیسی بناوٹ کی لنگی سر پر باندھتے تھے۔ عام حالات میں کھدرکی معمولی چادراوڑھتے تھے۔ سردی کے موسم میں گرم چادراوڑھ لیتے تھے۔ سادہ جوتادیسی بناوٹ کا پہنتے تھے۔ طبیعت میں قدرتی طورپرکسی قدر رعب تھا۔ بے تکلفی بہت کم کرتے تھے اورہنستے بھی بہت کم تھے۔ آپ کا زیادہ وقت دقیق کتابوں کے مطالعہ میں صرف ہوتا تھا، بعض شروح بخاری اور فتح القدیر، بحرالرائق وغیرہ۔ اسٹوپ کارواج عام تھا۔ اکثراپنے ہاتھ سے چائے تیارکرلیتے تھے۔ کبھی کوئی ساتھی فارغ ہوتاتھاتووہ تیار کر دیتا۔ سالن بھی اسٹوپ پرتیارکرلیتے تھے اور روٹیاں تنورسے منگوا لیتے تھے۔ اپنے لیے اورکوئی مہمان اگر ہوتا تھا، اس کے لیے بھی۔‘‘ (ماہنامہ’’نصرۃ العلوم‘‘، گوجرانوالہ، فروری ۲۰۰۰ء ص۳۶، ۳۷)
تصانیف
حضرت مولاناعبدالقدیررحمہ اللہ نے تمام عمردرس وتدریس میں گزاری۔ آپ کی تدریسی محنت سے ہزارہا مدرس، محقق اور مصنف تیارہوئے۔ برس ہابرس رات دِن کی تدریسی محنت میںآپ کوتصنیف کاوقت نہ ملا۔ آخر عمر میں آپ نے دو محققانہ تصانیف یادگارچھوڑیں۔ یہ دونوں تصانیف اپنے شاگردرشیدامام اہل سنت رحمہ اللہ کے دفاع میں ہیں۔ علاوہ ازیں آپ کے فتاویٰ اور مطبوعہ وغیرمطبوعہ مضامین آپ کے علمی یادگارہیں۔ آپ کے تصنیفی کام کی تفصیل درج ذیل ہے۔
۱:’’ارشادالعلماء الیٰ تحقیق مسئلہ سماع الموتی وحیات الانبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام‘‘
یہ کتاب آپ نے اکتوبر۱۹۸۷ء میں تصنیف فرمائی۔ اس وقت آپ تعلیم القرآن راولپنڈی میں مسند حدیث پرجلوہ افروز تھے۔ ’’ارشادالعلماء ‘‘آپ نے عقیدہ حیات الانبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام پر امام اہل سنت حضرت مولانامحمدسرفرازخان صفدررحمہ اللہ کی مشہور تصنیف ’’تسکین الصدور‘‘ کے دفاع میں لکھی، چنانچہ آپ نے کتاب کی ابتدا کرتے ہوئے لکھا:
’’عرصہ ہوا کہ محترم شیخ الحدیث محمدسرفرازصاحب مداللہ ظلّہ نے رسالہ طیبہ تسکین الصدور خزینۃالمعقول والمنقول دیا کہ اس کے متعلق اپناتأثرلکھیں! لیکن مجھے تعلیمی شغل کی وجہ سے اوربالخصوص نگاہ کی کمزوری کی وجہ سے موقع نہ ملا۔ علاوہ ازیں یہ دیکھاکہ اس گلدسۃعلم کے متعلق گرامی قدرافاضل علماء کرام اوربعض اساتذہ عظام کی تصدیقات ثبت ہوچکی ہیں! ان حضرات گرامی قدروفضلا کی توثیق کے بعداورلکھنے کی کیاضرورت ہے؟
مشک آں باشدکہ خودببویدنہ کہ عطاربگوید
کتاب تسکین الصدورکودیکھنے والاواقعی اس کتاب کواسم بامُسمّٰی اورصحیح سمجھ کرانشراح صدرپائے گا۔ جزاہم اللہ خیرالجزاء ووفقہ اللہ لمایجب ویرضٰی! کتاب نہایت سنجیدگی سے لکھی گئی ہے!مقصدکے لیے وافی اورکافی ہے۔‘‘ (’’ارشادالعلماء‘‘ص۳)
امام اہل سنت حضرت مولانامحمدسرفرازخان صفدررحمہ اللہ نے ’’ارشادالعلماء‘‘کے پیش لفظ میں لکھا:
’’راقم اثیم نے کتاب تسکین الصدورحضرت الشیخ استاذناالمحترم مولاناعبدالقدیر صاحب دامت برکاتہم سابق مدرس حدیث جامعہ اسلامیہ ڈابھیل (انڈیا) وحال شیخ الحدیث مدرسہ تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی کی خدمتِ اقدس میں پیش کی کہ اس کے بارے اپنی زرّیں رائے مبارک سے آگاہ فرمائیں.... بحمداللہ تعالیٰ حضرت الاستاذ المحترم دامت برکاتہم نے باوجودتعلیمی مشاغل،نگاہ کی کمزوری اورپیرانہ سالی کے شفقت کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ’’ تسکین الصدور‘‘میں درج شدہ مسائل اوردلائل کی تائیدوتصویب ہی فرمائی بلکہ مزید ٹھوس حقائق اور علمی نکات پیش کیے۔‘‘ (’’ارشاد العلماء‘‘ ص ۲، ۳)
۲:’’تدقیق الکلام‘‘
یہ کتاب آپ نے فاتحہ خلف الامام کے موضوع پر حضرات احناف رحمہم اللہ کامؤقف بیان کرتے ہوئے مشہور غیرمقلد عالم مولانا حافِظ محمدصاحب گوندلوی کی تصنیف ’’خیرالکلام‘‘ کے جواب میں لکھی۔ ’’خیر الکلام‘‘ کے جواب میں اس سے پہلے آپ کے مایہ نازشاگردامام اہل سنت حضرت مولانامحمدسرفرازخان صفدررحمہ اللہ کی مشہورزمانہ تصنیف ’’احسن الکلام‘‘ خواص وعوام سے خراج تحسین وصول کرچکی تھی۔ آپ نے ’’احسن الکلام‘‘کے مؤقف کواپنے خاص علمی انداز سے مدلل بیان فرمایا۔ حضرت امام اہل سنت رحمہ اللہ ’’تدقیق الکلام‘‘ کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’استاذِ محترم شیخ الحدیث حضرت مولاناعبدالقدیرصاحب دامت برکاتہم نے (جوتقریباًساٹھ سال تک علومِ نقلیہ اور عقلیہ کے کامیاب مدرس رہے ہیں،ڈابھیل میں بھی استاد حدیث رہ چکے ہیں اوراب بھی مدرسہ تعلیم القرآن راولپنڈی میں شیخ الحدیث ہیں) انوکھے اورعلمی اندازمیں ترک القرأت خلف الامام کے دلائل پیشِ نظر کتاب ’’تدقیق اکلام‘‘میں بیان فرمائے ہیں۔ علماے کرام کے لیے یہ انمول موتی ہیں اورایسے اندازسے پیش کیے ہیں جوحقیقت کی خوب خوب گرہ کشائی کرتے ہیں اور’’خیرالکلام‘‘میں نقل کردہ دلائل کاباحوالہ تانابانا بھی روشن کیا گیا ہے او ربعض مقامات پرنام لے کر ’’توضیح الکلام‘‘ میں نقل کردہ دلائل کابھی خوب تعاقب کیا ہے، مگرزیادہ تر تردید خیرالکلام کے شبہات کی کی گئی ہے،کیونکہ’’ توضیح الکلام‘‘، ’’خیرالکلام‘‘ کا علمی سرقہ اور اسی کا چربہ ہے۔ جب اصل کا رد ہو گیا تو فرع کا خود بخود ہو جاتا ہے۔‘‘ (’’تدقیق الکلام‘‘ج ۱، ص ۱۳)
’’تدقیق الکلام‘‘ میںآپ کاطرز تحریر مدرّسانہ ہے۔ یوں معلوم ہوتاہے کہ علم کاایک بحربے کراں موج زن ہے اور دلائل وبراہین سے اپنی بات ایسے سلجھے ہوئے اندازمیں بیان کررہاہے کہ اس کے تسلیم کیے بغیرچارہ کارنہیں۔
حضرت مولاناعبدالقدیررحمہ اللہ نے مختلف عنوانات پرمضامین بھی لکھے جوملکی دینی جرائدمیں مطبوعہ ہوئے۔ علاوہ ازیں غیرمطبوعہ مضامین بھی ہیں۔ ان مضامین کاانداز بیان بھی عالمانہ،محققانہ ہے۔ اگریہ مضامین چھپ جائیں توایک بڑا علمی سرمایہ ہے جس سے خواص وعام مستفیدہوسکتے ہیں۔
آپ کاعام معمول فتاویف لکھنے کا نہیں رہا، البتہ اگرکسی نے آپ سے فتویٰ پوچھاتوآپ نے کبھی انکارنہیں فرمایا یا یہ نہیں کہاکہ فلاں دارالافتاء سے رجوع کریں۔ آپ نے استفتا کامدلل جواب دیا۔ آپ کے یہ فتاویٰ مختلف حضرات کے ہاں موجودہیں۔ اگرجمع ہو سکیں تو نہایت قیمتی ذخیرہ ہے۔
خط کاجواب آپ باقاعدگی سے اورجلدلکھتے تھے۔ اکثرآپ سے دینی مسائل پوچھے جاتے اور آپ تفصیلی جواب دیتے۔ ہرعنوان کی مختلف جہات خود نکالتے اور ہر جہت کی وضاحت فرماتے۔آپ کی کوشش ہوتی کہ آپ کامخاطب پوری طرح مطمئن ہو جائے۔ آپ کے خطوط بھی جمع ہوسکیں تو یہ قیمتی سرمایہ نہ صرف اپنے عنوانات پرایک راہنماہے بلکہ اپنے وقت کی مشاہداتی تاریخ بھی ہے۔
حضرت مولاناعبدالقدیرؒ نے تمام عمر سادگی سے بسرکی۔ سادہ خوراک، سادہ لباس اور عام رہن سہن میںآپ کی صحت آخر تک قابل رشک رہی۔ اپنا کام خودکرنا، گاؤں مومن پورسے راولپنڈی وغیرہ کاسفرعام بسوں میں کرنا آپ کا معمول تھا۔ آپ تعلیم القرآن راولپنڈی میں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تدریس کررہے تھے کہ معمولی بخارہوا۔ گھر تشریف لائے۔ چنددِن ہسپتال داخل رہے۔ وفات سے چنددِن پہلے خواب دیکھاکہ سفیدلباس میں ملبوس کچھ لوگ مجھے ملنے آئے ہیں۔ آپ نے خودہی تعبیرکرتے ہوئے ارشادفرمایا کہ شاید میرا وقت قریب ہے۔ ۱۰جمادی الاولیٰ ۱۴۱۱ھ/۲۹نومبر۱۹۹۰ء بروز منگل آپ نے جان جانِ آفریں کے سپردکردی، انا للہ واِناالیہ راجعون۔ دوسرے دِن عصرکے بعدآپ کی نمازجنازہ آپ کے شاگرد رشید اور معتمد خاص امام اہل سنت حضرت مولانامحمدسرفرازخان رحمہ اللہ صفدرنے پڑھائی۔ آپ کواپنے آبائی گاؤں مومن پور میں اپنے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ حضرت امام اہل سنت رحمہ اللہ نے تدفین کے بعد قبر پر مختصر بیان فرماتے ہوئے عجیب بات ارشاد فرمائی جس سے حضرت امام اہل سنت رحمہ اللہ کے ہاں اپنے استاذکی قدرومنزلت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ارشادفرمایا:
’’حضرت میرے محبوب استاذتھے۔ مجھے اپنے باپ کے مرنے پراتناصدمہ نہیں ہواجتناآج ان کی وفات سے صدمہ ہواہے۔‘‘
حضرت مولاناسیدسخی شاہ رحمہ اللہ شیرازی
حضرت امام اہل سنت رحمہ اللہ کے ابتدائی اساتذہ میں حضرت مولاناسیدسخی شاہ رحمہ اللہ بھی ہیں۔ حضرت امام اہل سنت رحمہ اللہ اپنی خود نوشت میں فرماتے ہیں کہ ہروڑی پائین میں حضرت مولاناسخی شاہ صاحب رحمہ اللہ کے پاس رہا اور وہاں ’’نور الایضاح‘‘ اور صرف کی ابتدائی کچھ گردانیںیادکیں۔
حضرت مولاناسید سخی شاہ رحمہ اللہ ۱۸۸۴ء میں ہروڑی گاؤں،بٹل مانسہرہ،ہزارہ میں پیداہوئے۔ آپ کے والد سید قاسم نیک آدمی تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقہ میں مولاناخلیل الرحمن عرف خان مُلّارحمہ اللہ (ترہا) اور مولاناحاجی محمدحسین رحمہ اللہ(فاضل دارالعلوم دیوبند)سے حاصل کی۔ فنون کی تعلیم حضرت مولانامحمداسماعیل رحمہ اللہ (کوٹل برشین) تلمیذ حضرت شیخ الہندمولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ سے حاصل کی۔ فقہ اورموقوف کی کتابیں حضرت مولانا حمیدالدین مانسہروی رحمہ اللہ تلمیذحضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ سے پڑھیں۔
دورہ حدیث شریف کے لیے آپ نے ۱۳۲۹ھ/ ۱۹۱۱ء میں دارالعلوم دیوبندمیں داخلہ لیا۔ حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ، حضرت مولاناغلام رسول بنوری رحمہ اللہ، حضرت مولانامرتضیٰ حسن چاندپوری رحمہ اللہ، حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ، حضرت مولانامحمدابراہیم بلیاوی رحمہ اللہ، حضرت مولاناعبدالسمیع رحمہ اللہ، حضرت مولانا مفتی عزیزالرحمن رحمہ اللہ، حضرت مولانامحمدسہول بھاگلپوری رحمہ اللہ، حضرت مولانااعزازعلی رحمہ اللہ، حضرت مولانا میاں اصغرحسین رحمہ اللہ، حضرت مولاناگل محمدخان رحمہ اللہ، حضرت مولانارسول خان ہزاروی رحمہ اللہ اور حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی رحمہ اللہ سے حدیث رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پڑھ کرسند فراغت حاصل کی۔ دارالعلوم دیوبندسے فراغت کے بعدآپ نے اپنے گاؤں ’’ہروڑی پائین‘‘ کی مسجدمیں امامت کے ساتھ علومِ دینیّہ کی تدریس بھی شروع کی۔ تیس،پنتیس طلبہ آپ کے پاس موجودرہتے۔ آپ کھیتی باڑی کرتے اورطلبہ کوپڑھاتے۔ آپ کے پاس کوہستان، آلاچی، گلگت، سوات، مردان اور افغانستان تک کے طلبہ آتے تھے۔ علاقہ کے عوام وخواص آپ ہی کے فتویٰ پراعتماد کرتے۔ تقریباً پینتالیس سال آپ نے تدریس کی۔
۱۳۷۹ھ/۱۹۵۸ء میںآپ نے وصال فرمایا اور آبائی گاؤں موضع’’ہروڑی پائین‘‘ میں مدفون ہوئے۔ آپ کی اولادبھی ماشاء اللہ عالم فاضل ہے۔ آپ کے چارصاحبزادے اور دو صاحبزادیاں تھیں۔ صاحبزادوں کی تفصیل درج ذیل ہے:
(۱) مولاناسیدفیض علی شاہ صاحب: فاضل دیوبند ۱۳۶۸ ھ وسابق استاذ دارالعلوم دیوبند۔
(۲) مولانا سید معروف شاہ شیرازی: پیدایش ۱۳۵۰ھ/۱۹۳۲ء فاضل جامعہ اشرفیّہ، لاہور۔ سابق مدیرماہنامہ ’’تعلیم القرآن‘‘ راولپنڈی۔ مترجم ’’تفسیرفی ظلال القرآن‘‘ ۔ جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ ہیں۔
(۳) مولاناسیدالاذکیا صاحب : فاضل ’’تعلیم القرآن‘‘ راولپنڈی۔
(۴) مولانا سید عبدالبر، فاضل جامعہ اشرفیہ، لاہور۔
حضرت مولانااحمد نبی رحمہ اللہ تعالیٰ
حضرت امام اہل سنت رحمہ اللہ نے اپنے آبائی گاؤں موضع ڈھکی چیڑاں کے قریب ’’سنگل کوٹ‘‘ میں حضرت مولانا احمدنبی رحمہ اللہ سے’’نحومیر‘‘کاکچھ حصّہ پڑھا۔ حضرت مولانااحمدنبی رحمہ اللہ سنگل کوٹ علاقہ کونش کے علمی خاندان کے فرد تھے۔ آپ نے علوم وفنون اپنے علاقہ ہی میں پڑھے اورپھرموضع’’سنگل کوٹ‘‘میں اپنی آبائی مسجدمیں امامت وخطابت کے ساتھ تدریس کرتے رہے۔ آپ کے ساتھ ہمیشہ طلبہ کی ایک جماعت رہتی۔ آپ ’’سنگل کوٹ‘‘ میں تدریس میں مشغول تھے کہ علماے دیوبندکاعلمی شہرہ سنا۔ شوق ہوا اور رخت سفرباندھا۔ دارالعلوم دیوبندمیں دورہ حدیث شریف میں داخلہ لیا۔ اس وقت مسندحدیث پرشیخ الاسلام حضرت مولاناسیدحسین احمدمدنی رحمہ اللہ جلوہ افروز تھے۔ آپ نے دورہ حدیث شریف دارالعلوم دیوبندمیں پڑھ کرامتحان دیااور دارالعلوم دیوبندکی سندسے نوازے گئے۔ آپ لائق اور طلبہ میں معمّرتھے۔ حضرت مدنی رحمہ اللہ کے اخلاص تقویٰ اورعلمیّت سے متأثرہوئے اوردامن مدنی سے وابستہ ہوکرشرفِ بیعت بھی حاصل کیا۔ حضرت مدنی رحمہ اللہ نے آپ کواپنی خصوصی سندحدیث سے بھی نوازا۔ آخر عمر تک حضرت مدنی رحمہ اللہ کے تلقین فرمودہ اذکار یازدہ تسبیحات سلسلہ عالیّہ چشتیّہ صابریّہ مواظبت سے کرتے رہے۔
آپ کی ترغیب پرآپ کے چھوٹے بھائی مولاناعبدالقادررحمہ اللہ بھی دارالعلوم دیوبندگئے اوردورہ حدیث حضرت مدنی رحمہ اللہ سے پڑھ کر۱۳۵۳ھ/۱۹۳۴ء میں فاضل دیوبندہوئے۔ مولاناعبدالقادررحمہ اللہ کوئٹہ میں امام وخطیب تھے۔ تدریس کاشغل آخرعمرتک رہا۔ آپ کادرس حدیث طلبہ میں مشہورتھا۔ اپنے استاذِحدیث حضرت مدنی رحمہ اللہ کے درسی افادات کا ابتدائی حصّہ ’’تحقیق الایمان‘‘ کے عنوان سے لکھاجسے آپ کے صاحبزادہ مولانامفتاح الحق حقانی مدظلہٗ نے حافظ کتب خانہ، مسجد روڈ کوئٹہ سے چھپوایا ہے۔
مولانا احمدنبی رحمہ اللہ دارالعلوم دیوبندسے تحصیلِ علم کے بعداپنے گاؤں’’سنگل کوٹ‘‘تشریف لے آئے اورتمام عمر تدریس کرتے رہے۔ آپ درس کی طرزپر درس نظامی کی تمام کتب پڑھاتے تھے۔ فقہ اورحدیث میںآپ کی تدریس مشہور تھی۔ آپ کے دوبیٹے تھے جوحصول علم کے لیے حضرو علاقہ چھچھ میں آئے۔ (۱) مولاناہدایت الحق مرحوم فاضل مدرسہ ’’مفتاح العلوم‘‘،بھنگی، حضرو اٹک (۲) مولانا مظہر الحق مرحوم فاضل مدرسہ حقانیّہ ،حضرو،اٹک۔ مولانا ہدایت الحق مرحوم نے ’’مفتاح العلوم‘‘ حضرو سے فراغت حاصل کی۔ اس مدرسہ کے بانی مولاناعبدالحق مرحوم تلمیذ مولاناعبدالرحمن امروہی رحمہ اللہ آخر عمر میں اہل بدعت کی طرف مائل ہوگئے تھے، مگرتکفیری بریلوی جماعت سے برأت کرتے تھے۔ مولاناہدایت الحق بھی اسی ماحول میں اہل بدعت سے متعلق رہے۔ حضرومیں ’’حقائق العلوم‘‘ کے نام سے ایک مدرسہ بنایاجس میں پہلے سال دورۂ حدیث شریف مولانافضل حق ممتازرحمہ اللہ تلمیذ حضرت شیخ الحدیث مولانا نصیرالدین غورغشتوی رحمہ اللہ سے پڑھوایا۔ اس پر ’’تنظیم المدارس‘‘ نے سخت تنبیہ کی اوراپناالحاق منقطع کردینے کا نوٹس دیا۔ مولانااحمدنبی رحمہ اللہ کے دوسرے بیٹے مولانا مظہرالحق مرحوم کا آخرعمرتک علماے دیوبندسے عقیدت مندانہ تعلق رہا اور اسی بنیادپرعلاقہ چھچھ ضلع اٹک کے بریلوی علما کا نشانہ بھی رہے۔ مولانامظہرالحق مرحوم نے دورۂ حدیث حضرت مولانافضل حق ممتاز رحمہ اللہ تلمیذشیخ الحدیث مولانا نصیرالدین غورغشتوی رحمہ اللہ سے پڑھا۔ مولانا احمد نبی مولاناہدایت الحق مرحوم کے اہل بدعت سے تعلق اوران کے ہاں بدعات عرس، میلادوغیرہ پرہمیشہ نکیرفرماتے تھے۔ آپ نے خود کو کبھی نہ ان بدعات سے وابستہ رکھااورنہ کبھی تائید فرمائی۔
مولانا احمد نبی رحمہ اللہ آخر عمر میں علاج کے لیے حضروتشریف لے آئے۔ یہیں ان کاوصال ہوا۔ تدفین اپنے آبائی گاؤں موضع ’’سنگل کوٹ‘‘ میں ہوئی۔