ادبیات

مولانا مفتی محمودؒ

مجیب الرحمٰن شامی

پیشانی کشادہ، مطلعِ انوار، آنکھیں روشن، زندہ وبیدار، ابھرتے ہوئے مسکراتے رخسار، گندمی رنگ میں سرخی کے آثار، سر کے بال پٹے دار، ڈاڑھی پھیلی ہوئی باوقار، سیاہی پر سپیدی ژالہ بار، شانے چوڑے اور مضبوط مردانہ وار، ناک ستواں، قد میانہ، جسم گھنا، ایک شجرِ سایہ دار، پر ُسکون جیسے دامنِ کوہسار، لباس سے سادگی آشکار، کندھوں پر مستقل رومال کہ جسدِ خاکی کا حاشیہ بردار، دمِ گفتگو، دلیل کی گفتار، دمِ جستجو، فرض کی پکار، آرام سے ہر لحظہ انکار، مطمحِ نظر اسلامی اقدار، عوامی حقوق کا پاسدار، ان کی حفاظت کے لیے ہر دم چوکس و تیار، وزیر اعلیٰ، مگر چٹائی سے...

ایامِ حج و زیارتِ مدینہ کی یاد میں

سید سلمان گیلانی

کس منہ سے کروں شکر ادا تیرا خدایا۔ اک بندۂ ناچیز کو گھر اپنا دکھایا۔ واللہ اس اعزاز کے قابل میں کہاں تھا۔ یہ فضل ہے تیرا کہ مجھے تو نے بلایا۔ جس گھر کے ترے پاک نبی نے لیے پھیرے۔ صد شکر کہ تو نے مجھے گرد اس کے پھرایا۔ لگتا نہ تھا دل اور کسی ذکر میں میرا۔ لبیک کا نغمہ مجھے اس طرح سے بھایا۔ مزدلفہ وعرفات ومنیٰ وصفا مروہ۔ ہر جا تری رحمت نے گلے مجھ کو لگایا۔ ہوتی رہی بارش تری رحمت کی بھی چھم چھم۔ مجھ کو بھی بہت میری ندامت نے رلایا۔ محشر میں بھی رکھ لینا بھرم اپنے کرم سے۔ جیسے میرے عیبوں کو ہے دنیا میں چھپایا۔ محشر میں بھی کوثر کا مجھے جام عطا ہو۔ جیسے...

دِل کے بہلانے کو شوقِ رائیگاں رکھتا ہوں میں

محمد عمار خان ناصر

خود بھی بے خود ہوں کہ یہ سارا جہاں رکھتا ہوں میں؟ ایک لمحہ ہوں کہ عمر جاوِداں رکھتا ہوں میں؟ گو کہ اب باقی نہیں وہ حیرتوں کی جستجو، دِل کے بہلانے کو شوقِ رائیگاں رکھتا ہوں میں۔ بے غرض رہتا ہے بس تفریقِ خویش وغیر سے، اپنے سینے میں جو احساسِ زیاں رکھتا ہوں میں۔ حسرتوں کے ساتھ اب یہ نفرتوں کے بوجھ بھی؟ اتنی طاقت اے دلِ ناداں! کہاں رکھتا ہوں میں۔ جس کا ہر اک رَاہرو تنہا ہوا گرمِ سفر، اَن گنت صدیوں میں پھیلا کارواں رکھتا ہوں میں۔ اِس کے صدقے دیکھ سکتا ہوں اُفق میں دُور تک، دل میں اِک جو یادِ خاکِ رَفتگاں رکھتا ہوں...

’’کہانی کی دنیا‘‘ نئی ڈائری کی متقاضی

پروفیسر شیخ عبد الرشید

ہمارے ہاں عام تاثر یہی ہے کہ ہمارے عہد کے بچے شریر زیادہ اور ذہین کم ہو گئے ہیں ،حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ میرا گمان یہ ہے کہ آج کے عہد کے بچے حقیقی معنوں میں اکیسویں صدی کے بچے ہیں ۔ ان بچوں کی ذہانت، فطانت اور کارکردگی ہی اس گھمبیرتا کا شکار سماج میں جینے کا حوصلہ دیتی ہے۔ ہمارے ہاں ارفع کریم اور ملالہ یوسف زئی جیسے بچوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا عالمی سطح پر منوایا ۔ دہشت، خوف ، فرقہ واریت اور مقلدانہ جاہلیت کے اندھیروں میں یہ قابل فخر بچے ہی ہیں جو روشنی کی کرن اور ہمارے روشن مستقبل کی نوید دکھائی دیتے ہیں۔ گذشتہ روز میرے دوست، عظمت رفتہ...

تین افسانے

محمد بلال

(۱) گندے نالے میں اپنی پندرہ سالہ بیٹی ثمینہ کی نیم برہنہ لاش دیکھی تو چوکیدار شیر محمد کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ دو دنوں سے لاپتا بیٹی اس حالت میں ملے گی،اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ وہ دوسرے ہی لمحے بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑا۔ جب شیر محمد کو ہوش آیا تو اس کی بیٹی کا پوسٹ مارٹم ہو چکا تھا۔ رپورٹ کے مطابق ثمینہ کے ساتھ ایک سے زائد افراد نے زیادتی کی اور پھر ہاتھ پاؤں باندھ کر، منہ میں کپڑا ٹھونس کر اس کی شہ رگ کاٹ دی تھی۔ شیر محمد کو جب رپورٹ کی تفصیل معلوم ہوئی تو اس کی آنکھوں میں آنسو نہیںآئے بلکہ خون...

شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے

ادارہ

کیسی بخشش کا یہ سامان ہوا پھرتا ہے، شہرا سارا ہی پریشان ہوا پھرتا ہے۔ ایک بارود کی جیکٹ اور نعرۂ تکبیر، راستہ خلد کا آسان ہوا پھرتا ہے۔ کیسا عاشق ہے تیرے نام پہ قرباں ہے مگر، تیری ہر بات سے انجان ہوا پھرتا ہے۔ شب کو شیطان بھی مانگے ہے پناہیں جس سے، صبح وہ صاحب ایمان ہوا پھرتا ہے۔ ہم کو جکڑا ہے یہاں جبر کی زنجیروں نے، اب تو یہ شہر ہی زندان ہوا پھرتا ہے۔ جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کر، شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا...

’’موجودہ عالمی استعماری صورتِ حال اور فیض کی شاعری‘‘

پروفیسر میاں انعام الرحمن

پاکستان میں اقبالؔ کے بعد جن شعرا کوقبولیتِ عامہ ملی ہے، ان میں فیض احمد فیضؔ نے نئی نسل کو غالباً سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ فیضؔ نے دست یاب صورتِ حال میں (in the given situation) جس متانت و سنجیدگی اور مدھر و دھیمے لہجے میں ترقی پسندانہ خیالات کا شاعرانہ اظہار کیا، تمام حلقوں نے ہمیشہ اس کا اعتراف اور احترام کیا ہے۔ حکومت پاکستان نے ۲۰۱۱ کو ’فیض کا سال‘ قرار دیا ہے۔ اکادمی ادبیات نے اس سلسلے میں فیض کانفرنس منعقد کر کے فیض احمد فیضؔ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی قابل قدر کوشش کی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کانفرنس میں پڑھے گئے مقالات فیضؔ کو خراجِ تحسین کے...

خواجہ حسن نظامی کی خاکہ نگاری

پروفیسر میاں انعام الرحمن

اردو ادب میں شاید ہی کوئی دوسرا انشاپرداز ہو جو خواجہ حسن نظامی مرحوم (۱۸۷۸۔۱۹۵۵) سے بہتر طور پر ’آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ‘ کا مصداق ہو ، حال آں کہ خواجہ صاحب کا شمار اردو ادب کے ان خاکہ نگاروں میں کیا جا سکتا ہے جنہوں نے اس ادبی صنف کو بال و پر عطا کیے اور یہ صنف ’فن‘ سمجھی جانے لگی ۔ ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری نے ’’خواجہ حسن نظامی: خاکے اور خاکہ نگاری ‘‘ کے عنوان سے تالیف پیش کرکے اس اوجھل پہاڑ کو منظرِ عام پر لانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس مدون تالیف میں ڈاکٹر معین الدین عقیل کے حوصلہ افزا وقیع پیش لفظ کے بعد ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہان پوری...

آہ! اب رخصت ہوا وہ اہل سنت کا امام

محمد عمار خان ناصر

اک صدی کا قصہءِ دل کش ہوا آخر تمام، آہ! اب رخصت ہوا وہ اہل سنت کا امام۔ ایسا فرزند مجاہد، ایسا فردِ ارجمند، کیوں نہ نازاں اس پہ ہوتا کاروانِ دیوبند۔ حسن فطرت اور وہی مرد کہستانی کی خو، پدرِ مشفق کی طرح سب کی نگہبانی کی خو۔ اس کی پیشانی پہ روشن علم وتقویٰ کا وہ نور، اس زمانے میں کسی اگلے زمانے کا ظہور۔ اس کی دنیا روز وشب کے وقتی ہنگاموں سے دور، ایک گوشے میں سدا اپنے پیمبر کے حضور۔ درس ارشادِ نبی کا عمر بھر اس نے دیا، اس کے ہاتھوں جامِ توحید اک زمانے نے پیا۔ اس کا برزخ اس کی دنیا کی طرح تابندہ ہے، اس جہاں کے بعد بھی وہ درحقیقت زندہ ہے۔ کل وہ جب فردوس...

اے سرفراز صفدر!

مولوی اسامہ سرسری

اے سرفراز صفدر، اے علم کے سمندر، اے دین حق کے رہبر، اے زاہد وقلندر۔ ایثار مثل صدیق، اظہار مثل فاروق، غم خوار مثل عثماں، کردار مثل حیدر۔ اے رہبر شریعت، اے راشد طریقت، اے میر اہل سنت، اے تاج دار کشور۔ مضبوط تھا بڑھاپا، باطل ہمیشہ کانپا، نور ہدیٰ سراپا، یاد خدا کا پیکر۔ اے نقشبندی دل ساز، اے چشتیہ دل آرام، اے قادری دلاور، اے سہروردی دلبر۔ قلب وعقل میں یکتا، جود وفضل کا دریا، رنگ وشکل میں اعلیٰ، علم وعمل کا مظہر۔ طرز مناظرانہ، اوصاف ماہرانہ، انداز ساحرانہ، سب کچھ تمہارے اندر۔ مخدوم مثل محمود، خادم مثالی مدنی، محفوظ مثل اشرف، حافظ مثال انور۔...

ان کو ڈھونڈے گا اب تو کہاں راشدی

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

شیخ صفدرؒ بھی ہم سے جدا ہو گئے، علم و دیں پر وہ آخر فدا ہو گئے۔ علم تھا ان کا سب سے بڑا مشغلہ، ذوق و نسبت میں اس کی فنا ہو گئے۔ وہ جو توحید وسنت کے منّاد تھے، شرک و بدعت پہ رب کی قضا ہو گئے۔ خواب میں ملنے آئے مسیح ناصریؐ، شرف ان کو یہ رب سے عطا ہو گئے۔ بوحنیفہؒ سے ان کو عقیدت رہی، اور بخاریؒ کے فن میں سَوا ہو گئے۔ شیخ مدنی ؒ سے پایا لقب صفدری، اور اس کی علمی نہج کی ادا ہو گئے۔ میانوالی کا اک بطل توحید تھا، جس کی صحبت میں وہ با صفا ہو گئے۔ نور احمدؒ نے ان کو جو دی تھی دعا، اس کی برکت سے وہ با وفا ہو گئے۔ جن کی تلقین ہوتی تھی رب کی رضا، حق کی رہ میں وہ رب...

امام اہل سنت قدس سرہ

مولانا غلام مصطفٰی قاسمی

حکیم العصر، شیخ وقت اور محبوب سبحانی، کہ ہم عصروں میں اب تک کوئی بھی تیرا نہیں ثانی۔ کہاں سے ڈھونڈ کر لاؤگے ایسا پیکر خاکی، کہاں سے پاؤگے تم یادگار شیخ الوانی۔ تجھے استاذ کل کہتے تھے عالم اس زمانے کے، تجھی کو مانتے تھے جانشین شیخ الوانی۔ تیرے دریوزہ گر ٹھہرے محدث اس زمانے کے، تیرے علم وعمل کے خوشہ چیں تھے سارے افغانی۔ تیرے تقویٰ طہارت کی قسم کھائی زمانے نے، تیرے زہد وورع پر رشک کرتی عقل انسانی۔ تیرے اس میکدہ سے پی شراب معرفت جس نے، ہوئی حاصل شفا ے کاملہ اور ذوق عرفانی۔ بفضل اللہ یہ دیکھا قلب بینا سے عجب جلوہ، جبیں سجدہ سے تا عرش بریں اک تار...

حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی یاد میں

مولانا منظور احمد نعمانی

ترجمان اہل سنت فخر اہل دیوبند، قالع وقماّعِ باطل دِلستان جاتا رہا۔ دو حسینوں سے شرابِ معرفت پی کر امیں، مُستفیضوں کو پلا کر مہرباں جاتا رہا۔ جس کے علم وفیض سے روشن ہوا سارا جہاں، رہنمائے اہلِ حق ماہِ رواں جاتا رہا۔ جس نے باطل کو کیا چیلنج ہر میدان میں، وہ مبارز مرد حق شیرِ ژیاں جاتا رہا۔ جس کے خامہ نے کئے تھے ملحدوں کے سر قلم، وہ مصنف اور محقق کا مراں جاتا رہا۔ اہل سنت کی امامت سے ہوئے وہ سرفراز، صفِّ باطل چیر کر صفدرِ زماں جاتا رہا۔ لا یخافون کے مصداق مکمل تھے وہ شیخ، اہل سنت کا حقیقی ترجماں جاتا رہا۔ تیرے جانے سے ہوئے ہم دیوبندی سب یتیم، چھوڑ...

مضی البحران صوفی و صفدر

حافظ فضل الہادی

مضی البحران صوفی و صفدر، ھما جبلان للدین المنور۔ ھما اخوان من ام و والد، ونا لا فیض اسلاف معطر۔ ید طولیٰ لکل فی الفنون، انارا الکون بالذکر المکرر۔ لقد قاما لاعلاء الکتاب، واقوال الرسول مع التدبر۔ وفقہ ابی حنیفۃ در سانا، یضیئان الدروس وکل منبر۔ فصفدر سرفراز ذوا اجتھاد، و صوفی فرید العھد ازہر۔ لقد ولدا بکر منک الھزارا، وقد اخذا الھدٰی من علم الاکبر۔ فشیخی سرفراز الخان صفدر، اخو عبد الحمید الخان اختر۔ تخرج من دیوبند الجلیلۃ، و بین دین رب ثم اظھر۔ مشائخہ اکابرنا الائمۃ، و شان جمیعھم مسک و عنبر۔ حسین علی ثم حسین احمد، لہ شیخان فی الظفر المظفر۔...

علم کی دنیا میں تو ہے سربلند و سرفراز

ادارہ

علم کی دنیا میں تو ہے سربلند و سرفراز، تجھ کو قدرت نے بنایا علم کا داناے راز۔ علم کے دریا سے چن لایا تو گوہر بے بہا، تیری اس کاوش پہ ارباب علم کو فخر وناز۔ گلشن اسلام میں ہے گلفشاں تیرا قلم، تیرا انداز بیان ہے دلنشیں ودلنواز۔ تیرے در پر آ رہے ہیں تشنگان علم دیں، تو انہیں سمجھا رہا ہے دین کی حکمت کے راز۔ علم وحکمت سے مرکب تیری فطرت کا خمیر، علم کی اقلیم کا محمود، حکمت کا ایاز۔ علم کی پرواز کے قابل نہیں زاغ وزغن، اس اڑاں کے واسطے موزوں قوت شہباز۔ یہ سعادت میرے ہمدم زور بازو سے نہیں، حق تعالیٰ جس کو چاہے بخش دے یہ امتیاز۔ زندگی تیری سراپا علم واخلاص...

قصیدۃ الترحیب

ادارہ

تتلاطَمُ الأفراحُ فی الأرواح، ونری السروَر علا علی الأشباح۔ وجلتْ مَخَاءِل نَھْضَۃٍ عِلْمِیَّۃٍ، بِقدومٍ مُحْیِ السُنّۃِ الوَّضّاَحٖ۔ زینِ المعارف والعوارفِ والتُّقیٰ، نَعمان عصرٍ جھبذ، جَحجاَحٖ۔ شمسِ المدارس والمجالس والھدیٰ، وأمام أھل السنۃ المدّاحٖ۔ کَشَفَ السِّتار عن الغوامضِ فی العلوم، ولمعضلاتِ الفقہ کالمفتاحٖ۔ ملأ المکاتب بالتآلیف الّتی، نالتْ قبولَ النّاس فی الأِصلاحٖ۔ کَلَحتْ وجوہُ بنی القبور بنورھا، رفعتْ لِواءَ القاسم الفتّاحٖ۔ رادَتْ مطاعَن مُلحدین عن الألیٰ، ھُمْ أسسو دیوبندَ فی الصحصاحٖ۔ حِصْن حصن للکتاب وسنّۃ،...

خطیب حق بیان و راست بازے

محمد رمضان راتھر

(۱) خطیب حق بیان و راست بازے، کہ محتاط از نشیبے و زفرازے، من استغناے طبعش می شناسم، فقیرے از سلاطیں بے نیازے۔ (۲) حدیث سید لولاک ازبر، زبرکاتش دل او شد منور، زبانش لعل وگوہر می چکاند، کلامش انگبیں وشہد وشکر۔ (۳) زاسرار ورموز دیں خبردار، زدام شرک وبدعت خوب ہشیار، زمام نفس خود در دست دارد، دلے دارد کے زندہ ہست وبیدار۔ (۴) امیر کاروان علم دین است، فقیہ حق پسندے بالیقین است، تو می پرسی امام دیں کدام است؟ ہمین است وہمین است وہمین است۔ (۵) فداے سنت خیر الانام است، زجان ودل صحابہؓ را غلام است، بمسجد در نماز او را چو بینی، تو گوئی باخداوند ہم کلام است۔...

’’جو چرخ علم پہ مثل مہ منور ہے‘‘

سید سلمان گیلانی

جو چرخ علم پہ مثل مہ منور ہے، بلا مبالغہ وہ سرفراز صفدر ہے۔ شریعت اور طریقت میں حق کا مظہر ہے، پہاڑ علم کا، عرفان کا سمندر ہے۔ یقیں ہے مجھ کو کہ میری کریں گے سب تائید، جو کہہ دوں آج کا وہ کاشمیری انورؒ ہے۔ محدث اور مفسر، فقیہ اور دانا، سراپا علم و عمل، زہد کا وہ پیکر ہے۔ گواہ اس کی ہیں تحریریں اس کی تقریریں، وہ بے مثال سخن دان ہے، سخن ور ہے۔ ہوں اس کے وصف بیاں کس طر ح سے گیلانی، بس اتنا کافی ہے کہہ دوں وہ میرا رہبر...

اک مرد حر تھا خلد کی جانب رواں ہوا

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

شعر پڑھنے، سننے اور اس سے حظ اٹھانے کا ذوق بحمد اللہ تعالیٰ شروع سے رہا ہے مگر شعر گوئی کبھی زندگی کا معمول نہ بن سکی۔ طالب علمی کے دور میں گوجرانوالہ کے معروف شعرا اثر لدھیانوی مرحوم، عزیز لدھیانوی مرحوم، راشد بزمی مرحوم، بیکس فتح گڑھی مرحوم، شاکر سہارنپوری مرحوم، شہید جالندھری مرحوم اور طالب اعوان جیسے دوستوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا رہا۔ شاعروں میں اہتمام سے شریک ہوتا اور ادبی مجالس سے استفادہ کرتا تھا۔ ایک بار اثر لدھیانوی مرحوم نے ایک طرحی مشاعرہ میں کچھ پڑھنے پر مسلسل اصرار بھی کیا جس کا طرح مصرع تھا: وفور کرب وغم سے خون دل بھی ہو گیا...

آہ ! حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی نور اللہ مرقدہ

سید سلمان گیلانی

رہبر دین تھے وہ، ہادئ ایمان تھے وہ، فلک رشد وہدیٰ کے مہ تابان تھے وہ۔ ناز تھا علم کو جن پر وہ تھے ایسے عالم، فخر تھا جن پہ سخن کو وہ سخن دان تھے وہ۔ نصرت حق کے لیے وقف رہا ان کا قلم، اہل باطل کے لیے خنجر بران تھے وہ۔ زہد وتقویٰ میں تھے وہ مثل برادر صفدر، جس میں اوصاف ملائک ہوں وہ انسان تھے وہ۔ تعزیت ان کی میں فیاض سے زاہد سے کروں، اس کے والد تھے وہ اور اس کے چچا جان تھے وہ۔ (غم زدہ سید سلمان...

’دشتِ وصال‘ پر ایک نظر

پروفیسر میاں انعام الرحمن

رگِ خواب، قربِ گریزاں اور حریم حمد کے بعد منیر الحق کعبی کا نیا مجموعہ کلام دشتِ وصال کے نام سے منظرِ عام پر آ رہا ہے۔ اس شعری مجموعے میں اگرچہ تخیل اور اسلوب کی چند نئی جہتیں پر پرزے نکالتی محسوس ہوتی ہیں، لیکن اس کے باوجود کعبی کے شعری سبھاؤ کی روایتی پرچھائیاں دشت سے لے کر وصال تک پھیلتی چلی گئی ہیں۔ ملاحظہ کیجیے: ’’تازہ ہوائے صبح پھر دل کو خطاب کر گئی، باغ کی ہر کلی کھلی ، کھل کے گلاب کر گئی۔ یاد کے شاخسار پر گل جو کھلے بکھر گئے، خانہ خراب سوچ کا خانہ خراب کر گئی۔ تھل کے ہر ایک ذرے میں پنوں کا عکس دیکھ کے، سسی وصال کے لیے خود کو کباب کر گئی۔‘‘...

ذکر ندیم

پروفیسر میاں انعام الرحمن

بیسویں صدی سامراجی اقوام کے غلبے کے خلاف بغاوت کی صدی تھی۔ بغاوت اور انقلاب کے لیے محکوم اقوام کو جس سطح کے جوش و جذبے اور اعتماد کی ضرورت تھی، ادیبوں اور شاعروں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے سے اسی سطح کے جوش و جذبے اور حریت پسندی کو محکوم اقوام کا شعار بنا دیا۔ بیسویں صدی کے پہلے نصف کا اردو ادب بھی ایسی تخلیقی کاوشوں کا آئینہ دار ہے۔ اسی صدی کے دوسرے نصف میں نو آزاد اقوام کے سامنے اپنی آزادی کی بقا کے ساتھ ساتھ اپنی ثقافت کی دریافت کا مہیب مسئلہ آ کھڑا ہوا تو ادیبوں اور شاعروں نے گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کرنے کے بجائے ایک بار پھر اپنا کردار...

کسرِ کعبہ کی حضوری

پروفیسر میاں انعام الرحمن

پروفیسر منیرالحق کعبی بطور مصنف ہمہ جہت شخصیت کے حامل ہیں ۔ نثر ، تنقید ، شاعری ...... غرض اردو ادب کی تقریباََ تمام اصناف پر موصوف نے خامہ فرسائی کی ہے اور خوب کی ہے ۔ ان کا موجودہ حمدیہ کلام بعنوان ’’ حریمِ حمد ‘‘ اس وقت پیشِ نظر ہے ۔ کعبی جیسے شخص کا حمد کی طرف اس قدر جھکاؤ کہ پوری تصنیف منظرِ عام پر آجائے ، حیرت انگیز نہیں ہے بالخصوص اس تناظر میں کہ پچھلے چند سالوں سے ان کی طبع پٹڑی بدلتی دکھائی دیتی ہے ۔ان کے سابقہ مجموعہ ہائے کلام ’’ رگِ خواب‘‘ اور ’’ قربِ گریزاں ‘‘ کی غزلیات سے کسی بھی قاری پر آشکارا ہو جاتا ہے کہ انھوں نے غمِ دنیا کے...

افتخار عارف کی شاعری

پروفیسر شیخ عبد الرشید

اردو شاعری کی ارتقائی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جدید اردو شاعری کا آغاز مولانا الطاف حسین حالی سے ہوا جسے اقبال اور فیض نے بام عروج تک پہنچایا۔ جہاں تک جدید نظم کے ابتدائی سفر، عہد وسطیٰ اور عہد حاضر کا تعلق ہے تو ان تمام سفری مراحل کی منزلیں ن۔ م۔ راشد کے نام پر آ کر رک جاتی ہیں۔ انھوں نے اس صنف کے ضمن میں ایسے تجربات کیے کہ جدید نظم ان کے نام سے منسوب ہو کر رہ گئی ہے۔ اگرچہ آج کی غزل میں غالب کے مروجہ افکار واسالیب اور ن۔ م۔ راشد کے متنوع اسالیب سے روشنی حاصل کی جا رہی ہے، تاہم تیزی سے بدلتی ہوئی سماجی قدروں نے نظم اور غزل ہر دو کے مقاصد ومطالب...

’’پوشیدہ تری خاک میں۔۔۔‘‘ : ایک مطالعہ

حافظ صفوان محمد چوہان

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کا سفرنامۂ اندلس ’’پوشیدہ تری خاک میں۔۔۔‘‘ پڑھا۔ جو چند باتیں فوری طور پر ذہن میں جگہ پاگئی ہیں، اُنھیں ایک امانت خیال کرتے ہوے معرضِ تحریر میں لانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ سب سے پہلی اور نمایاں بات تو یہ ہے کہ پونے تین سو صفحات کے اِس سفرنامے میں، جو کہ سرزمینِ یورپ کے دو ممالک کے سفر کی روداد ہے، ایک جگہ پر بھی کوئی خاتون در نہیں آئی-- نہ اِشارتاً نہ صورتاً۔ یہ بات نمایاں اِس لیے ہے کہ اردو میں سفرنامہ لکھنا جب سے ’’صنعت‘‘ کی شکل اختیار کرگیا ہے، Marketing کا یہ اُصول کہ ہر چیز کی تشہیر عورت کے ذریعے سے ہو، ہر سفرنامے...

قربِ گریزاں کی ایک غزل

پروفیسر میاں انعام الرحمن

چناب کی سر زمین گجرات سے تعلق رکھنے والا منیر الحق کعبی بہل پوری بطور کہنہ مشق شاعر و ادیب اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکا ہے ۔ حمدیہ کلام میں تغزل کی آمیزش سے: ’’گنگ حرفوں کو زباں دی تو نے، مجھ کو توفیقِ بیاں دی تو نے‘‘۔ کہنے والا شاعر قومی کینوس پر شاید اس لئے نہیں آسکا کیونکہ اس کا تعلق نہ تو لاہور ، کراچی جیسے بڑے شہروں سے ہے اور نہ ہی اسے ’’ پی آر ‘‘ کے لوازمات کے’’ سلسلوں ‘‘پر قدرت حاصل ہے: ’’عذاب ٹھہرا ہر اک سے یہ سلسلہ رکھنا، خدا کے ساتھ بتوں سے معاملہ رکھنا‘‘۔ کعبی کا یہ شعرمومن کے اس شعر کی یاد دلا تا ہے جس کے عوض مرزا غالب اپنا...

ثقافتی زوال کا رجائیہ نوحہ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

’’چلو جگنو پکڑتے ہیں‘‘ کلیم احسان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں اس شعری روایت کی ’’ترفیع‘‘ جھلکتی ہے ، جو میرو ناصر کے ادوار سے گزر کر موسمِ گل کی حیرانگی میں رونما ہوئی اور خود اس مجموعے میں جا بجا بکھر گئی: ’’دل ہمارا اجاڑ بستی میں، ایک خالی مکان لگتا ہے‘‘۔ مریدِ میر، رفیقِ حزن کہتا جا رہاہے: ’’مرا دیوان ہوتا جا رہا ہے، کہ غم آسان ہوتا جا رہا ہے‘‘۔ ہو سکتا ہے بعض اصحاب کو اس سے اتفاق نہ ہو کہ شعروسخن کے دیپ ، خونِ جگر سے جلتے ہیں اور خونِ جگر ’’روحِ غم‘‘ ہے۔ کم از کم راقم کی نظر میں تو پر مسرت لمحوں کی اچھل کود ، ہوا کے اس...

علامہ اقبال کا نظریہ شعر و ادب

پروفیسر محمد یونس میو

علامہ اقبال کے نظریہ شعر کا جائزہ لینے سے قبل اس بنیادی اور اصولی بحث سے اعراض ممکن نہیں کہ آخر شعر وادب کا مقصد کیا ہونا چاہیے؟ یہی وہ چیز ہے جس کی بنیاد پر کسی فنی شاہکار اور فن پارے کی عظمت کا تعین کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بحث اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ خود انسان۔ ۱ ؂ انسان کی ابتدائی اور قدیم ترین زندگی میں، جسے پتھروں کا زمانہ کہا جاتا ہے، فن برائے فن کی جھلک نظر آتی ہے۔ ۲ ؂ فن میں مقصدیت کا عمل دخل بھی کوئی نیا اور جدید نہیں ہے۔ یہ اپنی قدامت کے لحاظ سے قدیم یونان سے تعلق رکھتا ہے۔ اس نے اٹھارویں صدی عیسوی میں ’’فن برائے فن‘‘ ۳؂ یا ’’فن...

مجید امجد کی دو نظمیں

پروفیسر طارق محمود طارق

مجید امجد (1914...1974) کی شاعری کا صرف ایک مجموعہ (شبِ رفتہ) ان کی زندگی میں شائع ہو سکا۔ اس میں پندرہ غزلیں اور بیشتر نظمیں ہیں ۔ مجید امجد کے ہاں روایتی شعرا کی سی لفظی گھن گرج موجود نہیں۔ سخت بات کہتے ہوئے بھی ان کا لہجہ بہت دھیما رہتا ہے ۔ درخت ، مجید کی شاعری کا بنیادی استعارہ ہے جو شہر کی کلیت میں انسانی زندگی کی انتہائی مثبت قدروں کا حامل ہے اور اس کی موجودگی افراط و تفریط کے جدید عہد میں ’’قطب نما‘‘ کی حیثیت اختیار کر جاتی ہے ۔ درخت سے وابستہ حیاتیاتی اثبات (Biological Assertion) کو جب مجید امجد معاشرتی سطح پر منطبق کرنے آ تے ہیں تو سانس کی ڈوری برقرار...

شوق سفر تا حشر

پروفیسر میاں انعام الرحمن

سید افضل حسین مرحوم سے ناچیز کی براہ راست تو کوئی شناسائی نہیں لیکن ان کے فرزند سید وقار افضل سے نیاز مندی کے توسط سے مرحوم کی شخصیت سے واقفیت کا سلسلہ ضرور شروع ہوا ہے۔ جناب وقار افضل کی وضع داری اور ان کی گفتگو کاربط وضبط ہمیں کافی حد تک ان کے پدر محترم کا خاکہ فراہم کر دیتا ہے کہ بیٹا ایسا ہے تو مرحوم خود کیسے ہوں گے، لیکن ’’منزل آوارگاں‘‘کے منظر عام پر آنے سے ان کے شخصی خاکے کو تکمیل رنگ تو ملا ہی ہے، ہم جیسوں کے لیے بھی یقینا آسانی پیدا ہوگئی ہے۔ اس شعری مجموعے کا خالق شخص بلاشبہ ایسی نفسیات کا حامل ہے جس کے ہاں روایات اور تہذیبی اقدار...

ایام حج وزیارت مدینہ کی یاد میں

سید سلمان گیلانی

کس منہ سے کروں شکر ادا تیرا خدایا۔ اک بندۂ ناچیز کو گھر اپنا دکھایا۔ واللہ اس اعزاز کے قابل میں کہاں تھا۔ یہ فضل ہے تیرا کہ مجھے تو نے بلایا۔ جس گھر کے ترے پاک نبی نے لیے پھیرے۔ صد شکر کہ تو نے مجھے گرد اس کے پھرایا۔ لگتا نہ تھا دل اور کسی ذکر میں میرا۔ لبیک کا نغمہ مجھے اس طرح سے بھایا۔ مزدلفہ وعرفات ومنیٰ وصفا مروہ۔ ہر جا تری رحمت نے گلے مجھ کو لگایا۔ ہوتی رہی بارش تری رحمت کی بھی چھم چھم۔ مجھ کو بھی بہت میری ندامت نے رلایا۔ محشر میں بھی رکھ لینا بھرم اپنے کرم سے۔ جیسے میرے عیبوں کو ہے دنیا میں چھپایا۔ محشر میں بھی کوثر کا مجھے جام عطا ہو۔ جیسے...

علماء دیوبند

مجاہد الحسینی

مرکز علم وہنر ہے سرزمین دیوبند، دین کی تعلیم کا جس پر ہوا جھنڈا بلند۔ جس جگہ کی تھی بشارت ہادئ عالم نے دی، ہو گیا قائم وہیں پہ مدرسہ دیوبند۔ گونجتی ہے اس جگہ حق وصداقت کی صدا، ہو رہے ہیں جس سے خوابیدہ مسلماں ہوش مند۔ وہ نشانی قاسمؒ ومحمودؒ وانور شاہؒ کی، نقش ہے جس کا دلوں پر یاد جس کی خامہ بند۔ حریت کا درس تھا ان حق پرستوں نے دیا، اس کی پاداش عمل میں تھی سزائے قید وبند۔ انسداد کفر وباطل جن کا مقصود حیات، وہ نفوس قدسیہ دارین میں ہیں فتح مند۔ شیخ مدنی، شیخ عثمانی ہیں ایسے پیشوا، جن کی تعلیمات سے ہم آج بھی ہیں بہرہ مند۔ امت خیر البشر ہو ایک پیکر...

ماہِ صیام

سرور میواتی

علتِ عصیاں کی لے کر ادویہ ماہِ صیام۔ مرحبا صد مرحبا لو آگیا ماہِ صیام۔ جس قدر ممکن ہو اس کی میہمانی کیجئے۔ آگیا قسمت سے مہمانِ خدا ماہِ صیام۔ طاعت و زہد و ریاضت میں گزارو رات دن۔ مغفرت کا لے کے مژدہ آگیا ماہِ صیام۔ خالقِ کونین کی جانب سے ہر ہر خیر کا۔ دینے آیا ہے صلہ صدہا گنا ماہِ صیام۔ اس کی بدبختی پہ روتے ہیں زمین و آسماں۔ ذہن سے اپنے دیا جس نے بُھلا ماہِ صیام۔ کذب و غیبت سے لیا جس شخص نے دامن بچا۔ اس کا دامن رحمتوں سے بھر گیا ماہِ صیام۔ پاک کر لیں آنسوؤں سے دامن تر دامنی۔ دینے آیا ہے ندامت کا صلہ ماہِ صیام۔ خالقِ کونین کے الطاف و انعامات سے۔...

امیر المومنین فی الحدیث امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ

سید سلمان گیلانی

جامعہ انوار القرآن (آدم ٹاؤن، نارتھ کراچی) میں بخاری شریف کے اختتام کی سالانہ تقریب ۲۵ دسمبر ۱۹۹۳ء کو منعقد ہوئی۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم نے بخاری شریف کی آخری حدیث کا درس دیا۔ ان کے علاوہ مولانا محمد اجمل خان، مولانا فضل الرحمٰن، مولانا زاہد الراشدی، مولانا فداء الرحمٰن درخواستی، مولانا اکرام الحق خیری اور دیگر علمائے کرام نے بھی تقریب سے خطاب کیا، اور اس موقع پر شاعرِ اسلام سید سلمان گیلانی نے امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ کے حضور مندرجہ ذیل منظوم نذرانہ عقیدت پیش...

شہیدانِ بالاکوٹ

حضرت شاہ نفیس الحسینی

قبائے نور سے سج کر، لہو سے باوضو ہو کر۔ وہ پہنچے بارگاہِ حق میں کتنے سرخروہو کر۔ فرشتے آسماں سے ان کے استقبال کو اترے۔ چلے ان کے جلو میں با ادب، با آبرو ہو کر۔ جہانِ رنگ و بو سے ماورا ہے منزلِ جاناں۔ وہ گزرے اس جہاں سے بے نیازِ رنگ و بو ہو کر۔ جہادِ فی سبیل اللہ نصب العین تھا ان کا۔ شہادت کو ترستے تھے سراپا آرزو ہو کر۔ وہ رُہباں شب کو ہوتے تھے تو فُرساں دن میں رہتے تھے۔ صحابہؓ کے چلے نقشِ قدم پر ہو بہو ہو کر۔ مجاہد سر کٹانے کے لیے بے چین رہتا ہے۔ کہ سراَفراز ہوتا ہے وہ خنجر در گلُو ہو کر۔ سرِ میداں بھی استبالِ قبلہ وہ نہیں بھولے۔ کیا جامِ شہادت نوش...

شعرِ جاہلی اور خیر القرون میں ارتقائے نعت

پروفیسر غلام رسول عدیم

شعر و شاعری عرب معاشرے کی ایک ناگزیر ضرورت تھی۔ قبائل و احزابِ عرب شاعر قبیلے کی آنکھ کا تارا، عزتِ نفس کا پاسبان اور غیرت کا نشان تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ آج جاہلی عرب کے بارے میں جو کچھ معلومات ہمارے پاس موجود ہیں اس کا بیشتر حصہ انہی شعراء کے ملکۂ سخن کا مرہونِ منت ہے۔ بادیہ نشین عرب فطرت کے نہایت قریب تھے اس لیے ان کے اطوار و عادات میں فطری بے ساختہ پن بدرجۂ اتم موجود تھا۔ تکلف، تصنع اور مبالغہ آمیزی ان کی عادت کے خلاف تھی۔ بات میں کھرا پن ضرور مگر کھراپن لہجے کی صداقت ہوتا ہے۔ آج کل کی اصطلاح میں انہیں حقیقت پسندانہ رویے کا مالک کہنا چاہیے۔...

عمل کا معجزہ حق ہے سکوت و ضبط باطل ہے

سرور میواتی

وطن کی خستگی وجہِ شکستِ بربطِ دل ہے۔ وطن کی اس تباہی میں ’’انا‘‘ کا ہاتھ شامل ہے۔ چمن کی رونقیں سب نذرِ صَرصَر ہوتی جاتی ہیں۔ نہ شادابی گلوں میں ہے نہ گل بانگِ عنادل ہے۔ شکستہ جام و مینا خشمگیں ساقی سبو خالی۔ یہ بزمِ ذی شعوراں ہے کہ دیوانوں کی محفل ہے۔ امنگیں مرثیہ خواں ہیں تمنائیں ہیں پژ مُردہ۔ حُدی خواں گنگ بیچارہ نہ ناقہ ہے نہ محمل ہے۔ تلاطم خیز دریا ہے سفینے کا خدا حافظ۔ ہے نوآموز کشتی باں نہاں نظروں سے ساحل ہے۔ جمالِ آشتی سے ہے مزاجِ یار بے گانہ۔ رعونت اُس بتِ طنّار کی فطرت میں شامل ہے۔ نہ ہو جائیں کہیں دہلیز و در ہی نذرِ ہنگامہ۔ نہ یہ...

بھارت میں اردو کا حال و مستقبل

بیگم سلطانہ حیات

آپ کو یاد ہو گا کہ تقسیمِ ہند کے بعد اردو کا چلن سکولوں وغیرہ میں سرکاری طور پر ختم کر دیا گیا تھا اور پھر دستورِ ہند کی دفعہ ۳۴۳ کے تحت یہ طے پایا تھا کہ حکومتِ ہند کی سرکاری زبان ہندی ہو گی جو دیوناگری رسم الخط میں لکھی جائے گی، اور پھر ۱۹۵۱ء میں دفعہ ۳۴۵ کے تحت ہندی کو یو پی کی سرکاری زبان بنا دیا گیا اور اردو کے وجود کو نظرانداز کر دیا گیا۔ ہم اردو والوں نے پنڈت کشن پرشاد کول صاحب کی زیرقیادت دستخطی مہم کا آغاز کیا اور لسانی تعصب کی تلواروں کی چھاؤں میں دستخطی مہم کامیابی سے ہمکنار ہوئی تھی۔ وقت گزرتا گیا اور اردو کا کاروان چلتا رہا، اور جس...

شریعت کا نظام اس ملک میں اک بار آنے دو

سرور میواتی

وطن میرا ہوا آزاد اب آزاد ہوں میں بھی- مجھے اپنے وطن میں جشنِ آزادی منانے دو- غلامی کے گذشتہ مرثیے پڑھنے سے کیا حاصل؟ کھلے دل سے ترانے مجھ کو آزادی کے گانے دو- منافع بے ملاوٹ حسبِ مرضی مل نہیں سکتا- مجھے بے خوف ہر خالص کو ناخالص بنانے دو- گھریلو تربیت میں بھی نہ ہو جائے کہیں غفلت- بلاناغہ حسیں چہروں کو ٹی وی پر دکھانے دو- برات اب آنے والی ہے یہاں میرے بھتیجے کی- درِ مسجد پہ بے چون و چرا باجا بجانے دو- بلا رشوت ملازم کا گزارا ہو نہیں سکتا- انہیں مِن فضلِ رَبی کی کمائی سے بھی کھانے دو- یہ آزادی کے رسیا بیٹھ کر کھانا نہیں کھاتے- یہ چوپائے کھڑے ہو کر ہی...

تختۂ کابل الٹنا چند دن کی بات ہے

سرور میواتی

عزم و ہمت کے دھنی، آنِ وطن کے پاسباں- اے مجاہد عظمتِ اسلام کے تاباں نشاں- تیری عظمت کےمقابل سرنگوں ہے آسماں- تو نے استبداد کے ایواں ہلا کر رکھ دیے- روس کے ارمان مٹی میں ملا کر رکھ دیے- پھول فتح و کامرانی کے کھلا کر رکھ دیے- مرحبا صد مرحبا افغاں مجاہد شاد باد- ہے ترا مقصد خدا کی راہ میں کرنا جہاد- کاٹ دے پائے جہاں بیخ و بن شر و فساد- کر دیے مسمار تو نے آمریت کے حصار- بربریت کے نظر آتے ہیں اب ہر سو مزار- ہے ہمیشہ سے یہی اللہ والوں کا شعار- سطوتِ اسلام کے تو نے عَلم لہرا دیے- روس کے نمرود کو ناکوں چنے چبوا دیے- سرد سینوں میں الاؤ جوش کے دہکا دیے- ناک میں...

حرکۃ المجاہدین کا ترانہ

سید سلمان گیلانی

حرکۃ المجاہدین، آفرین وآفرین۔ عَلم اٹھا قدم بڑھا، نہ غیرِ حق سے خوف کھا۔ تیری مدد کرے خدا، خدا پہ تو بھی رکھ یقیں۔ حرکۃ المجاہدین، آفرین و آفرین۔ نہ کوئی عذرِ لنگ کر، تو کافروں سے جنگ کر۔ زمین ان پر تنگ کر، نہ مل سکے اماں کہیں۔ حرکۃ المجاہدین، آفرین و آفرین۔ لگا وہ ضرب کفر پر، اٹھا سکے نہ پھر وہ سر۔ مٹے گا ایک روز شر، کہ خیر کا ہے تو امیں۔ حرکۃ المجاہدین، آفرین و آفرین۔ نجیب سے نہ بات کر، اٹھ اس سے دو دو ہاتھ کر۔ رسید ایک لات کر، گرے گا یونہی یہ لعیں۔ حرکۃ المجاہدین، آفرین و آفرین۔ تو حوصلے بحال کر، تو کفر سے قتال کر۔ نہ کوئی قیل و قال کر، یہ سوچنے...

منقبتِ صحابہؓ

سرور میواتی

عشقِ یارانِ نبیؑ خوشنودیٔ ربِ جلیل۔ حُبِ اصحابِؓ نبیؑ خوش قسمتی کی ہے دلیل۔ جو کوئی ان کی بزرگی کا نہیں ہے معترف۔ دونوں عالم میں یقیناً‌ ہو گیا خوار و ذلیل۔ عزت و تکریمِ یارانِ محمدؑ مصطفٰی۔ ہے یقینِ محکم و ایمانِ اکمل کی دلیل۔ اُن صحابہؓ سے تنفّر ہے صریحاً‌ گمرہی۔ جن کے ہوں قرآن میں مذکور اوصافِ جمیل۔ چار یارانِؓ محمدؑ مصطفٰی کی پیروی۔ حفظِ ایمان و یقیں کی ہے دوائے بے عدیل۔ بُغضِ یارانِ نبیؑ سے حق تعالیٰ کی پناہ۔ مرتکب ان حرکتوں کے ہیں نہایت ہی ذلیل۔ ہے تبرّا ان شقی بدبخت لوگوں کا طریق۔ علم و دانش کا ہے جن کے پاس سرمایہ قلیل۔ بے تکی جن کی...
1-42 (42)

Flag Counter