حضرت شیخ الحدیث مولانا عبد القدوس خان قارنؒ کی شخصیت سراپا علم، جلال اور روحانی رعب کا پیکر تھی۔ ہم جیسے طالب علموں کے لیے آپ کا سبق محض علمی نہیں بلکہ روحانی تربیت کا ایک عظیم ذریعہ ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ ہم بیضاوی شریف کے سبق میں شریک تھے۔ دل میں کئی دن سے ایک سوال مچل رہا تھا لیکن حضرت کا رعب اور دبدبہ ایسا تھا کہ زبان کھلنے کا حوصلہ نہیں ہوتا تھا۔ آخرکار ہمت کر کے ہم چند طلباء نے استاذ محترمؒ سے عرض کیا کہ ’’حضرت! آپ کے نام کے ساتھ قارن لکھنے کی کیا وجہ تسمیہ ہے؟‘‘
حضرت نے اپنے مخصوص جلالی اور مانوس انداز میں جواب دیا: ’’میں نے الحمد للہ ردِ قادیانیت، مماتیت اور غیرمقلدیت پر قلمی خدمات انجام دی ہیں۔ انہی عظیم علمی خدمات کی بنا پر میرے ابا حضور، امامِ اہل سنتؒ نے میرے نام کے ساتھ قارن کا تخلص لگایا۔‘‘ یہ بات سن کر ہمارے دلوں پر علمی غیرت اور دینی استقامت کی ایک نئی روشنی اُتر آئی۔
ایک بار حضرت کے پاس چند مہمان تشریف لائے۔ ابا حضور نے آواز دی: قارن بیٹا! ذرا مہمانوں کے لیے خاطر تواضع کا انتظام کرو، مہمانوں کو بھی یہ سوال کھٹکا کہ آخر ’’قارن‘‘ کی وجہ تسمیہ کیا ہے۔ اس پر امام اہل سنتؒ نے بڑے دلنشین اور پراثر انداز میں فرمایا: ’’توانوں پتا میں اینوں قارن کیوں آکھدا آں؟ اس واسطے کہ میرے پتر نے مماتیت، غیرمقلدیت، قادیانیت تے بے تحاشہ کم کیتا اے، ہن جدوں کوئی سجی پاسوں آندا، اے اوہنوں ٹکر ماردا اے۔ جدوں کوئی کھبے پاسوں آندا، اے اوہنوں وی ٹکر ماردا اے، اس لئی میں اینوں قارن آکھدا واں، ایہ میرا پیڈو اے، سب نال پورا آجاند اے!‘‘ یہ الفاظ آج بھی ہمارے کانوں میں گونجتے ہیں اور دلوں کو حضرت کی دینی غیرت و شجاعت کی یاد دلاتے ہیں۔
اللہ جل شانہ ہمارے استاذِ محترم حضرت مولانا عبد القدوس خان قارنؒ کی قبر پر کروڑوں رحمتوں کا نزول فرمائے، آپ کے علمی و روحانی فیض کو پوری امت میں جاری و ساری رکھے، اور ہمیں آپ کے نقشِ قدم پر استقامت عطا فرمائے، آمین۔
(۲۱ اگست ۲۰۲۵ء)