حضرت مولانا زاہد الراشدی دام مجدہ نے حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے متعلق کچھ لکھنے کی فرمایش کی اور کہا کہ حضرت سے آپ کا تعلق ہم سے بھی پہلے کا ہے، اس لیے کچھ نہ کچھ ضرور تحریر کریں۔ میں نے پچاس سال سے زائد طویل عرصہ پر نظر ڈالی اور جیسے جیسے کوئی چیز یاد آتی گئی، لکھتا گیا۔ عند ذکر الابرار تنزل الرحمۃ (نیک بندوں کے تذکرہ سے رحمت کا نزول ہوتا ہے)۔ نزول رحمت کا یہ فیضان بھی دیکھا ہے کہ جب ارادہ کیا، حیران تھا کہ کیا لکھوں، لیکن فضل الٰہی نے دستگیری کی اور یہ چند حروف معرض تحریر میں آ گئے۔ وباللہ التوفیق
علمی مقام اور علما کا آپ سے استفادہ
تفسیر، حدیث، فقہ، عقائد وکلام ہر فن میں آپ یگانہ روزگار تھے۔ معاصرین اور اکابر علما اہم مسائل میں آپ سے رجوع کرتے۔ آپ بڑی متانت اور تواضع سے ان کی حوصلہ افزائی فرماتے۔ راقم الحروف کے دورۂ حدیث کے سال حضرت الاستاذ مولانا قاضی شمس الدین صاحب نصرت العلوم کے صدر مدرس تھے۔ درس ترمذی میں ایک راوی کا ذکر آیا اور اس کا حال معلوم نہ ہو سکا۔ آپ نے فرمایا، اچھا مولانا سے دریافت کر لیں گے۔ پھر جب حضرت شیخ کے ہاں ابوداؤد کا درس ہو رہا تھا تو قاضی صاحب استاذ صاحب کی کلاس میں تشریف لے آئے۔ جب آپ کی نظر قاضی صاحب پر پڑی تو آپ نے ادباً اٹھنا چاہا۔ قاضی صاحب نے کہا کہ آپ بیٹھے رہیں۔ آپ نے کہا کہ یہ تو آپ زبردستی کرتے ہیں۔ قاضی صاحب نے راوی کا نام اور مقام پوچھا تو آپ نے برجستہ بتا دیا۔ قاضی صاحب نے کہا، مولوی محمد عیسیٰ! سن لیا؟ یہ کہہ کر چلے گئے۔
حضرت مولانا عبد المالک صاحب (قلعہ دیدار سنگھ) نے ایک طویل ملاقات میں راقم الحروف سے گفتگو کرتے ہوئے بتلایا کہ جب جمعیۃ اشاعۃ التوحید کے علما اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کے مابین یک جہتی تھی، جلسوں میں سب حضرات تشریف لاتے تھے تو نوشہرہ ورکاں میں جلسہ ہوا۔ تقریر کے دوران حضرت شیخ القرآن نے کہا کہ مجھے حدیث تو یاد ہے لیکن حدیث کا درجہ معلوم نہیں تو مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاریؒ نے کہا کہ فکر کی کیا بات ہے، ہمارے پاس بیہقئ وقت تشریف رکھتے ہیں۔ چنانچہ حضرت الاستاذ نے تفصیلاً بتایا کہ محدثین کی اس حدیث کے بارے میں یہ رائے ہے۔
۱۹۷۶ء میں جامع مسجد شیرانوالہ گیٹ لاہور میں آئین شریعت کانفرنس کے موقع پر استاذ محترم مولانا مفتی محمودؒ نے علما کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہ حضرت علیؓ اپنے دور خلافت میں قاضی ابو شریح کی عدالت میں پیش ہوئے۔ حضرت شیخ کچھ فاصلے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ آہستہ آواز میں کہا: قاضی شریح (تاکہ مفتی صاحب کے علاوہ اور کوئی نہ سنے)۔ مفتی صاحب نے بات دہراتے ہوئے پھر قاضی ابو شریح کہا۔ شیخ نے آہستہ آواز میں پھر کہا، لیکن مفتی صاحب متنبہ نہ ہوئے۔ پھر تیسری مرتبہ دہرایا تو شیخ نے اسی انداز میں کہا، قاضی شریح۔ مفتی صاحب نے سن لیا اور تصحیح کر لی۔ میں نے کہا کہ اس مجلس میں مفتی صاحب کو لقمہ دینے والے بھی موجود ہیں۔
حضرت الاستاذ مولانا قاضی شمس الدینؒ فرمایا کرتے تھے کہ مولانا سرفراز صاحب تین چیزوں میں مجھ سے فائق ہیں۔ ایک اسماء الرجال، دوسرے فقہی جزئیات اور تیسرے ادب (اردو)۔
راقم کہتا ہے کہ اسماء الرجال تو آپ کا ایک خاص فن تھا جس میں آپ کا کوئی شریک اور سہیم مشکل ہوگا، الا ما شاء اللہ۔ اسی طرح آپ کی تصانیف شاہد ہیں کہ آپ کے برابر علمی سطح پر لکھنے والا بھی شاید ہی کوئی ہوگا۔ بقول حضرت صوفی صاحبؒ آپ کی چھوٹی سی تصنیف ’’بانی دار العلوم‘‘ ملک کے اہل قلم اور صحافیوں نے دیکھی تو دنگ رہ گئے کہ اس دور میں اس طرح لکھنے والا بھی موجود ہے۔ حضرت قاضی صاحبؒ جیسے فقیہ بھی اس بات کاا عتراف کرتے ہیں کہ فقہی جزئیات میں مولانا کا پایہ ہم سے بڑھ کر ہے۔ ہم نے فقہ کے بعض مسائل جزئیہ اپنے بڑے اساتذہ سے دریافت کیے تو فنی تقریب سے یہ بتلا دیتے کہ فلاں فلاں ابواب میں انھیں تلاش کریں، لیکن حضرت شیخ کے کیا کہنے! اس قسم کے مسائل میں آپ برجستہ کتاب، باب اور صفحات تک کی نشان دہی کر دیتے۔ ایک دفعہ آپ نے فرمایا کہ اگر حجام غیر شرعی حجامت کرنے والا ہندو ہو اور وہ دعوت کرے تو اس کی ضیافت قبول کرنی چاہیے یا نہیں؟ یہ تلاش کرو۔ راقم الحروف نے حسب استطاعت فتاویٰ، مسائل اور احکام پر لکھی جانے والی کتب کا مطالعہ کیا لیکن نہ ملا۔ تین روز کے بعد فرمایا کہ یہ جزئیہ ’’تذکرۃ الرشید‘‘ میں مل گیا ہے۔
آخری عمر میں بڑی حسرت اور افسوس کا اظہار کرتے تھے کہ جب ہم جوان تھے، رجال کی کتابیں محدود تھیں تو ان کا بارہا مطالعہ کیا۔ اب اس فن کی نادر اور نایاب کتب منظر عام پر آ رہی ہیں اور ہم بوڑھے ہو گئے اور ان کا مطالعہ مشکل ہو گیا ہے۔ علم میں آپ کی جستجو، شوق اور حرص کا اس سے اندازہ لگا لیجیے کہ فرماتے تھے کہ میں نے مختلف کتابوں میں ایک مسئلہ دریافت کرنے کے لیے شب بھر مطالعہ کیا۔ عشا کی نما زپڑھ کر بیٹھا اور صبح کی اذانیں ہو گئیں۔ حضرت شیخ نے فرمایا کہ ایسا بھی ہوا کہ ایک مسئلہ کے پیش نظر میں نے کتاب کی تلاش میں کشمیر کی پہاڑیوں میں دو دن کا پیدل سفر کیا اور بالآخر منزل تک پہنچ گئے، لیکن مالک نے کتاب دکھانے سے انکار کر دیا۔
چنیں کردند یاراں زندگانی
زکار افتادہ بشنو تا بدانی
۱۹۵۸ء میں شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خانؒ پشاور میں ایک تقریر کے اختتام پر مسجد کی محراب میں بیٹھے ہوئے تھے کہ عبدالرؤف نامی ایک شخص نے گردن کے پچھلے حصے پر خنجر سے قاتلانہ وار کیا۔ بڑا گہرا زخم آیا، لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو صحت یاب کیا۔ حملہ آور راول پنڈی کی معروف گدی گولڑہ کے مریدین میں سے تھا۔ اس نے یہ موقف اختیار کیا کہ میں نے گستاخئ رسول پر قتل کرنا چاہا۔ عدالت میں مقدمہ دائر ہو گیا۔ شیخ القرآن ایک جانب سے مدعی اور ایک جانب سے مدعا علیہ تھے۔ بقول استاذ محترم مولانا عبد القیوم صاحب، ملک کے اطراف سے تین سو علما پشاور پہنچ گئے۔ شیخ القرآن نے سب کا شکریہ ادا کیا ور سب کو واپس بھیج دیا، سوائے شیخ مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے، کہ آپ سب پر بھاری ہیں اور ہماری مدد کے لیے کافی ہیں۔
طالب علمی کا دور ہو یا درس وتدریس وافتا کا یا تصنیف وتالیف اور تحقیق وجستجو اور بحث ومناظرہ کا، آپ کی محنت اور مشقت کو علمی مجاہدہ سے تعبیر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ جس موضوع پر قلم اٹھایا، سیر حاصل بحث کی۔ اللہ کی کتاب، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور اقوال، ائمہ شراح کی آرا، متقدمین سلف اور جمہور علماے خلف کا موقف ہمیشہ آپ کے پیش نظر رہا۔ خصوصاً اکابر علماے دیوبند کے عقائد کی توجیہ وتوثیق ہمیشہ آپ کا مطمح نظر رہا۔ آپ کی تحقیقات وتدقیقات کا محور یہ رہا ہے کہ جمہور علماے امت کے دائرے میں رہنا چاہیے اور اکابر کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے جس مسئلہ پر بھی تحقیق کے گھوڑے دوڑائے، اس نتیجے پر پہنچے کہ جو بات ہمارے بزرگوں نے کہی ہے، سچ ہے اور ہماری راہنمائی کے لیے کافی ہے۔
جب آپ کے تلامذہ اور اہل علم معاصرین آپ سے بعض مسائل دریافت کرتے تو فرماتے، بحمد اللہ بڑی بڑی کتب اس فن میں موجود ہیں، آپ ان کا مطالعہ کریں اور محنت کریں۔ یہ سب مسائل آپ کو نظر آ جائیں گے۔ افسوس تو یہ ہے کہ آپ محنت کے عادی نہیں ہیں بلکہ خوش ہوتے ہیں کہ کسی کا مارا ہوا شکار بسہولت مل جائے اور محنت نہ کرنی پڑے۔
بعض علمی مسائل میں حضرت کا موقف
مولانا محمد تقی عثمانی زید مجدہم واساتذہ دار العلوم کراچی اور مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی نے یہ فتویٰ دیا کہ حکومت بینک میں جمع شدہ اموال کی زکوٰۃ ان کے مالکوں کی اجازت کے بغیر منہا کر سکتی ہے، جبکہ جمہور علما نے اس کے خلاف فتویٰ دیا۔ استاد محترم مولانا مفتی محمودؒ نے صدر ضیاء الحق کے اعلان سے پہلے ۲۳ جون ۱۹۸۰ء کو ملتان میں مفتیان کرام کی میٹنگ بلائی اور اس میں بالاتفاق طے پایا کہ حکومت کو اس طرح زکوٰۃ منہا کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ (جامعہ اشرفیہ لاہور)، مولانا مفتی عبد الستارؒ (خیر المدارس ملتان)، مولانا قاضی شمس الدینؒ (جامعہ صدیقیہ گوجرانوالہ)، مولانا عبدالقدیرؒ (تعلیم القرآن راول پنڈی) وغیرہم اور حضرت الشیخؒ کی رائے بھی یہی تھی کہ اس طرح زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی۔ بقول حضرت شیخؒ مولانا تقی عثمانی نے آپ کو لکھا کہ آپ اپنی رائے سے مطلع کریں، ہم اسے ماہنامہ البلاغ میں شائع کریں گے۔ حضرت شیخ نے اپنی رائے مع دلائل تحریر کی اور دار الافتاء مدرسہ نصرۃ العلوم میں اس کا اندراج کرایا اور انھیں بھیج دی۔ انھوں نے آپ کا نام لکھے بغیر آپ کی طویل تحریر سے چند اقتباسات ’’اہل علم کے چند شبہات اور ان کا جواب‘‘ کے عنوان سے چھاپ دیے۔ حضرت شیخ نے پھر ان کی اس تحریر کا جواب لکھا اور شکوہ کیا کہ اس میں شامی کی بعض عبارات کو حذف کر دیا گیا ہے جو موضوع سے متعلق تھیں۔ جواب الجواب کے بعد فرمایا کہ یہ لکھاری قسم کے لوگ ہیں، چھوڑو۔ (والقصۃ بطولہا)۔
اسلامی بنکاری اور ٹی وی چینل کی حالیہ بحث سے متعلق بھی آپ جمہور علما کے ساتھ تھے اور آپ نے آخری ایام میں اس پر دستخط فرما دیے تھے۔
آپ کو اپنے سہو اور غلطی کا اعتراف کرنے میں ذرا بھی باک نہ تھا اور فخریہ اس بات کا اظہار کرتے کہ میں نے اپنی غلطی کے تسلیم کرنے میں اپنے جیسا کوئی نہیں دیکھا اور میں اس پر خوشی محسوس کرتا ہوں۔ ۱۹۵۷ء میں دورۂ حدیث کے سال راقم الحروف نے پوچھا کہ آپ کی کتاب ’’احسن الکلام‘‘ کے جواب میں مولانا محمد گوندلویؒ نے ’’خیر الکلام‘‘ تحریر کی، اس میں کچھ حقیقت ہے؟ آپ نے فرمایا کہ رجال کے مسئلے میں مجھ سے ایک جگہ غلطی ہوئی۔ مولانا حبیب الرحمن اعظمی نے اس کی نشان دہی کی اور مولانا محمد گوندلویؒ نے اسے نوٹ کر لیا۔ ایک ایسی غلطی جس کی دوست بھی نشان دہی کرے اور مخالف بھی، اسے تسلیم کر لینا چاہیے۔ آئندہ ایڈیشن میں سب سے پہلے اعتراف اور معذرت کے ساتھ اسے شائع کروں گا۔
مسائل فقہیہ میں آپ اپنے استاذ مولانا مفتی عبد الواحد صاحب پر اعتماد کیا کرتے تھے۔ مفتی صاحب کے دو مسئلے معروف تھے۔ ایک یہ کہ اذان جمعہ کے بعد اور جمعہ کی نماز سے قبل نکاح پڑھایا جائے تو وہ منعقد نہیں ہوتا، اور دوسرا یہ کہ اگر نکاح خواں نکاح کے الفاظ میں صیغہ استفہام استعمال کرے تو اسے ایجاب نہیں کہتے۔ جب ایجاب نہ ہوا تو قبول بھی نہیں ہوگا۔ حضرت شیخؒ اپنے استاد کے ان دو مسئلوں پر مصر تھے اور پہلے مسئلہ کی دلیل میں احکام القرآن للتھانوی میں مذکورہ ابن العربی مالکیؒ کا حوالہ پیش کرتے تھے۔ حضرت صوفی صاحبؒ نے فرمایا کہ اس مسئلہ میں حضرت استاد متفرد ہیں، اس سلسلے میں ایک تحقیقی مجلس ہونی چاہیے۔ مجھ سے کہا کہ آپ استاد صاحب سے بحث کریں۔ میں نے کہا کہ میری کیا مجال ہے، آپ میری مدد کریں تو اور بات ہے۔ پھر ایک مجلس میں، میں نے حضرت صوفی صاحب کی معیت میں عرض کیا کہ نص میں جس چیز کی منع ہے یعنی بیع کی، علماے حنفیہ نے لکھا ہے کہ اگر اذان جمعہ کے بعد بیع ہو تو اگرچہ اس میں حرمت لغیرہ پائی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود بیع کا انعقاد ہو جاتا ہے تو نکاح کا انعقاد کیسے نہیں ہوگا؟ آپ نے فرمایا کہ زجر اور توبیخ کے طور پر ایسا کرتے ہیں، کیونکہ عموماً دیکھا گیا ہے کہ لوگ نکاح کے بعد چلے جاتے ہیں اور کھانے پینے میں مصروف ہو کر جمعہ کی نماز سے محروم رہ جاتے ہیں۔ دوسرے مسئلے کے متعلق میں نے عرض کیا کہ امام ابن ہمامؒ نے لکھا ہے کہ اگر نکاح کی مجلس ہو تو اس میں استفہام بھی ایجاب کا کام دیتا ہے اور قبول اس کو لاحق ہوتا ہے۔ آپ نے بغور عبارت کا مطالعہ فرمایا اور کہا کہ ٹھیک ہے۔
حسن اخلاق
آپ پر جمال غالب تھا، بلکہ آپ حسن اخلاق کا مجسمہ تھے۔ خواص تو خواص، عوام کی بعض بے جا باتوں پر بھی خوش اسلوبی سے پیش آتے تھے۔ راقم الحروف نے آپ کے ساتھ کئی سفر کیے ہیں۔ آپ سفر میں بھی اپنے رفیق سے خدمت لینے کے روادار نہیں تھے۔ ۱۹۶۷ء میں آپ مدرسہ قاسم العلوم ڈیرہ غازی خان کے جلسے میں تشریف لائے۔ ا س کے بعد آپ نے راجن پور جانا تھا اور کتابوں کا ایک بھاری بیگ سفر میں اٹھائے ہوئے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ میں سفر میں آپ کے ساتھ ہو جاتا ہوں۔ فرمایا کوئی مشکل نہیں، آپ مجھے اپنے گھر (لتڑی جنوبی) کا اسٹاپ بتلا دیں، میں پہنچ جاؤں گا۔ چنانچہ آپ دوسرے دن پہنچ گئے۔
بسا اوقات مستفتی حضرات استفتا کے فوری جواب کی فرمایش کرتے اور میں عذر کرتا تو بڑے پیار سے فرماتے کہ تھوڑی سی فرصت نکال کر جواب لکھ دیں۔ خود حضرت شیخ کا بھی یہی رویہ تھا۔ درس حدیث ہو رہا ہوتا اور درمیان میں کوئی دم کرانے یا تعویذ لکھوانے آ جاتا تو اسی وقت اس کی فرمایش پوری کر دیتے۔ حاضرین درس حیران ہوتے اور تعجب کرتے۔ اللہ کی مخلوق کے ساتھ شفقت کی وجہ سے حضرت شیخ ایسا کیا کرتے تھے۔
ایک دفعہ میں آ پ کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ بس ایک اسٹاپ پر رکی تو زیادہ تر سواریاں اتر گئیں۔ ایک نوجوان ہمارے آگے سگریٹ کے کش لگا رہا تھا اور اس کے دھویں کا رخ سیدھا حضرت شیخ کی طرف تھا۔ میں اٹھا اور اس کے قریب جا کر آہستہ سے کہا کہ پیچھے بزرگ بیٹھے ہوئے ہیں، آپ احتیاط کریں۔ حضرت کو معلوم ہوا تو فرمایا، عزیز مجھے کوئی تکلیف نہیں ہو رہی، پریشان نہ ہوں۔
ڈیرہ غازی خان کے جلسہ میں تشریف لائے تو سالن میں مرچ بہت زیادہ تھی جو موافق طبع نہ تھی۔ میں نے عرض کیا میزبان کو اطلاع دوں تو فرمایا، نہیں۔ وہی چاول تناول فرمائے۔ جس جگہ رات کوآرام کرنا تھا، وہاں مولانا مولانا محمد شریف بہاول پوری مبلغ ختم نبوت سو رہے تھے اور بڑے خراٹے لے رہے تھے۔ آرام کرنا دشوار تھا۔ آپ رات دو بجے تک بے خوابی میں رہے، پھر ان کو اٹھایا اور کہا کہ مولانا، آپ تہجد پڑھیں اور مجھے ذرا سونے دیں۔ مولانا نے کہا کہ حضرت، آپ مجھے پہلے اٹھا دیتے، آپ نے میرے لیے اتنی تکلیف کیوں گوارا کی؟
جب حضرت میرے گھر (لتڑی جنوبی) تشریف لائے تو میں نے مرغ کے سالن میں سرخ مرچ کے بجائے سیاہ مرچ ڈالنے کو کہا ،لیکن جب کھانا پیش کیا تو فرمایا کہ سیاہ مرچ عارضہ قلب کے لیے زیادہ مضر ہے۔ ایک لقمہ بھی نہ لیا۔ بخاری شریف میں آب زمزم کا ذکر آتا تو فرماتے کہ میں مفتی محمد عیسیٰ صاحب کے وطن گیا تو وہاں ایک ہی جگہ تین قسم کے پانی دیکھے۔ وضو کے لیے الگ، پینے کے لیے الگ اور چائے اور سالن کے لیے الگ۔
حضرت شیخ نے بتلایا کہ دار العلوم دیوبند کے صد سالہ جشن میں حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی کی مجلس میں، میں دو زانو ہو کر بیٹھ گیا، کیونکہ وہ مجھ سے سولہ سال بڑے تھے۔ انھوں نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ بیمار ہیں، بے تکلف ہو کر بیٹھیں۔ یہ تھا بزرگوں کے ساتھ آپ کا تادب۔
احتیاط اور وقت کی پابندی
مدرسہ کے نظام الاوقات کی پابندی حضرت کا شیوہ تھا۔ ریلوے پاس بنوایا ہوا تھا۔ علی الصبح وقت سے پہلے تشریف لاتے۔ آپ کے آنے سے طلبہ جاگ اٹھتے۔ حضرت نے مجھ سے بات کرنی ہوتی اور دروازہ بند ہوتا تو کھٹکھٹاتے، کبھی دھکے سے دروازہ نہیں کھولا۔ جنرل حاضری ہوتی تو سب کا نام خود پکارتے اور حاضری لگاتے۔ احادیث کی عبارت میں سخت گرفت ہوتی۔ فرماتے کہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے کہا ہے کہ احادیث کی عبارت میں تساہل اور بے احتیاطی من کذب علی کی وعید کی مد میں آتی ہے۔ ابوداؤد شریف کی عبارت راقم الحروف کے ذمہ تھی۔ ایک صاحب نے کہا کہ کل میں عبارت پڑھوں گا۔ جب موقع آیا تو وہ صاحب سر جھکا کر بیٹھ گئے۔ حضرت شیخ نے فرمایا، پڑھو بھئی۔ میں نے پڑھنا شروع کیا۔ چونکہ مطالعہ نہیں کیا تھا تو حضرت نے ٹوکا کہ کیا بات ہے مولوی صاحب! آج آپ اندھیرے میں چل رہے ہیں! میں نے عرض کیا کہ مطالعہ نہیں تھا۔ فرمایا، عبارت ضرور پڑھنی تھی؟
ابوداؤد شریف کی تکمیل پر آپ نے ایک روپیہ عنایت فرمایا۔ طلبہ نے کہا کہ بخاری شریف کی تکمیل پر قاضی شمس الدین صاحب نے پانچ روپے دیے ہیں۔ حضرت نے فرمایا کہ قاضی صاحب آزاد سوپ فیکٹری کے مالک ہیں اور میں تو یتیم ہوں۔ آپ کے والد گرامی آپ کے بچپن میں فوت ہو گئے تھے، اس لیے آپ اس جملے کو اکثر دہرایا کرتے تھے۔
ایک دفعہ حضرت استاد مفتی محمود صاحبؒ دار الافتاء میں بیٹھے خیریت پوچھ رہے تھے کہ اتنے میں حضرت شیخ آ گئے اور میرے بارے میں کہا کہ یہ آپ کی طرح ناغے بہت کرتے ہیں۔ مفتی صاحب کو غصہ آ گیا اور فرمایا: ’’آ پ کی طرح‘‘ کا کیا مطلب؟ حضرت شیخ نے فرمایا، آج ۱۷؍ جمادی الاولیٰ ہے۔ ۱۸؍ شوال سے اسباق شروع ہوتے ہیں۔ ریکارڈ موجود ہے۔ میرا ایک ناغہ بھی نہیں۔ میں نے آہستہ سے کہا، ادھر گھر ہے اور ادھر مدرسہ ہے۔ مفتی صاحب نے سن لیا تو کہا کہ کبھی آپ نے گھر سے بھی ناغہ کیا ہے؟
اساتذہ اور طلبہ کے ناغہ کرنے پر بہت خفا ہوتے۔ فرماتے کہ مدرسہ کی تنخواہ بظاہر کسب معاش ہے، اسے حلال کرنا چاہیے۔ ایسا بھی ہوا کہ جب آپ حج سے فارغ ہو گئے تو جلد واپس آ کر مدرسہ میں حاضر ہونے کی کوشش کی۔ عام لوگ چونکہ اس بات کی اہمیت کو نہیں سمجھتے تو رفقاے سفر نے محسوس کیا کہ آپ ہمیں چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
ہر سال بخاری شریف کے اختتام پر طلبہ تواضع اور ضیافت کا اہتمام کرتے تو حضرت شیخ بھی اس میں اچھا خاصا حصہ ڈالتے۔ جب حضرت کو معلوم ہوا کہ طلبہ مدرسہ میں کام کرنے والے مزدوروں اور شہریوں سے بھی پیسے لیتے ہیں تو سخت ناراض ہوئے اور ہمیشہ کے لیے ضیافت پر پابندی لگا دی اور فرمایا، آئندہ جو اس کا اہتمام کرے گا، میں اس کے لیے بد دعا کروں گا۔
ایک دفعہ فرمایا کہ بینک کے ملازم ہمسایہ ہوں اور وہ طعام یا غیر طعام کی شکل میں کچھ ہدیہ کریں تو کیا کرنا چاہیے؟ میں نے عرض کی کہ ان سے لے کر کسی مضطر اور عام شخص کو دے دیتا ہوں۔ فرمایا کہ میں بھی ایسا ہی کرتا ہوں۔
فرمایا کرتے تھے کہ مجھے متضاد بیماریوں کا عارضہ لاحق ہے۔ ایک کے علاج سے دوسری بیماری متاثر ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک ضیق النفس کی تکلیف ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے بھی یہ تکلیف تھی، ذکر سلطان الاذکار سے یہ رفع ہو گئی۔ فرمایا کہ پاس انفاس بھی کیا اور تکلیف رفع نہ ہوئی۔
فرمایا کہ اسباب رزق میں سب سے اعلیٰ اور افضل مال غنیمت ہے جو جہاد فی سبیل اللہ اور اعلاے کلمۃ اللہ کے واسطے سے حاصل ہوتا ہے، پھر تجارت جسے اللہ کا فضل کہا گیا ہے، پھر صناعت وحرفت جو حضرت داؤد اور حضرت نوح علیہما السلام کو عطا کی گئی اور پھر محنت مزدوری اور کھیتی باڑی وغیرہ۔
۱۹۵۷ء میں ابوداؤد شریف کے درس میں، میں نے عرض کیا کہ اس وقت جہاد کہیں نہیں ہو رہا۔ فرمایا، آپ علم جہاد بلند کریں، میں آپ کا پہلا فوجی ہوں گا۔
آپ تمام بزرگوں سے حسن عقیدت رکھتے تھے اور ان کا بڑے ادب واحترام سے تذکرہ کرتے بلکہ اپنے معاصر اور کم عمر اہل علم کو بھی اچھے الفاظ میں یاد کرتے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ اہل علم کا ایک طبقہ مولانا ابو الکلام آزاد کو اچھا نہیں سمجھتا اور انھیں برے القاب سے یاد کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ حضرت شیخ مدنی کے درس میں ایک طالب علم نے رقعہ لکھا اور اس میں مولانا ابو الکلام آزاد کو برا بھلا کہا۔ آپ نے رقعہ پڑھتے ہی عینک اتار دی اور متوجہ ہو کر فرمایا کہ یہ کس گدھے نے لکھا ہے؟ ہمارے استاد (شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ ) تحریک آزادی میں ان کی خدمات کو سراہتے اور تعریف کیا کرتے تھے۔
حضرت شیخ تعویذ گنڈے کے کاروبار کو اچھا نہیں سمجھتے تھے اور آپ نے کبھی طلب کر کے تعویذ کی اجرت نہیں لی۔
آخری عمر میں علاج کی غرض سے اور احباب کے اصرار پر برطانیہ کا سفر کیا۔ وہاں مختلف شہروں میں آپ کے بیانات ہوئے۔ ایک جگہ ایک صاحب نے یہ کہہ کر کہ آپ کا ایک بڑا مدرسہ ہے، لوگوں سے تعاون کی اپیل کی۔ آپ نے فرمایا، میں علاج کی غرض سے آیا ہوں، مدرسے کے لیے نہیں آیا۔ ان پروگراموں میں سے کسی کا کوئی معاوضہ قبول نہیں کیا۔ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں اپنی قیام گاہ پر پہنچا تو دیکھا کہ باہر والی جیب میں پندرہ بیس پاونڈ پڑے ہیں۔ سفر سے واپسی پر آپ نے اپنی جیب سے ٹکٹ خریدا اور احباب کو منع کر دیا۔
برطانیہ کے اسی سفر میں ایک ڈاکٹر صاحب نے آپ کے دل کا معاینہ کیا اور کہا کہ یہ لاعلاج ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں اس کی بات سن کر ہنس پڑا۔ وہ متعجب ہوئے تو میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے لیے جو دن مقرر کیے ہیں، وہ پورے ہو کر رہیں گے۔ آپ علاج معالجے میں طب یونانی کی دواؤں کو ترجیح دیتے تھے اور اپنے لیے مفید معجون تیار کر لیتے تھے۔ آخری چند سالوں میں آپ صاحب فراش ہو گئے اور ڈاکٹروں کے ہاتھ آ کر لاچار ہو گئے۔
حضرت شیخ فرماتے تھے کہ مدارس کی رسمی تعلیم سے فراغت کے بعد مجھے خیال آیا کہ میں مولوی فاضل کر لوں۔ ابھی ارادہ ہی تھا کہ ہمارے استاذ حضرت مولانا عبد القدیر صاحب کیمل پوری کو اس بات کا علم ہو گیا۔ انھوں نے فرمایا کہ ہم تو آپ سے بڑی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ سے بڑا کام لے گا۔ حضرت استا ذکے کہنے سے میرا ارادہ بدل گیا۔
تلامذہ کی حوصلہ افزائی اور اکرام
ہم استاد محترم مولانا مفتی محمود صاحبؒ کی وفات سے قبل سے سنتے آ رہے تھے کہ اب یہ بوجھ نوجوانوں کے سر پر آپڑا ہے، ا س لیے حضرت مفتی صاحب اور حضرت شیخ کو ہم نے دیکھا کہ چھوٹے سے لے کر بڑے تک شاگردوں کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے اور اعزاز واکرام فرماتے۔ عموماً ان دونوں بزرگوں کی علمی مجالس میں یہ دیکھنے میں آیا کہ مسائل اور مباحث میں اپنے تلامذہ کو اتنی وسعت دیتے کہ استاد اور شاگرد کا مناظرہ شروع ہو جاتا اور گفتگو طوالت اختیار کر جاتی۔ مجال ہے کہ بحث میں استادی اور شاگردی کا تاثر پیدا ہو اور استاد اپنی استادی کو جتلاتے ہوئے کلام کا خاتمہ کرنے کی کوشش کرے۔
۱۹۶۷ء میں ہماری قوم میں ایک تنازع پیدا ہوا تواستاد محترم مولانا مفتی محمود صاحبؒ نے راقم الحروف اور میرے چچا زاد محترم مولانا قادر داد صاحب کو فیصل بنایا۔ ہم نے کہا کہ ہم چھوٹے ہیں تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بڑا بنائے گا۔ اسی طرح حضرت شیخ ایک دفعہ صبح کے وقت دار الافتاء میں تشریف لائے اور فرمایا کہ آپ کے ہاں ایک مقدمہ میں میری گواہی ہے۔ جب فریقین حاضر ہوں تو مجھے بلا لینا۔ سماعت شروع ہوئی اور حضرت تشریف لائے تو میں اپنی جگہ سے اٹھنے لگا۔ فرمایا، آج آپ نے فیصلہ کرنا ہے، آپ قاضی ہیں، اپنی جگہ پر بیٹھیں۔ میں نے بیان سن کر کہا کہ حضرت، آپ گواہ نہیں بلکہ فریق ہیں۔ فرمایا کہ آپ مقدمہ کی شرعی کارروائی پوری کریں۔ مدعا علیہ نے قسم اٹھا لی اور مبلغ اٹھارہ سو روپے آپ کو ادا کرنا پڑے۔ مجلس برخاست ہوئی اور حضرت شیخ صوفی صاحب کے ہاں تشریف لے گئے۔ انھوں نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ آپ نے فرمایا کہ باقی سب دبلے پتلے تھے، مفتی صاحب نے دیکھاکہ یہ موٹا ہے، اس لیے پھندا میرے گلے میں ڈال دیا۔ صوفی صاحب نے فرمایا کہ فیصلہ کیسا ہوا؟ آپ نے فرمایا کہ شرع کے مطابق صحیح فیصلہ ہوا ہے۔ ایک اور موقع پر ایک صاحب آئے اور کہا کہ میرا اپنے والد سے مالی تنازع ہے، آپ فیصلہ کریں۔ آپ نے فرمایا کہ مفتی صاحب کے پاس چلے جاؤ، وہ انصاف پر مبنی صحیح فیصلہ کرتے ہیں۔ میں ان کا استاد ہوں، لیکن وہ فیصلے میں کسی کی رعایت نہیں کرتے۔
ایک دفعہ رؤیت ہلالِ رمضان وعید کے مسئلے میں کراچی کے بعض علما نے انفرایت اختیار کی۔ بندہ نے حضرت شیخ کو ان علما کے عندیہ سے مطلع کیا تو حضرت نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے مجھے ایک مفصل مکتوب لکھا اور فرمایا ’’آپ بفضلہ تعالیٰ ذمہ دار، صاحب راے او رافتا کے مجاز ہیں۔ اگر آپ کے نزدیک صحیح ہے تو راقم اثیم کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ آپ اپنے افتا میں نہ صرف معذور بلکہ ماجور ہوں گے، لیکن راقم اثیم اپنے آپ کو تائید کرنے پر آمادہ نہیں پاتا۔‘‘ حضرت استاد صوفی صاحبؒ نے حضرت شیخ کا مکتوب پڑھا تو مجھے کہا کہ شیخ نے تو آپ کو بڑا مقام دیا ہے۔ میں نے کہا کہ میں تو کچھ بھی نہیں ہوں، یہ تو اللہ تعالیٰ کا احسان اور حضرت کی دعا ہے۔
وقار اور بردباری
آپ وقار کے ایسے پیکر تھے جن کی ساری زندگی میں نہ کوئی قول عبث ہے اور نہ کوئی فعل عبث۔ خود بھی باوقار اور دوسروں کو بھی باوقار دیکھنا چاہتے تھے۔ نہایت خوش لباس اور سادہ طبیعت، لیکن باقرینہ اور قرینہ بھی ایسا کہ اس میں شریعت کا عنصر غالب ہو۔ گویا ہر ادا سے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درس دہرایا جا رہا ہے اور اذا راوا ذکر اللہ کی یاد تازہ ہو رہی ہے۔ بلامبالغہ آپ بردباری اور تحمل کے پہاڑ تھے۔ کبھی ایسا ویسا طیش دیکھنے میں نہیں ایا۔ بتقاضاے بشریت طبیعت میں ناراضگی اور غصہ تھا، لیکن برداشت اتنی کہ مجال ہے کہ ایک لفظ بھی بے محل زبان سے صادر ہو یا خلاف طبع کوئی بات دیکھ کر کسی کی تنقیص یا توہین سرزد ہو۔ بفضلہ تعالیٰ راقم الحروف نے کبار اساتذہ سے پڑھا ہے، لیکن جو حکم اور برداشت حضرت شیخؒ میں دیکھنے میں آیا، وہ آپ ہی کی خصوصیت اور عطاے الٰہی ہے۔ عین شباب میں بھی ہم جیسے ناچیز شاگردوں پر کسی بات پر بہت سخت غصہ آتا تو اس کا اظہار یوں ہوتا کہ ’’اچھا مولوی صاحب، جو آپ کا دل چاہے۔‘‘
قاری شیر محمد سیانوالی مولانا عبد القدوس خان قارن کے ہم سبق تھے۔ ان کے پاؤں کی ٹھوکر سے قارن صاحب گر پڑے اور بے ہوش ہو گئے۔ اتنے میں حضرت شیخ تشریف لائے۔ طلبہ قارن صاحب کو پانی پلا رہے تھے۔ آپ نے انھیں دم کیا۔ قاری شیر محمد کو بلایا گیا۔ میں نے دیکھا کہ ان کے کندھے کانپ رہے تھے جس سے مجھے ترفص کتفاہما کی حدیث یاد آ گئی۔ آپ نے شیر محمد کی طرف رخ کیے بغیر نرم لہجے میں پوچھا کہ شیر محمد! کی اہوا؟ اس سے زیادہ آپ نے اسے کچھ نہیں کیا۔
متعلقین سے، نہ ملنے اور خط نہ لکھنے پر یاد دہانی کی عادت نہیں تھی اور نہ ماضی کا شکوہ۔ احباب سے چھوٹی چھوٹی باتوں پر گرفت نہ فرماتے۔
سخاوت وضیافت
آپ کا دستر خوان وسیع تھا۔ بلا امتیاز خورد وکلاں سب اس سے فیض یاب ہوتے تھے۔ کوئی مہمان، خواہ اپنا ہو یا پرایا، واقف یا ناواقف، عالم یا ان پڑھ، آپ کی محبت بھری ضیافت سے محروم نہیں رہتا تھا۔ حسب حال مشروب اور کھانے کے وقت کھانا گھر میں تیار ملتا تھا۔ جب تک حضرت شیخ بصحت رہے اور آپ کی اہلیہ حیات رہیں، حضرت کے ہاں مہمانوں کے لیے بازار سے کھانا منگوانے کا رواج نہ تھا۔ آپ کا دستر خوان حضرت مدنی کے دستر خوان کی یاد دلاتا تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ گوناگوں بیماریوں کے باوجود حضرت شیخ نے خاص احتیاط کرنے کا اہتمام کیا ہو۔ ایوبی دور میں گندم کی قلت کے پیش نظر مکئی کی روٹی اور چاول پکانے کا اہتمام ہوتا تھا۔ راقم الحروف آپ کا مہمان تھا تو آپ سے دریافت کیا گیا کہ کیا تیار کریں؟ فرمایا، چاول۔ میں نہ سمجھ سکا۔ میں نے کہا کہ میرے لیے روٹی ہونی چاہیے۔ آپ نے فرمایا کہ مولانا کے لیے روٹی پکا لو۔ میں پھر سمجھا اور کہا کہ میں چاول ہی کھاؤں گا۔
۱۹۵۷ء میں دورۂ حدیث سے فراغت کے سال جب سالانہ امتحان اختتام کو پہنچا تو میں نے چاہا کہ حضرت کی زیارت سے مشرف ہو کر گھر چلا جاؤں۔ برسات کا موسم تھا۔ حضرت کسی کی حویلی میں عارضی طو رپر رہایش پذیر تھے۔ میں نے دستک دی تو آپ تشریف لائے اور مجھے بڑی حویلی کے ایک کمرے میں بٹھایا۔ ایک گھنٹے بعد تشریف لائے۔ آنکھوں میں پانی تھا۔ فرمایا، خشک لکڑیاں نہیں تھیں، گیلی لکڑیوں کو پھونکتا رہا، اس لیے چائے بنانے میں دیر ہوگئی۔ مجھے بہت ندامت ہوئی کہ کاش ،میں شیخ سے ملنے نہ جاتا۔
حضرت شیخ اپنے ہاں آنے والے مہمانوں کی ہر طرح تواضع اور مدارات فرماتے، لیکن کسی کا مہمان بن کر ساری باتیں بھول جاتے اور طرح طرح کی بیماریوں کے باوجود خوراک میں احتیاط اور پرہیز کی حد تک بھی اظہار کے روادار نہ ہوتے۔ البتہ احتیاط اور پرہیز ترک نہیں کرتے تھے اور متبادل کے طور پراپنے آپ کو فاقہ اور برداشت کا عادی بنا لیا تھا۔ ایک دفعہ میں آپ کے ساتھ کار میں بیٹھا تھا تو کسی صاحب نے بتایا کہ سامنے کی بڑی کوٹھی ایک کمہارکی ہے۔ آپ نے ظرافتاً فرمایا کہ اگر مہمان اور بیماریاں نہ ہوتیں تو ہماری اس سے بھی بڑی کوٹھی ہوتی۔ ایک دفعہ بعض اہل علم طبقات کا ذکر کرتے ہوئے تعجب سے فرمایا کہ بزدلی، بخل، تکبر، ریاکاری جیسی خصلتیں سب ا ن میں پائی جاتی ہیں۔
حضرت کے بچوں کے نکاح کے موقع پر قارن صاحب مجھے دعوت دینا بھول گئے، جبکہ مدرسے کے طلبہ اور دیگر اساتذہ دعوت پر چلے گئے۔ حضرت شیخ ہر ایک سے پوچھتے کہ مفتی صاحب نہیں آئے؟ دوسرے دن مجھ سے حضرت صوفی صاحب نے کہا کہ آپ حضرت استاد کی دعوت پر نہیں آئے۔ میں نے عذر کیا کہ مجھے دعوت نہیں دی گئی تو فرمایا کہ حضرت استاذ صاحب نے آپ کو بہت یاد کیا۔ آخر میں فرمایا کہ استاد شاگرد کا تعلق تھا، آپ بغیر دعوت کے چلے آتے تو استاد صاحب بہت خوش ہوتے۔ جب حضرت استاد صاحب سے سامنا ہوا تو فرمایا کہ آپ کیوں نہیں آئے؟ (ادھر قارن صاحب ہاتھ جوڑ رہے تھے کہ میرے متعلق کچھ نہ کہنا)۔ میں نے جواباً عرض کیا کہ مجھے کسی نے دعوت نہیں دی۔ پیچھے متوجہ ہوئے اور کہا، اوئے بھوتنی دے آ! پھر فرمایا، مفتی صاحب کی مستقل دعوت کریں گے۔ اسی طرح شادی کے ایک اور موقع پرقارن صاحب نے مجھے کہ اکہ آپ کی وجہ سے ہم نے فارمی مرغی کے بجائے بکرے خریدے ہیں، اس قدر اضافی رقم آپ کے ذمے ہے۔
تعبیر رؤیا
حضرت شیخ کی خصوصیات میں سے ایک تعبیر رؤیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تعبیر میں خاص ملکہ عطا فرمایا تھا۔ وہ اپنے وقت کے گویا محمد بن سیرینؒ تھے۔ ادھر تعبیر بتلائی، ادھر پوری ہوئی۔ مولانا زاہد الراشدی دام مجدہ نے بتایا کہ میں نے بھٹو دور میں ایک خواب میں دیکھا کہ گوجرانوالہ کا گھنٹہ گھر گر گیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ خدا خیر کرے، ملک کے گھنٹہ گھر صدر بھٹو ہیں، جمعیت علماے اسلام کے گھنٹہ گھر مفتی محمود ہیں اور ہمارے شہر کے گھنٹہ گھر ہمارے استاد مفتی عبد الواحد صاحبؒ ۔ (عام طور پر سیاست کے تذکرے میں حضرت شیخ کا یہ معروف جملہ تھا کہ مفتی محمود ہماری ناک ہے، یعنی اس وقت تمام علما کی عزت کی علامت اور نشان)۔ چنانچہ بالترتیب ان حضرات کی وفات کا سانحہ پیش آیا۔
استاد محترم مولانا عبد القیوم ہزاروی نے بتایا کہ میں نے خواب دیکھا کہ تحریک ختم نبوت کے دوران امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا جنازہ اٹھا رہا ہوں۔ حضرت شیخ نے فرمایا کہ جیل جانے کی تیاری کر لو۔ اسی دن مولانا جیل چلے گئے۔
جب آپ زیادہ مصروف ہوتے اور کوئی خواب کی تعبیر پوچھتا تو فرماتے، مفتی صاحب سے پوچھ لو۔ تعبیر کے ساتھ تدبیر بھی تجویز فرماتے، مثلاً ورد یا علاج بتاتے جس سے تسلی ہو جاتی۔ اگر کوئی لکھ کر تعبیر پوچھتا تو اسی کاغذ پر جواب تحریر کر دیتے۔
ایک دفعہ راقم الحروف نے خواب میں دیکھا کہ بہت زیادہ بارش ہوئی ہے اور میں شیرانوالہ باغ سے مجاہد پورہ جانے کے لیے ریلوے کی پٹڑی پر جا رہا ہوں۔ استاذ قاضی شمس الدین صاحبؒ کے گھر کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ عجیب سماں ہے۔ حضرت شیخ بطور مزدور تغاری میں اینٹ گارا لا رہے ہیں اور حضرت قاضی صاحب اونچی دیوار پر بطور معمار کمرہ تعمیر کر رہے ہیں۔ میں شیخ کے پاس گیا اورکہا کہ تغاری میں اٹھاؤں گا۔ آپ نے فرمایا کہ آپ کا کام نہیں۔ اتنے میں آنکھ کھل گئی۔ میں سوچتا رہا کہ مکان تعمیر کرنے کے لیے اور لوگ کم ہیں کہ یہ دو بزرگ یہ کام کر رہے ہیں۔ ذہن میں یہ آیا کہ اس سے مراد دین کی تعمیر اور آبیاری ہے اور اللہ نے اس کام کے لیے بالخصوص ان بزرگوں کوقبول کر لیا ہے۔ یہ خواب حضرت شیخ سے ذکر کیا تو آپ خاموش رہے۔
حضرت مولانا قاضی شمس الدینؒ اور حضرت شیخ کا ربط و تعلق
حضرت الاستاذ مولانا قاضی شمس الدینؒ اور حضرت شیخؒ کا گہرا ربط اور تعلق تھا۔ قاضی صاحب حضرت شیخ کے جامع العلوم ہونے کے قائل تھے اور حضرت شیخ بھی ان کے علمی مقام کو تسلیم کرتے تھے۔ میں نے اکثر دیکھا کہ حضرت شیخ قاضی صاحب کے سامنے متادب اور خاموش رہتے۔ ایک دفعہ مجاہد پورہ میں نکاح کی تقریب میں شیخ مدعو تھے اور حضرت قاضی صاحب بھی موجود تھے۔ قاضی صاحب نے کہا کہ مولانا، آپ نکاح پڑھائیں۔ حضرت شیخ نے فرمایا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ کی موجودگی میں نکاح پڑھاؤں۔ آپس کی علمی نوک جھوک میں ہر ایک بزرگ نے دوسرے کے مقام ومرتبہ کو ملحوظ رکھا۔ جب میں حضرت قاضی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ حضرت شیخ اور حضرت صوفی صاحب کی خیریت دریافت کرتے اور فرماتے، میری طرف سے ان کو سلام پیش کرنا اور دعاؤں کی درخواست کرنا۔
حضرت قاضی صاحبؒ نے غالباً اپنے درس میں کچھ اختلافی باتیں بیان کیں اور انھیں ’’الشہاب الثاقب‘‘ کے نام سے چھاپ دیا۔ حضرت شیخ نے ’’الشہاب المبین‘‘ کے نام سے اس کا جواب تحریر کیا۔ حضرت صوفی صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے ان دونوں رسالوں کا مطالعہ کیا ہے؟ میں نے کہا کہ جی، مطالعہ کیا ہے۔ فرمایا کہ ان میں کیا پایا؟ میں نے کہا کہ میں کیا کہہ سکتا ہوں؟ دونوں میرے شیخ ہیں۔ لیکن صوفی صاحب نے اصرار کیا کہ بتائیں۔ میں نے کہا کہ دونوں شیوخ گرمئ کلام کا شکار ہو گئے۔ قاضی صاحب نے کہا کہ مسئلہ تو فروعی ہے لیکن اگر مولوی صاحب چاہیں تو میں ان سے مباہلہ کرنے کو تیار ہوں، اور حضرت شیخ نے ایک بات پر تبصر کرتے ہوئے کہا کہ یہ قاضی صاحب کا ’’جہل مرکب‘‘ ہے۔ میں نے کہا کہ تعجب ہے کہ مسئلہ تو فروعی ہے اور پھر مباہلہ! ادھر شیخ نے قاضی صاحب کے بارے میں اتنی بڑی بات کہی کہ کسی طرح آپ کے شایان شان نہیں ہے۔ اس پر صوفی صاحب نے فرمایا کہ آپ اپنے استاد قاضی صاحب کی رعایت کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ تو خدا تعالیٰ جانتا ہے۔ آپ نے اصرار کیا ہے تو میں نے بتا دیا ہے۔
ایک ہفتے کے بعد میں حضرت استاد قاضی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے یہی سوال کیا تو میں نے کہا کہ میں آپ کو وہ جواب سناؤں جو میں نے صوفی صاحب کو دیا ہے؟ پھر میں نے من وعن وہی جواب سنا دیا۔ قاضی صاحب ہنس پڑے۔ میں نے مزید کہا کہ آپ کے رسالے کی نہ کوئی زبان ہے اور نہ بیان۔ ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے آپ کی املائی تقریر کو مرتب کیا ہے۔ قاضی صاحب نے اپنے سامنے رکھی ہوئی ایک فائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے مولانا کے رسالے کا جواب لکھ دیا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ مسئلہ آپ دونوں بزرگوں کی زندگی میں طے ہو جائے اور اگر آپ نے جواب لکھا ہے تو حضرت شیخ بھی آپ کے رسالے کا جواب تحریر کریں گے اور معاملہ بڑھ جائے گا۔ قاضی صاحب نے فرمایا کہ آپ کی کیا رائے ہے کہ یہ رسالہ طبع نہ ہو؟ میں نے کہا کہ جی ہاں۔ فرمایا، نہیں طبع ہوگا اور آج تک طبع نہیں ہوا۔
اس قسم کے مختلف فیہ مسائل میں حضرت شیخ اکثر راقم الحروف کو واسطہ بناتے۔ دونوں کو اعتماد تھا کہ پیغام میں کمی بیشی نہیں کرتا اور معاملہ سلجھانا چاہتا ہے۔ چنانچہ ۱۰؍ شعبان المعظم ۱۴۰۵ھ کو مدرسہ نصرۃ العلوم میں ایک مولوی صاحب نے آکر مجھ سے کہا کہ حضرت مولانا قاضی شمس الدین صاحب آپ کو بلا رہے ہیں۔ میں حاضر خدمت ہوا تو فرمانے لگے کہ مولانا سرفراز صاحب کو میرا پیغام دے دو کہ:
۱۔ میرا مولوی احمد سعید ملتانی سے کوئی تعلق نہیں۔ میں اس سے بے زار ہوں۔ میں اس سے تبری کا اعلان کرتا ہوں۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ ’’اگر سنو کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل گیا ہے تو یہ تسلیم کر لو اور اگر یہ سنو کہ کسی کی عادت (طبیعت) بدل گئی ہے، یہ نہ مانو۔‘‘ جتنی مجھے اس شخص سے تکلیف پہنچی ہے، وہ میں جانتا ہوں۔
۲۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں پیش ہونا ہے۔ میں کسی کی ’’سماع موتی‘‘ پر تکفیر نہیں کرتا۔
ایک ہفتہ گزر گیا، مگر میں نے حضرت شیخ کو یہ پیغام نہ دیا تاکہ معاملہ آگے نہ بڑھے۔ ایک دن حضرت شیخ مولانا مفتی عبدالشکور صاحب سے اسی موضوع پر بات کر رہے تھے کہ مولوی احمد سعید کا ذکر آ گیا۔ میں نے مناسب سمجھا کہ حضرت استاد قاضی صاحب کا پیغام آپ کو پہنچا دوں۔ جب میں نے پیغام دیا تو اس پر حضرت شیخ نے کہا کہ حضرت قاضی صاحب سے کہیں کہ وہ لکھ کر دے دیں، کیونکہ ان کی وفات کے بعد کوئی اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا۔ چنانچہ وسط شعبان المعظم میں (اس کے پندرہ بیس رو ز کے بعد ۱۰؍ رمضان المبارک کو حضرت قاضی صاحب کا انتقال ہو گیا) راقم الحروف کراچی کے سفر سے واپس آیا تو حضرت قاضی صاحب کی زیارت کے لیے آپ کی رہایش گاہ پر صبح دس بجے حاضری دی۔ آپ آرام فرما رہے تھے۔ میں آپ کے پاؤں دباتا رہا اور ایک گھنٹے کے بعد نصرۃ العلوم حاضر ہوا۔ اتنے میں استاد زادہ مولانا عبد القدوس خان قارن صاحب تشریف لائے اور کہا کہ حضرت قاضی صاحب کی زیارت کے لیے جانا ہے، آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں۔ میں نے کہا کہ رات بھرسفر کیا ہے اور ابھی حضرت سے مل کر آیا ہوں، آپ کے ساتھ نہیں جا سکتا، لیکن ان کے شدید اصرار پر ان کے ساتھ دوبارہ حضرت قاضی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مولانا عبد الغفور بٹ بھی ہمراہ تھے۔ بارہ بج چکے تھے اور آپ اس وقت بیدار ہو چکے تھے۔ بات چیت کے دوران آپ نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا میرا پیغام مولانا محمد سرفراز خان صفدر کو پہنچا دیا تھا؟ میں نے کہا کہ حضرت استاد فرماتے ہیں کہ قاضی صاحب یہ بات لکھ دیں۔ فرمایا، دس مہینے ہوئے میں نے لکھ دیا ہے جس کی نقل مولوی محمد صدیق کے پاس ہوگی اور ماہنامہ ’’تعلیم القرآن‘‘ میں اشاعت کے لیے مولوی احسان الحق کو بھیج دیا ہے۔ اس کے بعد قارن صاحب سے فرمایا کہ مکتوبات مجدد الف ثانی میرے سرہانے رکھے ہیں۔ اٹھا کر دیکھو، میر ے ہاتھ سے ان صفحات کے نشان لگے ہوئے ہیں جن میں حضرت مجدد نے ’’بحرمت‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہ اکیس حوالہ جات ہیں اور میں نے عنایت اللہ شاہ سے کہا ہے کہ اتنا غلو نہ کرو۔ جب ہمارے بزرگوں نے بحرمت سید المرسلین لکھا ہے تو یہ صحیح ہے۔ قارن صاحب کے اعزاز میں حضرت نے چائے کا حکم دیا۔ چائے پی کر ہم سب دعا کی درخواست کرتے ہوئے آپ سے رخصت ہوئے۔ حضرت کے ایک نمایاں شاگرد نے شکایت کی کہ جب ہم آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ نے ہمیں کبھی چائے پانی کا نہیں پوچھا اور مولانا محمد سرفراز صاحب کے بیٹے آتے ہیں تو آپ ان سے بہت محبت کرتے ہیں۔ فرمایا کہ مولانا سرفراز صاحب کے بیٹے ہیرے ہیں ہیرے،تم ان کی ریس کر سکتے ہو؟
حضرت قاضی صاحبؒ کی وفات کے بعد شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان صاحب تعزیت کے لیے مدرسہ نصرۃ العلوم تشریف لائے تو دار الافتاء میں ملاقات کے دوران حضرت صوفی صاحبؒ نے فرمایا کہ میں ہر نماز کے بعد نام لے کر حضرت قاضی شمس الدینؒ کے لیے دعا کرتا ہوں۔
حضرت شیخ عبقری العصر اور جامع کمالات شخصیت تھے۔ آپ کی صفات کا احاطہ مشکل ہے۔ ایک مستقل اکیڈمی آپ کی خدمات پر کام شروع کرے تو کامیابی آسان نہیں۔ شیخ کے اوصاف میں سے کسی ایک وصف تک رسائی کارے دارد۔ حضرت شیخ پر کچھ لکھنا محبین اور مخلصین کی سعادت ہے، ورنہ بحر بے کراں میں قدم رکھنے کی کون جرات کر سکتا ہے۔
نہ حسنش غایتے دارد نہ سعدی را سخن پایاں
بمیرد تشنہ مستسقی ودریا ہمچناں باقی
شیخ مولانا محمد سرفراز خان صفدر نے اپنی تصانیف میں فرق باطلہ کے عقائد فاسدہ کا پرزور رد کیا، ان کی دور ازکار تحریفات اور تاویلات کا پردہ چاک کیا اور اہل سنت کے موقف کو کتاب وسنت کے دلائل وبراہین سے واضح کیا۔ آپ کی تصانیف کا ایک گراں بہا ذخیرہ آپ کی خدمات پر شاہد ہے۔ مولانا عطاء المنعم شاہ بخاریؒ نے راقم الحروف سے شیخ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا، دیوبند کے ایک سپوت نے وہ کام کیا ہے جو ساری اکیڈمی نہیں کر سکی۔ اتنی طویل تصانیف کے باوجود کسی حریف نے حرف گیری نہیں کی کہ فلاں جملہ اخلاقی حدود کو پامال کر رہا ہے۔
آپ کے علوم وفیوض اور آپ کے اصول وقواعد جن پر آپ کی تصانیف کا مدار ہے، ہر ایک تصنیف کا پس منظر اور اسباب، پھر دلائل کا توازن اور طرز استدلال، ان کی افادیت، زبان اور بیان کا اسلوب، ان پر اکابر علما کی تحسین وتقریظ، ان کی ترتیب اور تاریخ مستقل موضوعات ہیں۔ کوئی صاحب ذوق ان کو چھیڑے اور ان کو اپنائے تو یہ ان کی اہمیت اور بڑے حوصلے کا کام ہے۔