کسی بھی بڑی شخصیت کی زندگی کا تجزیہ کیا جائے تو چند صفات ایسی ملیں گی جن پر اس کی شخصیت کی تعمیر ہوئی ہوتی ہے۔ حضرت امام اہل سنت رحمہ اللہ کی پوری زندگی اور ان کے مختلف اور متنوع پہلووں میں دو چیزیں دو باتیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ ایک رسوخ فی العلم اور دوسرے تقویٰ کا مزاج ۔
حضرت اپنی یادداشت اور رسوخ فی العلم کے اعتبار سے علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے مقام پر فائز تھے۔ ا ن کے ہم عصروں میں کوئی عالم یا محدث ایسا نظر نہیں آتا جو حافظہ کے اعتبا ر سے ان کے برابر ہو۔ استاد محترم مولانا زاہدالراشدی نے حضرت کی میت کو قبر میں اتارتے وقت بجا طور پر فرمایا کہ : ’’ ہم ایک عالم،فقیہ یامحدث کو نہیں بلکہ بر صغیر کی ایک عظیم لائبریری کو قبر میں اتار رہے ہیں۔‘‘
حضرت امام محمد ؒ ساری رات مطالعہ کرتے رہتے تھے۔ ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ حضرت آپ رات کو کیوں مطالعہ کرتے ہیں، کیا دن کو وقت کم ہو تا ہے؟ حضرت ؒ نے فرمایا کہ ساری دنیا اس اطمینان پر سوئی رہتی ہے کہ اگر صبح کو کوئی مسئلہ پیش آئے گا تو محمد ؒ سے پوچھ لیں گے۔ اگر میں بھی سو گیا تو ان کے مسائل کو کون حل کرے گا؟ حضرت امام اہل سنت بھی ذوق مطالعہ کے اعتبار سے امام محمد ؒ کے پر تو تھے۔ میں نے استاد محترم مولانا زاہد الراشدی سے حضرت کے ذوق مطالعہ اور اوقات کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ ویسے تو اوقات متعین ہی تھے، لیکن جب کسی مسئلے میں الجھن ہوتی تو پوری پوری رات مطالعہ میں گزار دیتے، حتیٰ کہ سوتے وقت خواب میں یا پھر ویسے ہی کوئی خیال آجاتا تو فوراً اٹھتے ہی تحقیق شروع کر دیتے تھے۔
حضرت کی یادداشت آخری وقت تک قائم رہی۔ جہاں سے کوئی کتاب دیکھتے، اس کتاب کا نام، صفحہ اور متعلقہ عربی یا اردو الفاظ یاد رکھتے۔ ایک مجلس میں فرمایا کہ ’’اب تو میرا حافظہ کمزور ہو گیا ہے، لیکن میں نے اس موضوع پر دارالعلوم دیوبند کی لائبریری کے قبلہ رخ شیلف نمبر ۲ میں رکھی ہوئی تیسری کتاب ’’الدر النثیر‘‘ میں فلاں صفحے پر فلاں بحث کے حاشیہ میں یہ شعر پڑھا تھا‘‘۔
طلبہ میں مطالعہ کا ذوق پیدا کرنے کے لیے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ ’’تحدیث نعمت کے طور پر کہتا ہوں کہ افغانستان، پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں مجھ فقیر سے زیادہ کسی عالم کا مطالعہ نہیں ہوگا‘‘۔ موجودہ دور کے طلبہ کے عدم ذوق کو یوں تعبیر فرماتے تھے کہ طلبہ میں ’’ذوق بھی فوت ہو گیا، شوق بھی فوت ہوگیا اور وہ دونوں شاعر تھے۔‘‘
حضرت کو جہاں علم میں رسوخ حاصل تھا، وہیں حاضر جوابی میں بھی کمال درجہ حاصل تھا۔ پروفیسر اشفاق حسین منیر لکھتے ہیں کہ دوران سبق ایک دفعہ حضرت نے فرمایا: جب میں مدرسہ میں ہدایہ شریف پڑھایا کرتا تھا تو ایک غیر مقلد ساتھی آکر قریب بیٹھ جاتا اور میرا سبق سنتا۔ ایک دفعہ بڑا متاثر ہو کر کہنے لگا کہ مولوی صاحب آپ اتنے بڑے عالم ہو کر بھی مقلد ہیں؟ حضرت نے جواباً فرمایا: مجھے بھی یہی حیرت ہے کہ تم جاہل ہو کر بھی غیر مقلد ہو۔
غالباً ۱۹۹۹ ء کی بات ہے۔ الشریعہ اکادمی میں دینی مدارس کے طلبہ کے لیے عصری تعلیم کے سلسلے کے آغاز کے موقع پر استاد محترم مولانا زاہد الراشدی نے حضرات شیخین کو دعوت دی۔ حضرت امام اہل سنت ؒ نے اپنے خطاب میں عصری تعلیم بالخصوص انگریزی زبان سیکھنے کی ترغیب دیتے ہوئے یوں فرمایا کہ ’’ میں برطانیہ گیا تو ایک انگریز نے اسلام کے متعلق اپنے شبہات کا ذکر کیا۔ میں نے اسے جواب دیا، لیکن چونکہ میں انگلش نہیں جانتا تھا، اس لیے ترجمان مقرر کیا گیا۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ اگر مجھے انگریزی آتی ہوتی تو میں اسے اپنے الفاظ میں اچھی طرح سمجھا سکتا۔ میرے بیٹے عزیزم محمد زاہد نے دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کا آغاز کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں۔‘‘
حضرت نے طلبہ کو ختم بخاری شریف کے موقع پر نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ آج کا کام کل پر نہ چھوڑو۔ جو کام آج کرنا ہے، وہ آج ہی کرو ۔ مزید فرمایا کہ اتنے زیادہ کام اپنے ذمے نہ لو جنھیں نباہ نہ سکو۔ اتنا ہی کام اپنے ذمے لو جسے بآسانی نباہ سکو۔ یہ بھی نصیحت فرمائی کہ کام کرتے وقت آپ کے دل میں یہ جذبہ ہونا چاہیے کہ جو امانت میں نے اپنے اساتذہ سے حاصل کی ہے، اس امانت کو ان شاء اللہ العزیز اگلی نسلوں تک پہنچاؤں گا۔
میترا نوالی ضلع سیالکوٹ کے ہمارے استادمحترم ماسٹر صفدر صاحب، جو کہ برسوں تبلیغ سے وابستہ رہے، فرماتے ہیں کہ ’’میں نائیجیریا میں تبلیغ کے سلسلہ میں گیا اور ایک سال کے بعد واپسی پر رائیونڈ سے سیدھا حضرت شیخ الحدیث ؒ کی مسجد میں پہنچا۔ عشا کا وقت تھا اور حضرت گھر تشریف لے جا چکے تھے، لہٰذا میں مسجد میں ہی ٹھہرا اور صبح نماز سے پہلے حضرت سے ملا۔ حضرت نے بڑی شفقت فرمائی اور بڑی محبت سے معانقہ کیا۔ نماز کے بعد فرمایا کہ آج درس کے بجائے ماسٹر صاحب کا بیان ہو گا۔ ماسٹر صاحب نائیجیریا میں ایک سال تبلیغ کا کام کر کے آئے ہیں۔ میں کچھ ہچکچایا تو فرمایا! بھائی جماعت کی کار گزاری سنا دو۔ چنانچہ اس دن میں نے نائیجیریا کے حالات سنائے‘‘۔
اتنی بڑی شخصیت، محدث و مفسر کا ایک غیر عالم آدمی کی گفتگو کے لیے اپنے درس کو ترک کر دینا حضرت کی شفقت، دینی تڑپ اور انتہا درجے کی عاجزی کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔
حضرت کی ایک خاص صفت تقریباً تمام بڑے بڑے حضرات سے سنی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ کی چھوٹی سے چھوٹی ادا کو اپنانے کا نتیجہ تھی۔ وہ ترمذی شریف کی حدیث ’’افشوا السلام‘‘ پر عمل تھا کہ حضرت کے پاس جو بھی ملنے آتا، حضرت دور ہی سے سلام کہہ دیتے۔ کئی حضرات نے ذکر کیا کہ ہم نے چاہا کہ آج تو میں حضرت کو پہلے سلام کروں گا، لیکن حضرت نے موقع ہی نہ دیا اور دور ہی سے السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہہ دیتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس پاکیزہ صفت پر عمل کرنے توفیق عطا فرمائے۔
حضرت مدرسہ کی گاڑی کو گھر سے مدرسہ اور مدرسہ سے گھر جانے کے علاوہ استعمال نہ کرتے تھے، حتیٰ کہ اگر بازار کی طرف جانا ہوتا تو بھی پیدل جاتے۔ ڈرائیور کہتا کہ میں نے بھی ادھر ہی جانا ہے، تب بھی سوار نہ ہوتے۔ گویا یہ فرماتے کہ یہ گاڑی صرف علم حدیث کے اسباق پڑھانے کے لیے مجھے دی گئی ہے، نہ کہ کسی دوسرے کام کے لیے اور اگر میں کسی دوسرے مصرف میں استعمال کروں گا تو امانت میں خیانت ہو گی۔ مدرسہ میں سبق پڑھانے کے دوران اگر کوئی دوست آجاتا تو اس کے پاس بیٹھنے کا وقت نوٹ کر لیا کرتے اور سال کے آخر میں یا کسی موقع پر کل وقت کو جمع کر کے اس کے مطابق تنخواہ میں سے کٹوتی کرا دیتے۔ جو طالب علم صبح مدرسہ میں اجتماعی حاضری لگاتا، حضرت اس کو اپنی تنخواہ میں سے کچھ نہ کچھ ضرور دیتے۔ استاد محترم مولانا محمد یوسف صاحب فرماتے ہیں کہ جس سال میں حاضری لگاتا ،حضرت مجھے ۱۰۰ روپے دیتے تھے۔ حضرت کے ذہن میں یہ تصور تھا کہ چونکہ یہ میرا کام ہے اور میں نے نہیں کیا، لہٰذا جو اس کو سرانجام دے رہا ہے، اس کو معاوضہ دینا چاہیے۔
حضرت شیخ صاحبؒ طلبہ کو نماز کی پابندی کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے کہ یہ تقریباً ۱۹۴۰ء سے قبل کا زمانہ تھا جب میں مدرسہ انوارالعلوم میں زیر تعلیم تھا۔ ایک رات بہت دیر تک مطالعہ کرتا رہا۔ صبح کچھ دیر ہو گئی اور نماز فجر کی ایک رکعت چھوٹ گئی۔ نماز کے بعد استاد محترم مولانا عبدالقدیر صاحب ؒ نے بلایا اور فرمایا کہ ’’تم طالب علم ہو اور تمہاری تکبیر اولیٰ فوت ہو گئی بلکہ ایک رکعت بھی چھوٹ گئی!‘‘ اس کے بعد اب تک الحمدللہ کبھی عمداً تکبیر اولیٰ فوت نہیں ہوئی۔
حضرت امام اہل سنت کا موقف جہاں بے لچک ہوتا، وہاں زبان میں اتنی ہی نرمی اور لچک تھی۔ حضرت کے مواعظ، خطبات، دروس اور درس حدیث، سب میں یہ خصوصیت ہر شخص محسوس کرتا ہے۔ استاد محترم مولانا زاہد الراشدی بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مولانا عبدالقادر روپڑی صاحب سے کچھ اختلاف ہوا تو میں نے جواب دیتے ہوئے یوں تحریر کیا ’’عبدالقادر روپڑی لکھتا ہے‘‘۔ مضمون مکمل کر کے حضرت والد محترم کے پاس لے گیا تو انھوں نے سخت غصے میں تھپڑ مارنے کے لیے ہاتھ اُٹھایا اور ڈانٹ پلاتے ہوئے فرمایا کہ عبدالقادر تمہارا چھوٹا بھائی ہے؟ استاد محترم فرماتے ہیں کہ وہ دن اور آج کا دن، ہزار اختلاف ہونے کے باوجود میں کبھی اعتدال سے باہر نہیں جاتا اور نہ کبھی کسی کی بے ادبی اور تنقیص کا خیال دل میں آتا ہے۔ یہ سب والد محترم ہی کی تربیت کا نتیجہ ہے۔
بعض حضرات، حضرت کے تصنیف وتالیف کے مخصوص ذوق سے نامناسب نتائج اخذکرتے ہیں۔ یہ صرف حضرت کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ہر بزرگ کے جذباتی اور فہم وفراست سے متبعین ایسا ہی کرتے ہیں۔ ان کا طرز بیان یہ ہوتا ہے کہ حضرت نے ہر فتنے کا مقابلہ کیا، غیر مقلدین کو لاجواب کر دیا، حیات وممات کے مسئلے پر مخالفین کی بولتی بند کر دی، فلاں گروہ کے رد میں دلائل کے انبار لگا دیے، لہذا حضرت کے اس مشن کو جاری رکھتے ہوئے ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی تقریروں، دروس اور خطبات جمعہ میں ان مسائل کو ڈنکے کی چوٹ پر بیان کریں گے۔ حضرت کی یاد میں منعقد کی جانے والی مجالس اور پروگراموں میں ایسی باتیں کثرت سے سننے کو ملیں، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حضرات، صحیح استدلال نہیں کر رہے، بلکہ حضرت کے طرز عمل کا صرف ایک پہلو کو لے کر جو ان کو بھاتا ہے، باقی تمام پہلووں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ حضرت نے یقیناًان تمام مسالک کے ردپر کتابیں لکھیں اور شرح وبسط سے لکھیں، لیکن حضرت ؒ کے پیش نظر مخالفین کی اصلاح تھی نہ کہ جنگ و جدال، لہٰذا ہمیں بھی یہ مسائل بیان کرتے وقت اصلاح، ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبے کو مدنظر رکھنا ہو گا۔ دوسرے یہ کہ حضرت کی تمام کتابیں دفاع میں لکھی گئی تھیں۔ غیر مقلدین نے بے جا اعتراضات کیے تو حضرت نے ان کے رد میں لکھا، حیات و ممات کے مسئلے پر تشدد کا رویہ سامنے آیا اور عوام کے عقائد کی خرابی کا اندیشہ ہوا تو حضرت نے کتابیں تصنیف کیں، بریلویوں نے رسوم و رواج کو دین بنانا چاہا تو حضرت نے بدعت و سنت میں فرق کو واضح کیا۔ گویا تردید ومجادلہ کے انداز کو ضرورت کے حد تک محدود رکھا، جبکہ حضرت کی عمومی تقاریر، دروس اور خطبات میں ایسے مسائل شاذ ونادر ہی کہیں زیر بحث آتے تھے۔
حضرت شیخ رحمہ اللہ گکھڑ کی مرکزی جامع مسجد میں فجر کی نماز کے بعد جو درس دیا کرتے تھے، اسے پنجابی زبان سے اردو میں مولانا محمد نواز بلوچ منتقل کر رہے ہیں۔ اب تک اس کی آٹھ جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔ ان دروس کی فہرست کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آٹھ جلدوں کے ۲۹۲۷ صفحات میں ۳۲۷ دروس ہیں جن کے ذیلی عنوانات ۲۰۲۶ ہیں۔ ان عوامی دروس میں زیر بحث آنے والے دو ہزار سے زائد ذیلی نکات اور موضوعات میں سے صرف پچاس عنوانات ایسے ہیں جو اختلافی مسائل سے متعلق ہیں۔ اسی طرح حضرت کے چالیس سے زائد خطبات جمعہ کو جامعہ قاسمیہ گوجرانوالہ کے زیراہتمام ’’خطبات امام اہل سنت‘‘ کے عنوان سے تین جلدوں میں شائع کیا گیا ہے۔ ان تین جلدوں کے مجموعی صفحات ۸۳۹ ہیں اور ان میں کوئی خطبہ بھی باقاعدہ کسی اختلافی عنوان پر نہیں دیا گیا، جبکہ ۴۶۸ ذیلی عنوانات میں سے صرف دس عنوانات اختلافی مسائل کے دائرے میں آتے ہیں۔
چنانچہ حضرت کے طرز عمل کی اتباع کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بھی عوام الناس کی حقیقی دینی ضروریات کو سمجھیں اور اپنے دروس اور خطبات میں انھی کو موضوع بنائیں۔ اگر ہم ارد گرد کے ماحول اور عوام کی ذہنی سطح کو نظر انداز کرتے ہوئے منبر ومحراب کو ہر موقع پر اپنے مخصوص مسلکی ذوق اور رجحان کی تسکین کا ذریعہ بنانا شروع کر دیں تو یہ حضرت کے طرز عمل کی اتباع نہیں، بلکہ اس کی مخالفت کہلائے گا۔ ہمیں ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے ہر اس بات سے پرہیز کرنا چاہیے جس سے عوام میں بلاضرورت انتشار، بے چینی اور بے اطمینانی پیدا ہو اور ایسا انداز اپنانا چاہیے جو عوام میں حقیقی دینداری کے فروغ اور ان کی رشد و ہدایت کا ذریعہ بنے۔