شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ ؒ کی طالب علمانہ مسافرت اور بے سروسامانی میں گزری زندگی کی ابتدائی گھڑیوں کو جب قرار ملا تو کئی بے قراریاں ان کی راہ تک رہی تھیں۔ دین کی ترویج و اشاعت کی بے قراری، علومِ نبوت کی وراثت باہمت و اہل ہاتھوں کو منتقل کرنے کی بے قراری، تحریفِ دین کے حریصوں کا سدِ باب کرنے کی بے چینی، جہالت و بے علمی سے پیدا ہونے والے شکوک و شبہات دور کرنے کا اضطراب و بے اطمینانی اور سب سے بڑھ کر نفاذِ اسلام کی جدوجہد میں اپنا سرگرم کردار ادا کرنے کی فکر۔ غرض کسی بھی راستے سے دین پر آنے والے حرف کو مٹانا ان کی زندگی کا واحد مقصد بن گیا تھا اور وہ اسی مقصد کے حصول میں زندگی کی ہر سانس ، ہر لمحہ اور ہر پل گزار گئے اور مستفیضین کو عملاً دکھا گئے کہ اس راہِ عاشقی میں اہلِ دل اس طرح اپنا تن من دھن نثار کرتے ہیں۔
نفس نفس کو رہِ عاشقی میں کرکے نثار
تم اہلِ دل کا سا جینا ہمیں سکھا کے چلے
حضرت نے دیوبند میں شیخ العرب و العجم مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ اور شیخ الادب مولانا اعزاز علی ؒ سے بخاری شریف پڑھ کر اپنے روایتی علمی سفر کا اختتام کیا، دارالعلوم دیوبند سے حدیثِ نبوی کی امانت وصول کی اور پھر اس امانت و وراثت کی آئندہ نسلوں کو منتقل کرنے کے لیے اس سرگرمی و تن دہی سے کام کیا کہ اکابر علماے دیوبند سے سند تعریف و توثیق حاصل کی۔ ان سُطور میں ہم اکابر و معاصر علما کے ہاں حضرت شیخ کے علمی مقام و مرتبہ پر ان کی کتابوں پر لکھی جانے والی تقریظات، خطوط اور دیگر چیدہ چیدہ واقعات کی روشنی میں کچھ معرو ضات پیش کرنے کی سعادت حاصل کریں گے۔ عربی کا مقولہ ہے: ’’المعاصرۃ أصل المنافرۃ‘‘ کہ ہم عصری آپس میں نفرت کی جڑ ہے، لیکن حضرت شیخ کے علمی کام اور اخلاص و للہیت کے سبب ان کے اکابرین و معاصرین نے جس طرح ان کے کام پر اعتماد کیا ہے اور جن زبردست الفاظ میں ان کی علمی کاوشوں کو سراہا اور خراجِ عقیدت پیش کیا ہے، وہ بہت کم لوگوں کے حصے میں آئے ہیں۔
اکابر علما کی تحریرات میں جن باتوں کو بطورِ خاص سراہا گیا ہے، وہ حسبِ ذیل ہیں:
۱۔ مسائل کی تحقیق اور مختلف پہلوؤں سے ان کا جائزہ لینے میں حضرت شیخ ؒ کی عرق ریزی، غایتِ جستجو اور ژرف نگاہی۔
۲۔جمہور امت اور اپنے اکابرین کے مزاج و مذاق کی مکمل پاسداری اور ان کے موقف سے زبردست موافقت۔
۳۔ مد مقابل کی مخاصمانہ روِش اور بدگوئی سے بھر پور لہجے کے جواب میں متین اور سنجیدہ اندازِ تحریر۔
۴۔ مخالفت کے باوجود فریقِ مخالف کی خیر خواہی اور بھلائی کی تمنا۔
۵۔ تحریر میں ادب کی چاشنی۔
۶۔ لغو اور بچگانہ اعتراضات سے اعراض اور قابلِ اعتنا اشکالات کا مسکت و مدلل جواب۔
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ:
۱۹۷۵ء میں قاری صاحب ؒ نے پاکستان کا سفر فرمایا اور حضرت شیخ ؒ کے ہاں گکھڑ میں بھی ایک شب قیام فرمایا۔ حضرت ؒ نے اپنی تالیف لطیف ’’احسن الکلام‘‘ پیش خدمت کی۔ حضرت قاری صاحب ؒ نے واپس دیوبند پہنچنے پر ایک خط کے ذریعے مہمان نوازی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ’’احسن الکلام‘‘ پر اپنے تاثرات کا اظہار بھی فرمایا اور لکھا کہ :
’’ احسن الکلام کا مطالعہ یاد اور شوقِ طبعی دامن گیر تھا۔ ماشاء اللہ مسئلہ فاتحہ میں ایک بحرِ ذخار پایا۔‘‘(احسن الکلام، ص ۱۰ )
حضرت حکیم الاسلام نے احسن الکلام پر تقریظ لکھنی تھی، مگر کتاب کے مطالعہ کے بعد تحریر اتنی طویل ہوئی کہ اس کو بطورِ مقدمہ کتاب میں شامل کرنے کی فرمایش کی۔ لکھتے ہیں:
’’میں نے حسب وعدہ تقریظ لکھنے کا ارادہ کیا۔ لکھنے بیٹھا تو غیر متوقع طریق پر تحریر طویل ہوگئی جو ’’احسن الکلام‘‘ سے متاثر ہونے کا نتیجہ تھا۔‘‘ (ایضاً)
مقدمہ کی ابتدائی سطور میں حضرت شیخ کے اندازِ تحریر سے متعلق اپنے تاثرات یوں بیان فرماتے ہیں:
’’محترم الفاضل مولانا محمد سرفراز خان صفدر دام بالمجد و الفواضل کی لطیف ترین تالیف ’’احسن الکلام فی ترک قراء ۃ الفاتحہ خلف الامام‘‘ سے استفادہ کا شرف میسر ہوا۔ مطالعہ کے وقت ہر اگلی سطر پر آنکھوں میں نو ر، دل میں سرور اور روح میں ثلجِ یقین بڑھتا جاتا تھا۔ اثباتِ مسئلہ کے سلسلہ میں مصنف نے سلاستِ بیان، زورِ استدلال، منصفانہ تنقید اور عادلانہ مدافعت سے مسئلہ کے تحقیقی اور الزامی دونوں پہلوؤں کو مضبوط دلائل اور موکد شواہد سے مسئلہ کے کسی پہلو کو تشنہ نہیں چھوڑا، اور ساتھ ہی مسئلہ کے دفاعی پہلو سے بھی صرف نظر نہیں کیا کیونکہ مثبت پہلو کے ساتھ جب تک اس کا منفی پہلو صاف نہ ہو، مسئلہ من کل الوجوہ مستحکم نہیں ہوتا۔ مصنف نے جہاں مثبت پہلو سے ماننے والوں کے لیے سینہ کی ٹھنڈک کا سامان بہم پہنچایا ہے، وہیں منفی پہلو کے دفاع سے نہ ماننے والوں اور ان طعنہ زنوں کا منہ بند کر کے ان پر حجت تام کر دی ہے‘‘ ۔ (احسن الکلام، ص ۱۱)
اس کے بعد قاری صاحب ؒ نے فروعی مسائل میں طعن و تشنیع کا رویہ اپنانے اور فریقِ مخالف پر گمراہی وباطل پرستی کا حکم لگانے والوں پر بڑی متین تنقید کی ہے اور ان کا شکریہ بھی ادا کیا ہے کہ اگر وہ یہ رویہ نہ اپناتے تو حضرت ؒ کے علوم سے استفادے کی سبیل بھی پیدا نہ ہوتی۔ گویا فریق مخالف پر ان کی یہ تنقید حضرت شیخ کے لیے تعریف بن گئی۔ فرماتے ہیں:
’’اگر وہ طعن وتشنیع کی راہ سے اس مسئلہ کو اپنے جذبات اور شکوک کی آماجگاہ نہ بناتے اور فریق کی حیثیت سے سامنے نہ آتے تو مصنف محترم مولانا سرفراز خان صاحب کے ان دقیق علوم اور اسالیب بیان سے ہم مستفید بھی نہ ہوسکتے جو اس حیلے سے انہوں نے اپنی کتاب احسن الکلام میں رقم فرمائے ہیں‘‘۔ (احسن الکلام ص ۱۶ )
’’ احسن الکلام‘‘ کو موافق و مخالف دونوں کے لیے مفید قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ان دلائل سے دو میں سے ایک مفید کام ضرور ہوگا۔ فریق مخالف کی شدت ختم ہو جائے گی یا پھر کتاب کے کسی کمزور مقدمہ پر تنقید کی وجہ سے ہمارے لیے علم کا ایک اور در وا ہو جائے گا۔ لکھتے ہیں :
’’ہم مصنف ’’احسن الکلام‘ ‘ کے ممنون ہیں کہ انہوں نے اس حیلہ سے مسئلہ فاتحہ کے تحقیقی اور دفاعی دونوں پہلوؤں کو بہت حد تک صاف کر دیا ہے جو موافق و مخالف دونوں طبقوں کے لیے علمی حیثیت سے کا ر آمد ہوں گے۔ اگر خلاف رائے رکھنے والے حضرات کے لیے ان دلائل سے شفا ہو گئی تو ان کے خلاف میں شدت باقی نہ رہے گی، خواہ وہ اپنے ہی مسلک پر عمل پیرا رہیں۔ سو یہ کون سا کم نفع ہے! اور اگر ان دلائل کے کسی مقدمہ کو کمزور پا کر انہوں نے جواب کے طور پر اسے واضح کیا تو ہم سب کے لیے ایک مزید علم کا اضافہ ہوگا اور یہ کون سا قلیل نفع ہے جو زدنی علما کا مصداق ہو‘‘۔ (احسن الکلام، ص ۱۷)
حضرت شیخ کی کتاب ’’تبرید النواظر‘‘ کی وصولی پر خط لکھ کر ان الفاظ میں اپنی عقیدت کا اظہار فرمایا :
’’جناب کی تالیفات بحمداللہ محققانہ ہوتی ہیں، نہ ہم جیسوں کی تقریظ کی محتاج ہیں اور ترمیم کی تو کیا ہوتیں؟ یہ تو جناب کا علوِ ظرف ہے کہ اس کمال پر بھی ہم جیسوں کی حوصلہ افزائی فرماتے رہتے ہیں‘‘۔ (تبرید النواظر ص ۹)
حضرت شیخ کی کتاب ’’المنہاج الواضح‘‘ یعنی ’’راہِ سنت‘‘ پر اپنی تقریظ میں قاری صاحب ؒ نے ان کو زبردست الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا۔ بدعات و رسومات کے حاملین کا ذوق بیان کرتے ہوئے جد ل و خصومت کو ان کا خاصہ قرار دیا اور سنت و علم کے حاملین کو متانت، سنجیدگی، راست گوئی اور حلم و اناء ۃ سے متصف کیا اور اس معیار پر اکابرین دیوبند کے مزاج و مذاق کی تشریح کرتے ہوئے حضرت شیخ کی تصنیف و اندازِ تالیف کو پرکھا۔ لکھتے ہیں:
’’ حضرت مولانا نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند قدس سرہ (المتوفی ۱۲۹۷ھ) نے اسی سنت و بدعت کے فرق کو عقائد اور کلیات دین میں نمایا ں کیا۔ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہ (المتوفی ۱۳۲۳ھ) نے اسی فرق کو فقہی جزئیات میں کھولا۔ حضرت تھانوی قدس سرہ (المتوفی ۱۳۶۲ھ) نے اسی فرق کو معاشرت ومعاملات میں نمایاں کیا۔ ابنِ شیر خدا حضرت مولانا مرتضیٰ حسن صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ (المتوفی ۱۳۷۱ھ) نے اسی فرق کو مروجہ رسوم میں واضح کیا اور آج انہیں اسلاف صالحین کے ایک خلف رشید مولانا سرفراز خان صاحب صفدر نے اسی فرق کو اس دور کے ان تمام مخترعات و محدثات میں مثبت و منفی پہلو سے محققانہ دلائل کی روشنی میں نہایتِ واضح اور پاکیزہ انداز میں واشگاف کیا ہے جس کی شاہد عدل ان کی حالیہ تصنیف ’’راہِ سنت‘‘ ہے۔‘‘ (راہ سنت)
مزید لکھتے ہیں:
’’مصنف کی اور دوسری لطیف تصانیف بھی جہاں تک نظر سے گزریں، محققانہ، منصفانہ اور متین اندازِ بیان کی حامل ہیں جو سنت و بدعت اور دین و غیر دین کی تفریق کے سلسلہ میں مجادلہ و جدال کی دعوت نہیں دیتیں بلکہ شرحِ صدر، قوت یقین اور عمل میں طمانیت و قناعت کی طرف لے آتی ہیں۔ یہ اسم بامسمیٰ کتاب ’’راہِ سنت‘‘ بھی حقیقتاً راہِ سنت کی داعی ہے جس سے جدل کا ذوق پیدا نہیں ہوتا کہ جدل بدعت و گمراہی کا خاصہ ہے، نہ کہ سنت اور ہدایت کا۔‘‘ (ایضاً)
اس کے بعد قاری صاحب ؒ نے ترمذی شریف کی حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کی وضاحت یوں کی کہ
’’اہلِ بدعت و اہلِ سنت کے رویے اور طرز کلام میں نمایاں فرق یہ ہے کہ اہل بدعت کا خاصہ بدگوئی، درشت کلامی، تفریق بین المسلمین، گالم گلوچ، قتل و غارت گری اور اشتعال انگیزی کے دبے ہوئے پنہانی غیظ و غضب کے ساتھ ہر وقت آمادۂ فساد رہنا،گویا ان کی حجت و برہان ہی زبان کی گالی اور ہاتھوں کی دراز دستی ہے جبکہ اہل سنت کی زبانیں متین، کلام مہذب، لب و لہجہ صادق اور انداز حلم واناء ۃ کا ہے۔ کسی بھی موقع پر ’’ نہ تصنیف میں نہ تقریرمیں‘‘ وہ جذباتی رنگ میں اشتعال انگیزی کرکے تفریقیں ڈلواتے نہیں پھرتے بلکہ کتاب و سنت کے حجت و برہان کی روشنی میں اللہ و رسول کے مدعا کو نقل کرکے دلائل سے پردہ اٹھا دیتے ہیں۔ ‘‘
اس تبصرہ کے بعد ’’ راہِ سنت ‘‘ کے متعلق فرماتے ہیں :
’’رسالہ زیرِ نظر ’’راہ سنت‘‘ کا اندازِ بیان و لب و لہجہ اور طریقِ استدلال بھی انہی محققانہ اوصاف کا حامل ہے ، کیونکہ وہ سنتوں کی دعوت دے رہا ہے جن کے لیے علم و تہذیب کفایت کرتے ہیں، نہ بدعات و خرافات کی جن کے لیے جہالت و جاہلانہ انداز ناگزیر ہے‘‘۔ (ایضاً)
حضرت شیخ ؒ کی کتاب ’’تسکین الصدور‘‘ پر ان الفاظ میں اپنے تاثرات کا اظہار فرمایا :
’’رسالہ نافعہ ’’تسکین الصدور‘‘ مولفہ حضرت مولانا سرفراز خان صفدر ؒ سے استفادہ نصیب ہوا۔ رسالہ کی وقعت و عظمت کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ مولانا سرفراز خان صاحب کی تالیف ہے جو اپنی محققانہ اور معتدلانہ طرز تصنیف میں معروف ہیں۔‘‘ (تسکین الصدور ص ۲۰)
کتاب ’’تسکین الصدور‘‘ اور مسلک اہل سنت میں مطابقت کی اس طرح تعریف فرمائی :
’’تسکین الصدور‘‘ حقیقت یہ ہے کہ اس موضوع کے مسائل میں تسکین الصدور ہی ہے جس سے روحی و قلبی تسکین ہوجاتی ہے۔ جن جن مسائل پر کلام کیا گیا ہے، وہ اپنی جگہ نہ صرف یہ کہ اہل سنت والجماعت کے مسلک اور مذہب منصور کے مطابق ہے بلکہ فی نفسہٖ اپنے تحقیقی رنگ کی وجہ سے پوری جامعیت کے ساتھ منضبط ہوگئے ہیں اور ان سے دلوں میں سرور اور آنکھوں میں نور پیدا ہوتا ہے۔‘‘ (ایضاً)
حضرت مولانا مفتی محمد مہدی حسنؒ:
حضرت امام اہل سنت کی کتاب ’’احسن الکلام‘‘ حضرت مولانا مفتی مہدی حسن صاحب کے پاس پہنچی تو انہوں نے جزو اول مکمل اور جزو ثانی کو مختلف مقامات سے ملاحظہ فرمانے کے بعد اپنی تقریظ میں کتاب پر بڑے عمدہ الفاظ میں تبصرہ فرمایا۔ حضرت شیخ صاحبؒ کے متعلق اپنی رائے سے پہلے انہوں نے موجودہ دور کے فتنوں میں امت کے مختلف گروہوں کے درمیان اتحاد ویگانگت کی ضرروت پر زرو دیا اور مسائل میں شدت پسندی کی وجہ سے عوام میں بے چینی واضطرب پھیلاکر تشتت وافتراق میں سعی کرنے والوں کی پُر زرو مذمت کی، ایسا اسلوب اختیار کرنے کی تلقین فرمائی جس سے شدت میں کمی آئے اور ہر مسئلہ کو اس کے مقا م پر رکھنے کا سلیقہ وطریقہ رواج پکڑے۔ حضرت مفتی صاحب ؒ کی تقریظ سے شیخ العرب والعجم مولانا سیدحسین احمدمدنی ؒ نے مندرجہ ذیل الفاظ میں مکمل اتفاق کا اظہار فرمایا:
’’ حضرت مفتی سید مہدی حسن صاحب کی تحریر سے میں حرف بحرف موافقت کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مولانا محمد سرفراز خان صفدر صاحب ؒ موصوف کو جز اے خیر عطا فرمائے۔ (آمین)‘‘ (احسن الکلام ص ۲۰)
یہ اس شخصیت کے الفاظ ہیں جس سے اپنا تعلق حضرت شیخ ؒ تمام عمر بڑے فخر سے بیا ن فرماتے رہے اور جن کے ساتھ نسبت کو اپنے لیے باعث نجات سمجھتے رہے۔ حضرت مفتی مہدی حسن صاحب ؒ کے الفاظ یہ ہیں :
’’میں نے احسن الکلام کے جزواول سے آخر تک لفظ بہ لفظ اور جزوثانی کا مختلف مقامات سے مطالعہ کیا ہے۔ خوبی اسلوب واندازِ بیان، زبان کی صفائی کے ساتھ دلائل و براہین پر منصفانہ نظر ڈالی ہے۔ فاضل موصوف نے کسی پہلو کو تشنہ نہیں چھوڑا، معترضین کے شبہات کا جواب عالمانہ دیا ہے اور تحقیق کے ساتھ مجادلانہ طریق اختیا ر نہیں کیا کہ کتا ب کی افادیت میں کمی واقع ہو۔ اپنے ہر دعویٰ کو برہین سے مدلل کیا ہے کہ مخالفین حضرات کو بھی، اگر ان کے یہاں علم وانصاف کی قدر وقیمت ہے تو تسلیم کرلینے اور سکوت اختیا ر کرنے کے سوا چارہ کار نہیں ہے۔ اس محنت وعرق ریزی اور تحقیق وتنقید کی جملہ احناف کی طرف سے فاضل موصوف کو اللہ تعالیٰ جزاے خیر عطافرمائے اور بے انصاف مخالفین کی ہدایت کا ذریعہ بنائے۔ ان کے علم وعمل میں برکت عطا فرمائے اور مخلوق کے طریق رشدوہدایت کا رہبر بنائے۔‘‘ (احسن الکلام ص ۱۹)
حضرت شیخ کی کتاب ’’تسکین الصدور‘‘ جب حضرت مفتی صاحب کے پاس پہنچی تو آپ کی عمر اس وقت ۸۸ سال تھی اور کمزوری وضعف کے سبب صاحب فراش تھے۔ نشست و برخاست تک میں دشواری محسوس کرتے تھے۔ اس کے باوجود کتاب کا مطالعہ فرمایا اور ان الفاظ میں کتاب پر اظہارِاعتماد کیا :
’’ جناب والا نے کتاب کے کسی مبحث کو تشنہ نہیں چھوڑا۔ مسائل کو دلائل صحیحہ اور نقولِ معتبرہ سے باحسن وجوہ ثابت کر دیا ہے اور اہل سنت و الجماعت کے عقیدہ کو بطریقِ صحیح ثابت کرنے میں کسی قسم کا فتور واقع نہ ہوا۔‘‘ (تسکین الصدور ص ۱۹)
اس کے بعد فرماتے ہیں :
’’عوام و خاص کے لیے بہت مفید ہے۔ پڑھنے کے بعد مجھ جیسے نااہل کے صدر کو تسکین اور دل میں سرور اور آنکھوں میں نور پیدا کر دیا۔‘‘ (ایضاً)
حضرت شیخ کی کتاب ’’ راہِ سنت‘‘ کے متعلق رقمطراز ہیں :
’’بدعات کے سلسلہ کی اپنے رنگ کی یہ پہلی کتاب ہے جس میں بدعات کا رد نئے اسلوب سے کیا گیا ہے اور اتباعِ سنت کو بطریقِ احسن ثابت کیا گیا ہے۔ .... ’’ زبان شستہ و صاف، لہجہ دل آویز، جدال و رنگِ مناظرہ سے دور اور مضامین کی جامع‘‘ (راہ سنت)
حضرت مولانا شمس الحق افغانیؒ:
حضرت مولانا شمس الحق افغانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت شیخ کی کتاب ’’راہِ سنت‘‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے بدعات کے رد میں انتظامی و تعلیمی امور، صوفیا کے اشغال و مصروفیات اور جدید مباح معاملات اور نئی پیدا ہونے والی خواہشات اور مردوں سے متعلقہ امور کے درمیان فرق کو نہایت مشکل قرار دیا اور اسے ایک علمی اور دقیق مبحث بتایا، لیکن حضرت شیخ کے متعلق فرماتے ہیں:
’’میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مصنف موصوف نے اس اہم مورچہ کو بہت بڑی حد تک سر کردیا ہے اور اس عظیم مبحث کو نہایت خوبی اور خوش اسلوبی کے ساتھ حل کر دیا ہے۔‘‘ (ایضاً)
دیگر کتب اور اس کتاب کے بطور خاص نافع ہونے کے متعلق فرمایا:
’’میرے خیال میں مصنف دام فضلہ کی تمام تصانیف اگرچہ بجاے خود بہت مفید ہیں، لیکن یہ کتاب دیگر تصانیف کی نسبت عوام و خواص دونوں کے لیے بے حد نافع ہے۔ احقر اپنے حلقہ کے علماے کرام و طلبہ کو مشورہ دیتا ہے کہ اس کتاب کی طرف توجہ فرمائیں‘‘۔ (ایضاً)
’’احسن الکلام‘‘ کے متعلق اپنے تاثرات میں مسئلہ مبحوث فیہا میں وسعتِ مطالعہ کی بنیاد پر یہ بات تحریر فرمائی:
’’ اس مسئلہ پر قبل ازیں نفیاً و اثباتاً کافی رسائل و اجزا لکھے گئے ہیں، لیکن ان سب میں زیر تبصرہ کتاب کی شان نرالی ہے۔ مصنف علام کو حفاظتِ اصول و فروع دین وردِ غلو غالین و تحریفات مبتدعین میں ایک ممتاز ملکہ حاصل ہے۔ ..... یہ کتاب بلحاظِ مواد، سلاستِ بیان و ضبط دلائل و ردِ اشکالاتِ مخالفین اور جامعیتِ جمیع ابحاثِ متعلقہ بالموضوع کے لحاظ سے اپنی شان میں بے نظیر ہے۔‘‘ (احسن الکلام ص ۳۲، ۳۳)
’’ تسکین الصدور ‘‘ پر اپنے ایک خط میں ان الفاظ میں اظہار اعتماد فرمایا:
’’آپ کی کتاب کا لب لباب اہل سنت و الجماعت کے مسلک کے مطابق ہے اور منہج سلفِ صالحین کا آئینہ دار ہے۔‘‘ (تسکین الصدور ص ۲۲)
’’تبرید النواظر ‘‘ کے متعلق راے گرامی یہ ہے:
’’ میری بے لاگ رائے یہ ہے کہ یہ کتاب اپنے موضوع میں بے مثال ہے ۔ .... اس موضوع پر ایسی عمدہ، جامع و پُر از معلومات کتاب اب تک میری نظر سے نہیں گزری۔‘‘ (تبرید النواظر ص ۸، ۹ )
حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒ:
:حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی ؒ نے حضرت شیخ کی چند کتابوں کا مطالعہ فرمایا اور شیخ ؒ کی متانت و سنجیدگی سے بھرپور اندازِ تحریر و تحقیق کے متعلق فرمایا:
’’ماشاء اللہ آپ حضرات علم اور مذہب کی خدمت کا فرض نہایت خوش اسلوبی سے انجام دے رہے ہیں۔ سبھی رسالے قابلِ قدر ہیں، مگر مقامِ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے۔.... بڑی بات یہ ہے کہ اس سخت مرحلہ پر بھی سنجیدگی و متانت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹا ہے۔‘‘ (مقامِ ابی حنیفہؒ ص ۲۰)
حضرت مولانا مفتی فخرالدین احمد ؒ:
حضرت مولانا مفتی فخرالدین احمدؒ نے حضرت شیخ کی کتاب ’’تسکین الصدور‘‘ وصول ہونے پر دو مرتبہ مطالعہ کیا اور حسب ذیل رائے کا اظہار کیا :
’’کتاب اپنے موضوع کے لحاظ سے بے مثل ہے اور واقعی اسم بامسمیٰ ’’ تسکین الصدور ‘‘ ہی ہے۔ یہ مسئلہ نہایت واضح طریق پر دلائل سے آراستہ پیراستہ اور مخالفین کے دلائل کا صحیح رد، جس سے دیکھنے والے کو حق معلوم کرنے میں زبردست امداد حاصل ہو سکے اور بشرطِ انصاف انکار کی گنجایش باقی نہ رہے۔پھر اس کے ساتھ مسلک کی پوری رعایت، یہ جملہ امور ایسے ہیں کہ بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ دل سے دعا نکلتی ہے کہ خدایا! اس کتاب کو اہل حق کے لیے مقبول بنا اور اس کے جامع کو دنیوی عزت کے ساتھ آخرت میں خادمانِ دین متین میں محشور فرما۔‘‘ (تسکین الصدور، ص ۱۸)
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع ؒ:
صاحبِ تفسیر معارف القرآن حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ تعالیٰ سے حضرت شیخ ؒ نے کچھ اسباق پڑھے تھے۔ حضرت شیخ نے اپنی کچھ کتابیں ان کی خدمت میں بھیجتے ہوئے اس رشتہ تلمذ کا تذکرہ کیا تو حضرت مفتی صاحب ؒ نے ان الفاظ میں اپنے جذبات کا اظہار کیا :
’’آپ نے رشتہ تلمذ کا ذکر کیا۔ ماشاء اللہ آپ کے علمی کمالات کے سامنے اس کا تصور بھی مجھے نہیں ہو سکتا‘‘۔ (تسکین الصدور ص ۳۲)
اس کے بعد حضرت شیخ کی کتابوں پر درج ذیل تبصرہ فرمایا:
’’کچھ کتب کو اجمالاً دیکھا اور ’’ تنقید متین‘‘ اور ’’تسکین الصدور‘‘ کو کسی قدر تفصیلاً دیکھنے کی نوبت آئی۔ جوں جوں دیکھتا جاتا تھا، دل سے دعائیں نکلتی جاتی تھیں کہ ماشاء اللہ تحقیق کا حق بھی پورا ادا کر دیا اور دوسروں پر تنقید کا طرز بھی بہت اچھا اور متین ہے۔ آج کل کے انشا پردازوں یا واعظوں کی زبان اختیار نہیں کی جس میں الزام تراشی اور فقرے کسنے کا جذبہ اصلاح کے جذبے کو دبا دیتا اور بے اثر بنا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے علم، حسنِ عمل اور اخلاص میں ترقیاتِ لا متناہی عطا فرمائیں۔‘‘ (ایضاً)
حضرت مفتی صاحب ؒ نے مسائل جدیدہ کی تحقیق اور ان پر متفقہ رائے کے اظہار کے لیے علما کی ایک مجلس بنائی جس میں کراچی کی سطح کے سرکردہ علما شریک تھے۔ اُنھوں نے حضرت شیخ ؒ کی کتابیں دیکھنے کے بعد اس بات کی خواہش ظاہر فرمائی کہ وہ بھی اس مجلس میں شریک ہوں اور اپنے ذوقِ تحقیق اور وسعتِ نظر سے عوام و خواص کو مستفید فرمائیں۔ لکھتے ہیں:
’’ماشاء اللہ آپ کی وسعتِ نظر اور ذوقِ تحقیق کے پیشِ نظر دل تو یہ چاہتا ہے کہ اس مجلس میں بھی آپ کی شرکت ہوتی تو بہتر تھا مگر بُعدِ بعید کی وجہ سے یہ نہ ہو سکا‘‘۔ (ایضاً)
حضرت شیخ کی کتاب ’’مقام ابی حنیفہ‘‘ جب حضرت مفتی صاحب ؒ کی نظر سے گزری تو انہوں نے اپنے خط میں فرمایا کہ وہ خود عرصہ دراز سے امام عالی مقام پر کوئی تحقیقی تصنیف کے خواہاں تھے اور کچھ علمی مواد بھی جمع کیا تھا، لیکن شیخ ؒ کی کتاب دیکھ کر یہ فیصلہ کیا کہ اس کا تفصیلی مطالعہ کریں گے اور کافی و شافی پانے پر اپنے قلب و دماغ کو اس ارادہ سے فارغ کر لیں گے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے جامعہ کے استاد مولانا سلیم اللہ خان مدظلہ العالی ( حال مہتمم و شیخ الحدیث جامعہ فاروقیہ کراچی) کو مطالعہ پر مامور کیا۔ ان کی انتہائی اطمینان بخش رائے معلوم ہونے اور خود بھی چیدہ چیدہ مقامات کو بغور دیکھنے کے بعد لکھا:
’’آج انہوں نے ( مولانا سلیم اللہ خان مدظلہ العالی) پورے مطالعہ کے بعد جس اطمینان کا اظہار کیا، اس سے بے حد مسرت ہوئی۔ اب خود بھی کتاب کو مختلف مقامات سے پڑھا۔ بار بار دل سے دعا نکلی، بحمداللہ میری آرزو پوری ہوگئی۔ بلامبالغہ عرض کرتا ہوں کہ میں خود لکھتا تو ایسی جامع کتاب نہ لکھ سکتا۔ اس موضوع پر یہ کتاب بالکل کافی و شافی ہے۔‘‘ (مقامِ ابی حنیفہ ، ص ۲۱)
حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب مدظلہ العالی نے کتاب دیکھنے کے بعد اپنی رائے کا بھی تحریراً اظہار فرمایا جس میں حضرت شیخ کی علمی پختگی، وسعتِ مطالعہ اور اعتراضات کے شافی جوابات کی تعریف کے بعد فرمایا:
’’ان کا یہ علمی شاہکار قابلِ صد آفریں ہے۔‘‘ (ایضاً)
حضرت مولانا خیر محمد جالندھریؒ:
حضرت مولانا خیر محمد جالندھری ’’تسکین الصدور‘‘ پر اپنی تقریظ میں کتاب کے علمی مرتبہ و ثقاہت کے متعلق یوں رقم طراز ہیں:
’’اتباعِ سلف صالحین میں ہر مسئلہ میں مذہبِ جمہور کو قرآن و حدیث شریف، صحیح و حسن، و فقہ حنفی کے ذخیرہ کی روشنی میں مسائل کو ادلہ کثیرہ سے ایسا مبرہن کیا ہے کہ اس سے زائد کی گنجایش نہیں۔ ہر مسئلہ سے دلائل صحیحہ کا اس قدر انبار لگا دیا ہے کہ ہر منصف اس پر اعتبار و اعتماد کرتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہے: ایں کا راز تو آید و مردان چنین کنند۔‘‘
حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ:
حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری ؒ نے حضرت شیخ کی کتاب ’’مقام ابی حنیفہ‘‘ پر اپنی تقریظ میں موجودہ دور کے داخلی و خارجی فتنوں کا ذکر کیا اور ان حالات میں بعض نا عاقبت اندیش افراد کے اس رویہ کی زبردست مذمت کی ہے جو متفقہ مسائل و شخصیات کو متنازع بنانے کی سعی میں مصروف ہیں اور غیر واقعی افسانوں کو علمی تحقیقات کا رنگ دے کر اس کی اشاعت کر رہے ہیں۔ اس کے بعد حضرت شیخ کے متعلق فرمایا :
’’ جناب محترم مولانا محمد سرفراز صاحب بارک اللہ فی حیاتہ ٖ ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں کہ موصوف نے ان خرافات کا عالمانہ و محققانہ جواب دیا اور ’’مقام حضرت امام ابو حنیفہ‘‘ تالیف فرماکر امت محمد یہ کی طرف سے فرض کفایہ کا حق نہایت خوش اسلوبی سے ادا کیا۔ مولانا کا اسم گرامی تو عرصے سے کانوں میں پڑتا رہا، لیکن ان کو سمجھنے کا موقع اس کتاب سے ملا۔ ..... تقریباً اکثر ابحاث پر استیفا کے ساتھ سیر حاصل تبصرہ، بصیرت افروز محققانہ انداز سے ہوگیا اور معترضین و ناقدین کے شکوک و شبہات و وساوس و اوہام کا نہایت خوش اسلوبی سے استیصال کیا گیا۔ اندازِ تحریر عالمانہ، اردو شگفتہ ہے، اسلوبِ بیان مؤثر ہے، کہیں کہیں ادیبانہ ہے۔‘‘ (مقامِ ابی حنیفہ ص ۲۴)
علامہ بنوری ؒ نے ’’تسکین الصدور‘‘ پر تقریظ میں مسئلہ حیاتِ انبیا پر پیدا ہونے والے خلفشار کا ذکر کیا اور اس خلفشار کو ختم کرنے کے لیے ارباب فکر و اخلاص کی طرف سے اس تجویز کا ذکر کیا کہ اس مسئلہ پر ایک محققانہ کتاب موثر انداز میں لکھی جائے جس سے مسئلے کے تمام گوشوں پر سیر حاصل تبصرہ کیا جائے۔ اس اہم و نازک کام کے لیے تمام احباب کی نظر انتخاب حضرت شیخ پر ٹھہری اور یہ کام ان کو سونپ دیا گیا۔ علامہ بنوریؒ اس ضمن میں فرماتے ہیں:
’’باتفاقِ رائے اس کا م کی انجام دہی کے لیے جناب برادر گرامی ؟؟ مآثر مولانا ابو الزاہد محمد سرفراز خان صاحب منتخب ہوگئے جن کے دماغ میں بحث و تمحیص کی صلاحیت بھی ہے، قلم میں پختگی بھی، علومِ دینیہ اور حدیث و رِجال سے اچھی قابل قدر مناسبت بلکہ عمدہ بصیرت بھی ہے۔ مختلف مکان سے غرر نقول جمع کرنے کی پوری قدرت بھی ہے اور حسنِ ترتیب کی پوری اہلیت بھی۔ الحمدللہ برادر موصوف نے توقع سے زیادہ مواد جمع کر کے تمام گوشوں کو خوب واضح کردیا اور تحقیق کا حق ادا کر دیا ہے۔ میرے ناقص خیال میں اب یہ تالیف اس مسئلہ میں جامع ترین تصنیف ہے اور اس دور میں جتنی تصانیف اس مسئلہ پر لکھی گئی ہیں، ان سب میں جامع و واضح و عالمانہ بلکہ محققانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ موصوف کی اس خدمت کو خلعتِ قبول سے نوازے اور مزید اس قسم کی خدمات کی توفیق عطا فرمائے‘‘۔ (تسکین الصدور ص ۲۴)
حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒ:
حضرت مولانا مفتی رشید احمد ؒ نے ’’احسن الکلام‘‘ پر اپنی مسرت کا یوں اظہار فرمایا :
’’احسن الکلام کی تحقیق عمیق اور جامعیت دیکھ کر بہت مسرت ہوئی۔ اللہ تعالیٰ اس محنت کو قبول فرمائیں۔‘‘ (احسن الکلام ص ۳۴)
حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستی ؒ:
’’احسن الکلام ‘‘پر اپنی تقریظ میں حضرت مولانا عبداللہ درخواستی فرماتے ہیں:
’’فقد رأیت احسن الکلام من تألیف المولوی محمد سرفراز خان صفدر فرأیتہ موشحاً بدلائل وخالیا عن الجدل، فجز ی اللہ تعالیٰ المؤلف احسن الجزاء وارجوا من اللہ ان ینتفع بہ العوام والخواص وان یترک اھل الجدل الجدل‘‘ (احسن الکلام ص ۲۶)
حضرت مولانا عبدالحق ؒ:
حضرت مولانا عبدالحق (مہتمم دار العلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک) ’احسن الکلام‘‘کے بارے میں اپنے گرامی نامہ میں لکھتے ہیں:
’’ بزرگوارم! ایسی جامع اور مسئلہ کے ہر پہلو پر حاوی کتاب پر تقریظی جملے لکھنا میرے خیال میں سورج کے سامنے چراغ دکھانا ہے‘‘۔ (احسن الکلام ص ۲۹)
حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی :
حضرت شیخ ؒ نے اپنی کتابیں بطورِ ہدیہ حضرت مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کو بھیجیں۔ حضرت مفتی صاحب نے اپنے جوابی خط میں کچھ اس طرح اپنی عقیدت کا اظہار فرمایا :
’’آنجناب نے جس شفقتِ کریمانہ سے اس ناچیز کو اس ہدیہ سامیہ سے سرفراز فرمایا، اس پر حقِ شکر ادا نہیں کر سکتا۔ اسے بغرض استفادہ اپنے سامنے کی الماری میں رکھ لیا تھا۔ .....’’آنجناب کی ہر تالیف ہم جیسے طالب علموں کے لیے علمی مواد کا گراں قدر ذخیرہ ہوتی ہے، اس لیے احقر نے بڑے اہتمام سے آنجناب کی تقریباً تمام تالیفات جمع کی ہوئی ہیں اور وقتاً فوقتاً درس وغیرہ میں ان سے استفادہ کرتا رہتا ہوں۔ الحمدللہ یہ کتاب بھی حسبِ سابق ہم جیسے طالب علموں کے لیے نعمتِ بیش بہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرما کر اس کا نفع عام اور تام فرمائیں۔‘‘ (الکلام المفید فی اثبات التقلید)
کتاب اور صاحبِ کتاب کے بارے میں حضرت مفتی صاحب مدظلہ العالی نے اپنے تاثرات ماہنامہ ’’البلاغ‘‘ میں تحریر فرمائے۔ فرماتے ہیں:
’’حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہم العالی اپنے علم و فضل اور تحقیقی ذوق کے لحاظ سے ہمارے ملک کی قیمتی متاع ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو تادیر بایں فیوض سلامت رکھیں۔ انہوں نے اپنے قلم سے دین کی جو خدمات انجام دی ہیں اور مسلکِ حق کے اثبات اور عہدِ حاضر کے مختلف مکاتیبِ فکر پر جو عالمانہ تنقیدیں فرمائی ہیں، وہ ہمارے علمی اور دینی لٹریچر کا بہت بڑا سرمایہ ہیں۔‘‘ (الکلام المفیدفی اثبات التقلید)
حضرت شیخ ؒ کے اسلوب کے متعلق لکھتے ہیں:
’’مولانا کا اسلوب یہ ہے کہ وہ جو بات کہتے ہیں، اس کی پُشت پر مستند حوالوں کا ایک بڑا ذخیر ہ ہوتا ہے اور ان کی کتاب کا ہر صفحہ ان حوالوں سے سجا ہوا ہوتا ہے۔ یہی اسلوب اس کتاب میں بھی پوری قوت کے ساتھ جلوہ گر ہے۔‘‘ (ایضاً)
۲۸؍ مئی ۲۰۰۹ کو مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں حضرات شیخین کی یاد میں منعقد ہونے والے ایک تعزیتی سیمینار سے خطاب میں مولانا تقی عثمانی نے ’’احسن الکلام‘‘ کے حوالے سے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:
’’ایک دن میں نے کتابیں الٹتے پلٹتے دیکھا تو ایک کے اوپر نام جو پہلی بار میں نے دیکھا اور پڑھا، اس میں ابو الزاہد محمد سرفراز خان صفدر لکھا ہوا تھا اور وہ کتاب قراءۃ الفاتحہ خلف الامام کے موضوع پر تھی ا ور دو جلدوں میں تھی۔ تو میں اس قدر حیران ہوا کہ قراء ۃ الفاتحہ خلف الامام ایک مسئلہ ہے اور اس مسئلہ پر دو جلدوں میں احسن الکلام فی ترک القراءۃ خلف الامام! تو حیرانی مجھے اس درجہ ہوئی کہ یہ مسئلہ ایک جزوی مسئلہ ہے، اس کے اوپر دو جلدوں میں کتاب! اور جب اس کو الٹنا پلٹنا شروع کیا تو سطر سطر حوالوں سے بھری ہوئی۔ ہر سطر میں حوالے ان کتابوں کے جن کا کبھی اس وقت نام بھی نہیں سنا تھا۔ اور اس نے اپنی جانب کھینچا اور یہ نام مبارک بھی پہلی بار ہی سنا تھا۔ اس کو جب پڑھنا شروع کیا اور پڑھنے کے بعد اس کے نتیجے میں اندازہ ہوا کہ قراء ۃ فاتحہ خلف الامام تو ایک عنوان ہے، علوم کے دریا بہانے کا ایک عنوان تھا۔ چھوٹا سا مسئلہ لیکن اس مسئلہ کی تحقیق اور تنقید میں کتنے اصولی مسائل، کتنے اصولی افادات اس کے اندر موجود تھے۔ تو اس روز پہلی بار میں نے یہ نام مبارک دیکھا اور سنا۔ پھر میں نے اپنے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ تعالیٰ سرہ سے پوچھا کہ یہ کون بزرگ ہیں تو حضرت والد صاحب نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو خاص توفیق عطا فرمائی ہے۔‘‘
اس مختصر تذکرہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت شیخ ؒ ان نابغہ روزگار اور عبقری شخصیات کے پر عزم و پر نور قافلے کا ہی ایک فرد تھے جنہوں نے ہر زمانے میں وقت کے گیسو سنوارنے، دینِ متین کو ہر قسم کی ملاوٹ سے خالص کرنے اور بھٹکتی انسانیت کو شاہراہِ ہدایت پر گامزن کرنے کے لیے انبیا کے جذبے اور اسپرٹ سے ہی کام کیا۔بلاشبہ اس قافلہ حق کا ہر فرد منتخب اور چنا ہوا تھا۔ اگر حضرت شیخ ؒ کے ابتدائی حالات اور ان کے سفرِ آخرت کا منظر سامنے رکھیں، جس میں لاکھوں نفوس عقیدت و احترام کے پھول نچھاور کرنے جمع ہوئے تھے، تو دل میں یہ یقین جاگزیں ہوتا ہے کہ یہ بھی بڑی سرکار کی طرف سے چناؤ ہی تھا۔