میرے جیسے ناکارہ کے بس کی بات نہیں کہ شیخین کریمین کی شخصیات پر قلم اٹھاؤں، لیکن استاذِ محترم مولانا زاہد الراشدی مدظلہ کے ارشاد پر چند الفاظ تحریر کرنے کی ہمت کر رہا ہوں اور یہ خواہش بھی ہے کہ حضرت شیخ ؒ کے مداحوں میں میرا نام بھی آجائے، چاہے سوت کی اٹی اور یوسف ؑ کی مثال ہی کیوں نہ ہو۔
شیخ بحیثیت طالب علم
آپ کی قابلیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتاہے کہ آپ کے استاد محترم شیخ العرب و العجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ نے آپ کو صفدر کا لقب مرحمت فرمایا۔ یہ استاد کے اپنے شاگرد رشید پر کمال اعتماد کا اظہار ہے۔ پھر جب حضرت مدنی ؒ گرفتار ہوئے تو دارالعلوم دیوبند کے تمام طلبہ کرام کے متفقہ صدر حضرت شیخ ہی تھے، اور یہ سب لوگ ہی جانتے ہیں کہ طلبہ کرام اور خاص طور پر دینی مدارس کے طلبہ ہر کسی کو اپنا سربراہ منتخب نہیں کرلیتے، جب تک اس میں تمام اوصافِ حسنہ کے ساتھ ساتھ علمی لیاقت و قابلیت اور اساتذہ کا اعتماد نہ ہو۔
شیخ بحیثیت استاد و مدرس
آ پ ؒ کی تدریس کا شہرہ دنیا بھر میں تھا اور مشکل سے مشکل مسئلہ چٹکیوں میں حل فرما دیا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ انتہائی شفیق، مربی و مہربان بھی تھے۔ آپ کے اسباق کی یہ خوبی تھی کہ باطل مذاہب کے خلاف طلبہ کے اذہان کو دورانِ اسباق ہی تیار کر دیتے۔ ایک مرتبہ نارمل ہائی سکول گکھڑ میں درسِ قرآن کریم کے دوران ریاضی کے کسی پروفیسر صاحب نے سوال کیا کہ حضرت! آپ فرمارہے ہیں کہ کسی کافر کا کوئی عمل اور عبادت قبول نہیں ہوتی، جبکہ غیر مسلم قومیں بہت محنت کرتی ہیں اور مخلوقات کی خدمت کرتی ہیں۔ اگر وہ سب ضائع ہے تو یہ تو نا انصافی ہے۔ شیخ ؒ نے فرمایا کہ پروفیسر صاحب، آپ کیا پڑھاتے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ ریاضی پڑھاتا ہوں۔ شیخ نے فرمایا کہ پروفیسر صاحب، اگر کوئی طالب علم صفر صفر ڈالتا جائے تو کیا اس سے کوئی رقم بنے گی؟ اس نے کہا کہ حضرت جب تک اس کے بائیں طر ف کوئی ہندسہ نہیں لگے گا، رقم نہیں بنے گی۔ شیخ نے فرمایا، بس یونہی سمجھ لیں کہ جب تک ہندسہ ساتھ لگائے بغیر صفر، صفر ہی رہتا ہے، اسی طرح جب تک کلمہ توحید کا ہندسہ نہیں لگے گا، تمام اعمال زیرو ہی رہیں گے۔ اس پر سائل اور تمام شرکا بہت متاثر و مطمئن ہوئے۔ نارمل اسکول کے سینئر استاد اور ماہنامہ چناب کے ایڈیٹر جناب محمد رمضان راتھر نے ایک مرتبہ کہا کہ ہمارا علم جہاں ختم ہوتا ہے، حضرت کا علم وہاں سے شروع ہوتا ہے۔
ایک بار بندہ ناچیز اور بعض دوسرے حضرات، حضرت شیخ کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ مولانا محمد نوازبلوچ نے سوال کیا کہ استاد جی، جو طبقہ شہدا کے جسمِ مثالی کے ساتھ زندہ ہونے کا دعوے دار ہے، اس کو مختصر اور جامع جواب ہم کیا دیں؟ شیخ ؒ نے فرمایا، مولانا! خدا ان کو ہدایت دے۔ ان سے پوچھو کہ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں قتل کیا ہوتا ہے؟ جسم مثالی، روح یا جسد عنصری یا کچھ اور؟ قرآن کریم نے ہمیں صاف صاف بتادیا ہے کہ لمن یقتل، جو قتل کیے جائیں۔ جو چیز قتل ہوتی ہے، وہ زندہ ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے مردہ کہنے سے منع فرمایا ہے۔
شیخ بحیثیت مرشد کامل
جس طرح حضرت شیخ درس و تدریس، تحریر و تصنیف اور عبادت و ریاضت میں کامل تھے اور اسلاف کا نمونہ تھے، اسی طرح تصوف و سلوک کے بھی بے تاج بادشاہ تھے۔ شیخ میں وہ تمام خوبیاں موجود تھیں جو ایک متبع سنت اور کامل پیر میں ہوا کرتی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ بندہ مدرسہ ریحان المدارس میں زیرِ تعلیم تھا۔ چھوٹا بھائی مولانا محمد ادریس نقشبندی ؒ قلعہ دیدار سنگھ میں پڑھتا تھا اور شیخ کے بارے میں اور میرے اساتذہ کے بارے میں انتہائی گستاخانہ الفاظ استعمال کرتا تھا جس سے بندہ کو بہت تکلیف ہوتی اور بعض اوقات میں اپنے عمر میں بڑا ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے دو چار لگا بھی دیتا، مگر وہ پھر بھی باز نہ آتا۔ یہ سلسلہ ڈیڑھ دو سال چلتا رہا۔ بالآخر بڑی تگ و دو، کوشش و جستجو اور دعاؤں التجاؤں کے بعد اسے گوجرانوالہ میں اپنے پاس لے آیا۔ ایک دن پتہ چلا کہ حضرت شیخ گوبند گڑھ گلی نمبر ۶ میں مکی مسجد میں بعد نماز مغرب درس ارشاد فرمائیں گے۔ یہ غالباً ۸۴ کی بات ہے۔ میں نے ادریس صاحب سے کہا کہ شیخ تشریف لارہے ہیں، آپ بھی چلیں مگر اس نے صاف انکار کردیا اور سخت الفاظ کہے۔ خیر وہ دن آ گیا تو میں نے پھر منت کی کہ تم صرف بیان ہی سننا، بیعت نہ کرنا۔ عمل کرنا نہ کرنا، آپ کی مرضی۔ اسی ذہن اور اسی مزاج کا ایک اور ساتھی مولوی امجد علی شاکر بھی تھا۔ بالآخر یہ لوگ بھی اور طلبہ کے ساتھ تیار ہوگئے۔ شیخ کا بیان ہوا جس نے دلوں کو موہ لیا۔ دعا کے بعد میں نے کھڑے ہوکر لوگوں کی توجہ بیعت کی طرف دلائی۔ بندہ خود بھی بیعت ہوا اور دوسرے لوگ بھی بیعت ہوئے۔ نہ جانے کیا ہوا کہ یکایک قاری محمد ادریس صاحب اور مولانا امجدعلی شاکر بھی آگے بڑھے اور بیعت ہوگئے۔ بس بیعت ہونے کی دیر تھی کہ تمام غلط عقائد اور نظریات کے بادل چھٹ گئے، حالانکہ اس موضوع پر نہ شیخ کا درس ہوا تھا اور نہ ہی کسی نے گفتگو کی تھی۔ پھر یہ دونوں حضرات اتنے مضبوط ہوئے کہ اسے حضرت شیخ کی کرامت اور توجہ ہی کہا جا سکتا ہے جس نے محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے لمحہ بھر میں کایا پلٹ دی۔
محمد یونس خان مرحوم گلی لانگریانوالی کے ساتھی تھے۔ جب میں نے ان کو بیعت کروایا تو قسم کھا کر کہنے لگے کہ شیخ کے ہاتھوں سے ٹھنڈک جسم میں داخل ہوئی اور میرا سارا بوجھ اتر گیا۔ میں نے بہت سے غیرمقلدین، جماعت اسلامی سے وابستہ حضرات، بریلویوں اور حتیٰ کہ مرزائیوں اور شیعہ کو بھی شیخ کا بیعت کروایا۔ صرف بیعت ہی کی برکت سے ان لوگوں کو ہدایت کاملہ نصیب ہوئی اور آج وہ لوگ توحید و سنت کے مطابق زندگی بسر کررہے ہیں۔ ہمارے بہت اچھے دوست اور دینی تحریکات مدارس و علما کے معاون رانا غلام اکبر خان ( اللہ تعالیٰ ان کو صحت کاملہ عطا فرمائے) کے خاندان میں ایک دو افراد غیر مقلدیت کی طرف او ر باقی بریلویت کی طرف مائل تھے۔ مجموعی طور پر دنیا داری کا غلبہ تھا۔ میں نے پہلے رانا صاحب کو بیعت کروایا۔ اس کے بعد ان کے والد صاحب حاجی غلام رسول مرحوم، پھر باقی بھائی حتیٰ کہ راناصاحب کے سسرال، چچے اور رفتہ رفتہ خاندان کے بیسیوں افراد شیخ کے عقیدت مند بن گئے اور اس خاندان کا بچہ بچہ آج بحمد اللہ دیندار بھی ہے اور مسلک حق پر جان نچھاور کرنا اپنے لیے سعادت دارین سمجھتا ہے۔ ماسٹر شفقت جاوید جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ تھے۔ حضرت شیخ سے بیعت کروانے کے بعد آج تک الحمد للہ دسیوں مسجدیں اور مدرسے بناکر اہلِ حق کے حوالے کر چکے ہیں۔
شیخ حق پر ہیں
بندہ کا سارا خاندان اور پورا گاؤں منڈیالہ تیگہ انکار حیات الانبیاء علیہم السلام کی لپیٹ میں آچکا تھا۔ بندہ کی منگنی اپنے خاندان میں ہوئی تھی جو تقریباً ۱۰ ماہ قائم رہی۔ بندہ مدرسہ نصرۃ العلوم میں داخل ہوا تو پیغام ملا کہ یا تو نصرۃ العلوم او ر مولانا سرفراز خان صاحب کوچھوڑ دو، ورنہ رشتے سے جواب ہے۔ خیر میں نے اس دھمکی کی کوئی پروا نہ کی اور رشتہ ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد منڈیالہ تیگہ و گردونواح میں تقریباً دس مرتبہ رشتہ کی بات چلی، لیکن خفیہ ہاتھ حرکت میں آجاتے اور جواب ہو جاتا۔ پھر کہیں سے یہ دھمکی ملی کہ یا تو مولوی سرفراز والا عقیدہ چھوڑ دے، ورنہ محمد ایوب اور عبیداللہ کنوارے ہی رہ جائیں گے، ہم ان کا کہیں رشتہ نہیں ہونے دیں گے۔ مزید برآں بندہ پر قاتلانہ حملے ہوئی اور دھمکیاں بھی دی گئیں۔ ان حالات کی وجہ سے ایک دن سر سجدہ میں رکھ کر بندہ خوب رویا اور اللہ تعالیٰ سے یو ں التجا کی کہ اے اللہ! اگر مولانا محمد سرفراز خان صفدر ؒ اور اکابر علماے دیوبند کے تمام عقائد درست ہیں تو بندہ کی شادی اپنی برادری اور اپنے ہی گاؤں یا گرد و نواح میں ہو، ورنہ مجھے کوئی ضد نہیں۔ اے اللہ! مجھے ہدایت عطا فرما دے اور جو اہل حق ہیں، ان سے وابستہ فرما دے۔ واللہ اس دعا کو ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ گاؤں میں، برادری میں بلکہ قریبی رشتہ داروں میں سے پیغام نکاح آگیا۔ مولانا زاہد الراشدی مدظلہ نے اپنے بیٹوں مولانا عمار خان ناصر اور ناصر الدین خان عامر کے ہمراہ منڈیالہ تیگہ جاکر نکاح پڑھایا۔ اللہ تعالیٰ نے انتہائی نیک اور باوفا بیوی ( جو میرے دینی کاموں میں ہمیشہ شریک رہتی ہے اور شیخ سے بیعت بھی ہے) عطا فرمائی۔ وللہ الحمد۔ یہ غیبی اشارہ تھا کہ شیخ امام اہل سنت اور اکابر علماے دیوبند کے تمام عقائد درست ہیں۔ دوسری طرف جہاں سے مجھے رشتہ سے جواب ہوا، ایک آدھ کے سوا ان تمام بچوں اور بچیوں کے رشتے کٹڑ دیوبندی اور حیاتی گھرانوں میں ہوئے۔
کشف
بندہ نے شیخ ؒ کو ۱۹۹۰ء میں مسجد خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم فیروز والا روڈ میں درسِ قرآنِ کریم کے لیے دعوت دی۔ اہلِ محلہ میں سے بعض کا اصرار ہوا کہ کھانے کے انتظام کا موقع انھیں دیا جائے۔ اس ناچیز نے مشروط اجازت دی کہ کھانے پر جو خرچ ہو، وہ خالص محنت کی کمائی اور حلال مال سے ہو، کوئی چیز مشکوک شامل نہ ہو۔ حضرت کا بیان ہوا اور بہت سے لوگوں نے بیعت کی۔ دعاکے بعد کھانے کے لیے قریبی گھر میں شیخ تشریف لے گئے اور کھانا تناول فرمایا۔ بندہ ناچیز سیب اور کیلا وغیرہ چھیل کر دینے لگا تو شیخ نے ایک ٹکڑا بھی نہ لیا۔ میں سمجھ گیا کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔ بعد میں اہل خانہ سے میں نے کہا کہ کیا پھل تمہارا لایا ہوا نہیں تھا؟ انہوں نے کہا کہ بات تو یہی ہے، لیکن آپ کو کس نے بتایا؟ پھل ہمارا دوسرا بھائی لے کر آیا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ باوجودیکہ شیخ پھل پسند کرتے ہیں، مگر انھوں نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اس سے روک دیا۔
عاجزی و انکساری
آدمی جتنا بڑا ہوگا، اس میں عاجزی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ کہتے ہیں کہ پھل دار درخت ہی جھکا ہوتا ہے۔ عاجزی و انکساری علماے کرام کو بلند سے بلند کرتی چلی جاتی ہے۔ یہ وصف میرے شیخ میں بدرجہ اتم پایا جاتا تھا۔
۱۹۹۰ء میں اس ناچیزنے اپنے دیرینہ دوست حکیم ڈاکٹر طاہر پرویز بھٹی صاحب سے ۱۰ مرلہ قطعہ زمین شاہ دین کالونی (عقب لاہوری چونگی) میں حاصل کیا اور جامع مسجد ریاض الجنۃ صفدریہ کے سنگِ بنیاد کے لیے شیخ سے عرض کیا۔ یہ بندہ پر شیخ کی شفقت تامہ تھی کہ زندگی میں جب بھی اور جس جگہ کے لیے بھی بندہ نے وقت مانگا، الحمد للہ کبھی مایوس نہ لوٹا۔ چاہے اور کسی کو وقت ملے نہ ملے، اس حقیر پر تقصیر کو کبھی خالی نہ لوٹایا گیا۔ دھوپ کا وقت تھا اور اتفاق سے راستہ کوئی بھی صاف نہ تھا۔ حضرت شیخؒ جی ٹی روڈ تک کار پر تشریف لائے۔ اس سے آگے فقیر کے ساتھ موٹر سائیکل پر ردیف بنے۔ پھر آگے جاکر موٹر سائیکل کا راستہ بھی نہ تھا تو باوجود ضعف و بیماری کے پیدل چل دیے اور ماتھے پر نہ شکن نہ ڈانٹ ڈپٹ، بلکہ شفقتیں بڑھتی ہی گئیں۔ آپ نے سنگِ بنیاد رکھا، پھر بے مثال خطاب فرمایا اور اسی طرح واپسی ہوئی۔
ایک بار بندہ نے حضرت کو مدرسہ فیضان سرفراز میں خطاب کے لیے زحمت دی۔ شیخوپورہ کے مشہور عالم دین مولانا فاروقی بھی حضرت کی زیارت و استفادہ کی غرض سے تشریف لائے تھے۔ کھانے کے بعد قیلولہ کے لیے ہمارے پاس زمین پر گدے کے ایک ہی بستر کا انتظام تھا۔ شیخ سے عرض کی کہ آرام فرمالیں۔ وہ منظر آج بھی میری آنکھوں کے سامنے گردش کررہا ہے کہ شیخ نے مہمان سے فرمایا کہ مولانا آپ بستر پر لیٹ جائیں اور خود چٹائی (صف) پر لیٹنے لگے، مگر مہمان نے بہت منت سماجت کر کے اس بات پر راضی کیا کہ چلیں آدھے بستر پر شیخ اور آدھے پر وہ لیٹ جاتے ہیں۔ شیخ نے اس درخواست کو قبول فرمالیا ۔ بندہ پاؤں دبا رہا تھا۔ شیخ نے جب جان لیا کہ مہمان سو گئے ہیں تو آہستہ آہستہ چٹائی کی طرف کھسک گئے تاکہ مہمان کو آرام کا پورا موقع مل جائے۔ اللہ اکبر! کہاں سے تلاش کروں اس بے مثال شخصیت کو!
بندہ شیخ کو لے کر یادگار شہیداں لاہور جامعہ حنفیہ قادریہ کے سالانہ جلسہ پر حاضر ہوا ۔ ابھی جلسہ جاری تھا۔ ہم لوگ کھانے وغیرہ سے فارغ ہوئے تو شیخ نے فرمایا کہ وضو کرلو، ہم نماز پڑھ کر چلتے ہیں۔ شیخ نے وضو فرمایا۔ پھر بندہ وضو کے لیے بیت الخلا میں گیا۔ جونہی باہر نکلا تو شیخ نے آگے مصلیٰ بچھا رکھا تھا اور خود رومال بچھا کر اس پر کھڑے ہو گئے اور اقامت کہنا شروع کردی۔ مولانا عبد الرؤف فاروقی اور بعض دیگر چند علما صف میں شیخ کے دائیں بائیں کھڑ ے ہوگئے اور مجھ ناچیز کو حکم فرمایا کہ نماز دوگانہ پڑھاؤ۔ ساری زندگی نمازیں پڑھتے پڑھاتے رہے ہیں، مگر اس نماز میں ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ آنکھوں سے آنسو جاری تھے، آواز نکالنا بھی دشوار ہو رہا تھا اور یہ ڈر تھا کہ یا اللہ ایسا نہ ہو کہ ساری زندگی کی نمازوں میں سے آج کی نماز کہیں ناقص نہ رہ جائے۔ اے اللہ! قبول فرما لینا۔ میری یہ حالت اپنی جگہ، مگر شیخ کی شفقت، سادگی، عاجزی کی مثال کہاں ملے گی۔
شیخ کا ادب
بند ہ نے کئی بار مشاہد ہ کیا کہ حضرت صوفی صاحب کبھی اپنے برادر مکرم کے آگے نہیں چلے۔ شیخ کے سامنے بلند آواز سے نہیں بولے اورجب بھی بندہ خدمت عالیہ میں حاضر ہوا، یہ سوال ضرور فرماتے کہ شیخ صاحبؒ سے ملاقات کب ہوئی؟ اگر جواب نفی میں ہوتا تو فرماتے، شیخ صاحب سے ملتے رہا کرو۔ ۸۸،۸۹ میں بندہ دورۂ حدیث شریف میں شریک تھا۔ چونکہ حضرات شیخین ؒ کی بندہ پر (باوجود نالائقی کے) بے شمار عنایات اور شفقتیں تھیں تو شاید اس بنا پر کوئی نہ کوئی شرارت سوجھتی رہتی۔ ایک مرتبہ ہم چند ساتھیوں نے مشورہ کیا کہ استاد حضرت مولانا عبدالقیوم ہزاروی مدظلہ اس گدے پر نہیں بیٹھتے جس پر شیخین کریمین جلوہ افر وز ہوتے ہیں۔ تو حضرت ہزاروی مدظلہ بھی تو استاد ہیں، کیوں نہ ان کے لیے گدا بچھا یا جائے۔ حسب مشورہ گدا بچھا کر ہم لوگ تاک میں رہے۔ استاد عبدالقیوم مدظلہ تشریف لائے تو کتاب ایک طرف رکھی، میز اٹھا کر گدے سے آگے کھسکا دی اور خود چٹائی پر بیٹھ گئے۔ دوسرے دن ہم نے یہ کیا کہ پھٹیاں قریب قریب رکھ کر ان پر حدیث شریف کی کتابیں رکھ دیں اور چند ساتھی خود پہلے سے کلاس میں پہنچ کربیٹھ گئے۔ استاد عبدالقیوم ہزاروی مدظلہ تشریف لائے، کتاب بڑے ہی ادب سے ایک طرف رکھی اور گدا اٹھا کر دیوار کے ساتھ کھڑے کردیا اور پھر چٹائی پر بیٹھ کر پڑھانے لگے۔ اللہ اکبر! قدر گوہر کی گوہری ہی جانتاہے، جہلا کو کو کیا پتا کہ اہل علم کی قدر ومنزلت کیا ہے اور ان کا ادب واحترام کیسے کیا جا تا ہے۔
اتباع سنت
آپ کسی موقع پر بھی سنت کوہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ لباس ہو کلام ہو یا آمد مہمان ہو، نماز روزہ، اعمال، دوست احباب اور مقتدیوں اور تلامذہ کے ساتھ برتاؤ، ہر موقع پر سنت کا لحاظ رکھتے۔ مسکرا کر بولتے، محبت سے ملتے اور ہرعام وخاص کی خدمت ومہمان نوازی کرتے ۔ بیماری وضعف کی وجہ سے مسجد کی سیڑھیاں نہ چڑھ سکتے تھے تو گھر میں بھی نماز باجماعت کااہتمام کرتے۔ تہجد کبھی قضانہ ہونے دیتے۔ فارغ وقت تلاوت کلام پاک میں بسر ہوتا اوراکثر نماز عصر یا مغرب کے بعد تلاوت میں ہی مشغول رہتے۔ باقی اوقات مطالعہ وتحریر تصنیف کے لیے مقرر تھے۔ ایک روز شیخ کے گھر میں بندہ نے اقامت کہی، اللہ اکبر اللہ اکبر، ر ا کو لام سے ملاکر پڑھا، یعنی ہمزہ کووصلی بنا دیا۔ سلام پھیرتے ہی شیخ نے فرمایا کہ سامنے الماری سے فلاں کتاب لاؤ اور پھر فرمایا، یہ دیکھو یہ ہمزہ وصلی نہیں قطعی ہے،اس لیے اللہ اکبر اللہ اکبر الگ الگ پڑھاکرو۔ خود بھی تلاوت میں تلفظ کو بڑی احتیاط سے ادا فرما یاکرتے تھے اور فرماتے قرآن پاک عربوں کے لہجے میں پڑھاکرو۔ آپ سفر وحضر میں اپنے ہمراہی اور ساتھی کا بہت خیال فرماتے اور خاص طور پر ڈرائیور کے کھانے پینے اور آرام کا بہت خیال فرماتے اور میزبان سے حکماً فرماتے کہ ڈرائیور کے کھانے پینے کا خیال رکھا جائے۔ استنجا کے وقت پانی کے استعمال سے پہلے مٹی لازماً استعمال فرماتے، حتی کہ سفر میں بھی اس بات کاپورا پورا لحاظ رکھتے۔ آپ عام طور پر عمامہ باندھتے۔ سیاہ اور سفید رنگ کا عمامہ ہوتا اور صرف کبھی کپڑے کی ٹوپی بھی پہن لیاکرتے تھے۔
بہت سے مواقع پر دیکھا اور بہتوں سے سنا کہ شیخ نے دعا فرمائی اور وہ من وعن قبول ہو گئی۔ مدرسہ فیضان سرفراز اوراس کی کامیابی حضرات شیخین کریمین ؒ کی دعاؤں اور توجہات کا فیضان اور نتیجہ ہے۔ میرے شاگرد اور ملک کے معروف قاری محمد ارشد محمود صفدرنے بتایاکہ میرا گلہ اکثر خراب رہتا تھا، بلکہ ٹھیک بھی ہوتا تو بوقت تلاوت خراب ہو جاتا۔ میں نے ایک روز شیخ سے دعاکروائی، الحمدللہ اب خراب گلہ بھی بوقت تلاوت ٹھیک ہو جاتا ہے۔
مزاح اور ظرافت
بندہ شیخ کی زیارت کے لیے حاضر ہوا۔ اس وقت محمد جمیل خان (لاہور ی دروازہ والے) اور محمد احسان حوالدار اور کچھ دیگر لوگ بھی موجود تھے جو میرے بے تکلف دوست اور شیخ کے پروانے دیوانے، مسلک حق پر مرمٹنے والے ہیں۔ جمیل خان نے بے تکلفی سے میرے بارے میں کہاکہ استاد جی، یہ اچھا خاصا آدمی ہے، لیکن نام ’’طوفانی‘‘ پتہ نہیں کسی نے اور کیوں رکھ دیا۔ شیخ ؒ نے مسکرا کر فرمایا، چلو بھئی تم اس کا نام نورانی رکھ لو۔ محفل کشت زعفران بن گئی۔ احسان صاحب نے کہا کہ استادجی، وہ تو دوسرے ذہن کے لوگ ہیں، ان سے نہ ملائیں۔ شیخ نے مسکرا کر فرمایا، چلو یزدانی رکھ لو۔ جمیل صاحب نے عرض کیا کہ استاد جی، یہ بھی مناسب نہیں۔ پھر مسکرا کر فرمایا کہ اچھابھائی، رحمانی رکھ لو۔ کہا کہ استادجی، رحمانی تو کمہار کہلاتے ہیں، جبکہ یہ تو کمبوہ ہیں۔ استاد جی بہتر ہوگا کہ انھیں اپنی طرف سے منسوب فرمالیں۔ چلو بھئی ٹھیک ہے، محمدایوب صفدر۔ مبارک ہو، مبارک ہو۔ ساتھیوں کی آوازیںآئیں اور یوں میرا نام محمد ایوب طوفانی سے محمد ایوب صفدر میں تبدیل ہو گیا۔
شجاعت وبہادری
۲۰۰۰ء کے لگ بھگ قاری شمس الدین احمد اور بندہ نے کوشش کر کے ایک قطعہ زمین دس مرلہ مسجد ومدرسہ کے لیے حاصل کیا۔ شیخ سنگ بنیاد اور بیان کے لیے تشریف لائے ۔ آپ بیان فرما رہے تھے کہ بعض ناہنجار غیرمقلدین نے فائرنگ شروع کر دی اور شدید فائرنگ کی۔ بندہ اور بعض احباب شیخ پر جھک گئے کہ خوانخواستہ شیخ کو کوئی نقصان نہ پہنچے، مگریہ علم وحلم کا پہاڑ نہایت استقلال سے بیان فرماتے رہے۔ بعد میں سنگ بنیاد رکھا اور دعافرمائی اور بندہ کے ساتھ موٹر سائیکل پر قریب ایک گھرمیں کھانے کے لیے تشریف لے گئے۔ ایسے بہت سے واقعات سننے میں آئے تھے کہ گکھڑمنڈی میں اور دیگر دینی اسفارمیں کئی دفعہ شیخ کا راستہ روکاگیا،حملہ آور تیار ہو کر بیٹھتے مگر اللہ تعالیٰ شریروں کو اندھا کر دیتے اور شیخ بحفاظت اپنی منزل پر پہنچ جاتے۔ ان حملہ آوروں کے بارے میں شیخ کو پتہ ہی نہ ہوتا مگر گھبر اکر نہ راستہ بدلتے، نہ ان سے کوئی انتقام لیتے اور نہ ہی زبان پر کوئی حرف شکایت لاتے بلکہ دشمن حملہ آوروں اور مخالفوں کو بھی دعائیں ہی دیا کرتے۔
شیخ ؒ اور اتباع ا کابر ؒ
اکثر شیخ ؒ فرمایا کرتے کہ الحمدللہ میں نے ۶۵سال تک خوب مطالعہ کیا ہے، ہر موضوع پر، ہر مسئلہ پر خوب تحقیق کی ہے، مگر اپنے علم اور پنی رائے کو کبھی اکابر کی رائے سے مقدم نہیں کیا۔ کسی مسئلہ میں میری تحقیق کچھ اور ہے اور اکابرکی رائے کچھ اورہے تو میں نے اکابر کی رائے ہی پر اعتماد کیا ہے۔ عزیز القدر طلبہ! تم بھی اپنے اکابرہی پر اعتماد کرنا، اپنی رائے کو اکابر کی رائے پر کبھی مقدم نہ سمجھنا۔ ۱۹۹۴ء میں بندہ نے مدرسہ فیضان سرفراز میں محفل حمد ونعت کا اہتمام کیا۔ غالباً یہ سب سے پہلی محفل تھی۔ کسی نے شیخ کو شکایت کر دی اور بندہ کی طلبی ہوئی۔ شیخؒ نے فرمایا کہ مولانا، یہ کیا اہل بدعت کی طرح آپ لوگوں نے بھی قوالیاں شروع کر دیں ؟ یہ طریقہ اہل بدعت کا ہے۔ اس میں بہت سے اعمال قوالوں سے ملتے جلتے ہیں۔ ناچیزنے عرض کیا کہ استاد جی، کیا حمد ونعت سے منع فرمار ہے ہیں؟ فرمایا، ہرگز نہیں۔ حمد ونعت، مدح صحابہ واولیا ضرور ہومگر جو طریقہ اکابر کا تھا، اس کے مطابق ہو۔ دوچار بیانات ہوں، ضمناً حمد بھی ہو، نعت بھی ہو۔ مگریہ ساری رات گاتے رہنا اور قوالوں اور بھانڈ مراثیوں کی طرح نوٹ نچھاور کرنا، سننے اور سنانے والوں کاعجیب وغریب حرکتیں کرنا، یہ اسلا م کا طرز نہیں۔ اکابر کی اتباع میں ہی خیر ہے۔
شیخ محبوب الخلائق
شیخ کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی مقبولیت ومحبوبیت سے نوازا تھا۔ زندگی بھر ہر سلیم الفطرت کی خواہش رہی کہ شیخ ؒ کی زیارت اور ملاقات کا شرف حاصل ہو۔ سعودی عرب، بنگلہ دیش، جنوبی افریقہ کے اسفار اور عوام وخواص کی محبت وہاں کے حالات واسفار میں دیکھی جا سکتی ہے کہ ایک وقت میں لاکھوں عوام وخواص شرف زیارت سے باریاب ہو رہے تھے۔ باکستان میں بھی یہ محبت بام عروج کو پہنچی ہوئی تھی۔ گکھڑ رہایش گاہ پر یا جامع مسجد گکھڑ اورمدرسہ نصرہ العلوم میں ملاقاتیوں کا تانتا بندھا رہتا۔ آخری عمر میں شیخین ؒ بیان کے قابل نہ رہے، کمزوری اور بیماری بڑھاپا کاغلبہ تھا، لو گ صرف زیارت کو تڑپا کرتے تھے۔ بندہ بھی وقتاً فوقتاً خدمت اقد س میں حاضر ہوتارہتا۔ آج سے چند سال قبل مدرسہ سے فارغ حفاظ کرام کا اصرار تھا کہ ابتدائی طلبہ وحفاظ کی دستاربندی اور دعا حضرت شیخؒ کے ہاتھوں ہونی چاہیے۔ شیخ سے عرض کیا تو الحمدللہ حضرت شیخ اور حضرت صوفی صاحب دونو ں حضرات تشریف لائے۔ دونوں بزرگ کرسی پر تشریف فرما تھے اور ایسا روح پرورمنظر تھا جیسے مقتدر ملائکہ تشریف فرماہوں۔ لوگ بڑی تعداد میں شیخینؒ کی زیارت سے مشرف ہو رہے تھے۔ یقین جانیے حضرات شیخینؒ کی زیارت سے جی نہیں بھرتا تھا اور یہ حال میرا حال نہ تھابلکہ ہر عقیدت مند کی یہی کیفیت تھی۔
آخری دفعہ حضرت شیخؒ کی زیارت اورملاقات کے لیے اہل خانہ کے ہمراہ شیخ کے انتقال سے صرف دو روز قبل حاضری ہوئی۔ مولانا زاہدا لراشدی، مولانا عمارخان ناصر، مولانا عزیزالرحمن شاہد، مولانا منہاج الحق خان راشد، رانا کفیل، میر لقمان اللہ، ڈاکٹر فضل الرحمن اوردیگر حضرات بھی موجودتھے۔ مولانا زاہدالراشدی غیر ملکی سفر سے واپس پہنچے تھے اور ایک کتاب شیخ کی خدمت میں پیش کی جو حضرت نے ان سے منگوائی تھی۔ شیخؒ نے قبول کرتے ہوئے الماری میں رکھنے کا اشارہ فرمایا۔اللہ اکبر! اس عمر اور حالت میں بھی علوم سے محبت کایہ عالم!
شیخ کامل کی محنت کے کامل ثمرات کا مظہر حضرت کا بے مثال جنازہ تھا ۔ سچ فرمایا امام احمد حنبل ؒ نے کہ ہمارے اور اہلِ بدعت کے مابین فیصلہ ہمارے جنازے کریں گے۔ شیخ کامل ؒ اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوتے ہیں تو تہجد کا وقت ہے کہ اس وقت عبادت و ریاضت کا تقریباً ۷۵ برس سے شیخ نے انتخاب فرمایا ہوا تھا۔ گرمی سردی بیماری و صحت سفر و حضر میں بھی یہ وقت کبھی قضا نہ ہوا تھا۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور لوگ ہر طرف سے گکھڑ کی طرف امڈ آئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے گراؤنڈ، پیٹرول پمپز ، سڑکیں، گلیاں بھرنے لگیں۔ لاکھوں کا مجمع تھا اور ہر چہر ہ اداس، آنکھیں نم ، رخسار آنسوؤ ں سے تر ، لرزتے بدن، ہمت ہارے ہوئے وجود مجسمہ سوال بنے ہوئے کھڑے تھے کہ اب مشکل اوقات میں تشنہ لب اپنی علمی پیاس کیوں کر اور کیسے اور کہاں سے بجھائیں گے ۔ جنازے میں نہ پہنچ سکنے والے لاکھوں لوگ بے قرار اور ٹوٹے دل سے تمنا کررہے تھے کہ اے کاش اس مردِ قلندر ولی کامل کے جنازے میں ہم بھی شرکت کر لیتے اور جو پہنچ گئے، ان میں سے ہر ایک کی تمنا تھی کہ اسے شیخ کا دیدار نصیب ہو جائے۔ ہزاروں نے دیدار کیا اور ہزاروں وقت کی قلت کے باعث رہ گئے۔ جو رہ گئے، ان کی تمنا تھی کہ چلو دیدار نہیں ہو سکا تو چارپائی کو کندھا ہی دے لوں۔ اگر یہ بھی نہ ہوسکا تو چلو چارپائی یا اس کے بانسوں کو ہاتھ ہی لگ جائے۔ یہ بھی نہ ہوسکا تو ہم نے دیکھا کہ بہت سے لوگ اپنا رومال اور پگڑی شیخ کی چارپائی سے لگاکر بے چین دل کو چین بخشنے کی کوشش کررہے تھے اور وہ کپڑا آنکھوں اور سینوں سے لگا رہے تھے۔ غرض ہر کوئی پروانہ وار قربان ہوا چاہتا تھا۔ ملکی تاریخ کا تو کچھ علم نہیں مگر گوجرانوالہ ڈویژن کی تاریخ میں اتنا بڑا اور منظم جنازے کا اجتماع نہ کبھی دیکھا نہ کبھی سنا اور نہ کبھی تصور کیا۔