حضرت والد محترم نور اللہ مرقدہ کے زیر سایہ و زیر تربیت ہم سب بہن بھائیوں نے اپنے اپنے ذوق و ظرف کے مطابق جو کچھ بھی حاصل کیا‘ وہی ہمارا اصل سرمایہ حیات ہے۔ اگر ہم اس سرمایہ کی حفاظت کر سکیں تو یقیناًہمارے لیے ہدایت و نجات کی منزلیں طے کرنا آسان ہو گا۔ انہوں نے اہل السنت والجماعت کے جن متواتر واجماعی اصول و ضوابط کی روشنی میں ہمارے افکار و نظریات کو پروان چڑھایا، ہم پر ان کی حفاظت ایک شرعی اور موروثی ذمہ داری ہے۔ خدا تعالیٰ ہمیں ان کی حفاظت کی توفیق بخشے۔ آمین
ہم سب بھائیوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خصوصی فضل و کرم کے ساتھ کسی نہ کسی انداز میں حضرت والد محترمؒ کی رفاقت و معیت میں رہ کر ان کی خدمت کا موقع عطا کیا۔ کسی کو اندرون ملک تبلیغی و ذاتی اسفار میں ان کی رفاقت حاصل رہی۔ کسی نے دارالعلوم دیو بند ‘ بنگلہ دیش ‘ افغانستان ‘ جنوبی افریقہ اور برطانیہ وغیرہ بیرونی ممالک کے اسفار میں ان کی رفاقت کا شرف حاصل کیا۔ کسی نے حج و عمرہ کے اسفار میں ان کی رفاقت کے مزے لوٹے۔ کسی نے ان کی بیماری و علالت کے ایام میں مختلف اوقات کے اندر ہسپتال میں ان کی خدمت و رفاقت کی سعادت حاصل کی اور کسی نے ضعف و بڑھاپے کے دوران ان کی خدمت و معیت کا ثواب کمایا۔ خدمت و رفاقت کے ان تمام مراحل میں کم و بیش سارے بھائی ایک دوسرے کے ساتھ باہم معاون و شریک رہے، لیکن خدمت و رفاقت کا ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ اس کے اندر بھائیوں میں سے میں وحدہ لا شریک تھا۔ یعنی یہ خدمت و معیت میرے علاوہ بھائیوں میں سے کسی دوسرے کو میسر نہیں آئی اور وہ ہے جیل کی خدمت و رفاقت۔
۱۹۷۷ ء کی تحریک نظام مصطفیؐ اپنے عروج پر تھی۔ پورے ملک کی جیلیں سیاسی قیدیوں سے بھری پڑی تھیں۔ حضرت والد محترم نور اللہ مرقدہ بھی ایف ایس ایف (فیڈرل سیکورٹی فورس) کی وارننگ ریڈ لائن کراس کرکے ظلم و آمریت کے سفاک چہرہ پر بھرپور طمانچہ رسید کر چکے تھے۔ دن کی روشنی میں تو ان پر ہاتھ اٹھاے کی جسارت کوئی نہ کر سکا۔ البتہ رات کی تاریکی میں مکان کا محاصرہ کرکے انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ اور رات ہی کے اندھیرے میں انہیں گوجرانوالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔ ان کی گرفتاری کے بعد برادر محترم حضرت مولانا علامہ زاہدالراشدی مدظلہ ( جو اس وقت پاکستان قومی اتحاد پنجاب کے صوبائی جنرل سیکرٹری تھے) کے حکم پر میں نے والد محترمؒ کی جگہ تحریک کی ذمہ داری سنبھال لی اور اپنے رفقا حافظ ظفر یاسین بٹ مرحوم‘ حافظ بشیر احمد چیمہ‘ ملک عبدالشکور ‘ رانا محمد عمران اور محمد عرفان کے ساتھ مل کر تحریک کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ان حوصلہ مند نوجوانوں کے شوق و جذبہ نے تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی۔
والد محترمؒ کی گرفتاری کے ایک ہفتہ بعد میری گرفتاری بھی عمل میں آ گئی۔ مجھے جی ٹی ایس اڈہ گوجرانوالہ سے گرفتار کرکے سٹی تھانہ کی حوالات میں بند کر دیا گیا جہاں سے دوسرے دن تھانے کے اندر ہی مجھے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے کے بعد جیل منتقل کر دیا گیا۔ والد محترمؒ کو میری گرفتاری کی اطلاع ہو چکی تھی۔ مجھے بیرک نمبر ۴ میں رکھا گیاجبکہ والد محترمؒ چکی نمبر ۸ میں محبوس تھے۔ اس چکی میں چند ماہ قبل تحریک جامع مسجد نور کے دوران ہم بھی چند دن گزار چکے تھے۔ اگرچہ ہم دونوں کے لیے جیل جانے کا یہ پہلا تجربہ نہ تھا، کیونکہ والد محترمؒ ۱۹۵۳ ء کی تحریک ختم نبوت میں ۹ ماہ اور میں ۱۹۷۶ء کی تحریک جامع مسجد نور میں ۶ ماہ جیل میں گزار چکے تھے، لیکن اس کے باوجود انہیں میرے بچپن (اس وقت میری عمر تقریباً ۱۹ برس تھی) اور مجھے ان کی علالت و بڑھاپے کا احساس ستا رہا تھا۔ ہماری باہمی ملاقات ممکن نہ تھی۔ جیل قوانین اور حکومت کی سختیوں کے مطابق ہم ادھر کا رخ نہ کر سکتے تھے اور وہ جمعہ کے دن جمعہ کے وقت کے علاوہ چکی کی حدود سے باہر نہ آ سکتے تھے۔میرے جیل جانے کے دوسرے دن حضرت والد محترمؒ کے قریبی ساتھی اور ان کے انتہائی عقیدت مند اور سفر حج کے ساتھی جناب حاجی محمد صادق بٹ مرحوم کی خصوصی سفارش سے مجھے والد محترم ؒ کے پاس چکی میں منتقل ہونے کی اجازت مل گئی۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل حاجی صاحب مرحوم کا قریبی عزیز تھا، لہٰذا اس کی اجازت سے میں بیرک سے والد محترمؒ کے پاس چکی پہنچ گیا جہاں اس وقت استاد محترم جناب قاری محمد انور صاحب مدظلہ (جو چھوٹے دو بھائیوں کے علاوہ ہم سب بہن بھائیوں کے حفظ کے استاد ہیں اور گزشتہ ۳۰ برس سے مدینہ منورہ کے اندر بن لادن خاندان کے مدرسہ تحفیظ القرآن میں حفظ قرآن کی کلاس لے رہے ہیں۔ آج کل شدید بیمار ہیں۔ اللہ تعالیٰ صحت و سلامتی کے ساتھ ان کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔ آمین) مجلس تحفظ ختم نبوت کے مبلغ حضرت مولانا ضیاء الدین آزاد مدظلہ ‘ اہل حدیث راہنما جناب محمد یوسف احرار مرحوم ‘ بریلوی مکتب فکر کے مولانا غلام نبی جماعتی ‘ سیاسی راہنما چوہدری محمود بشیر ورک اور میر محمد بشیر وغیرہ حضرات موجود تھے۔ مختلف مذہبی طبقات اور مختلف سیاسی جماعتوں کے راہنماؤں اور کارکنوں کا یہ ایک دلچسپ اجتماع تھا۔
میری تمام تر دلچسپی اس بات میں تھی کہ مجھے والد محترمؒ کی اس مقام پر خدمت کا موقع میسر آ گیا جہاں واقعتا ان کو خدمت کی شدید ضرورت تھی۔اس دلچسپی کے پیش نظر میں خود کو ذہنی طور پر ہر قسم کے باقی افکار و خیالات سے آزاد کر چکا تھا کہ دوسرے دن والد محترم ؒ نے سنسنی خیز دھماکہ کر دیا اور فرمایا آج سامان کی جوچٹ گھر بھجوانی ہے، اس کے ذریعہ اپنی کتابیں بھی منگوا لو تاکہ کل سے تمہارے اسباق شروع ہو جائیں۔ میرے لیے یہ حکم سراسر خلاف توقع تھا کیونکہ میں جیل میں سبق پڑھنے کے لیے تھوڑا گیا تھا، لیکن شیخ مکرمؒ جیل کو مدرسہ بنانے کی سلفی روایات سے روگردانی کرنے کے لیے شاید بالکل تیار نہ تھے اور میں بھی شاید اپنا بویا ہوا پھل کاٹ رہا تھا۔ کیونکہ چند ماہ قبل ہی تحریک جامع مسجد نور میں ہم اڑھائی سو کے قریب جو افراد گرفتار ہو کر جیل پہنچے تھے، ان میں ایک کثیر تعداد علماے کرام اور مدارس میں دینیہ کے طلبہ کی تھی۔ برادر محترم حضرت مولانا علامہ زاہد الراشدی مدظلہ اور اخی المکرم حضرت مولانا عبدالقدوس خان قارن مدظلہ بھی ان میں شامل تھے۔ ان دونوں بزرگوں کے حکم نے درس و تدریس کی رونقیں جما دیں اور اچھی بھلی جیل کو انہوں نے اچھا خاصا مدرسہ بنا ڈالا۔ تمام بیرکوں میں دروس قرآن کا سلسلہ اور ترجمہ و ناظرہ قرآن کی کلاسیں جاری ہو گئیں۔ حضرت شیخؒ کو بھی شاید خبر ہو چکی تھی کہ جیل میں مدرسہ بنانا قانوناً کوئی جرم نہیں ہے۔ لہٰذا انہوں نے اپنی ہر وقت پڑھنے پڑھانے کی عادت مجھ پر پوری کرنے کا فیصلہ کر لیا اور ویسے بھی درمیان میں کافی دن ان کی اس عادت مبارکہ کے پورا کرنے کا ناغہ ہو چکا تھا اور اس کی تلافی وہ مجھ پر ہی کرنا چاہتے تھے۔ بہرحال میرے لیے جیل مدرسہ بن گئی۔ نور الایضاح مکمل، شرح ماءۃ عامل کی ترکیب زنجیری مکمل اور نحو میر کا بیشتر حصہ میں نے جیل ہی میں حضرت شیخؒ سے پڑھا۔
یہ سلسلہ شروع ہوئے ابھی چند ہی گزرے تھے کہ ایک دن صبح کے وقت چکی کے صحن کی صفائی کے لیے آنے والے شخص کو دیکھ کر میں چونک اٹھا۔ وہ ایک پاگل شخص تھا جس کے دماغ کا شعور و ادراک والا خانہ کام چھوڑ چکا تھا، البتہ دماغ کے حفظ و یادداشت والے خانہ میں تاریخ کا بہت بڑا ذخیرہ فیڈ تھا۔ جیل کے چند ماہ پہلے کے زمانہ میں اس سے واقفیت ہوئی تھی۔ وہ ایک گریجویٹ آدمی تھا جسے گھریلو اور خاندانی حالات کی ستم ظریفیوں نے پاگل و دیوانہ کرکے رکھ دیا۔ میں نے حضرت شیخؒ کو اس کے بارے میں بتایا کہ یہ شخص ذہنی توازن کھو چکا ہے۔ لیکن اسی کی یادداشت کے خانہ میں انقلاب فرانس سے لے کر انقلاب ترکی تک، انقلاب روس سے لے کر انقلاب چین تک، جنگ عظیم اول سے لے کر جنگ عظیم دوم تک، چنگیز و ہلاکو کی سفاکیت سے لے کر ہٹلر کی بربریت تک، ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد سے لے کر ہندوستان کی تقسیم تک پوری تاریخ محفوظ ہے اور اس طرح سناتا ہے جیسے ٹیپ ریکارڈ کا بٹن آن کر دیا گیا ہو۔ تاریخ کے کئی اسکالر تو پاگل دیکھے سنے تھے، لیکن تاریخ کے پاگل اسکالر سے پہلی دفعہ واسطہ پڑا تھا۔
حضرت شیخؒ نے اس کی ضروریات کے بارہ میں پوچھا تو میں نے بتایا کہ سگریٹ بہت پیتا ہے اور چائے کا بھی شوقین ہے۔ حضرت شیخؒ نے اس کے لیے سگریٹ کا پورا ڈبہ اور بسکٹ وافر مقدار میں منگوا لیے اور ہیڈ وارڈن سے کہہ کر اس کی مستقل ڈیوٹی اپنے پاس لگوا لی۔ صبح نماز کے بعد حضرت شیخؒ درس دیتے اور ہم ناشتہ سے فارغ ہوتے تو وہ بھی آ جاتا۔ جب تک وہ صفائی سے فارغ ہوتا تب تک میں اس کے لیے چائے تیار کر لیتا۔ گویا حضرت شیخؒ کی خدمت اور اپنے اسباق کی ڈیوٹی کے علاوہ اس پاگل اسکالر کے لیے ناشتہ تیار کرنے کی اضافی ڈیوٹی بھی مجھے سونپ دی گئی۔ وہ چائے پیتا جاتا ‘ سگریٹ پھونکتا رہتا اور تاریخ کے کسی ایک پہلو پر گفتگو کرتا رہتا۔ وہاں پر موجود تمام حضرات بڑی توجہ سے اس کی گفتگو سنتے۔ گفتگو کے دوران یہ اندازہ کرنا قطعاً ناممکن ہوتا کہ یہ پاگل و مجنون ہے۔ اس کا پتہ اس وقت چلتا جب سگریٹ اس کے ہاتھ تک پہنچنے میں دیر ہو جاتی یا چائے کی خالی پیالی میں چائے ڈالنے کے اندر تاخیر ہو جاتی یا اسے کسی جگہ ٹوک دیا جاتا۔ پھر اس کے دماغ کی دوسری کیسٹ شروع ہو جاتی جو بسا اوقات حساس نوعیت کے مغلظات پر مشتمل ہوتی اور اس وقت حضرت شیخؒ کے کان لپیٹ کر تیزی کے ساتھ باہر نکلنے کا منظر بڑا دیدنی ہوتا۔ بہرحال ہماری اس تفریحی مصروفیت نے جہاں وقت کی رفتار تیز کر دی، وہاں ہمیں تاریخی معلومات کا ایک وافر حصہ بھی دستیاب ہوا۔ اس کے علاوہ مصروفیت اور وقت کاٹنے کا ایک اور سہارا بھی تلاش کر لیا گیا اور وہ یہ کہ شیخ محمد یوسف احرار مرحوم داستان امیر حمزہ کا ایک لیکچر دیتے تھے۔ (اس واہیات اور توہین صحابہؓ پر مشتمل قصہ کی خبر مجھے پہلی بار وہیں ہوئی اور بعد میں پتہ چلا کہ اس قصہ کی بڑی بڑی کتب مارکیٹ میں فروخت ہوتی ہیں) تمام لوگ وہ لیکچر بڑے شوق سے سنتے اور یہ لیکچر حضرت شیخؒ سے چوری ہوتا تھا۔ میں بھی اس میں بڑے شوق سے بیٹھتا تھا لیکن ایک دن حضرت شیخؒ نے صحن میں ٹہلتے ہوئے اس کے کچھ جملے سن لیے تو بڑے غیر محسوس طریقہ سے مجھ پر اس مجلس میں بیٹھنے کی پابندی عائد کر دی گئی اور اس وقت میرے سبق کا ایک اضافی پیریڈ رکھ دیا گیا۔
اس دوران دو بڑے دلچسپ واقعات رونما ہوئے۔
پہلا یہ کہ جمعہ کے دن آمدورفت اور سیاسی قیدیوں کی باہمی ملاقات میں کچھ نرمی رکھی گئی تھی۔ حضرت ؒ شیخ کی علمی و روحانی شہرت سن کر بہت سے ناواقف لوگ بھی ملاقات کے لیے آ جاتے، کوئی مسائل پوچھنے اور کوئی دعا لینے۔ ایک دن ایمن آباد (موڑ یا شہر) کا ایک میراثی شیخؒ کی شہرت سن کر آ گیا اور دعا کی درخواست کی۔ اس کے اندازِ گفتگو سے مجھے کھٹکا کہ یہ میراثی ہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کیا کام کرتے ہیں۔ اس نے بتایا کہ شادی بیاہ کے موقع پر جوک کرنا ہمارا پیشہ ہے۔ شیخؒ نے پوچھا کس سلسلہ میں جیل آئے ہو۔ اس نے کہا اسی تحریک کے سلسلہ میں۔ ہمیں حیرت ہوئی کہ اس کا تحریک کے ساتھ کیا کام؟ شیخؒ نے پوچھا کہ خود گرفتاری دی ہے؟ اس نے کہا نہیں پیر جی۔ میں تو اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک شادی میں گیا تھا۔ وہاں ہم جوک کر رہے تھے۔ میں خدا بن کے ایک کرسی پر بیٹھا تھا اور سربراہان مملکت کی حاضری ہو رہی تھی۔ میں ہر سربراہ مملکت کا اٹھ کر استقبال کرتا۔ جب بھٹو (جو اس وقت وزیراعظم پاکستان تھے) کی باری آئی تو میں نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے اس کے ساتھ مصافحہ کیا۔ اس نے شکایت کی کہ آپ سب سے اٹھ کر ملے، مجھ سے کھڑے ہو کر کیوں نہیں ملے۔ میں نے کہا مجھے تم سے خطرہ تھا۔ اگر میں کھڑا ہوتا تو تم میری کرسی پرقبضہ کر لیتے۔ جن کے ہاں شادی تھی، وہ پیپلز پارٹی کے تھے۔ انہوں نے رپورٹ کر دی اور پولیس نے مجھے گرفتار کر لیا۔ حضرت شیخؒ کئی دن تک اس کی بات یاد کرکے مسکراتے رہتے اور مجھے فرمایا کہ ان لوگوں کو خدا نے جتنی ذہانت دی ہے اگر اسے اچھے مقصد کے لیے اور اچھے کام پر صرف کریں تو ملک و ملت کی بڑی خدمت کر سکتے ہیں۔
دوسرا دلچسپ واقعہ یہ رونما ہوا کہ تحریک کے دوران وکلا اور دیگر گریجویٹ حضرات بھی بکثرت گرفتار تھے اور قانونی طور پر وہ جیل کی بی کلاس کے حقدار تھے۔ گورنمنٹ کے پاس اتنی بی کلاسز کا انتظام نہیں تھا۔ ایک وکیل نے اپنا سیاسی یا خاندانی اثر و رسوخ استعمال کرکے اپنے لیے بی کلاس منظور کرا لی۔ اب جیل انتظامیہ نے عدالتی حکم کی تعمیل میں ہمارے والی چکی کے چھ کمروں میں سے ایک کمرہ خالی کرا کے اس میں ایک چارپائی رکھوا دی اور اس چارپائی کو سنگل کے ساتھ دروازے سے باندھ دیا۔ یہ بی کلاس تیار تھی۔ ہمارے استاد محترم جناب قاری محمد انور صاحب مدظلہ کی رگ ظرافت پھڑکی۔ فرمانے لگے: میں بھی گھر جا کر اپنے گھر والوں سے کہوں گا کہ مجھے بی کلاس دیں۔ ساتھیوں نے پوچھا، وہ کیسے؟ تو فرمانے لگے ان سے کہوں گا کہ چارپائی کو سنگلی کے ساتھ دروازے سے باندھ دیں۔ یہ لطیفہ وکیل صاحب کی طبیعت پر کچھ ایسا گراں گزرا کہ دو دن کے بعد انہوں نے وہاں سے اپنا تبادلہ کسی اور جگہ کرا لیا۔
انہی حالات و مصروفیات میں ایک ماہ بیت گیا۔ قومی اتحاد اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا عمل شروع ہوا۔ گرفتاریوں میں کچھ نرمیاں پیدا ہوئیں۔ رہائیوں کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ حضرت شیخؒ کی گرفتاری چونکہ پہلے عمل میں آئی تھی۔ ان کی رہائی بھی ایک ہفتہ پہلے ہو گئی اور یہ ایک ماہ کا عرصہ میری زندگی کے قیمتی ترین لمحات میں شامل ہو گیا۔