حالات و مشاہدات

عصرِ حاضر کے فساد کی فکری بنیادیں

مولانا محمد بھٹی

گزشتہ پون صدی سے مسلم دنیا دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ تخریب کاری کا یہ جدید مظہر اپنی سنگینی،آشوب ناکی اور حشر سامانی میں ماضی کے تمام مظاہر کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ خوارج اور باطنی اپنی تمام تر فساد مآبی کے ساتھ اس نوخارجیت کے آگے ہیچ نظر آتے ہیں۔اس عفریت سے عملی سطح پر دو دو ہاتھ کرنے کے ساتھ ساتھ فکری سطح پر نمٹنا بھی ازحد ضروری ہے۔مگر صد حیف کہ اس ضمن میں ہمارا طرزِ فکر اتھلے پن کا منتہائی اظہار بن کر رہ گیا ہے اور اس کی وجہ ہمارے کارِ علمی کی عمومی صورت حال ہے۔ ہمارے ہاں عمومی رجحان یہی ہے کہ اشیا کو کما ھی دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی...

ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

یکم مئی کو عام طور پر دنیا بھر میں محنت کشوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے جو امریکہ کے شہر شکاگو میں مزدوروں کے حقوق کے لیے جانوں کی قربانی دینے والے مزدوروں کی یاد میں ہوتا ہے، اس میں مزدوروں اور محنت کشوں کے حقوق و مفادات کی بات ہوتی ہے اور محنت کشوں کی تنظیموں کے علاوہ دیگر طبقات بھی ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ محنت اور مزدوری انسانی معاشرہ کی ضروریات میں سے ہیں اور زندگی کے اسباب مہیا کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ بلکہ انسانی آبادی کی اکثریت کا ذریعہ معاش یہی ہے کہ وہ معاوضہ پر دوسرے انسانوں کے کام کرتے ہیں اور وہ معاوضہ ان کا...

دینی جدوجہد کے مورچے

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حضرت خواجہ ناصرالدین خاکوانی، امیر محترم سید محمد کفیل شاہ بخاری، اکابر علمائے کرام، محترم بزرگو اور دوستو! میں حسب معمول سب سے پہلے دو باتوں پر مجلس احراراسلام کا شکریہ ادا کروں گا۔ ایک تو اس پر کہ انہوں نے مورچہ قائم رکھا ہوا ہے۔ اللہ تعالی اس مورچے کو قائم رکھیں، کیوں کہ ابھی اس مورچے کے بہت سارے کام باقی ہیں۔ اور دوسرا اس بات پر کہ مجھے بھی اکثر حاضری کا موقع دے دیتے ہیں۔ میری یہاں حاضری صرف نسبت کو تازہ کرنے کے لیے اور یہ بتانے کے لیے ہوتی ہے کہ کن بزرگوں اور کس قافلے سے ہماری نسبت ہے اور کس تسلسل سے ہے۔ اللہ تعالی اس قافلے اور تسلسل...

رشدی ایسے کرداروں سے متعلق اہل اسلام کا رویہ کیا ہونا چاہیے؟

ڈاکٹر محمد شہباز منج

رشدی اور اس جیسے دیگر کرداروں سے متعلق اہل اسلام کے رویے پر بات کرنے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ رشدی اور اس کی بدنام ِ زمانہ کتاب پر ایک سرسری نظر ڈال لی جائے۔ رشدی ہندوستانی نژاد برطانوی امریکی ناول نگار اور ادیب ہے۔ قبل ازیں بھی اس کے بعض ناول شائع ہوئے تھے، لیکن اس کو زیادہ شہرت و پذیرائی " شیطانی آیات" کی اشاعت کے بعد ملی۔ ادبی ناقدین کے مطابق " سٹینیک ورسز" رشدی کے اپنے مخمصوں کی عکاس ہے ، جو خود اس کو برطانوی استعمار کا ایک شکار ظاہر کرتی ہے۔ یہ اصل میں معاصر انگلینڈ میں ہندوستانی تارکینِ وطن کے پس منظر میں لکھی گئی کہانی ہے۔ اس...

دستور کا احترام اور اس کے تقاضے

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سربراہ جسٹس اطہر من اللہ نے ایک کیس کے دوران کہا ہے کہ دستور اور اداروں کا احترام نہیں ہو گا تو ملک میں افراتفری پیدا ہو گی، جبکہ سپریم کورٹ بار کے صدر جناب احسن بھون نے کہا ہے کہ دستور کو ملک کے تعلیمی نصاب کا حصہ ہونا چاہیے۔ ہم نے دونوں باتوں کی تائید کی ہے مگر اس سلسلہ میں موجودہ عمومی تناظر کے حوالے سے چند گزارشات پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ ملک میں وقفہ وقفہ سے دستور کے تحفظ، عملداری اور بالادستی کی بحث بہت عجیب معلوم ہوتی ہے جو کسی اور ملک میں دیکھنے میں نہیں آتی۔ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ دستورِ...

وزیر اعظم میاں شہباز شریف سے چند گذارشات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ملک میں حکومت تبدیل ہو گئی ہے اور جن مراحل سے یہ عمل گزرا ہے بلکہ ابھی گزر رہا ہے اس سے ہمارے اس معاشرتی مزاج کا ایک بار پھر اظہار ہوا ہے کہ ملک میں کوئی کام ہماری مرضی کے مطابق ہو رہا ہو تو وہ ہمارے خیال میں دستور کا تقاضہ بھی ہوتا ہے، شریعت کا حکم بھی ہوتا ہے، ملکی مفاد بھی اسی سے وابستہ ہوتا ہے، اور قومی سلامتی کا راستہ بھی وہی قرار پاتا ہے۔ لیکن وہی کام اگر ہمارے ایجنڈے، اہداف اور نقطۂ نظر سے ہم آہنگ نہیں ہے تو اس سے سازش کی بو آنے لگتی ہے، قومی وحدت خطرے میں پڑ جاتی ہے، ملکی سلامتی داؤ پر لگ جاتی ہے، اور دستور و قانون کے تقاضے پامال ہوتے نظر...

عدالتی فیصلوں پر شرعی تحفظات کا اظہار

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

وراثت کے بارے میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی طرف ہم نے ملک کے اصحابِ علم کو ایک مراسلہ میں توجہ دلائی تھی جس پر علماء کرام کے ایک گروپ ’’لجنۃ العلماء للافتاء‘‘ نے فتوٰی کی صورت میں اظہار خیال کیا ہے اور اس پر مولانا عبد الستار حماد، مولانا عبد الحلیمم بلال، مولانا جاوید اقبال سیالکوٹی، مولانا عبد الرحمٰن یوسف مدنی، مولانا سعید مجتبٰی سعیدی، مولانا ابو عدنان محمد منیر قمر اور مولانا عبد الرؤف بن عبد الحنان کے دستخط ہیں۔ ان دوستوں کی کاوش پر شکریہ ادا کرتے ہوئے ہم اس کی اہمیت و ضرورت کے حوالہ سے یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ بین الاقوامی...

ماں باپ کی زیادہ عمر اور ڈاؤن سنڈروم کا تعلق

خطیب احمد

اہل علم جانتے ہیں کہ صحت اور علاج کے معاملات میں شریعت نے انسان کے تجربے پر مدار رکھا ہے۔ جس چیز کا نقصان طبی تحقیق اور تجربے سے واضح ہو جائے، اس سے گریز کرنا شریعت کا مطلوب ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق معلوم ہے کہ آپ نے توالد وتناسل سے متعلق بعض طریقوں سے اس بنیاد پر منع کرنے کا ارادہ فرمایا کہ ان سے بچوں کی صحت پر زد پڑتی ہے، لیکن پھر معلومات کی اطمینان بخش تصدیق نہ ہونے پر ارادہ تبدیل فرما لیا۔ جدید طبی تحقیقات کی رو سے لڑکی کی شادی کم سے کم کس عمر میں ہونی چاہیے اور بچوں کی پیدائش زیادہ سے زیادہ کس عمر تک ہونی چاہیے، اس کے متعلق اس تحریر...

تحفظ ناموس صحابہ اور عالم اسلام کا داخلی خلفشار

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حضرات صحابہ کرام و اہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ناموس کے تحفظ و دفاع کا مسئلہ ہمیں اس طور پر ہمیشہ درپیش رہا ہے کہ کچھ لوگوں کی تحفظ ناموس صحابہ اور عالم اسلام کا داخلی خلفشارطرف سے ان مقدس ہستیوں میں سے چند ممتاز شخصیات کے خلاف منفی اور توہین آمیز گفتگو کے ردعمل میں اشتعال پیدا ہوتا ہے جو بعض اوقات تصادم کی حد تک جا پہنچتا ہے، جبکہ اس سال ملک بھر میں عام معمول سے ہٹ کر زیادہ تعداد میں اور مختلف مقامات پر ایسا ہوا ہے اس لیے ردعمل اور اشتعال کے دائرہ کا پھیلنا بھی فطری بات ہے جو ہر طرف دکھائی دے رہا ہے۔ عالمی سطح پر ہمیں حضرات انبیاء...

لبرل ازم اور جمہوریت کی ناکامی کی بحث

محمد عمار خان ناصر

اسرائیلی مصنف یوول نوآہ حراری کی کتاب Twenty one Lessons for the 21st Century کا بنیادی موضوع فری مارکیٹ اکانومی اور لبرل ڈیموکریسی کو درپیش انتظامی واخلاقی چیلنجز کی وضاحت ہے۔ حراری کے خیال میں یہ نظام جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی طاقت سے پیدا ہونے والے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے قطعا ناکافی ہیں۔ اختتام تاریخ کا مرحلہ مزید موخر ہو گیا ہے اور انسانی تہذیب ایک بارپھر ’’اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو” جیسی صورت حال سے دوچار ہے۔ کتاب کے انٹروڈکشن میں، حراری نے اس کشمکش کا ذکر کیا ہے جس میں وہ اس تنقید کو سپرد قلم کرنے کے حوالے سے مبتلا رہے۔ حراری...

مسلم معاشروں پر جدیدیت کے اثرات اور اہل فکر کا رد عمل

محمد عمار خان ناصر

’’جدیدیت‘‘ چند سیاسی، معاشی، سماجی اور فکری تبدیلیوں کا ایک جامع عنوان ہے جو مغربی تہذیب کے زیر اثر دنیا میں رونما ہوئیں۔ مسلم معاشروں کا جدیدیت سے پہلا اور براہ راست تعارف استعمار کے توسط سے ہوا۔ استعمار نے مسلم معاشروں کے اجتماعی شعور پر جو سب سے پہلا اور سب سے نمایاں تاثر مرتب کیا، وہ سیاسی طاقت اور آزادی سے محرومی کا تھا اور اس صورت حال کا مسلم شعور سے سب بنیادی نفسیاتی اور فکری مطالبہ یہ تھا کہ وہ اقتدار سے محرومی اور حاکمیت کی حالت سے محکومیت کی حالت میں منتقل ہونے کے حوالے سے اپنا رد عمل متعین کرے۔ اقتدار چھینے جانے پر مزاحمت...

کیسا اسلام اور کون سی جمہوریت؟

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پاکستان کے قیام کے بعد اسلام کے نام پر بننے والی اس ریاست کے ارباب حل و عقد کو سب سے پہلا اور اہم مسئلہ یہ درپیش تھا کہ اس کا دستور اور نظامِ حکومت کیا ہو گا اور حکمرانی کا حق کسے حاصل ہو گا؟ طاقت کے بل پر کسی کو حکمرانی کا حق دینے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ برطانوی استعمار کے تسلط سے ملک کی آزادی اور پاکستان کا قیام دونوں جہادِ آزادی کے ساتھ ساتھ سیاسی عمل، رائے عامہ اور جمہوری جد و جہد کا نتیجہ تھے اور اس تسلسل سے انحراف سرے سے ممکن ہی نہیں تھا۔ کسی خاندان کو حکمرانی کا حق دینا اور اقتدار کو اس کا نسل در نسل کا حق تسلیم کر لینا بھی کوئی...

نفاذ اسلام میں دستوری اداروں کے کردار کا جائزہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

فروری کے آخری عشرہ کے دوران بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ شریعہ اکادمی کے تحت ایک اہم کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا جس میں پاکستان میں نفاذ اسلام کی جدوجہد اور اقدامات کا مرحلہ وار جائزہ لیا گیا اور کانفرنس کی طرف سے اس سلسلہ میں سفارشات پیش کی گئیں۔ شریعہ اکادمی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر مشتاق احمد اور ان کے رفقاء اس وقیع علمی و تحقیقی کاوش پر شکریہ اور مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ملک میں اسلامی احکام و قوانین کے نفاذ کے حوالہ سے علمی و فکری سطح پر ایک سنجیدہ کام دیکھنے میں آیا، خدا کرے کہ متعلقہ ادارے اس کانفرنس کی سفارشات...

سنکیانگ کے مسلمانوں کا مسئلہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

چین کا مغربی صوبہ سنکیانگ جس کی سرحد ہمارے ملک کے ساتھ لگتی ہے اور جو کسی زمانے میں کاشغر کہلاتا تھا، ہمارے پرانے مسلم لٹریچر میں اس کا ایک اسلامی خطہ کے طور پر کاشغر کے نام سے ذکر موجود ہے لیکن بعد میں اسے سنکیانگ کا نام دیا گیا ہے، میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق وہاں مسلمانوں کے ساتھ معاملات بہت پریشان کن اور اضطراب انگیز ہیں کہ وہ ریاستی جبر کا شکار ہیں، انہیں مذہبی آزادی بلکہ شہری آزادیاں بھی حاصل نہیں ہیں۔ ایک عرصہ سے ایسی رپورٹیں چل رہی تھیں مگر ان کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ یہ چین کے خلاف پراپیگنڈا مہم کا حصہ ہے اور چین مخالف عناصر یہ خبریں...

ذرائع ابلاغ کی صورت حال پر عدالت عظمیٰ کا ازخود نوٹس

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے لوکل میڈیا اور کیبل چینلز میں غیر ملکی فلموں اور پروگراموں کی یلغار کا ازخود نوٹس لیا ہے اور چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کا تین رکنی بینچ ان دنوں اس کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ لوکل میڈیا، کیبل انڈسٹریز، سوشل میڈیا اور اس کے ساتھ ساتھ ریاستی میڈیا میں مختلف حوالوں سے اس وقت جو دھماچوکڑی مچی ہوئی ہے اس نے ہر شریف اور محب وطن شہری کو پریشان کر رکھا ہے۔ اور اس یلغار کا دائرہ فکری، سیاسی، مذہبی، اخلاقی، تہذیبی او رثقافتی تمام دائروں تک پھیلا ہوا ہے جس کا مشترکہ مقصد یہ...

ظلم و جبر کے شکار مسلمان۔ حکمت عملی کیا ہو؟

محمد عمار خان ناصر

دور جدید کے سیاسی تغیرات کو گہرائی کے ساتھ نہ سمجھنے یا انھیں بطور ایک امر واقعہ قبول نہ کرنے کی وجہ سے مذکورہ تنازعات سے دلچسپی اور مظلوم مسلمانوں سے ہمدردی رکھنے والے بعض عناصر میں حکمت عملی کے حوالے سے جو عمومی رجحان پیدا ہوا، وہ پر تشدد تصادم کا رجحان تھا اور اسے دور جدید سے ماقبل کے سیاسی تصورات یا کچھ مذہبی ہدایات کے تناظر میں ایک آئیڈیل حکمت عملی تصور کیا گیا۔ اس کی ابتدا پہلے مقامی سطح پر، پر تشدد تحریکوں کی صورت میں ہوئی اور پھر جب تجربے سے یہ واضح ہوا کہ اصل مقابلہ مقامی سیاسی طاقتوں سے نہیں، بلکہ پورے عالمی سیاسی نظام کے ساتھ ہے...

فنا میں بقا کی تلاش

محمد حسین

اس وقت زمینی، فضائی یا بحری طور پر انڈیا اور پاکستان کے مابین عملاً جنگ شروع ہو نہ ہو، مگر دو طرح کے مائنڈ سیٹ کے مابین یہ جنگ عملاً شروع ہو چکی ہے بلکہ عروج پر ہے۔ دونوں ملکوں میں ایک طرف جنگ پسند طبے آپس میں ذرائع ابلاغ، نجی محفلوں، خوابوں اور آپس کی بحثوں میں فتح و شکست کے حساب کتاب میں لگے ہیں۔ یہ طبقہ ردعمل، غلبہ، احساس کمتری و برتری کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر جنگ کو اس وقت کی اہم ترین اور واحد ضرورت اور ذمہ داری سمجھ رہا ہے۔ دوسری طرف دونوں ملکوں میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو فتح و شکست کے خول سے نکل کر سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ فتح و شکست...

برصغیر کی صنعتی و تجارتی حالت ۔ انگریز کی آمد سے پہلے اور بعد میں

مولانا محمد انس حسان

کسی بھی ملک کی صنعت و معیشت اس ملک ترقی کی ضامن ہوتی ہیں۔ انگریز سامراج کی آمد سے قبل یہ خطہ صنعتی ومعاشی لحاظ سے اس قدر خوشحال وترقی یافتہ تھا کہ اسے سونے کی چڑیا کہاجاتا تھا۔ گیارہویں صدی سے انیسویں صدی کے وسط تک ہندوستان تجارتی وصنعتی اعتبار سے بہت نمایاں تھا۔ اس دور میں انگلستان سے جاپان تک ہندوستانی مال فروخت ہوتا تھا۔ دورِ حاضر کے بیشتر یورپی ممالک اس خطہ کی صنعتی وتجارتی منڈیاں تھیں۔ بقول باری علیگ ہندوستان کی صنعتی برتری کااندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے ختم کرنے میں سولہ سال صرف ہوئے۔ (1) انگلستان کے لیے تجارتی اور جنگی جہاز...

ریٹائرڈ اساتذہ کی دوبارہ تعیناتیاں اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بے روزگاری

ڈاکٹر عرفان شہزاد

یونیورسٹی کے مروجہ قوانین کے مطابق یونیورسٹی کے کسی استاد یا ملازم کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس کی دوبارہ تعیناتی کرنے کے لیے دو شرائط رکھی گئی ہیں: ایک یہ کہ اس کا متبادل میسر نہ ہو اور دوسرا یہ کہ ریٹائر ہونے والے استاد کی عمر 65 سال سے زائد نہ ہو۔ صورتِ واقعہ یہ ہے کہ 80 سال سے زائدعمر کے اساتذہ اپنے ذاتی تعلقات کی بدولت، یونیورسٹی کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، اپنے عہدوں پر مسلسل براجمان ہیں، اور ان کے متبادل نوجوان نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ پنشن اور دیگر مراعات وصول کرنے کے باوجود بھی یہ بزرگ اگلے مستحق کے لیے عہدہ چھوڑنے کا...

ارباب اقتدار اور قومی زبوں حالی

چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

چند روز قبل معروف کالم نویس جناب جاوید چوہدری کا کالم ’’ذمہ دار ‘‘نظر سے گزرا۔ موصوف نے لکھنے کا حق ادا کر دیا ہے۔ کالم کا خلاصہ یہ تھا کہ مہاتر محمد کو دل کا عارضہ لاحق ہوا۔ اس وقت وہ ملائشیا کے وزیر اعظم تھے۔ ہارٹ اٹیک میں بے ہوش ہو گئے۔ فسٹ ایڈ کے بعد تشخیصی مراحل میں طے کیا کہ ان کا بائی پاس ہو گا۔ ان کو یہ مشورہ دیا گیا کہ وہ بائی پاس کے لیے بیرون ملک جائیں۔ وہ اس پر آمادہ نہ تھے۔ ڈاکٹروں نے اپنے مشورے پر اصرار کرتے ہوئے بیرونی ملک سہولیات کا حوالہ دیا۔ جناب مہاتر محمد نے جواب میں کہا کہ وہ بیرون ملک علاج کے لیے چلے جائیں اور ان کے ملک کے...

توہین رسالت کیوں ہوتی ہے؟

ڈاکٹر عرفان شہزاد

انسانی رویے، مختلف سماجی، نفسیاتی ،جینیاتی اور عقلی عوامل کا نتیجہ اور رد عمل ہوتے ہیں۔ انسانی رویوں کے باقاعدہ مطالعے کی روایت ہمارے ہاں بوجوہ پنپ نہیں سکی، حالانکہ اس کے بغیر کسی بھی انسانی رویے کی درست تشخیص ہو سکتی ہے اور نہ اس کا علاج ممکن ہے۔ ہمارے ہاں محض علامات دیکھ کر فیصلہ صادر کرنے کا چلن ہے۔ کسی رویے کے پیچھے کیا محرکات ہیں یہ جاننے کی زحمت کم ہی کی جاتی ہے۔ توہین مذہب یا توہین رسالت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ توہین رسالت کے ہزاروں مقدمات پاکستانی عدالتوں میں قائم ہیں، اگر یہ سارے مقدمات درست ہیں، جو کہ درحقیقت نہیں ہیں، تو کیا...

تہذیبی کشمکش کا نیا باب

خورشید احمد ندیم

۲۶ جون کو امریکہ کی سپریم کورٹ نے ایک تاریخ ساز فیصلہ دیا۔ عدالت نے شادی کے اس تصور کو یکسر بدل دیا، صدیوں سے انسان جس سے واقف تھا۔ عدالت کا کہنا ہے کہ اب دو مرد اور دو خواتین بھی ایسے ہی ’میاں بیوی‘ شمار ہوں گے، جیسے مرد اور عورت۔ اگر دو مردیا دو خواتین ایک دوسرے سے ازواجی رشتہ قائم کر نا چاہیں تو قانوناً وہ اس کا حق رکھتے ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی فیصلہ ہے جو صرف امریکہ پر نہیں، ساری دنیا پر اثر انداز ہو گا۔ اس کے نتیجے میں تہذیبوں کا وہ تصادم امر واقعہ بن سکتا ہے، پروفیسرہنٹنگٹن نے ۱۹۹۳ء میں جس کی پیش گوئی کی تھی۔ تاہم یہ تصادم دو جغرافیائی وحدتوں...

عالم اسلام اور تکفیر و قتال کا فتنہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

عالم اسلام میں باہمی تکفیر اور اس کی بنیاد پر قتل و قتال کی روایت نئی نہیں ہے بلکہ شروع دور سے ہی چلی آرہی ہے۔ امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف بغاوت کرنے والے خوارج نے تکفیر کو ہی اپنے امتیاز و تشخص کی علامت بنایا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے چاروں طرف قتل و قتال کا بازار گرم کر دیا تھا۔ وہ نہ صرف حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان مصالحت کے لیے حکم اور ثالث کے تقرر کے فیصلے کو کفر قرار دیتے تھے بلکہ کبیرہ گناہ کے مرتکب عام مسلمانوں کو مرتد قرار دے کر ان کے قتل کو بھی ضروری سمجھتے تھے۔ ان کا استدلال بعض قرآنی آیات کے ظاہری بلکہ خود...

’’دہشت گرد‘‘ کا موقف اس کی زبانی

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

میری اس گزارش پر بعض دوستوں کو الجھن ہوتی ہے کہ کسی کے بارے میں یک طرفہ بات نہیں کرنی چاہیے اور اگر کسی فرد یا گروہ کے بارے میں کوئی شکایت یا اعتراض ہو تو اس سے بھی پوچھ لینا چاہیے کہ تمہارا موقف کیا ہے؟ اس کا موقف از خود طے کرنے کی بجائے اس سے دریافت کرنا چاہیے اور اگر وہ کوئی وضاحت پیش کرے تو اسے یکسر مسترد کر دینے کی بجائے اس کا سنجیدگی اور انصاف کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے۔ ہمارے ساتھ گزشتہ ڈیڑھ صدی سے یہ معاملہ جاری ہے کہ اکابر علماء دیوبند پر گستاخ رسولؐ ہونے کا الزام مسلسل دہرایا جا رہا ہے۔ عبارات پیش کی جا رہی ہیں اور فتوؤں پر فتوے جاری ہو...

اسلامی ممالک میں مذہبی انتہا پسندی: اسباب اور حل

مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

1۔ میری گفتگو عدم اطاعت کے عنوان سے ہوگی کیوں کہ کانفرنس کے عنوان میں یہ پہلو بھی شامل ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اطاعت کے وجوب اور اثبات کے موضوع کو مفتی مصر شیخ احمد شوقی علام حفظہ اللہ تعالی نے تفصیل سے بیان فرمادیا ہے۔ 2۔ عصرحاضر کی بڑی مشکل یہی عدم طاعت ہے یعنی مسلم معاشروں اور مسلم ملکوں میں حکمرانوں کی اطاعت نہ کرنے کا رجحان زیادہ ہے اور اسی سے مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ 3۔ اس سلسلے میں قرآن و سنت کی بعض نصوص کو غلط طور پر بیان کیا جارہا ہے اور ان کے ذریعے سے حکمرانوں کی اطاعت کی سرے سے نفی کی جارہی ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حکمرانوں کی طاعت واجب...

جمہوریت اور پاکستانی سیاست

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اسلام آباد کے بعد جکارتہ بھی الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے خلاف سراپا احتجاج ہے اور ہارنے والوں نے انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے دارالحکومت پر دھاوا بول کر کاروبار زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ جکارتہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے مسلمان ملک انڈونیشیا کا دارالحکومت ہے اور وہاں بھی احتجاجی سیاست نے اسلام آباد جیسا منظر قائم کر دیا ہے۔ جکارتہ کی صورتحال کیا ہے؟ اس کی تفصیلات تو چند روز تک واضح ہوں گی، مگر اسلام آباد کی صورت حال یہ ہے کہ وزیر اعظم سے استعفا کا مطالبہ کرنے والے اور کسی قیمت پر مستعفی نہ ہونے کا اعلان کرنے والے وزیر اعظم...

مذہبی فرقہ واریت: اسباب، نقصانات اور اصلاحی تجاویز

مولانا محمد تہامی بشر علوی

انسانی مزاج و مذاق کے تنوعات، فکر ونظر کی نے رنگیاں، عقل وفہم کی اونچ نیچ، اسا لیب غور وخوض میں کھلا تفاوت اور تاثرات و احساسات کااپنا اپنامستقل جہاں، یہ وہ ناقابل انکار حقیقتیں ہیں جو تعبیر مذہب کے ضمن میں بھی پوری طرح جلوہ گر دیکھی جاسکتی ہیں۔ مذہبی تعبیر کے تنوعات، افکار کاجہاں آباد کرتے ہیں تو افکار نظریہ واعتقاد کا جزو بن جاتے ہیں۔ یوں ہر نظریہ وعقیدہ اپنے حاملین تلاش کرتاہے۔ نتیجہ معلوم کہ مذہبی برادری مختلف عقائد ونظریات میں بٹ جاتی ہے۔پھر بتدریج یہ تنوع، غلو و تعصب کی اور یہ تعصب ،تفرق وتشتت کی مکروہ صورتوں میں ظہور پذیر ہونے لگتا...

شہید کون؟ کی بحث

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جس طرح امریکہ نے ڈرون حملہ کے ذریعہ حکیم اللہ محسود کو قتل کر کے یہ بات ایک بار پھر واضح کر دی ہے کہ وہ حکومت پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات کی کسی کوشش کو کامیاب نہیں دیکھنا چاہتا، اسی طرح پاکستانی میڈیا کے بعض سرکردہ لوگوں نے بھی اپنی اس پوزیشن کا رہا سہا ابہام دور کر دیا ہے کہ ان کی ترجیحات میں سسپنس پیدا کرنے اور ذہنی و فکری خلفشار فروغ دینے کو سب باتوں پر فوقیت حاصل ہے۔ حتیٰ کہ ملک و قوم کے مجموعی مفاد کو بھی وہ سب کچھ کر گزرنے کے بعد ہی دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ اس موقع پر شہید یا غیر شہید بحث چھیڑنے کا مقصد (یا کم از...

میڈیا کا محاذ اور ہماری ذمہ داریاں

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۲۳ جنوری ۲۰۱۲ء کو پریس کلب لاہور میں ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا جس میں جناب امجد اسلام امجد، جسٹس (ر) نذیر غازی، جناب اوریاہ مقبول جان اور دیگر ممتاز دانش ور بھی شریک تھے۔ سیمینار میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس و حرمت کے حوالہ سے بنائی جانے والی ایک فلم زیر بحث تھی اور اس فلم کا ایک حصہ شرکاء کو دکھایا گیا، میں نے اس موقع پر جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔ بعد الحمد والصلوٰۃ ! اس فلم کے حوالہ سے دو پہلوؤں پر تو کچھ عرض نہیں کر سکوں گا۔ ایک اس کا فنی اور تکنیکی پہلو ہے جس کے بارے میں کوئی تبصرہ کرنے کی پوزیشن میں...

عالم اسلام کے معروضی حالات میں اصل مسئلہ

ڈاکٹر قاری محمد طاہر

مولانا زاہد الرشدی صاحب علم بھی ہیں اور صاحب فکر بھی اور اس کے ساتھ ساتھ صاحب قلم بھی ہیں اور صاحب لسان بھی۔ فکری راست روی کے حامل ہیں۔ ان تمام صفات کے ساتھ ساتھ ان میں فعالیت اور تحرک بھی موجود ہے۔ مولانا پچھلی دو دہائیوں سے ایک علمی و فکری ماہنامہ پابندی سے شائع کر رہے ہیں جس میں ’’کلمہ حق‘‘ کے عنوان سے کسی اچھوتے اور دلوں پر چھاتے ہوئے موضوع پر اظہار خیال کیا جاتا ہے جو قاری کو فکر کی نئی جہتیں عطا کرتا ہے اور صاحب علم کو کچھ کر گزرنے کی تحریک دے جاتا ہے۔ اسی ذیل میں اگست ۲۰۱۲ء کے الشریعہ میں انہوں نے ’’سنجیدہ اور ہوش مندانہ حکمت عملی کی...

منفی اقدار کے فروغ میں میڈیا کا کردار

محمد رشید

جدید دنیا کے تعلیمی اداروں، فکری رہنماؤں، دانشوروں، قلمکاروں اور صحافیوں پر اس مغربی ابلیسی تہذیب کا ایسا سحر طاری ہے کہ اس عریانیت وفحاشی پر مبنی ’’فلم انڈسٹری‘‘کے خلاف اگر کبھی کوئی آواز اٹھتی ہے تو ابلیسی سحر میں گرفتار یہ دانشور،قلمکار اور صحافی انسانیت کی دشمن اس ابلیسی پروگرام کو منوانے کے لیے میدان میں نکل کھڑے ہوتے ہیں اور انسان کی تخریبی صلاحیتوں کو ابھارنے والی اس شیطانی موسیقی اور فلم انڈسٹری کو فن، آرٹ اور تخلیقی صلاحیت کا نام دے کر اسے منوانا چاہتے ہیں اور جو اس پر تنقید کرے اوراس شیطانی انڈسٹری کو فروغ دینے والوں پر تنقید...

نوجوان علماء کرام کی تربیت: ضرورت اور تقاضے

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مجھے سب سے پہلے آج کے اس کنونشن کو اسلام آباد کے ایک اعلیٰ ہوٹل میں منعقد کرنے کے بارے میں کچھ عرض کرنا ہے جسے بعض حلقوں میں تعجب کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے، مگر میں چونکہ ہر بات کو اس کے مثبت اور رجائی پہلو سے دیکھنے کا عادی ہوں، اس لیے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں اس میں افادیت کاایک بڑا پہلو دیکھ رہا ہوں کہ دینی تعلیم اور ذوق کو معاشرہ کے اعلیٰ طبقات میں فروغ دینے کی بھی ضرورت ہے اور دین کا علم اور پیغام ان طبقوں تک پہنچانے کے لیے ان کے معیار اور نفسیات کے مطابق ان تک رسائی وقت کا اہم تقاضا ہے۔ قرآن کریم نے مال و دولت کے بارے میں فرمایا ہے کہ کی...

سال ۲۰۱۲ء اور دنیا کی تباہی کے مفروضے

مولانا محمد عبد اللہ شارق

بعض لوگ اس خوف میں مبتلا ہیں کہ 2012ء میں کچھ ہونے والا ہے۔ کچھ لوگو ں کو اس سال قیامت واقع ہوتی نظر آرہی ہے۔ بعض لوگوں کو دجال کی چاپ قریب سنائی دے رہی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سال بدی کی قوتوں کا امام’’ امریکا‘‘ قدرتی آفات وبلیات کی خوف ناک لپیٹ میں آکر سمندر برد ہوجائے گا۔ بعضوں کا خیال ہے کہ رواں سال ’’اسرائیل‘‘ صفحۂ ہستی سے مٹ جانے والا ہے۔ مغربی معاشرے اس حوالہ سے کچھ یادہ ہی خوف میں مبتلا ہیں۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اس خوف کا اصل بخار مغربی معاشرہ کو ہی چڑھا ہوا ہے۔ان کے بعض حلقوں میں یہ بات عقیدہ کی حد تک راسخ ہوچکی ہے کہ 2012ء...

مولوی انتقام لیتا رہے گا

نجم ولی خان

شاد باغ میں ایک قاری نے بارہ سالہ بچے کو اتنا مارا کہ وہ مر ہی گیا اور یہ ایک ہی جگہ ہونے والا ایک ہی واقعہ نہیں‘ ہمارے بہت سارے ’’عالم دین‘‘ اس کے لیے بدنام ہیں اور اس بدنامی کو بڑھانے میں ہمارے ہی معاشرے کے دین سے بے زار طبقے نے بھی بڑا کردار ادا کیا ہے۔ مگر کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی گئی کہ وہ ’’مولوی‘‘ جسے معاشرے میں عزت‘ وقار کا حامل ہی نہیں، اعلیٰ اخلاقی اقدار کا علم بردار بھی ہونا چاہیے، اس کا یہ رویہ کیوں ہے؟ وہ اپنے مدرسوں میں بچوں کو زنجیروں سے باندھ کر کیوں رکھتا ہے؟ جب وہ سبق پڑھا رہا ہوتا ہے تو اس کے پاس ایک موٹا ڈنڈا کیوں...

پاک بھارت تعلقات: ایک جائزہ (یوگندر سکند کے سوالنامہ کے جوابات)

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

سوال نمبر ۱۔ بھارت اور پاکستان دونوں اپنے قومی تشخص کی بنیاد ایک دوسرے کی مخالفت کو قرار دیتے ہیں۔ آپ کے خیال میں ایسی صورت حال میں دونوں ملکوں کے مابین پرامن تعلقات حقیقتاً ممکن ہیں؟ جواب: قیامِ پاکستان کے وقت پاکستان کے قومی تشخص کی بنیاد یہ تھی کہ جنوبی ایشیا کے مسلمان ایک الگ قوم ہیں اور اپنے دین کے حوالے سے الگ تشخص رکھتے ہیں، اس لیے جس خطے میں ان کی اکثریت ہے، وہاں ان کی الگ ریاست قائم ہونی چاہیے، بالکل اسی طرح جیسے ایسٹ تیمور میں مسیحی اکثریت وہاں الگ ریاست کا باعث بنی اور اب جنوبی سوڈان اسی مسیحی اکثریت کے حوالے سے الگ ملک بننے جا رہا...

کورٹ میرج: چند قانونی اور معاشرتی پہلو

چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

ہمارے ہاں کورٹ میرج کا ایک عام تصور پھیلا ہوا ہے، حالانکہ اس کا نہ قانونی وجود ہے اور نہ ہی کوئی بنیاد۔ (البتہ ایک رائے کے مطابق non-believers یعنی غیر اہل ایمان کا چونکہ کوئی خاندانی نظام دویعت شدہ نہیں ہوتا، ان کے لیے بعض نظائر کی بنیاد پر کورٹ میرج کا تصور موجود ہے۔ یہ واضح رہے کہ غیر اہل ایمان میں مسلمان، ہندو، سکھ، یہودی اور عیسائی شامل نہیں۔ اس طرح پاکستان میں ایسے غیر اہل ایمان کی تعداد چوونکہ برائے نام بھی نہیں، لہٰذا اگر اس رائے کے مطابق ایسا کو تصور ہو بھی تو اس کی اہمیت باقی نہیں رہتی۔) اس کے باوجود یہ تصور عام سطح سے لے کر اچھے خاصے پڑھے...

جہادِ کشمیر کی شرعی بنیادیں

ڈاکٹر عصمت اللہ

تغیر، ارتقا اور تبدیلی انسانی زندگی کا لازمی خاصہ ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ حرب و ضرب اور جنگ کے مفہوم میں بھی مرورِ ایام کے ساتھ کافی تبدیلی واقع ہو چکی ہے۔ اب یہ لفظ کئی طرح کی مختلف النوع جنگوں پر بولا جاتا ہے، مثلاً معروف عسکری زمینی جنگ، الیکٹرانک جنگ میڈیا کی جنگ، میزائیلوں کی جنگ، حیاتیاتی جنگ، کیمیائی جنگ، ایٹمی جنگ، نفسیاتی جنگ وغیرہ ۔ جنگ کی ان مختلف اقسام میں سے آخری قسم یعنی نفسیاتی جنگ اپنے نت نئے اور جدید ترین فکری اور نفسیاتی حربوں کی بدولت نظریاتی و جہادی تحریکوں کے حق میں دور حاضر کی سب سے خطر ناک اور تباہ کن جنگ تصور کی جاتی ہے۔...

ایں آہِ جگر سوزے در خلوت صحرا بہ!

محمد عمار خان ناصر

ڈاکٹر محمد فاروق خان بھی شہادت کے اس مقام پر فائز ہو گئے جو اس دنیا میں ایک مرد مجاہد کی سب سے بڑی تمنا ہو سکتی ہے۔ پچھلے تیس سال سے ہماری مذہبی اور عسکری قیادت ا س خطے میں جو کھیل کھیلتی چلی آرہی ہے، اس کے نتیجے میں مذہبی انتہا پسندی ’فتنۃ لا تصیبن الذین ظلموا منکم خاصۃ‘ کی صورت میں اپنے منحوس سایے پوری قوم اور پورے ملک پر پھیلا چکی ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس کی بھینٹ چڑھنے والے پہلے فرد نہیں، لیکن انھوں نے ایک مذہبی دانش ور کی حیثیت سے دینی استدلال کے ساتھ جس جرات واستقامت اور بے خوفی کے ساتھ اس کے خلاف کلمہ حق مسلسل بلند کیے رکھا، اس کی کوئی دوسری...

مادری زبانوں کا عالمی دن ۔ کیا ہم شرمندہ ہیں؟

پروفیسر شیخ عبد الرشید

زبان فکر و خیال یا جذبے کے اظہارو ابلاغ کا ذریعہ ہے۔ اس کاکام یہ ہے کہ لفظوں اور فقروں کے توسط سے انسانوں کے ذہنی مفہوم و دلائل اور ان کے عام خیالات کی ترجمانی کرے۔ Oliver Wendell Holmes کے مطابق: "Language is the blood of the soul into which thoughts run and out of which they grow." زبان ایک ایسا سماجی عطیہ ہے جو زمانے کے ساتھ ساتھ ایک نسل سے دوسری نسل کو ملتا رہتا ہے اس طرح زبان انسان کی تمام پچھلی اور موجودہ نسلوں کا ایک قیمتی سرمایہ اور اہم میراث ہے ۔زبان ایک ایسے لباس کی طرح نہیں ہے کہ جسے اُتار کر پھینکا جا سکے بلکہ زبان تو انسان کے دل کی گہرائیوں میں اُتری ہوئی ہوتی ہے۔یہ خیالات کی حامل...

دینی جدوجہد کے عصری تقاضے اور مذہبی طبقات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

متحرک جماعتی زندگی سے کنارہ کشی کے بعد گزشتہ دو عشروں سے راقم الحروف دینی جدوجہد کے عصری تقاضوں اور دینی جماعتوں اور طبقات کی ذمہ داریوں کے حوالے سے کچھ نہ کچھ گزارشات پیش کر رہا ہے۔ معروضی حالات کے تناظر میں اس ’’صدائے فقیر‘‘ کے بعض پہلووں کو یہاں دہرانا مناسب معلوم ہوتا ہے: پاکستان میں نفاذ شریعت کے لیے صرف سیاسی اور پارلیمانی جدوجہد کافی نہیں ہے، بلکہ پبلک دباؤ اور عوامی قوت بھی اس کی ناگزیر ضرورت ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ماضی کی طرح غیر سیاسی دینی قوتیں اور جماعتیں بھی میدان میں متحرک رہیں۔ بالخصوص اس وقت ایک نئی دینی جماعت کی ضرورت...

مذہبی طبقات، دہشت گردی اور طالبان ۔ ایک سوالنامہ کے جوابات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۱۔ پاکستان میں موجودہ کشمکش کے بارے میں اور خاص طورپر طالبان کی قسم کے گروہوں کے سامنے آنے سے جو صورت حال پیدا ہوئی ہے، اس کے اسباب کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ اس میں پاکستانی ریاست، ایجنسیوں اور امریکا کا کیا کردار ہے؟ جواب : پاکستان کی موجودہ کشمکش کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اس فکری اور نظریاتی پس منظر کوسامنے رکھا جائے جس میںیہ کشمکش اس مقام تک پہنچی ہے۔ یہ فکری اور نظریاتی کشمکش قیام پاکستان کے بعد فوراً ہی شروع ہوگئی تھی کہ پاکستان کے معاشرتی ڈھانچے اور دستوری وقانونی نظام کی بنیا د کیاہو گی؟ وہ عناصر جنھوں نے برصغیر میں ایسٹ انڈیا...

آزادی کی پر تشدد تحریکیں: سبق سیکھنے کی ضرورت

ڈاکٹر عبد القدیر خان

کشمیر کے مجوزہ حل کے بارے میں پرویز مشرف اور خورشید محمد قصوری نے کئی بیانات دیے ہیں اور یہ غلط تاثر دیا ہے کہ جیسے ہندوستان کشمیر کو پلیٹ پر رکھ کر ان کو دے رہا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کا بنیادی اصول یہ رہا ہے کہ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ انگ یعنی ناقابل جدا حصہ ہے اور ہندوستان بشمول کشمیر کی سرحد میں ایک انچ کا بھی ردوبدل نہ ہوگا۔ آپ خود ہی سوچیے اور ان دو سابق حکمرانوں سے دریافت کیجیے کہ وہ کون سی شرائط تھیں جن پر ہندوستان قضیہ کشمیر کوحل کرنے پر راضی تھایا ہمیں دینے کو تیار تھا؟ حیدر آباد، جونا گڑھ اور مانا ودر کو بھی نہ بھولیے۔ حقیقت یہ...

والد محترم کے ساتھ ایک ماہ جیل میں

مولانا عبد الحق خان بشیر

حضرت والد محترم نور اللہ مرقدہ کے زیر سایہ و زیر تربیت ہم سب بہن بھائیوں نے اپنے اپنے ذوق و ظرف کے مطابق جو کچھ بھی حاصل کیا‘ وہی ہمارا اصل سرمایہ حیات ہے۔ اگر ہم اس سرمایہ کی حفاظت کر سکیں تو یقیناًہمارے لیے ہدایت و نجات کی منزلیں طے کرنا آسان ہو گا۔ انہوں نے اہل السنت والجماعت کے جن متواتر واجماعی اصول و ضوابط کی روشنی میں ہمارے افکار و نظریات کو پروان چڑھایا، ہم پر ان کی حفاظت ایک شرعی اور موروثی ذمہ داری ہے۔ خدا تعالیٰ ہمیں ان کی حفاظت کی توفیق بخشے۔ آمین۔ ہم سب بھائیوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خصوصی فضل و کرم کے ساتھ کسی نہ کسی انداز میں...

مالاکنڈ ڈویژن میں شرعی نظام عدل ریگولیشن کا نفاذ ۔ چند اہم دستوری اور قانونی مسائل

محمد مشتاق احمد

مالاکنڈ ڈویژن میں ایک دفعہ پھر شرعی نظام عدل ریگولیشن کا نفاذ کردیا گیا ہے جس کے بعد سے اس ریگولیشن کے مختلف پہلوؤں اور ان کے سیاسی و سماجی اثرات پر اہل علم کی بحث جاری ہے۔ بعض لوگوں نے اسے نفاذ شریعت کی طرف ایک اہم قدم قرار دیا ہے تو بعض دیگر لوگ اسے ’’طالبانائزیشن‘‘ اور انتہا پسندی کے مقابلے میں جمہوری اور لبرل قوتوں کی شکست سے تعبیر کررہے ہیں۔ اس مقالے میں ہماری کوشش یہ ہے کہ جذباتیت اور تعصب سے بالاتر ہوکر خالص معروضی قانونی نقطۂ نظر سے اس ریگولیشن کا جائزہ پیش کیا جائے اور اس سے متعلق چند اہم دستوری اور قانونی مسائل پر بحث کی جائے۔ مسودے...

عالمی امن کے فروغ میں اہلِ قلم کا کردار

پروفیسر ڈاکٹر محمد نظام الدین

’’ماضی کا فن کار ظلم و تشدد کے موقع پر کم از کم خاموشی اختیار کر سکتا تھا ۔ ہمارے اپنے زمانے میں جبرو تشدد نے اپنی شکل بدل لی ہے ، جب صورتِ حال یہ ہو تو فن کار خاموشی یا غیر جانب داری کیسے اختیا ر کر سکتا ہے؟ اسے کوئی نہ کوئی راستہ ، موافقت یا مخالفت کا اختیار کرنا پڑے گا ۔ بہر حال آج کے حالات میں میرا موقف یقیناًمخالفانہ ہو گا ‘‘۔ البئر کامیو (Albert Camus)۔ خواتین و حضرات ...! معاشرہ تحریر و تخلیق کے ذریعے خود کوتلاش کرتا ہے ۔ تخلیقاتِ انسانی ،معاشرتی، تہذیبی اور مادی زندگی کا اہم اور منفرد اظہار ہوتی ہیں۔ اِن کا تعلق پوری زندگی کے تجربوں اور خود...

امریکہ میں مسلمانوں کی دینی سرگرمیاں

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

میں ۲ اگست کو نیو یارک پہنچا تھا۔ ۹؍ اگست تک کوئنز کے علاقے میں واقع دینی درس گاہ دار العلوم نیو یارک کے سالانہ امتحانات میں مصروف رہا جہاں درس نظامی کا وہی نصاب پڑھایا جاتا ہے جو ہمارے ہاں کے مدارس میں مروج ہے۔ برطانیہ اور امریکہ میں بیسیوں مدارس اس نصاب کے مطابق نئی نسل کی دینی تعلیم وتدریس میں سرگرم عمل ہیں۔ طلبہ کے مدارس بھی ہیں اور طالبات کے مدارس بھی ہیں۔ درس نظامی سے میری مراد یہ ہے کہ بنیادی ڈھانچہ اور اہداف وہی ہیں کہ دینی تدریس وتعلیم اور امامت وخطابت کے لیے رجال کار تیار کیے جائیں اور قرآن وسنت اور فقہ اسلامی کے ساتھ ان علوم وفنون...

مذہبی رویے: چند اصلاح طلب امور

ادارہ

ہمارے ملی ادارے جوکبھی عوام کے سامنے جواب دہ ہوتے تھے، آہستہ آہستہ ذاتی اورموروثی اداروں میں بدلتے جارہے ہیں۔ ہر ادارے کے منتظم کی یہ خواہش چھپی نہیں رہتی کہ ادارہ اس کی اولاد اور خاندان تک محدود ہو کر رہ جائے۔ یہ ساری ریشہ دوانیاں اور اتھل پتھل، کہیں دبی دبی بے چینی اور کہیں کھلا کھلا انتشار سب اسی خواہش کانتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ اصل میں اس طرز عمل سے بہت سے حق داروں کی حق تلفی ہوتی ہے اور وہ کھلاپن باقی نہیں رہتاکہ ہرشخص کو اپنی قابلیت کے جوہر دکھانے اور ترقی کرنے کے مساوی موقعے مل سکیں۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ جب حق داروں کوان کاحق نہیں ملتا اور...

مسلمانوں کے باہمی اختلافات اور ایک نو مسلم کے تاثرات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

برطانیہ کے حالیہ سفر کے دوران مجھے دو روز اسکاٹ لینڈ کے دار الحکومت ایڈنبرا کے قریب ایک بستی ’’ڈنز‘‘ میں اپنے بھانجے ڈاکٹر سبیل رضوان کے ہاں گزارنے کا موقع ملا۔ رضوان کو اللہ تعالیٰ نے گزشتہ دنوں تیسری بچی دی ہے اور ۸؍ اپریل کو اس کی بڑی بچی کی سالگرہ تھی۔ رضوان نے ڈرتے ڈرتے مجھ سے پوچھا کہ اس کی اہلیہ کہہ رہی ہے کہ اگر ہم بچی کی سالگرہ پر کیک کاٹ لیں تو ماموں ناراض تو نہیں ہوں گے؟ میں نے کہا کہ نہیں بیٹا، ناراضگی کی کون سی بات ہے۔ اصل میں اس کا یہ خیال تھا کہ ایک غیر شرعی رسم ہونے کی وجہ سے میں اس پر غصے کا اظہار کروں گا جبکہ ایسے معاملات میں...

عام انتخابات اور متحدہ مجلس عمل کا مستقبل

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ملک میں عام انتخابات کی آمد آمد ہے اور بڑی بڑی سیاسی پارٹیاں لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں اتر چکی ہیں۔ قاضی حسین احمد، عمران خان اور محمود خان اچکزئی کی جماعتوں کے ساتھ ساتھ وکلا کی نمائندہ تنظیموں نے انتخابات کا بائیکاٹ کر رکھا ہے جبکہ ان کے علاوہ کم وبیش تمام سیاسی ودینی جماعتیں الیکشن کے عمل میں شریک ہیں اور دن بدن انتخابی مہم میں تیزی آ رہی ہے۔ ۸؍ جنوری ۲۰۰۸ کو ہونے والے ان انتخابات پر دنیا بھر کی نظریں لگی ہوئی ہیں اور مختلف ممالک اور عالمی اداروں کی طرف سے ان کے نمائندے الیکشن کے عمل کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان آنے والے...

وکلا تحریک کے قائدین کی خدمت میں چند معروضات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

چودھری اعتزاز احسن صاحب ہمارے ملک کے نامور وکلا اور معروف سیاست دانوں میں سے ہیں اور قومی حلقوں میں ان کا تعارف ایک شریف النفس، شائستہ اور دانش ور راہ نما کے طور پر ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس افتخار محمد چودھری جب دستور کی بالادستی اور عدلیہ کے وقار کی بحالی کے لیے میدان میں آئے تو ان کے قریبی رفیق کار کے طور پر مسلسل ان کا ساتھ دے کر چودھری اعتزاز احسن نے اپنی عزت میں مزید اضافہ کیا اور اسی کے نتیجے میں انھیں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا صدر چن کر ملک بھر کے وکلا نے دستور کی بحالی اور عدلیہ کی بالادستی کے لیے اپنی...
1-50 (91) >
Flag Counter