رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’دنیا سے علم یوں اٹھایا جائے گا کہ اہل علم دنیا سے اٹھا لیے جائیں گے۔‘‘ حضرت مولانا سرفراز خاں صفدرؒ مرحوم کی وفات اسی حدیث کی عملی شکل دکھائی دیتی ہے۔ حضرت مرحوم میں علم اور عمل دونوں کا حسین امتزاج موجود تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی گفتگو میں اللہ تعالیٰ نے اس قدر تاثیر رکھی ہوئی تھی کہ سننے والے کے دل میں اتر جاتی۔ آپ کے اندازِ تقریر میں سادگی اور برجستگی تھی۔ گفتگو مسجع مقفع خطیبانہ لفاظی اور غیرضروری جوش خطابت سے بالکل مبرّا ہوتی لیکن دل میں اتر جاتی۔ جب میں گورنمنٹ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ میں بی اے کا طالب علم تھا، اس وقت کالج کی اسلامیات سوسائٹی کی ایک تقریب میں مولانا کو بطور مقرر دعوت دی گئی۔ ہمارا خیال تھا کہ حکم ہوگاکہ گاڑی بھیج دینا، لیکن کمالِ سادگی اور کمال شفقت سے فرمایا کہ میں خود تانگے پر آجاؤں گا۔ میرے اصرار کے باوجود آپ خود ہی تانگے میں تشریف لائے۔ اپنے انداز کے مطابق بالکل سادہ تقریر فرمائی لیکن اس میں اس قدر تاثیر تھی کہ میں نے کالج کے کئی اساتذہ کو دیکھا کہ ان کی آنکھوں میں آنسو اور دل پر عجیب رقت طاری تھی اور کہہ رہے تھے کہ ’’ہم تو ویسے ہی بہروپیے بن کر اپنے آپ میں خوش ہو رہے ہیں، اصل اللہ والے لوگ تو یہ ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے مولانا کو یہ صلاحیت بھی عطا کررکھی تھی کہ آپ مخاطبین اور سامعین کی استعداد کے مطابق بات کرتے۔ آپ کو اعلیٰ فوجی افسروں، اساتذہ کرام اور عوام کے ہر طبقہ سے خطاب کے مواقع ملے۔ آپ زندگی بھر گکھڑ کی جامع مسجد میں عوام سے بھی خطاب کرتے رہے۔ مخاطبین کی ذہنی سطح کے مطابق ہر مجلس میں خطاب فرماتے۔ گورنمنٹ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ گکھڑمیں زیرِ تربیت اساتذہ کو بھی درس دیتے رہے۔ اس درس میں ہر مکتب فکر کے لوگ موجود ہوتے۔ اوٹی کے کورس میں شامل لوگوں میں علما بھی ہوتے تھے۔ بعض اوقات ان میں کچھ لوگ فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتے، لیکن آپ کا بیان اس قدر عالمانہ اور فرقہ وارانہ رجحان سے اس قدر مبرّا ہوتا کہ پورا ماحول ہم آہنگی اور یک جہتی کی تصویر بنارہتا۔ تمام مکاتبِ فکر کے لوگ آپ کا احترام کر تے۔
آپ ان ہستیوں میں سے تھے جنہیں دیکھ کرا للہ یاد آتاہے۔ آپ کے دروس کے دوران اکثر مجھ پر ایسی کیفیت طاری ہو جاتی کہ گویا میں اپنے اندر جھانک کراپنے گناہوں پرا پنے آپ کو ملامت کررہا ہوں اور ا پنی عملی کوتاہیوں پر نگاہ ڈال رہا ہوں اور اندر ہی اندر اللہ سے عہد کررہا ہوں کہ میں اپنی اصلاح کروں گا۔ آپ کے درس سے اٹھنے کے بعد ایک روحانی لطافت محسوس ہوتی۔ یہ کیفیت میرے ساتھ خاص نہیں۔ بیسیوں لوگوں سے اس موضوع پر بات ہوئی اور ہرکوئی ایسی کیفیت کا تذکرہ کیا کرتا تھا۔ یہ کیفیت اللہ والوں کی مجلسوں میں ہی حاصل ہوتی ہے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مجھے علم دین میں جتنی بھی شد بد ہے، ا س کا ساٹھ ستر فی صد مولانا کی صحبت اور مجلس کافیضان ہے۔ اس کے ساتھ جوتھوڑا بہت اللہ کاخوف یا نیکی سے محبت اور شر سے نفرت ہے، وہ بھی آپ ہی کی تربیت کافیض ہے۔
مولانا کی زندگی نظم وضبط اور پابندئ وقت کا بہترین نمونہ تھی۔ روزانہ کے معمولات میں گکھڑ میں درس قرآن وحدیث، گوجرانوالہ میں تدریسی فرائض، آرام کے اوقات، مطالعہ کے اوقات، مسائل پوچھنے کے لیے آنے والوں کا وقت اور گورنمنٹ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں درس شامل تھے۔ ان میں کبھی تقدیم یاتاخیر نہیں ہوئی۔ ہر کام اپنے وقت پر سرانجام دیا جاتا۔ امامت اور درس میں وقت کی پابندی کا اس قدر اہتمام تھا کہ درس کے آغازواختتام میں کبھی ایک منٹ کی بھی تاخیر نہیں ہوئی۔ نماز کے لیے مسجدمیں داخل ہونے کاوقت سیکنڈوں کے اعتبار سے متعین تھا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ نمازیوں کو چند سیکنڈ بھی انتظار کرنا پڑا ہو۔ درس کے فوراً بعد گوجرانوالہ روانگی کاوقت بھی لمحات کے ساتھ متعین تھا۔
مولانا مرحوم مومنانہ فراست وبصیرت سے بھی مالامال تھے۔ تعبیر رؤیا میںآپ کو خصوصی ملکہ حاصل تھا۔تقویٰ وخدا خوفی، اخلاصِ نیت، اعلیٰ اقدار کاہر قسم کی صورتِ حال میں خیال رکھنا، دوسروں کااحترام، جیو اور جینے دو کااصول (رواداری) آپ کی زندگی کے بنیادی اصول تھے۔ گکھڑ میں ایک زمانے میں ایسے مواقع آئے جب بڑی اشتعال انگیز صورتِ حال پیداہوجاتی، لیکن مولانا مرحوم نے اپنے مقتدیوں کوتحمل اور بردباری کا پابند کیے رکھا اور آپ کی وجہ سے ماحول تکدر کا شکار ہونے سے بچارہا۔
دفاع وابلاغ دین آپ کی زندگی کا مطمح نظر تھا۔ پوری زندگی اسی جدجہد میں گزاری۔ تقریرو تحریرکے ذریعے اسلامی عقائد کی وضاحت اور عقائد کے بارے میں پیدا کردہ ابہامات اور غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے اپنی زندگی وقف کردی۔ آپ نے بہت سے کلامی موضوعات پر قرآن وسنت اور امت کے اجماعی نقطہ نگاہ کی بنیاد پر بڑے مدلل اورمؤثر انداز سے لکھا۔ آپ کی کتب برصغیر کے علم الکلام میں ایک قیمتی اضافہ ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ میں کئی ایسے مرحلے آئے جب مختلف خارجی عوامل کے زیرِ اثر عقائد اسلام کے بارے میں کئی غلط فہمیاں در آئیں۔ ہر موقع پراللہ تعالیٰ نے ایسے مصلحین پیدا کیے جنہوں نے عقائد اسلامی کی وضاحت اور غلط عقائدکی دلائل وبراہین کے ذریعے اصلاح کاکام کیا۔ اشاعرہ، ماتریدیہ، امام ابن تیمیہؒ اور ان کے شاگرد، مجدد الف ثانی ؒ اورشاہ ولی اللہ ؒ کے نام مثال کے طورپر پیش کیے جا سکتے ہیں۔ اگر یہ تحریکیں پیدانہ ہوتیں اور یہ حضرات اصلاحِ عقائد کا بیڑہ نہ اٹھاتے تو معلوم نہیں اسلامی عقائد میں کیا کیابیرونی آلائشیں شامل ہوجاتیں۔ اصلاحِ عقائد میں مولاناسرفراز خاں صفدرکی کاوشیں بڑی قابلِ قدر ہیں۔ آپ نے اسلام کے تصورِ توحید کی قرآن وسنت کی روشنی میں جس طرح وضاحت کی، وہ وقت کی ایک اہم ضرورت تھی۔ گلدستۂ توحید میں آپ نے نہ صرف تصور توحید کی اہمیت وضاحت سے بیان کی بلکہ اس کے اثبات میں مؤثر عقلی ونقلی دلائل کے انبار لگا دیے۔ ااُس زمانے میں مختلف تاویلات کے ذریعے توحید اور شرک کو خلط ملط کرنے کی کوششیں ہورہی تھیں توآپ نے دلائل وشواہد کی بنیاد پر واضح کیا کہ مشرکین اللہ کی مالکیت وخالقیت کے منکر نہ تھے بلکہ ان کاشرک یہ تھاکہ وہ خداے واحد کے علاوہ اور قوتوں کو بھی اللہ کاشریک سمجھتے تھے۔ آپ کے دور میں شرک کو Dilute کرکے مختلف تاویلات کے ذریعے عقیدت ومحبت کے رنگ میں پیش کرنے کارجحان پیدا ہورہا تھاتوآپ نے بڑے مؤثر دلائل کے ساتھ ان سوراخوں کو بند کیا۔اصلاحِ عقائد کے حوالے سے تسکین الصدور، ازالۃ الریب، راہِ سنت، آنکھوں کی ٹھنڈک، دل کاسرور، مقالہ ختم نبوت وغیرہ خصوصاً قابلِ ذکر ہیں۔
انکارِ حدیث کے نتائج کے حوالے سے آپ کی کتابوں کو اولین تصانیف کی حیثیت حاصل ہے۔ ان کتب میں بنیادی اسلامی مآخذ اور امت کے اجماعی نقطہ نگاہ کی روشنی میں آپ نے منکرینِ حدیث کی تمام کوششوں سے پردہ اٹھایا اور اسلام میں حدیث کی اہمیت کو متعارف کروایا۔ اگرچہ بعد میں اس موضوع پر بہت سی کتابیں معرضِ وجود میں آئیں، لیکن آپ نے اس موضوع پر لکھنے کی راہیں کھولیں اور فتنہ انکارِ حدیث کے زہریلے اثرات سے لوگوں کوروشناس کرایا۔
تحقیق کے شعبے میں جدید دَور میں اصول وضوابط منضبط ہوگئے ہیں اورحوالہ وغیرہ دینے کامخصوص انداز اختیار کیاجاتاہے۔ اسی طرح تحقیق کی مختلف اقسام بھی ہیں۔ اگر اس معیار پر مولانا علیہ الرحمۃ کی کتابوں ا وران کے اسلوب کاجائزہ لیاجائے تومعلوم ہوتاہے کہ مولانا ایک محقق کے انداز سے لکھتے ہیں آپ کی تحریرات کے مآخذ بنیادی ہیں۔ سب سے پہلے قرآن حکیم، پھر احادیثِ نبویہ،اقوالِ صحابہ، تابعین کے اقوال، تبع تابعین کے آثار اور اس کے بعد ائمہ کا نقطہ نگاہ ان کی اصل کتابوں کے حوالے سے پیش کرتے ہیں اور ان کے مکمل حوالہ جات پیش کرتے ہیں۔ تحقیق کے بنیادی اصولوں میںیہ بات شامل ہے کہ کسی بھی بات کی تہہ تک پہنچے بغیر کوئی رائے نہ دی جائے۔ مولاناکایہ اصول ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص کی عبارت کامعنی ومفہوم خود اپنی طرف سے بیان نہیں کرتے بلکہ اس کا وہی مفہوم اختیار کرتے ہیں جو لکھنے والے نے خود بیان کیاہو۔
تحقیق کی مختلف اقسام ہیں جن میں بنیادی تحقیق، تنقید، اطلاقی تحقیق وغیرہ شامل ہیں۔ آپ کی کتب میں تحقیق کی یہ تمام صورتیں موجود ہیں۔ جب مولانا دوسرے کے نقطہ نگاہ کاتجزیہ کرتے ہیں تواس کے حق میں پیش کردہ روایت کے درجے اور اس کے راویوں کے بارے میں اسماء الرجال کے ماہرین کی آرا کاتجزیہ کرتے ہوئے روایت ودرایت کے اصولوں کے مطابق اس پر تنقید کرتے ہیں۔ فریقِ مخالف کے دلائل کا عقلی ونقلی بنیادوں پر تجزیہ بھی کرتے ہیں۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ مولانا ایک ’’محقق مصنف‘‘ ہیں۔ اپنے نقطہ نگاہ کوحکایتوں اور روایتوں کے سہارے پیش نہیں کرتے بلکہ تحقیق کا اسلوب اپناتے ہیں ۔
مولاناسرفراز خاں صفدرکی تحریرات میں سادگی، فکری تسلسل اورمنطقی ترتیب موجود ہے۔ آپ اپنا نقطہ نگاہ بڑے اعتماد اور وضاحت سے بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نقطہ نگاہ منطقی ترتیب کے ساتھ پیش کرتے ہیں اور اس کی تائیدمیں دلائل کی لڑی پرو دیتے ہیں۔ بعض لوگوں کی عبارات میں جب دلائل کی کثرت آتی ہے تو تحریر میں بھاری پن پیداہوجاتاہے اور پڑھنے والا بڑی کوشش کے بعد ہی ان دلائل کو سمجھ پاتاہے، لیکن مولانا کی تحریرات میں ایسا بھاری پن نہیں ہوتا۔ قاری بڑی آسانی اور ذوق وشوق کے ساتھ تحریرمیں منہمک رہتا اوردلائل حاصل کرتاہے۔ آپ کی تحریرات میں تسلسل ہے۔ قاری کے ذہن میں بات ایک ترتیب کے ساتھ بیٹھتی چلی جاتی ہے۔
مولانا کی تمام کتابیںآپ کے تبحرِ علمی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ آپ کا مطالعہ قرآن مجید، تفاسیر، احادیث کے بڑے بڑے مجموعوں، اسلاف کے علمی سرمایے اور کتب کو محیط ہے۔ وسعتِ نظر، بلند خیالی، نقطہ نگاہ میں گہرائی اور گیرائی مولانا صفدر کے بنیادی اوصاف میں شامل ہے۔ ان تمام اوصاف کا آپ کی کتابوں میں جابجا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات افسوس ناک ہے یا ہماری کوتاہی ہے کہ آپ کی تصانیف پاکستان کی یونیورسٹیوں اور ملک کی بڑی بڑی لائبریریوں میں موجود نہیں ہیں۔ ان کتابوں کوایک طرح سے ایک مکتبِ فکر کی نمائندہ کتب سمجھ لیاگیا ہے اور انھیں ایک مکتبِ فکر میں محدود کردیا گیا ہے، حالانکہ یہ کتابیں محض ایک مکتب فکر کے نقطہ نگاہ کی نمائندہ نہیں بلکہ اسلامی عقائد کی توضیح واثبات اور علم الکلام کا عظیم سرمایہ ہیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ان کتابوں کوملک کی بڑی بڑی لائبریریوں تک پہنچایا جائے۔ مختلف جرائد میں کتابوں پر تبصرے شائع ہوتے ہیں۔ یہ تبصرے بھی کسی کتاب کے تعارف میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ مولانا کی کتب پر مختلف جرائد میں تبصرے شائع کرائے جائیں تاکہ ان میں موجود علم الکلام کا عظیم ذخیرہ وسیع تربنیادپر منظرِ عام پر آئے۔
کوئی درخت اپنے پھل اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد سے قیمتی بنتا اور پہچانا جاتا ہے۔ مولاناسرفراز خاں صفدرؒ کا ایک پھل ان کے ہزاروں شاگرد ہیں جو دنیا کے کونے کونے میں تبلیغ واشاعت اور دفاع دین کے کام میں مشغول ہیں۔ اس تناور درخت کا دوسرا ثمرہ آپ کی تصانیف ہیں جو دفاع دین کے حوالے سے اس قدر علوم ومعارف اورعقلی ونقلی دلائل سے بھری ہوئی ہیں کہ برصغیر کے علم الکلام پر لکھنے والا کوئی شخص ان سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ اس قدآور درخت کاتیسرا ثمر آپ کی اولاد ہے۔ یہ بات مولانا کے لیے باعثِ بخشش بھی ہے اورقابلِ فخر بھی کہ آپ کی تمام اولاد حافظ قرآن اور عالمِ دین ہے۔ یہ حافظوں اور عالموں کا خانوادہ ہے۔ میرا اپنا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ آپ کی تمام اولادکا حافظ وعالم ہونا اس بات کی دلیل اور ثبوت ہے کہ آپ ایک باعمل انسان تھے۔ آپ کی اولاد نے آپ کی شخصیت میں علم و عمل کو یکجا دیکھا، تقویٰ اور پرہیزگاری کے صرف درس نہیں سنے بلکہ اپنے والدِمحترم کوتمام اسلامی تعلیمات کاعملی نمونہ اور تمام مکارمِ اخلاق کامرقع پایا۔ اولاد کو آپ کے قول وفعل میں تضاد نظر نہیں آیا، اسی لیے ان کی اولاد کے لیے مولانا کی ہستی ایک عملی نمونہ ٹھہری اور انہوں نے اسی لائن کو اختیار کیا جس کاعملی نمونہ انہوں نے اپنے والدِ محترم میں دیکھا۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ عالموں کی اولاد حافظ اور عالم نہیں بنی، لیکن مولاناسرفراز خاں صفدرؒ اس اعتبار سے ایک منفرد حیثیت رکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی پوری اولاد کودین کے لیے وقف کردیا۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ راحت نصیب فرمائے، انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطاکرے اور ان کی تمام دینی خدمات کو ان کے لیے صدقۂ جاریہ بنائے۔ آمین