آراء و افکار

حافظ صفوان محمد کے جواب میں

طلحہ احمد ثاقب

محب گرامی حافظ محمد صفوان نے ’’سماجی، ثقافتی اور سیاسی دباؤ اور دین کی غلط تعبیریں‘‘ کے زیر عنوان مضمون میں تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کا فریضہ بہت خوب صورتی سے سرانجام دیا ہے۔ اچانک چلتے چلتے وہ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کو چھوڑ کر ہامز لامز بن گئے ہیں۔ انھوں نے ایک ماسٹر صاحب کا تذکرہ فرمایا ہے جو ان کو لے کر ایک مذہبی کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہور لے گئے۔ پھر ان کی گزارش یا مطالبے پر انھیں بادشاہی مسجد لے گئے۔ انھوں نے مزار اقبال پر جانا چاہا تو اقبال کے بارے میں بڑی عجیب وغریب باتیں ان کے کانوں میں انڈیلیں۔ بقول ان کے ماسٹر صاحب...

جناب محمد عمار خان ناصر کی خدمت میں

پروفیسر خالد شبیر احمد

جناب محمد عمار خان ناصر صاحب کے بارے میں، میں کچھ نہیں جانتا نہ ہی ان کے علم وفضل کے خد وخال سے پوری طرح آگاہ ہوں کہ ان کا علم وفضل میں کیا مقام ومرتبہ ہے۔ البتہ ان کے والد محترم کی کئی تقریریں سننے کا اعزاز مجھے حاصل ہے اور میں ان کی علمی عظمت کا بھی قائل ہوں۔ جہاں تک ان کی خاندانی عظمت کا تعلق ہے، اسے تسلیم نہ کرنا بھی کوتاہی وکم نظری کے مترادف خیال کرتا ہوں۔ محمد عمار خان ناصر کے ایک مضمون پر مولانا عبد القیوم حقانی صاحب کا تنقیدی مضمون میری نظر سے گزرا جس میں انھوں نے جناب عمار خان ناصر کی اس تحریر پر گرفت کی ہے جو انھوں نے قادیانیوں کے بارے...

شخصیت پرستی اور مشیخیت کے دینی و اخلاقی مفاسد

مولانا محمد عیسٰی منصوری

علماء کرام کا ایک بنیادی کام عوام کے ذوق و سوچ و فکر کی نگہداشت بھی ہے کہ دین کے کسی شعبہ میں غلو نہ پیدا ہونے پائے، دین کا ہر کام پورے توازن و اعتدال سے جاری و ساری رہے اور ملت اسلامیہ ذہنی و فکری طور پر جادۂ اعتدال سے ہٹنے نہ پائے۔ اس کی خاطر علماء کرام کو ہر دور میں بڑے حزم و احتیاط سے کام لینا پڑا۔ سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کا شجرہ بیعت رضوان کو کٹوا دینا یا حجر اسود کے سامنے اعلان فرمانا کہ : ’’تو ایک پتھر ہے، نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان‘‘ اسی حزم و احتیاط کا نمونہ تھا۔ اورنگ زیب عالمگیر ؒ ، جنہیں عصرحاضر کے عظیم عالم و مفکر شیخ طنطاوی نے چھٹا...

تنقیدی جائزہ یا ہجوگوئی؟ (۲)

محمد رشید

۷۔ سابقہ سطور میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ مضمون نگار کس بے رحمی سے ڈاکٹر غازی صاحب رحمۃ اللہ علیہ جیسے درویش منش انسان کو قارونی گروہ کا خاموش حمایتی ثابت کرنے کی کوشش کرچکے ہیں۔اور پھر وہ یہ ثابت بھی کرتے ہیں کہ شاہ ولی اللہ اور مارکس کے سوا علما و سکالرز کی اکثریت قارونی گروہ کی مخالفت سے اجتناب کے گناہ میں ملوث رہی ہے۔لیکن جب حضرت انعام یہ دیکھتے ہیں کہ محاضرات معیشت میں محترم غازی صاحب افراد معاشرہ کی کفالت اور ان کے لیے روٹی کپڑا اور مکان کا ذمہ داراسلامی ریاست کو قرار دیتے ہیں اور پھراسلاف کے حوالوں کے ساتھ قارونی گروہ کے خلاف بغاوت پران...

اسلام میں سماجی طبقات ۔ سورۂ زخرف کی آیت ۳۲ کی روشنی میں

ڈاکٹر حافظ محمد شکیل اوج

سورۂ زخرف میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: أَہُمْ یَقْسِمُونَ رَحْمَۃَ رَبِّکَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْْنَہُم مَّعِیْشَتَہُمْ فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَتَّخِذَ بَعْضُہُم بَعْضاً سُخْرِیّاً وَرَحْمَتُ رَبِّکَ خَیْْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُونَ (زخرف، ۳۲)۔ اس آیت میں لِیَتَّخِذَ بَعْضُہُم بَعْضاً سُخْرِیّاً کے الفاظ ہماری بحث کا اصل موضوع ہیں اور انھی سے ہمارے مضمون کا عنوان متعین ہوا ہے۔ مذکورہ بالا الفاظ کا معنی بالعموم یہ کیا جاتا ہے: ’’تاکہ ایک دوسرے کو اپنے کام میں مدد کے لیے لے سکیں۔‘‘...

سماجی، ثقافتی اور سیاسی دباؤ اور دین کی غلط تعبیریں

ڈاکٹر حافظ صفوان محمد چوہان

اللہ نے دین کو دنیا و آخرت کی کامیابی کا ذریعہ بنایا ہے۔ صحابۂ کرام علیہم الرضوان میں بہت کم لوگ ایسے تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے اور اُن میں بھی ایسے لوگ گنتی کے چند تھے کہ جنھیں دین فہمی میں رسوخ کا وہ درجہ حاصل تھا کہ اُن کے لیے زبانِ نبوت سے ’’فقیہ‘‘ کا جاوداں لقب حاصل ہوا۔ بحیثیت مجموعی یہ وہ لوگ تھے جن کو صحبت نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا وہ جوہر عطا ہوا تھا کہ جس کو کسی بھی بڑی سے بڑی نعمت کا مثل بتانے میں زمین و آسمان کی کل نعمتوں میں سے کسی پر نگاہ نہیں ٹھہرتی۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے مؤسسِ دعوت و تبلیغ حضرت...

دعوت الی اللہ کا فریضہ اور ہمارے دینی ادارے (۲)

مولانا محمد عیسٰی منصوری

دعوت میں کوتاہی کے ناقابل تلافی نقصانات: قرون اولیٰ کے بعد من حیث الامت دعوت میں کوتاہی سے جو نقصانات ہوئے، ان کی تلافی کبھی نہیں ہوسکتی۔ مثلاً برطانیہ کے بادشاہ جان لاک لینڈ (۱۱۶۷ء --۱۲۱۶ء) جس نے مشہور میگنا کارٹا(منشورآزادی) دیا، جب اس کے پادریوں سے اختلافات بڑھے تو اس نے ۱۲۱۳ء میں مراکش واسپین کے حکمران ناصر لدین اللہ کے پاس سفارت بھیجی جس کے ارکان میں ٹامس ہارڈینٹن، رالف فرنکسوس، ماسٹررابرٹ وغیرہ شامل تھے۔ انہوں نے شاہِ انگلستان کی طر ف سے پیغام دیا کہ عیسائیت پر سے میرا اعتقاد ختم ہو گیا ہے، اگر آپ پادریوں کے مقابلے پر میری فوجی مدد کریں...

تنقیدی جائزہ یا ہجوگوئی؟ (۱)

محمد رشید

الشریعہ کے خاص شمارہ (جنوری فروی 2011) کے چار سو صفحے پڑھنے کے بعد پروفیسر میاں انعام الرحمن کے مضمون ’’محاضرات معیشت و تجارت کا ایک تنقیدی مطالعہ‘‘ کا اس ذہن سے مطالعہ شروع کیا کہ ہمیں ایک معیاری،شستہ اور باوقارتنقیدی جائزہ پڑھنے کو ملے گا، لیکن اس تنقیدی مطالعے کے پہلے ہی صفحے میں الفاظ کے استعمال پر ہم کھٹکے، تاہم پھر بھی ہم اسے پڑھتے چلے گئے ۔لیکن ہم بمشکل پانچ صفحے ہی پڑھ پائے تھے کہ بوریت نے ہمارا برا حال کردیا چنانچہ اس کے بعد چھٹا صفحہ پڑھنا ہمارے لیے بے حد مشکل ہوگیا۔اس کے بعد ہمارا یہ حشر ہوا کہ ہم ہر روزارادہ کرتے کہ آج اس مضمون...

توہین رسالت کے مرتکب کے لیے توبہ کی گنجائش

مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی

(توہین رسالت پر قتل کی سزا کی فقہی حیثیت کیا ہے اور کیا مجرم کے لیے کسی درجے میں توبہ کی گنجائش ہے؟ اس کے بارے میں حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی مدظلہ العالی کا موقف ’الشریعہ‘ کے ایک گزشتہ شمارے میں پیش کیا جا چکا ہے۔ جامعہ مدنیہ کریم پارک لاہور کے ترجمان ماہنامہ ’’الحامد‘‘ نے مارچ ۲۰۱۱ء کے شمارے میں اسی سلسلے میں حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی دامت برکاتہم (صدر دار العلوم کراچی) کا مضمون شائع کیا ہے جو ’’الحامد‘‘ کے شکریے کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ مدیر)۔ توہین رسالت کے سلسلے میں مسلمان کا حکم۔ یہ مسئلہ...

’’توہین رسالت کا مسئلہ‘‘ ۔ اعتراضات پر ایک نظر

محمد عمار خان ناصر

گزشتہ دنوں اپنی ایک تحریر میں توہین رسالت اور اس کی سزا کے حوالے سے ہم نے جو نقطہ نظر پیش کیا ہے، بعض اہل قلم نے تحریری اور زبانی طو رپر اس پر مختلف تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان حضرات کے تحفظات کو درج ذیل تین نکات کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے: ۱۔ ہم نے اپنی تحریر میں فقہاے احناف کے نقطہ نظر کی درست ترجمانی نہیں کی، کیونکہ توہین رسالت کے مجرم کے لیے کسی رعایت کے بغیر موت کی سزا کو لازم قرار دینے میں فقہاے احناف اور دوسرے فقہی مذاہب یک زبان ہیں۔ ۲۔ توہین رسالت کے مجرم کے لیے کوئی قانونی رعایت یاموت سے کم تر سزا کی گنجائش تلاش کرنا دینی غیرت وحمیت...

تاریخ کی درستی: بھٹو سے فیض تک

چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

سلمان تاثیر کے قتل کے بعد، توہین رسالت کیس کو تبدیل کرنے کے بارے میں حکومت پر بین الاقوامی دباؤ ختم ہوا، چنانچہ کم و بیش ہر روز زعیمان مملکت قانون میں کسی طرح کی تبدیلی نہ کرنے کا یقین دلاتے رہے۔ رحمان ملک کی یقین دہانی کو تو کوئی مانتا نہیں تھا۔ آخر کار وزیر اعظم صاحب نے پارلیمنٹ کے بھرے اجلاس میں یقین دلایا۔ اس کے باوجود پبلک احتجاج جاری رہا۔ اسی اثنا میں ریمنڈ ڈیوس کا قصہ شروع ہو گیا۔ حکومت پھر دباؤ میں آگئی۔ دو اڑھائی مہینے تک دباؤ چلتا رہا۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں ہی نہیں، فوج، آئی ایس آئی اور عدلیہ نے بھی ڈیوس کی رہائی اور پاکستان سے...

مذہبی فرقہ واریت کا سیاسی ظہور

خورشید احمد ندیم

مذہبی فرقہ واریت،ایک سونامی کی طرح،مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کواپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔اس کی لہریں پاکستان اور افغانستان تک پہنچ سکتی ہیں۔مذہب اور سیاست کے باہمی تعلق کو نہ سمجھنے کا ایک اورخطرناک نتیجہ ہمارے سامنے آنے والا ہے۔ ایران کا انقلاب، 9/11 کی طرح مسلم دنیا میں ایک نئے دور کا آ غاز ہے۔اس میں شا ید کو ئی مبالغہ نہ ہو کہ سیدناحسینؓابن علیؓ کی شہادت کے بعد یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے جس نے مسلمانوں کی داخلی سیاست کو اتنے بڑے پیما نے پر متا ثر کیا ہے۔اس انقلاب کے بعد ہماری سیاست یقیناً وہ نہیں رہی جو پہلے تھی۔آج ہم مشرقِ وسطیٰ میں جو تبدیلیاں دیکھ...

شیعہ سنی مفاہمت کی ضرورت و اہمیت

مولانا محمد وارث مظہری

شیعہ سنی اختلاف بنیادی طور پر مسلمانوں کی داخلی سیاسی کش مکش کی پیداوار ہے، لیکن بعد میں اس اختلاف نے جو شکل اختیار کی، اسے اب دونوں فریقوں کی نظر میں محض فروعات دین میں اختلاف سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا، تاہم اسے کفرو ایمان کا اختلاف قرار دینا بھی کسی طرح صحیح نہیں ہے۔ اس اختلاف کو کم یا ختم کرنے کی جو سنجیدہ کوششیں ما ضی میں ہونی چاہیے تھیں، وہ بد قسمتی سے نہیں ہوسکیں۔ اب یہ اختلاف اتنی سنگین کشمکش کی شکل اختیارکرچکا ہے کہ اس کی زد میں آکر نہ جانے کتنی ہی جانیں ضائع اور نہ جانے کتنے ہی مال واسباب تباہ ہوچکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں فرقوں کے...

ریمنڈ ڈیوس کیس کے تناظر میں اسلامی فوجداری قانون کا ایک مطالعہ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

اس وقت ہر طرف شور و غل برپا ہے کہ پاکستان کی ایک عدالت نے پاکستانیوں کے ایک امریکی قاتل کو باعزت بری کر دیا ہے۔ یہ بات سو فی صد غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایک عدالت کے ایک ’قاضی‘ نے پاکستانی مسلمانوں کے ایک غیر مسلم امریکی قاتل کو ’دیت‘ لے کر چھوڑ دیا ہے۔ وطن عزیز کے اسلام پسندوں کو خوشی کے شادیانے بجانے چاہییں کہ امریکہ بہادر کم از کم ایک اسلامی قانون کی ’حکمتوں‘ کا قائل ہو گیا ہے اور یہی امر سیکولر لبرل حلقوں کے لیے باعث تشویش ہونا چاہیے کہ اسلامی قوانین کی حکمتیں اگر اسی انداز میں جلوہ افروز ہوتی رہیں تو وہ دن دور...

تصویر کے بارے میں ہمارا موقف اور پالیسی

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’الشریعہ‘ کے مارچ کے شمارے میں شائع شدہ مولانا سختی داد خوستی کے مکتوب اور ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی یاد میں خصوصی اشاعت کی ٹائٹل پر ان کی تصویر کے حوالے سے بعض دوستوں نے تصویر کے بارے میں میرا ذاتی موقف دریافت کیا ہے۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ میرا ذاتی رجحان اس مسئلے میں حضرت امام محمدؒ کے اس قول کی طرف ہے جو انھوں نے ’’موطا امام محمد‘‘ میں ان الفاظ سے بیان فرمایا ہے کہ: ’’حضرت عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ وہ حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر گئے تاکہ ان کی عیادت کر سکیں تو وہاں حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔...

’’ہم‘‘ اور ’’وہ‘‘ ۔ لبرل حلقوں کے لیے لمحہ فکریہ!

نادیہ ججا

اس وقت پاکستان میں انگریزی زبان کے تمام اشاعتی اور نشری ذرائع ابلاغ میں جنگ کے نقارے بجنے کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل نے ایک بار پھر سب کو حالات حاضرہ پر گفتگو میں ’’ہم‘‘ اور ’’وہ‘‘ کی اصطلاحات استعمال کرنے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب گورنر کے قتل کی مذمت نہ کی جائے اور لوگوں کو باہر نکل آنے، ڈٹ کر کھڑے ہو نے اور اس ہوا کا رخ تبدیل کرنے پر نہ اکسایا جائے جو پاکستان کے ’’کمزور ذہن اور برین واش کیے ہوئے‘‘ لوگوں کے لیے چلتی ہے، وگرنہ ’’ہم‘‘ سب تباہ وبرباد ہو جائیں گے۔ ’’ہم‘‘ یقیناًبزعم...

ایک تلافی نامے کا معذرت خواہانہ جائزہ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

واقعہ کچھ یوں ہے کہ اکادمی ادبیات پاکستان، پنجاب شاخ لاہور کے زیرِ اہتمام ۸ مئی ۲۰۱۰ بروز ہفتہ ’’صوفی ازم کی عوامی بنیادیں‘‘ کے موضوع پر ایک روزہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں پاکستان بھر سے ممتاز دانش وروں نے’’ گراں قدر‘‘ مقالات پڑھ کر صوفیا کو ایصالِ ثواب کیا۔ غالباً ثواب کے ایصال میں کافی کمی رہ گئی تھی جس کی تلافی کی ذمہ داری یونی ورسٹی آف گجرات کے سپرد کی گئی۔ اس وقت ہمارے زیرِ نظر یہی’’تلافی نامہ‘‘ ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ تلافی نامے کا سرورق کیا ہے؟ اچھا خاصا طلسم کدہ ہے۔ پھر ہماری کیا مجال کہ اس کے سحر میں ڈوبے بغیر صوفیانہ...

محاضراتِ معیشت و تجارت کا ایک تنقیدی مطالعہ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

اپنی کلاسیکل علمی روایت کے ساتھ شعوری وابستگی عصرِ حاضر میں جن اصحاب کے حصے میں آئی ہے، ڈاکٹر محموداحمد غازی مرحوم ان میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ مرحوم کے محاضرات خواص و عوام میں پذیرائی حاصل کر چکے ہیں۔ اگر مسلم علمی روایت کے اس پہلو کو پیشِ نظر رکھا جائے کہ اس میں زبان و بیان، قلم و قرطاس پر چھائے رہے تو ڈاکٹر غازی ؒ اس روایتی پہلو کے جدید ترین نمائندہ تھے۔ ان کے محاضرات کا توضیحی و تنقیحی اسلوب گواہی دے رہا ہے کہ انہوں نے ’’نگہ بلند،سخن دل نواز،جاں پرسوز‘‘ کے ساتھ اسلاف کے علمی کارنامے نئی نسل تک پہنچانے کا حق ادا کر دیا۔ اللہ ان کی مغفرت...

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ منتخب پیش لفظ اور تقریظات

ادارہ

’’رد قادیانیت کے زریں اصول‘‘ پر تقریظ۔ حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی، ان مجاہدین اسلام میں سے ہیں جن کی زندگی کا ہر لمحہ دین حق کی سربلندی اور مسلمانان عالم کی ملی وحدت اور یک جہتی کے لیے وقف ہے۔ مولانا چنیوٹی گزشتہ پچاس سے ختم نبوت کے تحفظ کو اپنی زندگی کامشن بنائے ہوئے ہیں۔ ختم نبوت کے خلاف کھڑی ہونے والی ہر سازش کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ ہمیشہ مجاہدین اسلا م کی صف اول میں موجود رہے ہیں۔ گزشتہ صدی کے اواخر میں اٹھنے والے فتنہ قادیانیت ومرزائیت کی تردید وتعاقب کو مولانا نے اپنی زندگی کا خاص الخاص مشن قرار دیا ہے۔ اندرون ملک وبیرون ملک اٹھنے...

کیا اب اسلام جیت نہیں سکتا؟

مولانا مفتی محمد زاہد

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بات کا آغاز دو جلیل القدر علما کے واقعات سے کیا جائے۔ پہلا واقعہ مفتی الٰہی بخش کاندھلوی ؒ کا ہے۔ مفتی الٰہی بخش کاندھلوی ؒ اپنے وقت کے جلیل القدر علما اور باکمال اولیا میں سے ہیں۔ تبلیغی جماعت کے بانی حضرت مولانا محمد الیاس کے خاندان کے معروف بزرگوں میں سے ہیں۔ تقویٰ وپرہیزگاری اور تواضع وغیرہ میں ان کے عجیب وغریب واقعات نقل کیے گئے ہیں۔ ان کے زمانے میں کاندھلہ کے ایک قطعۂ زمین کے بارے میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا۔ مسلمانوں کا دعویٰ تھا کہ یہ جگہ ہماری ہے اور وہ شاید وہاں مسجد بنانا چاہتے تھے...

اسلامی بینکاری: زاویہ نگاہ کی بحث (۲)

محمد زاہد صدیق مغل

اسلامی بینکاری بطور حکمت عملی اور انداز فکر : پھر اسلامی بینکاری کے نام پر جس شے کو ’تبدیلی کی حکمت عملی‘ کے طو پر اختیار کر لیا گیا ہے اس کی نوعیت پر غور کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ اس بحث سے یہ اندازہ لگانا بھی ممکن ہوجائے گا کہ آیا اسلامی بینکاری کو فروغ دینے والے حضرات بذات خود اسے مجبوری سمجھتے بھی ہیں یا نہیں نیز اس کے ذریعے وہ کس نوع کی تبدیلی کی توقع رکھتے ہیں۔ کسی موجود نظام میں تبدیلی کے لیے برپا کی جانے جدوجہد کو حکمت عملی کے تین ادوار پر تقسیم کرکے سمجھا جاسکتا ہے، short run, middle run and long run (قریب یا قلیل، وسط اور طویل مدتی)۔ ان میں سے ہر دور...

مسائل جدیدہ کے بارے میں حکیم الامت حضرت تھانویؒ کا نقطہ نظر

ادارہ

ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت! اگر ایک رسالہ ایسا اور لکھا جاتا کہ جس میں ہر پیشہ ور کے معاملات کے احکام کو اس میں شرعی حیثیت سے بصورت مسائل بیان کر دیا جاتا تو بڑی سہولت ہو جاتی، اس لیے کہ لین دین وغیرہ میں آج کل نئی نئی صورتیں پیدا ہو گئی ہیں اور اکثر احکا م شرعیہ کے خلاف عمل درآمد ہو رہا ہے اور ان سے اجتناب کرنے کو لوگ دشوار سمجھتے ہیں۔ یہ سب مشکلیں حل ہو جاتیں۔ فرمایا کہ آپ آج یہ کہہ رہے ہیں، میں نے تو ایک عرصہ ہوا، اس وقت چاہا تھا کہ سب اہل معاملہ اپنے اپنے معاملات کو سوال کی صورت میں جمع کر کے مجھ کو دے دیں، چاہے وہ تجارت پیشہ ہو یا زراعت...

مجوزہ نئی دینی تحریک: نوعیت اور حکمت عملی کی بحث

ڈاکٹر محمد امین

جناب محمد یوسف ایڈووکیٹ نے الشریعہ کے جون کے شمارے میں میرے اس مضمون پر تبصرہ کیا ہے جو الشریعہ اپریل ۲۰۱۰ء میں ’ایک نئی دینی تحریک کی ضرورت‘کے عنوان سے طبع ہوا تھا۔ اپنے اس مضمون میں انہوں نے راقم کے بارے میں جن تاثرات کا اظہار کیاہے، ان میں سے اکثر اصلاح طلب ہیں اور غالباً اس کی وجہ ہمارے بارے میں ان کی نامکمل اور بالواسطہ طور پر حاصل شدہ معلومات ہیں کیونکہ ایک طویل عرصے سے ہماری ان کی کوئی بالمشافہ تفصیلی ملاقات نہیں ہوئی۔ جہاں تک زیر بحث موضوع کا تعلق ہے، انہوں نے مجوزہ دینی تحریک کی حکمت علمی کی جزئیات کے حوالے سے جو باتیں لکھی ہیں،...

اسلامی بینکاری: زاویہ نگاہ کی بحث (۱)

محمد زاہد صدیق مغل

ماہنامہ الشریعہ شمارہ جون اور جولائی ۲۰۱۰ میں مفتی زاہد صاحب دامت برکاتہم نے راقم الحروف کے مضمون ’اسلامی بینکاری غلط سوال کا غلط جواب‘ کے تعقب میں اپنے مضمون ’غیر سودی بینکاری کا تنقیدی جائزہ‘ (حصہ دوئم و سوئم) میں ’زاویہ نگاہ کی بحث ‘ کے تحت چند مزید شبہات پیش کیے ہیں۔ مفتی صاحب کی طرف سے اٹھائے گئے دلائل و نکات پر ذیل میں راقم کا تبصرہ پیش ہے۔ چونکہ مفتی صاحب نے اپنی تنقید کا زیادہ تر حصہ ہمارے مضمون کے اصل موضوع کے بجائے ضمنی و اضافی پہلو (زاویہ نگاہ کی بحث) پر صرف کیا ہے لہٰذا پہلے ہم اسی پہلو پر کچھ عرض کرنا چاہیں گے کیونکہ اپنے اصل...

فتاویٰ کے اجرا میں احتیاط کی ضرورت

حکیم ظل الرحمن

۱۱ مئی ۲۰۱۰ء، وقت ساڑھے آٹھ تا ساڑھے نوبجے شب۔ شرکا: (۱) نمائندہ این ڈی ٹی وی (۲) جناب پروفیسر اختر الواسع ۳) قاضی شہر لکھنؤ فرنگی محلی (۴) سعدیہ دہلوی صاحبہ (۵) جناب جاوید اختر۔ یہ پورا پروگرام دار العلوم دیوبند کے اس فتوے پر کہ ’’مردوں کے ساتھ عورتوں کا کام کرنا غیر اسلامی ہے‘‘ ایک تبادلہ خیال کا پروگرام تھا۔ قاضی شہر کلیتاً محدود تعبیر مسئلہ پر گفتگو فرما رہے تھے اور صرف فتوے کی حیثیت سے آگے ان کی گفتگو نہیں بڑھ رہی تھی۔ پروفیسر اختر الواسع کلیتاً اسلامی نمائندہ تھے۔ سعدیہ دہلوی ایک معتدل مزاج مسلمان کی نمائندگی فرما رہی تھیں۔ جناب جاوید...

ایک تحریک بغاوت کی ضرورت

چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

محترم پروفیسر ڈاکٹر محمد امین کا مضمون الشریعہ کے اپریل ۲۰۱۰ء کے شمارے میں دیکھا تو بڑی الجھن ہوئی۔ دقت یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب سے پرانی یاد اللہ ہے۔ وہ سید مودودی کے فکری حلقے سے متعلق ہیں۔ غامدی صاحب کے ساتھ بھی ان کو بحث کرتے دیکھا۔ سید مودودی نے انقلاب کی جو چنگاری ان کے ذہن میں سلگا دی، وہ ابھی تک سرد نہیں ہوئی۔ وہ تعلیم و تدریس کے شعبہ سے متعلق ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس شعبے میں ان کی کارکردگی غیر معمولی ہو، مگر سید کے حلقے میں فکری اور عملی لحاظ سے انہیں قبولیت نصیب نہیں ہوئی۔ لہٰذا وہ نوابزادہ نصراللہ کی طرح اتحادی ذہن کو بروے کار لانے کی جانب...

بلا سود بینکاری کا تنقیدی جائزہ ۔ منہجِ بحث اور زاویۂ نگاہ کا مسئلہ (۳)

مولانا مفتی محمد زاہد

اسلامی یا غیر اسلامی ہونے میں اصل اہمیت دلیلِ شرعی کی ہے۔ اسلامی بینکاری کے موضوع پر بحث کرنے والے علما ( مجوّزین اور ناقدین ) کا اصل میدان معاشی علوم نہیں ، اس لیے اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ کسی معاشی پہلو کی طرف ان کی توجہ مبذول نہ ہوئی ہو اوروہ پہلو ایسا ہو جس سے مسئلے کا حکم تبدیل ہوجاتاہو ، ایسی صورت میں اگر کوئی ماہرِ معاشیات اس پہلو کی طرف توجہ دلاتے اور کسی معاشی حقیقت کے فہم میں غلطی کی نشان دہی کرتے ہیں تو اسے علمی دنیا پر احسان سمجھنا چاہئے ، اور علما کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیئے ، جس سے انہوں نے کبھی انکار بھی نہیں...

اسلامی اخلاقیات کے سماجی مفاہیم (۳)

پروفیسر میاں انعام الرحمن

کسی سماجی مسئلے کی گتھی سلجھانے کے لیے مصلح کا غیر جانب دار ہونا نہایت ضروری ہے۔ یہ صفت مصلح کوتحریک دیتی ہے کہ زیرِ بحث مسئلے کا معروضی جایزہ لے۔ معروضی تجزیے کی یہ روش، مسئلے کے متعلق درست زاویے سے سوال اٹھانے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔ ہماری رائے میں کسی مسئلے کے قابلِ قبول حل کے لیے پہلا قدم،اس کے متعلق درست سوال اٹھانا ہے۔ ملاحظہ کیجیے کہ خالد سیف اللہ صاحب نے آج کے ایک سنجیدہ مسئلے کو کتنے معروضیت پسندانہ اسلوب سے اڈریس کیا ہے: ’’سوال یہ ہے کہ کم عمری کا نکاح زیادہ نقصان دہ ہے یا کم عمری کے جنسی تجربات؟ یقیناََ بے قید جنس پرستی زیادہ مضر...

بلا سود بینکاری کا تنقیدی جائزہ ۔ منہجِ بحث اور زاویۂ نگاہ کا مسئلہ (۲)

مولانا مفتی محمد زاہد

مسئلے کا معاشی اور مقاصدِ شریعت کا پہلو: بہر حال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ روایتی علما کی واضح اکثریت جس میں غیر سودی بینکاری کے ناقدین اور مجوّزین دونوں ہی شامل ہیں، اگر مسئلے کو محض عقود کی سطح پر خالص فقہی انداز سے دیکھ رہی ہے تو اس معاملے کو اس کے پس منظر سمیت دیکھا جانا چاہیے۔ تاہم اس خالص فقہی زاویۂ نظر کے علاوہ اس مسئلے کو دیکھنے کے کچھ اور پہلو بھی ہیں جن میں خاص طور پر روایتی اور غیر سودی بینکاری دونوں کا اس حوالے سے جائزہ شامل ہے کہ مجموعی سطح کی معیشت پر ان دونوں کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں یا ہوسکتے ہیں اوراسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان...

اسلامی بینکاری: زاویہ نگاہ کی بحث

محمد زاہد صدیق مغل

ماہنامہ الشریعہ شمارہ مئی ۲۰۱۰ میں مفتی زاہد صاحب دامت برکاتہم العالی نے راقم الحروف کے مضمون ’اسلامی بینکاری: غلط سوال کا غلط جواب‘ کے تعقب میں اپنے مضمون ’غیر سودی بینکاری کا تنقیدی جائزہ‘ (حصہ اول) میں ’زاویہ نگاہ کی بحث ‘ کے تحت چند گزارشات پیش کی ہیں جن پر مختصر تبصرہ کرنا راقم ضروری سمجھتا ہے۔ (۱) راقم الحروف نے اپنے مضمون میں یہ بنیادی بحث اٹھائی تھی کہ اسلامی بینکاری کے حامیین نے اصل بحث کی ترتیب کو الٹ دیا ہے۔ مفتی صاحب نے بحث کی موجودہ ترتیب کے حق میں بجا طور پر یہ وضاحت فرمائی کہ علمائے کرام خود کو اس ترتیب پر اس لیے مجبور پاتے...

اسلامی اخلاقیات کے سماجی مفاہیم (۲)

پروفیسر میاں انعام الرحمن

خالد سیف اللہ صاحب خواہ مخواہ کی قانونی موشگافیوں میں الجھنے کے بجائے اسلامی تعلیمات اور صدرِ اسلام کے واقعات سے استدلال کرکے چھوٹے چھوٹے نتایجِ فکر ، قارئینِ کے سامنے رکھتے جاتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ کسی نظامِ حیات کا کوئی ایسا واحد بڑا سچ نہیں ہوتا جس کے بل بوتے پر مقصود سماج کی تشکیل کی جا سکتی ہو ، بلکہ ہوتا یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے سچ اکھٹے ہوکر ایک بڑی سچائی کے ظہور کا سبب بنتے ہیں ۔ اس لیے ہمارے ممدوح کا طرزِ استدلال عملی مثالی اور قابلِ تحسین ہے ۔ اس سلسلے کا ایک نمونہ ملاحظہ کیجیے: ’’جب مدینہ میں ۸۰؍اشخاص نے اسلام قبول کیا تو آپ...

بلا سود بینکاری کا تنقیدی جائزہ ۔ منہجِ بحث اور زاویۂ نگاہ کا مسئلہ (۱)

مولانا مفتی محمد زاہد

غیر سودی بینکاری آج کی معیشت خصوصا فائنانس کی دنیا کا نیا مظہر phenomenon ہے جس کی کل عمر تقریباً تین عشرے ہے۔ اس مدت کا تقابل اگر روایتی بنکاری کی صدیوں پر محیط عمر کے ساتھ کیا جائے تو اسے اب بھی بلا تردد دورِ طفولت کہا جا سکتاہے۔ دورِ طفولت میں ہونے کے ناطے اسے نشو ونما کے لیے غذا کی ضرورت ہے۔ کسی بھی نئے تجربے کے لیے اس سے بہتر کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ اسے جاری کرنے کے بعد اس کی کارکردگی اور خوبیوں اور خامیوں، کامیابیوں اور ناکامیوں کا مسلسل جائزہ لیا جاتارہے۔ جو لوگ غیر سودی بینکاری کے اس نئے نظام کے حامی نہیں ہیں، ان کے مطابق تو تنقید کی اہمیت...

اسلامی اخلاقیات کے سماجی مفاہیم (۱)

پروفیسر میاں انعام الرحمن

خالد سیف اللہ رحمانی ، ہندوستان کے معروف عالمِ دین ہیں ۔ ان کے مختلف اوقات میں لکھے گئے مضامین کے مجموعے عوامی پذیرائی حاصل کر چکے ہیں ۔ اب ان مجموعوں کا مجموعہ ، پاکستان میں زم زم پبلشرز کراچی نے ’راہِ عمل ‘ کے عنوان سے شائع کیا ہے۔ راہِ عمل دو جلدوں پر مشتمل ہے اور اس کے پانچ حصے ہیں ۔ جلد اول میں تین اور جلد دوم میں دو حصے ہیں۔ ان حصوں کے عنوانات بالترتیب (۱) نقوشِ موعظت، کل صفحات ۳۶۶ (۲) حقائق اور غلط فہمیاں، کل صفحات ۲۱۲ (۳) نئے مسائل ، اسلامی نقطہ نظر، کل صفحات ۲۷۰ (۴)عصرِ حاضر کے سماجی مسائل، کل صفحات ۲۲۴(۵) دینی و عصری تعلیم اور درس گاہیں:مسائل...

ایک نئی دینی تحریک کی ضرورت

ڈاکٹر محمد امین

یہ چند سال پہلے کی بات ہے کہ ہم نے ایک دن شہید ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب سے کہا کہ ہمارے دینی سیاسی لوگ اکٹھے نہیں ہوتے تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہاں ’کرسی‘ کا مسئلہ ہے لیکن دعوت و اصلاح جیسے غیر سیاسی کام میں دینی لوگ کیوں جمع نہیں ہوسکتے جبکہ اس کام کی بڑی سخت ضرورت بھی ہے۔ کہنے لگے کہ اس میں کوئی بڑی رکاوٹ بظاہر تونظر نہیں آتی ۔ چنانچہ ہم نے باہم مشورہ کر کے مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام اور سول سوسائٹی کے دیندار افراد کا ایک اجتماع جامعہ نعیمیہ میں رکھا جس کا ایجنڈا اور ورکنگ پیپر راقم نے تیار کرکے شرکا کو بھجوا دیا۔ اس اجلاس کی دونشستیں...

اسلامی بینکاری: غلط سوال کا غلط جواب (۳)

محمد زاہد صدیق مغل

(۳) اسلامی بینکنگ کے امکانات کا جائزہ۔ بینکنگ کے درست تصور کو سمجھ لینے کے بعد اب ہم اس کی اسلامیت کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس بحث کو ہم درج ذیل امور پر تقسیم کرتے ہیں۔ ۱.۳: بینکنگ کی شرعی حیثیت۔ جیسا کہ ابتدائے مضمون میں ذکر کیا گیا تھا کہ بینکنگ کی اسلام کاری ممکن ہونے کا دعوی دوشرائط کی تکمیل پر منحصر ہے۔ اول fractional reserve banking کاشرعاً جائز ہونا، دوئم نظام بینکاری کو سود کے بجائے بیع میں تبدیل کرلینا۔ مجوزین بینکاری نظام کا غلط تصور قائم کرنے کی وجہ سے صرف ’غیر سودی بینکاری ‘ کے امکانات کی ثانوی بحث میں الجھے رہتے ہیں ، گویا ان کے نزدیک...

اسلامی بینکاری: غلط سوال کا غلط جواب (۲)

محمد زاہد صدیق مغل

(۲) مجوزین کے نظریہ بینکاری کا جائزہ۔ اس مختصر وضاحت کے بعد ہم درج بالا نظریہ بینکنگ (جو درحقیقت مجوزین اسلامی بینکاری کا نظریہ بینکنگ بھی ہے) کا تنقیدی جائزہ پیش کرتے ہیں۔ بحث کو سادہ اور عام فہم رکھنے کے لیے حد امکان تک علم معاشیات کے ٹیکنکل مواد سے صرف نظر کرنے کی کوشش کی جائے گی، اسی لیے بہت سی دیگر تفصیلات کونظر انداز کرتے ہوئے ہم درج بالا تصور بینکنگ کی دو خامیوں پر اکتفا کریں گے (۱۳)۔ ۱.۲: نیوکلاسیکل نظریہ بینکنگ کی بنیادی خامیاں۔ نیوکلاسیکل مفکرین کا یہ اصول کہ ’بینک کو بچتوں سے زائد قرض فراہم نہیں کرنے چاہیے ‘ ان مفروضوں پر مبنی ہے...

یہ جواب نہیں ہے

مولانا عبد المالک طاہر

ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ (مئی/جون ۲۰۰۹ء) کے صفحہ ۱۴۵تا ۱۴۸ پر حافظ زبیر صاحب کامضمون شائع ہوا جو انہوں نے راقم کے مضمون بعنوان ’’جہادی تنظیموں کے تنقیدی جائزہ پرایک نظر‘‘ (الشریعہ، مارچ ۲۰۰۹ء، صفحہ ۴۳ تا ۴۷) میں اٹھائے جانے والے اعتراضات وسوالات کے جواب کے طورپر لکھا ہے۔ مضمون کا عنوان ’’عبد المالک طاہر کے اعتراضات کے جواب میں‘‘ دیکھ کر یہ گمان ہوا کہ راقم کی طرف سے اپنے مضمون میں اٹھائے جانے والے اعتراضات کے جوابات ہوں گے، لیکن عنو ان اور نفس مضمون کا باہمی تعلق ایسا ہی ہے جیساکہ جناب کا (اپنی تحریروں کی روشنی میں) جہاد و مجاہدین کے...

اصطلاحات کا مسئلہ : ایک تنقیدی مطالعہ

عثمان احمد

علوم و فنون اپنی مرتب، مکمل اور مدون شکل میں اصطلاحات کے ذریعے ظہور پذیر ہوتے ہیں اور با لعموم مخصوص اصطلاحات کا نظام ہی کسی فکر،علم یا فن کی شناخت ہوتاہے۔ فرہنگ آصفیہ کے مطابق ’’جب کوئی قوم یا فرقہ کسی لفظ کے معنی موضوع کے علاوہ یا اس سے ملتے جلتے کوئی اور معنی ٹھہرا لیتا ہے تو اسے اصطلاح یا محاورہ کہتے ہیں، کیونکہ اصطلاح کے لغوی معنی باہم مصلحت کرکے کچھ معنی مقرر کر لینے کے ہیں ۔اسی طرح وہ الفاظ جن کے معنی بعض علوم کے واسطے مختص کر لیے جاتے ہیں، اصطلاحِ علوم میں داخل ہیں۔ خیال رہے کہ اصطلاحی اور لغوی معنوں میں کچھ نہ کچھ نسبت ضرور ہوتی ہے۔‘‘...

اسلامی بینکاری: غلط سوال کا غلط جواب (۱)

محمد زاہد صدیق مغل

مروجہ سودی بینکاری کو ’مسلمان بنانے‘ کی مہم پچھلی دو دہائیوں سے اپنے عروج پر ہے اور نہ صرف یہ کہ مجوزین اسلامی بینکاری بلکہ ان کے ناقدین کی ایک اکثریت نے بھی یہ فرض کرلیا ہے کہ اس مہم کے ذریعے نظام بینکاری کو کسی نہ کسی درجے (زیادہ یا کم کے اختلاف کے ساتھ) اسلامی بنا ہی لیا گیا ہے۔ اگر اصولاً یہ مقدمات درست مان لیے جائیں کہ (۱) اپنے مقاصد اور طریقہ کار (procedure) دونوں اعتبارات سے بینک کی اسلام کاری ممکن ہے، نیز (۲) اسلامی بینکاری درست سمت میں رواں دواں ہیں تو ان کے منطقی لازمے کے طور پر جو بحث ابھرے گی، وہ اس نظام میں ’مزید اصلاح‘ کی کوشش کرنے ہی...

مولانا فضل محمد کے جواب میں

حافظ محمد زبیر

ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے مئی/جون ۲۰۰۹ء کے شمارے میں جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے استاذ الحدیث مولانا فضل محمد صاحب کا محبت نامہ پڑھنے کو ملا۔ مولانا نے راقم الحروف کے ایک مضمون پر نقد کرتے ہوئے بندہ ناچیز کی طرف الحاد، ظلم، کفر، امریکہ کی وفاداری، یہود و نصاریٰ کی ہمدردی، قرآن و حدیث کے ساتھ تمسخر، حدیث کے انکار، قرآن کے مفہوم میں تحریف، اجماع امت کی خلاف ورزی، نئی شریعت بنانے اور ڈھٹائی اور سرکشی وغیرہ اوصاف کی نسبت کی ہے۔ مولانا کی ان مہربانیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم اس علمی مسئلے کی تنقیح کی طرف آتے ہیں جسے مولانانے اپنی سادہ لوحی اورفرقہ...

امام اہل سنت رحمہ اللہ کا دینی فکر ۔ چند منتخب افادات

مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

حق وباطل کی پہچان کا طریقہ۔ ’’عوام الناس کو یہ بات پریشان کیے ہوئے کہ جو بھی اسلامی یا منسوب بہ اسلام فرقہ اپنے مسلک کی طرف دعوت دیتا ہے تو وہ قرآن وحدیث ہی کا نام لیتا اور اپنے استدلال میں قرآن وحدیث ہی کو پیش کرتا ہے۔ اب ہم کس کو صحیح اور کس کو غلط اور کس کو حق پر اور کس کو باطل پر کہیں؟ واقعی یہ شبہ اکثر لوگوں کے مغالطہ کے لیے کافی ہے، لیکن اگر انصاف، خدا خوفی اور دیانت کے ساتھ اس بات پر غور کر لیا جائے کہ یہی قرآن وحدیث حضرات صحابہ کرام، تابعین عظام اور ائمہ دین وبزرگان صالحین کے سامنے بھی تھے، ان کا جو مطلب ومعنی اور جو تفسیر ومراد انھوں...

ارباب علم ودانش کی عدالت میں ’’الشریعہ‘‘ کا مقدمہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے آرگن ماہنامہ ’’وفاق المدارس‘‘ کا شکر گزار ہوں کہ اس کے گزشتہ شمارے میں ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کی عمومی پالیسی پر نقد وتبصرہ کرتے ہوئے کچھ ایسے امور کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جن کی وضاحت کے لیے قلم اٹھانا ضروری ہو گیا ہے۔ چنانچہ ’’وفاق المدارس‘‘ کے تفصیلی تبصرہ کے جواب کے طور پر نہیں، بلکہ توجہ دلانے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے اہم امور کی وضاحت کے لیے یا ’’ارباب علم ودانش کی عدالت میں ’الشریعہ‘ کامقدمہ‘‘ کے طورپر کچھ معروضات پیش کر رہا ہوں۔ اس تبصرے کی روشنی میں تین نکات ہمارے سامنے ہیں: (۱) ’’الشریعہ‘‘...

علم دین اور اکابر علمائے دیوبند کا فکر و مزاج

ادارہ

(۲ اپریل ۲۰۰۹ کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں علما کی ایک پروقار تقریب سے حضرت مولانا مفتی محمد زاہد، حضرت مولانا مفتی محمد طیب اور حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب نے اہل علم کی ذمہ داریوں اور اکابر علماے دیوبند کے تصور علم کے مختلف پہلووں پر خطاب کیا۔ اکادمی کے رفقا مولانا محمد سلیمان اور مولانا ساجد مسعود نے انھیں صفحہ قرطاس پرمنتقل کیا ہے۔ ان کے شکریہ کے ساتھ یہ خطابات یہاں افادۂ عام کے لیے شائع کیے جا رہے ہیں۔ مدیر) حضرت مولانا مفتی محمد زاہد (استاذ الحدیث جامعہ اسلامیہ امدادیہ، فیصل آباد)۔ الحمد للہ رب العالمین، والصلوۃ والسلام...

’’وفاق المدارس‘‘ کا تبصرہ ۔ چند معروضات

محمد عمار خان ناصر

ماہنامہ ’’وفاق المدارس‘‘ کے حالیہ شمارے میں ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کی ادارتی پالیسی اور ہماری کی کتاب ’’حدود و تعزیرات۔ چند اہم مباحث‘‘ کے حوالے سے جو تبصرہ شائع ہوا ہے، اگرچہ وہ ایک Polemical نوعیت کی تحریر ہے جس میں سنجیدہ استدلال کا عنصر مفقود اور تحکم اور الزام طرازی کا رنگ نمایاں ہے، تاہم اس سے بعض اہم سوالات کے بارے میں عمومی سطح پر غور وفکر کا ایک موقع پیدا ہوا ہے اور چونکہ ہمارے ہاں کسی مسئلے کی طرف توجہ اور اس پر بحث ومباحثہ کی فضا بالعموم اس طرح کی کسی تحریک کے نتیجے ہی وجود میں آتی ہے، اس لیے تبصرہ نگار کا محرک اور مقصد اس تبصرے...

عبد المالک طاہر کے اعتراضات کے جواب میں

حافظ محمد زبیر

’’پاکستان کی جہادی تحریکیں۔ ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘‘ کے زیر عنوان ہمارا ایک مضمون ’الشریعہ‘ کے نومبر؍دسمبر ۲۰۰۸ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ اس مضمون پر عبد المالک طاہر صاحب کا تبصرہ مارچ ۲۰۰۹ء کے شمارے میں دیکھنے میں آیا۔ ذیل میں ہم اس ضمن میں چند معروضات پیش کر رہے ہیں جن پر غور کرنے سے إن شاء اللہ ان کے ذہن میں پائے جانے والے کئی ایک اشکالات رفع ہو جائیں گے۔ امید ہے کہ عبد المالک طاہر صاحب اس بحث کوکس نتیجے تک پہنچانے کے لیے ان معروضات پر غور فرمائیں گے: (۱) موجودہ حالات میں جہاد (بمعنی قتال) فرض عین ہے یا نہیں؟اگر ہے تو جہادی تحریکوں...

’’حدود و تعزیرات‘‘ ۔ چند تنقیدی تاثرات

محمد انور عباسی

محترم محمد عمار خان ناصر صاحب کی قابل قدر کتاب ہمیں بذریعہ ڈاک بروقت موصول ہوئی تھی، مگر بعض مصروفیات آڑے آئیں اور جلد اس کتاب کامطالعہ نہ کیاجا سکا۔ ایک وقفے کے بعد کتاب شروع کی تو ایک ایک سطر بغور پڑھی جس کے نتیجے میں یہاں چند تاثرات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ہمیں کتاب کے زیادہ تر مندرجات سے نہ صرف اتفاق ہے بلکہ خوشی ہے کہ بڑے سلجھے ہوئے انداز، اسلوب بیان اور منطقی استدلال سے بڑے مشکل اور حساس موضوعات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ایسی کتاب ایک عرصے کے بعد پڑھنے کو ملی جس میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا اسلوب، زورِ بیان اور متانت...

حدیث و سنت کے بارے میں غامدی صاحب کا موقف

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حدیث وسنت کے بارے میں محترم جناب جاوید احمد غامدی کی مختلف تحریرات کے حوالہ سے راقم الحروف نے کچھ اشکالات ’’الشریعہ‘‘ میں پیش کیے تھے اور غامدی صاحب سے گزارش کی تھی کہ وہ ان سوالات و اشکالات کے تناظر میں حدیث و سنت کے بارے میں اپنے موقف کی خود وضاحت کریں تاکہ اہل علم کو ان کا موقف سمجھنے میں آسانی ہو۔ غامدی صاحب محترم نے اس گزارش کو قبول کرتے ہوئے ماہنامہ ’’اشراق‘‘ کے مارچ ۲۰۰۹ء کے شمارے میں اپنا موقف تحریر فرمایا ہے جسے ان کے شکریہ کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے اور اس کے ساتھ ہی ہم کچھ مزید معروضات بھی پیش کر رہے ہیں۔ غامدی...

اسلامی بینکنگ پر اختلافات ۔ اکابر علما کے ارشادات کی روشنی میں چند اصولی باتیں

پروفیسر عبد الرؤف

ملک سے سود ختم کرنے کے سلسلے میں ابتدائی کوشش کے طور پر اسلامی بینکاری نظام رائج کیا گیا۔ چند اسلامی بینکوں میں سے ’’میزان بینک‘‘ کی ابتدا، ۲۰۰۱ء میں ہوئی۔ سات سال کا عرصہ گزر چکا، ملک بھر میں اس کی شاخیں بڑھتے بڑھتے ۱۶۶ تک پہنچ چکی ہیں۔ ایک بینک’’ بینک الاسلامی‘‘ دو تین سال کے اندر ملک بھر میں ۱۰۲ شاخیں قائم کر کے کام کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی شاید ایک دو اور بینک بھی اسلامی بینکنگ کر رہے ہیں۔ سات سال تک اسلامی بینکنگ رائج رہنے کے بعد اہل فتویٰ علماے کرام نے اس سے شد ید اختلاف کرتے ہوئے مروجہ اسلامی بینکاری کو قطعی غیر شرعی اور غیر اسلامی...

غامدی صاحب کے تصور ’سنت‘ پر اعتراضات کا جائزہ (۴)

سید منظور الحسن

اپنے ہی تصور سنت سے انحراف۔ فاضل ناقد نے بیان کیا ہے کہ غامدی صاحب نے سنت کی تعیین کے جو اصول قائم کیے ہیں ، بعض اطلاقات میں خود ان کی خلاف ورزی کی ہے۔ مثال کے طور پر انھوں نے بیان کیا ہے کہ ’’وہ چیزیں جو محض بیان فطرت کے طور پر آئی ہیں، وہ بھی سنت نہیں ہیں۔‘‘ اس اصول سے انحراف کرتے ہوئے انھوں نے بعض فطری امور مثلاً بدن کی صفائی سے متعلق احکام کو فطرت میں شامل کر رکھا ہے۔ اسی طرح وہ تواتر اور اجماع سے ثابت امور کو اصولاً سنت مانتے ہیں، جبکہ ڈاڑھی اور سر کے دوپٹے کو اس معیار پر پورا اترنے کے باوجود سنت تسلیم نہیں کرتے۔ (فکر غامدی ۵۸، ۶۳۔۶۵)۔ گذشتہ...

غامدی صاحب کے تصور ’سنت‘ پر اعتراضات کا جائزہ (۳)

سید منظور الحسن

سنت کے ثبوت کے بارے میں غامدی صاحب کے موقف پر فاضل ناقد نے بنیادی طور پر چار اعتراض کیے ہیں:ایک اعتراض یہ کیا ہے کہ غامدی صاحب معیار ثبوت میں فرق کی بنا پر حکم کی نوعیت اور اہمیت میں فرق کو تسلیم کرتے ہیں، جبکہ ذریعے کی بنیاد پر کسی چیز کے دین ہونے یا نہ ہونے میں فرق کرنا درست نہیں ہے۔ دوسرا اعتراض یہ کیا ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک سنت کے ثبوت کا معیاراخبار آحاد نہیں،بلکہ تواترعملی ہے، حالاں کہ تواتر کا ثبوت بذات خوداخبار آحاد کا محتاج ہے۔ تیسرا اعتراض یہ کیا ہے کہ غامدی صاحب نے سنت کی تعیین کے جو اصول قائم کیے ہیں ، بعض اطلاقات میں خود ان کی خلاف...
< 251-300 (427) >

Flag Counter