غیر سودی بینکاری آج کی معیشت خصوصا فائنانس کی دنیا کا نیا مظہر phenomenon ہے جس کی کل عمر تقریباً تین عشرے ہے۔ اس مدت کا تقابل اگر روایتی بنکاری کی صدیوں پر محیط عمر کے ساتھ کیا جائے تو اسے اب بھی بلا تردد دورِ طفولت کہا جا سکتاہے۔ دورِ طفولت میں ہونے کے ناطے اسے نشو ونما کے لیے غذا کی ضرورت ہے۔ کسی بھی نئے تجربے کے لیے اس سے بہتر کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ اسے جاری کرنے کے بعد اس کی کارکردگی اور خوبیوں اور خامیوں، کامیابیوں اور ناکامیوں کا مسلسل جائزہ لیا جاتارہے۔ جو لوگ غیر سودی بینکاری کے اس نئے نظام کے حامی نہیں ہیں، ان کے مطابق تو تنقید کی اہمیت ہے ہی، اسے جاری رکھنے کے حامیوں کے نقطۂ نظر سے بھی اس نئے تجربے کا مسلسل تنقیدی جائزہ لیا جاتا رہنا مفید بلکہ ضروری ہے۔ آنے والی سطور کا مقصد کسی مسئلے یا ایشو کے بارے میں اپنی رائے پیش کرنا نہیں بلکہ اس بات کا طالب علمانہ جائزہ لینا ہے کہ اس طرح کے کسی جائزے کی کون کون سی سطحیں ہوسکتی ہیں اور کس سطح پر بحث کا منہج کیا ہونا چاہیے۔ آج کل اسلامی بینکاری کا عموماً دوسطحوں پر جائزہ لیا جارہاہے۔ ایک توخالص فقہی نقطۂ نظر سے یہ دیکھا جارہاہے کہ ان بینکوں میں طے پانے والے معاملات کس حدتک عقودِ صحیحہ کے دائرے میں آتے ہیں اور کس حد تک عقودِ فاسدہ یا باطلہ کے دائرے میں۔ بحث کی دوسری سطح اسلامی بینکاری کا اس پہلو سے جائزہ لینے کی ہے کہ معیشت کی عمومی سطح (macro level) پر اس کے کیا اثرات مرتب ہورہے ہیںیا ہوسکتے ہیں۔ دونوں سطح کی بحثوں کی نوعیت اور طرزِ استدلال ایک دوسرے سے الگ ہوتاہے۔ اس وقت کے ماحول میں مقدم الذکر بحث غالب ہے اور اس پہلو سے مختلف آرا سامنے آچکی ہیں۔ عالمِ اسلام کی بہت سی علمی شخصیات اور فقہی فورمز نے ان عقود کو جائز اور درست قرار دے کر ان بینکوں سے معاملات کرنے کی اجازت دی ہے اور بعض علمانے فقہی اعتبار سے ان عقود پر اعتراضات کا اظہار کرتے ہوئے انہیں غیر شرعی قرار دیاہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں بحث پر فقہی زاویۂ نگاہ کے غالب ہونے والی یہ صورتِ حال درست نہیں ہے۔ ان کے خیال میں مسئلے کا عمومی معاشی تجزیہ پہلے ہونا چاہیے، فقہی جواز یا عدمِ جواز کی بحث بعد میں ہونی چاہیے، وہ بھی تب جبکہ معاملہ پہلے ٹیسٹ میں پاس میں ہو جائے۔ کچھ اسی طرح کی رائے کا اظہار جناب زاہد صدّیق مغل صاحب نے ماہنامہ ’الشریعہ‘ کی اشاعت جنوری ۲۰۱۰ء تا مارچ ۲۰۱۰ء میں اپنے قسط وار شائع شدہ مضمون میں کیا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے مروّجہ اسلامی بینکاری کے جواز اور عدمِ جواز کے قائلین دونوں کو تنقید کانشانہ بناتے ہوئے اپنے اس خیال کا اظہار کیاہے کہ دونوں فریقوں نے بحث کی ترتیب کو الٹ دیاہے۔ جناب مغل صاحب کے علاوہ بھی کئی لوگ ایسے ہوں گے جنہیں یہ جاننے میں دشواری پیش آرہی ہوگی کہ بظاہر معاشی نوعیت کے نظر آنے والے مسئلے میں فقہی پہلو کیوں غالب ہے اور وہ دینی مراکز جو معاشیات کے متخصص ہونے کی بجائے فتوے کی دنیا میں مرجعیت رکھتے ہیں، ان کی اس سے اتنی دلچسپی اور ان کا اس میں اتنا کردار کیوں ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے مسئلے کے اصل پس منظر کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ اصل پس منظر ذہن میں ہوتو بہت سی الجھنیں یا تو سرے سے پیداہی نہیں ہوتیں ، یا وہ دور ہوجاتی ہیں۔
مسئلے کا فقہی پس منظر
موجودہ دور میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کے سلسلے میں جن موضوعات پر بحث ومباحثہ ہوا، ان میں سود کا مسئلہ خاص طور پر شامل تھا۔ اس بات سے تو کوئی اختلاف کرہی نہیں سکتا کہ قرآن وحدیث نے ربا سے شدت کے ساتھ منع کیا ہے ، البتہ جدید دور میں جب بینکوں اور مالیاتی اداروں کی شکل میں سود کو ایک منضبط شکل ملی اوروہ کاروباری ہی نہیں عام معاشی زندگی اور سرگرمیوں کا بھی اہم جز بن گیا تو مسلمانوں میں یہ سوال اٹھا کہ آیا بینکوں یا اس طرح کے دیگر تمویلی اداروں کے معاملات میںیا مختلف قسم کے تمسکات کی صورت میں اصل زر پر جو زائد مقدار لی اور دی جاتی ہے، وہ اس ربا میں داخل ہے یا نہیں جسے اسلام میں ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں خصوصی طور پر وہ سود موضوعِ بحث بنا جو استہلاکی مقاصد کی بجائے استثماری مقاصد کے لیے ہو، یعنی قرض حاصل کرنے والے کا مقصد اس سے اپنی ذاتی ضرورتوں کو پورا کرنا نہیں بلکہ اس سے کوئی کاروبار اور نفع بخش کام کرنا ہو۔ اس مسئلے پر برّ صغیر اور عالمِ عرب سمیت مختلف جگہوں پر بحثیں ہوئیں اور اس بارے میں مختلف آرا سامنے آئیں۔ زیادہ معروف آرا دو تھیں۔ ایک یہ کہ بینکوں کے لین دین میں جسے انٹرسٹ کہا جاتا ہے، وہ بھی اسی طرح ربا میں داخل ہے جس طرح عام سیدھا سادہ سود ، جبکہ ایک دوسرا نقطۂ نظر یہ سامنے آیا کہ مروّجہ بینکوں کا انٹرسٹ اسلام کے منع کردہ ربا میں داخل نہیں ہے۔ اس مؤخرالذکر نقطۂ نظر میں کچھ لوگوں کا تو یہ سطحی استدلال تھا کہ اسلام زمانے کے ساتھ چلنے کا کہتاہے اور موجودہ دور میں سود معاشی اور کاروباری زندگی کا لازمی جز بن گیا ہے ، اس کے بغیر ترقی کرنا ممکن نہیں ہے، اس لیے مسلمان علما کو چاہیے کہ وہ کوئی ’ اجتہاد‘ کرکے سود کو جائز قرار دے دیں، لیکن کچھ حضرات خصوصاً عالمِ عرب کی بعض ایسی شخصیات بھی اس دوسرے نقطۂ نظر یا اس کے قریب قریب کی حامی تھیں جن کی نہ تو علمی حیثیت کا انکار کیا جاسکتاہے اور نہ ہی اس بات کا کہ انہوں نے جس رائے کا اظہار کیا، وہ واقعی ان کی دیانت دارانہ رائے تھی۔ ان حضرات نے بھی علمی استدلال کے ساتھ اپنی رائے پیش کی۔ (ان بحثوں کے ایک اجمالی جائزے کے لیے عربی دان حضرات عبد الرزاق السنہوری کی کتاب ’’ مصادر الحق فی الفقہ الإسلامی‘‘ کا تیسرا جز ملاحظہ کرسکتے ہیں )۔ لیکن وقت گذرنے کے ساتھ مؤخر الذکر رائے پس منظر میں جاتی رہی اور اسے نہ تو مسلمان فقہا میں قبولِ عام حاصل ہوا اور نہ ہی ان معیشت دانوں میں جو معیشت کا اسلامی زاویۂ نگاہ سے مطالعہ کررہے تھے۔ اس کے برعکس پہلی رائے کو مسلمانوں کے علمی اور اقتصادی حلقوں میں قبولِ عام حاصل ہوگیا۔ تقریباً ہر وہ قابلِ ذکر فورم جس پر یہ مسئلہ زیرِ بحث آیا، پہلی رائے ہی کو زیادہ پذیرائی ملی اور اب مسلمان مفکرین کی بہت واضح اور نمایاں اکثریت اسی رائے کو اختیار کر چکی ہے، تاہم یہ کہنا شاید مشکل یا قبل از وقت ہو کہ بحث بالکلیہ ختم ہو چکی ہے۔
اس بحث میں جن لوگوں نے حصہ لیا، ان میں ایک طبقہ علما اور فتوے کے شعبے سے وابستہ حضرات کا بھی تھا۔ یہ طبقہ بھی پہلے نقطۂ نظر کی نمائندگی کرنے والوں میں شامل تھا۔ اس طبقے کے لیے محض نظریاتی اور اکادیمی بحث تک محدود رہنا ممکن نہیں ہوتا، اس لیے کہ انہیں روز مرّہ کی زندگی میں لوگوں کے پوچھنے پر انہیں بتانا ہوتا ہے کہ وہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ زیرِ بحث مسئلے میں انہوں نے لوگوں کو یہی بتایا کہ وہ بینکوں کے انٹرسٹ کے لین دین سے گریز کریں، لیکن اسی کے ساتھ ان کے سامنے ایسے واقعات بھی بکثرت آئے جہاں محسوس ہوا کہ ان کے فتوے پر عمل کرنے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے یا کم از کم یہ کہ کاروبار میں اپنے دیگر ہم پیشہ لوگوں سے پیچھے رہنا پڑرہا ہے، مثلاً زید اور عمرو ٹیکسٹائل کے ایسے شعبے سے منسلک ہیں جس میں انہیں روئی خریدنی ہوتی ہے۔ روئی کی خریداری کے ساز گار سیزن میں دونوں کے پاس نقد رقم نہیں ہے۔ عمرو تو کسی بنک سے سود پر قرض لے لیتاہے اور بروقت سستی روئی خرید لیتاہے ، جبکہ سود کی حرمت کے پیشِ نظر زید ایسا نہیں کرتا۔ وہ بعد میں روئی خریدتا ہے جس کی وجہ سے اسے روئی مہنگی پڑتی ہے۔ اس طرح سے اس کے لیے مارکیٹ میں عمرو سے مقابلہ کرنا مشکل ہوجاتاہے ، یا عمرو مناسب وقت پربنک سے قرض لے کر ایک نیا یونٹ لگا کر اپنی پیداواری صلاحیت بڑھا لیتاہے ، جبکہ زید کے پاس اس وقت پیسے نہ ہونے کے باعث وہ ایسا نہیں کرپاتا۔ جب اس کے پاس پیسے آتے ہیں تو نیا یونٹ لگانے کے لئے وقت اتنا موزوں نہیں رہتا جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ محسوس کررہاہے کہ کاروبار میں پیچھے رہنے کی شکل میں وہ اس فتوے پر عمل کی قیمت ادا کررہا ہے جس کے بارے میں اسے بتایا جاتاہے کہ اسے آخرت میں اس کا بھر پور صلہ ملے گا۔ دوسری طرف مجیدہ اور حمیدہ دو بیوہ خاتون ہیں جن کے پاس ان کے خاوند کی چھوڑی ہوئی کچھ رقم موجود ہے۔ مجیدہ اسے بنک میں جمع کرادیتی ہے اور بنک اسے اس پر ماہانہ یا سالانہ رقم دیتاہے جس سے وہ گذر اوقات کرتی ہے۔ حمیدہ علماء کرام سے فتویٰ لیے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتی، اسے بتایا جاتاہے کہ بنک کے سیونگ اکاؤنٹ میں رقم رکھوانا جائز نہیں ہے۔ اب وہ کیا کرے؟ خود وہ کچھ کرنہیں کر سکتی، کسی کے انفرادی کاروبارمیں رقم لگانے کے لیے اسے کسی پر اعتماد نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ عورت مشکل صورتِ حال سے دوچار ہوگئی ہے۔ پہلی مثال میں زید اور دوسری مثال میں حمیدہ جس صورتِ حال سے دوچار ہیں، اس سے ایک طرف تو بنک انٹرسٹ کو ناجائز کہنے والوں میں سے جو لوگ فتوے یا عام لوگوں کی دینی راہ نمائی کے کام سے منسلک تھے اور ان کی خدمات کا دائرہ اکادیمی نوعیت کی کاوشوں تک محدود نہیں تھا، ان پر ’’ ہم کیا کریں ؟ ‘‘ کے سوال کا دباؤ بڑھ رہا تھا جس کا پورے طورپر اندازہ محض معاشی تجزیہ کاری کرنے والے کو نہیں ہوسکتا۔ دوسرے اس سے انہیں بنک انٹرسٹ کی حرمت کے بارے میں اپنا کیس کمزور ہوتا محسوس ہورہاتھا ، دلیل کے اعتبار سے نہیں ، بلکہ لوگوں کو مطمئن کرنے اور سود سے گریز پر آمادہ کرنے کے اعتبارسے۔ لوگ یہ کہتے تھے کہ مولوی لوگ فتوی تو دے دیتے ہیں، لوگوں کی مشکلات کو نہیں دیکھتے۔ اگر ہم ان مولویوں کی ماننے لگے تو دنیاسے پیچھے رہ جائیں گے۔ اس تنقید میں بذاتِ خود کتنا وزن تھا، یہ الگ بات ہے ، بادی النظر میں سود کی حرمت کے کیس پر اس کے اثرات پڑ رہے تھے اور کئی لوگوں کے لیے یہ کہنا آسان ہوگیا تھا کہ سود سے بچ کر ہم دنیا کے ساتھ چل نہیں سکتے۔ اس طرح سے ان علماکے معتقدین اور پیروکار بھی ان کے اس فتوے کو زیادہ عملی اہمیت نہیں دے رہے تھے۔ اس صورتِ حال کو یہ حضرات کس طرح محسوس کررہے تھے، اس کا اندازہ مولانا مفتی محمد شفیع ؒ کی اس عبارت سے لگایا جاسکتا ہے :
’’ہاں !اس میں شبہ نہیں کہ مشرق سے مغرب تک تمام تجارتوں میں سود کا جال اس طرح بچھا دیا گیاہے کہ آحاد ووافراد کیا ، کوئی جماعت مل کر بھی اس سے نکلنا چاہے تو تجارت چھوڑنے یا نقصان اٹھانے کے سوا کچھ ہاتھ آنا مشکل ہے۔ اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ عام تاجروں نے اب یہ سوچنا بھی چھوڑدیاہے کہ سود جو حرام ترین چیز اور بد ترین سرمایہ ہے، اس سے کس طرح نجات حاصل کریں۔ عام بے فکرے دین داروں کا تو کیا ذکر، وہ دین دار ، پرہیزگار مسلمان جو نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ میں شریعت کے پورے متبع ، تہجد گزار اور ذکراللہ میں مشغول رہنے والے ہیں، وہ رات کو تہجد ونوافل اور ذکر وفکر کا شغل رکھتے ہیں تو صبح دکان پر پہنچ کر ان میں اور ایک بئیے یا یہودی تاجر میں کوئی فرق نظر نہیں آتا ...‘‘ ( مسئلہ سود ص ۸ مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی )
اسی کے ساتھ ان حضرات کی فقہی دسترس نے انہیں توجہ دلائی کہ زید جیسے لوگوں کے مسئلے کا حل بعض ایسے معاملات کے ذریعے ممکن ہے جو فقہِ اسلامی کے لیے اجنبی نہیں بلکہ ہمیشہ سے امت میں ان کا تعامل چلا آرہاہے، مثلاً عمرو نے اگر سستے زمانے میں روئی کی خریداری کے لیے بنک سے سودی قرضہ لیاہے تو زید یہ کرسکتاہے کہ وہ خود روئی ادھار پر خرید لے ، جیسے عمرو کو قرض پر سود کی شکل میں اضافی لاگت پڑے گی، اسی طرح زید ادھار ہونے کی وجہ سے کچھ زیادہ ریٹ لگا دے، گویا بیعِ مؤجل کے ذریعے اس کا یہ مسئلہ حل ہوسکتاہے جوتقریباً تمام فقہا کے نزدیک ایک جائز عقد ہے ، لیکن اگر کوئی روئی بیچنے والا اس طرح ادھار سودا کرنے کے لیے تیار نہ ہو ، یا تو اس لیے کہ اسے خود پیسوں کی فوری ضرورت ہے یا اس لیے کہ وہ زید کو نہیں جانتا نیز کسی دَین (مؤخر ادائیگی )کی توثیق کے لیے کیا کچھ کیا جاسکتاہے، اس کی مہارت اس کے پاس موجود نہیں ہے تو زید کیا کرے۔ اس کا حل فقہِ اسلامی کے ایک اور عقد میں انہیں نظر آیا ، اور وہ ہے مرابحہ موجلہ ، یعنی کوئی تیسرا شخص جس کے پاس پیسے ہوں ، وہ نفع بھی کمانا چاہتاہو اور زید پر اعتماد کرنے کے لیے بھی تیّار ہو، یا اس کے پاس توثیقِ دین کی وہ مہارتیں موجود ہوں جن کی بنیاد پر اسے اطمینان ہو کہ میں زید سے اپنے پیسے نکلوا سکتا ہوں، یہ تیسرا شخص اس روئی کو نقد خرید کر اپنی تحویل میں لے لے اور کچھ نفع رکھ کر ادھار زید کو بیچ دے۔ اسی چیز کا تذکرہ کرتے ہوئے مندرجہ بالا اقتباس سے کچھ آگے چل کر مولانا مفتی محمد شفیع ؒ لکھتے ہیں :
’’یہ مرض تو عام ہو گیا کہ بہت سے مسلمانوں کو یہ خبر نہیں کہ فلاں معاملہ سودی ہونے کی وجہ سے حرام ہے ، فلاں میں قمار پایا جاتاہے ، ان میں سے بہت سے ایسے معاملات بھی ہیں جن کی مروّجہ شکل سود وربا پر مشتمل ہے لیکن اگر بازار والے چاہیں تو اس کو آسانی سے ایسے معاملے کی صورت میں بدل سکتے ہیں جو سود سے خالی ہو ، اگر وہ کم ازکم ایسے نجی معاملات ہی درست کرلیں تو سود کی لعنت سے اگر کلّی نجات نہ ملے تو کم از کم تقلیل تو ہو ....‘‘
یوں فقہی نقطۂ نظر سے سود کے متبادل کاروبار کا تصور سامنے آتاہے جو درحقیقت حرمتِ سود کے فتوے پر دین داروں میں بھی عمل نہ ہونے پر کڑھن کا نتیجہ تھا، جیساکہ اوپر والے اقتباس سے واضح ہے ۔ یہ کا م انفرادی طور پر بھی ہوسکتے تھے ، لیکن خود مفتی محمد شفیع صاحب ؒ نے آگے چل کر ذکر کیاہے کہ اس کے لیے اجتماعی کاوشوں کی ضرورت ہے۔ مذکورہ مثالوں میں جہاں زید جیسے بے شمارلوگ معاشرے میں موجود ہوں گے جو یہ چاہتے ہوں گے کہ کوئی شخص اپنی رقم لگاکر اس کا مسئلہ حل کردے، وہیں حمیدہ جیسے بھی کئی لوگ ہوں گے جو یہ چاہتے ہوں گے کہ ان کا پیسہ فالتو پڑا رہنے کی بجائے کسی ایسی جگہ لگ جائے جہاں سے اسے حلال نفع حاصل ہوجائے۔ جب معاشرے میں متفرق طور پر ایک دوسرے کو نہ جاننے والے متضاد معاشی رغبات رکھنے والے لوگ موجود ہوں مثلا کچھ لوگ کوئی چیز لینا چاہتے ہوں اور کچھ لوگ وہی چیز دینا چاہتے ہوں تو درمیان میں کسی ایسے ثالث کا پیدا ہونا فطری بات ہے جو دونوں قسم کی رغبات کے درمیان پل کا کام دے۔ اگر تو فقہِ اسلامی اور شریعت کے مطابق کاروبار کاتسلسل اور فطری ارتقا جاری رہتا اور درمیان میں استعماری انقطاع یا فقہ میں جمود اور اجتماعی معاملات میں اسلامی تعلیمات کو زیادہ عملی اہمیت نہ دینے کا دور نہ آتا تو شاید اس طرح کی ثالثی کے لیے الگ نوعیت کے ایسے ادارے وجود میں آچکے ہوتے جو مسلسل اسلامی معاشرے ہی کے عمل کا تسلسل ہوتے، لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا، اس لیے لوگوں کو سود سے بچانے کے مذکورہ کام کو اجتماعی شکل دینے اور ایک ثالث وجود میں لانے کے لیے جب ایک ایسے ادارہ جاتی ڈھانچے کی ضرورت محسوس ہوئی جسے قانونی تحفظ بھی حاصل ہو اور اس کے پاس دیون کی واپسی یقینی بنانے سمیت متعلقہ مہارتیں بھی موجود ہوں تو اس مقصد کے لیے کوئی نیا ادارہ جاتی ڈھانچا تشکیل دینا کوئی آسان کام نہیں تھا، خاص طور پر ایسے حالات میں جبکہ ریاستی ادارے تو درکنار دین دار کاروباری لوگوں میں بھی اس مقصد سے دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی ۔ جیسا کہ مفتی محمد شفیع صاحب ؒ کی مذکورہ عبارت سے بھی واضح ہے ۔ ، ایسے میں ان مقاصد کے قریب ترین جو ادارہ ہوسکتاتھا کہ ظاہر ہے کہ وہ بنک ہی تھا۔
اس مقصد کے لیے بنک کی طرف ذہن جانا اس لیے بھی قرینِ قیاس تھا کہ بحث ہی ساری بنکوں کے سود کی ہورہی تھی اور اس سود کی حمایت کرنے والوں کا ایک استدلال یہ بھی تھا کہ سود کے بغیر بنک نہیں ہوسکتا اور بنک کے بغیر کاروبار نہیں ہو سکتا، اس لیے انہوں نے مناسب سمجھا کہ اسی ڈھانچے کو درست طریقے سے استعمال کرکے دیکھ لیا جائے ،( تاہم یہ بات ان کے ذہن میں ضرور تھی کہ شرعی طریقے استعمال کرنے کی صورت میں بنک اپنی بعض روایتی خصوصیات کھو دے گا ، جیسا کہ آگے چل کر اس کو ذکر کیا جائے گا)۔ مروّجہ غیر سودی بینکاری کے بارے میں بعض ناقدین نے ’’ نئی بوتل میں پرانی شراب‘‘ کا محاورہ استعمال کیا ہے ، جبکہ مفتی محمد شفیع ؒ ، مولانا محمدیوسف بنوری ، مفتی رشید احمد لدھیانوی اور مفتی محمد تقی عثمانی جیسے ان حضرات کی جد وجہد کا حاصل یہ نکلتاہے کہ شراب تو نئی ہو یعنی عقود تو فقہِ اسلامی سے مستفاد ہوں ، لیکن اس نئی شراب کے لیے بوتل ( ادارہ جاتی ڈھانچا) انہیں نئی نہیں دستیاب ہوسکی، اس لیے بوتل پرانی ہی استعمال کرنا پڑی۔ اب اگر بوتل (ادارہ جاتی ڈھانچا)بھی نئی اور متبادل دستیاب ہوجائے تو ظاہر ہے کہ ان حضرات کا اس پر اصرار نہیں ہوگا کہ اس مقصد کے لیے ادارہ جاتی ڈھانچا بعینہ یہی ہونا چاہیے، البتہ اس موقع پر یہ سوال پیدا ہونا ایک فطری امر تھا کہ ادارہ جاتی ڈھانچا وہی سہی،جو عقود اس میں طے پا رہے ہیں وہ درست ہیں یا نہیں، یعنی بوتل پرانی ہی سہی، کہیں محض لیبل بدل کرشراب بھی وہی تو نہیں ڈال دی گئی۔ یہی وہ سوال ہے جس کا جائزہ مختلف دارالافتا لے کر اب تک مختلف فتوے جاری کرچکے ہیں۔ بعض حضرات کی رائے میں بعض طے شدہ اور شریعہ بورڈز کی طرف سے منظور شدہ ایسے تمویلی طریقے بھی ممکن اور موجود ہیں جن پر اگر درست طریقے سے عمل کیا جائے تو فقہی اعتبار سے وہ جائز عقد ہوگا، جبکہ بعض اہلِ فتوی کی رائے میں اب تک جو تمویلی طریقے تجویز کئے گئے ہیں، ان پر فقہی اشکالات موجود ہیں ، اس لیے غیر سودی بینکاری کے نام سے جو معاملات ہورہے ہیں ان میں شریک ہونا جائز نہیں ہے۔ دونوں طرف سے دلائل پیش کیے گئے ہیں اور پیش کیے جارہے ہیں۔ اگر کل علمی اختلاف رحمت تھا تو آج یہ کلیہ اور اصول ختم نہیں ہوگیا ، آج کے اختلاف کے بارے میں بھی ہمیں یہی امید رکھنی چاہیے کہ وہ باعثِ رحمت ہی ہوگا۔ اختلاف کا علمی حدود میں رہنا کل بھی شرط تھا آج بھی ہے، تاہم یہ ساری کی بحث فقہی نوعیت کی ہے۔ یہ صورتِ حال صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا میں ہے کہ اس بحث سے منسلک لوگوں کی بڑی تعداد ان علما کی ہے جن کا بنیادی میدان فقہ ہے۔ (مولانا مفتی محمد شفیع ، مولانا محمد یوسف بنوری اور مولانا مفتی رشید احمد وغیرہ حضرات کی غیر سودی بینکاری کے سلسلے میں کیا کاوشیں اور فکر مندیاں رہی ہیں، ان کے اجمالی جائزے کے لئے مولانا محمد تقی عثمانی کی کتاب ’’ غیر سودی بینکاری: متعلقہ فقہی مسائل کی تحقیق اور اشکالات کا جائزہ‘‘ ص ۱۵ تا ۵۴ اور جامعۃ الرشید کے اہلِ افتا کی کتاب غیر سودی بینکاری ص ۹ تا ۲۵ کا مطالعہ کیا جاسکتاہے) ۔
فقہا کے اس میدان سے منسلک ہونے کے پس منظر کو اگر پورے طور پر سامنے رکھا جائے تو درجِ ذیل بنیادی حقائق سامنے آتے ہیں :
۱۔ غیر سودی بینکاری کے ساتھ ان اہلِ فقہ کی دلچسپی درحقیت بینکوں کے سود کے خلاف ان کی جد وجہد کا اگلا مرحلہ ہے اور اس طرف ان کی توجہ درحقیقت اس احساس کا نتیجہ ہے کہ اس کے بغیر لوگوں کو سودی معاملات سے منع کرنا انتہائی دشوار ہے ۔
۲۔ غیر سودی بینکاری کے حامی علماکااصل مقدمہ یہ نہیں ہے کہ بینکاری ضرور ہونی چاہیے، ایک شکل میں نہیں تو دوسری میں سہی ، بلکہ ان کا اصل مقدمہ یہ ہے کہ تمویلی ربا سمیت ہر قسم کے ربا سے بچنا چاہیے، لہٰذا اگر کوئی شخص سرے سے بینکاری کی کسی سہولت سے فائدہ ہی نہیں اٹھانا چا ہتا، ایسا شخص ان علمایا ان کے فتوے کا مخاطب نہیں ہے ، ان کا مخاطب بنیادی طور پر وہ شخص ہے جو عام بینکوں سے سود ی قرضے لیتا یا ان میں روپیہ جمع کراکے اس پر سود لیتا ہے ، چنانچہ خود مولانا محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں: ’’ جن بینکوں سے معاملے کو میں جائز سمجھتا ہوں ان کے بارے میں بھی اگر کوئی مشورہ کرے تو میں یہ کہتا ہوں کہ اگر آپ بینک سے تمویل حاصل کئے بغیر کام چلا سکتے ہوں تو یہ زیادہ بہتر ہے ، البتہ اگر آپ تمویل حاصل کرنے کا فیصلہ کر چکے ہوں تو سودی بینکوں کے بجائے ان سے رجوع کریں ‘‘ ، اسی طرح اگر بینک کے علاوہ کوئی اور ادارہ جاتی ڈھانچا ربا کے متبادل جائز تمویلی سہولتیں دینے کے لیے وجود میں لایا جاتاہے جوجز محفوظاتی بینکاری fractional reserve banking کے طریقے پر کام نہیں کرتا، یا سرے سے کوئی ادارہ ہی نہیں ہوتا بلکہ اسی طرح کے عقد لوگ انفرادی طور پر ہی کرنے لگ جاتے ہیں تو اس پر بھی ان علما کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔
۳۔ وجہ اس کی واضح ہے کہ اصل صورتِ حال یہ نہیں تھی کہ ان حضرات کی طرف سے بینکوں کے سود کی حرمت کے فتوے کی وجہ سے بینکوں کا وجود خطرے میں پڑا ہوا تھا، کچھ بینکاروں نے کچھ علما کی منت سماجت کی کہ ہمارے بینکوں کو بچا نے کے لیے کوئی راستہ نکالا جائے ، اس پر انہوں نے کچھ ایسے طریقے دریافت کیے جن کے ذریعے یہ بینک بھی بچ سکیں اور سود کی حرمت کے فتوے کا بھی بھرم رہ جائے، بلکہ معاملہ برعکس تھا کہ مفتی محمد شفیع ؒ جیسے لوگوں کو احساس تھا کہ ہمارے تہجد گذار پیروکار بھی اس معاملے میں ہمارے فتوے پر عمل کے لیے تیار نہیں ہیں اورہمارے فتوے سے بینکوں کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑ رہا۔ لوگ ان سودی بینکوں کے ساتھ بے دھڑک لین دین کرہے ہیں ، جب تک لوگوں کو متبادل نہیں بتایا جائے گا، اس وقت تک لوگوں کو سودی معاملات سے روکا نہیں جاسکتا۔ جہاں تک بینکوں کے وجود کا تعلق ہے تووہ غیر سودی بینکاری سے پہلے بھی موجود تھے اور اب بھی اگر غیر سودی بینکاری کو بالکلیہ ختم کردیا جائے تب بھی موجود رہیں گے۔ جو حضرات کہتے ہیں کہ بینک کا ادارہ خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہو بذاتِ خود غیر اسلامی ہے، وہ اگر بینکنگ کو صفخۂ ہستی سے مٹانے کی کوئی سبیل نکال بھی لیتے ہیں۔ جس کے لیے جد وجہد کرنے سے انہیں کوئی نہیں روک سکتا ۔ تو یہ علما یہ کہہ کر کبھی اس میں حائل نہیں ہوں گے کہ بینکنگ تو شرعاً بہت ضروری ہے اس لیے اس کے خاتمے کی جد وجہد ناجائز ہے۔ چونکہ ان علما کے پیشِ نظر جائز عقود کی خاص نوعیت ہے ، ( جیسا کہ جناب زاہد صدیق مغل صاحب کا شکوہ ہی ان علما سے یہ ہے کہ وہ عقود کی سطح ہی کی بات کرتے ہیں) یہ عقود بینکوں یا جزمحفوظاتی بینکوں کے خاتمے کی صورت میں بھی ممکن العمل ہوں گے ، جن عقود کو یہ حضرات بنیاد بناتے ہیں، ان کے لیے بینکوں کا وجود کوئی ناگزیر امر نہیں ہے ، اس لیے اگر کچھ حضرات بینکنگ کا بالکلیہ خاتمہ کرنا چاہتے ہوں تو یہ عقود کی سطح کی بحث اس میں حائل نہیں ہوسکتی ، بہر حال ان علما کا اصل مسئلہ بینکاری کا بقا نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ جب تک بنک موجود ہے، اسے سود کے عنصر سے پاک کرنا ہے۔
۴۔ یہی وجہ ہے کہ سود کے بغیر تمویلی طریقوں یا اسلامی بینکاری کے سلسلے میں علما کے وہی حلقے زیادہ پیش پیش نظر آتے رہے ہیں جو بینکوں کے سود کی حرمت کے معاملے میں پیش پیش تھے ، اسی طرح اسّی (۸۰) کی دہائی میں محض لفظی اور کاغذی تبدیلیوں کی بنیاد پر بینکوں کے سود کو ختم کرنے کا جو سرکاری دعوی پاکستان میں کیا گیا تھا، اس کے خلاف بھی انہی حلقوں کی آواز سنائی دی تھی جواب غیر سودی بینکاری کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔ ان میں مولانا مفتی محمد شفیعؒ اور مولانا مودودی ؒ کے حلقہ ہائے فکر خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
۵۔ فقہ اسلامی اور فتوے سے منسلک ان حضرات نے اگرچہ بینکوں کے سود کی حرمت پر بحث کرتے ہوئے عمومی سطح پر اس کے معاشی نقصانات یا برے اثرات بھی بیان کیے ہیں، لیکن جو شخص بھی ان کے منہجِ فکر سے کچھ واقفیت رکھتا ہے، اس کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ یہ باتیں ان کے ہاں الزامی یا اقناعی جواب کی حیثیت رکھتی تھیں، مناط الحکم کا درجہ نہیں۔ سود کی حرمت میں ان کے نقطۂ نظر کا دار و مدار نصوص اور عقد کی نوعیت پر تھا نہ کہ اس کے عمومی سطح پر مرتب ہونے والے معاشی اثرات پر، ( اس لیے ان حضرات کی طرف سے بینکوں کے سود کے جو مفاسد بیان کیے گئے ہیں، ان کا ازسرِ نو جائزہ لیا جاسکتاہے کہ کس حد تک وہ امرِ واقعہ کے مطابق ہیں اور کہیں ایسا تو نہیں کہ ان میں بعض اثرات میں خود سودی نظام نے اپنے اندر تبدیلیاں لا کر کمی کرلی ہو ، یا اسی طرح کے اثرات بعض ایسے عقود میں موجود ہوں جنہیں فقہاہمیشہ جائز کہتے چلے آئے ہیں ،البتہ اس طرح کے جائزے کا ان روایتی فقہی حلقوں کے مطابق سود کے عدمِ جواز پر اثر مرتب نہیں ہوگا ، کیونکہ یہ چیزیں ان کے ہاں علت یا مناط الحکم کا درجہ نہیں رکھتیں۔ یہ بات کہ شرعی جواز وعدمِ جواز کا دار و مدار عقد کی نوعیت پر ہے نہ کہ اس پر مرتب شدہ معاشی اثرات پر ،مروّجہ غیر سودی بینکاری کو جائز یا ناجائز کہنے والے دونوں طرف کے اہلِ فتوی کے ہاں قدرِ مشترک ہے ) اصل قضیہ چونکہ بینکوں کے سود کی حرمت سے شروع ہوا اور علما کے یہ حلقے (خواہ وہ موجودہ غیر سودی بینکاری کی حمایت کررہے ہوں یا مخالفت ) بینکوں کے سود کی حرمت پر متفق تھے اور یہ حرمت بھی ان کے ہاں عقد کی نوعیت پر مبنی تھی ، اس لیے جب ان حلقوں میں یہ سوال اٹھے گا کہ فلاں قسم کی بینکنگ سود کے اس ناجائز عنصر سے خالی ہوگئی ہے یا نہیں تو اس پر بحث کے دوران عقود کی نوعیت کے جائزے کا پہلو ہی غالب ہوگا۔ یہ سوال کہ یہ علما خواہ غیر سودی بنکنگ کے مجوّزین ہوں یا ناقدین، مسئلے کو جزوی طور پر عقود کی نوعیت کے حوالے سے ہی کیوں لے رہے ہیں، بحث کے پورے پس منظر کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے۔
۶۔ چونکہ اس نئی بینکاری کا مقصد ہی یہ تھا کہ لوگوں کے لیے سود سے بچنا آسان ہو جائے، عمومی سطح پر معیشت میں کوئی بڑا اور فوری انقلاب بپا کرنا ان کے پیشِ نظر نہیں تھا، اس لیے ابتدا میں پاکستان میں اس کے لیے ’’ بلا سود بینکاری ‘‘ یا ’’ غیرسودی بینکاری ‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی رہی ہے۔ عربوں کے ہاں بھی ’’ البنک اللاربوی ‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ یہ واضح نہیں کہ’’ اسلامی بینکاری‘‘ کی اصطلاح کہاں سے اور کیسے مروّج ہوئی، بہر حال اسلامی بینکاری کا مطلب بھی ایسی جائز بینکاری لیا جانا چاہیے جو ان فقہا کے نقطۂ نظر سے عقودِ فاسدہ سے خالی ہے ، اسے اس سے زائد حیثیت دینا اور یہ توقع رکھنا کہ اس سے عمومی معاشی سطح پر کوئی فوری انقلاب بپا کرکے احیاے اسلام کا راستہ ہموار ہوگا، یہ بھی مبالغہ ہوگا۔ اس لیے بھی کہ فائنانسنگ معیشت کا ایک شعبہ ہے ، صرف ایک شعبے کو کتنا ہی مثالی کیوں نہ بنالیا جائے اس کے اثرات محدود ہی ہوں گے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ بعض خارجی عوامل اور نیت کی وجہ سے ایک جائز اور مباح کام کرنا یا اس کی ترویج کی کوشش کرنا مستحسن بن جاتاہے ، جیسے عصری تعلیم حاصل کرکے کوئی ملازمت اختیار کرنا ایک جائز اور مباح کام ہے ، لیکن جس معاشرے میں اَن پڑھ نوجوان آوارہ گردی اور بے راہ روی میں مبتلا ہورہے ہوں، وہاں انہیں پڑھا لکھا کر یا کوئی ہنر سکھا کر کسی ملازمت پر لگانے کی مہم شروع کرنااور اس مقصد کے لیے ادارے قائم کرنا صرف جائز ہی نہیں مستحسن ہوگا۔ اسی طرح جو لوگ بینکوں کے سود کو بھی عام سود کی طرح حرام اور موجبِ وعید سمجھتے ہیں، ان کے نقطۂ نظر سے ایسی کوشش کرنا جس سے لوگوں کے لیے اس حرام سے بچنا آسان ہو جائے، مستحسن شمار ہوگا ، البتہ جن کے نزدیک اس سود میں کوئی قباحت ہی نہیں ہے یا اس کا ناجائز ہونا ثانوی سا مسئلہ ہے، ان کی بات اور ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے اس طرف توجہ دلانا بھی مناسب معلوم ہوتاہے کہ ہمارے ہاں فقہ کے بارے میں مختلف رجحانات پائے جاتے ہیں۔ بعض حضرات، متأخرین بالخصوص عالمگیریہ اورشامیہ وغیرہ کی عبارات پر زیادہ انحصار کرتے ہیں، بعض حضرات اس سے ذرا پیچھے جاکر سرخسی ، کاسانی اور مرغینانی کی ذکر کردہ تعلیلات وغیرہ کو بھی پیشِ نظر رکھتے ہیں، بعض حضرات اس دائرے کو وسیع کرتے ہوئے دیگر معروف مذاہبِ فقہیہ سے بھی استفادہ کرتے ہیں، صحابہ وتابعین کے آثاراور نصوص کی طرف بھی رجوع کرتے ہیں۔ ان سب رجحانات کے منہجِ فکر اور فکری سرچشموں میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے، یہ سب اسی علمی اور فقہی روایت کا تسلسل ہیں جو صدیوں سے امت میں چلی آرہی ہیں۔ اس منہج کے حاملین کو آج کل عموماً روایتی علما اور اس فقہ کو روایتی فقہ بھی کہا جاتاہے،اگر یہ اصطلاح نامناسب معلوم ہوتو ہم آسانی کے لیے اسے مدوّن فقہ کہہ سکتے ہیں۔ اس میں وہ حضرات بھی شامل کیے جاسکتے ہیں جو کسی متعین فقہ کی تقلید کے قائل نہیں ہیں۔ اس مدوّن یا روایتی فقہ سے ہٹ کر جدید دور کے بعض مفکرین کے ہاں ایسے رجحانات بھی موجود ہیں جن میں اس مدوّن فقہ سے استفادہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان کے ہاں زیادہ زور ان کے فہمِ قرآن اور چند اصول وکلیات پر ہوتاہے ، ان میں سے بعض تو سنت اور آثار کی حجیت کے قائل ہی نہیں ہیں یا پھر ان کی وہ اہمیت ان کے ہاں نہیں ہے جو روایتی حلقوں کی نظر میں ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک یہ دوسری قسم کے رجحانات مسلمانوں کے عمومی اور مرکزی دھارے سے کٹے ہوئے تھے، تاہم میڈیا کے پھیلاؤ کے بعد روایتی حلقوں کے جدید میڈیا کے بارے میں تحفظات، اس سے عدمِ استفادہ، مناسب اندازِ تخاطب کے فقدان ، بعض اہم اور زندہ مسائل سے نظر چرانے کی کوشش وغیرہ مختلف وجوہات کی وجہ سے ان غیر روایتی رجحانات نے بھی اپنی جگہ بنائی ہے، لیکن اب بھی مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت جب کسی مسئلے میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں راہ نمائی حاصل کرنا چاہتی ہے تو روایتی حلقوں ہی کی طرف رجوع کرتی ہے، اس لیے یہ کہنا درست ہوگا کہ آج بھی مسلمانوں کی دینی ضروریات کے پورا کرنے میں اپنے تمام داخلی رجحانات سمیت اس روایتی یا مدوّن فقہ کاسب سے بڑا اور مرکزی حصہ ہے۔ اس روایتی یا مدوّن فقہ نے حالیہ دور میں معاملاتِ مالیہ کے بارے میں بہت زیادہ پیش رفت کی ہے اور فقہ المعاملات پر عربی انگریزی اور اور اردو سمیت متعدد زبانوں میں خاصا مواد سامنے آچکا ہے۔ غیر روایتی مفکرین کی کاوشیں اپنی جگہ، لیکن اس طرح کی کوئی فکر یا فقہ روایتی فقہ کے متبادل کے طورپر ابھری تو اس کے خدوخال واضح ہونے اور crystalize ہو کر سامنے آنے میں شاید ابھی وقت لگے۔ تب تک اس مدوّن فقہ سے صرفِ نظر کرنا آسان نہیں ہوگا۔ یہی وہ فقہ ہے جس کی رو سے ہمارے ہاں غیر سودی بینکاری کے جواز وعدمِ جواز پر بحث ہورہی ہے۔
جناب زاہد صدیق مغل صاحب کس منہجِ فکر سے وابستہ ہیں، یہ بات ان کے مذکورہ مضمون یا ان کے دیگر مضامین سے واضح نہیں ہوپائی ، بلکہ اس حوالے سے ابہام اورتضاد نظر آیا ہے۔ ایک طرف تو وہ مقاصد الشریعہ پر زور دیتے اور ان میں اس بات کو شمار کرتے ہیں کہ ریاستی جبر کے تمام اختیارات علما کے ہاتھ میں دے کران علما کی theocracy قائم کردی جائے۔ علما سے ان کی کیا مراد ہے؟ غیر روایتی منہجِ فکر رکھنے والے اہلِ علم تو کسی theocracy کے سرے سے قائل ہی نہیں ہیں۔ دوسری طرف عموماً ہمارے عرف میں جن کو علما کہا جاتاہے، ان پر وہ تنقید کررہے ہیں ، خواہ وہ غیر سودی بینکاری کے مجوزین ہوں یا ۔ خود مغل صاحب کے لفظوں میں ۔ ناقدین کی بڑی اکثریت ہو۔ مثال کے طور پر یہ مسئلہ کہ روایتی بینکوں کی اصل خرابی کیا ہے،اس میں ان کے مضمون کا نچوڑ یہی نکلتاہے بلکہ انہوں نے خود نکالا ہے کہ روایتی بینکنگ میں اصل خرابی یہ نہیں کہ اس میں سود پایا جاتا ہے۔ یہ تو ثانوی درجے کا مسئلہ ہے ، اصل خرابی ۔ سود سے بھی بڑی خرابی ۔ ان بینکوں کا جزوی محفوظات پر مبنی تمویل(fractional reserve financing) کرکے زر کی رسد میں اضافے کا باعث بنناہے۔ ان کی یہ بات روایتی علما کے منہجِ فکر کے بالکل خلاف ہے اور شاید ہی کوئی عالم ان کی اس بات سے اتفاق کرے، اس لیے کہ بینک کی یہ خرابی جسے وہ بیان کررہے ہیں، ایک رائے اور اجتہاد کا درجہ رکھتی ہے جس کے بارے میں وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ غیر سودی بینکاری کے مجوزین اور ناقدین نے اس سے سہوِ نظر کیا ہے۔ ان سہوِ نظر کرنے والے والوں میں برّ صغیر اور شرقِ اوسط سمیت دنیا بھر کے بے شمار علما اور بحث وتحقیق کے بڑے بڑے فورمز شامل ہیں۔ یہ بات بذاتِ خود اس بات کا اعتراف ہے کہ یہ کوئی ایسی خرابی نہیں ہے جسے روزِ روشن کی طرح عیاں کہا جاسکے ، بلکہ آگے چل کر ہم دیکھیں گے کہ جناب مغل صاحب کی رائے کے برعکس بعض دیگر مسلمان ماہرین معیشت اس استدلال کو تسلیم ہی نہیں کرتے کہ بینکوں کا تخلیق کردہ زر out of nothing ہوتا ہے، مثلاً ملاحظہ ہو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ملائیشیا کے شعبہ معاشیات کے پروفیسر ڈاکٹر زبیر حسن کا مضمون بعنوان : Credit creation and control : an unresolved issue in Islamic banking جبکہ سود کی بطور ایک عقد کے حرمت منصوصِ قطعی ہے اور قرآن وحدیث میں اس پر شدید وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ ایسے میں شاید ہی کوئی عالم ہو جو یہ تسلیم کرنے کے تیار ہو کہ ایک رائے اور اجتہاد کے نتیجے میں سامنے آمنے والی خرابی اوّلیں مسئلہ ہے اور جس کی حرمت منصوص ہے، اس کی شناعت ثانوی حیثیت رکھتی ہے، اس لیے کہ وہ علما غالباً جن کی تھیوکریسی فاضل مضمون نگار قائم کرنا چاہتے ہیں، وہ بینکوں کے سود کوبھی عام سود کی طرح صرف ناجائز ہی نہیں ،حرامِ قطعی سمجھتے اور اسے قرآن وحدیث کی وعیدوں میں داخل کرتے ہیں اور ان کے ہاں یہ بھی طے شدہ امر ہے کہ مستنط چیز منصوص کے برابر نہیں ہوسکتی ۔
سچی بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل کراچی کے بعض مراکزِ افتا یا دینی اداروں کی مروّجہ اسلامی بینکاری کے خلاف تحریریں سامنے آئیں تو راقم الحروف کا ابتدائی تأثر یہ تھا کہ ان میں دو ایسے حلقوں کی سوچ کی جھلک نظر آرہی ہے جن کے منہجِ فکر میں عام حالات میں بعد المشرقین ہوتاہے۔ ایک وہ حلقہ ہے جو فقہی جزئیات کو اتنی اہمیت دیتاہے کہ اس سے ہٹ کر سوچنے کو وہ ایسے ’ اجتہاد ‘میں داخل سمجھتاہے جس کی آج کے زمانے میں کوئی گنجائش نہیں ہے، مقاصدِ شریعت جیسے الفاظ انہیں اتنے اپیل نہیں کرتے۔ کچھ عرصہ قبل ایک فتوے میں اسلامی بینکاری سے جوڑے گئے تصویر کے مسئلے میں یہی اندازِ فکر نمایاں نظر آتاہے ، بلکہ اس میں اس بات کا اظہار بھی دکھائی دیتاہے کہ ہمارے بہت قریب کے بزرگوں کی تصریحات بھی حرفِ آخر کا درجہ رکھتی ہیں ، ان سے انحراف یا حالات کی تبدیلی کی وجہ سے غور کے نئے گوشے مدنظر رکھنا بھی مذموم خود رائی میں داخل ہے۔ دوسری طرف وہ حلقہ ہے جو جزئیات کو اتنی اہمیت نہیں دیتا اور یہ ضروری سمجھتاہے کہ کسی بھی مسئلے کو اصول وکلیات یا جسے وہ مقاصد الشریعہ کہتے ہیں، کی روشنی میں دیکھا جائے۔ بینکوں کے انٹرسٹ کو جائز کہنے والے تقریباً تمام حضرات دوسری قسم کے حلقوں سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ مروّجہ اسلامی بنکاری کے مجوّزین دونوں حلقوں کی طرف سے اعتراضات کی زد میں ہیں۔ ایک طرف سے ان پر یہ اعتراض ہے کہ انہوں نے متأخرین کی جزوی تصریحات سے انحرف کیا ہے، دوسری طرف سے ان پر اعتراض ہے کہ وہ عمومی اجتہاد کی بجائے روایتی فقہی انداز سے مسئلے کولیتے ہیں۔ غیر سودی بینکاری کے خلاف بعض تحریروں میں ان دونوں حلقہ ہائے فکر کا ایک عجیب امتزاج سا نظر آتا ہے۔ اس طرح کی تحریروں سے ابھرنے والا یہ تاثر جناب زاہد صدیق مغل صاحب کے اس مضمون سے اور زیادہ نمایاں ہوگیا ہے۔ بعض جگہوں پر فاضل مضمون نگار روایتی علما کی بہت زیادہ حمایت کرتے ہوئے نظر آتے بلکہ ان کی تھیوکریسی قائم کرنے کے قائل نظر آتے ہیں اور کہیں ان سب پر تنقید کرتے ہوئے یا ان کے مشترکہ منہجِ فکر سے ہٹ کر بات کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، کہیں وہ یہ تجویز دیتے ہیں کہ بنک جیسے تمام اداروں کو مدارسِ دینیہ کے ماتحت کردیاجائے اور دوسری طرف جو بنک انہی مدارس کی بعض شخصیات یا فضلا کی نگرانی میں ہیں، اسے درست نہیں سمجھ رہے۔ اگر بنکوں کو دینی مدارس کے ماتحت کرنا مقاصدِ شریعت میں سے ہے تو مذکورہ بنکوں کوجن کی نگرانی علما کررہے ہیں، ان کو اس مقصد کی طرف ایک قدم تو ضرور قرار دینا چاہیے۔ یک رخی کایہ فقدان جو بظاہر نظر آرہاہے، وہ فاضل مضمون نگار کی طرف سے ابلاغ کی کمی کا نتیجہ ہے ، واقعی فکری اور ذہنی الجھاؤ ہے یا بعض باتیں محض کسی طبقۂ فکر کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے ہیں، اس کے بارے میں راقم الحروف کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
(جاری)