سید منظور الحسن
کل مضامین:
11
غامدی صاحب کے تصور ’سنت‘ پر اعتراضات کا جائزہ
(کئی سال قبل ماہنامہ الشریعہ کے صفحات پر جاوید احمد صاحب غامدی کے افکار ونظریات پر نقد ونظر اور جوابی توضیحات پر مبنی ایک سلسلہ مضامین شائع ہوا تھا۔ محترم مولانا حافظ صلاح الدین یوسف نے اپنے حالیہ تفصیلی مقالے میں اس بحث کے بعض پہلوؤں کو دوبارہ موضوع بنایا ہے جس کی قسط وار اشاعت کا سلسلہ زیر نظر شمارہ سے شروع کیا جا رہا ہے۔ بحث کا پس منظر قارئین کے ذہنوں میں تازہ کرنے کے لیے سابقہ سلسلہ مضامین میں سے کچھ منتخب حصے یہاں دوبارہ شائع کیے جا رہے ہیں۔ سید منظور الحسن کا تفصیلی مقالہ جس سے درج ذیل اقتباسات منتخب کیے گئے ہیں، الشریعہ کے جنوری تا...
غامدی صاحب کے تصور ’سنت‘ پر اعتراضات کا جائزہ (۴)
اپنے ہی تصور سنت سے انحراف۔ فاضل ناقد نے بیان کیا ہے کہ غامدی صاحب نے سنت کی تعیین کے جو اصول قائم کیے ہیں ، بعض اطلاقات میں خود ان کی خلاف ورزی کی ہے۔ مثال کے طور پر انھوں نے بیان کیا ہے کہ ’’وہ چیزیں جو محض بیان فطرت کے طور پر آئی ہیں، وہ بھی سنت نہیں ہیں۔‘‘ اس اصول سے انحراف کرتے ہوئے انھوں نے بعض فطری امور مثلاً بدن کی صفائی سے متعلق احکام کو فطرت میں شامل کر رکھا ہے۔ اسی طرح وہ تواتر اور اجماع سے ثابت امور کو اصولاً سنت مانتے ہیں، جبکہ ڈاڑھی اور سر کے دوپٹے کو اس معیار پر پورا اترنے کے باوجود سنت تسلیم نہیں کرتے۔ (فکر غامدی ۵۸، ۶۳۔۶۵)۔ گذشتہ...
غامدی صاحب کے تصور ’سنت‘ پر اعتراضات کا جائزہ (۳)
سنت کے ثبوت کے بارے میں غامدی صاحب کے موقف پر فاضل ناقد نے بنیادی طور پر چار اعتراض کیے ہیں:ایک اعتراض یہ کیا ہے کہ غامدی صاحب معیار ثبوت میں فرق کی بنا پر حکم کی نوعیت اور اہمیت میں فرق کو تسلیم کرتے ہیں، جبکہ ذریعے کی بنیاد پر کسی چیز کے دین ہونے یا نہ ہونے میں فرق کرنا درست نہیں ہے۔ دوسرا اعتراض یہ کیا ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک سنت کے ثبوت کا معیاراخبار آحاد نہیں،بلکہ تواترعملی ہے، حالاں کہ تواتر کا ثبوت بذات خوداخبار آحاد کا محتاج ہے۔ تیسرا اعتراض یہ کیا ہے کہ غامدی صاحب نے سنت کی تعیین کے جو اصول قائم کیے ہیں ، بعض اطلاقات میں خود ان کی خلاف...
غامدی صاحب کے تصور ’سنت‘ پر اعتراضات کا جائزہ (۲)
ملت ابراہیم کی اتباع۔ فاضل ناقد نے دوسرا اعتراض یہ کیا ہے کہ غامدی صاحب کی یہ بات درست نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دین ابراہیمی کی اتباع کا حکم دیا تھا۔ ان کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ملت کے احکام محفوظ ہی نہیں تھے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اتباع کا حکم کیونکردیا جا سکتا تھا۔ لکھتے ہیں: ’’اگر ملت ابراہیمی سے مراد وہ ستائیس اعمال لے بھی لیے جائیں جو کہ غامدی صاحب بیان کر رہے ہیں تو پھر بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دین ابراہیمی کی بنیادی عبادات نماز اور مناسک حج وغیرہ بھی محفوظ نہ تھیں...
غامدی صاحب کے تصور ’سنت‘ پر اعتراضات کا جائزہ (۱)
ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے ستمبر ۲۰۰۶ کے شمارے میں جناب حافظ محمد زبیر کا مضمون ’’غامدی صاحب کے تصور سنت کا تنقیدی جائزہ‘‘شائع ہوا تھا جو اب ان کی تصنیف ’’فکر غامدی ایک تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ‘‘ کا حصہ ہے۔ اس مضمون میں فاضل ناقد نے یہ بیان کیا ہے کہ سنت کے تصور ،اس کے تعین، اس کے مصداق اور اس کے ثبوت کے بارے میں غامدی صاحب کا موقف عقل و نقل کی روشنی میں درست نہیں ہے۔ اس موضوع پر ایک اور تنقیدی مضمون ’’الشریعہ‘‘ ہی کے جون ۲۰۰۸ کے شمارے میں بھی شائع ہوا ہے۔ یہ رسالے کے رئیس التحریر مولانا زاہد الراشدی کی تصنیف ہے۔ ’’غامدی صاحب کا تصور سنت‘‘...
’سنت‘ اور ’حدیث‘: جناب جاوید احمد غامدی کا نقطہ نظر (۱)
ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے ستمبر ۲۰۰۶ کے شمارے میں جناب حافظ محمد زبیر کا مضمون ’’غامدی صاحب کے تصور سنت کا تنقیدی جائزہ‘‘شائع ہوا تھا جو اب ان کی تصنیف ’’فکر غامدی ایک تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ‘‘ کا حصہ ہے۔ اس مضمون میں فاضل ناقد نے یہ بیان کیا ہے کہ سنت کے تصور ،اس کے تعین، اس کے مصداق اور اس کے ثبوت کے بارے میں غامدی صاحب کا موقف عقل و نقل کی روشنی میں درست نہیں ہے۔ اسی طرح الشریعہ کے جون ۲۰۰۸ کے شمارے میں محترم جناب مولانا زاہد الراشدی نے ’’غامدی صاحب کا تصور سنت‘‘ کے زیر عنوان اپنی تنقید میں غامدی صاحب کے موقف کی تعبیر یوں کی ہے کہ غامدی...
غامدی صاحب کے تصور ’کتاب‘ پر اعتراضات کا جائزہ
ماہنامہ ’’ الشریعہ‘‘ کے مئی ۲۰۰۶ کے شمارے میں جناب حافظ محمد زبیرکا مضمون ’’علامہ جاوید احمد غامدی کا تصور کتاب ‘‘شائع ہواتھاجو اب ان کی کتاب ’’فکر غامدی ایک تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ‘‘ کا حصہ ہے۔ اس مضمون میں فاضل ناقد نے یہ مقدمہ قائم کیا ہے کہ جناب جاوید احمد غامدی قدیم آسمانی صحائف کودین وشریعت کا ماخذ قرار دیتے ہیں۔ہمارے نزدیک یہ مقدمہ صریح طور پر غلط ہے۔ غامدی صاحب کی تصانیف میں اس کے اثبات کے لیے کوئی بنیاد موجود نہیں ہے اور اس ضمن میں فاضل ناقد کے جملہ اعتراضات سر تا سر سوے فہم پر مبنی ہیں۔ذیل میں غامدی صاحب کے تصور کتاب کے حوالے...
غامدی صاحب کا تصور فطرت چند توضیحات
’’قرآن اکیڈمی‘‘ کے ریسرچ ایسوسی ایٹ حافظ محمد زبیر صاحب نے جناب جاوید احمد غامدی کی تصنیف ’’اصول و مبادی‘‘ کے بعض اصولی تصورات پر تنقیدی مضامین تحریر کیے تھے ۔ یہ مضامین پہلے ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ میں شائع ہوئے اور بعد ازاں ’’فکر غامدی، ایک تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ‘‘ کے زیر عنوان کتابی صورت میں طبع ہوئے۔یہ کل تین مضامین تھے جن میں سے پہلے کا عنوان ’’جاوید احمد غامدی کا تصور فطرت‘‘ تھا اور اس میں خیر و شر کے فطری الہام کے بارے میں غامدی صاحب کے موقف پر تنقید کی گئی تھی۔اس مضمون کے جواب میں ہم نے ایک مفصل مضمون تحریر کیا تھا جس میں...
غامدی صاحب کے تصور ’فطرت‘ پر اعتراضات کا جائزہ
’’قرآن اکیڈمی‘‘ کے ریسرچ ایسوسی ایٹ حافظ محمد زبیر صاحب کے قلم سے جناب جاوید احمد غامدی کی کتاب ’’اصول و مبادی‘‘ کے بعض اصولی تصورات پر تنقید کا سلسلہ گزشتہ کچھ عرصے سے ماہنامہ’ ’الشریعہ‘ ‘ میں جاری ہے۔ ان میں سے بعض مضامین ’’قرآن اکیڈمی‘‘ کی طرف سے ’’فکر غامدی‘‘ کے زیر عنوان ایک مجموعے کی صورت میں بھی شائع کیے گئے ہیں۔ علمی مباحث میں نقد وتنقید کی روایت کا زندہ رہنا بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ اس سے زیر بحث تصورات کی تنقیح اور مختلف اطراف کے نقطۂ نظر کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ لہٰذا ہم ’’الشریعہ‘‘ یا بعض دیگر جرائد میں غامدی صاحب...
حدود آرڈینینس ۔ جناب جاوید احمد غامدی کا موقف
حدود کے بارے میں جناب جاوید احمد غامدی کا موقف یہ ہے کہ یہ اسلامی شریعت کا جزو لازم ہیں۔ جان، مال، آبرو اور نظم اجتماعی سے متعلق تمام بڑے جرائم کی یہ سزائیں قرآن مجید نے خود مقرر فرمائی ہیں۔ چنانچہ ان کی حیثیت پروردگار عالم کے قطعی اور حتمی قانون کی ہے۔ عالم اور محقق ہوں یاقاضی اور فقیہ، ان میں ترمیم و اضافے یا تغیر و تبدل کاحق کسی کو حاصل نہیں ہے۔ شریعت کے دیگر اجزا کی طرح یہ بھی ابدی، اٹل اور غیر متبدل ہیں۔ زمانہ گزرا ہے اور مزید گزر سکتا ہے، تہذیب بدلی ہے اور مزید بدل سکتی ہے،تمدن میں ارتقا ہوا ہے اور مزید ہو سکتا ہے، مگر ان کی قطعیت آج بھی...
دور جدید میں اسلام کی شرح و وضاحت
موقر روزنامہ جنگ کی ۲۱ تا ۲۳ جون ۲۰۰۲ء کی اشاعت میں ’’مسلمان معاشرے اور تعلیمات اسلام ---- فکری کنفیوژن کیوں؟‘‘ کے زیر عنوان ایک اہم مضمون شائع ہوا ہے۔ اس کے مولف ممتاز صحافی اور ماہر سیاسیات جناب ارشاد احمد صاحب حقانی ہیں۔ قومی وسیاسی امور کے بارے میں ان کے تجزیے سنجیدہ اور بے لاگ ہونے کے ساتھ نہایت حکمت ودانش پر مبنی ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ رائے عامہ کی تشکیل اور ارباب حل وعقد کی رہنمائی میں غیر معمولی کردار ادا کرتے ہیں۔ مذکورہ مضمون میں فاضل مولف نے قومی تعمیر کے حوالے سے بعض اہم مباحث اٹھائے ہیں۔ ہمارے فہم کے مطابق ان کے نقطہ نظر کا...
1-11 (11) |