خورشید احمد ندیم

کل مضامین: 22

یہود اور خدا کا فیصلہ

اسرائیل کا ظلم،اُس خوف کا برہنہ اظہار ہے جو روزِ اوّل سے اس کے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔بنی اسرائیل کے لیے عالم کے پروردگار کا یہ فیصلہ ہے کہ ذلت ومسکنت تاقیامت ان پر مسلط رہے گی۔ یہود کی تاریخ،خدا کے ساتھ بے وفائی کی ایک طویل داستان ہے۔ان کا آخری بڑا جرم اپنی ہی قوم سے اٹھنے والے اللہ تعالیٰ کے ایک جلیل القدر رسول سیدنا مسیح ؑ کواپنے تئیں مصلوب کرنا تھا۔یہ الگ بات کہ اللہ نے ان کو محفوظ رکھا۔انہی جرائم کی بنا پر انہیں منصب ِ امامت سے معزول کرتے ہوئے، ذریتِ ابراہیم کی ایک دوسری شاخ بنی اسماعیل کو اس پر فائز کر تے ہوئے،اس کے ایک عالی مرتبت...

قائد اعظم کا اسلام

قائداعظم ایک امیر آدمی تھے۔اتنے امیر کہ 1926ء میں ان کا شمار جنوبی ایشیا کے دس سب سے بڑے سرمایہ کاروں میں ہوتا تھا۔ان کے چار مکانات کی قدر اگر آج کے حساب سے متعین کی جائے تو 1.4 سے 1.6ارب ڈالر بنتی ہے۔ قائد اعظم کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا؟ ڈاکٹر سعد خان کی کتاب ''محمدعلی جناح...دولت‘جائیداد اور وصیت‘‘ اس سوال کا جواب دیتی ہے۔یہی نہیں‘ان کی دولت اورجائیداد کی مکمل تفصیل بھی۔قائد کا تمام سرمایہ‘آمدن‘ جائیدادسب دستاویزی ہیں۔ان کی شخصیت کی طرح‘ شفاف ریکارڈ کے ساتھ۔یہ کتاب پڑھے کئی ماہ گزر چکے لیکن ہنوز سرہانے دھری...

فکرِاسلامی کی تشکیلِ جدید

(یہ مضمون میرے کالموں کے مجموعے ”متبادل بیانیہ “ کے نئے ایڈیشن میں بطور مقدمہ شامل ہے۔مقصودیہ تھاکہ کالموں کی صورت میں لکھی گئی متفرق تحریوں میں موجودفکری وحدت اور نظم کو واضح کیا جائے۔تاہم اس تحریر کی اپنی منفرد حیثیت بھی ہے،اس لیے اس کی الگ سے اشاعت ومطالعہ،میرے نزدیک فائدے سے خالی نہیں۔)۔ فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید اب ناگزیر ہو چکی۔ یہ مقدمہ چند علمی، فکری اور تاریخی اساسات پرقائم ہے۔ قبائلی معاشرت سے انسان نے جس اجتماعی زندگی کا آغاز کیا تھا، ارتقائی مراحل سے گزرتی ہوئی، اب وہ اکیسویںصدی میں داخل ہو چکی۔یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ کسی...

ڈاکٹر حسن ترابی رخصت ہوئے

ڈاکٹر حسن ترابی دنیا سے رخصت ہوئے۔یہ حسن ترابی کون تھے؟ 2001ء میں امریکہ سے ایک کتاب شائع ہوئی: 'معاصر اسلام کے صورت گر‘ (Makers of Contemporary Islam)۔ اس کتاب میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے جن کی تفہیم دین نے دورِ حاضرکی مسلم فکر کو سب سے زیادہ متاثر کیا اور جنہوں نے عصری اسلوب میں اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ حسن ترابی ان ہی میں سے ایک تھے۔ دورِ حاضرمیں مو لانا سید ابو الاعلیٰ مودودی اور سید قطب جیسے اہل فکر کے زیراثر جو اسلامی تحریکیں برپا ہوئیں، انہوں نے دنیا بھر کے مسلمانوں پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے۔چونکہ ان شخصیات نے برصغیر اور مشرقِ وسطیٰ میں جنم...

بیل ۔ سینگوں کے بغیر؟

انسان تسخیر کائنات کے اگلے مرحلے، تسخیر فطرت میں داخل ہو چکا۔ صدیوں سے قائم ما بعد الطبیعیاتی تصورات اور عقائد کے پاؤں تلے سے زمین سرک رہی ہے۔ مذہب بھی اپنی حقیقت میں مابعد الطبیعیاتی تصور ہے،اگرچہ وہ طبیعات کی دنیا سے اپنے حق میں دلائل کشید کر تا ہے۔ تسخیر کائنات کا مر حلہ درپیش تھا تو مسیحیت مذہب کی نمائندگی کر رہی تھی۔ ہمیں معلوم ہے کہ اہل کلیسا اس چیلنج سے عہدہ برآ نہ ہو سکے۔ تسخیر فطرت کے مر حلے میں، مذہب کی نمائندگی اسلام کر رہا ہے۔ کیا اہل اسلام اس چیلنج کا سامنا کر نے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ ۲۸۔ نومبر کو ’نیو یارک ٹائمز‘ کے صفحہ اوّ ل...

مدارس کی اصلاح: ایک اور کمیٹی!

قوم کو یہ مژدہ ہو کہ مدارس کی اصلاح کے لیے دو کمیٹیاں مزید بنا دی گئی ہیں۔ انسانی یاداشت تو شاید اس کی متحمل نہ ہو سکے، کوئی کیلکولیٹر ہی بتا سکے گا کہ اب تک اس کارِ خاص کی بجا آوری کے لیے کتنی کمیٹیاں بنائی جا چکیں۔ وزیرِ داخلہ نے مکرر ارشاد فرمایا کہ مدارس اور علما نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شاندار کردار ادا کیا ہے۔ سادہ سا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی بڑی شکایت نہیں ہے تو یہ پے در پے کمیٹیاں کس لیے؟ ایسا غیر معمولی اجلاس کیوں جس میں وزیرِ اعظم کے ساتھ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی بھی شریک ہیں۔ ایک معمولی سی بات کے لیے اس سطح کے لوگوں کو زحمت دینے...

تہذیبی کشمکش کا نیا باب

۲۶ جون کو امریکہ کی سپریم کورٹ نے ایک تاریخ ساز فیصلہ دیا۔ عدالت نے شادی کے اس تصور کو یکسر بدل دیا، صدیوں سے انسان جس سے واقف تھا۔ عدالت کا کہنا ہے کہ اب دو مرد اور دو خواتین بھی ایسے ہی ’میاں بیوی‘ شمار ہوں گے، جیسے مرد اور عورت۔ اگر دو مردیا دو خواتین ایک دوسرے سے ازواجی رشتہ قائم کر نا چاہیں تو قانوناً وہ اس کا حق رکھتے ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی فیصلہ ہے جو صرف امریکہ پر نہیں، ساری دنیا پر اثر انداز ہو گا۔ اس کے نتیجے میں تہذیبوں کا وہ تصادم امر واقعہ بن سکتا ہے، پروفیسرہنٹنگٹن نے ۱۹۹۳ء میں جس کی پیش گوئی کی تھی۔ تاہم یہ تصادم دو جغرافیائی وحدتوں...

فرقہ واریت کی نئی دستک؟

مشرقِِ وسطیٰ نئے بحران کی زد میں ہے۔ نئی صف بندی ہورہی ہے۔طاقت کا نیا کھیل شروع ہو چکا اور مفادات کا تصادم ایک نئے منظرنامے کی صورت گری کر رہا ہے۔کہنے کو یہ سب کچھ ’نیا’ہے لیکن دراصل بہت پرا نا ہے۔نئے صرف’ اداکار‘ ہیں،تھیٹر نہیں۔ابنِ آ دم جن جبلی تقاضوں کے ہاتھوں مغلوب رہا ہے، ان میں ایک طاقت کی بے پایاں خواہش بھی ہے۔اسی خواہش کے لیے وہ دلائل تراشتا اوراسی کے زیرِ اثر اقدام کرتا ہے۔سیاست ازل سے طاقت کا ایک کھیل ہے ۔اس آتش کدے کوروشن رکھنے کے لیے مذہب، نسلی عصبیت،ترقی کا خواب،مفاد، آزاد ی کی نیلم پری،ہر شے کو ایندھن بنا یا جا تا رہا ہے۔یہ...

ڈاکٹر محمد شکیل اوج شہید

’’افکارِ شگفتہ‘‘ بہت دنوں سے میرے سامنے رکھی ہے۔ ڈاکٹر شکیل اوج کا محبت بھرا اصرار اور پھر میری افتادِ طبع، دونوں متقاضی رہے کہ اس پر کچھ لکھوں۔ موضوعات کا تنوع اور دلچسپی مجھے اپنی طرف کھینچتے رہے مگر غمِ دوراں نے مہلت ہی نہ دی۔ آج افکار باقی ہیں مگر وہ شگفتہ چہرہ میری نظروں سے اوجھل ہو چکا، ہمیشہ کے لیے۔ ڈاکٹر فاروق خان کی شہادت کے بعد، یہ دوسرا گھاؤ ہے جو رگِ جاں میں اتر گیا ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ ڈاکٹر شکیل اوج سے پہلی ملاقات کب ہوئی، لیکن یہ یاد ہے کہ برسوں سے ایک ہی ملاقات چلی آتی تھی۔ ۱۶ستمبر تک، جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ شاید اس کے...

عراق اور فرقہ واریت کی آگ / مسئلہ فلسطین

عراق کی وحدت فرقہ واریت کی زد میں ہے۔شیعہ سنی تنازعہ عراق کو شاید ایک ملک نہ رہنے دے۔ عرا ق تقسیم ہواتو پھر مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ بھی تبدیل ہو جا ئے گا۔تاریخ یہ ہے کہ وہاں لگنے والی آگ ہمارے دامن کو ضرور چھوتی ہے۔کیا اس باربھی یہی ہوگا؟ القاعدہ کا قصہ بحیثیت تنظیم ،تمام ہوا۔تاہم ایک نظریے کے طور پر وہ زندہ ہے اور مقامی تنظیموں کی صورت میں ظہور کر رہا ہے۔پاکستان میں تحریکِ طالبان کی شکل میں اور شام وعراق میں امارت اسلامیہ عراق و شام (ISIS) کے روپ میں۔ فرات کا کنارہ اب اس کے قبضے میں ہے۔ شام کے ایک علاقہ اور اب عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل کے ساتھ تکریت...

سزائے موت۔ ایک نئی بحث

شکنجہ سخت ہو رہا ہے۔ معاملہ صرف معیشت یا سیاست کا نہیں، تہذیب کا بھی ہے۔ عالمگیریت ایک سمندر ہے اور اس میں جزیرے نہیں بن سکتے۔ آنکھ کھول کے دیکھیے! ہمارے چاروں طرف کیا ہو رہا ہے؟ چند روز پہلے یورپی یونین کا ایک وفد پاکستان کے دورے پر تھا۔ آنے والے ایک ایسے ادارے سے متعلق تھے جس کا موضوع ’’ انسانی حقوق‘‘ ہیں۔ اس وقت دنیا کی غالب آبادی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ سزائے موت انسانی حقوق سے متصادم ہے۔ وفد ہمیں باور کرانے آیا تھا کہ اگر ہم یورپی یونین سے تجارتی مراعات(GSP_Plus status) چاہتے ہیں تو ہمیں سزائے موت کو ختم کرنا ہوگا۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو پھر...

قائد اعظم یا طالبان، کس کا پاکستان؟ / قاضی صاحب پر حملہ / ریاست کے اندر ریاست

قائد اعظم کا تصورِ ریاست ایسا پامال موضوع ہے کہ اب اس پر قلم اُٹھانے کے لیے خود کو آمادہ کرنا پڑتا ہے۔ خیال ہوتا ہے جیسے آدمی پھر سے پہیہ ایجاد کر نے کی کوشش میں ہے۔ لوگ اس باب میں براہین وشواہد کے ساتھ کلام کرچکے۔ اس کے باوصف یہ تاثر ختم نہیں ہو رہا کہ قائد اعظم کے پیشِ نظر ایک سیکولر ریاست کا قیام تھا۔ ایم کیو ایم جب اسے ایک ریفرنڈم کا عنوان بنا رہی ہے تو اس کا مقدمہ بھی یہی ہے۔ اس نا قابل تردید شہادت کے باوجود کہ قائد نے تمام عمر سیکولرزم کالفظ استعمال نہیں کیا اور بارہا اپنے ارشادات میں واضح کیا کہ وہ اسلام کے اصولوں کو ریاست کی بنیاد بنانا...

فلم کا فتنہ

’’اہلِ کتاب !آؤ اس کلمے کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے‘‘۔ ’’لبرل‘‘ڈیموکریٹس تو ممکن ہے غور نہ کریں لیکن ’’قدامت پرست‘‘ ریپبلکنز کیا آزادئ رائے کے اپنے تصورات پر نظرثانی کریں گے؟ یہ فتنہ کس نے اٹھایا ،تا دمِ تحریر متحقق نہیں ہوا۔لوگ ٹیری جونز کا نام لے رہے ہیں اور مصر کے بعض تارکینِ وطن قطبی مسیحیوں کا بھی۔بعض صیہونی یہودیوں کا ذکر بھی ہورہا ہے۔تاہم یہ واضح ہے کہ فتنہ امریکی سرزمین ہی سے اٹھا۔فتنہ سازوں نے ایک عالم کا چین لوٹ لیا۔ لیبیا میں امریکی سفیر کی جان بھی لے لی۔ غصہ اور احتجاج فطری ہے، تاہم بات وہی صحیح ہے جو بہادر...

اُسامہ

یہ خبر نہیں، اداسی کی ا یک لہر تھی جس نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔پہلا ردِ عمل ایک جملہ تھا: اناللہ وانا الیہ راجعون۔ ایک دنیامدت سے موت بن کراُس کی تلاش میں تھی۔ تورہ بورہ کا مقتل، افغانستان کے صحرا، پاکستان کی وادیاں، کہاں کہاں اُس کا پیچھا نہیں کیا گیا۔لیکن اسے کب اور کہاں مر ناہے، یہ صرف عالم کا پروردگار جانتا تھا۔اِس کی خبرتو اس نے پیغمبروں کو بھی نہیں دی۔ وہ وقت آیا تو اسامہ کو مو ت کے حوا لے کر دیا گیا۔ لا ریب، ہم سب کو مرنا ہے اور ہم سب کو اپنے رب کی طرف لو ٹنا ہے۔ موت کسی کی بھی ،مجھے اداس کر دیتی ہے۔ اِس مو ت کی اداسی مگر دوگنا تھی۔ ایک...

مذہبی فرقہ واریت کا سیاسی ظہور

مذہبی فرقہ واریت،ایک سونامی کی طرح،مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کواپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔اس کی لہریں پاکستان اور افغانستان تک پہنچ سکتی ہیں۔مذہب اور سیاست کے باہمی تعلق کو نہ سمجھنے کا ایک اورخطرناک نتیجہ ہمارے سامنے آنے والا ہے۔ ایران کا انقلاب، 9/11 کی طرح مسلم دنیا میں ایک نئے دور کا آ غاز ہے۔اس میں شا ید کو ئی مبالغہ نہ ہو کہ سیدناحسینؓابن علیؓ کی شہادت کے بعد یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے جس نے مسلمانوں کی داخلی سیاست کو اتنے بڑے پیما نے پر متا ثر کیا ہے۔اس انقلاب کے بعد ہماری سیاست یقیناً وہ نہیں رہی جو پہلے تھی۔آج ہم مشرقِ وسطیٰ میں جو تبدیلیاں دیکھ...

ایک بامقصد زندگی کا اختتام

ڈاکٹر محمود احمد غازی رخصت ہوئے۔ ایک با مقصد اور با معنی زندگی اپنے اختتام کو پہنچی۔ میری برسوں پر پھیلی یادیں اگر ایک جملے میں سمیٹ دی جا ئیں تو اس کا حاصل یہی جملہ ہے، لیکن غازی صاحب کے بارے میں ایک جملہ ایسا ہے کہ میں اس پر رشک کرتا ہوں۔ بہت سال ہو ئے جب غازی صاحب کے ایک دیرینہ رفیق نے ان کے بارے میں مجھ سے کہا: ’’میں نے علم اور تقویٰ کا ایسا امتزاج کم دیکھا ہے۔‘‘یہ بات کہنے والی شخصیت بھی ایسی ہے کہ میں ان کے علم اور تقویٰ دونوں پر بھروسہ کر تا ہوں۔ یہ گواہی وہ ہے جو یقیناًفرشتوں نے محفوظ کی ہوگی اوراللہ کے حضور میں ان شاء اللہ ان کی بلندئ...

قادیانی مسئلہ

مجلس تحفظ ختم نبوت نے سانحہ لاہور پر جوبیان جاری کیا ہے،اس میں کہی گئی ایک بات بطور خاص اہلِ مذہب اور ریا ست کی تو جہ چا ہتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ قادیانیت کے خلاف ہیں،قادیانیوں کے نہیں۔یہ جملہ اگر ہماری سمجھ میں آجا ئے تو شاید ہم اس آزمائش سے بخیر نکل سکیں،جس کا بطور قوم ہمیں اس وقت سامنا ہے۔ ۱۹۷۴ء سے پہلے قادیانیت ایک سماجی مسئلہ تھا۔جب ریاست نے اس گروہ کو غیر مسلم قرار دیا تواس کے بعد یہ ایک ریا ستی مسئلہ بھی ہے۔گویا اب اس کا ایک پہلو قا نو نی بھی ہے۔ضروری ہے کہ اس معا ملے کی ان دو جہتوں کو ایک دوسرے سے الگ کر کے سمجھاجا ئے۔جہاں اس کا تعلق...

مذہبی شدت پسندی اور اس کے سدباب کی حکمت عملی

صدمے کے شدید احساس کے ساتھ مولانا سعید احمد جلال پوری کی شہادت پر لکھنے کے لیے قلم اُٹھایا ہی تھا کہ لاہور میں قتل عام کی خبر نے اپنے حصار میں لے لیا۔ آج وطن کی فضا لہو رنگ ہے۔کراچی میں دو المناک واقعات ایک ہی دن ہوئے۔ گزشتہ روز خبر ملی کہ مولانا عبدالغفور ندیم اپنے بیٹے سمیت گولیوں کی زد میں تھے۔رات گہری ہونے لگی تو مولانا جلال پوری کی شہادت کی خبر سنی۔شب بھر ماضی کی راکھ کریدتا رہا۔ ۱۲؍ربیع الاوّل کا فیصل آباد، ۱۰؍محرم کا کراچی۔ بہت کچھ یاد آیااور نہیں معلوم کب صدمے کی شدت پر نیند نے غلبہ پا لیا۔ آج جمعہ کی نماز کے بعدکالم لکھنے کے لیے بیٹھا...

حدود کی بحث اور علمائے کرام

حدود آرڈیننس اور اس ضمن میں اٹھنے والی بحث میرے لیے ایک سیاسی نہیں ‘سنجیدہ علمی و مذہبی مسئلہ ہے اور میں نے اسے ہمیشہ اس زاویے سے سمجھنے کی کوشش کی ہے ۔ مذہبی سیاست دانوں کے بیانات سے مجھ پر کبھی یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ حدود آرڈیننس میں کیا چیز اسلامی ہے اور تحفظ حقوق نسواں قانون میں کیا غیر اسلامی۔ جب میں نے سنجیدہ اہل علم کی تحریروں اور بیانات سے روایتی علما کا موقف سمجھا ہے بعض ایسے امور سامنے آئے ہیں جن کی کوئی توجیہہ کرنا میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ اس ضمن میں، میں سوالات آج کے کالم میں زبر بحث لانا چاہتا ہوں۔ (۱) ہمارے مذہبی طبقات کا یہ موقف...

علما اور عملی سیاست

کیا علما کو عملی سیاست میں حصہ لینا چاہیے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرتے وقت دو باتیں پیش نظر رہنا چاہییں۔ ایک تو یہ ہے کہ یہ شریعت کا نہیں، حکمت وتدبر کا معاملہ ہے۔ یہ جائز اور ناجائز کی بحث نہیں ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ شریعت نے علما کو سیاست میں حصہ لینے سے روک دیا ہے یا انہیں اس کے لیے حکم دیا ہے۔ جب ہم اس سوال کو موضوع بناتے ہیں تو ہمارے پیش نظر محض یہ ہے کہ اس سے دین اور علما کو کوئی فائدہ پہنچا ہے یا نقصان؟ دوسری بات یہ کہ عملی سیاست سے ہماری مراد اقتدار کی سیاست (Power Politics) ہے یعنی اقتدار کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا یا کسی کے عزل ونصب کے لیے کوئی...

دانش کا بحران

فکری انتشار کا موسم ہم پر کچھ اس طرح سے اترا ہے کہ جانے کا نام نہیں لیتا۔ اس کا بڑا سبب تو یہ ہوا کہ اقبالؒ اور پھر مودودیؒ جیسے لوگ دنیا سے رخصت ہوئے اور ہم ان کے جانشین پیدا نہ کر سکے۔ فکری قیادت کا منصب اس وقت سے خالی چلا آ رہا ہے۔ بعض صاحبان نظر نے ان حضرات کی زندگی ہی میں جان لیا تھا کہ ان کے بعد کیا ہوگا۔ روایت ہے کہ مولانا داؤد غزنویؒ ایک مرتبہ مولانا مودودیؒ سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے۔ دوران گفتگو کہا: ’’مولانا! آپ بھی کوئی ابن قیمؒ پیدا کرتے جو آنے والے دنوں میں آپ کا جانشین ہوتا۔‘‘ مولانا نے اس کا جو جواب دیا، اس سے حظ اٹھانے کے لیے...

توضیحات

مولانا زاہد الراشدی نے استادِ محترم جاوید احمد صاحب غامدی کے بعض نتائجِ فکر اور ’’تکبیر مسلسل‘‘ میں بیان کی گئی کچھ آرا کو اپنے مضامین کا موضوع بنایا ہے جو ایک معاصر روزنامے میں شائع ہوئے ہیں۔ انہوں نے چار اہم مسائل پر اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے جو ظاہر ہے ہمارے موقف سے مختلف اور اس پر ناقدانہ تبصرہ ہے۔ مولانا نے اپنے اختلاف کا اظہار جس سلیقے کے ساتھ کیا ہے، اس سے ہمارے دل میں ان کی قدر میں اضافہ ہوا ہے۔ ہماری بات سے لوگ اس سے قبل بھی اختلاف کرتے رہے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ ہم اس لہجے کو ترس گئے تھے۔ ہماری یہ خواہش کم ہی پوری ہوئی کہ لوگ علمی آرا...
1-22 (22)