محب گرامی حافظ محمد صفوان نے ’’سماجی، ثقافتی اور سیاسی دباؤ اور دین کی غلط تعبیریں‘‘ کے زیر عنوان مضمون میں تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کا فریضہ بہت خوب صورتی سے سرانجام دیا ہے۔ اچانک چلتے چلتے وہ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کو چھوڑ کر ہامز لامز بن گئے ہیں۔ انھوں نے ایک ماسٹر صاحب کا تذکرہ فرمایا ہے جو ان کو لے کر ایک مذہبی کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہور لے گئے۔ پھر ان کی گزارش یا مطالبے پر انھیں بادشاہی مسجد لے گئے۔ انھوں نے مزار اقبال پر جانا چاہا تو اقبال کے بارے میں بڑی عجیب وغریب باتیں ان کے کانوں میں انڈیلیں۔ بقول ان کے ماسٹر صاحب ایک ایسی جماعت سے تعلق رکھتے تھے جو قیام پاکستان کے گناہ میں شریک نہ تھی۔ آگے چل کر انھوں نے چند اور باتیں کہی ہیں جو ترتیب وار درج ذیل ہیں:
۱۔ پاکستان اگر مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی کچھ جماعتوں کے مزاج اور توقعات کے مطابق نہیں بنا ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں؟
۲۔ میں آج تک نہیں سمجھ پایا کہ سیاسی اختلاف رکھنے والا کلمہ گو کیسے کافر ہو سکتا ہے؟
۳۔ سید القوم سرسید احمد خان، مولانا حالی، سر آغا خان، ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح وغیرہ ہماری قومی وملی تاریخ کے ڈیڑھ ہزار سالہ سفر میں آنے والی تاب ناک کہکشاؤں میں سے چند بڑ ے نام ہیں۔
۴۔ یہ وہ مردان راہ رواں ہیں جو ستاروں کے لیے نشانات راہ ہیں اور جن کی مختلف جہتوں میں کی گئی سنجیدہ اور پیہم کوششوں سے مسلمانان ہند پر آزادی کا سورج طلوع ہوا۔ ان دور اندیش اور دردمند لوگوں نے ان شاطر انگریزوں کی بچھائی ہوئی بساط پر انھیں ہرا کر ہم درماندہ مسلمانوں کے لیے آزادی چھینی۔
۵۔ جن لوگوں نے جس جس دور میں اقبال شکنی، جناح شکنی یا سرسید شکنی کی ..... وہ آج کہاں کھڑے ہیں؟ ان کو آج جانتا کون ہے؟ یہ بڑے لوگ ..... کارواں ران ہوتے ہیں۔ جو ان کے ساتھ چلتا چلا جاتا ہے، منزل پا لیتا ہے۔ جو ان کے منہ کو آتا ہے، وہ کارواں سے ٹوٹ جاتا ہے۔
حافظ صفوان محمد چوہان کے ماسٹر صاحب نے اقبال کے بارے میں ناروا باتیں کہی تھیں، یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہ ہونے والے جمعیۃ علماء ہند کے علما ہوں یا مجلس احرار اسلام کے کارکنان وراہ نما، کبھی کسی بزرگ نے علامہ اقبال کے بارے میں کوئی ناروا بات نہیں لکھی۔ اگر ایسی کوئی بات جناب چوہان کے علم میں ہو تو وہ ہمیں بھی بتا دیں۔ ہاں علامہ سے اختلاف کا حق ہر عہد کے سوچنے والے دماغ کو حاصل رہا ہے۔ اگر کسی بزرگ نے علامہ سے دلائل کی بنیاد پر اختلاف کیا تو یہ ان کا حق تھا۔ علامہ اقبال تو کیا، ان سے کہیں بڑے لوگوں سے اختلاف کیا گیا۔ حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام بخاری اور ان کے مقام ومرتبہ کے لوگوں سے اختلاف کیا گیا اور ہر کسی نے اس حق اختلاف کو تسلیم کیا۔ حافظ صفوان محمد چوہان یاد رکھیں، فیصلہ شخصیات کی بنیاد پر نہیں، دلائل کی بنیا دپر ہوتا ہے۔
اب ہم حافظ صاحب کے دعاوی کو نمبر وار دیکھتے ہیں اور ان پر اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔
ان کا یہ دعویٰ ہمیں تسلیم ہیں کہ سیاسی اختلاف کی بنیاد پر کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی دوسرے کلمہ گو کو کافر ٹھہرائے۔ اب یہ حافظ چوہان کی ذمہ داری ہے کہ وہ تاریخ سے یہ ثابت کریں کہ کس گروہ نے سیاسی اختلاف کی بنیاد پر دوسرے گروہ کو کافر ٹھہرایا۔ جمعیۃ علماء ہند کے علما نے یا مسلم لیگ کے کارکنوں نے؟ کس نے مخالف پر قاتلانہ حملے کیے او رکس نے مخالفین کے منہ پر تھوکنا اور ان کی پگڑیوں کو پاؤں تلے روندنا، روا سمجھا؟ آپ براہ کرم جمعیۃ علماء ہند کے لٹریچر سے صرف ایک جملہ نکال کر دکھا دیں کہ فلاں بزرگ نے فلاں وقت پر سیاسی اختلاف کی بنیاد پر فلاں کوکافر ٹھہرایا۔ اگر آپ مولانا مظہر علی اظہر کے ایک شعر کا حوالہ دیں تو یہ ناکافی ہوگا۔ مولانا موصوف کے اس شعر کی احرار کے لوگوں میں پذیرائی نہیں ہوئی تھی۔ علماء کرام کے خلاف لیگی کارکنوں نے جو سب وشتم کیا، اس کی تفصیل کے لیے آپ اس دور کے اخبارات دیکھ لیجیے۔ علما نے جو رویہ اپنایا، اس کے متعلق ایک مسلم لیگی غلام کبریا کی کتاب ’’آزادی سے پہلے مسلمانوں کا ذہنی رویہ‘‘ اور عبید الرحمن خان کی ’’مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا‘‘ پڑھ لیجیے۔
حافظ چوہان نے ایک سوال اٹھایا ہے کہ پاکستان اگر مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی کچھ جماعتوں کے مزاج اور توقعات کے مطابق نہیں بنا ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں! آپ یقیناًکچھ بھی نہیں کر سکتے کہ خود کردہ را علاجے نیست۔ ویسے یہ بات آپ کے کان میں کہنے کی ہے کہ مذہب کے نام پر سیاست مسلم لیگ نے کی تھی۔ جمعیۃ علماء ہند تو کانگریس کے ساتھ تھی اور سیکولر سیاست کی قائل تھی۔ ہاں دین کے تحفظ کے معاملے میں وہ پوری طرح کمٹڈ جماعت تھی۔ مسلم لیگ کے اکابرین سیکولر زندگی گزارتے تھے اور خیر سے مذہب کے نام پر سیاست فرما رہے تھے۔ بعض مسلم لیگی اکابر نے یہ تاثر دیا تھا کہ پاکستان میں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق کی خلافت راشدہ کا احیا ہوگا۔ یہاں آئے تو ملک غلام محمد، سر ظفر اللہ اور جوگندر ناتھ منڈل براجمان نظر آئے۔ کچھ لوگوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہاں عدل ہوگا، مگر یہاں قتل وغارت گری کا سلسلہ رہ رہ کر پھر شروع ہو جاتا ہے۔ ۱۹۷۱ء کے مشرقی پاکستان میں جو قتل عام ہوا، اس میں پاکستان کے بنانے کے گناہ میں شریک نہ ہونے والے لوگ کسی طرح بھی شریک نہیں تھے۔ اس میں دونوں طرف سے پاکستان بنانے والے لوگ تھے۔ ۱۹۷۱ء کے مشرقی پاکستان میں قتل عام، بلوچستان، سرحد اور کراچی میں ہونے والے فسادات، دھماکے، ٹارگٹ کلنگ واقعی علما کے مزاج اور توقعات کے خلاف ہیں۔ آپ اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کر سکتے۔
تیسر ے نمبرپر موصوف کا دعویٰ انھی کے لفظوں میں پیش کیا گیا ہے۔ میں یہ جملے لکھ کر کانپ اٹھا ہوں۔ میں سمجھا تھا کہ موصوف نے ڈیڑھ سو سال لکھا ہوگا، مگر یہاں تو ڈیڑھ ہزار سال ہیں جن میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا دور مبارک بھی شامل ہے۔ اس ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ امت میں آقاے دو جہاں اور آپ کے برگزیدہ وخدا رسیدہ صحابہ کرام تاریخ کے ڈیڑھ ہزار سال کے سفر میں تاب ناک کہکشائیں ہیں تو کیا میں اسی صف میں ان لوگوں کو شامل کرنے کو برداشت کر لوں جن کے نام حافظ چوہان کے قلم نے اگل دیے ہیں؟ اس حرکت کو اہل علم خفیف الحرکتی کہیں یا کچھ اور، میرا خیال ہے حافظ چوہان ڈیڑھ ہزار سال پر شرمندہ ہو کر تائب ہو جائیں تو بہتر ہے اور ڈیڑھ سو سال پر اکتفا کر لیں تو ان کی صحت کے لیے نقصان دہ نہیں ہوگا۔ ناموں کی اس فہرست میں سر آغا خان بھی شامل ہیں۔ سر آغا خاں نزاری فرقے کے آغا خانی گروپ کے پیشوا تھے۔ آپ کا عہدہ امام حاضر کا تھا۔ ان کے فرقے میں سجدہ حاضر امام کو کیا جاتا ہے، کیونکہ اس فرقے کے علم الکلام میں اللہ تعالیٰ حاضر امام میں معاذ اللہ حلول کر چکا ہے۔ وہاں کلمہ طیبہ یا روزہ نماز کا تذکرہ بھی نہیں۔ سرآغا خان نے کہا تھا کہ وہ شراب پیتے ہیں تو ان کے اندر نور اترتا ہے۔ موصوف ریس کے بھی شیدا تھے۔ اب امت کی تاریخ میں یہی کہکشاں رہ گئی ہے تو امت کے حال پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
محترم حافظ صفوان محمد چوہان نے امت کو مختصر زمان ومکان میں قید کر دیا ہے۔ ان کا space پاکستان کی حدود کے اندر واقع ہے اور زمان کا معاملہ بھی یہ ہے کہ ڈیڑھ سو سالہ تاریخ کو ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ کا قائم مقام بنا لیا ہے۔ امت اگر پاکستان سے باہر بھی کہیں بستی ہے تو حافظ صفوان خود ہی غور فرمائیں کہ ان برگزیدہ لوگوں میں سے کتنے لوگ ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کے نزدیک بھی تاریخ کی کہکشاں ہیں۔ انھیں چھوڑیں، انھیں ہماری قیادت نے write off کر دیا تو ہمیں کیا پڑی کہ ان کی رائے کو ذرا سی بھی اہمیت دیں، اگرچہ ان کی تعداد ہم پاکستان کے مسلمانوں سے کافی زیادہ ہے۔ محترم حافظ صفوان صاحب بنگال کے مسلمانوں کی رائے کو بھی کچھ اہمیت دینا پسند کریں گے؟ وہ پاکستان کے باغی سہی، اسلام کے باغی تو قطعاً نہیں ہیں۔ ان مسلمانوں کی رائے میں حافظ صفوان کی ممدوح ہستیوں کی ہستی کیا ہے اورحیثیت کیا ہے؟
اب ذرا پاکستان میں بھی دیکھ لیں۔ ہم نے ایم کیو ایم کے حیدر عباس رضوی کو ٹی وی چینل پر یہ کہتے سنا ہے کہ وہ جی ایم سید اور ولی خان کے نظریہ قومیت کے ماننے والے ہیں۔ یہ دونوں لوگ پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔ صوبہ سرحد کے لوگ بھی مسلمان ہیں، ان کا نقطہ نظر بھی جان لیتے تو اچھا تھا۔ بلوچستان سے جو خبریں آ رہی ہیں، وہ بھی چوہان صاحب تک ضرور پہنچی ہوں گی۔ ذرا امت کا تصور کیجیے اور پھر سوچیے کہ سر آغا خان کو امت کے کتنے لوگ جانتے ہیں؟ وہ خود ہی بتائیں تو بہتر ہے۔امت کا سواد اعظم انھیں مسلمان مانتا ہے یا نہیں، یہ بھی انھیں معلوم ہوگا۔ ویسے وہ کلمہ گو کی تعریف میں نہیں آتے۔ ان کے زیر اطاعت جماعت خانوں میں نماز کی ابھی تک اجازت نہیں۔ ایک باغی گروہ ’’اسماعیلی نمازی کمیٹی‘‘ عدالت کے دروازے پر کھڑا یہ استدعا کر رہا ہے کہ انھیں جماعت خانوں میں نماز پڑھنے کی اجازت مرحمت ہو۔ وہاں ایک خاص کتاب پڑھی اور سنی جاتی ہے اور امام کی تصویر کو سجدہ کیا جاتا ہے۔
چوتھا نکتہ بہت دلچسپ ہے۔انھوں نے سرسید احمد خان، آغا خان او رمولانا حالی پر آزادی خواہی کی تہمت دھری ہے۔ ان اکابر نے ہمیشہ دعاکی تھی کہ سرکار انگلشیہ کا اقبال بلند ہو اور ان کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر سلامت رہے۔ حافظ چوہان کو یقین نہ آئے تو سرسید کے خطبات موجود ہیں، وہ ایک بار پڑھ لیں۔ اس سے انھیں دو فائدے ہوں گے۔ ایک تو قارئین ان کی طول نویسی سے بچ سکیں گے، دوسرے حافظ چوہان زیادہ بے خبر نہیں رہیں گے۔
پانچواں نکتہ بڑا دلچسپ ہے۔ انھوں نے سرسید شکنی، اقبال شکنی اور جناح شکنی کرنے والوں پر بہت تبرا کیا ہے۔ موصوف یہ بھول گئے کہ سرسید شکنی، اقبال شکنی اور جناح شکنی صرف انھی لوگوں نے کی ہے جو ان حضرات کے پیروکار ہونے کے دعوے دار ہیں۔ سرسید نے ہمیشہ یہ نصیحت کی کہ مسلمانوں کو سرکار انگریزی کا ہمیشہ وفادار رہنا چاہیے۔ انھوں نے کبھی بھولے سے بھی ایسا جملہ نہ کہا جو سرکار انگریزی کی رضا کے خلاف تھا۔ انھی کے مدرسے سے پڑھ کر نکلنے والے محمد علی جوہر دیوبند جا کر حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن کے ہم سفر ہوئے اور آزادی کے سفر پر چل دیے۔ اب رہی اقبال شکنی تو ان لوگوں نے کبھی اقبال کو مسترد نہیں کیا، ہاں ان سے علمی اختلاف ضرور کیا۔ رہی جناح شکنی تو اس کا آغاز ۱۴؍ اگست ۱۹۴۷ء کو اس مسلم لیگی قیادت نے کیا جو تقسیم کے نتیجے میں ہندوستان میں رہ گئی اور پاکستان نہ آ سکی۔ اس کی تفصیل دیکھنی ہو تو اعلیٰ مسلم لیگی قیادت کی یادداشتوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ جناح شکنی کا دوسرا دوربنگال میں شروع ہوا جب جناح صاحب نے کہا کہ پاکستان میں صرف اور صرف اردو ہی قومی زبان ہوگی۔ اس کا انجام ۱۶؍ دسمبر ۱۹۷۱ء کو ڈھاکا کے پلٹن میدان میں ہوا۔ پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہ ہونے والے لوگ نہ پہلے دور میں شامل تھے نہ دوسرے دور میں۔ تیسرا دور سندھ میں ہوا جب کھوڑو نے جناح صاحب کی حکم عدولی کی، یہ دور ابھی جاری ہے۔ بہرحال ان تینوں ادوار میں جناح شکنی کا کام کرنے والے لوگ خود مسلم لیگ سے آئے ہیں، ان میں سے کسی کا تعلق نہ جمعیۃ علماء ہند سے ہے نہ احرار اسلام سے۔ اب جناح شکنی کرنے والے لوگ تاریخ میں کہاں جاتے ہیں؟ تاریخ میں گم ہوتے ہیں یا بنگلہ بندھو بنتے ہیں؟ بنگال کے جنرل عثمانی نے قیام پاکستان سے پہلے مسلم لیگی کارکن اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طالب علم کی حیثیت سے مولانا ابو الکلام آزاد سے جو بدتمیزی روا رکھی تھی، ۱۹۷۱ء میں اس سے زیادہ بدتمیزی جناب جناح کی تصویر سے روا رکھی۔
اب سرسید شکنی، اقبال شکنی اور جناح شکنی کرنے والوں میں محمد علی جوہر اور شیخ مجیب الرحمن کو کون جانتا ہے، یہ تو حافظ صفوان بھی بخوبی جانتے ہیں۔ علامہ اقبال کے مخالفین کی فہرست کا تذکرہ اس لیے گول کر دیتے ہیں کہ بات فرقہ واریت میں چلی جائے گی۔ ہاں حافظ صفوان اپنا پاسپورٹ دیکھیں اور سوچیں کہ ان کی قومیت مسلمان کی بجائے پاکستان لکھی ہوئی ہے، یعنی ان کی قوم وطن کی بنیاد پر ہے، مذہب کی بنیاد پر نہیں۔ یہ بات حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ نے کہی تھی تو گردن زدنی ٹھہرے تھے۔ اب جن لوگوں نے پاکستان کی قومیت مسلم کے بجائے پاکستانی ٹھہرائی ہے، انھوں نے بھی اقبال شکنی کا مظاہرہ کیا ہے یا حقیقت پسندی کا؟ اب حافظ چوہان اور جے سالک کی قومیت صرف جغرافیے کی بنیاد پر پاکستانی ٹھہری ہے۔ ویسے تو حافظ چوہان کو اپنے غیرمسلم بزرگوں سے کوئی ایسی نفرت نہیں، ورنہ وہ چوہان کیوں کر کہلواتے! ان کے تایا پروفیسر غلام رسول نے اسلام کی خاطر غیر اسلامی نسبتیں تج دی تھیں اور وہ انصاری کہلاتے تھے۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ حافظ چوہان خود اقبال شکنی کی راہ پر چلے دیے ہیں۔