مسئلے کا معاشی اور مقاصدِ شریعت کا پہلو
بہر حال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ روایتی علما کی واضح اکثریت جس میں غیر سودی بینکاری کے ناقدین اور مجوّزین دونوں ہی شامل ہیں، اگر مسئلے کو محض عقود کی سطح پر خالص فقہی انداز سے دیکھ رہی ہے تو اس معاملے کو اس کے پس منظر سمیت دیکھا جانا چاہیے۔ تاہم اس خالص فقہی زاویۂ نظر کے علاوہ اس مسئلے کو دیکھنے کے کچھ اور پہلو بھی ہیں جن میں خاص طور پر روایتی اور غیر سودی بینکاری دونوں کا اس حوالے سے جائزہ شامل ہے کہ مجموعی سطح کی معیشت پر ان دونوں کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں یا ہوسکتے ہیں اوراسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان اثرات میں کس طریقے سے کیا رد وبدل ہوسکتاہے۔ اسی طرح غیر سودی بینکاری کا مقاصدِ شریعت کی روشنی میں جائزہ ، یعنی حرمتِ ربا کے سلسلے میں علۃ الحکم جو بھی ہو، اس حکم میں بہت سی حکمتیں بھی مضمر ہوں گی۔ وہ حکمتیں کیا ہیں ، موجودہ دور میں وہ کون سا میکنزم ہوسکتا ہے جس سے ان حکمتوں اور معاشی فوائد کو حاصل کیا جاسکے اور کیا یہ حکمتیں موجودہ غیر سودی بینکاری سے حاصل ہورہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ جواز وعدمِ جواز یا فتوے کے مقصد کے لیے پہلی سطح کی بحث کو کافی قرار دیا جائے، تب بھی اس دوسری سطح کی بحث اور مذکورہ سوالات پر غورکی اہمیت بوجوہ برقرار رہتی ہے ۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ عبادات کے بر عکس اس طرح کے معاملات میں دعوتی نقطۂ نظر سے محض آخرت کے عذاب وثواب کا ذکر کافی نہیں ہوتا۔ کسی بھی کام کے لوگوں کی عملی زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات کی بھی اس میں خاص اہمیت ہوتی ہے۔ شعیب علیہ السلام کی ایک ’برائی‘ ان کی قوم کی نظر میں یہ تھی کہ وہ انہیں اپنے اموال میں اپنی مرضی کرنے سے منع کرتے ہیں۔ تقریباً ہر دور میں لوگوں کا یہ مزاج ہوتاہے، اس لیے لوگوں کے اموال کے معاملے میں انہیں اپنا عمل تبدیل کرنے کا کہنا دعوتی نقطۂ نظر سے خاصی احتیاط کا تقاضا کرتاہے، اس لیے بطور داعی ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ایک ناجائز کام کو چھوڑ کر جائز کام کی طرف اس انداز سے لوگوں کو لائیں کہ انہیں بتایا جاسکے کہ افراد کی سطح پر نہیں تو معاشرے کی سطح پر اس کے کیا بہتراثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ایک خالص فقہی حکم اور جائز یا نا جائزہونے کے پہلو سے تو علتِ حکم ہی کی اصل اہمیت ہوتی ہے، لیکن ایک عمومی معاشی پالیسی کی بحث میں حکمتوں اور مقاصدِ شریعت کی بھی اہمیت ہوتی ہے اور انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جب بات کی جارہی ہو عمومی معاشی پالیسی کی، بالخصوص ایک ریاست کے حوالے سے کہ اس کی معاشی پالیسی کے اصول اور بنیادی خدوخال کیا ہونے چاہئیں تواس کے لیے بحث کو پہلی سطح سے نکال کر دوسری سطح پر لانے کی ضرورت ناقابلِ انکار ہے۔
اسلامی بینکاری کا مطلب جائز تمویلی طریقے ہیں۔ جب شریعت کسی کام کو مباح قرار دیتی ہے تو اس کے اچھے یا برے نتائج کا ذمہ دار اسے اختیار کرنے والوں کو قرار دیتی ہے، اس لیے اس بینکاری کے نتائج کے ذمہ دار کافی حد تک اسے چلانے والے ہی ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ محض سود کی وعید کی آیات اور احادیث پڑھ پڑھ کے زیادہ عرصہ تک کام نہیں چلایا جاسکتا، اس کے لیے بہتر سے بہتر نتائج دکھانا ضروری ہے۔ اس کے لیے جہاں کچھ تدبیری نوعیت کی بحثیں ہوسکتی ہیں ۔۔۔ مثلاً مسلمان معاشی مفکرین میں جاری یہ بحث کہ روایتی بینکوں کی تخلیقِ زر کی صلاحیت کو کنٹرول کرنے کے لیے مرکزی بینک جس طرح کے اقدامات کرتا ہے، کیا اسلامی بینکوں کے لیے بھی وہی تکنیکس مؤثر ہوسکتی ہیں یا ان کے لیے الگ نوعیت کے اقدامات کی ضرورت ہے ۔۔۔ وہیں اس بینکاری کا شریعت کے عمومی مقاصد اور حکمتوں کے تحت جائزہ بھی اہم ہے۔ اگر چہ شریعت کے عمومی معاشی مقاصد کے حصول کی ذمہ داری صرف چند اداروں پر عائد نہیں کی جاسکتی بلکہ بنیادی طور پر یہ پورے معاشرے اور ریاست کی ذمہ داری ہے ، تاہم یہ بینک چونکہ اسلام کا نام لے کر میدان میں آئے ہیں، اس لیے جہاں تک ان کے لیے ممکن ہو انہیں اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ راقم الحروف سے جب بھی کسی نے اسلامی بینکاری کے موضوع پر ایم فل یا ڈاکٹریٹ کی سطح کے کام کے بارے میں بات کی تو اس نے اسی دوسری نوعیت کے کام کی طرف توجہ دلائی، اس لیے کہ فقہی نوعیت کے مزید کام کی بھی اگرچہ گنجائش موجود ہے لیکن اس پر کافی کام ہوبھی چکاہے جبکہ دوسرے پہلو سے کام بہت کم ہوا ہے۔ ( تاہم یہ تأثر درست نہیں کہ سود کے متبادل بینکاری تجویز کرنے اور اسے فروغ دینے والے اہلِ علم نے اس پہلو کو بالکلیہ نظر اندازکیا ہے۔ ان کی طرف سے اس پہلو کو پیش نظر رکھنے کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ انہوں نے متبادل تمویلی طریقوں میں سے مشارکات پر مبنی طریقوں کو مداینات پر مبنی طریقوں کے مقابلے میں زیادہ قابلِ ترجیح قرار دیا ہے اور یہ بات اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ میں بھی کہی گئی ہے جو اس موضوع پر بالکل ابتدائی اور اساسی دستاویزات میں سے ہے،حالانکہ اگر محض فقہی عبارات کو دیکھا جائے تو دونوں طرح کے عقود کے جواز میں کوئی فرق نظر نہیں آتا یایوں کہیے کہ دونوں انواع کے اس فرق پر کوئی ’’صریح جزئیہ ‘‘ نہیں ملتا۔ یہ فرق عمومی معاشی اثرات اور مقاصدِ شریعت کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔) دوسری نوعیت کے کام کے حوالے سے دوسوال یہاں اہم ہیں۔ ایک یہ کہ کیا جب تک دوسری نوعیت کی بحث مکمل نہ ہو جائے، فقہی حوالے سے مسئلے کا جائزہ لینا بے کار ہے؟ اور دوسرے یہ کہ اس دوسری نوعیت کی بحث کا منہج اور اس کے خد وخال کیا ہونے چاہییں؟ اب تک کی بحوث کی روشنی میں ایسے امور کی نشان دہی بھی ضروری ہے جو کسی غلط فہمی یا غلط نتائج تک پہنچنے کا باعث بن سکتے ہیں ۔
جناب زاہد صدیق مغل صاحب نے بھی ماہنامہ ’الشریعہ‘ ( جنوری ، فروری ، مارچ ۲۰۱۰ ء ) میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں فقہی نوعیت کی اور عقد کی سطح کی بحث سے ہٹ کر مسئلے کے جائزے کی طرف توجہ دلائی اور اس بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ اسلامی بینکاری پر تین سطحوں پر بحث ہوسکتی ہے۔ پہلی سطح کی بحث کے تعارف میں وہ کہتے ہیں: ’’ یہ سمجھنے کی کوشش کرنا آیا اسلامی بینکاری اور سودی بینکوں کے مقاصد میں کیسا تعلق ہے، کیا دونوں ایک ہی نظامِ زندگی ( سرمایہ داری ) کے مقاصد حاصل کرنے کے دو مختلف وسائل ہیں یا ان کے مقاصد میں کوئی تفریق موجود ہیں .....آیا اس طریقِ کار سے مقاصد الشریعہ کا حصول ممکن ہے بھی یا نہیں‘‘۔ دوسری سطحِ بحث کے بارے میں وہ کہتے ہیں: ’’ یہ تجزیہ کرنا کہ آیا موجودہ نظام بینکاری کو اسلامیانے کا کوئی طریقہ ممکن بھی ہے یا نہیں‘‘۔ تیسری سطح کے بارے میں وہ کہتے ہیں: ’’ اس سطح پر جزواً جزواً یہ دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اسلامی بینک جو زری سروسز اور پراڈکٹس مہیا کررہے ہیں، وہ قواعدِ شریعہ پر پوری اترتی ہیں یا نہیں‘‘۔ اس کے بعد وہ مروّجہ غیر سودی بینکاری کے مجوّزین اور ناقدین دونوں پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ ناقدین کی وہ اکثریت جو اپنے مقدمات میں مجوّزین کے مماثل ہے، درحقیقت پہلی دونوں سطح سے سہوِ نظر (by pass) کرتے ہوئے اپنی تنقید کی بنیاد اس تیسری سطح پر رکھتی ہے۔ گویا مجوّزین اور ناقدین کی اس اکثریت کے درمیان قدرِ مشترک تنقید کی اول دونوں سطحوں کو نظر انداز کرنا ہے‘‘۔ گویا ان کے نزدیک معاملہ جب تک پہلی دو سطحوں کی تنقید کے ذریعے کلئیر نہ ہوجائے، اس پر فقہی زوایۂ نگاہ سے بحث کرنا فضول ہے اور جو لوگ فقہ کے نقطۂ نظر سے بحث کررہے ہیں، وہ ترتیب الٹ کر ایک لا حاصل بحث میں الجھے ہوئے ہیں ۔
کیا خامی والی ہر چیز کو بطور کل رد کردینا چاہیے؟
انہوں نے جو ترتیب تجویز کی ہے، دیکھنے تو وہ بہت خوبصورت معلوم ہوتی ہے لیکن اسے اثرات و نتائج کے اعتبار سے دیکھیں تو صورتِ حال بہت مختلف نظر آتی ہے۔ اس کی تفصیل کی طرف آنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک مثال کے ذریعے بات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ فرض کریں ایک صاحب کسی جدید قسم کی یونیورسٹی میں تعلیم کے فرائض انجام دے کر اس کا معاوضہ وصول کرتے ہیں (جیسا کہ جناب زاہد صدیق مغل صاحب خود بھی ماشاء اللہ ایک جدید انداز کی دانش گاہ میں استاذ ہیں، غالباً انہوں نے اسی انداز کی کسی دانش گاہ میں تعلیم بھی حاصل کی ہوگی۔) وہ صاحب اس یونیورسٹی کو جو خدمات مہیا کرتے ہیں، وہ بالکل جائز ہیں، معاہدے میں کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں ہے، محنت اور امانت داری سے اپنا کام کرکے رزقِ حلال حاصل کررہے ہیں۔ اب کوئی صاحب یہ کہتے ہیں کہ ان کا یہ ملازمت اختیار کرنا بالکل غیر اسلامی ہے، اس لیے کہ اصل مسئلہ اس خاص ملازمت کی نوعیت کا نہیں بلکہ اس پورے نظام کا ہے۔ موجودہ جدید تعلیمی نظام اپنے بنیادی مقاصد کے اعتبار سے ہی غلط اور استعماری اہداف کو پورا کرنے والا ہے، اس کی تطہیر ممکن ہی نہیں ہے ، جو لوگ اسے’ کلمہ پڑھانا‘ ممکن سمجھتے ہیں، ان کا اس تعلیمی نظام کا فہم ہی سرے سے غلط ہے۔ اس کے ساتھ وہ لارڈ میکالے پر لعنت بھیجتے ہوئے اور سرسید احمد خاں پر تبرا کرتے ہوئے موجودہ نظامِ تعلیم کی خامیوں کی ایک طویل فہرست ذکردیتے ہیں۔ اس پر یہ معلم صاحب کہتے ہیں کہ آپ کی یہ ساری باتیں بجا، مگر میں تو وہاں کوئی غلط کام نہیں کرتا، میں تو بالکل جائز خدمات فراہم کرتا اور ان کا معاوضہ لیتاہوں، میرے معاہدے میں تو کوئی خلافِ شریعت بات نہیں۔ اس پر وہ معترض صاحب کہتے ہیں، یہ دیکھنا کہ آپ کے معاہدے کی نوعیت کیا ہے، بعد کی بات ہے۔ پہلے تو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ نظامِ تعلیم بطور ایک ’کل‘ کے درست بھی ہے یا نہیں۔ وہ معترض صاحب مغل صاحب ہی کے الفاظ مستعار لے کر کہتے ہیں کہ ’’اس نظامِ تعلیم کو جزوی طور پر نہیں، ایک بڑے نظام ہائے زندگی کے پرزے کے طور پر جانچ کر یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا اس طریقۂ کارسے مقاصد الشریعہ کا حصول ممکن ہے بھی یا نہیں‘‘۔ وہ معلم صاحب یونیورسٹی کے ساتھ طے ہونے والا اپنا معاہدہ دکھاتے ہیں تو اس پر معترض صاحب کہتے ہیں: ’’آپ کا طریقِ کار یہ ہے کہ آپ معاہدے کی مخصوص شکل کی بات کررہے ہیں، مگر یہ معاہدہ جس ’ تعلیمی ماحول اور حالات ‘ میں ہورہاہے، اسے یکسر نظر انداز کررہے ہیں، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تعلیمی ماحول (educational environment) کا درست تجزیہ کرنے کی کوشش کی جائے جس کے اندر ایک جدید یونیورسٹی کا وجود ممکن ہے‘‘۔ وہ معلمّ صاحب کہتے ہیں کہ آخر مجبوری ہے، اس کے علاوہ کوئی راستہ بھی تو نہیں ہے۔ اس پر معترض صاحب ارشاد فرماتے ہیں: ’’ مجوّزین کا یہ ایک عمومی حربہ ہے کہ اوّلاً وہ اپنے حق میں اصولی جواز اور دلائل پیش کرتے ہیں، مگر جب ان کے تمام دلائل کو علمی طور پر رد کردیا جائے تو پھر ضرورت کی دہائی دینا شروع کردیتے ہیں‘‘۔ یہ کہہ کر وہ معترض صاحب ان معلّم صاحب کو ایک اور تجویز پیش کرتے ہیں۔ وہ یہ کہ ہم نے دور دراز کے ایک پس ماندہ گاؤں میں ایک مدرسہ کھولا ہے جس میں بچوں کو ابتدائی نوعیت کے ضروری حساب کتاب کی تعلیم کے لیے ایک معلّم درکار ہیں۔ آپ سے درخواست ہے کہ آپ ہی وہاں تشریف لے چلیں، اتنا وظیفہ آپ کی خدمت میں پیش کردیا جائے گاجو قوت لا یموت کا کام دے سکے۔ اس میں ان غریب بچوں کا مستقبل سنور جائے گا اور آپ بڑے شہر کی اس جدید یونیورسٹی میں جو خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کا بھی کوئی نقصان نہیں ہوگا، اس لیے کہ اس میں تو آپ کے سیٹ خالی کرتے ہی بیسیوں بلکہ سینکڑوں لوگ اپنی خدمات پیش کردیں گے۔ اس گاؤں میں جانے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ معلم صاحب کی طرف سے ذرا تردد کا انداز دیکھ کر وہ معترض ان کے سامنے ایک نیا وعظ شروع کردیتے ہیں۔ انہوں نے چونکہ جناب مغل صاحب کے کچھ مضامین سے استفادہ کیا ہوا ہے، اس لیے وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ ترقی بطور قدر کے اصول پر چل رہے ہیں۔ آپ نے زیادہ سے زیادہ خواہشات پوری کرنے کو اپنا مطمحِ نظر بنایا ہوا ہے، آپ کے ہاں اصل مسئلہ تزکیہ نفس نہیں ہے، اس لیے نفع خوری کی خاطرآپ اس جدید ادارے سے وابستگی چھوڑکر گاؤں میں جانے کے لیے تیّار نہیں ہیں، اسی لیے تو ہم نے شروع میں ہی کہہ دیا تھا کہ یہ یونیورسٹیاں اپنی بنیاد ہی کے اعتبار سے غلط ہیں۔ یہ ڈگریاں لے کر بڑے بڑے مشاہرات اور مراعات والی ملازمتوں کے خواب دکھاتی ہیں، آپ پر بھی اسی طرح کی کسی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کا یہ اثر ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ اس مکالمے کے بارے میں فاضل مضمون نگار جیسے حضرات کے احساسات کیا ہوں گے اور انہیں کس کے ساتھ ہمدردی ہوگی۔ کم ازکم مجھے اگر یہ کہا جائے کہ اس معترض کی طرح کسی جدید ادارے کے کسی استاذ سے اس انداز سے مکالمہ کروں تو میں خود کو اس کے لیے تیار نہیں پاؤں گا، اس لیے کہ اس اندازِ بحث سے اگرچہ مجھے یہ edge حاصل ہوگا کہ میں نے اپنے آپ کو ایک نظام کے ناقد کے طور پر اور اعلیٰ ترین اصولوں کے مبلغ کے طور پر پیش کر لیا اور دوسرے فریق کو ایک دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے جس میں وہ کتنی ہی معقول بات کرتا رہے، اس کے بارے میں غلط نظام کے وکیل ہونے کا تاثر اپنا کام دکھاتا رہے گا۔ پھر بھی میں اس طرزِ بحث کو اختیارکرنے کے لیے اس لیے تیار نہیں ہوں گا کہ اس طرح کی چالاکیاں روایتی قسم کے مناظروں میں تو بہت مفید ہوسکتی ہیں، ایک علمی بحث کے مناسب نہیں۔ بہرحال مذکورہ ایک مثال سے یہ سمجھنے میں یہ دشواری نہیں رہنی چاہیے کہ اگر ہر چیز کے بطور ’کل‘ جائزے ہی کو اسے اختیار کرنے یا ترک کرنے کا اصول اور معیار بنا لیا جائے تو دنیا کا کوئی کام بھی مشکل ہوجائے گا۔ یہ بات تو کسی نہ کسی طرح زندگی کے اکثر وبیشتر شعبوں کے بارے میں کہی جاسکتی ہے۔ ایک صاحب جدید میڈیکل سائنس کا علم حاصل کرکے خدمتِ خلق کرنا اور محنت ودیانت کے ساتھ رزقِ حلال کمانا چاہتے ہیں۔ ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ آپ اس کی بجائے ہمارے فلاں طبیہ کالج میں داخلہ لے لیں جہاں میٹرک پاس طلبہ کو تین اور میٹرک فیل طلبہ کو چار سال میں’’ طبیبِ حاذق‘‘ بنادیا جاتاہے، اس لیے کہ جدید دور کی میڈیکل سائنس سمیت تمام حیاتیاتی علوم کا ڈارون ازم کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ ان کے بنیادی مقاصد ہی میں نظریۂ ارتقا اور ڈارون ازم کو فروغ دینا شامل ہے، جبکہ شریعت کے مقاصد اس سے بالکل مختلف ہیں، لہٰذا پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ ان سائنسز سے مقاصد الشریعہ کا حصول ممکن بھی ہے یا نہیں۔ اور تو اور، بازار کو بطور ’کل ‘ اگر دیکھنے لگیں تو اس کے بارے میں تو نص موجود ہے کہ یہ زمین کے سب سے بُرے ٹکڑے ہیں، اگر کوئی شخص بطور ’کل ‘ دیکھنے والے اسی فلسفے کو لے کر بیٹھ جائے تو وہ یہی کہے گا کہ بازار میں جانا ہی نہیں چاہیے۔ وہ بازار کے عمومی حالات کو سامنے رکھ کر اس میں جانے کے خلاف بڑی’ اصولی‘ اور شان دار بحث کر سکتا اور یہ کہہ سکتاہے کہ بازار جانے کی حمایت کرنے والوں نے یہ غلط مفروضہ قائم کر رکھا ہے کہ اس بد ترین جگہ کو کسی نہ کسی طرح اسلامی بنا ہی لیا جائے گا اور اسے کلمہ پڑھا ہی لیا جائے گا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ بازار جانا تو ضرورت ہے تو جواب میں وہ یہ کہہ سکتاہے کہ یہ آپ لوگوں کا حربہ ہے کہ جب کوئی اور بات نہیں بنتی تو ضرورت کی دہائی دینے لگتے ہو ، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف وہاں جاکر کاروبار کرنے کی اجازت دے رہے ہیں بلکہ یہ بھی فرمارہے ہیں کہ سچا اور امانت دار تاجر نبیوں ، صدیقوں اور شہدا کے ساتھ ہوگا۔ (جامع ترمذی ، کتاب البیوع: باب ماجاء فی التجار وتسمیۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم إیاہم ) اور اسے ’کلمہ ‘ پڑھانے کا یہ طریقہ بیان فرما رہے ہیں کہ کاروبار کے ساتھ صدقہ خیرات بھی کرتے رہا کرو (حوالہ بالا) اور اس بد ترین جگہ پر جانے کا ذکر لا إلہ إلا اللہ وحدہ الخ بھی تعلیم فرمارہے ہیں۔ ( جامع ترمذی ، کتاب الدعوات : باب مایقول إذا دخل السوق )۔
در حقیقت اصل مسئلہ کسی چیز کو بطور کل یا بطور جز دیکھنے کا نہیں، دین کے اوامر اور نواہی کی روشنی میں دیکھنے کا ہے۔ اگر ہم شر یعت کے عمومی مزاج کو دیکھیں تو اس میں کسی چیز کو بطور ’کل‘ کے دیکھ کر اسے رد کرنے کی بجائے خذ ما صفا ودع ما کدر کا اصول زیادہ استعمال ہوتا نظر آئے گا، یعنی اس میں جو اچھائی یا درست کام ہے، وہ لے لو اور برائی سے بچنے کی کوشش کرو۔ بازار کو بدترین جگہ قرار دینے کے باوجود حکمِ شرعی میں اس بات کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے کہ آپ نے وہاں جاکر کام کیا کرناہے۔ یہی منہج عمومی طور پر علما نے بینکنگ کے حوالے سے اختیار کیا ہے کہ روایتی بینکنگ کو بالکلیہ قبول یا بالکلیہ رد کرنے کی بجائے یہ کہاکہ دیکھا جائے کہ آپ نے بینک میں یا اس کے ذریعے کرنا کیا ہے، اسی کے مطابق آپ کے کام یا سرگرمیوں کو درست یا غلط کہا جاسکے گا۔ یہ منہجِ فکر اسلامی بینکاری کے حامیوں اور ناقدین میں قدرِ مشترک ہے، چنانچہ اسلامی بینکاری کے ناقد علما بھی بینکنگ کی بہت سی سروسز سے استفادے کو نہ صرف جائز کہتے ہیں بلکہ خود ان سے مستفید بھی ہوتے ہیں، علما کے انفرادی طور پر بھی اور وفاق المدارس سمیت کئی دینی تنظیموں ، اداروں اور مدارس وجامعات کے بینکوں میں کرنٹ اکاونٹ کھلے ہوئے ہیں اوروفاق المدارس سمیت کئی تو ان کے ذریعے لین دین بھی کرتے ہیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ سود سے تو خالی ہوتا ہے جو مغل صاحب کے خیال میں ثانوی درجے کی برائی ہے، ان کے خیال میں جو اصل برائی ہے یعنی تخلیقِ زر کا باعث بننا، وہ کرنٹ اکاؤنٹ میں کچھ زیادہ ہی ہوگی کم نہیں، اس لیے کہ کھاتہ دار کے اپنی قوتِ خرید سے دست بردار نہ ہونے والی بات اس میں زیادہ پائی جاتی ہے اور بنک کرنٹ اکاؤنٹ کے ساتھ بھی جزمحفوظاتی نظام کے تحت ہی برتاؤ کرتا ہے۔ یہ بات تو غیر سودی بینکاری کے مجوّزین نے شروع ہی میں کہہ دی تھی کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق کام کرنے والا بینک نہ تو وہ تمام کام کرسکے گا جو روایتی بینک کرتے ہیں اور نہ ہی روایتی بینک کی تمام خصوصیات اس میں موجود ہوں گی ، جیسا کہ خود مولانا محمد تقی عثمانی نے ’’ اسلام اور جدید معیشت وتجارت ‘‘ میں اسے بیان کردیاہے ، چنانچہ وہ اس کتاب کے ص۱۳۳ پر فرماتے ہیں :
’’سودی بینکاری کا متبادل تلاش کرنے کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ مروّجہ بنک جتنے کام جس انداز سے کررہے ہیں، وہ سارے کام کم وبیش اسی انداز سے انجام دیے جاتے رہیں اور ان کے مقاصد میں کوئی فرق واقع نہ ہو، کیونکہ اگر سب کچھ وہی کرنا جو اب تک ہورہا ہے تو متبادل طریقِ کار کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی، بلکہ متبادل کا مطلب یہ ہے کہ بنک کے جو کام موجودہ تجارتی حالات میں ضروری یا مفید ہیں، ان کی انجام دہی کے لیے ایسا طریقِ کار اختیار کیا جائے جو شریعت کے اصولوں کے دائرے میں ہو اور جس سے شریعت کے معاشی مقاصد پورے ہوں اور جوکام شرعی اصولوں کے مطابق ضروری یا مفید نہیں اور جنہیں شرعی اصولوں کے مطابق ڈھالا نہیں جاسکتا، ان سے صرفِ نظر کیا جائے۔‘‘
حاصل یہ کہ یہاں اس بات پر علما کے درمیان اتفاق ہے کہ بینک کے ادارے کے ساتھ خذ ما صفا ودع ما کدر والا برتاؤ کیا جائے گا۔
پھر یہاں دو چیزوں میں خلط ہو گیا ہے۔ ایک ہے کسی چیز کو بطور ’کل‘ کے لینا اور ایک ہے کلیات اور قواعد کی روشنی میں دیکھنا۔ ایک بڑے کل کے اجزا کو الگ الگ دیکھتے ہوئے بھی شریعت کے عمومی قواعد یا مقاصدِ شریعت سے راہ نمائی لی جاسکتی اور لی جاتی ہے۔ شریعت کے مقاصد اور عمومی قواعد کو اگر دیکھیں تو ان میں تیسیر کا پہلو ہماری شریعت کے اہم مقاصد میں نظر آتا ہے۔ قرآن نے کئی جگہوں پر اس کے ساتھ باقاعدہ ارادے کا لفظ استعمال کیا ہے: ’’یرید اللہ بکم الیسر‘‘ (البقرۃ:۱۸۵)۔ اس موضوع پر اگر نصوص کی صرف فرست ہی درج کی جائے تو بات بہت لمبی ہوجائے گی۔ فقہانے جن پانچ قواعد کلیہ کو پوری شریعت کا محور قرار دیا ہے، ان میں سے تین کا تعلق کسی نہ کسی طرح تیسیر کے اصول سے بنتا ہے اور وہ ہیں: (۱) المشقۃ تجلب التیسیر (۲) الضرر یزال (۳) العادۃ محکمۃ۔ ان میں پہلا تو صراحتاً تیسیر سے متعلق ہے۔ ا س کا مطلب یہ ہے کہ تیسیر کل شریعت کا ۵/۳ یا کم ازکم ۵/۱ ضرور بنتا ہے۔ اس قاعدے کی اہمیت کے باوجود اس کے عملی انطباق میں اختلاف ہوسکتا ہے ، لیکن اس قاعدے کے استعمال کو ہی استہزا یا تہکم کا نشانہ یا اعتراض کی بنیادبنا لینا کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ جناب مغل صاحب ایک طرف تو مقاصدِ شریعت کے بہت بڑے داعی اور مبلغ نظر آتے ہیں، دوسری طرف ضرورت وحاجت کی بات کرنے کو وہ ’’مجوّزین کا عمومی حربہ‘‘ اور ’’ ضرورت کی دہائی‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں،اگرچہ اسلامی بینکاری ساری کی ساری اس اصول پر مبنی نہیں ہے، بلکہ اس میں متعدد معاملات میں فی نفسہ جواز کے باوجود سدّ ذریعہ کے طور پر تضییق سے بھی کام لیا جاتا ہے۔ یہاں کہنا صرف یہ مقصود ہے کہ اگر واقعتا مقصود مقاصدِ شریعت کی بات کرنا ہے تو ضرورت وحاجت کا اعتبار اور تیسیر تو شریعت کا اہم ترین اور منصوص مقصد ہے۔ مقاصدِ شریعت کی بار بار بات کرنے والوں کو تو تیسیر یا ضرورت کی بات ’’حربہ‘‘ تو نظر نہیں آنی چاہیے۔
کیا عمومی سطح کے معاشی جائزے کے بغیر فقہی بحث غیر متعلق ہے؟
بہر حال ان چند مثالوں سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ معاملے کو بطور کل لینے کی بات دیکھنے میں جتنی خوبصورت اور اصولی لگتی ہے، واقعہ میں اتنی سادہ نہیں ہے ، اس لیے ان کی تجویز کردہ یہ ترتیب کہ جب تک مسئلہ پہلی دو سطحوں کی بحث میں پاس نہ ہوجائے، تب تک اس پر فقہی زوایۂ نگاہ سے بات نہیں کرنی چاہیے یا یہ کہ ان بینکوں میں طے پانے والے عقود کو فقہی لحاظ سے درست قرار دیا جائے جیساکہ ایک فریق کی رائے ہے یا فاسد جیساکہ دوسرے فریق کی رائے ہے، تب بھی جب تک مسئلہ پہلے دو ٹیسٹوں میں کلئیر نہ ہو جانے، یہ فقہی فیصلہ نافذ نہیں ہونا چاہیے، یہ ترتیب مسئلے کو فضا میں معلق کرنے یا اندھیری کوٹھڑی میں لے جانے کے مترادف ہے، اس لیے کہ مدوّن فقہ المعاملات ایک واضح، منضبط اور زیرِ عمل چیز ہے جس کے اصول وقواعد، جزئیات اور طریقہ ہائے استدلال سب چیزیں منقح اور واضح ہیں، جبکہ جس سطح کی بحث کی بات فاضل مضمون نگار فرمارہے ہیں، اس میں کوئی واضح اور نکھرا ہوا مواد موجود نہیں ہے ، جیسا کہ خود ان کا اپنا شکوہ ہے کہ اس سطح پر غور نہیں ہورہا۔ اس سطح کا جو کام ہوا ہے، اسے ابھی خود تنقید کی چھلنی سے گزرنا ہے۔ ایک نامکمل اور مبہم جائزے کی بنیاد پریا اس کی تکمیل کی انتظار میں ایک واضح، مدوّن اور زیرِ عمل چیز کے بارے میں حکمِ امتناعی کیسے جاری کردیا جائے؟ یہ ایسے ہی ہوگاجیسے کسی جگہ کوئی خاص قانون یا قانونی نظام رائج ہو، کسی صاحبِ دانش کو وہ قانون یا قانونی نظام پسند نہ ہو تو یہ ان کا حق ہے کہ وہ اس پر تنقید کریں، متبادل قانونی فکر کی تجویز دیں ، اس کے لیے لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کریں، لیکن پہلے ہی مرحلے میں وہ یہ بھی کہہ دیں کہ جس بحث کو میں نے چھیڑا ہے جب تک یہ پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ جائے، ججوں کو اس کے مطابق فیصلے کرنے اور قانونی مشیران کو اس کے مطابق قانونی مشورے دینے کا عمل بند رکھنا چاہیے، ظاہر ہے کہ کوئی شخص اس مشورے یا مطالبے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہوگا۔ موجودہ مدوّن یا روایتی فقہ درحقیقت ایک قابلِ ذکر متدیّن طبقے کا رائج الوقت شرعی قانون ہے، ریاست کے نافذ کردہ قانون کے معنی میں نہیں بلکہ ایسے قانون کے معنی میں جسے لوگ اپنی مرضی سے اپنے اوپر لاگو کررہے ہیں۔ اہلِ افتا اسی قانون کی روشنی لوگوں کی راہ نمائی کررہے ہیں۔ صرف اسلامی بینکاری ہی نہیں، بے شمار مسائل میں اسی فقہ کی روشنی میں غور کرتے ہوئے ان کے نتائجِ بحث یا فتاوے میں اختلاف بھی ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں جس کو جس رائے یا جس صاحبِ علم پر اطمینان ہوتاہے، اس پر عمل کرلیتا ہے۔ یہی کچھ اسلامی بینکاری کے مسئلے میں ہورہاہے۔ دونوں قسم کے فتاویٰ موجود ہیں اور لوگ دونوں پر عمل بھی کررہے ہیں۔ اب اگر اس رائج الوقت منہجِ فکر کا متبادل کسی کے ذہن میں موجود ہے تو وہ اسے اہلِ علم کے سامنے پیش کرنے کا حق رکھتا ہے۔ علمی حلقے اسے تنقید کی چھننی سے گزاریں گے، لیکن یہ کہنا کہ ہماری بحث مکمل ہونے تک پہلے سے موجود فتووں کو معطل رکھا جائے، یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی قانون یا قانونی نظام میں تبدیلی کے مشورے کے ساتھ ہی رائج قانون پر عمل سے روک دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ تعطل کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔
پھر فقہِ اسلامی میں اگرچہ ہمیں جدید معاشی اصطلاحات استعمال ہوتی نظر نہیں آتیں، اس میں معاشی تجزیے ، فارمولے، مساواتیں وغیرہ نہیں ہوتیں،اس میں ہمیں معاشی ماڈلز نہیں ملتے، لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اس کے احکام معاشی حکمت اور دانش سے بھی خالی ہیں۔ فقہِ اسلامی کا وہ حصّہ جو حصہ فقہ المعاملات المالیۃ کہلاتاہے، اسے ہم سمجھنے کے لیے اسلام کا قانونِ تجارت کہہ سکتے ہیں جسے غلطی سے یا شاید مجازاً اسلامی معاشیات بھی کہہ دیا جاتاہے۔ جدید معاشیات کی عمرتو اڑھائی صدی سے بھی کم بنتی ہے (جدید معاشیات کے بانی آدم سمتھ کی وفات ۱۷۹۰ء میں ہوئی) ، اس سے پہلے کا انسان بھی معاشی سمجھ بوجھ سے خالی نہیں تھا۔ کسی بھی قوم کے کاروباری ضوابط کے پیچھے اس کے معاشی تصورات موجود ہوتے ہیں۔ فقہِ اسلامی اس کی ایک بہترین مثال ہے۔ اس کے ذکر کردہ احکام کے پیچھے بھی کچھ معاشی تصوّرات اور نظریات ہوتے ہیں جن کا کچھ اندازہ فقہا کی ذکر کردہ تعلیلات سے بھی ہو سکتاہے۔ ( اگرچہ ان تعلیلات میں معاشی سے زیادہ قانونی رنگ غالب ہوتا ہے) فقہِ اسلامی کا مطالعہ کرکے ان تصورات اور نظریات کو جدید معاشی اسلوب میں بھی بیان کیا جاسکتاہے، خاص طور پر زر (money) اور اس کے متعلقات وغیرہ کے بارے میں تو اسلامی فقہ کے تصورات بہت واضح ہیں۔ فقہا کے ہاں زر کے بارے میں اُس زمانے سے واضح اور بنیادی تصوّرات ملتے ہیں جبکہ مغرب کو اس پر بحث شروع کرنے میں بالخصوص جدید علمِ معیشت کے وجود میں آنے میں ابھی صدیاں پڑی تھیں۔ اس حوالے سے شاید ہی کوئی نظامِ فکر وعلم فقہ اسلامی پر سبقت کا دعوی کرسکے۔ فقہِ اسلامی فضا میں یا غاروں میں پروان نہیں چڑھی، اس نے مختلف علاقوں میں متنوع قسم کے حالات میں صدیوں تک معاشی مسائل میں لوگوں کی راہ نمائی کی ہے ۔ اس کا واسطہ مختلف قسم کی معیشتوں سے رہا ہے۔ اس نے ایسی معیشتوں کو بھی ڈیل کیا ہے جو اپنے وقت کی بالادست، طاقت ور اور بڑی معیشتوں میں سے تھیں، اس لیے مدوّن فقہ المعاملات بے چاری اتنی گئی گزری بھی نہیں ہے کہ یہ تصوّر کرلیا جائے کہ اس کے کسی فیصلے پر عمل سے پہلے معاملے کا کسی جدید معیشت دان سے تجزیہ کرانا ضروری ہے، اس کے بغیر اس فیصلے پر عمل معاشی دانش سے بالکل ہی خالی ہوگا ۔
در حقیقت جس نوعیت کا استدلال غیر سودی بینکاری کے یہ ناقدین کررہے ہیں، بالکل اسی نوعیت کا استدلال بینکوں کے انٹرسٹ کو ربا تسلیم نہ کرنے والوں کا تھا۔ ان کا کہنا بھی یہی تھا کہ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ عقد کی نوعیت کیا ہے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ قرآن نے جس ربا سے منع کیا ہے، یہ وہ ربا تھا جو ظلم پر مشتمل تھا اور یہی ظلم ربا سے منع کرنے کی اصل وجہ ہے، لہٰذا اصل دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس نئی نوعیت کے انٹرسٹ میں ظلم پایا جاتاہے یا نہیں۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ اس میں ظلم نہیں پایا جاتا۔ اس پر وہ اپنے دلائل دیتے تھے۔ گویا فاضل مضمون نگار جیسے ناقدین اور بینکوں کے سود کو جائز کہنے والوں کے منہج استدلال میں بظاہر یہ بنیادی بات قدرِ مشترک لگ رہی ہے کہ قرآن وسنت سے ہم صرف بنیادی اصول لیں گے، مثلاً یہی کہ ظلم اور استحصال نہیں ہونا چاہیے۔ آگے معاملات پر اس کا انطباق کرنے کے لیے عقد کی نوعیت اور نصوص وغیرہ کو دیکھنے کی بجائے ہم اپنے معاشی تجزیے سے جائزہ لیں گے کہ کہاں یہ اصول کس طرح سے لاگو ہورہا ہے۔ بنیادی منہج ایک ہی ہے، البتہ اس مہنج کی رو سے معاشی تجزیہ دونوں کا الگ الگ ہوگیا۔ ایک کی رائے میں بینکوں کے سود میں ظلم نہیں پایا جاتا، اس لیے اگرچہ عقد کی نوعیت ایسی ہو کہ اس کا ناجائز ہونا منصوص ہو، پھر بھی اصل حکم وہی ہے جوہمارے معاشی تجزیے سے سامنے آیاہے، جبکہ دوسرے فریق کے معاشی تجزیے کے مطابق سود کی بات تو ثانوی ہے، خود بینکنگ ہی میں ظلم پایا جا رہا ہے، اس لیے بینکاری سودی ہویا غیر سودی، دونوں ہی اپنے اصل کے اعتبارسے غلط ہیں۔ ان کے خیال کے مطابق بھی ان کے اس تجزیے کی موجودگی میں فقہی جائزے اور عقد کی نوعیت کے اعتبار سے ان میں طے پانے والے عقود کو جائز کہیں یا ناجائز، یہ ان کے خیال میں غیر متعلق بات ہے ۔
کیا علما سے بینکنگ کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے؟
جناب زاہد صدیق مغل صاحب نے اپنے مضمون کا زیادہ تر حصہ اس بات پر صرف کیا ہے کہ اسلامی بنکاری کے مجوّزین نظامِ زر اور بینکاری کو صحیح طریقے سے سمجھے ہی نہیں۔ اب تک تو وہ مجوّزین اور ناقدین تمام علما پر تنقید کررہے تھے، لیکن یہاں پہنچ کر ان کا نشانہ صرف مجوّزین ہی رہ جاتے ہیں۔ یہ یاد رہے کہ مجوّزین میں عصرِ حاضر کے ایک آدھ عالم نہیں بلکہ بنیادی طور پران میں مولانا مفتی محمد شفیعؒ ، مولا نا محمد یوسف بنوریؒ ، مفتی رشید احمد لدھیانویؒ ، اسلامی نظریاتی کونسل کے ۱۹۸۰ء اور اس سے قبل کے زمانے کے فاضل ارکان، مجمع الفقہ الاسلامی جیسے متعدد بین الأقوامی فقہی فورمزکے ارکان اور عالمِ اسلام کی معروف شخصیات شامل ہیں۔ ان سب شخصیات اور فورمزسے علمی طور پر اختلافِ رائے کرنا بھی کوئی گناہ نہیں ہے، لیکن یہ ذہن میں رہنا ضروری ہے کہ اس رائے کی حامل ایک آدھ شخصیت نہیں ہے۔ ایک آدھ شخصیت کی آڑ لے کر سب کو ناواقف قرار دینا بہر حال کافی احتیاط کا متقاضی ہونا چاہیے۔ ویسے تو جناب مغل صاحب نے مجوّ زین کے تصورِ بینکاری کو پیش کرتے ہوئے جس طرح سے ایک مشہور علمی شخصیت کی باتوں کو اپنی مرضی کے معانی پہناکر انہیں ناواقف ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور خود ان کی اپنی باتوں میں کتنی ایسی ہیں جو کم ازکم مجھ سے طالب علم کو تضادات اور ابہامات نظر آتی ہیں، انہیں بیان کرنے کے لیے ایک مستقل مضمون درکار ہے ، لیکن چونکہ ہمارا مقصد نہ تو کسی کی تنقیص ہے اور نہ ہی کسی شخصیت کی تمجید، اس لیے یہاں اس بحث سے صرفِ نظر کرتے ہوئے صرف ایک بات کی طرف اشارہ ضروری سمجھتے ہیں جسے فاضل مضمون نگار نے ایک طرح سے چیلنج کے انداز میں پیش کیا ہے۔
ان کی اس بات کی طرف کی آنے سے پہلے یہ بات ذہن میں رہنا ضروری ہے کہ روایتی طور پر بنک کا کام یہ ہے کہ وہ خود اشیایا خدمات کے کاروبار میں ملوث نہیں ہوتا، بلکہ صرف اور صرف پیسے کا لین دین کرتاہے۔ ایک طرف سے پیسہ کم شرحِ سود پر لیتا اور دوسری طرف زیادہ شرحِ سود پر دیتاہے۔ اسلامی نقطۂ نگاہ سے زر (money) بذاتِ خود ایسی چیز نہیں کہ اس کے لین دین کو نفع کمانے کا ذریعہ بنایا جائے۔ نفع کمانے کا طریقہ تجارت ہے جس کے لیے اشیا یا خدمات کے لین دین میں خود یا اپنے وکیل کے ذریعے ملوّث ہونا ضروری ہے۔ ( اس نکتے کی زیادہ وضاحت خود مولانا کے لکھے ہوئے سپریم کورٹ کے سود کے خلاف فیصلے میں موجود ہے)۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی بینکاری میں بنک کبھی بھی محض پیسے پر نفع نہیں لیتا بلکہ یا تو خود کسی کاروبار میں مضارب یا شریک بن کر حصہ لیتا ہے یا اشیا یا خدمات فراہم کرکے اس پر نفع لیتاہے ۔ جناب مغل صاحب نے یہ تأثر دینے کی کوشش کی ہے کہ مجوّزین‘ بینک کو محض ایک زری ثالث سمجھتے ہیں، بینک کی دیگر اہم خصوصیات جیسے اس کا جزو محفوظاتی طریقے سے کام کرنا، تخلیقِ زر کاباعث بننا وغیرہ سے یہ علما واقف نہیں ہیں۔ صحیح صورتِ حال سے ناواقفیت کی وجہ سے علما غلط سوال قائم کرکے اس کا غلط جواب دے رہے ہیں۔ انہوں نے مولانا محمد تقی عثمانی سمیت تمام علما کے بارے میں یہ تأثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ان کے نزدیک بینک محض زری ثالث کا کردار ادا کرتا ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس کے لیے انہوں نے مولانا عثمانی کی ایک عبارت نقل کی ہے: ’’مروّجہ [ روایتی، سودی] بنکاری میں بینک کی حیثیت محض ایک ایسے ادارے کی ہے جو روپے کا لین دین کرتاہے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی مولانا کی کتاب کے ص ۱۱۶ سے وہ عبارت نقل کی ہے جس میں انہوں نے بنک کے وظائف گنواتے ہوئے تخلیقِ زر کا بھی ذکر کیا ہے۔ جناب مغل کے خیال میں یہ ایسا تضاد ہے جسے رفع کرنا مجوّزین کے ذمہ ہے، اس لیے کہ بقول ان کے، اگر بینک محض روپے کے لین دین کا ادارہ ہے تو وہ تخلیقِ زر کا باعث کیسے بن سکتا ہے؟ اس موقع پر ہم حافظ شیرازی کے الفاظ میں یہی عرض کرسکتے ہیں :
سخن شناس نہ ای دلبرا خطا این جاست
اگر مجھے معلوم ہوتا کہ جناب مغل صاحب کچھ درسِ نظامی بھی پڑھے ہوئے ہیں تو ان سے صرف ایک جملے میں بات کرتا کہ ’محض‘ کا لفظ حصر حقیقی کے لیے نہیں، حصرِ اضافی کے لیے ہے۔ بات وہی ہے جو اوپر عرض کی گئی کہ مولانا عام بنکوں اور اسلامی بنکوں میں فرق بیان کررہے ہیں کہ عام بنکوں کا بنیادی وظیفہ یہ ہوتا ہے کہ وہ صرف روپے کا لین دین کرتاہے، یعنی اشیا وخدمات کی تجارت کا نہیں، چنانچہ شروع شروع میں بعض جگہوں پر اسلامی بنکوں کو یہ قانونی دشواری بھی پیش آئی کہ بنک تو خود کاروبار کرہی نہیں سکتا جبکہ اسلامی بینکاری میں بنک کرتا ہی کاروبار ہے ، تو عام روایتی بنکوں کے بارے میں’ محض ‘کا لفظ اشیا وخدمات کے کاروبار کی نفی کے لیے ہے نہ کہ تخلیقِ زر وغیرہ دیگر کرداروں کی نفی کے لیے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ فاضل مرتب (راقم الحروف کے چھوٹے بھائی) مفتی محمد مجاہد شہیدؒ ’محض ‘ کا لفظ ’روپے ‘ کے ساتھ ذکر کردیتے اور جملہ یوں ہوتا’ ’محض روپے کا لین دین کرتاہے [ یعنی اشیا وخدمات کا نہیں]‘‘ ۔۔جیساکہ اسی سے چند جملے آگے خود مولانا عثمانی کی اسی طرح کی عبارت ہے ۔۔ تو بات زیادہ واضح ہوجاتی۔ پھر بھی جس شخص کو مذکورہ پس منظر سے اور روایتی اور اسلامی بینکوں کے درمیان اس فرق سے آگہی ہو، وہ خود بات کو درست طریقے سے سمجھ سکتاہے اور اگر اس پس منظر سے صرفِ نظر بھی کرلیا جائے تب بھی مولانا کے اگلے جملے سے ہی مفہوم بہت واضح ہوجاتاہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مولانا کا پورا پیرا گراف نقل کردیا جائے :
’’چنانچہ مروّجہ نظام بنکاری میں بنک کی حیثیت محض ایک ایسے ادارے کی ہے جو روپے کا لین دین کرتاہے، اسے اس بات سے سروکار نہیں ہے کہ اس روپے سے جو کاروبار ہورہا ہے اس کا منافع کتنا ہے اور اس سے کس کو فائدہ اور کس کو نقصان پہنچ رہا ہے ؟
اسلامی احکام کی رو سے بنک ایسے ادارے کی حیثیت میں باقی نہیں رہ سکتا جس کا کام صرف روپے کا لین دین ہو، اس کے بجائے اسے ایک ایسا تجارتی ادارہ بنانا پڑے گا جو بہت سے لوگو ں کی بچتوں کو اکٹھا کرکے ان کو براہِ راست کاروبار میں لگائے اور وہ سارے لوگ جن کی بچتیں اس نے جمع کی ہیں ، براہِ راست اس کاروبار میں حصہ دار بنیں اور ان کا نفع نقصان اس کاروبار کے نفع نقصان سے وابستہ ہو جو ان کے سرمائے سے بالآخر انجام دیا جارہاہے، لہٰذا سودی بنکاری کے متبادل جو انتظام تجویز کیا جائے گا، اس پر یہ اعتراض نہ ہونا چاہیے کہ بنک نے اپنی سابقہ حیثیت ختم کردی ہے ، اور وہ بذاتِ خود ایک تجارتی ادارہ بن گیا ہے ، کیونکہ اس کے بغیر وہ ضرورت [ یعنی سود کا خاتمہ ] پوری نہیں ہوسکتی جس کی وجہ سے متبادل نظام کی تلاش کی جارہی ہے۔‘‘
حیرت ہے کہ فاضل مضمون نگار سے اگلی ہی عبارت بلکہ اگلے ہی جملے سے صرفِ نظر کیسے ہوگیا۔
حقیقت یہ ہے کہ جس نے مولانا محمد تقی عثمانی کی کتابوں اور غیر سودی بنکاری پر ان کے اور دیگر علماکے مواد کا سرسری سا بھی مطالعہ کیا ہو، وہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ انڈا پہلے یا مرغی جیسی یہ بحث کہ ’’بچتیں قرضوں کو جنم دیتی ہیں یا قرضے بچتوں کو‘‘ کے علاوہ فاضل مضمون نگار نے بنکاری کے حوالے سے جن حقائق کی نشان دہی کی ہے، ان میں سے بیشتر ایسے ہیں جن سے مولانا یا دیگر مجوّزین غافل نہیں ہیں، مثلاً یہ کہ بنک تخلیق زر کا باعث بنتے ہیں، وہ محض کمپیوٹر کی یاد داشت میں زر تخلیق کرتے اور اس پر نفع کماتے ہیں جس کی وجہ سے بنیادی زر ( کرنسی ) کے مقابلے میں بنکوں کے تخلیق کردہ زر کا تناسب بہت زیادہ ہوجاتاہے۔ ( اس پہلو پر مولانا کے سپریم کورٹ کے فیصلے میں تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے جس کا اردو ترجمہ بھی دستیاب ہے) اور یہ کہ بنک کل محفوظاتی کی بجائے جزمحفوظاتی طریقے سے کام کرتے ہیں، یعنی کھاتہ داروں کی جتنی رقوم ان کے پاس ہوتی ہیں، ان کا کچھ حصہ رکھ کر باقی قرض دے دیتے ہیں ، اور یہ کہ بیشتر حالات میں کھاتہ دار کو بھی اپنے کھاتے پر چیک جاری کرنے کا اختیار ہوتاہے۔ اس طرح سے وہ اپنی قوّتِ خرید سے پورے طور پر دستبردار نہیں ہوتا اور یہ کہ checkable deposits یا IOU,s کی وجہ سے دیون کی رسیدیں بھی ادائیگیوں کے لیے استعمال ہوتی ہیں بلکہ اصل کرنسی کی بجائے ان کا استعمال زیادہ ہوتاہے۔ اس طرح کے بیشتر نکات وہ ہیں جن سے مجوّزین غافل نہیں ہیں۔ اس پر ان حضرات خصوصاً مولانا عثمانی کی عبارات پیش کی جاسکتی ہیں، بلکہ یہ تو ایسی باتیں ہیں جن سے انٹر یا گریجویٹ کی سطح کی بینکنگ یا کامرس پڑھنے والا بھی ناواقف نہیں ہوسکتا، ہاں البتہ بعض چیزوں کے تجزیے اور ان کے آثارکے بارے میں زاویۂ نگاہ کا فرق ہوسکتاہے۔ جناب فاضل مضمون نگار کا زاویۂ نگاہ اپنی جگہ محترم اور ان کی کاوش اپنی جگہ قابلِ قدر، لیکن یہ فرق بظاہر رائے کا فرق ہوگا، واقفیت یا نا واقفیت کا نہیں۔ اصل دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ جس پہلو کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے، اس کا حکمِ شرعی پر بھی کوئی اثر پڑتا ہے یا نہیں۔ اس معاملے میں حرفِ آخر دلیلِ شرعی ہی ہوسکتی ہے نہ کہ کوئی معاشی جائزہ۔ ہم بڑی بے صبری کے ساتھ تین قسطوں تک اس بات کا انتظار کرتے رہے کہ جناب مغل صاحب آخر میں یہ بتائیں گے کہ جن پہلوؤں کی طرف انہوں نے توجہ دلائی ہے اور جن کے بارے میں ان کاکہناہے کہ مجوّزین ان سے ناواقف ہیں، ان پہلوؤں کا حکمِ شرعی پر کیا اثر مرتب ہوگا ، یہ بات وہ شرعی دلیل سے ثابت کریں گے ، لیکن ان کے مضمون کی آخری قسط پڑھ کر اس حوالے سے بہت مایوسی ہوئی، اس لیے کہ شرعی دلیل کے حوالے سے جناب مغل صاحب کا مضمون بہت ہی تشنہ ہے۔
مذکورہ مضمون کے مطالعے سے عمومی تاثر یہ ملتا ہے کہ جو لوگ بنک کو زری ثالث سمجھتے ہیں، وہ امرِ واقعہ کے اعتبار بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ اگر اس سے مراد یہ ہے کہ بنک کے زری ثالثی کے کردار کے علاوہ اس کے کسی اور کردار کی نفی کرنا غلط ہے تو یہ بات تو درست ہے، لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی صاحبِ علم جو بینکنگ وغیرہ کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات رکھتے ہوں، وہ اس غلط فہمی کا شکار ہوں ، اس لیے کہ زری ثالثی کے علاوہ بنک کے کئی کردار تو بہت معروف اور واضح ہیں۔ فاضل مضمون نگار نے سب سے زیادہ زور بنک کے تخلیقِ زر کے کردار پر دیاہے ، مجوّزین میں سے مولانا محمد تقی عثمانی کی کتاب ’’ اسلام اور جدید معیشت وتجارت ‘‘ میں بھی بنک کے اس کردار کا تذکرہ ان لفظوں میں شروع کیاگیا ہے : ’’بنک کا ایک اہم کردار جس کا ذکر یہاں بہت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ بنک پہلے سے موجود زر میں اضافہ کرکے زر کے پھیلاؤ کو بڑھاتاہے ، اور زر کی رسد میں اضافے کا کام انجام دیتاہے ....‘‘ اور اگر مراد یہ ہے کہ بنک عام ڈپازیٹر اور قرض حاصل کرنے والوں کے درمیان واسطہ بننے کا فریضہ انجام دیتاہے( اگرچہ اس کے ساتھ دیگر وظائف بھی انجام دیتاہے ) تویہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا ، اس کے لیے زیادہ تعلیم اور مطالعے کی بھی ضرورت نہیں۔ کسی بھی بنک کی کسی اہم برانچ میں چندگھنٹے گزار کر وہاں ہونے والوں کاموں کا مشاہدہ کرنا ہی اس حقیقت کے ادراک کے لیے کافی ہوسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ مضمون پڑھ کر اوّل وہلہ میں تو ہم بھی کچھ مرعوب ہوگئے تھے، ہمیں تجسس پیدا ہوا تھا کہ ممکن ہے اب تک بینکنگ کی جو ماہیت سمجھی جارہی ہے، وہی غلط ہو۔ اس صورت میں اپنی پوری سوچ پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ چونکہ ان علما کا اصل میدان اسلامی علوم ہی ہیں، معاشی علوم ان کا اصل موضوع نہیں ہیں، اس لیے ممکن ہے کہ دنیا بہت آگے جاچکی ہو اور زری ثالث ہونے کی بنک کی یہ خصوصیت اتنی کم حیثیت ہوگئی ہو کہ ناقابلِ ذکر ہوگئی ہو اور ان علماکو ہونے والی تبدیلی کا پتا ہی نہ چلا ہو اور وہ پرانی پوزیشن پر ہی کھڑے ہوں ، لیکن تھوڑی سی مراجعت سے اندازہ ہوا کہ بنک کی تعریف میں اس کی اس خصوصیت کا ذکر صرف بعض مجوّزین نے ہی نے نہیں کیا ۔ جن کے بارے میں مغل صاحب کو شکوہ ہے کہ وہ سنی سنائی یا دوسرے تیسرے درجے کے مراجع سے حاصل کردہ باتیں کرتے ہیں ۔بلکہ اس کا ذکر ایسے جدید مراجع میں بھی موجود ہے جن کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ سنی سنائی باتوں یا دوسرے تیسرے درجے کے مراجع پر انحصار کرنے والے یا معاشی علوم میں جدید رجحانات سے ناواقف ہیں۔ بطور مثال یہاں چند حوالے پیش کیے جاتے ہیں۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (ڈیجیٹل ایڈیشن ۲۰۰۷ ء)میں بنک کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا ہے :
an institution that deals in money and its substitutes and provides other financial services. Banks accept deposits and make loans and derive a profit from the difference in the interest rates paid and charged, respectively.
دی اوکسفرڈ ڈکشنری آف اکنامکس میں بنک تعریف ان لفظوں میں کی گئی ہے :
A financial institution whose main activities are borrowing and lending money. Banks borrow by accepting deposits from the general public or other financial institutions.
ایک آن لائن بزنس ڈکشنری میں بنک کی تعریف ان لفظوں میں کی گئی ہے :
Establishment authorized by a government to accept deposits, pay interest, clear checks, make loans, act as an intermediary in financial transactions, and provide other financial services to its customers. http://www.businessdictionary.com/definition/bank.html last visited 02/10/2010))
ویکیپیڈیا والوں نے بنک کی تعریف ان لفظوں میں کی ہے :
A bank is a financial institution that accepts deposits and channels those deposits into lending activities.
مزے کی بات یہ ہے کہ مجوّزین کے نظریۂ بینکاری کی بات کرتے ہو ئے انہیں یہ تضاد محسوس ہوتا ہے کہ بنک اگر محض زر کی لین دین کا کام کرتاہے تو وہ تخلیقِ زر کا کام کیسے کرتا ہے، لیکن مضمون کے آخر میں جا کر انہیں خود احساس ہوجاتاہے کہ تخلیقِ زر درحقیقت زر کے لین دین کی ہی ایک خاص شکل کا نتیجہ ہے، اس لیے وہ بینکنگ کی ساری خرابیاں ذکر کر کے ان سب کا ’سہرا‘ اسی زری ثالثی والی خصوصیت کے سر باندھتے ہیں ، چنانچہ مضمون کی آخری قسط میں اپنے موقف کے اثبات کے لیے چند بنیادی مقدمات کا ذکر کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں :
’’جب تک اکانومی میں ایک ایسا ایجنٹ موجود رہے گا جو بیک وقت لوگوں سے رقم (deposits) وصول بھی کرے اور ادھار (financing) بھی دے، اس وقت تک’ فرضی زر کی تخلیق‘ کا عمل جاری رہے گا اور یہ ایجنٹ (یا ادارہ ) لازماً ( جعلی ) ’ قرض کی رسید‘ (promise of payment) کو آلۂ مبادلہ ( means of payment ) کی حیثیت دے کر اصل زر کے خاتمے کا باعث بنے گا۔‘‘
آگے چل کر مزید کہتے ہیں :
’’یہ ناممکن ہے کہ اکانومی میں ایک شخص قرض دینے اور ڈپازٹس وصول کرنے کا کام بھی کررہا ہو مگر قرض کی رسید بطور آلۂ مبادلہ استعمال نہ ہورہی ہو۔‘‘
قطع نظر اس سے کہ ابھی ذکر کردہ مختصرسی عبارتوں میں کتنے مغالطے ہیں، ان میںیہ بات بہرحال تسلیم کی جارہی ہے کہ بینک کا اصل کردار رقوم وصول کرنا اور ادھار دینا ہے اور خود ان کے خیال میں بنک جن بنیادی خرابیوں پر مشتمل ہے، ان کی بنیاد بھی اس کا یہی زری ثالثی والا کردار ہے۔ گویا پہلے یہ کہا جارہا تھا کہ بنک اگر محض زر کا لین دین کرتا ہے تو تخلیقِ زر کیسے کرسکتاہے اور اب کہا جارہا ہے کہ چونکہ وہ زر کا لین دین کرتاہے، اس لیے لازماً تخلیقِ زر کاکام بھی کرے گا !
(جاری)