مولانا فضل محمد کے جواب میں

حافظ محمد زبیر

ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے مئی /جون ۲۰۰۹ء کے شمارے میں جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے استاذ الحدیث مولانا فضل محمد صاحب کا محبت نامہ پڑھنے کو ملا۔ مولانا نے راقم الحروف کے ایک مضمون پر نقد کرتے ہوئے بندہ ناچیز کی طرف الحاد، ظلم، کفر، امریکہ کی وفاداری، یہود و نصاریٰ کی ہمدردی، قرآن و حدیث کے ساتھ تمسخر، حدیث کے انکار، قرآن کے مفہوم میں تحریف، اجماع امت کی خلاف ورزی، نئی شریعت بنانے اور ڈھٹائی اور سرکشی وغیرہ اوصاف کی نسبت کی ہے۔ مولانا کی ان مہربانیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم اس علمی مسئلے کی تنقیح کی طرف آتے ہیں جسے مولانانے اپنی سادہ لوحی اورفرقہ وارانہ تعصب کی وجہ سے لاشعوری طور پر الجھانے کی خوب کوشش کی ہے۔ 

(۱) ہمارے مضمون کا خلاصہ یہ تھا کہ معاصر جہاد کئی قسم کا ہے، لہٰذا جہاد کی ہر قسم کے بارے میں اہل علم کی آرا میں بھی اختلاف ہے۔ افغانستان میں روس کے خلاف جہاد میں پروفیسر برہان الدین ربانی اور أحمد شاہ مسعود کی جمعیت اسلامی افغانستان، گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی، مولوی یونس خالص اور جلال الدین حقانی کی حزب اسلامی خالص گروپ، عبد الرب رسول سیاف کی اتحاد اسلامی برائے آزادی افغانستان، صبغت اللہ مجددی کی جماعت افغانستان قومی محاذ آزادی، محمد نبی کی حرکت انقلاب اسلامی، مولوی محمد أسامہ کی حزب سعادت ملی و اسلامی افغانستان اور سید أحمد گیلانی کی جماعت افغان مجاہدین اسلامی اتحاد روس کے خلاف جہاد کرتی رہیں۔ روس کے خلاف جہادکے دوران عالم اسلام کے مشرق سے مغرب تک تقریباً تمام علما ان جماعتوں کے جہاد کو ’جہادفی سبیل اللہ‘ قرار دیتے رہے۔ ۱۹۸۹ء میں جب روس نے جنیوا معاہدے کے تحت اپنی افواج افغانستان سے نکال لیں تو یہی اسلامی جہادی تحریکیں ایک دوسرے کے خلاف جہاد میں مصروف ہو گئیں۔ چنانچہ ۱۹۸۹ء سے ۱۹۹۶ء تک ڈاکٹر نجیب اللہ، برہان الدین ربانی، أحمد شاہ مسعود، جنرل عبد الرشید دوستم اور گلبدین حکمت یار وغیرہ کے باہمی جہاد کے نتیجے میں تقریباً پچاس ہزار مسلمان شہید ہو گئے اور کابل شہر کا ایک تہائی حصہ تباہ ہو گیا۔ ۱۹۹۴ء میں صوبہ قندھار کے مقامی پشتونوں نے ’طالبان‘ کے نام سے ایک تحریک کی بنیاد رکھی اور ان سب جہادی تحریکوں کے خلاف ’جہاد فی سبیل اللہ‘ شروع کر دیا۔ برہان الدین ربانی، کمانڈر أحمد شاہ مسعود، گلبدین حکمت یار جو روس کے خلاف جہاد میں سارے عالم اسلام کے ہیرو تھے، ’طالبان‘ کے نزدیک باغی اور غدار ٹھہرے اور ’مجاہدین ‘ کی بجائے ’مفسدین‘ اور واجب القتل قرار پائے۔

ہمیں یہاں یہ بحث نہیں کرنی کہ ان میں سے کون غلط تھا اور کون صحیح؟ ہم تو اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ برہان الدین ربانی، أحمد شاہ مسعود اور گلبدین حکمت یار روس کے خلاف جہاد میں’ مجاہد‘ تھے اور طالبان کے خلاف لڑتے ہوئے بھی وہ اپنے آپ کو مجاہد ہی سمجھ رہے تھے۔ اسی طرح ’طالبان‘ جب ان کے خلاف جہاد کر رہے تھے تو وہ ان جہادی رہنماؤں کے جہاد کو جہاد نہیں بلکہ ’فساد‘ سمجھتے تھے۔اس سارے اختلاف کی تفصیل ہم نے اپنے ایک مضمون میں بیان کر دی ہے جو کہ ماہنامہ ’الأحرار‘ کے جنوری تا جون ۲۰۰۸ء کے شماروں میں بالاقساط شائع ہو چکا ہے۔

مقصود کلام صرف یہ ہے کہ ہمارے ہاں سادہ لوح مذہبی طبقہ کسی کو مجاہد قرار دینے کے لیے بس اسی کو کافی سمجھتا ہے کہ اس کے سر پر عمامہ اور چہرے پر داڑھی ہو، شلوار ٹخنوں سے اوپر ہو اور آپ کے فرقے سے تعلق رکھتا ہو۔ اب چاہے ’جہاد‘ کے نام پر یہ شخص’ فساد‘ پھیلاتا پھر، ‘ بس یہ مجاہد ہے اور اس کے مجاہد ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے اور جو کلام کرے گا، وہ گمراہ، راندۂ درگاہ اور واجب القتل ہوگا۔ اگر مجاہد ہونے کا یہی معیار ہے تو سوال یہ ہے کہ طالبانِ افغانستان نے روس کے خلاف جہادکرنے والے مجاہدین کو کیوں ’مفسدین‘ قرار دیا؟ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ عمامہ باندھ کر، ڈاڑھی چھوڑ کر اور شلوار ٹخنوں سے اوپر کر کے جہاد کا نعرہ لگانے والے ہر شخص کی اندھا بہرا ہو کر حمایت نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس کا قرآن و سنت اور حالات و واقعات کی روشنی میں تجزیہ کرناچاہیے۔ یہ افغانستان کے طالبان ہی کا منہج ہے اور اسی منہج کی اتباع کرتے ہوئے ہم نے بعض معاصر جہادی تحریکوں اور ان کے اعمال و افعال پر نقد کیا ہے۔

(۲) معاصر جہاد کے بارے میں دنیا کے کس خطے میں علما کا اختلاف نہیں ہے؟ پاکستان کی ہی مثال ہی لے لیں:

’طالبان تحریک پاکستان‘ کے نزدیک کشمیر میں آئی ایس آئی اور حکومت پاکستان کی سرکردگی میں ہونے والا جہاد ’جہاد‘ نہیں ہے کیونکہ ان کے نزدیک ’جہاد‘ کبھی طاغوت کے تعاون سے نہیں ہوتا۔ہمارے پاس ایسی ویڈیوز موجود ہیں جن میں طالبان تحریک کے بعض رہنماؤں نے کشمیری تحریکوں کے مجاہدین کو پاکستان کی طاغوتی حکومت کی سرپرستی میں ہونے والے ’جہاد‘ سے رجوع اور توبہ و استغفار کی دعوت دی ہے۔ اسی طرح ہم پر شدید نقد کرنے والے مولانا عبدالمالک طاہر صاحب نے بھی بعض جہادی تحریکوں کے بارے میں ہمارے موقف کی حمایت کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

’’وزیرستان، سوات، لال مسجد اور تکفیری ٹولے کی حد تک حافظ صاحب کی بات وزنی معلوم ہوتی ہے اگرچہ لہجہ اور انداز ناصحانہ نہیں ہے۔‘‘ (ماہنامہ الشریعہ، مارچ ۲۰۰۹ء، ص ۴۳) 

اور تو اور، آج پوری دنیا کے مجاہدین کا جو فکری امام ہے یعنی أبو البصیر الطرطوسی، انہوں نے بھی اپنے ایک مقالے ’الجماعات الجھادیۃ بین الاعتراف بالخطأ والتراجع عن الثوابت‘ میں جہادی تحریکوں کے بعض اعمال و افعال پر تنقید کی صحت کا اعتراف کیا ہے اور یہ لکھاہے کہ عمل جہاد اور مجاہد میں بہت فرق ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’و المجاھد وارد فی حقہ الصواب و الخطأ...فالمجاھد إذا أخطأ قیل أخطأ و إذا أصاب قیل أصاب... فالجھاد شئ و المجاھد شئ آخر لا یخلط بینھما إلا جاھل ظالم‘۔
’’مجاہد سے صحیح اور غلط، دونوں کام صادر ہو سکتے ہیں۔ اگر وہ غلطی کرے گا تو کہا جائے گا کہ اس نے غلطی کی ہے اور جب درست کام کرے گا تو کہا جائے گا کہ اس نے صحیح کیا ہے۔ جہاد اور چیز ہے اور مجاہد اور چیز۔ ان کو کوئی جاہل اور ظالم ہی گڈمڈ کر سکتا ہے۔‘‘

(۳) اسی طرح لال مسجد کے جہاد کے بارے میں بھی بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث علما کی رائے یہی تھی کہ ان کا مطالبہ درست ہے، لیکن طریقہ کار اور منہج غلط ہے۔مولانا فضل محمد صاحب نے لال مسجد کی تحریک کو ایک اصلاحی تحریک قرار دیا ہے۔اگر وہ صر ف ایک اصلاحی تحریک ہی تھی تو وفاق المدارس العربیہ کے أکابر نے ان کے طریقہ کارپر نقد کیوں کی اور أکابر علمائے دیوبند کی طرف سے غازی برادران کے منہج کی تائید کیوں نہ ہوئی؟ آنٹی شمیم کا اغوا، چلڈرن لائبریری پر قبضہ اور دو پولیس موبائل گاڑیوں اور اہلکاروں کا اغوا وغیرہ ایسے اقدامات تھے جو لال مسجد کی تحریک کو صرف ایک اصلاحی تحریک نہیں رہنے دیتے بلکہ اسے ’خروج‘ کی بحث میں داخل کر دیتے ہیں۔ اصلاحی تحریک تو ’تبلیغی جماعت‘ جیسی ہوتی ہے جو امت کی اصلاح کی خاطرگالیاں اور جوتے کھا لیتے ہیں، لیکن اف تک نہیں کرتے۔ بہر حال لال مسجد کے جہاد کے بارے میں ہمارا موقف وہی ہے جو وفاق المدارس العربیہ اور پاکستان کے جمیع مکاتب فکر کے علما کاتھا یعنی غازی برادران کا مطالبہ درست لیکن طریقہ کاراور منہج غلط تھا۔ ہم یہ بھی وضاحت کرنا چاہیں گے کہ علمائے دیوبند کی طرح ہم بھی لال مسجد کے حکومتی آپریشن کی سخت مذمت کرتے ہیں اور اس کو ظلم و زیادتی اور قتل ناحق قرار دیتے ہوئے قابل قصاص سمجھتے ہیں۔

(۴) شمالی اور جنوبی وزیرستان کے جہاد کے بارے میں ہماری رائے یہ تھی کہ یہ ایک دفاعی جہاد تھا اور حکومت نے امریکہ کی رضامندی کی خاطر قبائلی علاقوں پر چڑھائی کی جس کی وجہ سے وہاں ’دفاعی جہاد‘ کی تحریک کا آغاز ہوا جس نے آہستہ آہستہ ایک ’انتقامی تحریک‘ کی صورت اختیار کر لی۔اس کی تفصیل ہم نے اپنے مضمون میں کسی قدر بیان کر دی ہے اور اگر کسی نے مفصل پڑھنا ہوتو ماہنامہ ’الأحرار‘ میں شائع ہونے والے ہمارے مذکورہ مضمون کا مطالعہ کر سکتا ہے۔ قبائلی علاقوں کا شروع سے یہ معاملہ رہا ہے کہ یہاں حکومت پاکستان کی عملداری (writ)نہ ہونے کے برابر رہی ہے اور یہاں حکومت پاکستان کے قوانین بھی کبھی لاگو نہیں رہے۔ ان قبائلی علاقوں کا جہادصرف اور صرف امریکہ کے خلاف تھا، پس حکومت پاکستان کو ان کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ لیکن جب حکومت نے ابتدا کرتے ہوئے ان علاقوں پر بمباری اور چڑھائی کی تو ’فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل مااعتدی علیکم‘ اور ’إذا أصابھم البغی ھم ینتصرون‘ اور ’فقاتلوا التی تبغی حتی تفیء إلی أمر اللہ‘ کے مصداق ان قبائلیوں کا یہ دفاعی جہا د اور ان کا اپنے اوپر حملہ کرنے والے مقاتل و محارب سیکورٹی فورسز کو قتل کرنا ہمارے نقطہ نظر میں شرعاً بالکل درست تھا۔ اب تک ہمارے علم کی حد تک یہ ایک دفاعی جہاد ہے، اگرچہ پاکستان میں ہونے والے خود کش حملوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ حملے بھی قبائلی علاقوں کے مجاہدین کروارہے ہیں۔ایک دوسری رائے یہ بھی ہے کہ یہ طالبان کے روپ میں را، سی آئی اے اور موسادکے ایجنٹ ہیں جو افواج پاکستان، پولیس، انتظامیہ اور معصوم شہریوں پر اس قسم کے خود کش حملے کرواتے ہیں۔

(۵) اسی طرح سوات کے جہاد کے بارے میں بھی ہماری رائے یہ ہے کہ ’تحریک نفاذ شریعت محمدی‘ اور’ تحریک طالبان سوات‘ کے مطالبات درست ہیں، لیکن ان میں’ تحریک نفاذ شریعت محمدی‘ کا منہج درست ہے جو صوفی محمد کی قیادت میں پرامن طریقے سے اس علاقے میں شریعت کا نفاذ اور حکومتی مظالم سے نجات چاہتے ہیں جبکہ ’طالبان تحریک سوات‘ کے نفاذ شریعت کے طریقہ کار کو ہم درست نہیں سمجھتے۔جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب نے بھی ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے اداریے میں اس رائے کااظہار کیا ہے کہ وہ پاکستان میں نفاذ شریعت کے لیے عسکری منہج و طریقہ کار کو درست نہیں سمجھتے اور نفاذ شریعت کے لیے پرامن جدوجہدپر یقین رکھتے ہیں۔ جناب مولانا زاہد الراشدی فرماتے ہیں:

’’جہاں تک مروجہ عدالتی نظام کی بجائے شرعی نظام عدل کے نفاذ کا تعلق ہے، ہم تحریک نفاذ شریعت محمدی اور تحریک طالبان کے اس موقف اور مطالبے کے ہمیشہ سے حامی رہے ہیں کہ ان کا یہ موقف اور مطالبہ درست ہے، لیکن اس کے لیے تحریک کے طریق کار پر بھی ہمیشہ تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستا ن میں نفاذ شریعت کی جدوجہد کے لیے ہتھیار اٹھانے اور سرکاری فورسز کے ساتھ مسلح مزاحمت کو بھی جائز نہیں سمجھا۔‘‘ (ماہنامہ الشریعہ ، مارچ ۲۰۰۹ء ص ۳)

مولانا صوفی محمد صاحب کی رائے بھی یہی ہے کہ سوات اور مالاکنڈ میں نفاذ شریعت کے لیے پرامن طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے۔یہ واضح رہے کہ ’تحریک نفاذ شریعت محمدی‘ اور ’تحریک طالبان‘ دو مختلف تحریکیں ہیں ۔’تحریک نفاذ شریعت محمدی ‘مولانا صوفی محمدصاحب کی تحریک ہے ۔مولانا صوفی محمد صاحب کسی دور میں نفاذ شریعت کے لیے ’خروج‘ اور ’عسکری منہج‘ کے قائل تھے، لیکن حالات کے ساتھ ساتھ ان پر واضح ہوتا چلا گیا کہ پاکستان میں نفاذ شریعت کے لیے عسکری طریقہ کار سوائے فساد کے اور کچھ نہیں ہے۔ تحریک طالبان سوات کے امیر مولوی فضل اللہ ہیں جو مولانا صوفی محمد کے داماد بھی ہیں اور شروع میں صوفی صاحب کی تحریک کے ایک کارکن بھی تھے۔مولوی فضل اللہ ابھی تک اسی فکر کے قائل ہیں جن سے مولانا صوفی محمد اپنے تجربات کی روشنی میں رجوع کر چکے ہیں۔ مولانا صوفی محمد صاحب کی تحریک ایک پرامن تحریک تھی جو نفاذ شریعت کے لیے احتجاجی سیاست کے طریقہ کار کو اپنائے ہوئے تھی۔ اپنی اس رائے کا اظہار وہ اخبارات میں گاہے گاہے کرتے رہتے تھے اور ان کے عمل سے بھی ان کے اسی منہج کا اظہار ہوتا تھا۔ 

ہم نے سوات کے جہاد کو ایک غلطی کہا تھاکیونکہ ہمارے نزدیک یہ مسلمان حکومت کے خلاف ’خروج‘ ہے۔ ہم اس موقف کے بھی حامی ہیں کہ ہماری موجودہ حکومت ظالم و غاصب ہے اور ہم شرعی دلائل کی روشنی میں یہ بھی رائے رکھتے ہیں کہ ظالم وغاصب حکمرانوں کے خلاف خروج جائز تو کیا واجب ہے، لیکن اس کی کچھ شرائط ہیں اور جن حالات میں یہ خروج ہواہے، ان حالات میں اس سے سوائے فتنہ اور فساد کے کچھ بر آمد نہیں ہوا ہے۔ 

(۶) مولانا فضل محمد صاحب نے بعض جہادی تحریکوں کے اعمال و افعال سے علمی اختلاف رکھنے پر بندہ ناچیز پر تو فتووں کا ایک طویل برسٹ فائر کر دیاہے، لیکن حضرت مولانا کی خدمت میں عرض ہے کہ سوات کے موجودہ جہاد کے بارے میں علما و مذہبی تحریکوں کے بیسیوں موقف ہیں:

  • ۳۰؍اپریل ۲۰۰۹ء کو جامعہ اشرفیہ لاہور میں تحریک نفاذ شریعت محمدی کے حق میں ایک اجلاس کے دوران جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ کے مقامی امیر صاحب نے ضلع بونیر میں داخل ہونے، مزارات کو گرانے اور حجامت پر پابندی لگانے والے طالبان کو ’ظالمان‘ کا نام دیا اور کئی ایک بریلوی اور دیوبندی علما نے ان کی رائے کی تائید بھی فرمائی۔ اس اجلاس میں راقم الحروف بھی شریک تھا۔
  • جامعہ بنوری ٹاؤن میں وفاق المدارس العربیہ کے اجلاس میں أکابر علمائے دیوبند نے سوات کے طالبان کی متشددانہ کارروائیوں کی مذمت کی۔ اس خبر کو روزنامہ’ اسلام‘ نے ۱۸؍ مئی ۲۰۰۹ء کو شائع کیا ہے، اگرچہ خبر میں یہ درج نہیں کہ ان متشددانہ کاروائیوں سے ان علما کی مراد کیا ہے؟ بہرحال اتنی بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ أکابر علمائے دیوبند بھی طالبان مجاہدین کے ہر ہر فعل کو’ جہاد ‘نہیں سمجھتے۔
  • اہل حدیث اور دیوبندی علما کی ایک بڑی جماعت طالبان کے مزارات کو گرانے اورمعصوم شہریوں پر خود کش حملوں کے خلاف ہے اور ان کی ان کارروائیوں کی مذمت کرتی ہے۔بعض اہل حدیث علما کا کہنا یہ ہے کہ جب اسلام میں عیسائیوں کے گرجاگھر، یہودیوں کے کنیسا اور ہندوؤں کے مندر ڈھانے کی اجازت نہیں تو مسلمانوں کے درباروں کو گرانے کا حکم بھی بالأولیٰ نہیں ہے۔ان علما کا کہنا یہ ہے کہ آیت مبارکہ ’ولو لادفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع و بیع و صلوات و مسجد یذکر فیھا اسم اللہ کثیرا‘ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے دربار گرانا جائز نہیں ہے، اگرچہ ان میں ہونے والے شرکیہ افعال کی تقبیح ایک شرعی حکم ہے۔
  • روزنامہ ’اسلام‘ جیسا مذہبی اور دیوبندی اخبار سیکورٹی فورسز کے ساتھ کارروائیوں میں جاں بحق ہونے والے ’طالبان‘ کے لیے ’اتنے عسکریت پسند ہلاک‘ کی شہ سرخیاں شائع کرتا ہے۔ یہ اخبار نہ تو سوات کے طالبان کو’ مجاہد‘ قرار دیتا ہے اور نہ ہی انہیں’ شہید‘ لکھتا ہے۔ بعض اوقات عسکریت پسندوں کی ہلاکت کی خبر میں ’مخبر‘ کا نام ہوتا ہے اور بعض اوقات بغیر مخبر کے نام کے خبر جاری ہوتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف مخبر کی خبر نہیں ہے بلکہ اخبار کے منتظمین کی رائے بھی ہے۔
  • جامعہ نعیمیہ لاہور میں ’مجلس ملی شرعی ‘کے تحت جاری ہونے والے ایک اعلامیہ میں دیوبندی، اہل حدیث اور بریلوی علما نے مزارات کو گرانے اور مذہبی شخصیات کو نقصان پہنچانے کے واقعات کی مذمت کی ہے جس کی رپورٹ ماہنامہ محدث، مئی ۲۰۰۹ (ص ۴۷) میں موجود ہے۔ اس مجلس میں علما نے اس بات کا بھی اقرار کیا کہ طالبان کی تحریک میں شرپسند اور غیر ملکی ایجنٹ بھی موجود ہیں جو دہشت گردی پھیلا رہے ہیں۔
  • ۹؍ مئی ۲۰۰۹ء کے اخبارات کی خبر یہ ہے کہ علماے بریلویہ نے سارے پاکستان میں ’یوم مذمت طالبان‘ منایا۔
  • ملا عمر اور شیخ اسامہ بن لادن تک پاکستانی حکومت کے خلاف ہونے والے طالبان ’جہاد‘ کے حق میں نہیں ہیں۔ مؤرخہ یکم جون ۲۰۰۹ء کو روزنامہ اسلام میں جمعیت علمائے اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن صاحب کا بیان تھا کہ پاکستان میں مسلح جدوجہد ملک اور اسلام دونوں کے حق میں نقصان دہ ہے، لیکن انہوں نے ساتھ ہی حکومتی آپریشن کی بھی مذمت کی۔
  • لاہور میں تبلیغی جماعت کے مرکز’مسجد ابراہیم‘ کے باہر ایک دفعہ راقم الحروف نے ان گناہ گار آنکھوں سے انتظامیہ میں شامل تبلیغی بھائیوں کو دیکھا کہ وہ مسجد سے باہر جہادی اخبار بیچنے والوں کو وہاں سے بھگا رہے تھے۔
  • بعض دیوبندی مصلحین کا کہنا یہ ہے کہ سوات میں اس وقت دو طاغوتوں کی جنگ ہو رہی ہے۔ حکومت پاکستان بڑا طاغوت ہے اور طالبان چھوٹا طاغوت ہیں۔
  • بعض اہل حدیث علما طالبان کی اس مسلح تحریک کو مسلمان حکومت کے خلاف بغاوت سے تعبیر کر رہے ہیں اور خطبات جمعہ میں حکومتی آپریشن کو جائز قرار دیتے ہیں۔
  • مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت صدر زرداری کی اس حکومت میں باقاعدہ شامل ہے جو طالبان کے’ جہاد‘ کو بغاوت کا نام دیتی ہے اور ان پر آتش و بارود کی بارش برساتی ہے۔ اسی طرح مولانافضل الرحمن اور ان کی جماعت سے وابستہ علما کا طالبان کے خلاف زرداری حکومت کی کارروائیوں کے باوجود حکومتی عہدوں اور اسمبلیوں کی ممبری سے استعفا نہ دینا حضرت کی نظر میں کیا گستاخی شمار نہیں ہوتا؟ کیا جمعیت علمائے اسلام کے علما صرف اس وجہ سے حضرت کے فتاویٰ و القابات سے محروم ہیں کہ وہ علماے دیوبند کے حلقہ سے تعلق رکھتے ہیں؟
  • بعض دیوبندی علماء ’مذبذبین بین ذلک‘ کی کیفیت میں ہیں اور طالبان یا حکومت، کسی کے حق میں بھی کسی رائے کا اظہار نہیں کر رہے۔ ان کے بارے میں پنجابی طالبان کا کہنا یہ ہے کہ یہ اپنے دارالعلوموں کی مسندوں اور گدیوں کو بچانے کی فکر میں ہیں۔ جبکہ بعض دیوبندی علما آپریشن کی تو مخالفت کرتے ہیں اور طالبان کے ساتھ مصالحت پر زور دیتے ہیں، لیکن طالبان کے منہج کی حمایت نہیں کر رہے ہیں جیسا کہ وفاق المدارس العربیہ کا بھی یہی موقف ہے۔
  • ۲۸؍ مئی ۲۰۰۹ء کو جامعہ منظور الإسلامیہ لاہور میں ہونے والی علماء کانفرنس جماعۃ الدعوۃ کے مرکزی رہنما أمیر حمزہ صاحب نے کہا کہ وہ افغانستان کے طالبان کے تو حق میں ہیں، لیکن پاکستان میں حکومت پاکستان کے ساتھ لڑنے والے طالبان کے حق میں نہیں ہیں۔ بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث علماء نے اس مجلس میں اس بات کا بھی اقرار کیا کہ طالبان کی صفوں میں شر پسند اور را کے ایجنٹ موجود ہیں جو مجاہدین نہیں، دہشت گرد ہیں۔ اس خبر کو روزنامہ ’اسلام‘ نے جاری کیا ہے۔ 
  • جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی جیسی مذہبی جماعتیں بھی طالبان کے خلاف حکومتی آپریشن کی مذمت میں تو مظاہرے اور دھرنے دیتی نظر آتی ہیں، لیکن ان کے منہج و طریقہ کار کی تائید نہیں کر رہی ہیں۔ ۳۱؍ مئی ۲۰۰۹ء کو قرآن آڈیٹوریم لاہور میں ہونے والے اجلاس میں جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر فرید پراچہ نے مولانا مودودی ؒ کے اقوال کی روشنی میں جماعت کا یہ منہج بیان کیا کہ جماعت، پاکستان میں نفاذ شریعت کے لیے کسی بھی قسم کی مسلح بغاوت یا عسکری طریقہ کار کو درست نہیں سمجھتی۔
  • سوات کے مذہبی عوام کی اکثریت نہ اس وقت حکومت کی حمایت کرتی ہے اور نہ ہی طالبان کے حق میں ہے۔ ہاں صوفی محمد کی تحریک کو سوات کے عوام کی اکثریت کا اعتماد ضرور حاصل ہے۔ سوات کے علاقے سے تعلق رکھنے والے جتنے بھی افراد سے ہماری ملاقات ہوئی ہے، ان سب کا کہنا یہی ہے کہ ہم کسی کی بھی حمایت نہیں کرتے ہیں۔
  • جتنے معروف مذہبی کالم نگار ہیں، مثلاً عرفان صدیقی، ڈاکٹر شاہد مسعود اور حامد میر وغیرہ، سب حکومت پر بھی تنقید کرتے ہیں اور طالبان کے نظریہ اسلام اور طریقہ کار سے بھی بیسیوں اختلافات رکھتے ہیں۔ عرفان صدیقی سوات میں افواج پاکستان کی کامیابی کی دعائیں مانگتے رہے ہیں۔ حامد میر کا کہنا ہے کہ باجوڑ امریکی حملے میں مولوی فضل اللہ کے بھائی شہید ہو گئے تھے اور مولوی فضل اللہ کا جہاد اپنی بھائی کی شہادت کا ردعمل ہے۔
  • ماہنامہ الشریعہ کے مارچ ۲۰۰۹ء اور ماہنامہ محدث کے مئی ۲۰۰۹ء کے اداریوں میں سوات کے طالبان کے منہج کو غلط قرار دیا گیا ہے۔ پہلا رسالہ معتدل دیوبند ی حلقہ اثر کا نمائندہے جبکہ دوسرا رسالہ متوازن اہل حدیث طبقہ فکر کا رہنما ہے۔ اہل حدیث کی جماعت ’جماعۃ السنۃ پاکستان‘نے بھی اپنے ہفت روزہ اخبار ’حدیبیہ‘ میں طالبان کے منہج کو غلط قرار دیتے ہوئے ان کو ہزاروں افراد کے قتل کا سبب قرار دیا ہے۔
  • بعض اہل حدیث اور دیوبندی علماء کاکہنا یہ ہے کہ سوات میں مزارات کو گرانے، لوگوں سے بھتہ وصول کرنے ، لاشوں کو قبروں سے نکال کر درختوں پر لٹکانے،اغوا برائے تاوان اورذبح کرنے جیسے واقعات وقوع پذیر تو ہوئے ہیں لیکن ایسے کام طالبان کے روپ میں را‘ سی آئی اے اور موساد کے ایجنٹ کر رہے ہیں یاپھر وہ چور اور ڈاکو یہ سب کام کر رہے ہیں جو طالبان کی صف میں شامل ہو گئے ہیں۔ ۳۱؍ مئی ۲۰۰۹ء کو قرآن آڈیٹوریم لاہور میں ہونے والے ایک اجلاس میں تنظیم اسلامی کے بانی جناب ڈاکٹر اسرار أحمد اور معروف اہل حدیث عالم دین مولانا عبد الرحمن مدنی صاحب نے یہی موقف بیان کیا۔
  • سوات کے بعض مقامی علما بھی طالبان کے منہج کے حق میں نہیں ہیں۔مثلاً سوات’چار باغ‘ کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک معتبر دیوبندی عالم دین مولانا مقصود عالم نے طالبان کے منہج پر شدید نقد کیا۔ اسی طرح مولوی فضل اللہ کے استاذ مولانا بلگرامی نے بھی مولوی فضل اللہ کے طریقہ کار پر شدید نکتہ چینی کی جس کے جواب میں مولوی فضل اللہ نے ان کو کہاکہ میں نے شیر کی دم پکڑ رکھی ہے، اگر اسے چھوڑ دوں گا تو وہ مجھے کھا جائے گا۔ اسی طرح مولانا صوفی محمد نے بھی مولوی فضل اللہ کے ہتھیار اٹھانے پر کڑی تنقید کی ہے اور اسے اپنی تحریک سے خارج بھی کر دیاہے۔
  • بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت سوات و گرد و نواح میں جو بھی متشددانہ کارروائیاں ہوئی ہیں، وہ را کے ایجنٹوں اور چور ڈاکوؤں کی نہیں بلکہ’ طالبان تحریک پاکستان‘ ہی کی کاروائیاں ہیں اور ان کاروائیوں کی یہ تحریک ذمہ داری بھی قبول کرتی ہے، جیسا کہ بی بی سی سے ایک انٹرو یو کے دوران طالبان تحریک کے ترجمان نے لاہور کے حالیہ خود کش حملوں کی ذمہ داری اٹھائی ہے۔ سوات سے تعلق رکھنے والے بعض مذہبی افراد کا نقطہ نظر یہی ہے۔ان حضرات کا کہنا یہ ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ متشددانہ کارروائیاں طالبان کی نہیں ہیں، ان کے اس تجزیے کی بنیاد نہ تو مشاہدہ ہے اور نہ ہی خبر، بلکہ محض ظن و تخمین ہے اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ ذاتی ظن و تخمین اور قیاس کے مقابلے میں خبر کو ترجیح ہوتی ہے، چاہے وہ خبر واحد ہی کیوں نہ ہو۔ سوات سے تعلق رکھنے والے ایک ثقہ صاحب نے اپنے ایک عزیز طالب سے نقل کیا ہے کہ ان کے وہ عزیز ’طالب‘ اس وقت مولوی فضل اللہ کی مجلس میں موجود تھے جب انہوں نے اپنے خلاف بولنے والے دیوبندی عالم دین مولانا مقصود عالم کو قتل کرنے کا پروانہ جاری کیا۔ ان عالم دین کو بعد میں شہید بھی کر دیا گیا۔ یہ لوگ کئی ایک مقامی طالبان کمانڈروں کے حوالے سے یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ انہیں یہ حکم ہے کہ جو بھی جہاد یعنی ہمارے خلاف بولے، اس کو ذبح کر دو۔ ان لوگوں کا کہنا یہ بھی ہے کہ یہاں پنجاب میں کئی ایک مذہبی جماعتوں اور خاص طور پریونیورسٹیوں میں مختلف مکاتب فکرسے تعلق رکھنے والے ایسے نوجوان جہادی عناصر موجود ہیں جو طالبان کے فکر سے شدید متاثر ہیں اور وہ ان سب کاروائیوں کودرست قرار دیتے ہیں اور ان کی توجیہات بھی ان کے پاس موجود ہیں اوران نوجوانوں کے نظریات جان کر معلوم ہوتا ہے کہ طالبان تو اپنی انتہا پسندی میں ابھی ان سے بہت پیچھے ہیں۔ یہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ طالبان تحریک کی طر ف سے جو بھی سمعی وبصری اور تحریری لٹریچر عام کیا جا رہا ہے، اس کو پڑھ کر بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ طالبان کس قدر متشددانہ اور انتہا پسند افکار کے حامل ہیں۔ ہمیں بھی گمنام ایڈریس سے ایسا لٹریچر گاہے بگاہے موصول ہوتا رہتا ہے۔ ان حضرات کی دلیل یہ بھی ہے کہ کبھی طالبان کی طرف سے اس بات کی تردید موصول نہیں ہوئی کہ ہم نے مزار نہیں گرائے یا ہم بھتہ وصول نہیں کرتے یا ہم لوگوں کو ذبح نہیں کرتے یا اپنے مخالف علما کواپنے خلاف بولنے پر قتل کی دھمکیاں جاری نہیں کرتے، جبکہ بی بی سی پر بھی طالبان کے بیانات مسلسل آ رہے ہیں اور ان کا ایف ایم ریڈیو بھی تاحال کام کر رہا ہے۔ ان تجزیہ نگاروں کا کہنا یہ بھی ہے کہ اگر یہ بات درست ہے کہ یہ کام مولوی فضل اللہ کی اجازت سے نہیں ہوئے تو پھریہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جو شخص چار ہزار افراد کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اس سے یہ امید رکھنا کہ وہ مالاکنڈ کے پچاس لاکھ عوام کا بوجھ سنبھال سکتا ہے، عبث و بے کار ہے۔ ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ مولوی فضل اللہ کے استاذ مولانا بلگرامی اور مولانا صوفی محمد دونوں حضرات مولوی فضل اللہ کے طریقہ کار سے نہ صرف اختلاف کرتے ہیں بلکہ اس پر کڑی نکتہ چینی بھی کرتے ہیں جیسا کہ مولانا صوفی محمد کے بیانات اس مسئلے میں اخبارات کی زینت بنتے رہے ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا یہ بھی ہے کہ کئی ایک نوجوان علمائے دین کو طالبان کے خلاف بات کرنے پرقتل کی دھمکیاں جاری کی گئیں اور متعلقہ علاقوں کے لوگ اس کے گواہ ہیں۔دی نیوز میں تحریک شریعت محمدی کے ترجمان مولانا عزت خان کا انٹرویو شائع ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ وہ طالبان کے بارے میں مزید کوئی بیان دے کر ان سے دشمنی مول نہیں لینا چاہتے۔
  • بعض تجزیہ نگاروں کاکہنا یہ بھی ہے کہ فوج ایسا کرنا چاہے تو اس کے لیے مولوی فضل اللہ کوختم کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور سوات کاموجودہ آپریشن سیکورٹی فورسز اور ایجنسیوں کا ڈرامہ ہے۔ فوج نے خود ہی مولوی فضل اللہ کی تحریک کو پروان چڑھایا اور آپریشن کے حالات پیدا کیے۔ اس آپریشن سے فوج نے کئی ایک مقاصد حاصل کیے ہیں۔ پہلا مقصد تو یہ تھا کہ امریکہ کو یہ باور کرایا جائے کہ ہم اپنے علاقوں میں خود ہی آپریشن کر رہے ہیں لہٰذا تمہیں یہاں آنے یا ڈرون حملے کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ دوسرا مقصدیہ تھا کہ اس بہانے امریکہ سے کوئی ایڈاوانس ٹیکنالوجی مثلاً أواکس طیارے وغیرہ حاصل کر لی جائے۔ تیسرا مقصد یہ تھا کہ پاکستان کی گرتی معیشت کو عالمی امداد کے ذریعے کچھ سہارا مل جائے۔ ان لوگوں کا کہنا یہ بھی ہے کہ بیت اللہ محسود کی طرح فوج مولوی فضل اللہ کو بھی ایک ہیر وکے طور پر باقی رکھنا چاہتی ہے تاکہ امریکہ سے ملنے والی امداد کا سلسلہ جاری رہے۔ان لوگوں نے یہ بھی نکتہ اٹھایا ہے کہ پلاننگ کے بغیر آپریشن کرنے کے پیچھے یہی مقصد کارفرما تھا کہ بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہو تاکہ پاکستان کو ساری دنیا کی ہمدردیاں اور مالی امدادحاصل ہو اور افواج پاکستان کا یہ آپریشن ایک ایسا ہی ڈرامہ ہے جیسا کہ امریکہ نے خود ہی ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کروا کر مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کی ایک عالمی تحریک چلانے کا فیصلہ کیاتھا۔

یہ تمام آرا اور تجزیے بیان کرنے سے مقصود صرف یہ ہے کہ علما اور أصحاب علم و فضل معاصرجہاد کے بارے میں کئی نقطہ ہاے نظر کے حامل ہیں۔ جب مذہبی تحریکیں، دیوبندی جماعتیں، مصلحین، مفکرین اور مختلف مکاتب فکر کے علما اتنی ساری آرا رکھتے ہیں تو ایک رائے کا اظہار اگر حافظ زبیر نے بھی کر دیا تو کیا قیامت آگئی ہے کہ اسے راندۂ درگار اور ملحد قرار دے دیا جائے۔ تحریک نفاذ شریعت محمدی کی موافقت کرنے والے علما تو بہت ہیں لیکن پاکستانی طالبان کے منہج اور طریقہ کار سے اتفاق کرنے والے علما نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اور ہمیں صوفی صاحب کی نفاذ شریعت کے لیے تاحال پر امن تحریک اور طریقہ کار سے اتفا ق ہے۔سوات کے طالبان کی موجودہ تحریک سے سراسر فائدہ امریکہ کو پہنچ رہا ہے۔امریکہ بدمعاش نے افغانستان میں لڑنے والے طالبان کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کر دیا ہے۔اس طرح اس نے ایک تیر سے دو شکار کیے ہیں۔اپنی جان بھی بچائی ہے اور پاکستان کو بھی کمزور کیا ہے۔

(۷) جہاں تک خود کش حملوں کے ’جہاد‘ کامعاملہ ہے تو یہ حملے سیکورٹی فورسز پر بھی ہوتے ہیں اور عام شہریوں پر بھی۔ عام شہریوں پر بھی اس قسم کے حملوں کو بہت سے لوگ’ جہاد‘ کا نام دیتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مروجہ سینما بینی ایک گناہ کبیرہ ہے لیکن گناہ کبیرہ کا مرتکب ’اہل سنت ‘کے نزدیک کافر نہیں ہوتا کہ اس کا خون مباح الدم ہو جائے۔ یہ خوارج اور معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ گناہ کبیرہ کا مرتب اسلام سے خارج ہو جاتاہے۔پس اہل سنت کے نزدیک گناہ کبیرہ کے مرتکب مسلمانوں کاقتل عام ’جہاد‘ نہیں’فساد فی الأرض‘ ہے اورا ہل علم کی رائے میں ایسا قتل عام کرنے والے قرآن کی آیت ’من قتل نفسا بغیر نفس أو فساد فی الأرض فکأنما قتل الناس جمیعاً‘کے مصداق پوری نوع انسانی کے قاتل ہیں اور ’ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤہ جھنم خالدا فیھاوغضب اللہ علیہ و لعنہ و أعدلہ عذابا عظیما‘ کے مصداق ملعون‘ مغضوب علیہ اور جہنمی ہیں۔ پاکستان کے جمیع مکاتب فکر کے علماء میں سے کوئی ایک عالم دین بھی ایسا نہیں ہے جو شہریوں پر اس قسم کے خود کش حملوں کو ’جہاد ‘قرار دیتا ہو۔اسی قسم کے حملے بعض اوقات مساجد اور بعض اوقات پرامن عوامی مقامات(public places) پر ہوتے ہیں کہ جس میں اگر دو چار پولیس یا سیکورٹی فورسز والے مرتے ہیں تو کئی ایک معصوم شہری بھی جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ ہمارے نزدیک ایسے خودکش حملے جن میں معصوم شہری شہید ہوں ’جہاد‘ نہیں ہیں۔ملا عمر اور شیخ اسامہ بن لادن تک پاکستانی علاقوں میں ایسی کاروائیوں کو جائز قرار نہیں دیتے۔ہمارے ناقد و ممدوح حضرت مولانا فضل محمد صاحب نے بھی اس مسئلے میں ہماری حمایت کی ہے کہ ایسے خود کش حملے درست نہیں ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:

’’ہاں پاکستانی علاقوں میں یا مساجد اور امام باڑوں میں یا پبلک مقامات میں اس طرح خود کش حملوں کو ہم جائز نہیں سمجھتے۔‘‘(ماہنامہ الشریعہ مئی و جون‘ ص ۱۳۷)

ہم مولانا فضل محمدصاحب سے سوال کرتے ہیں کہ یہاں آپ کی دینی حمیت اور غیر ت کو کیا ہو گیاہے؟حا فظ زبیر نے تو ایک علمی رائے کا اظہار کیا تھا اور آپ نے اسے راندہ درگار، ملحد اور ظالم تک قرار دے دیا اور یہاں جہاد کے نام پر معصوم شہریوں کو شہید کیاجا رہا ہے اور آپ اس کو بس’ناجائز‘ کہہ کر گزر جاتے ہیں۔ کیوں نہیں کہتے کہ ایسے خود کش حملہ آور ’مردار‘ ہیں اور یہ ’جہاد‘ نہیں ’فساد فی الأرض‘ ہے۔ مولانا! یہاں آپ نے یہ فتویٰ کیوں نہ جاری کیا کہ اگر طالبان یہ کام کر رہے ہیں تو وہ طالبان نہیں ’ظالمان‘ ہیں۔حافظ زبیر مسلمانوں کا قتل عام تو نہیں کر رہا، اس نے تو علمی اختلاف کیا تھا۔ یہ تو صریحاً قتل عام ہے۔ مولانا! کم از کم اس فعل کو حرام ہی کہہ دیتے۔ جب ایک خود کش حملہ آور کو معلوم ہے کہ اس کے حملے سے پولیس اور سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ عام شہری بھی شہید ہوں گے تو کیا اب بھی یہ قتل عمد نہیں ہے؟ کیا بیسیوں معصوم شہریوں کے ایسے قاتل پر کوئی شرعی حکم لگانے سے پہلے کا سو بچوں کے قاتل ’جاوید‘ کی طرح نفسیاتی تجزیہ شروع کر دیں گے کہ اس کا یہ قتل عام کن عوامل کا در عمل ہے؟ 

ألمیہ تو یہ ہے کہ اس قسم کے خود کش حملے بھی’ جہاد‘ کے نام سے ہورہے ہیں اور ان خود کش حملہ آوروں کی ویڈیوز،سی ڈیزاور نیٹ پر ویڈیو کلپس(clips) بھی دستیاب ہیں۔ یہ خود کش حملہ آور قرآنی آیات پڑھتے ہوئے خود کش حملے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں۔یعنی یہ خود کش حملہ آور اپنے ہر ہر حملے کو عین ’جہاد فی سبیل اللہ‘ سمجھتے ہیں لیکن مولانا فضل محمد صاحب فرماتے ہیں کہ ان خود کش حملہ آوروں کے بعض حملے شرعاً جائز نہیں ہیں۔پس معلوم یہ ہوا کہ کسی مجاہد کے صرف سمجھنے سے اس کا ہر فعل ’جہاد‘ نہیں بن جاتا، بلکہ اس کے افعال کا قرآن و سنت کی نصوص کی روشنی میں جائزہ لیا جائے گا اور پھر اس پر ’جہاد‘ کا حکم لگایا جائے گا۔ ہم مولانا سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ جب آپ کسی مجاہد کے ہر اقدام کو ’جہاد ‘قرار نہیں دیتے بلکہ مجاہدین کے افعال کی تنقیح کرتے ہیں تو یہی کام جب ہم نے کیا تو آپ نے ہمارے اوپر فتووں کی بوچھاڑ کر دی۔ 

اوپر کی بحث سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی ہے کہ معاصر جہاد کے بارے میں کوئی مجمل رائے دینے کی بجائے خود مجاہدین، اہل علم، علماء و فقہاء اوربندہ ناچیز کے ناقدین مولانا عبد المالک طاہر صاحب اور مولانا فضل محمد صاحب مسئلے کو نکھارتے ہیں اور معاصر مجاہدین کے بعض افعال کو’ جہاد‘ قرار دیتے ہیں اور بعض کو شرعاً ناجائز کہتے ہیں۔ یہ حضرات مجاہدین کی بعض کاروائیوں کے حق میں ہیں اور بعض کے خلاف اور یہی کام جب ہم نے کیا تو مولانا کے معتوب ٹھہرے۔

(۸) مجاہدین کی طرح اہل علم حضرات بھی مختلف جہادی تحریکوں کے حوالے سے مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔جب اسامہ بن لادن اور بعض دوسرے جہادی فکر رکھنے والے علماء نے سعودی عرب کے شاہوں پر تنقید کرنا شروع کی اور ان کے خلاف خروج کو واجب قرار دیا تو سعودیہ کے کبار اہل علم نے اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں پر کڑی تنقید کی۔ سعودی علماء کا کہنا یہ تھا کہ شاہی خاندان اور حکمرانوں میں فسق و فجور اور ظلم و زیادتی ہے لیکن ان کے خلاف خروج سے پیدا ہونے والے مفاسد اس سے بڑھ کر ہیں جو ان کی امارت و حکومت کی صورت میں فی الحال موجود ہیں۔ سعودی عرب کے مفتی اعظم اور مجتہد العصر امام بن باز رحمہ اللہ تعالی نے اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کے ان افکار پر کڑی تنقیدیں کیں۔امام بن باز رحمہ اللہ تعالی شیخ اسامہ بن لادن کو ان کے انتہاء پسندانہ افکار سے رجوع کی دعوت دیتے ہوئے نصیحت فرماتے ہیں:

’’ونصیحتی للمسعری والفقیہ وابن لادن وجمیع من یسلک سبیلھم أن یدعوا ھذا الطریق الوخیم وأن یتقوا اللہ ویحذروا نقمتہ وغضبہ وأن یعودوا إلی رشدھم وأن یتوبوا إلی اللہ مما سلف منھم واللہ سبحانہ وتعالی وعد عبادہ التائبین بقبول توبتھم و الإحسان إلیھم۔‘‘ (مجموع فتاوی و مقالات متنوعۃ: ص ۱۰۰)
’’مسعری‘ فقیہ اور اسامہ بن لادن اور جوشخص بھی ان کے رستے کو اختیار کرے‘ کو میری نصیحت یہ ہے کہ وہ اس گندے رستے کو چھوڑ دیں اور اللہ سے ڈریں اور اللہ کے انتقام اور غضب سے بچیں اور رشد و ہدایت کی طرف لوٹ آئیں اور جوکچھ ہو چکا، اس سے اللہ کی جناب میں توبہ کریں کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے بندوں کی توبہ قبول کرنے اور ان کے ساتھ احسان کا وعدہ فرمایا ہے۔‘‘

ایک اور جگہ شیخ الإمام فرماتے ہیں:

’’أن أسامۃ بن لادن من المفسدین فی الأرض‘ و یتحری طریق الشر الفاسدۃ‘‘۔ (جریدۃ المسلمون والشرق الأوسط‘ ۹ جمادی الأولی ۱۴۱۷ھ)
’’اسامہ بن لادن زمین میں فساد پھیلانے والوں میں سے ہے اور شر و فساد کے برے طریقے پر گامزن ہے۔‘‘

علامہ بن باز مجتہد العصر ہیں۔اور صرف میں انہیں مجتہد نہیں کہتا، عرب و عجم کے علماء ان کو مجتہد مانتے ہیں۔کروڑوں مسلمان ان کے فتاوی پر عمل کرتے ہیں اور ان کے متبع ہیں۔ہمیں امام بن بازؒ کے اس فتوی سے اتفاق ہے یا نہیں؟ہم یہاں یہ بات نہیں کر رہیں۔بحث تو یہ ہو رہی ہے کہ معاصر جہاد کے بارے میں خود مجاہدین بھی اور أصحاب علم و فضل بھی ایک آزادانہ رائے اور سوچ رکھتے ہیں لہذا ایسا معاملہ نہیں ہے کہ دنیا کے جس خطے میں بھی جہاد ہو رہا ہے ‘ علماء اور مجاہدین اندھے بہرے ہو کر اس کی تائید شروع کر دیں‘بلکہ وہ تحقیق کی روشنی میں ہی کسی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ان کی رائے درست ہی ہو ‘ ان سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے ۔لیکن اگر کوئی شخص ان کی نیت اور خلوص پر ہی شبہ کرنا شروع کر دے تو یہ بہر حال زیادتی اور کج روی ہے۔أئمہ اہل سنت شیخ بن باز ؒ ‘ شیخ صالح العثیمینؒ ‘ شیخ صالح الفوزان اور علامہ ألبانی ؒ وغیرہ جیسے کبار اور مجتہد علماء کی مروجہ جہاد کے بارے میں علمی رائے سے دلائل کی بنیاد پر علمی اختلاف رکھنے اور بیان کرنے کا حق تو ہر کسی کو حاصل ہے لیکن ان کے اس موقف کی وجہ سے ان أئمہ اہل سنت کو شخصی و ذاتی طعن و تشنیع کا موضوع بنانا ‘ ایک غیر اخلاقی اور غیر شرعی حرکت ہے۔ علاوہ ازیں محدث العصرشیخ ناصر الدین البانی، فقیہ الزمان امام محمد بن صالح العثیمین اور علامہ شیخ صالح الفوزان رحمہم اللہ أجمعین وغیرہ جیسے جلیل القدر علماء کی آراء بھی درج ذیل ویب سائٹ پر ملاحظہ کی جا سکتی ہیں: http://www.asliahlesunnet.com 

(۹) مولانا فضل محمد صاحب سے ہمیں یہ بھی شکایت ہے کہ انہوں نے ’وما کان المؤمنون لینفروا کافۃ فلو لا نفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقھوا فی الدین‘ کی آیت کا سہارا لیتے ہوئے اپنے آپ کو اور اپنے مکتبہ فکر کے علماء کو جہاد و قتال سے مستثنیٰ قرار دیا، حالانکہ ’طائفۃ‘ جمع کا صیغہ ہے اور تین سے جمع شروع ہو جاتی ہے۔ پس مولانا کے نقطہ نظر کے مطابق جامعہ بنوری ٹاؤن کے تین اساتذہ کے علاوہ بقیہ پر تو جہاد فرض عین ہو جاتا ہے ۔اس وقت پاکستان میں دیوبند کے تقریباً ساڑھے بارہ ہزار مدارس ہیں کہ جن میں تقریباً ۳۰ لاکھ طالب علم زیر تعلیم ہیں اور ہزاروں اساتذہ پڑھا رہے ہیں۔

مولانا نے سوات کے جہاد کے بارے میں اپنی کسی رائے کا اظہار کرنے سے قصداً گریز کیاہے۔اگر تو وہ اس جہاد کے حق میں ہیں تو انہیں کتمان علم سے کام نہیں لینا چاہیے تھے اور اگر وہ اس کے خلاف ہیں تو انہیں مصلحت کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ مولانا سوات کے جہاد کے بارے میں قارئین شریعہ کو شرعی رہنمائی ضرور فراہم کریں گے۔ لیکن یہ شکوہ ہم مولانا ضرور کریں گے کہ جن مولانا مودودی اور ڈاکٹر اسرار أحمد کو آپ نے استہزاء و تضحیک کا نشانہ بنایا ہے، آج انہی دو حضرات کی تحریکیں مجاہدین سوات کے خلاف حکومتی آپریشن کی مذمت میں پیش پیش ہیں۔آئے روز ان دونوں تحریکوں کی طرف سے حکومت پاکستان کے آپریشن بند کرنے کے بارے میں مظاہرے ، دھرنے اور سیمینارز ہوتے رہتے ہیں جن کو مولانا نشستن برخاستن سے تعبیر کرتے ہیں۔مولانا! آپ اور آپ کے مکتبہ فکرکے علماءء و طلبہ کو تو اللہ تعالی نے مجاہدین کے حق میں اس قدر نشستن اور برخاستن کی بھی توفیق نہیں دی ہے۔واقعہ یہ ہے کہ اگر دیوبندی مدارس کے ہزاروں علمائے دین اور لاکھوں طلبہ صرف نشستن و برخاستن ہی کر لیا کرتے تو آج سوات اور مالاکنڈ میں فوجی آپریشن کی نوبت نہ آتی۔ہمارے یہ علماء ہمیشہ اس وقت حرکت کرتے ہیں جب پانی سروں سے گزر جاتا ہے۔یہ علماء اگر پاکستان میں نفاذ شریعت کے لیے پر امن احتجاج اور نشستن و برخاستن کا طریقہ کار أپناتے تو آج حالات بہت مختلف ہوتے۔ حضرت مولانا فضل محمد صاحب! ڈاکٹر اسرار أحمد صاحب تو آپ کے بقول صرف نشستن و برخاستن فرما رہے ہیں، لیکن حضرت اگر آپ کو کوئی شخص یہ کہے کہ آپ اور آپ کے حلقہ فکر کے علماء کی مثال تو’زمین جنبد نہ جنبد گل محمد‘ والی ہے تو آپ یقیناًاس پر ناراض ہوں گے۔بندہ ناچیز دوبارہ یہ گزارش کرتا ہے کہ علمائے دیوبند کو وقت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے ایک پرامن آئینی، قانونی اور احتجاجی تحریک کی بنیاد رکھنی چاہیے اور یہی احتجاجی تحریک معاصر جہاد کے حوالے سے ان متشددانہ پالیسیوں اور کاروائیوں کو صحیح منہج اور رخ دے سکتی ہے جن پر یہ علماء حضرات گاہے بگاہے اپنے خیالات کا اظہار فرماتے رہتے ہیں۔

(۱۰) جہاد کشمیر کے بارے میں ہماری رائے بالکل واضح ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اسی صورت حل ہو گا جب پاکستانی حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کرے گی۔أصحاب علم و فضل کی رائے یہ ہے کہ پاکستانی حکومت اور ایجنسیاں کشمیر میں جہادی تحریکوں کو اپنا آلہ کار بنا کر اپنے مقاصد پورا کرتی ہیں اور جہادی تحریکوں اور مجاہدین کشمیر کے مقاصد سے انہیں کوئی غرض نہیں ہے۔اور یہی رائے’ طالبان تحریک پاکستان‘ کی بھی ہے جو گاہے بگاہے کشمیری جہادی تحریکوں اور ایجنسیوں کے باہمی تعلقات پر شدید نقد کرتے رہتے ہیں۔ پس مقبوضہ کشمیر کے باشندوں کو اپنی آزادی کے لیے پر امن سیاسی و آئینی جدو جہد جاری رکھنی چاہیے جیسا کہ وہاں تقریباً ۲۶ کشمیری تحریکیں اس جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ہم اس پرامن سیاسی جدوجہد کی حمایت کرتے ہیں اور بھارت کو ایک ظالم اور غاصب ملک سمجھتے ہیں۔ بعض مذہبی رہنماؤں کا کہنا یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلے میں حکومت پاکستان کو سیاسی سطح پر انڈیا کی حکومت سے کسی معاہدے کے ذریعے کوئی معاملہ طے کرلینا چاہیے ۔تنظیم اسلامی کے بانی ڈاکٹر اسرار أحمد سالہا سال سے اسی موقف کو بیان کرتے چلے آئے ہیں۔ہمارے نزدیک یہ بھی مسئلے کا ایک حل ہے اور ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ کشمیری جہادی تحریکوں کے ذریعے انڈیا کی سیکورٹی فورسرز کو کوئی محدود جانی و مالی نقصان تو پہنچایا جا سکتا ہے لیکن اگر اس مسئلے کو بزور بازو ہی حل کرنا ہے تو وہ صرف ریاست پاکستان کے براہ راست جہاد ہی سے ہو سکتا ہے۔اور جب تک پاکستان میں شریعت نافذ نہیں ہوتی اس وقت تک کشمیر کو آزاد کروا کر پاکستان سے اس کے الحاق کے لیے ہونے والے اس جہاد کو اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ہونے والا’جہاد فی سبیل اللہ‘ قرار دینا ایک زیادتی اور خلاف واقعہ أمرہے۔کشمیر کا موجودہ جہاد بھی ’جہاد ‘ ہے لیکن جہاد آزادی ہے۔

علماے دیوبند کی خدمت میں دردمندانہ گزارش

پاکستانی حکومت کی تکفیر، ان کے خلاف خروج اور خود کش حملوں کی تحریک اصلاً دیوبندی تحریک ہے۔ ہمارے محترم و معزز دیوبندی علماء حکمرانوں کی تکفیر یا ان کے خلاف خروج کے بارے میں تو کسی مثبت یا منفی فتوی کے اظہار سے خاموش ہیں، جبکہ فروعی مسائل مثلاً طلاق ثلاثہ وغیرہ کے بارے میں باقاعدہ فوٹو کاپی فتووں کے انبار ہر دارالعلوم کے دار الافتاء میں ہر وقت موجود رہتے ہیں۔اس مسئلہ تکفیر اور خروج کی وجہ سے ۲۵ لاکھ افراد بے گھر ہو گئے۔ ہزاروں مسلمان شہید ہوئے اور ہزاروں زخمی ہیں۔ لاکھوں افراد کھانے اور پینے کی بنیادی سہولیات سے محروم ہو گئے۔ مائیں بچوں سے محروم ہوگئیں۔ ہنستے مسکراتے شہر بے آباد ہوگئے۔ معصوم شہریوں کے گھر بار اور أموال تباہ ہو گئے۔ عالم اسلام تو کیا، عالم کفر بھی اس کو دنیا کا ایک عظیم ترین سانحہ قرار دے رہاہے۔کیا اب بھی یہ مسئلہ اس قابل نہیں ہے کہ ہمارے علماء اس کے بارے میں کسی اجتماعی علمی رائے کا اظہار کریں؟ کیا مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ اور تصویر کا مسئلہ سوات و مالاکنڈ کے مسئلے سے زیادہ اہم تھا کہ اس کے بارے میں تو علماء کی طرف سے فتوے بھی آ گئے اور کتابیں بھی لکھی گئیں، لیکن اس قدر عظیم سانحے پر ایسی خاموشی کیوں؟تحریک طالبان کی طرف سے مسلمان حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے وجوب پر اس قدر لٹریچر، ویڈیوز اور آڈیوز موجود ہیں جس کا کوئی شمار نہیں ہے اور یہی لٹریچر ہے جو اس وقت مسلمانوں کے مابین باہمی جنگ و جدال کی علمی بنیادہے۔ ’طالبان تحریک پاکستان‘ کا موقف موجودہ حکمرانوں اور سیکورٹی فورسزکے بارے میں بالکل دو ٹوک ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمارے موجودہ حکمران اور سیکورٹی فورسز فلاں فلاں أسباب کی بنیاد پر کافر ہیں اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں، ان کے خلاف خروج ہر حال میں واجب اور ان کا قتل عام جائز ہے۔

ہماری رائے یہ ہے کہ اگر علمائے دیوبند کو واقعتاً ان دو مسائل میں طالبان سے اتفا ق ہے توا نہیں طالبان کے منہج کی صریحاًتائید کرنی چاہیے اورحکومت کے خلاف خروج کا اجتماعی فتویٰ جاری کرنا چاہیے تاکہ اگردیوبندی نوجوان یہ جہاد کررہا ہے تو علیٰ وجہ البصیرۃ کرے اور یہ کہہ سکے کہ جن کا میں مقلد ہوں وہ سب اس جہاد کے ’جہاد‘ ہونے پر متفق ہیں اور یہ مفتیان کرام دیوبندی عوام کو سیکورٹی فورسزکے خلاف کھڑا کر کے اس ملک کو صحیح معنوں میں’میدان کربلا‘ بنا دیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ علمائے دیوبند موجودہ حکمرانوں کے اعمال کو تو کفریہ قرار دیتے ہیں لیکن ان کی تکفیر نہیں کرتے اور ان کے خلاف خروج کو شرعاً یا مصلحتاً جائز نہیں سمجھتے تو اس صورت میں علماء کی خاموشی کوکتمان علم کے سوا کیا نام دیا جائے؟ کیا انہیں یہ خوف لاحق ہے کہ اگر انہوں نے طالبان کے خلاف کوئی اجتماعی فتویٰ جاری کیا تو سوات(چار باغ) کے دیوبندی عالم دین مولانا مقصود عالم کی طرح انہیں بھی بے دردی سے شہید کر دیا جائے گا یا طالبان ان کے دارالعلوموں پر خود کش حملے کریں گے یا ان کے بیوی بچوں کو اغواء کرنے کی دھمکیاں جاری کریں گے؟ 

سوات کی تحریک دیوبندی مجاہدین کی تحریک ہے۔علمائے دیوبند نے دیوبندی نوجوان کی رہنمائی کیوں نہ کی؟یہ ایک بنیادی سوال ہے۔اسلامی بینکاری کی طرح سوات کے خروج اور جہاد کے حق یا مخالفت میں کسی دارلعلوم یا جامعہ سے کوئی کتاب شائع کیوں نہیں ہوئی؟ حکومت پاکستان اور سیکورٹی فورسز اپنی کاروائیوں کو ’راہِ حق‘ اور جہاد کا نام دے رہی ہیں۔ ایک عام فوجی جوان’ طالبان‘ کو باغی سمجھتے ہوئے ان کے خلاف لڑ رہا ہے اور اپنے تئیں شہادت کے مرتبے پر فائز ہو رہا ہے۔ یہی معاملہ طالبان کا بھی ہے۔علمائے دیوبند کو واضح کرنا چاہیے کہ ان میں سے کون حق پر ہے اور کون باطل ہے؟ کون شہید ہے اور کون مردار ہے؟تاکہ ایک فوجی جوان یا دیوبندی’ طالب ‘کو اطمینان ہو کہ میں جو اپنے مسلمان بھائی کو قتل کر رہا ہو تو اس قتل کے جواز میں میرے پاس فتویٰ موجود ہے۔مسلمان مسلمان کو قتل کر رہا ہے، ساری قوم تباہی کے دہانے تک پہنچی ہوئی ہے اور علمائے حق خاموش تماشائی بنیں رہیں، یہ ممکن نہیں ہے۔اگر سوات میں فوجی آپریشن کامیاب ہو بھی جائے تو پھر بھی تحریک طالبان کی فدائی اور گوریلا کاروائیاں تو جاری رہیں گی لہٰذا اس فتویٰ کی ضرورت باقی رہتی ہے۔مسلمان حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کا مسئلہ اب نہ ختم ہونے والے مسلح تصادم کے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے کہ جس کی شرعی حیثیت علماء کو واضح کرنی ہو گی۔

آراء و افکار

(نومبر و دسمبر ۲۰۰۹ء)

نومبر و دسمبر ۲۰۰۹ء

جلد ۲۰ ۔ شمارہ ۱۱ و ۱۲

مذہبی طبقات، دہشت گردی اور طالبان ۔ ایک سوالنامہ کے جوابات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اسلامی یونیورسٹی دہشت گردی کا نشانہ کیوں بنی؟
محمد مشتاق احمد

آزادی کی پر تشدد تحریکیں: سبق سیکھنے کی ضرورت
ڈاکٹر عبد القدیر خان

جہاد کی فرضیت اور اس کا اختیار ۔ چند غلط فہمیاں
محمد عمار خان ناصر

موجودہ پر تشدد تحریکیں اور دیوبندی فکر و مزاج
مولانا مفتی محمد زاہد

معاصر مجاہدین کے معترضین سے استفسارات
محمد زاہد صدیق مغل

حدیث غزوۃ الہند اور مسئلہ کشمیر پر اس کا انطباق
مولانا محمد وارث مظہری

مولانا فضل محمد کے جواب میں
حافظ محمد زبیر

مکاتیب
ادارہ

’’دینی مدارس کا نظام بین الاقوامی تناظر میں‘‘
ادارہ

امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی یاد میں ’’الشریعہ‘‘ کی خصوصی اشاعت کی تقریب رونمائی
ادارہ

الشریعہ کی خصوصی اشاعت کے بارے میں تاثرات
ادارہ

’’دینی تعلیم اور عصری تقاضے‘‘ کے عنوان پر سیمینار
ادارہ

انا للہ وانا الیہ راجعون
ادارہ

تعارف و تبصرہ
ادارہ

تلاش

Flag Counter