’’وفاق المدارس‘‘ کا تبصرہ ۔ چند معروضات

محمد عمار خان ناصر

ماہنامہ ’’وفاق المدارس‘‘ کے حالیہ شمارے میں ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کی ادارتی پالیسی اور ہماری کی کتاب ’’حدود و تعزیرات۔ چند اہم مباحث‘‘ کے حوالے سے جو تبصرہ شائع ہوا ہے، اگرچہ وہ ایک Polemical نوعیت کی تحریر ہے جس میں سنجیدہ استدلال کا عنصر مفقود اور تحکم اور الزام طرازی کا رنگ نمایاں ہے، تاہم اس سے بعض اہم سوالات کے بارے میں عمومی سطح پر غور وفکر کا ایک موقع پیدا ہوا ہے اور چونکہ ہمارے ہاں کسی مسئلے کی طرف توجہ اور اس پر بحث ومباحثہ کی فضا بالعموم اس طرح کی کسی تحریک کے نتیجے ہی وجود میں آتی ہے، اس لیے تبصرہ نگار کا محرک اور مقصد اس تبصرے سے جو بھی ہو، بعض اختلافی امور کو زیر بحث لانے اور ان پر غور وفکر کا داعیہ بیدار کرنے کے حوالے سے ہم اس کو مثبت نظر ہی سے دیکھتے ہیں۔ آئندہ سطور میں ہم اختصار کے ساتھ اس ضمن کے بعض اہم پہلووں کے حوالے سے اپنی معروضات پیش کریں گے۔

اکابر کا طرز اور ’الشریعہ‘ کی پالیسی 

تبصرہ نگار نے لکھا ہے کہ ’’الشریعہ کی فائلیں دیکھ کر ہمیں انتہائی دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ مولانا زاہد الراشدی صاحب اس پلیٹ فارم پر اپنے اکابر کی راہ مستقیم سے الگ ہو رہے ہیں۔ ‘‘ یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ اکابر کے ’’طرز فکر‘‘ سے مراد اور اس سے وابستگی کا معیار کیا ہے، اور یہ بحث دلچسپی کا باعث ہوتی اگر تبصرہ نگار یہ بتا سکتے کہ ان کے پاس وہ کون سا ریاضیاتی فارمولا کیا ہے جو دو اور دو چار کی طرح یہ بتا سکے گا کہ کون سا فرد یا گروہ اکابر کی راہ پر گامزن ہے اور کون اس سے منحرف ہو گیا ہے! اس ضمن میں ’’الشریعہ‘‘ کے گزشتہ شمارے میں شائع ہونے والے ایک خط میں فاضل مکتوب نگار نے بجا طور پر یہ سوالات اٹھائے ہیں کہ

  • اکابر کے مزاج ومنہج سے کیا مراد ہے اور اس کی تشریح وتوضیح کی اتھارٹی موجودہ زمانہ میں کن حضرات کو اور کس خصوصی امتیاز کی بنیاد پر حاصل ہے؟
  • اگر اکابر کے طرز ومزاج میں فرق یا اختلاف موجود ہے تو کوئی کسی طرز کو اختیار کرنا انحراف کے زمرے میں آئے گا؟
  • اکابر کے طرز ومزاج پر کاربند رہنے کی حدود کیا ہیں؟

ہم سمجھتے ہیں کہ اکابر دیوبند کے طرز اور مزاج کو ریاضیاتی قاعدوں کے انداز میں متعین کرنے کا کام نہ صرف ان اکابر کے ساتھ زیادتی ہے بلکہ عملاً بھی ایک لاحاصل مشق ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اکابر دیوبند کے ہاں علمی وفکری رجحانات میں جو تنوع، مزاجوں میں جو اختلاف اور حکمت عملی میں جو تعدد پایا جاتا ہے، اس کی بدولت ان کے طرز فکر اور ان کے ساتھ نسبت کی عملی تعبیر میں بھی تنوع اور رنگا رنگی پائی جاتی ہے۔ یہاں دیکھنے والے کو انگریز کے خلاف جہاد میں مولانا گنگوہی اوران کے موافقین کا سرگرم کردار اور مولانا تھانوی او رمولانا خلیل احمد سہارنپوری کا موقف، تقسیم ہند کے مسئلے پر جمعیت علماے ہند کا مسلک اور اس کے مقابلے میں جمعیت علماے اسلام کی سیاسی جدوجہد، ارباب خانقاہ کی ’’رہبانیت‘‘ اور تنظیم فکر ولی اللہی کی انقلابیت، جمہور کی آرا سے بے لچک وابستگی کا رویہ اور مولانا نانوتوی، مولانا تھانوی، علامہ کشمیری اور مولانا سندھی وغیرہ کی منفرد آرا*، فقہی ومسلکی معاملات میں دارالعلوم کراچی کا توسع واعتدال اور خیر المدارس کی حنفی عصبیت، ٹھیٹھ مسلکی حلقوں کی بے لچک ترجیحات اور مولانا فضل الرحمن کا لبرل انداز سیاست، مولانا غلام اللہ خان کا ’’وہابیت‘‘ کو چھوتا ہوا جذبہ توحید اور جامعہ اشرفیہ کا بریلویانہ تصوف، صحابہ کے اختلافات کی عام تعبیر اور اس سے ہٹ کر ’’خارجیت ویزیدیت‘‘ کا طریقہ، قادیانیوں کے بارے میں جمہور علما کا طرز عمل اور اس کے برعکس مولانا سندھیؒ اور مولانا عبد الماجد دریابادیؒ کا نقطہ نظر، مجلس تحفظ ختم نبوت اور متحدہ مجلس عمل کی وسیع المشربی اور سپاہ صحابہ کی متشددانہ جذباتیت، ’’المہند‘‘ کی تعبیرات اور بعض حضرات کے اس سے مبینہ ’’انحرافات‘‘، مولانا مودودی کے بارے میں ارباب فتویٰ کے فتوے اور مولانا طارق جمیل کی وسعت قلبی، اسلامی نظام معیشت سے متعلق روایتی علما کے ’’سرمایہ دارانہ‘‘ خیالات اور مولانا محمد طاسینؒ کی ’’سوشلسٹ‘‘ فقہی تعبیرات، اسلامی بینکاری کے حوالے سے اکابر علما کا کتابی فقہ پر مبنی ’’متفقہ فتویٰ‘‘ اور عملی مسائل ومشکلات کی روشنی میں مولانا تقی عثمانی کے اجتہادات، تبلیغی جماعت کا احیاے اسلام کے لیے دعوت واصلاح کو کلید سمجھنے کا زاویہ نگاہ اور جہادی عناصر کے ریڈیکل رجحانات، ’’وفاق المدارس‘‘ کا بحث ومباحثہ کی آزادی پر چیں بہ جبیں ہونا اور ’’الشریعہ‘‘ کا اس طریقے کو علیٰ وجہ البصیرت فروغ دینا یہ سب رویے یکساں دیکھنے کو ملتے ہیں اور یہ سب رجحانات اپنے تمام تر اختلاف اور تضاد کے باوجود وسیع تر مفہوم میں دیوبندی حلقہ فکر ہی کا حصہ ہیں۔ 

دیوبندی فکر اور مزاج کا اصل حسن یہی وسعت اور تنوع ہے۔ یہی اس کی وہ خصوصیت ہے جو معاشرے کے ذہین، جذبہ عمل سے سرشار اور متنوع رجحانات رکھنے والے عناصر کو اپنی طرف کھینچتی اور اس طرح اسے دوسرے محدود اور فرقہ وارانہ اہداف رکھنے والے گروہوں سے ممتاز کرتی ہے۔ اس فکر کو کسی عقائد نامے کی شقوں کے طریقے پر متعین کرنے اور اس کی بنیاد پر اکابر کی ’’راہ مستقیم‘‘ پر قائم رہنے یا اس سے الگ ہونے کا کوئی معیار وضع کرنے کی کوشش کی جائے گی تو نتیجہ اس سے مختلف نہیں ہوگا جو چار اندھوں کے، ہاتھی کی جسمانی ساخت کو متعین کرنے کی کوشش سے نکلا تھا۔ جو عناصر دیوبندی مزاج کو اس کی کلیت میں قبول کرنے کے بجائے اس پر اپنی اپنی ذہنی محدودیتوں کی چھاپ کو غالب دیکھنا چاہتے ہیں، وہ یقیناًایسی کوششیں کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے، لیکن انھیں سمجھنا چاہیے کہ اس طرح وہ درحقیقت ایک نادان دوست کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

* مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات برزخی کی نوعیت وکیفیت اور ختم نبوت زمانی ومکانی کے فرق کے ضمن میں مولانا نانوتوی، عورت کی حکمرانی کے جواز کے بارے میں مولانا تھانوی، سیدنا مسیح کے رفع آسمانی سے پہلے انھیں وفات دیے جانے سے متعلق مولانا بدر عالم میرٹھی، نزول مسیح کے ضمن میں مولانا سندھی، اور بہت سے نصوص اور مسائل کی تعبیر کے ضمن میں علامہ انور شاہ کشمیری کی آرا۔ ایک معروف عالم دین نے ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم کے بعض تفردات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو والد گرامی نے انھیں لکھا کہ: ’’تفردات‘‘ خود ہمارے معرو ف بزرگوں میں سے کس کے نہیں رہے؟ اگر کوئی صاحب صرف انھی کو جمع کرنے اور ان پر نقد کرنے میں لگ جائیں تو زندگی بھر کسی اور کام کے لیے انھیں فرصت نہیں ملے گی۔ .... ہم اپنے حلقے کو محدود سے محدود تر کرتے چلے جا رہے ہیں اور ایک علمی وفکری جدوجہد کو ہم نے ’’پیر خانوں‘‘ میں بانٹ دیا ہے۔‘‘ (عصر حاضر میں اجتہاد، ص ۳۲۸)

وفاق المدارس کے تبصرہ نگار نے اپنی قیادت کو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ ’’مولانازاہدالراشدی صاحب وفاق کی ’’مجلس عاملہ‘‘ کے رکن ہیں، لہٰذا وہ حضرات انہیں فکری کج روی سے روکیں، اکابر دیوبند کے طرز فکر پر رہنے کی تلقین کریں اور اس کی پاسداری کا ان کو پابند بنائیں۔‘‘ یہ ایک نہایت مضحکہ خیز بات ہے، اس لیے کہ وفاق المدارس اپنی ذمہ داریوں کی نوعیت کے لحاظ سے بنیادی طور پر ایک انتظامی ادارہ ہے جس کا مینڈیٹ اور دائرۂ اختیار اکابر دیوبند کے ساتھ وابستگی کے فکری معیارات طے کرنا اور مفروضہ علمی وفکری کج رویوں کو روکنے کے لیے watchdog کا کردار ادا کرنا نہیں، بلکہ دیوبندی فکر سے وابستہ سمجھے جانے والے مدارس کے لیے نصاب تعلیم وضع کرنا اور ان کے امتحانی نظام کو کنٹرول کرنا ہے۔ وفاق کے دستور کے مطابق اس کا دائرہ کار ’’خالص تعلیمی‘‘ ہے اور وفاق کی تاریخ میں دیوبندی حلقے کی معروف شخصیات یا مختلف فکری رجحانات کے بارے میں ’’حکم‘‘ بن کر فیصلہ کرنے کی کوئی نظیر موجودنہیں، بلکہ اس طرح کے مختلف اور مخالف رجحانات رکھنے والے عناصر خود وفاق کے نظام سے وابستہ ہیں۔ مثال کے طور پر دیوبندی حلقے میں جس شخصیت کے افکار غالباً سب سے زیادہ متنازعہ سمجھے جاتے ہیں، وہ مولانا عبید اللہ سندھیؒ ہیں، لیکن یہ معلوم ہے کہ انھیں متجددین اور گمراہوں میں شمار کرنے والے اور انھیں ان کی آرا کا دفاع اور توجیہ کرنے والے دونوں طبقے وفاق کے نظام کا حصہ ہیں۔ حلقہ دیوبند میں ایک پورا مکتب فکر ایسا موجود ہے جو عالم برزخ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کی نوعیت اور کیفیت کے بارے میں علماے دیوبند کی عمومی راے سے اتفاق نہیں رکھتا اور دیوبندی عقائد ونظریات کے بارے میں اکابر علماے دیوبند کی مرتب کردہ ’’المہند علی المفند‘‘ کو دیوبندی فکر کی مستند تعبیر نہیں مانتا۔ اس کے باوجود اس مکتب فکر سے وابستہ مدارس وفاق المدارس کے نظام کا حصہ ہیں، ان کے نمائندگان وفاق کی مجالس کے رکن ہیں اور ہر سال ان مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کو وفاق کی طرف سے سندیں جاری کی جا تی ہیں۔ اسلامی بینکاری کے موجودہ نظام کو اکابر کے شروع کردہ کام پر مبنی اور اس کا تسلسل قرار دے کر اس کا دفاع کرنے والے مولانا محمد تقی عثمانی بھی وفاق کے بزرگوں میں شمار ہوتے ہیں اور اس سارے سسٹم کو سودی حیلوں کا مرقع قرار دے کر اسے ’’حرام‘‘ کہنے اور اس کے خلاف ’’متفقہ فتویٰ‘‘ جاری کرنے والے حضرات بھی اسی وفاق کا جزو لاینفک سمجھے جاتے ہیں۔ جمعیت علماے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن کا موقف اور طرز عمل خاتون کی حکمرانی کے حوالے سے معلوم ومعروف ہے۔ ۸۷ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے پہلی مرتبہ وزیر اعظم بننے کے بعد جب پورے ملک کے علما نے ان کے اس منصب پر فائز ہونے کے خلاف قرآن وسنت اور اجماع امت کی روشنی میں متفقہ فتاویٰ جاری کیے تو مولانا ان فتووں کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے نہ صرف ان کی حکومت میں شریک ہوئے بلکہ مخالف علما کے موقف پر یہ تبصرہ بھی کیا کہ اس مسئلے پر ان کی سوئی خواہ مخواہ اٹک گئی ہے۔ محترمہ کے دوسرے دور حکومت میں بھی مولانا کا طرز عمل یہی رہا۔ اس کے باوصف وفاق کی طرف سے آج تک انھیں ’’سمجھانے‘‘ کی کوشش نہیں کی گئی اور وہ اس وقت سے لے کر آج تک وفاق کے بڑوں میں شمار ہوتے تھے۔ اب اگر تبصرہ نگار وفاق کو ’’شوراے نگہبان‘‘ کی صورت میں متحرک دیکھنا چاہیے یا اس سے ویٹی کن کے کردار کی توقع رکھتے ہیں تو انھیں اس سوال کا جواب دینا چاہیے تھا کہ آخر ان کے سامنے وہ کون سا معیار ہے جس کی روشنی میں ارباب وفاق، اکابر کے طرز سے وابستگی اور انحراف کا فیصلہ کریں گے، اور یہ کہ اگر ان کے ذہن نے ایسا کوئی معیار اختراع کیا ہوا ہے تو کیا وفاق ایک اجتماعی ادارے کی حیثیت سے اس کا متحمل ہے کہ اس کا اطلاق بے لاگ طریقے سے ہر فرد اور گروہ پر کر سکے؟

جامعہ حفصہ کے سانحہ کے موقع پر وفاق کی قیادت نے کوئی عوامی تحریک چلانے کی ذمہ داری قبول کرنے سے اس بنیاد پر انکار کر دیا تھا کہ یہ کام وفاق کے دائرۂ عمل سے باہر کی چیز ہے اور اس کے لیے ملک کی ان دیگر مذہبی وسیاسی تنظیموں کو آگے بڑھنا چاہیے جو اس مقصد کے لیے قائم کی گئی ہیں۔ اس تناظر میں ہم سمجھتے ہیں کہ تبصرہ نگار کو، وفاق کو علمی وفکری بحثوں کے محاکمہ کی ذمہ داری اپنے سر لینے کا مشورہ دیتے ہوئے وفاق کے دائرۂ اختیار پر اور اس سے تجاوز کے مضمرات، اثرات اور نتائج پر اچھی طرح غور کر لینا چاہیے تھا۔

’’حدود وتعزیرات۔ چند اہم مباحث‘‘

آب آئیے’’حدود وتعزیرات‘‘ کے حوالے سے ہماری آرا پر ’’وفاق المدارس‘‘ کے تبصرے کی طرف۔ تبصرہ نگار نے لکھا ہے کہ ہم نے جن مسائل کو موضوع بنایا ہے، وہ ’’مسلمہ اجماعی مسائل ہیں، اجتہادی نہیں ہیں۔‘‘ مزید یہ کہ ہماری کتاب میں ’’مغرب واہل استشراق کی طرف سے اسلامی حدودپر کیے گئے اعتراضات کو عملی جامہ پہنانے، انہیں اسلامی احکام کالبادہ اوڑھانے اور پوری فقہ اسلامی کو مشکوک بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘ تبصرہ نگار نے اس ضمن میں ارتداد کی سزا اور عورت کی نصف دیت جیسے معاملات کا بطو رمثال ذکر کیا ہے۔ 

ہمارے نزدیک یہ تنقید علما اور مذہبی طبقے کی اسی ’’بے خبری‘‘ کا ایک نمونہ ہے جس کا شکوہ والد گرامی نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ ’’ہمارے ہاں یہ روایت سی بن گئی ہے کہ ہم کسی اجتماعی مسئلے پر دینی اور شرعی حوالے سے ایک قدم اٹھا لیتے ہیں، فیصلہ کر لیتے ہیں، لیکن اس پر آزادانہ علمی بحث نہ ہونے کی وجہ سے اس فیصلے کی علمی توجیہ سامنے نہیں آتی اور دلائل کا پہلو اوجھل رہتا ہے جس سے کنفیوژن پیدا ہوتی ہے اور فیصلہ ہو جانے اور اس پر عمل درآمد ہو جانے کے باوجود علمی دنیا میں وہ فیصلہ بدستور معلق رہتا ہے۔‘‘ والد گرامی نے اس ضمن میں دور حاضر کی جنگوں میں اسیران جنگ کے لونڈی غلام نہ بنائے جانے اور جمہوریت کے حوالے سے کیے جانے والے اجتہادات کا ذکر کیاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نوعیت کی مثالیں بے شمار ہیں جن میں دنیا کے حالات میں پیدا ہونے والے عملی تغیرات کے نتیجے میں امت مسلمہ کی اجتماعی بصیرت نے بے شمار مسائل میں اجتہادی زاویہ نگاہ اپنایا اور کلاسیکی فقہی آرا سے مختلف ایسی آرا اختیار کی ہیں جو نئے حالات اور تقاضوں سے زیادہ ہم آہنگ ہیں۔ خود پاکستان میں دستوری اور قانونی اسلامائزیشن کے عمل میں، جسے مستند اہل علم کا عمومی اعتماد حاصل ہے، محدود نظری اور فقہی اصولوں کی پابندی کرنے کے بجاے حالات اور ضروریات کے وسیع تر تناظر میں براہ راست ’’اجتہاد مطلق‘‘ کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں بہت سے مسائل میں ائمہ اربعہ کے بجاے دوسرے فقہا کی راے کو قانون سازی کی بنیاد بنایا گیا ہے، بعض امور میں اب تک شاذ اور ناقابل اعتنا سمجھی جانے والی آرا پر مدار رکھا گیا ہے جبکہ متعدد مسائل میں فقہا کے اجماع تک کو نظر انداز کرتے ہوئے درپیش صورت حال کا حل نکالا گیا ہے۔ 

یہ تصور کرنا درست نہیں ہوگا کہ ماضی کی متفقہ یا قبول عام حاصل کر لینے والی فقہی آرا سے اختلاف کرنے کا طریقہ دور حاضر ہی میں اختیار کیا گیا ہے، اس لیے اس کا امکان ہے کہ اس زاویہ نگاہ کے پیچھے مستند علمی اور فقہی اصولوں کے بجاے محض حالات کا دباؤ یا جدیدیت کے اثرات کارفرما ہوں۔ یہ مفروضہ اس لیے درست نہیں کہ نئے حالات اورنئے سوالات کے تناظر میں ماضی کی متفق علیہ علمی وفقہی تعبیرات سے اختلاف کی مثالیں ماضی میں بھی ملتی ہیں اور نہ صرف اہل علم نے اپنی انفرادی آرا میں یہ طریقہ اختیار کیا ہے بلکہ اجتماعی سطح پر کیے جانے والے اجتہادات میں بھی اس کی بے حد واضح نظیریں موجود ہیں۔ یہاں ہم اس ضمن کی اہم مثالوں کا مختصراً ذکر کریں گے:

۱۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ارشاد منقول ہے کہ ’ان ہذا الامر فی قریش‘ یعنی حکمرانی کا منصب قریش میں رہے گا۔ (بخاری، رقم ۶۶۰۶) کلاسیکی علمی روایت کے مطابق یہ حدیث قیامت تک کے لیے ایک شرعی حکم کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کی خلاف ورزی جائز نہیں۔ یہ مسئلہ اہل سنت اور خوارج ومعتزلہ کے مابین پیدا ہونے والی کلامی بحثوں میں ایک بڑے نزاع کا عنوان بنا رہا ۔ خوارج وغیرہ غیر قریشی کے خلیفہ بننے کے جواز کے قائل تھے، جبکہ اہل سنت کا بنیادی استدلال یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی بنیاد پر اس مسئلے پر امت کا عملی ’اجماع‘ منعقد ہو چکا ہے۔ احکام سلطانیہ، شروح حدیث اور علم کلام کی کتابوں میں اسے ایک اجماعی مسئلے ہی کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے، حتیٰ کہ جب عربوں کے اس منصب کے لیے عملی اعتبار سے نا اہل ہونے کے تناظر میں اہل سنت کے بعض اہل علم مثلاً قاضی ابوبکر الباقلانی وغیرہ نے ضرورتاً اس شرط کو ساقط کرنے کی راے پیش کی تو اسے بھی خلاف اجماع قرار دے کر اس پر تنقید کی گئی۔ (دیکھیے مقدمہ ابن خلدون، ۱/۹۹) تاہم جب قریش کی خلافت کا عملاً خاتمہ ہو گیا تو متاخرین کو ازسرنو ان احادیث کا جائزہ لینے کی ضرورت محسوس ہوئی اور ابن حجر وغیرہ نے روایات کے داخلی قرائن کی روشنی میں یہ راے پیش کی کہ قریش کے لیے بیان کیا جانے والا یہ استحقاق مطلق نہیں بلکہ اہلیت اور عدل وانصاف کے ساتھ مشروط تھا اور ان کا طویل عرصے تک اس منصب پر فائز رہنا اور پھر اس سے محروم کر دیا جانا اس شرط کے عین مطابق ہے۔ (فتح الباری، ۲۰/۱۵۵) بعد میں اسی تعبیر کو علمی سطح پر قبول عام حاصل ہوا اور اسی کی روشنی میں ترکوں کے استحقاق خلافت پر کوئی شرعی سوال اٹھائے بغیر اسے پوری طرح قبول کیا گیا۔ والد گرامی نے اسی تناظر میں پہلے دور کے فقہی اجماع سے استدلال پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ خلیفہ کے قریشی ہونے پر امت کا اجماع ہو گیا تھا۔ یہ بات درست ہے، لیکن خلافت بنو عباس کے خاتمہ کے بعد ترکوں کے آل عثمان کو ان کے قریشی نہ ہونے کے باوجود بطور خلیفۃ المسلمین قبول کر کے پوری امت نے خلیفہ کے لیے قریشی کی شرط ضروری نہ ہونے پر بھی اجماع کر لیا تھا جو صدیوں قائم رہا اور امت کا بہت بڑا حصہ، جن میں محدثین، فقہا، متکلمین اور ہر طبقہ کے علماے امت شامل ہیں، آل عثمان کے ترک خاندان کے خلفا کو خلیفۃ المسلمین تسلیم کرتے رہے ہیں اور ان کے نام کا خطبہ پڑھتے رہے ہیں، حتیٰ کہ مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور بیت المقدس بھی ان کی خلافت کا حصہ رہے ہیں اور ان مقامات مقدسہ میں صدیوں تک ترکوں کی خلافت کو تسلیم کیا جاتا رہا ہے، اس لیے اگر ایک دور میں خلیفہ کے لیے قریشی ہونے کی شرط پر اجماع تھا بھی تو امت کے دوسرے اجماع کے بعد اس شرط کی وہ حیثیت قائم نہیں رہی۔‘‘ (روزنامہ اوصاف، ۶؍ اپریل ۲۰۰۰)

۲۔ کلاسیکی فقہا، اہل ذمہ کے حقوق واختیارات سے متعلق بعض جزوی اختلافات سے قطع نظر، اصولی طور پر اس بات پر متفق ہیں کہ غیر مسلموں کے ساتھ اسلامی ریاست کے تعلق کی آئیڈیل صورت عقد ذمہ ہی ہے جس میں ان پر جزیہ کی ادائیگی اور دیگر شرائط کی پابندی لازم ہو اور وہ کفر و اسلام کے اعتقادی تناظر میں اہل اسلام کے محکوم اور ان کے مقابلے میں ذلیل اور پست ہو کر رہیں۔ فقہا کے نزدیک یہ اصول تمام غیر مسلموں پر لاگو ہوتا ہے، خواہ وہ جنگ کے نتیجے میں مفتوح ہوئے ہوں یا صلح کے کسی معاہدے کے تحت مسلمانوں کے زیرنگیں آئے ہوں یا دار الحرب کی شہریت سے دستبردار ہو کر دار الاسلام میں قیام پذیر ہونا چاہتے ہوں۔ تاہم برصغیر کی مسلم حکومتوں میں عام طور پر اس فقہی اجماع پر عمل کو ضروری نہیں سمجھا گیا۔ اسی طرح سلطنت عثمانیہ کے آخری دور میں ’جزیہ‘ کے پرانے قانون کو، جو غیر مسلموں کے دوسرے درجے کے شہری ہونے کے لیے ایک علامت کی حیثیت رکھتا تھا، ختم کر کے اس کی جگہ ’’بدل عسکری‘‘ کے نام سے ایک متبادل ٹیکس نافذ کیا گیا جو اقلیتوں کی مساوی شہری حیثیت کے جدید جمہوری تصورات کے مطابق تھا۔ بیسویں صدی میں یورپی نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد مسلمانوں کی جو قومی ریاستیں وجود میں آئیں، ان میں سے کسی میں بھی، چاہے وہ مذہبی ریاستیں ہوں یا سیکولر، غیر مسلموں کو ’اہل ذمہ‘ کی قانونی حیثیت نہیں دی گئی۔ ان میں سعودی عرب، ایران، اور طالبان کی ٹھیٹھ مذہبی حکومتیں بھی شامل ہیں۔ پاکستان میں بھی، جہاں اسلام مملکت کا سرکاری مذہب اور قانون سازی کا اعلیٰ ترین ماخذ ہے، غیر مسلموں کو ’اہل ذمہ‘ قرار نہیں دیا گیا اور نہ اہل علم کی جانب سے اس کا مطالبہ ہی کبھی سامنے آیا ہے۔ 

۳۔ یہی معاملہ غیر مسلموں کی گواہی کی قانونی حیثیت کا ہے۔ فقہا کا اس پر ’اجماع‘ ہے کہ بعض استثنائی صورتوں کے علاوہ عمومی طور پر مسلمانوں کے خلاف غیر مسلموں کی گواہی قابل قبول نہیں۔ اسی طرح فقہا کا یہ متفقہ موقف ہے کہ اسلامی ریاست میں مسلمانوں کے نزاعات کے تصفیے کے لیے قضا کے منصب پر کوئی غیرمسلم فائز نہیں ہو سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی غیر مسلم کی شہادت مسلمان کے خلاف قبول کرنے یا اس کے فیصلے کو ان پر نافذ کرنے سے غیر مسلموں کی بالادستی قبول کرنا لازم آتا ہے جو کہ درست نہیں۔ تاہم جدید جمہوری تصورات کے زیر اثر خلافت عثمانیہ کے آخری دور میں عدالتی وقانونی ضوابط کے حوالے سے مرتب کیے جانے والے ’’مجلۃ الاحکام العدلیہ‘‘ میں نہ صرف گواہ کے مطلوبہ اوصاف میں سے مسلمان ہونے کی شرط حذف کر دی گئی ہے بلکہ قاضی کے مطلوبہ اوصاف کے ضمن میں بھی، کلاسیکی فقہی موقف کے برعکس، اس کے مسلمان ہونے کی شرط کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ اسی بنیاد پر بہت سے مسلم ممالک میں غیر مسلموں کو منصب قضا پر فائز کرنے کا طریقہ اختیار کر لیا گیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی دستوری طور پر صدر اور وزیر اعظم کے لیے تو مسلمان ہونے کی شرط موجود ہے، لیکن کسی دوسرے منصب کے لیے ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ غیر مسلم ججوں کا اعلیٰ ترین مناصب پر تقرر عملاً بھی قبول کیا گیا ہے اور کم از کم ایک قانونی ایشو کے طور پر یہ مسئلہ کبھی نہیں اٹھایا گیا۔ خود ملک کے جید ترین اہل علم نے قیام پاکستان کے فوراً بعد دستور کی اسلامی تدوین کے لیے جو ۲۲ دستوری نکات تجویز کیے، نہ ان میں قضا کے منصب کے لیے مسلمان ہونے کی شرط کا ذکرکیا گیا ہے اور نہ ۷۳ء کے دستور میں شامل کی جانے والی اسلامی دفعات اس قسم کی کوئی شرط عائد کرتی ہیں۔ جید علما کے مشورے سے مرتب کیے جانے والے ’حدود آرڈی نینسز‘ اور ’قانون شہادت‘ حدود سے متعلق مقدمات میں تو گواہ اور قاضی کے مسلمان ہونے کی شرط عائد کرتے ہیں، لیکن عام معاملات میں ایسی کسی پابندی کا ذکر نہیں کرتے۔

۴۔ اس کی ایک اور مثال جنگ کے نتیجے میں حاصل ہونے والے مال غنیمت کی تقسیم کے مسئلے میں ملتی ہے۔ فقہا، عہد نبوی وعہد صحابہ کے تعامل کے تناظر میں اس کا شرعی ضابطہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اس کا پانچواں حصہ بیت المال کے لیے نکال کر باقی مال جنگ میں شریک ہونے والے مجاہدین کے مابین تقسیم کر دیا جائے۔ فقہی روایت کے تسلسل میں لکھی جانے والی کتابوں میں آج بھی یہی بات لکھی جاتی ہے، لیکن جہاں تک مسلم حکومتوں کے طرز عمل کا تعلق ہے تو حکومت وریاست کے نظم میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں مال غنیمت کو فوجیوں میں تقسیم کرنے کا طریقہ عرصہ دراز سے متروک ہو چکا ہے اور اس کی جگہ سارا مال ریاست کی ملکیت کے طور پر قومی خزانے میں جمع کرنے کا ضابطہ اختیار کیا جا چکا ہے۔ اب اگر کوئی صاحب اس نئے انتظام کو کتابوں میں درج فقہی اجماع کے خلاف دیکھ کر غیر شرعی قرار دینا چاہیں تو یقیناًانھیں یہ راے رکھنے کا حق ہے، لیکن ہمارے علم کے مطابق کسی مستند فقیہ نے ایسا نہیں کہا، اس لیے کہ، جیسا کہ ہم نے واضح کیا، کلاسیکی فقہا کا مال غنیمت کی تقسیم کے طریقے کو شرعی طریقہ قرار دینا اس دور کے قانونی رواج اور تعامل کے پیش نظر تھا نہ کہ شریعت کی کسی ایسی مطلق اور ابدی تعبیر کے تحت جو قیامت تک کے تمدنی حالات کو سامنے رکھ کر کی گئی ہو۔

۵۔ خواتین کے منصب قضا پر فائز ہونے سے متعلق روایتی فقہی موقف سے اختلاف بھی اس سلسلے کی ایک اہم مثال ہے۔ جمہور فقہا کسی بھی معاملے میں خاتون کے قاضی بننے کے جواز کے قائل نہیں۔ احناف نکاح وطلاق اور دوسرے معاملات میں تو اس کی گنجایش مانتے ہیں کہ اگر عورت کو قاضی مقرر کیا جائے تو اس کے فیصلے نافذ سمجھے جائیں گے، لیکن حدود وقصاص کے مقدمات میں ان کا نقطہ نظر بھی جمہور کی راے کے مطابق یہی ہے کہ عورت قضا کی اہل نہیں اور اس کا فیصلہ نافذ نہیں ہوگا۔ اس ضمن میں معروف فقہا میں سے صرف امام ابن جریر طبری کا موقف یہ نقل ہوا ہے کہ وہ ہر قسم کے مقدمات میں عورت کے قاضی بننے کو درست سمجھتے تھے۔ اس طرح اگر طبری کے ’’شذوذ‘‘ سے صرف نظر کر لیا جائے تو فقہا کم وبیش متفقہ طور پر حدود وقصاص میں عورت کو منصب قضا کا اہل نہیں سمجھتے اور اسی پر قانونی تعامل جاری رہا ہے۔ تاہم ہمارے ہاں اس قسم کی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی اور حدود قوانین اس بات کی تصریح تو کی گئی ہے کہ مقدمے کے کسی فریق کے مسلمان ہونے کی صورت میں جج کا مسلمان ہونا ضروری ہوگا، لیکن قاضی کے مرد ہونے کو لازم قرار نہیں دیا گیا۔ مزید برآں ’’انصار برنی کیس‘‘ میں وفاقی شرعی عدالت نے صراحتاً یہ قرار دیا کہ چونکہ قرآن و حدیث میں اس کے خلاف کوئی صریح دلیل نہیں پائی جاتی، اس لیے خاتون حدود و قصاص سمیت ہر قسم کے مقدمات میں جج بن سکتی ہے۔ گویا اس مسئلے میں ائمہ اربعہ کی راے اور امت کے عام تعامل کے برعکس طبری کے موقف کے مطابق قانون سازی کی گئی ہے۔

۶۔ فقہا کا اس پر اتفاق ہے کہ تنہا ایک عورت کی گواہی صرف ان معاملات میں قابل قبول ہوگی جن میں مردوں کا اطلاع پانا عادتاً ناممکن ہو، مثلاً بچے کی ولادت اور خواتین کے مخصوص مسائل وغیرہ۔ ان کے علاوہ باقی معاملات میں سے نکاح، طلاق اور رجعت وغیرہ مسائل میں جمہور فقہا کے نزدیک عورت کی گواہی قابل قبول ہی نہیں، جبکہ احناف اسے قبول کرتے ہیں۔ قرض اور لین دین کے معاملات میں عورت کی گواہی فقہا کے ہاں متفقہ طور پر قابل قبول ہے، لیکن ا س شرط کے ساتھ کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر سمجھی جائے گی۔ تاہم ہمارے ہاں ’قانون شہادت‘ میں مذکورہ فقہی اتفاق راے کے برعکس یہ قرار دیا گیا ہے کہ دو خواتین کی گواہی کو ایک مرد کی گواہی کے برابر شمار کرنے کا اصول صرف مالی لین دین کے معاملات میں لاگو ہوگا اور وہ بھی صرف اس صورت میں جب معاہدے کو تحریری طور پر منضبط کیا گیا ہو، جبکہ اس کے علاوہ ہر قسم کے معاملات میں جج ایک مرد یا ایک عورت کی گواہی یا کسی بھی قرائنی شہادت کی بنیاد پر فیصلہ کر سکتا ہے۔ (حدود وقصاص کے مقدمات ، البتہ اس سے مستثنیٰ رکھے گئے ہیں) یہ بات ائمہ اربعہ کے موقف کے بجاے امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم کے نقطہ نظر کے زیادہ قریب ہے جو عورت کی گواہی کو مستقل طور پر مرد سے آدھی شمار نہیں کرتے اور یہ راے رکھتے ہیں کہ قاضی کے فیصلے کا مدار گواہوں کی تعداد یا ان کی جنس پر نہیں، بلکہ اس کے داخلی اطمینان پر ہونا چاہیے اور یہ کہ قرائنی شہادت بھی فیصلے کی بنیاد بننے کی اتنی ہی صلاحیت رکھتی ہے جتنا کہ گواہوں کے بیانات۔

۷۔ فقہا کا اس پر اتفاق ہے کہ قتل خطا کی صورت میں دیت کی مقدار سو اونٹ ہے اور یہ شرعاً متعین ہے جس میں نہ کمی کی جا سکتی ہے نہ بیشی، البتہ اگر قاتل سو سے زیادہ اونٹ دینے پر یا مقتول کے ورثا سو سے کم اونٹ لینے پر رضامند ہوں تو ایسا کرنا درست ہے۔ گویا فقہا کے نزدیک قتل خطا کی صورت میں قاتل کی رضامندی کے بغیر اس پر سو اونٹوں سے زائد دیت عائد نہیں کی جا سکتی۔ تاہم ہمارے ہاں ’قصاص ودیت آرڈیننس‘ میں، جو اب مجموعہ تعزیرات پاکستان (Pakistan Penal Code) کا حصہ ہے، جب دیت کے لیے چاندی کے نصاب کو معیار بنایا گیا تو یہ دیکھتے ہوئے کہ دیت کی متعین اور غیر متبدل مقدار بعض حالات میں عدل وانصاف کے منافی اور فریقین کے حالات کے لحاظ سے نامناسب ہوگی، یہ اجتہاد کیا گیا کہ ۳۰۶۳۰ گرام چاندی کو کم سے کم معیار قرار دے کر دیت کی حتمی تعیین کا اختیار عدالت کو دے دیا گیا۔ 

۸۔ جمہور فقہا کا موقف یہ ہے کہ عورت کی دیت مرد کی دیت سے آدھی ہے۔ اگرچہ توسعاً اس راے کو فقہا کا اجماعی موقف کہا جا سکتا ہے، لیکن فقہی لٹریچرمیں اختلافی راے کا ذکر بھی ملتا ہے، چنانچہ صدر اول کے دو معروف اصحاب علم یعنی ابوبکر الاصم اور ابن علیہ اس فرق کے قائل نہیں۔ فقہ حنبلی کی مستند کتاب ’کشاف القناع‘ (۲۰/۲۴۵) کے مصنف نے اسی بنیاد پر اس مسئلے میں اجماع کے دعوے پر تردد ظاہر کیا ہے، جبکہ امام رازی نے سورۂ نساء کی آیت ۹۳ کے تحت ابوبکر الاصم اور ابن علیہ کے نقطہ نظر کو جس اسلوب میں بیان کیا ہے، اس سے مترشح ہوتا ہے کہ وہ بھی اس کے حق میں رجحان رکھتے یا کم از کم اسے قابل غور ضرور سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں دیت سے متعلق قوانین میں اجتہادی موقف اختیار کرتے ہوے یہی نقطہ نظر اپنایا گیا ہے اور جمہور فقہا کے نقطہ نظر کے برعکس کسی امتیاز کے بغیر دیت کی کم از کم مقدار ۳۰۶۳۰ گرام چاندی ہی مقرر کی گئی ہے۔

۹۔ یہی اجتہادی زاویہ نگاہ ’قسامت‘ کے معاملے میں بھی اختیار کیا گیا ہے۔ قتل کے ایسے مقدمات میں جہاں قاتل معلوم نہ ہو اور مقتول کو قتل کر کے اس کی لاش کسی جگہ پھینک دی گئی ہو، ’قسامت‘ کے طریقے پر مقتول کے ورثا سے پچاس قسمیں لے کر انھیں دیت دلوانے کا طریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ وتابعین سے ثابت ہے اور ائمہ اربعہ اور دوسرے فقہا نے اسے ایک شرعی طریقے کی حیثیت سے بیان کیا ہے۔ فقہا کے مابین اس طریقے کی بعض تفصیلات اور شرائط کے حوالے سے اختلاف موجود ہے۔ مثال کے طو رپر بعض فقہا اسے اس صورت کے ساتھ خاص مانتے ہیں جب اہل علاقہ اور مقتول کے مابین پہلے سے دشمنی پائی جاتی ہو ، جبکہ بعض اس کے بغیر بھی ورثا کو دیت دلوائے جانے کے قائل ہیں۔ اسی طرح بعض فقہا کے نزدیک اگر مقتول کے ورثا کسی متعین شخص کو نامزد کر کے اس کے قاتل ہونے پر پچاس قسمیں کھا لیں تو وہ قصاص کے حق دار ہوں گے، جبکہ دوسرے فقہا اس صورت میں قصاص کے بجاے صرف دیت کے لزوم کے قائل ہیں۔ ان اختلافات سے قطع نظر، اصولی طور پر اس طریقے سے قتل کے مقدمات کا فیصلہ کرنا روایتی مذہبی فکر کے معیار کے مطابق فقہا کا ’اجماعی‘ مسئلہ ہے۔ تاہم اس وقت یہ اجماع صرف کتابوں میں پایا جاتا ہے، جبکہ عملاً اس کا کوئی وجود نہیں۔ چنانچہ پاکستان میں قصاص ودیت سے متعلق نافذکیے جانے والے قوانین میں اس کو شامل نہیں کیا گیا، بلکہ ہماری معلومات کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل نے قصاص ودیت کے قوانین کے ضمن میں جو ابتدائی مسودہ تیار کیا تھا، اس میں قسامت کا ذکر کیا گیا تھا، لیکن نفاذ کے مرحلے پر قانون کو حتمی صورت دیتے ہوئے اس شق کو ختم کر دیا گیا۔ 

۱۰۔ ارتدادکی سزا کے ضمن میں کوئی قانون سازی نہ کیا جانا بھی ہمارے نزدیک اسی اجتہادی زاویہ نگاہ کی ایک نمایاں مثال ہے۔ جمہور فقہا کی راے کے مطابق، جسے عام طور پر ’اجماع‘ سے تعبیر کر دیا جاتا ہے، مرتد کو قتل کرنا لازم ہے، تاہم مرتد پر سزاے موت کے نفاذ کو لازم نہ سمجھنے کی راے بھی ابتدا ہی سے موجود رہی ہے، چنانچہ سیدنا عمر اور ابراہیم نخعی سے اس کے لیے عمر قید کی متبادل سزا تجویز کرنا منقول ہے اور ابن حزم کے بیان کے مطابق فقہا کا ایک گروہ بھی یہی راے رکھتا ہے۔ ہمارے ہاں عملاً اسی موقف سے اتفاق کیا گیا ہے، چنانچہ نظری بحثوں سے صرف نظر کرلیجیے تو نہ اہل علم اور مذہبی جماعتوں کی طرف سے اس قانون کے نفاذ کا کبھی مطالبہ کیا گیا ہے، نہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں شرعی سزاؤں سے متعلق قانون سازی کے موقع پر ارتداد کی سزا زیر بحث آئی ہے، اور نہ اسلامی نظریاتی کونسل نے ہی آج تک اس حوالے سے کوئی مسودہ قانون مرتب کیا ہے بلکہ اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد میں شعبہ فقہ وقانون کے استاذ محمد مشتاق احمد کی روایت کے مطابق، ڈاکٹرمحمود احمد غازی نے انھیں بتایا کہ جب وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن تھے تو انھوں نے اس بات کی کوشش کی کہ توہین رسالت کی سزا سے متعلق قانون میں مسلم اور غیر مسلم کے مابین تفریق کرتے ہوئے یہ قرار دیا جائے کہ اس جرم کے ارتکاب پر غیر مسلم کو تو تعزیری طو رپر موت کی سزا دی جا سکے گی، جبکہ مجرم کے مسلمان ہونے کی صورت میں چونکہ یہ جرم ارتداد کے ہم معنی ہے، اس لیے اسے موت کی سزا دی جائے گی۔ اس تجویز سے ڈاکٹر غازی کا منشا یہ تھا کہ اس طرح جزوی طور پر ارتداد کی سزا بھی رو بعمل ہو جائے گی، لیکن کونسل کی سطح پر ان کی یہ تجویز بھی قبول نہیں کی گئی۔

۱۱۔ فقہا کا اس پر اجماع ہے کہ اگر زنا کے کسی مقدمے میں ملزم پر مقررہ معیار شہادت (چار مسلمان مرد گواہ) کے مطابق الزام ثابت نہ ہو سکے تواسے بری کر دیا جائے گا اور زنا کی پاداش میں اسے کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔ تاہم ہمارے ہاں حدود آرڈیننسز کے مرتبین نے یہ دیکھتے ہوئے کہ اس شرط کا پورا ہونا عملاً ناممکن ہے اور اس طرح زنا کا مجرم سزا سے بالکل بچ جائے گا، یہ اجتہاد کیا کہ اگر مذکورہ معیار سے کم تر معیار پر زنا کا جرم ثابت ہو جائے تو مجرم کو تعزیری سزا دی جا سکے گی۔ یہ اجتہاد بدیہی طور پر شریعت کے منشا کے بھی خلاف تھا اور فقہا کے اجماع کے بھی، چنانچہ ۲۰۰۶ میں ملک کے مستند اور جید علما کی ایک کمیٹی نے باقاعدہ یہ راے دی کہ ’’زنا مستوجب تعزیر‘‘کی شق خلاف شریعت ہے، اس لیے اسے حدود آرڈیننسز سے نکال دیا جائے، تاہم کمیٹی نے اس سے بھی زیادہ دلچسپ ’’اجتہاد‘‘ کرتے ہوئے یہ قرار دیا کہ زنا کو زنا کہہ کر اس پر تعزیری سزا دینا تو شریعت کے خلاف ہے، لیکن اگر اسے زنا کے بجاے ’’فحاشی‘‘ کا عنوان دے کر اس پر تعزیری سزا مقرر کی جائے تو یہ شریعت کے عین مطابق ہوگا۔ اس اجتہاد کی معقولیت یا نامعقولیت کے سوال سے صرف نظر کرتے ہوئے، ہم صرف اس نکتے کی طرف توجہ دلانا چاہیں گے کہ چار گواہوں سے کم تر معیار پر جرم ثابت ہونے کی صورت میں زنا کو زنا کہہ کر تعزیری سزا دی جائے یا فحاشی کہہ کر، دونوں صورتوں میں فقہا کے اجماع کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، کیونکہ فقہا اس صورت میں ملزم کو کلیتاً بری کرنے اور گواہوں پر حد قذف جاری کرنے پر اتفاق رکھتے ہیں، چنانچہ اگر ایک عملی مشکل کے حل کے لیے فقہا کے اجماعی موقف سے اختلاف کرتے ہوئے اس نوعیت کے علمی لطائف کو جنم دیا جا سکتا ہے تو کسی معقول اجتہاد کو بھی محض اس بنیاد پر مسترد کر دینے کا کوئی جواز نہیں کہ وہ مفروضہ فقہی اجماع کے خلاف ہے۔

۱۲۔ ایک اہم مسئلہ حدود وقصاص کے مقدمات میں خواتین کی گواہی کو قبول کرنے یا نہ کرنے کا ہے۔ ائمہ اربعہ اس پر متفق ہیں کہ ایسے مقدمات میں خواتین کی گواہی قابل قبول نہیں اور اسی پر اب تک امت کا قانونی تعامل بھی جاری رہا ہے، تاہم اس کے حق میں پیش کیے جانے والے کمزور علمی استدلال اور اس سے پیدا ہونے والی عملی الجھنوں کے تناظر میں اس پر نظرثانی کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے اور اس کی طرف توجہ دلانے والوں میں روایتی مذہبی طبقے کی نمائندگی کرنے والے ایک نہایت مستند صاحب علم، مولانا محمد تقی عثمانی بھی شامل ہیں۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:

’’یہ ایک مجتہد فیہ مسئلہ ہے جس میں بعض تابعی فقہا کا موقف یہ ہے کہ سورۂ بقرہ کے نصاب شہادت کے مطابق حدود میں بھی خواتین کی گواہی قبول کی جا سکتی ہے، اس لیے اس موضوع پر مزید غور وفکر اور تحقیق کی گنجایش موجود ہے، لہٰذا اہل علم کے کسی اجتماع میں اس مسئلے کا تحقیقی مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘ (حدود قوانین، موجودہ بحث اور آئندہ لائحہ عمل، ص ۲۸)

’’یہ بات درست ہے کہ شریعت کا منشا یہ ہے کہ حدود کی سخت سزائیں کم سے کم جاری ہوں۔ اسی بنا پر حد کے لیے شرائط بہت سخت رکھی گئی ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی شریعت کا منشا نہیں ہے کہ حدود بالکل معطل ہی ہو کر رہ جائیں۔ اس لحاظ سے بھی ’’حدود آرڈی ننس‘‘ پر نظر ثانی کی ضرورت ہے کہ اس میں کون سی ایسی شرائط ہیں جو منصوص نہیں ہیں اور حدود میں تعطل کا سبب بن رہی ہیں۔‘‘ (ص ۳۰)

اوپر کی سطورمیں ہم نے جن اجتہادات کا ذکر کیا ہے، وہ سب کے سب سابقہ فقہی اجماع یا کم از کم ائمہ اربعہ کی آرا کے خلاف ہیں، لیکن نہ صرف ان قوانین کی ترتیب وتدوین میں شریک اہل علم نے انھیں قبول کیا ہے بلکہ عمومی طور پر بھی مذہبی حلقوں اور دینی سیاسی جماعتوں کی طرف سے مذکورہ قوانین کو نفاذ اسلام کی طرف اہم پیش رفت قرار دے کر ان کی تائید اور دفاع کیا جاتا رہا اور مختلف مواقع پر ارباب حل وعقد سے ان کے تحفظ کی یقین دہانی بھی حاصل کی جاتی رہی ہے۔ ہمارے علم کی حد تک فقہ اسلامی کی تعلیم وتدریس اور اسلامی قوانین کی تعبیر وتشریح سے دلچسپی رکھنے والے روایتی علما نے بھی مذکورہ قوانین کی ان شقوں پر کوئی اعتراض یا انھیں تبدیل کرنے کا کوئی مطالبہ نہیں کیا جس سے ان اجتہادات کو پاکستان کی حد تک ’اجماع سکوتی‘ کا درجہ یقیناًحاصل ہو جاتا ہے۔ 

یہاں اس بحث کا یہ پہلو بھی سامنے رہنا چاہیے کہ پاکستان میں شرعی قانون سازی کے ضمن میں مخصوص فقہی مکاتب فکر یا اجماعی آرا کی پابندی نہ صرف یہ کہ عملاً ملحوظ نہیں رکھی گئی، بلکہ پارلیمنٹ کے منظور کردہ قوانین اور عدالتی فیصلوں میں اصولی طور پر بھی اس کی صراحت کی گئی ہے کہ شریعت کی تعبیر وتشریح کا اصل اور فیصلہ کن معیار مسلمہ علمی اصول وقواعد ہوں گے۔ اس ضمن میں ۸۰ء کی دہائی میں سینٹ اور قومی اسمبلی سے شریعت بل کی منظوری کے مختلف مراحل کا ایک مختصر جائزہ مفید ہوگا۔ جون ۸۵ء میں سینٹ میں نفاذ شریعت کے لیے پیش کیے جانے والے بل کی دفعہ ۲، شق ج میں کہا گیا کہ ’’اجماع امت کو قرآن اور سنت نے حجت قرار دیا ہے، اس لیے جو قانون اجماع امت سے ثابت اور ماخوذ ہو، وہ بھی شریعت کا قانون ہے۔‘‘ تاہم ۸۹ء میں سینٹ کی قائم کردہ خصوصی کمیٹی نے (جس میں پروفیسر خورشید احمد، مولانا قاضی عبد اللطیف، مولانا سمیع الحق اور قاضی حسین احمد بھی شامل تھے) اس بل میں جو ترامیم تجویز کیں، ان کی رو سے شریعت کی تعبیر وتشریح کامعیار یہ مقرر کیا گیا کہ ’’شریعت کی تشریح وتفسیر کرتے وقت قرآن وسنت کی تشریح وتفسیر کے مسلمہ اصول وقواعد کی پابندی کی جائے گی اور راہنمائی کے لیے اسلام کے مسلمہ فقہا کی تشریحات اور آرا کا لحاظ رکھا جائے گا۔‘‘ اس ترمیم میں اجماع کی حجیت کو حذف کر دیا گیا ہے، جبکہ مسلمہ فقہا کی تشریحات اور آرا کو بھی ’’لحاظ رکھنے‘‘ کے درجے میں قبول کیا گیا ہے۔ سینٹ نے اسی ترمیم کے ساتھ بل کو منظور کیا۔ اس کے بعد ۱۹۹۱ء میں قومی اسمبلی نے ’’نفاذ شریعت ایکٹ‘‘ منظور کیا تو اس میں اس گنجایش کو مزید کھول دیا گیا، چنانچہ اس کی دفعہ ۲ میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ ’’شریعت کی تشریح وتوضیح کرتے وقت قرآن وسنت کی تشریح وتوضیح کے مسلمہ اصولوں کی پیروی کی جائے گی اور اسلام کے مسلمہ فقہا کی تشریح اور آرا پر عمل کیا جائے گا۔ موجودہ اسلامی مکاتب فقہ کی آرا پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔‘‘

یہی موقف اعلیٰ عدالتوں نے بھی اختیار کیا ہے۔ چنانچہ ۱۹۵۹ء میں بلقیس فاطمہ کیس میں لاہور ہائیکورٹ نے قراردیا کہ: ’’اگر آیات کا مفہوم واضح ہوتو ان کو موثر کردیا جائے گا، قطع نظر اس بات سے کہ فقہا کی کیا راے ہے۔‘‘ خورشید جان کیس میں کہا گیا کہ: ’’فقہاکی آرا کو بہر حال احترام دیا جائے گا اورانہیں آسانی سے مسترد نہیں کیا جائے گا مگر اختلاف کے حق سے کسی صورت انکار نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ خوشی محمد کیس میں سپریم کورٹ نے لکھا کہ: ’’عدالت صرف قرآن وسنت کی پابند ہے ۔‘‘ محمد ریاض بنا م وفاقی حکومت میں وفاقی شرعی عدالت نے قرار دیا کہ: ’’فقہا کی آراکی مطالعاتی اہمیت ہوسکتی ہے اور ان سے بھر پور مدد بھی لی جاسکتی ہے مگرعدالتیں کسی مسلک کی پابند نہیں۔ ہم کسی بھی مسلک کی راے سے ضروریات زمانہ کے لحاظ سے راہنمائی لے سکتے ہیں۔‘‘ مجیب الرحمن بنا م وفاقی حکومت میں وفاقی شرعی عدالت نے صاف طور پر یہ قرار دیا کہ ’’عدالت پبلک قانون میں تقلید کے اصول کی پیروی نہیں کر سکتی۔‘‘ (حوالہ جات کے لیے دیکھیے، قرارداد مقاصد کا مقدمہ، از سردار شیر عالم خان/چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ، ص ۱۸۵، ۱۸۶)

روایتی مذہبی طبقے کے ہاں مذکورہ اجتہادات کے علمی مطالعے کا موضوع نہ بن سکنے کی ایک عملی وجہ ہے، اور وہ یہ کہ فقہ وقانون کے دائرے میں تفہیم، استدلال اور تعبیر وتوجیہ کا عمل بنیادی طور پر عملی اور اطلاقی روایت سے مقدم نہیں بلکہ اس سے موخر ہوتا ہے اور قانونی استدلال اور مآخذ قانون کی تعبیر وتشریح کا کام اطلاقی روایت کو جنم نہیں دیتا، بلکہ اس کے پیدا ہونے کے بعد اس کی تفہیم کے لیے وجود میں آتا ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں، عہد صحابہ وتابعین کے اجتہادات اور ائمہ مجتہدین کی آرا پر مشتمل علمی وفقہی ذخیرے کا مطالعہ کیجیے تو آپ کو زیادہ تر عملی فیصلے اور نتائج فکر ہی نظر آئیں گے، جبکہ ان آرا اور فیصلوں کی علمی وفقہی تعبیر وتشریح کا کام بعد کے فقہا نے انجام دیا ہے۔ اس تناظر میں اگر ماضی قریب اور حال کے اجتہادات مذہبی طبقے کے ہاں باقاعدہ علمی مطالعے کا موضوع نہیں بن سکے تو یہ بات ایک حد تک قابل فہم ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ قانونی وفقہی روایت کے ارتقا کے اس نئے مرحلے کو سابقہ روایت کا تسلسل سمجھ کر اس کا سنجیدہ مطالعہ کرنے کے بجاے اسے سرے سے ناقابل اعتنا قرار دیا جائے اور تہذیب وتمدن کی گاڑی کو الٹا چلا کر اس مقام پر واپس لے جانے کی کوشش کی جائے جہاں صدیوں پہلے کیے جانے والے فقہی اجتہادات ہی موزوں اور قابل عمل ہوں۔ 

یہ اجتہادات بدلتے ہوے حالات اور ان کے تقاضوں کے گہرے شعور کی غمازی کرتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے دینی مدارس میں فقہ واجتہاد کی تعلیم وتدریس کا دائرہ ایک مخصوص فقہی مکتب فکر کی صدیوں پرانی لکھی گئی کتابوں تک محدود رکھا گیا ہے، جبکہ گزشتہ دو صدیوں کے دوران میں دنیا کے تہذیبی وتمدنی حالات میں جو تبدیلی رونما ہوئی اور اس کی روشنی میں عالم اسلام کے طول وعرض اور خاص طور پر پاکستان میں جو نہایت اہم علمی وفقہی اجتہادات کیے گئے ہیں، طلبہ کو شعوری سطح پر ان کا فہم منتقل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مدارس کے نظام تعلیم سے فیض یاب ہونے والا عالم دین آج بھی معاشرہ، شریعت اور قانون کا وہی تصور ذہن میں رکھتا اور اسی کو نفاذ اسلام کی معیاری صورت تصور کرتا ہے جو اس نے صدیوں پہلے لکھی گئی فقہی کتابوں میں پڑھی ہے۔ اسے نہ تہذیب وتمدن کے ارتقا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عملی تغیرات سے کوئی آگاہی ہوتی ہے اور نہ اس بات کا ہی پتہ ہوتا ہے کہ خود نفاذ اسلام کی جدوجہد کی قیادت کرنے والے علما نے عملاً کیا کیا اجتہادات کیے ہیں۔ یہ صورت حال عام طلبہ اور اساتذہ تک محدود نہیں، بلکہ بیشتر پختہ کار اور کہنہ مشق سمجھے جانے والے جید مفتی صاحبان بھی علمی روایت کے ارتقا اور عملی حالات اور تقاضوں سے کلی طور پر صرف نظر کرتے ہوئے حسب مراتب ’’خروج عن المذہب جائز نہیں‘‘، ’’مختلف فقہی آرا سے استفادہ کرتے ہوئے تلفیق نہیں کی جا سکتی‘‘، ’’ائمہ اربعہ کی راے سے باہر نہیں جانا چاہیے‘‘، ’’سلف میں ایک مسئلے میں دو قول ہوں تو تیسرا قول اختیار نہیں کیا جا سکتا‘‘ اور سب سے بڑھ کر ’’سابقہ فقہی اجماع کے خلاف کوئی راے قابل قبول نہیں‘‘ جیسی کتابی بحثوں میں الجھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ 

مذکورہ بحث سے اس نقطہ نظر کی غلطی بھی واضح ہو جاتی ہے جو کسی مسئلے کے اجتہادی ہونے یا نہ ہونے کا معیار اس بات کو قرار دیتا ہے کہ سابق فقہا سے اس ضمن میں کوئی اختلاف منقول ہے یانہیں، اور اگر پہلے اہل علم سے کسی مسئلے میں کوئی اختلاف منقول نہ ہو تو اسے ’’طے شدہ‘‘ قرار دے کر دائرۂ اجتہاد سے ماورا تصور کیا جاتا ہے۔ درست بات یہ ہے کہ قطعیت کا درجہ صرف اساسات دین اور شریعت کے ان نہایت بنیادی احکام کو حاصل ہے جنھیں یہ حیثیت بے حد واضح اور یقینی نقلی وعقلی دلائل کی روشنی میں حاصل ہوئی ہے اور دلائل وقرائن ہی نے ان کے بارے میں دوسرے ممکنہ احتمالات کی نفی کر دی ہے۔ ان کے علاوہ ہر وہ مسئلہ اجتہادی ہے جس میں علمی وعقلی طور پر نصوص کی ایک سے زیادہ تعبیرات کی گنجایش موجود ہو، خواہ ماضی میں اس گنجایش کے کسی ایک پہلو پر بظاہر اتفاق راے پیدا ہو گیا ہو۔ ماضی کے اہل علم بھی اگر کسی مسئلے میں باہم اختلاف کرتے ہیں تو اسی گنجایش کی بنیاد پر کرتے ہیں، اس لیے اصل معیار کی حیثیت اسی علمی گنجایش کو حاصل ہونی چاہیے، نہ کہ سابق فقہا کے اتفاق یا اختلاف کو۔ امام رازی نے اسی نکتے کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے:

الرکن الثالث المجتہد فیہ وہو کل حکم شرعی لیس فیہ دلیل قاطع واحترزنا بالشرعی عن العقلیات ومسائل الکلام وبقولنا لیس فیہ دلیل قاطع عن وجوب الصلوات الخمس والزکوات وما اتفقت علیہ الامۃ من جلیات الشرع وقال ابو الحسین البصری رحمہ اللہ المسالۃ الاجتہادیۃ ہی التی اختلف فیہا المجتہدون من الاحکام الشرعیۃ وہذا ضعیف لان جواز اختلاف المجتہدین فیہا مشروط بکون المسالۃ اجتہادیۃ فلو عرفنا کونہا اجتہادیۃ باختلافہم فیہا لزم الدور (المحصول ۶/۲۷)
’’اجتہاد کا تیسرا رکن وہ مسئلہ ہے جو محل اجتہاد بنے گا۔ اس سے مراد ہر وہ حکم شرعی ہے جس کے بارے میں کوئی قطعی دلیل موجود نہ ہو۔ ’شرعی‘ کی قید سے مقصود عقلی امور اور علم کلام کے مسائل سے احتراز کرنا ہے جبکہ ’’کوئی قطعی دلیل موجود نہ ہو‘‘ کی قید سے پانچ نمازیں اور زکوٰۃ اور شریعت کے وہ نہایت واضح اور روشن احکام اجتہاد کے دائرے سے خارج ہو جاتے ہیں جن پر امت متفق ہے۔ ابو الحسین بصری نے اجتہادی مسئلے کی تعریف یہ کی ہے کہ یہ وہ حکم شرعی ہے جس میں مجتہدین نے اختلاف کیا ہو، لیکن یہ ایک کمزور بات ہے، کیونکہ کسی مسئلے میں مجتہدین کے اختلاف کا جواز خود اس بات پر منحصر ہے کہ وہ مسئلہ اجتہادی ہو، چنانچہ اگر ہم اجتہادی مسئلے کی پہچان یہ مقرر کریں کہ اس میں مجتہدین نے اختلاف کیا ہو تو اس سے ’دور‘ (circularity) لازم آئے گا۔‘‘

ہم نے اسی تناظر میں اپنی کتاب میں بعض ایسے اجتہادات کو علمی مطالعے کا موضوع بنایا ہے جو ماضی کی بعض متفقہ سمجھی جانے والی علمی آرا سے مختلف ہیں، لیکن علمی سوالات اور عملی حالات کے تناظر میں اپنے اندر وزن رکھتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے نہ تو سابق اہل علم کی تجہیل وتضلیل کا رویہ اختیار کیا ہے اور نہ امت کی مجموعی علمی روایت پر بے اعتمادی کا اظہار کیا ہے،بلکہ اسی روایت سے استفادہ کرتے ہوئے اور اسی کے اصولوں اور نظائر کی روشنی میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ سابقہ تعبیرات پر وارد ہونے والے اشکالات کے تناظر میں متعلقہ نصوص کی مختلف تعبیر کی علمی گنجایش بھی موجود ہے اور ایسا کرنے میں ہمارے لیے امت کے مستند ترین اہل علم کے طرز عمل میں اسوہ پایا جاتا ہے۔ گویا معترضین سے ہمارا اختلاف امت کی علمی روایت کے ساتھ وابستہ رہنے یا نہ رہنے میں نہیں، بلکہ اس روایت کی درست تفہیم میں ہے۔ ہم علمی روایت کی اس تعبیر کو ناقص، محدود اور سطحی سمجھتے ہیں جو نصوص کی تاویل وتفسیر اور فقہی تعبیرات کے ضمن میں ماضی کی آرا سے کسی علمی اختلاف کی گنجایش کو تسلیم نہیں کرتی۔ یہ روایت تاریخ میں مردہ نہیں، زندہ ہے اور اس کی ترجمانی کرنے والے اہل علم کی تحقیقات اور تصانیف نایاب نہیں، ہر لائبریری میں دستیاب ہیں۔ 

اس تناظر میں قارئین کی توجہ بحث کے اس رخ کی طرف مبذول کرانا بھی برمحل معلوم ہوتا ہے جو اس موضوع پر ’’الشریعہ‘‘ کے صفحات پر جاری مباحثے نے اب تک اختیار کیا ہے۔ محترم مولانا مفتی عبد الواحد صاحب نے ہماری آرا پر تنقید کرتے ہوئے بنیادی نکتہ یہ اٹھایا تھا کہ نصوص کی تاویل وتفسیر میں سلف سے منقول آرا سے ہٹ کر کوئی نئی راے قائم نہیں کی جا سکتی اور یہ کہ ماضی میں منعقد ہو جانے والے کسی اتفاق اور اجماع کے خلاف کوئی موقف اختیار کرنا اہل سنت کے علمی مسلمات کے خلاف ہے۔ اس کے جواب میں ہم نے ایک کتابچے اور بعض خطوط کی صورت میں اپنی تفصیلی معروضات ان کے سامنے پیش کیں اور اس مکالمے کے نتیجے میں ہمارے اور مولانا محترم کے مابین اصولی طور پر نصوص کی نئی تاویل وتفسیر کی گنجایش اور نئے حالات کے تناظر میں سابقہ فقہی اجماع سے مختلف راے قائم کرنے کے جواز کے حوالے سے اتفاق راے سامنے آ گیا جو ہمارے خیال میں ایک بے حد قیمتی چیز ہے، البتہ مولانا محترم نے سلسلہ بحث کو مزید جاری رکھنے کے بجاے اسے ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ظاہر ہے کہ اگر وہ اپنے نقطہ نظر کو تفصیلاً واضح کر دینے کے بعد بحث کو آگے بڑھانا پسند نہیں کرتے یا ان کے متنوع علمی مشاغل اور ذمہ داریاں اس کی اجازت نہیں دیتیں تو انھیں ایسا کرنے کا پورا حق حاصل ہے، لیکن جہاں تک بحث کی مزید علمی تنقیح کا تعلق ہے تو اس کی ضرورت موجود ہے اور چاہیے یہ تھا کہ کوئی صاحب علم یا تو اب تک کی بحث کا محاکمہ کرتے ہوئے یہ بتاتے کہ اس میں سلف کی آر اسے اختلاف کی جو گنجایش مانی گئی ہے، وہی درست نہیں اور یا بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ واضح کرتے کہ اصولی طور پر یہ گنجایش تو موجود ہے، لیکن ہم نے نصوص کی جو تعبیر پیش کی یا جن نکات کو سابقہ فقہی اجماع پر نظر ثانی کے لیے اساس قرار دیا ہے، وہ علمی وعقلی طور پر محل نظر ہیں۔ تاہم ’’وفاق المدارس‘‘ کے مبصر نے بحث ومباحثہ کے علمی اور اخلاقی حدود کے دائرے میں یہ خدمت انجام دینے کے بجاے اکابر کے طرز سے انحراف، تجدد اور گمراہی کے فتوے کا وہ ہتھیار استعمال کرنے کو زیادہ مناسب سمجھا ہے جو ہمارے ہاں آخری اور فیصلہ کن ہتھیار سمجھا جاتا ہے اور جسے استعمال کرنا خاص طور پر اس صورت میں ناگزیر ہو جاتا ہے جب بحث اور استدلال کے علمی تقاضے پورے کرنا ذرا مشکل دکھائی دے رہا ہو اور سطحی عوامی اور گروہی جذبات کو بھڑکانے میں ہی عافیت دکھائی دیتی ہو۔ اسی کوشش میں تبصرہ نگار نے ہماری طرف رجم کی تشریعی حیثیت سے انکار کی بات منسوب کی ہے جو سراسر بد فہمی یا بد دیانتی ہے۔ ہماری بحث کا مرکزی نکتہ رجم کو ایک شرعی سزا ماننا یا نہ ماننا نہیں، بلکہ قرآن اور سنت کے مابین ظاہری تعارض کے حل کے لیے پیش کی جانے والی توجیہات کا تنقیدی مطالعہ ہے۔ ہماری راے میں اب تک پیش کی جانے والی تمام توجیہات علمی طور پر مورد اشکال ہیں اور اس پہلو پر مزید غور وفکر کی ضرورت اور گنجایش موجود ہے۔ اسی طرح تبصرہ نگار نے ہمارے بعض اقتباسات سے صحابہ کرام پر طعن وتشنیع کا مفہوم بھی کشید کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر کوئی صاحب حفظ الایمان یا تقویۃ الایمان وغیرہ کی کوئی عبارت اور اس پر معترضین کا اعتراض مبصر موصوف کی خدمت میں لے جائیں اور اس کے دفاع اور توجیہ میں وہ جو کچھ فرمائیں، اس سے ’الشریعہ‘ کے قارئین کو آگاہ کر سکیں تو تبصرہ نگار کے مذکورہ استنباط کا وزن جاننا قارئین کے لیے بہت آسان ہو جائے گا۔

۲۰۰۷ء میں حدود وتعزیرات کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر ہمارا تبصرہ کونسل کی طرف سے شائع ہوا تو بعض حضرات نے اس کے مندرجات کے بارے میں دار العلوم کراچی کے دار الافتاء سے راے طلب کی۔ دار الافتاء کے ایک مفتی صاحب نے کتاب کے مندرجات کا ایک خلاصہ مرتب کیا اور یہ قرار دیا کہ مصنف کا شمار ’’متجددین‘‘ میں ہوتا ہے۔ اس موقع پر ہم نے دار العلوم کے مہتمم حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی کے نام ایک خط میں یہ گزارش کی تھی کہ:

’’اگر دار الافتاء ایسا کرنے [کوئی فتویٰ جاری کرنے] کو اپنی دینی ذمہ داری کا تقاضا سمجھتا ہے تو ظاہر ہے کہ اسے ایسا ہی کرنا چاہیے، البتہ اس کے ساتھ ساتھ روایتی موقف کی مدلل وضاحت اور مخالف آرا پر سنجیدہ علمی تنقید کا سامنے آنا بھی ضروری ہے۔ نظریاتی کونسل نے میرے تبصرے کو وسیع پیمانے پر علمی وفکری حلقوں میں تقسیم کرنے کا اہتمام کیا ہے اور میری معلومات کے مطابق اس تبصرے میں اٹھائے جانے والے نکات میں بظاہر وزن محسوس کیا گیا ہے، اس لیے اگر دار العلوم کی سطح کے علمی ادارے کی طرف سے اس کا جواب محض فتوے کی صورت میں دیا جائے گا تو یہ چیز نہ صرف روایتی موقف کا علمی وزن محسوس کیے جانے میں رکاوٹ ثابت ہوگی بلکہ اس سے دارالعلوم کا علمی اعتماد بھی مجروح ہوگا۔ دار العلوم مسلکی بنیاد پر دیوبندی حلقے کا مرجع ہونے کے ساتھ ساتھ بحیثیت مجموعی پورے روایتی دینی حلقے کا بھی ایک مستند ترجمان سمجھا جاتا ہے اور اس کا علمی اعتماد اور ثقاہت دین اور اہل دین کے لیے ایک اثاثے کی حیثیت رکھتا ہے جس کی میرے خیال میں بہرحال حفاظت کی جانی چاہیے۔‘‘

ہمارا مشورہ ’’وفاق المدارس‘‘ جیسے موقر جریدے کے تبصرہ نگار کو بھی یہی ہے۔ انھیں اطمینان رکھنا چاہیے کہ روایتی فقہی موقف کے دفاع میں کہنے کے لیے علمی طور پر بہت کچھ موجود ہے اور اسے اس سے کہیں زیادہ بہتر سطح پر اور بہتر اسلوب میں پیش کیا جا سکتا ہے جو اب تک کی بحث میں نظر آتا ہے۔ یہ بحث ابھی کئی پہلووں سے تشنہ ہے اور بہت سے نکات ہیں جو علمی طور پر مزید تنقیح اور تفصیل کا تقاضا کرتے ہیں، اس لیے روایتی تعبیرات کو درست سمجھنے والے وسیع النظر اصحاب علم کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھ کر بحث میں حصہ لیں اور اپنے نقطہ نظر کی ترجیح کو علمی استدلال کے ساتھ واضح کریں۔ جب امت مسلمہ کی مجموعی علمی روایت کی صورت میں بحث واستدلال کا بنیادی حوالہ ہمارے مابین مسلم ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ معترضین استدلال کے میدان میں اپنے نقطہ نظر کی ترجیح ثابت کرنے کے بجاے بے معنی فتووں اور الزامات میں زور قلم صرف کرتے رہیں۔

آراء و افکار

(مئی و جون ۲۰۰۹ء)

مئی و جون ۲۰۰۹ء

جلد ۲۰ ۔ شمارہ ۵ و ۶

ارباب علم ودانش کی عدالت میں ’’الشریعہ‘‘ کا مقدمہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مالاکنڈ ڈویژن میں شرعی نظام عدل ریگولیشن کا نفاذ ۔ چند اہم دستوری اور قانونی مسائل
محمد مشتاق احمد

علم دین اور اکابر علمائے دیوبند کا فکر و مزاج
ادارہ

دین میں حدیث کا مقام اور ہمارا انداز تدریس
محمد عمار خان ناصر

تدریس حدیث کے چند اہم تقاضے
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تدریس حدیث اور عصر حاضر کے تقاضے
مولانا مفتی محمد زاہد

علم حدیث اور جدید سائنسی و تکنیکی ذرائع
مولانا مفتی برکت اللہ

طلبہ کے سوالات و اشکالات اور ارباب مدارس کا رویہ
قاضی محمد رویس خان ایوبی

دینی مدارس کے لیے تدریب المعلمین اور تخصصات دینیہ کا نظام
ادارہ

’’وفاق المدارس‘‘ کا تبصرہ ۔ چند معروضات
محمد عمار خان ناصر

دورحاضر کے مجاہدین پر اعتراضات کا علمی جائزہ
مولانا فضل محمد

عبد المالک طاہر کے اعتراضات کے جواب میں
حافظ محمد زبیر

’’حدود و تعزیرات‘‘ ۔ چند تنقیدی تاثرات
محمد انور عباسی

مکاتیب
ادارہ

تلاش

Flag Counter