اسلامی بینکاری: زاویہ نگاہ کی بحث

محمد زاہد صدیق مغل

ماہنامہ الشریعہ شمارہ مئی ۲۰۱۰ میں مفتی زاہد صاحب دامت برکاتہم العالی نے راقم الحروف کے مضمون ’اسلامی بینکاری: غلط سوال کا غلط جواب‘ کے تعقب میں اپنے مضمون ’غیر سودی بینکاری کا تنقیدی جائزہ‘ (حصہ اول) میں ’زاویہ نگاہ کی بحث ‘ کے تحت چند گزارشات پیش کی ہیں جن پر مختصر تبصرہ کرنا راقم ضروری سمجھتا ہے۔ 

۱۔ راقم الحروف نے اپنے مضمون میں یہ بنیادی بحث اٹھائی تھی کہ اسلامی بینکاری کے حامیین نے اصل بحث کی ترتیب کو الٹ دیا ہے۔ مفتی صاحب نے بحث کی موجودہ ترتیب کے حق میں بجا طور پر یہ وضاحت فرمائی کہ علمائے کرام خود کو اس ترتیب پر اس لیے مجبور پاتے ہیں کہ وہ محض محققین نہیں بلکہ عملی میدان کے سوار ہیں جہاں انہیں لوگوں کے مسائل کے ’عملی حل ‘ پیش کرنا ہوتے ہیں۔ راقم الحروف کو اس بات سے صد فیصد اتفاق ہے اور ہم نے اپنے مضمون کے حاشیے میں بھی بعینہ اسی امر کی طرف اشارہ کیا تھا کہ ایسا کرنا علمائے کرام کی مجبوری ہے، مگر راقم کے نزدیک علمائے کرام کا بینکاری یا جمہوریت وغیرہ جیسے مسائل کے ساتھ’ اصول جبر‘ کے تحت معاملہ کرنا کوئی اتنا سادہ مسئلہ نہیں جتنا کہ مفتی صاحب نے بیان فرمایا بلکہ یہ ایک خاص فکری پس منظر کا نتیجہ ہے جس پر تفصیلی بحث کی ضرورت ہے ، مگر قلت وقت کے سبب یہاں چند اشاروں پر ہی اکتفا کروں گا۔ 

یہ بات عیاں ہے کہ ہمارے مدارس میں پڑھائے جانے والے درس نظامی کورس کی چند خصوصیات ہیں: 

اول: یہ ’اسلامی ریاست کی موجودگی‘ کو فرض کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس میں اسلامی ریاست پر مبنی مباحث سے متعلق کسی بڑے اسلامی سیاسی مفکر کی کوئی کتاب شامل نہیں۔

دوئم: درس نظامی کے اس کورس کا مقصد اسلامی ریاست اور اسلامی علمیت کے پس منظر میں مسائل کے حل کا طریقہ کار وضع کرنا ہے، دوسرے لفظوں میں یہ اسلامی ریاست کے لیے وہ رجال کار فراہم کرتا ہے جو اس کے معاملات کو اسلامی احکامات کے تحت چلاتے رہیں۔

سوئم: چونکہ یہ اسلامی ریاست کو مفروض کرتا ہے لہٰذا اس میں مسائل کے حل کا جو طریقہ سکھایا جاتا ہے، اسے ہم ’موجودہ حالات میں کیسے خود کو ڈھالو‘ (how to fit in oneself in the given environment) کے الفاظ سے تعبیر کرسکتے ہیں، یعنی اس کا طریقہ کار ہی یہ ہے کہ اسلامی علمیت کی بالادستی پر مبنی ریاستی و معاشرتی صف بندی کے اندر پیش آنے والے مسائل کو کیسے اس طرح حل کیا جائے کہ اسلامی روایت (تقلید) کا تسلسل جاری رہے ۔

چہارم: یہی وجہ ہے کہ فقہ کا طریقہ کار ہمیشہ جزو پر فتوی لگانا ہوتا ہے۔ چونکہ جس معاشرتی و ریاستی تناظر کے ’کل ‘ کو یہ فقہ مقدم طور پر فرض کرتی ہے، وہ حق یعنی اسلام پر مبنی ہوتا ہے لہٰذا یہاں معاملے کے جزوہی پر حکم لگانے کی نوعیت پیش آتی ہے ۔

اگر درج بالا تجزیہ درست ہے تو اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر اسلامی ریاست موجود ہو تو ’موجود کے اندر سموجانے ‘ یعنیfit in ہوجانے کے اس نہج سے بہتر اور علاوہ کوئی دوسرا طریقہ ممکن ہی نہیں۔ البتہ جب اسلامی ریاست ہی سرے سے مفقود ہو تو کل کو نظر انداز کرکے fit in ہونے کے اصول کے مطابق جزو پر فتوے دینا ایک دوسری تہذیب کو خود پر غالب آنے کا موقع فراہم کرنا ہے جیسا کہ عیسائیت کی شکست و ریخت سے واضح ہے ۔ علمائے کرام بالعموم نئے پیش آنے والے مسائل کو انکے کل سے کاٹ کر اسی fit in ہوجانے کے اصول کے تحت انکا تجزیہ کرکے ان پر حکم لگاتے ہیں جو بلا شک و شبہ اسلامی ریاست کے پس منظر میں ایک محفوظ طریقہ کار ہے، مگر سرمایہ دارانہ ریاستی صف بندی میں اسے اپنانا عمیق خطرات کا باعث ہے کیونکہ اب جس معاشرتی و ریاستی صف بندی میں fit in ہونے کا طریقہ کار وہ بتاتے ہیں، وہ ماحول ہی غیر اسلامی ہے اور اب اس طریقہ کار کا مطلب ’غیر اسلامی نظام زندگی کے اندر اسلامی زندگی گزارنے‘ کا نسخہ تیار کرنا ہے۔ اس fit in ہوجانے کے اصول کو اپنانے کے بے شمار نقصانات ہیں جن میں سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ سیکولر معاشرتی و ریاستی صف بندی ہم پر غالب آتی چلی جاری ہے، علمائے کرام ’رخصتوں‘ کی آفاقیت پر خود کو پہلے سے زیادہ مجبور محسوس کرنے لگے ہیں اور مطلوب کا حصول ناممکن سے ناممکن ہوتا چلا جارہا ہے۔ چنانچہ ہر نئے پیش آنے والے مسئلے کو جب اس کے کل سے کاٹ کر دیکھا جاتا ہے تو اس کی معنویت بدل جاتی ہے (کیونکہ معنی کل میں ہوتے ہیں) اور پھر اس مسئلے کو ایک غلط پس منظر میں سمجھنے کے بعد اس کا کوئی اسلامی متبادل وغیرہ فراہم کردیا جاتا ہے جس کی بے شمار مثالیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں اور اسلامی (یا غیر سودی) بینکاری بھی اسی نوع کی ایک مثال ہے۔ اسی fit in ہوجانے کے اصول کے تحت پہلے ہم نے پیپر کرنسی کو خود سے ’یہ قرض نہیں‘ فرض کر کے اس کا شرعی جواز پیدا کیا اور پھر سرمایہ دارانہ (یعنی بینک ) زر کا اسلامی جواز بھی ڈھونڈ لیا۔ اسی اصول کے تحت ہم نے اپنی ایک ہزار سالہ تاریخ میں جو ادارتی وریاستی نظم قائم تھا، اس سے منہ موڑ کر انگریزوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے احیائے خلافت کے بجائے خود کو انگریزوں ہی کی عطا کردہ جمہوری صف بندی کا حصہ بنایا اور مزے کی بات یہ ہے کہ آزادی حاصل کرلینے کے بعد بھی ہم نے اپنے تاریخی تسلسل (مثلا مغل یا ترک خلافت کی ادارتی صف بندی وغیرہ) کی طرف پلٹنے کے بجائے جمہوری صف بندی ہی کو اختیار کرلیا اور پھر اسی کو اسلامی بنانے کی ٹھان لی۔ چنانچہ علمائے کرام کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ’کل‘ کی بحث کو نظر انداز کرتے یاانتہائی ثانوی سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ بالعموم ریاستی تناظر سے بحث ہی نہیں کرتے بلکہ اکثر و بیشتر موجودہ نظم کو فطری و اسلامی فرض کرتے ہیں جیسا کہ اسلامی بینکاری کے مؤیدین علما کا حال ہے۔ 

مجوزین اسلامی بینکاری کے نزدیک بینکاری کی اسلام کاری نا صرف یہ کہ ممکن ہے بلکہ وہ موجودہ معاشی و ریاستی تناظر کو عین فطری اور اسلامی فرض کرتے ہیں جیسا کہ راقم نے اپنے مضمون ’اسلامی معاشیات یا سرمایہ داری کا اسلامی جواز‘ میں مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی کے نظریات سے واضح کیا تھا۔ اسلامی بینکاروں کے ان واضح نظریات کی موجودگی کے باوجود یہ کہنا کہ ان علما کے نزدیک اسلامی بینکاری محض کوئی مجبوری ہے، راقم کے لیے ایک نا قابل فہم بات ہے۔ لہٰذا علمائے کرام کا (نام نہاد) اسلامی بینکوں میں مشیر بن جانے سے کوئی مطلوب تبدیلی رونما نہیں ہوگی کیونکہ علمائے کرام کا کام سرمایہ دارانہ نظم میں ’مشیر‘ بننا نہیں بلکہ اسلامی ریاست تعمیر کرکے اس کی ’حکمرانی‘ کرناہے اور جب تک وہ ایسا کرنے کی کوشش نہیں کریں گے، اس وقت تک اسلامی ریاست قائم نہیں ہوگی۔ لہٰذا یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ جو ریاستی و ادارتی نظم (بشمول پاکستان میں) اس وقت قائم ہے، وہ غیر اسلامی ہے اور اس کے اندر fit in ہوجانے اور جزو پر فتوی دینے کے طریقہ کار کو چھوڑکر کل کی بنیاد پر فتوی دینے کی طرف توجہ دینا ہوگی اور اس کے لیے اولاً علم الکلام کے فروغ کی ضرورت ہے نہ کہ فقہ المسائل کی، کیونکہ سرمایہ داری نے جو مسائل پیدا کیے ہیں، ان کا تعلق اصلاً کلام کے ساتھ ہے اور فروعاً فقہ کے ساتھ، لہٰذا یہ ترتیب ملحوظ خاطر رکھنا ہوگی بصورت دیگر جبر کا دائرہ بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ امید ہے اس وضاحت سے راقم کی فکر میں بظاہر نظر آنے والا یہ تضاد رفع ہوجائے گا کہ ایک طرف تو ہم علما کی تھیوکریسی کے قائل ہیں تو دوسری طرف ان کے اسلامی بینکوں کے مشیر بننے کے خلاف ہیں! جب راقم کے نزدیک بینک کی اسلام کاری ہی ممکن نہیں تو پھر اس کے ’اسلامی مشیر ‘ بننے کا کیا مطلب؟ 

۲۔ راقم الحروف کا اپنے مضمون میں یہ کہنا کہ ’’بینکوں کا سودی یا غیر سودی ہونا ایک ثانوی مسئلہ ہے‘‘ اس سے خدانخواستہ ہر گز یہ مقصود نہیں تھا کہ ہمارے نزدیک حرمت سود کوئی کم تر شے ہے، حاشا و کلا۔ بلکہ اس بات کا مطلب صرف اتنا تھا کہ بینکوں کے غیر سودی ہو سکنے کا امکان موجودہ بحث میں مقدمات کی ترتیب کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر ہے اور بس۔ اگر اس کے علاوہ اس کا کوئی دوسرا مفہوم نکلتا ہے (جیسا کہ مفتی صاحب نے بیان فرمایا) تو راقم اس سے بری الذمہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور اس سے توبہ کرتا ہے۔

۳۔ مفتی صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ ہمارے مضمون سے انہیں ہمارے فکری پس منظر کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اپنے بارے میں ضروری وضاحت کردوں۔ راقم الحروف فی الحال نیشنل یونیورسٹی فاسٹ میں معاشیات کا استاد جبکہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پی ایچ ڈی معاشیات کا طالب علم ہے اور اس سے قبل ایم فل اکنامکس کرچکا ہے۔ میٹرک کے بعد کراچی کے مدرسے جامعہ علیمیہ اسلامیہ (مشہور بنام ’اسلامک سینٹر‘ قائم کردہ جناب ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری قادری سجادہ نشین مولانا عبد العلیم صدیقی جو شاگرد خاص تھے مولانا احمد رضا خاں فاضل بریلوی کے) سے درس نظامی کی تعلیم حاصل کی۔ قدیم کلامی مسائل میں اشاعرہ و ماتریدیہ، فقہی مسائل میں فقہ حنفی جبکہ بر صغیرپاک و ہند میں جو مسائل ’شرک و بدعت‘ کے عنوان کے تحت باعث نزاع بنے، ان میں اکثر و بیشتر بریلوی مسلک کی رائے کو صائب جبکہ دیگر مکاتب فکر کی رائے کو ہر گز کفر یا فسق نہیں سمجھتا بلکہ اسے تعبیر اور تاویل کی غلطی سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارے علمائے متقدمین باوجود اہم کلامی مسائل میں اختلافات کے اہل سنت والجماعت میں شمار ہوسکتے ہیں تو آج یہ امکان بند نہیں ہوجاتا۔ راقم کے نزدیک بریلویت، دیوبندیت اور سلفیت برصغیر میں اسلامی انفرادیت کے جائز اظہار کے مختلف دھارے ہیں اور اس خطہ ارضی میں فروغ اسلام کے لیے ان شناختوں کے قیام و بقا کو ضروری سمجھتا ہے، اس شرط کے ساتھ کے ایک دوسرے کو کافر و گمراہ نہیں بلکہ اپنا حلیف سمجھا جائے، کیونکہ اس خطہ ارضی میں استعماری غلبے کے بعد انہی اسلامی شناختوں نے ایک طرف اسلامی علمیت اور روایات کو محفوظ کیا اور دوسری طرف سرمایہ داری کے فروغ کا مقابلہ کیا۔ اس خطہ ارضی میں انہی شناختوں کا فروغ درحقیقت فروغ اسلام کا سہل ترین طریقہ ہے کیونکہ یہاں انہی کی تاریخی و فطری معاشرتی و نفسیاتی بنیادیں موجودہ ہیں، نیز ان شناختوں کو ہر گز تحلیل نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی ایسا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے کیونکہ اس خطہ ارضی میں اسلامی انفرادیت کی پہچان کے یہی وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعے یہاں سرمایہ دارانہ انفرادیت کی شناخت کو پروان چڑھنے سے روکا جا سکتا ہے۔ جب یہ روایتی شناختیں تحلیل ہوتی ہیں تو ان کی جگہ جو شے انفرادی شناخت کا ذریعہ بنتی ہے، وہ یا تو تجدد پسندانہ اسلام کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور یا پھر کالج ویونیورسٹی (مثلا Quaidian) یا کمپنی وغیرہ کی پہچان کی شکل میں جن کا اسلامی انفرادیت سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ (بہر حال یہ سب راقم کی ذاتی رائے ہے جس سے اختلاف ممکن ہے)۔ 

آراء و افکار

(جون ۲۰۱۰ء)

تلاش

Flag Counter