مذہبی فرقہ واریت کا سیاسی ظہور

خورشید احمد ندیم

مذہبی فرقہ واریت،ایک سونامی کی طرح،مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کواپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔اس کی لہریں پاکستان اور افغانستان تک پہنچ سکتی ہیں۔مذہب اور سیاست کے باہمی تعلق کو نہ سمجھنے کا ایک اورخطرناک نتیجہ ہمارے سامنے آنے والا ہے۔

ایران کا انقلاب،9/11 کی طرح مسلم دنیا میں ایک نئے دور کا آ غاز ہے۔اس میں شا ید کو ئی مبالغہ نہ ہو کہ سیدناحسینؓابن علیؓ کی شہادت کے بعد یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے جس نے مسلمانوں کی داخلی سیاست کو اتنے بڑے پیما نے پر متا ثر کیا ہے۔اس انقلاب کے بعد ہماری سیاست یقیناً وہ نہیں رہی جو پہلے تھی۔آج ہم مشرقِ وسطیٰ میں جو تبدیلیاں دیکھ رہے ہیں،ان کاایک بڑا محرک یہی انقلاب ہے۔تیل کی وجہ سے اس خطے میں عالمی قوتوں کی دلچسپی نے یقیناً یہاں کی سیاست پر گہرا اثر ڈالا ہے لیکن ۱۹۷۹ء کے بعد اس علاقے میں داخلی سطح پرجوتبدیلیوں پروان چڑھتی رہیں ،ان پر بہت کم توجہ دی گئی۔آج تبدیلی کا یہ عمل ایک واضح صورت اختیار کر چکا ہے، جس کے خد و خال ہم بچشمِ سر دیکھ سکتے ہیں۔

ایران کا انقلاب محض ایک سیاسی تبدیلی نہیں تھی،یہ شیعہ فکر میں ایک غیر معمولی تغیر بھی تھا۔روح اللہ خمینی صاحب سے پہلے شیعہ علما کا دائرہ کار مذہبی وروحانی امور میں راہنمائی تک محدود تھا۔عملاً وہ سیاسی عمل سے لا تعلق تھے۔خمینی صاحب نے ’ولایتِ فقیہہ‘‘ کا تصور دیا جس نے علما کے بھر پور سیاسی کردار کو دینی و عقلی استدلال فراہم کیا۔شیعہ علما میں ’اصولی‘ اور ’اخباری‘ دو نقطہ نظر اگر چہ پہلے ہی سے مو جود تھے اور اصولی علما اجتہاد اور روز مرہ امور میں راہنمائی کی ذمہ داری بھی ادا کر تے تھے لیکن سیاست میں ان کا کو ئی قابلِ ذکر کردار نہیں تھا۔خمینی صاحب نے ’نائبِ امام ‘ کو امام کا قائم مقام قرار دے کر اس خلا کو عملاً ختم کر دیا جو امام کی غیر مو جو دگی کے باعث پیدا ہو گیا تھا۔جب ایران میں اس تصور کوپزیرائی ملی اور ان کی قیادت میں ایک بڑی سیاسی تبدیلی واقع ہو گئی تو ’اخباری ‘ نقطہ نظر عملاً ختم ہو گیااور دنیا بھر میں اہلِ تشیع نے سیاست کو ایک نئے زاویے سے دیکھنا شروع کیا۔امریکا میں رہائش پزیرممتازایرانی محقق ڈاکٹر ولی نصر کے اس تجزیے سے مجھے پو را اتفاق ہے کہ اس انقلاب سے پہلے مختلف مسلمان ممالک میں اہلِ تشیع دوسری مر کزی تحریکوں کا حصہ تھے جیسے وہ مشرقِ وسطیٰ میں عرب قوم پر ستی کی تحریک،بائیں بازو کی جماعتوں اور دوسرے سیاسی فورمز سے وابستہ تھے۔اس انقلاب کے بعد وہ شیعہ تحریکوں کاحصہ بنے اور انہیں اس کے لیے ایران کی حمایت بھی حاصل رہی۔ولی نصر نے اپنی کتاب’شیعہ احیا‘ (The Shia Revival) میں بعض ایسے افراد اور ان کی سابقہ وابستگیوں کاذکرکیا ہے۔

یہ تبدیلی عملی سیاست پر کیسے اثر انداز ہو ئی، اس کا اندازہ عراق،لبنان، اردن اوربحرین کے حالات پر سرسری نظر سے ڈالنے سے کیا جا سکتا ہے۔ اس مقد مے کی وضاحت میں ،میں دومثالوں کا ذکر کر تا ہوں۔۲۸۔ فروری۲۰۰۵ء کو عراق کے ایک شہر حلہ میں ایک خو ش کش حملہ ہوا جس میں ۱۲۵ شیعہ مارے گئے اور ۱۵۰ زخمی ہو ئے۔اس حملے کا ذمہ دار اردن کا ایک نو جوان منصور البنا تھا۔اس کی موت کی خبر جب اس کے آ بائی قصبے السلط پہنچی تو وہاں اسے شہید قرار دیا گیا اور تین دن تک اس کا سوگ منا یا گیا۔اس سوگ میں ان لوگوں کا کو ئی ذکر نہیں ہوا تو اس حملے میں مارے گئے۔اس پر عراق میں بہت ردِ عمل ہوا اور ۲۰ مارچ کوایک مشتعل ہجوم نے اردن کے سفارت خانے پر حملہ کر دیا۔معا ملہ مزید بگڑااوردو نوں ممالک نے اپنے اپنے سفارت کار واپس بلا لیے۔عراق اور اردن کے تعلقات میں یہ تلخی پہلے نہیں تھی۔اس کا اظہار تب ہوا جب عراق میں شیعہ بر سر اقتدار آئے۔

بحرین کا معا ملہ بھی ایسا ہی ہے۔یہاں شیعہ آ بادی کی اکثریت ہے۔ایرانی انقلاب سے پہلے اخباری نقطہ نظر غالب تھا۔اس کے بعد اصولیوں کا غلبہ ہے۔اس کا سبب نقطہ نظرکی تبدیلی ہے۔یہاں ۱۹۹۴ء میں شیعہ آ بادی نے اپنے حقوق کے لیے تحریک اٹھائی۔۱۹۷۰ء میں بحرین کی آ زادی کے بعد یہ سب سے بڑا ہنگامہ تھا۔۱۹۹ء میں نئے حکمران شیخ حامدبن عیسیٰ الخلیفہ نے سیاسی اصلاحات کا اعلان کیا تو انہیں زیادہ پزیرائی نہیں ملی۔اہلِ تشیع کی طرف سے۲۰۰۲ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا گیا اور اب وہاں کے شیعہ، مذہبی جماعتوں کے عَلم تلے جمع ہیں۔ان میں الوفاق اور الجبہ الاسلامیہ لالتحریر البحرین نمایاں ہیں۔۲۰۰۳ء میں جب عراق ایک بڑی تبدیلی سے گزرا تو اس کا اثر بحرین میں بھی ہوا۔ دکانوں میں خمینی صاحب اور لبنان کے شیعہ راہنماحسین فضل اللہ کی تصویرں بڑی تعداد میں آویزاں تھیں۔۲۰۰۵ء میں جب ایک مقامی اخبارنے خمینی صاحب کا ایک کارٹون شائع کیا تو بطور احتجاج ایک بڑا جلوس نکالا گیا جو ’لبیک خمینی‘ کے نعرے لگا رہا تھا۔سعودی عرب کی جو سرحد بحرین سے ملتی ہے وہاں کی آ بادی میں بھی شیعہ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ سعودی عرب کو یہ پریشانی ہے کہ اگر بحرین میں شیعہ غالب آتے ہیں تو اس علاقائی قرب کی وجہ سے سعودی عرب بھی متاثر ہو سکتا ہے۔چنانچہ اس نے بحرین میں حالیہ شیعہ تحریک کو دبا نے کے لیے بحرین میں اپنی افواج بھیج دیں۔اس وقت سعودی عرب کے ان علاقوں میں شیعہ آ بادی بحرین میں فوج بھیجنے کے خلاف مظاہرے کر رہی ہے۔مذہبی مسلک کے اس سیاسی استعمال کا سب سے زیادہ نقصان تصورِ قومیت کو پہنچ رہا ہے۔ اب سعودی عرب کے شیعہ شہری کی وفاداری اپنے ملک سے زیادہ ایران سے ہو تی ہے اور ایران کا سنی شہری ممکن ہے سعودی عرب یا کسی دوسرے ہم مسلک ملک سے خود کو ذہی طور پر زیادہ قریب محسوس کر تا ہو۔

مشرقِ وسطیٰ کی سیاست جس طرح مذہبی فر قہ واریت سے متاثر ہو رہی ہے،اس کے مظاہر عالمِ اسلام کے دیگر حصوں میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ پاکستان بھی اس سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ عراق ایران جنگ میں ہم نے اس کی ابتدائی جھلک دیکھی۔ مجھے خدشہ ہے کہ چند دنوں تک اس کے مزید مظاہر بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ہماری مذہبی جماعتوں میں سعودی عرب اور ایران کے لیے جو نرم گوشہ ہے، اس کا اظہار ہونے لگا ہے۔ایک مسلک کے رسائل میں سعودی عرب کی حمایت کی جارہی ہے اور ان وا قعات کو سعودی عرب کی اسلامی حکومت کے خلاف ایک سازش قرار دیا جا رہا ہے۔ جواباً ایران کی حمایت میں بھی لکھا جا رہا ہے۔یہ سلسلہ جلسوں جلوسوں تک پھیل سکتا ہے۔

میرے نزدیک مذہبی فرقہ واریت کا سیاسی ظہور عالمِ اسلام کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے اور اس سے امریکا جیسی قوتیں فائدہ اٹھائیں گی جن کی نظر اس خطے کے وسائل پر ہے۔ یہ مذہب اور سیاست کے تعلق کو صحیح تناظر میں نہ سمجھنے کانتیجہ ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ مسلمانوں کی زندگی دین کے احکام کے تابع ہو نی چا ہیے اور اس سے سیاست کا کوئی استثنا نہیں ہے لیکن اہلِ مذہب نے اس کی جو تعبیر کی گئی ہے وہ محلِ نظر ہے۔ہمارے ہاں اس کا یہ مفہوم لیا گیا ہے کہ اسلام کے سیاسی غلبے کے لیے جماعتیں بننی چا ہیں۔ اب عملاً یہ ہوا کہ ہر مسلک کے لوگوں نے اپنی سیاسی جماعت بنالی اور انہوں نے اپنے مسلک کی روشنی میں سیاسی نظام تشکیل دینا چا ہا اور اسے اسلام کی واحد تعبیر قرار دیا۔یوں اسلامی ریاست کا تصور پاپائیت میں بدل گیا کیوں کہ اس میں مذہبی تعبیر کا حق ایک خاص گروہ کے لیے خاص ہوگیا۔اسی کانام پاپائیت ہے۔

قرار دارِ مقاصد تک حالات یہ نہیں تھے۔اس قرار داد نے ریاست کی نظری سمت کا تعین کردیا اور حکومت کا حق جمہور کو دے دیا۔اس کا منطقی نتیجہ ۱۹۷۳ء کا آئین ہے۔یہ ایک ایسی متوازن دستاویز ہے جس کے بعد مذہبی فرقہ واریت کے سیاسی ظہور کا امکان ختم ہو گیا۔اگر یہاں مذہبی سیاسی جماعتیں نہ ہوتیں تو مذہب کے نام پر کوئی سیاسی قضیہ پیدا نہ ہوتا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہاں سیکولرزم کا غلبہ ہوجاتا۔میرے نزدیک ایک جمہوری پاکستان کبھی سیکولر نہیں ہو سکتا۔ جب تک یہاں دینی مدارس ،علمی تحقیق کے مراکز اور دعوتی تحریکیں موجود ہیں،قوم کا نظری تشخص تبدیل نہیں ہوگا۔ اس کے لیے مذہبی سیاست کی ضروت نہیں۔یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم سے لے کر آج تک،کسی سیاسی قیادت کا مذہبی مسلک ہمارے ہاں کبھی زیرِ بحث نہیں ہوا۔اس کے بر خلاف ایران میں حکومت مذہبی لوگوں کے ہاتھ میں آئی تو ریاست کو آئینی طور پر ایک خاص فقہ سے منسوب کر دیا گیا۔یہی کچھ افغانستان میں ہوا جب وہاں ایک مذہبی گروہ برسراقتدار آیا۔

ریاست اور مذہب کا باہمی تعلق جس طرح پاکستان میں،آئین اور سماج کی سطح پر سامنے آیا ہے،وہ پورے عالمِ اسلام کے لیے مثال بن سکتا ہے۔اگر تمام مسلمان ملک جمہوری ہو جائیں اور قرآن و سنت کی لازمی راہنمائی پر مبنی ایک عمرانی معاہدے کو اختیارکر لیں تو مسلکی و فقہی اختلاف اجتماعیت پر اثر انداز نہیں ہوگا۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ عالمِ اسلام پر اپنا اثر ڈالنے کی بجائے ،ہم دوسروں کا اثر قبول کر رہے ہیں۔ 

(بشکریہ روزنامہ اوصاف)

آراء و افکار

(مئی ۲۰۱۱ء)

تلاش

Flag Counter