(توہین رسالت پر قتل کی سزا کی فقہی حیثیت کیا ہے اور کیا مجرم کے لیے کسی درجے میں توبہ کی گنجائش ہے؟ اس کے بارے میں حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی مدظلہ العالی کا موقف ’الشریعہ‘ کے ایک گزشتہ شمارے میں پیش کیا جا چکا ہے۔ جامعہ مدنیہ کریم پارک لاہور کے ترجمان ماہنامہ ’’الحامد‘‘ نے مارچ ۲۰۱۱ء کے شمارے میں اسی سلسلے میں حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی دامت برکاتہم (صدر دار العلوم کراچی) کا مضمون شائع کیا ہے جو ’’الحامد‘‘ کے شکریے کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ مدیر)
توہین رسالت کے سلسلے میں مسلمان کا حکم
یہ مسئلہ تو اتفاقی ہے کہ اگر کوئی مسلمان شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے اور توہین رسالت کا مرتکب ہو جائے تو اس سے وہ کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہو جائے گا اور جرم ثابت ہونے پر اس کو قتل کیا جائے گا، لیکن قتل کی یہ سزا حکومت وقت دے گی، عوام کو اس کا اختیار حاصل نہیں۔ یہ شق اجماعی ہے اور اس کے دلائل نہایت واضح ہیں اور خود یہ عمل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے کہ آپ نے اپنی حیات مبارکہ میں کئی ایسے بدبختوں کو موت کی سزا دی ہے جن کے قصے کتب حدیث اور سیرت میں مشہور ہیں۔
۱۔ عن علی رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من سب نبیا قتل ومن سب اصحابہ جلد (الصارم المسلول، ص ۹۲)
۲۔ فی اکفار الملحدین للعلامۃ الکاشمیری رحمہ اللہ تعالی: فی کتاب الخراج: اجمع المسلمون علی ان شاتمہ صلی اللہ علیہ وسلم کافر ومن شک فی عذابہ وکفرہ کفر ’’شفا‘‘ (ص ۵۴)
اور اس کا یہ کفر ’’ارتداد‘‘ کے حکم میں ہوگا۔
۳۔ فی رسائل ابن عابدین: الساب المسلم مرتد قطعا الخ (ص ۳۱۹)
۴۔ وفیہا: من سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم او ابغضہ کان ذلک منہ ردۃ الخ (ص ۳۲۵)
۵۔ وفی الدرالمختار : حکمہ حکم المرتد الخ ( ۴/۲۳۴)
۶۔ وفی فتح الباری: ومن طریق الولید بن مسلم عن الاوزاعی ومالک فی المسلم ھی ردۃ الخ وغیر ذلک من الکتب الفقہیۃ۔
اور مرتد اگر مرد ہو اور وہ سچی توبہ نہ کرے تو اس کی سزا بھی بحکم نصوص قطعی قتل ہی ہے۔ اس سے بھی معلو م ہوتا ہے کہ مرتد کی سزا قتل ہے۔
اس سلسلہ میں ذمی کا حکم
توہین رسالت کا مذکورہ حکم مسلمان کے بارے میں اجماعی ہے، البتہ ذمی کے بارے میں معمولی سا اختلاف ہے اور توہین رسالت کا مسئلہ زیادہ تر چونکہ غیر مسلموں کی طرف سے پیش آتا ہے، اس لیے اس کا خلاصہ ’’الصارم المسلول‘‘ سے ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:
(۱) امام مالک،اہل مدینہ، امام احمد بن حنبل، فقہاء حدیث، خود امام شافعیؒ کے نزدیک ذمی کو بھی مسلمان کی طرح توہین رسالت کی وجہ سے قتل کیا جائے گا۔
(۲) امام شافعیؒ کے اصحاب کے اس میں مختلف اقوال ہیں۔ جہاں تک امام ابوحنیفہ اوران کے اصحاب کا مذہب ہے تووہ درج ذیل عبارات سے واضح ہے او ر وہ یہ کہ توہین رسالت کا مرتکب اگر ذمی ہے تو پہلی دفعہ میں اس کو قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ امام اس پر مناسب تعزیر جاری کرے گا۔ البتہ اگر وہ اس جرم کا ارتکاب مکرر کرے تو اس صورت میں اس کو قتل کیا جائے گا۔ عربی عبارات درج ذیل ہیں:
۷۔ وتحریر القول فیہ ان الساب ان کا ن مسلما فانہ یکفر ویقتل بغیر خلاف وھو مذہب الائمۃ الاربعۃ وغیرہم وقد تقدم ممن حکی الاجماع علی ذلک اسحاق بن راہویہ وغیرہ، وان کان ذمیا فانہ یقتل ایضاً فی مذہب مالک واھل المدینۃ وسیاتی حکایۃ الفاظہم، وھو مذہب احمد وفقہاء الحدیث، واما الشافعی فالمنصوص عنہ نفسہ ان عہدہ ینتقض بسب النبی صلی اللہ علیہ وسلم وانہ یقتل ہکذا حکاہ ابن المنذر والخطابی وغیرہما۔
واما ابوحنیفۃ واصحابہ فقالوا: لا ینتقض العہد بالسب ولا یقتل الذمی بذلک لکن یعزر علی اظہارہ ذلک کما یعزر علی اظہار المنکرات التی لیس لہم فعلہا من اظہار اصواتہم بکتابہم ونحو ذلک وحکاہ الطحاوی عن الثوری ومن اصولہم ان مالا قتل فیہ عندہم مثل القتل بالمثقل والجماع فی غیر القبل اذا تکرر فللام ان یقتل ...... لہذا افتی کثرہم بقتل من اکثر من سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم من اہل الذمۃ وان اسلم بعد اخذہ، وقالوا: یقتل سیاسۃ الخ (ص۳ تا ۱۱)
مسلمان مرتکب توہین کی توبہ کا حکم
اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ توہین رسالت کے مرتکب شخص کی توبہ قابل قبول ہے یا نہیں او راس توبہ سے اس کے قتل کی سزا معاف ہو جائے گی یا نہیں؟ اگر قابل قبول ہے تو کب؟ اور توبہ کی نوعیت کیا ہو گی؟ اس کو ’’استتبابہ‘‘ کہتے ہیں۔
اس میں اختلاف ہے اور یہ اختلاف اس بات پر مبنی ہے کہ اس شخص کا قتل ’’حداً‘‘ ہے یا ’’ردۃ‘‘ ہے، چنانچہ جو حضرات کہتے ہیں اس کا قتل ردۃً ہے، وہ استتابہ کے قائل ہیں او رجو حضرات کہتے ہیں کہ اس کا قتل حداً ہے، ان کے نزدیک اس میں عفو کی کوئی صورت نہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ شخص سچی توبہ کرے تو توبہ کرنے سے اس کا آخرت کا معاملہ سدھر جائے گا، البتہ دنیا میں اس کی سزائے قتل ساقط نہیں ہوگی، خواہ گرفتاری سے قبل ہو یا گرفتاری کے بعد ہو، کیوں کہ حد ثابت ہونے کے بعد ساقط نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی اس کو معاف کر سکتا ہے، چنانچہ حضرت ا بن مسعودؓ سے یہی مروی ہے:
۸۔ لا ینبغی لوال ان یوتی بحد الا اقامہ (مصنف عبدالرزاق وغیرہ :۷/۳۷۰)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی صراحۃً منقول ہے:
۹۔ لا عفو فی الحدود عن شئ منہابعد ان تبلغ الامام
۱۰۔ فی اکفار الملحدین : فی قبول التوبۃ فی احکام الدنیا اختلاف وتقبل فیما بینہ وبین اللہ تعالیٰ الخ (ص ۵۴)
۱۱۔ فی رسائل ابن عابدین: وممن قال ذلک مالک بن انس واللیث واحمد واسحاق وھو مقتضی قول ابی بکر رضی اللہ عنہ ولا تقبل توبتہ عند ھولاء وبمثلہ قال ابوحنیفۃ واصحابہ والثوری واھل الکوفۃ والاوزاعی فی المسلم لکنہم قالوا: ھی ردۃ الخ
۱۲۔ وفیہا : وقال فی محل آخر قال ابوحنیفۃ واصحابہ: من برئ من محمد اوکذب بہ فھو مرتد حلال الدم الا ان یرجع الخ
۱۳۔ وفیہا : وبعد فاعلم ان مشہور مذہب مالک واصحابہ وقول السلف وجمہور العلماء قتلہ حداً لا کفراً ان اظہر التوبۃ منہ، ولہذا لا تقبل توبتہ ولا تنفعہ استقالتہ وحکمہ حکم الزندیق، سواء کانت توبتہ بعد القدرۃ علیہ والشہادۃ علی قولہ او جاء تائباً من قبل نفسہ لانہ حد وجب لاتسقطہ التوبۃ کسائر الحدود، قال القابسی: اذا اقر بالسب وتاب منہ واظہر التوبۃ قتل بالسب لانہ ھو حد، وقال محمد بن ابی زید مثلہ واما مابینہ وبین اللہ تعالیٰ فتوبتہ تنفعہ ، وقال ابن سحنون: من شتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم من الموحدین ثم تاب لم تزل توبتہ عنہ القتل۔
۱۴۔ وفیہا بعد التفصیل الطویل: اقول: فقد تحرر من ذلک بشہادۃ ھولاء العدول الثقات الموتمین ان مذہب ابی حنیفۃ قبول التوبۃ کمذہب الشافعی، وفی الصارم المسلول لشیخ الاسلام ابن تیمیہ قال: وکذلک ذکر جماعۃ آخرون من اصحابنا انہ یقتل ساب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ولا تقبل توبتہ سواء کان مسلما او کافرا وعامۃ ھولاء لما ذکروا المسئلۃ قالوا: خلافاً لابی حنیفۃ والشافعی، وقولہما ای ابی حنیفۃ والشافعی: ان کان مسلماً یستتاب، فان تاب والاقتل کالمرتد وان کان ذمیا ..... الخ
۱۵۔ وفیہا: وقال ابویوسفؒ وایما رجل مسلم سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او کذبہ او عابہ او تنقصہ فقد کفر باللہ تعالیٰ وبانت منہ امراتہ فان تاب والا قتل وکذلک المراۃ الا ان اباحنیفۃ قال: لا تقتل المراۃ علی الاسلام انتہیٰ بلفظہ وحروفہ الخ (ماخوذۃ من رسالۃ تنبیہ الولاۃ والحکام علی احکام شاتم خیر الانام المتضمنۃ لرسائل ابن عابدین رحمہ اللہ تعالیٰ)
۱۶۔ وفی الشرح الصغیر للددیر: (وقتل الزندیق) بعد الاطلاع علیہ بلااستتابۃ وھو من اسر الکفر واظہر الاسلام وکان یسمٰی فی زمن الرسول صلی اللہ علیہ وسلم منافقاً (بلا قبول توبۃ) من حیث قتلہ، ولا بدمنہ من توبتہ لکن ان تاب قتل حداً والا کفراً ( الا ا ن یجء) قبل الاطلاع علیہ فلا یقتل ....کالساب للنبی مجمع علیہ فیقتل بدون استتابۃ ولاتقبل توبتہ ثم ان تاب قتل حداً ولا یعذر بجھل لانہ لایعذر احدفی الکفربالجہل (اوالسکر) حراما (او تہور) کثرۃ الکلام بدون ضبط ولا یقبل منہ سبق اللسان او غیظ (او بقولہ: اردت کذا) الخ ( ۴/ ۴۳۸)
وفی استتابۃ المسلم خلاف، ہل یستتاب فان تاب ترک والا قتل او یقتل لو تاب والراجح الاول۔
وفی حاشیۃ علی الشرح الصغیر للصاوی: (قولہ: والراجح الاول) ای قبول التوبۃ کما ھو مذہب الشافعی الخ ( ۴/۴۴۰)
ان عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلہ میں اختلاف ہے او را س کا حاصل یہ ہے کہ شافعیہ اور حنفیہ کے ہاں اس کی توبہ قبول ہے اور اس کی وجہ سے اس سے قتل کی سزا ساقط ہو جائے گی اور امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ کے نزدیک اس کی توبہ دنیا کے حق میں قبول نہیں ہو گی اور توبہ کی وجہ سے اس کی سزا قتل ساقط نہیں ہوگی۔
امام مالک اور ان کے اصحاب کا مذہب مشہور یہی نقل کیا گیا ہے جیسا کہ عبارت نمبر ۱۳ سے واضح ہے، لیکن مالکیہ کی مشہور کتاب الشرح الصغیر اوراس کے حاشیہ میں ترجیح قبول توبہ کو دی جائے گی۔ ملاحظہ ہو : عبارت نمبر ۱۶۔
البتہ بزازیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حنفیہ کے ہاں بھی اس کو حد کے طورپر قتل کیا جائے گا اور بزازیہ کی اتباع میں متاخرین حنفیہ نے بھی اس قول کو ذکر کیا ہے، لیکن علامہ شامیؒ نے اس کی سخت تردید کی ہے اور اس کو غلط فہمی قرار دیا ہے ۔ لہٰذا اس سلسلہ میں اس قول پر اعتماد نہ کیا جائے، چنانچہ ان کی عبارت ملاحظہ ہو:
۱۷۔ فی الشامیۃ بعد بحث طویل یرد علی البزازیۃ: فقد علم ان البزازی قد تساہل غایۃ التساہل فی نقل ہذہ المسالۃ ولیتہ حیث لم ینقلہا عن احد من اہل مذہبنا بل اسند الیٰ مافی الشفاء والصارم امعن النظر فی المراجعۃ حتی یری ماھو صریح فی خلاف ما فہمہ ممن نقل المسالۃ عنہم ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم، فلقد صار ہذا التساھل سبباً لوقوع عامۃ المتاخرین عنہ فی الخطا حیث اعتمدوا علی نقلہ وقلدوہ فی ذلک ولم ینقل احد منہم المسئلۃ عن کتاب من کتب الحنفیۃ بل المنقول قبل حدوث ھذاالقول من البزازی فی کتبنا وکتب غیرنا خلافہ (۴؍۲۳۴) کذا فی شرح عقو درسم المفتی لابن عابدین (ص۳۲)
ذمی مرتکب توہین کی توبہ کا حکم
اس میں تین اقوال مشہور ہیں:
ا۔ ذمی کو بہرحال قتل کیا جائے گا، اگرچہ گرفتاری کے بعد، توبہ بھی کر لے۔ یہ امام احمد اور امام مالک کا مشہور موقف ہے اور امام شافعیؒ کا ایک قول ہے۔
۲۔ ذمی اگر توبہ کرے اور توبہ کامطلب یہ ہے کہ مسلمان ہو جائے تواس کی یہ توبہ قبول کی جائے گی ۔ یہ امام احمد اور امام مالک رحمہما اللہ سے ظاہرالروایۃ ہے۔
۳۔ ذمی کو قتل کیا جائے گا مگر یہ کہ یا تو اسلام لے آئے یا حقیقی ذمی بن جائے اور اسی پر امام شافعی کا ظاہر کلام دلالت کرتاہے۔ (خلاصہ ماخوذہ از الصارم المسلول ص۳۳۰)
ان تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ استتا بہ کے مسئلہ میں ائمہ مجتہدین کا اختلاف ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ، امام شافعی اور مالکیہ کے راجح قول کے مطابق مسلمان کی توبہ قابل قبول نہیں اور ذمی کی توبہ کے بارے میں مذکورہ بالا تین اقوال ہیں۔ اس لیے زمانہ کے حالات اور تقاضوں کے مطابق حکومت وقت ان دو میں سے کسی بھی موقف کے مطابق قانون بنا سکتی ہے، لیکن شان رسالت اور ناموس رسالت کی انتہائی عظمت اور جلالت شان کا تحفظ بہرحال انتہائی ضروری ہے، اور اگر قانون میں توبہ کی گنجائش نکالی گئی تو توبہ کا وہی طریقہ کا ر اختیار کرنا ہوگا جو اس سنگین ترین جرم کے مطابق ہو جس کا طریقہ ذیل ہے:
توبہ کا طریقہ
(۱) مذکورہ بالا تفصیلات سے واضح ہو چکا ہے کہ توہین رسالت کا مرتکب شخص بالاتفاق دائرۂ اسلام سے خارج ہو چکاہے، لہٰذا توبہ کی صورت میں اس کے لیے سربرآوردہ علما وعوام کے مجمع میں فوراً تجدید ایمان کرنی لازم ہو گی اور اس کا اسی قدر اعلان ہوگا جس قدر ان حرکتوں کا اعلان ہو چکا تھا۔
(۲) چونکہ کافر ہونے کی وجہ سے اس کا نکاح ختم ہو چکا تھا، اس لیے اسلام لاتے ہی فوراً نکاح کی تجدید کرنی لازم ہوگی اوراس کا اعلان بھی اسی طرح ہو گا جس طرح تجدید ایمان کا اعلان کیا تھا۔
(۳) یہ شخص گزشتہ جرم پر انتہائی شرمندہ رہے گا۔
(۴) اس وقت انتہائی عاجزی اور گریہ وزاری سے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے۔
(۵) آئندہ کے لیے ان سب باتوں کے نہ کرنے کا پختہ عہد کرے۔
(۶) توہین رسالت پر مشتمل مواد اگر کتاب اور تحریری شکل میں ہو تو اس صورت میں اس کے سارے موجود نسخے جلائے اور جہاں جہاں یہ کتاب یا رسالہ پہنچا ہے، ہر ممکن طریقہ سے وہاں سے اس کو ختم کرانے کی کوشش کرے۔ اخبارات کے ذریعے اس کا عام اعلان کرے کہ میں اس کتاب یا رسالہ سے براء ت کا مکمل طریقہ سے اعلان کرتا ہوں، لہٰذا اس کتاب کو جلایا جائے یا کم از کم اس سے میرے نام کا ورق جلایا جائے۔