سورۂ زخرف میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
أَہُمْ یَقْسِمُونَ رَحْمَۃَ رَبِّکَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْْنَہُم مَّعِیْشَتَہُمْ فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَتَّخِذَ بَعْضُہُم بَعْضاً سُخْرِیّاً وَرَحْمَتُ رَبِّکَ خَیْْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُونَ (زخرف، ۳۲)
اس آیت میں لِیَتَّخِذَ بَعْضُہُم بَعْضاً سُخْرِیّاً کے الفاظ ہماری بحث کا اصل موضوع ہیں اور انھی سے ہمارے مضمون کا عنوان متعین ہوا ہے۔ مذکورہ بالا الفاظ کا معنی بالعموم یہ کیا جاتا ہے:
’’تاکہ ایک دوسرے کو اپنے کام میں مدد کے لیے لے سکیں۔‘‘ (ابو الکلام آزادؒ ) ۱
’’تاکہ وہ ایک دوسرے سے کام لیں۔‘‘ (مولانا وحید الدین خان) ۲
تاہم ان الفاظ کا یہ معنی بھی کیا گیا ہے، جسے میں یہاں خصوصی معنی سے تعبیر کرتا ہوں:
’’کہ ان میں سے ایک دوسرے کی ہنسی بنائے۔‘‘ (مولانا احمد رضا خان بریلویؒ ) ۳
’’کہ انجام کار یہ ایک دوسرے کا مذاق اڑائیں۔‘‘ (مولانا غلام رسول سعیدی) ۴
زیر نظر مضمون میں ہم اس فقرے کو آیت کے محل میں اور آیت کو اس کے سیاق وسباق میں دیکھیں گے تاکہ معروضی طور پر عطر حقیقت کشید ہو سکے اور اس فقرے کی صحیح تعیین راجح شکل میں متعین ہو سکے۔
اس آیت کا ایک ترجمہ حسب ذیل ہے:
’’کیا یہ لوگ تیرے رب کی رحمت کو تقسیم کرتے ہیں؟ دنیا کی زندگی میں ان کی روزی کو تو ہم نے تقسیم کیا ہے اور ہم نے ایک کو دوسرے پرفوقیت دی ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے کام لیں اور تیرے رب کی رحمت اس سے بہتر ہے جو یہ جمع کر رہے ہیں۔‘‘ ۵
اور اب ثانی الذکر یعنی خصوصی معنی کے تحت ترجمہ ملاحظہ ہو:
’’کیا یہ (کفار) آپ کے لیے رب کی رحمت کو تقسیم کرتے ہیں؟ ہم نے ان کی دنیاوی زندگی میں ان کی روزی تقسیم کی ہے اور ہم نے دنیاوی روزی میں بعض کو بعض پر کئی درجے فوقیت دی ہے کہ انجام کار یہ ایک دوسرے کا مذاق اڑائیں اور آپ کے رب کی رحمت اس مال سے بہتر ہے جس کو یہ جمع کر رہے ہیں۔‘‘ ۶
اول الذکر ترجمے میں جو کہا گیا ہے، اس کی تفسیر یہ ہے:
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوت ورسالت پر کفار نے یہ اعتراض کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس منصب کے لیے کسی مال دار آدمی کو کیوں نہ چنا؟ اسی تناظر میں کفار کا ذکر صیغہ غائب میں کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ (اے رسول محترم!) تیرے پروردگار کی تقسیم کیا ان کے ہاتھ میں ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں، بلکہ دنیوی زندگی کی روزی کی تقسیم بھی ہمارے ہاتھ میں ہے اور ہم نے اصول آزمائش کے تحت ایک کو دوسرے پر فوقیت دی ہے۔ یہ مدارج فوقیت اس لیے قائم کیے گئے ہیں کہ لوگ ایک دوسرے سے خدمت واجرت اور تعاون کے کام لے سکیں اور (اے رسول محترم) تیرے پروردگار کی رحمت ان کی جمع جتھا سے بہتر ہے۔
مولانا امین احسن اصلاحی نے اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:
’’..... یہ امر یہاں واضح رہے کہ یہ دنیا اللہ تعالیٰ نے آزمائش کے لیے بنائی ہے۔ اس وجہ سے اس کا نظام اس نے اس طرح کا رکھا ہے کہ اس میں ہر شخص دوسروں کا محتاج بھی ہے اور محتاج الیہ بھی۔ بڑے سے بڑا بادشاہ بھی دوسروں کا محتاج ہے اور چھوٹے سے چھوٹا آدمی بھی اس میں محتاج الیہ ہے۔ یہاں کوئی بھی شخص دوسروں سے مستغنی نہیں ہے اور کوئی شخص بھی ایسا نہیں کہ معاشرے میں کسی نہ کسی پہلو سے اس کی افادیت نہ ہو......۷
اسی تصور کو ذرا مخصوص اور ایڈوانس شکل میں مفتی محمد تقی عثمانی نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے:
’’ہم نے ان کے درمیان معیشت کو تقسیم کیا ہے اور ان میں سے بعض کو بعض پر درجات میں فوقیت دی ہے تاکہ ان میں سے ایک، دوسرے سے کام لے سکے۔
ظاہر ہے کہ ایک دوسرے سے کام اس طرح لیا جائے گا کہ کام لینے والا کام کی طلب ہے اور کام دینے والا کام کی رسد ہے۔ اس طلب ورسد کی باہمی کشمکش اور باہمی امتزاج سے ایک متوازن معیشت وجود میں آتی ہے۔‘‘ ۸
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مفتی تقی عثمانی صاحب نے اس آیت سے حیرت انگیز طو رپر طلب ورسد کا معاشی قانون دریافت فرمایا ہے، حالانکہ اس آیت سے نہ قانون طلب کشید ہوتا ہے اور نہ قانون رسد۔ بات اصل میں یہ ہے کہ قرآن کی آیتوں سے جزء اً جزء اً جب ا س طرح استدلال کیا جاتا ہے تو پھر ایسا ہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے، البتہ استقرا کے اسلوب پر قرآن مجید سے استدلال کرنے کا نتیجہ اس سے قطعی مختلف ہوتا ہے۔ اس لیے مجتہد کو چاہیے کہ وہ قرآن مجید کو بحیثیت مجموعی ملحوظ رکھ کر استدلال کرے تاکہ امکان خطا کم سے کم رہ جائے۔ اس ضمن میں تصریف آیات اور نظم قرآن کا اصول اگر پیش نظر رہے تو مجتہد قرآن کی مراد تک بہ آسانی پہنچ سکتا ہے۔
اب ہم آیہ زیر بحث کے سیاق وسباق کو دیکھتے ہیں تاکہ آیت اپنے مفہوم کو خود متعین کر دے۔ آیت زیر بحث سے قبل یہ فرمایا گیا ہے:
وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ ہَذَا الْقُرْآنُ عَلَی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْْنِ عَظِیْمٍ (زخرف ۳۱)
’’اور انھوں نے کہا: یہ قرآن ان دو شہروں (مکہ اور طائف) کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہ نازل ہوا؟‘‘
اس کی تفسیر یہ ہے کہ کفار مکہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت پر اعتراض کرتے ہوئے اپنے مزعومہ خیال کے مطابق دنیاوی اعتبار سے اسے کسی بڑے آدمی کا استحقاق سمجھا تھا۔ ان کے نزدیک حضور اس رحمت کے سزاوار نہ تھے۔ ظاہر ہے کہ دنیوی اعتبار سے کسی آدمی کا بڑا ہونا اس کی معیشت سے وابستہ ہوتا ہے۔ معیشت میں جس درجے کی وسعت وکشادگی یافخر وطمطراق پایا جاتا ہے، آدمی کی شخصیت اسی درجے کی عظمت ورفعت کی حامل سمجھی جاتی ہے۔
نبوت ورسالت کا انتخاب چونکہ دنیوی اکتساب کے میدانوں سے نہیں، بلکہ محض خداکی چاہت سے ہوتا ہے، اس لیے اسے معیشت سے وابستہ کرنا سفلی تخیل کے سوا کچھ نہیں۔ بایں طور اس آیت میں کفار کی جانب سے حضور علیہ السلام کا استخفاف مذکور ہوا ہے، اس لیے اگلی آیت میں رب تعالیٰ کی طرف سے یہ سوال اٹھایا گیا کہ کیا تیرے رب کی رحمت کو یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟ یہ استفہام دراصل کفار کے استخفاف کا منہ توڑ جواب ہے۔ پھر تقسیم رحمت اور تقسیم معیشت دونوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نظام قدرت وحکمت سے وابستہ کر کے استخفاف کرنے والوں کو سمجھایا کہ خدا کی تقسیم معیشت میں لوگوں کو جو متفاوت رکھا گیا ہے، وہ اس لیے نہیں کہ لوگ ایک دوسرے کا استہزا کریں اور مذاق اڑائیں، بلکہ اس لیے کہ وہ اسے خدا کی ایسی حکیمانہ تقسیم سے تعبیر کریں جس کے نتیجے میں عملی تعاون کی صورت پیدا ہو، یعنی معیشت کی فراوانی سے لوگوں کو مسخر کرنے کا جذبہ پیدا نہ ہو، کیونکہ اس جذبہ تسخیر سے لوگوں میں جاگیردارانہ اور وڈیرانہ ذہنیت پیدا ہوتی ہے اور استحصال کا رویہ جنم لیتا ہے۔ پھر اسی سوچ سے لوگوں کا تمسخر اڑایا جاتا ہے جیسا کہ آیت نمبر ۳۱ سے عیاں ہے۔
چنانچہ آیت نمبر ۳۲ کے زیر بحث فقرے کا صحیح محل وہ ہے جو مولانا احمد رضا خان بریلوی اور مولانا غلام رسول سعیدی کے تراجم سے واضح ہے، اس لیے کہ مولانا ابو الکلام آزاد اور مولانا وحید الدین خان کے ترجموں سے قرآن کی مقصدیت واضح نہیں ہوتی۔ عمومی تراجم کی رو سے جو تفسیریں کی گئی ہیں، اس سے معیشت میں متفاوت ہونے کے سبب مستقل بنیادوں پر بعض کو بعض کا مخدوم اور خادم ماننا پڑتا ہے اور یوں معاشی بنیاد پر ایک ایسا طبقاتی سماج وجود پذیر ہو جاتا ہے جسے قرآن کی تائید (Sanction) حاصل ہونے کے سبب مذہبی تقدس بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ پھر ظاہر ہے کہ اس طرح کے سماج میں معاشی تفریق وامتیاز کو خدا کی ایک ایسی تقسیم سمجھ لیا جاتا ہے کہ جسے قائم کرنا اور رکھنا خود خدا کا گویا مطالبہ قرار پاتا ہے، چنانچہ لیتخذ بعضہم بعضہم سخریا کے اس معنی کو ہر دور میں سرمایہ دارانہ نظم معیشت میں لازمی عنصر کے طور پر بیان کیا جاتا ہے اور اسے خدا کی تقسیم کا نام دے دیا جاتا ہے، جبکہ قرآن مجید کے عمومی مطالعہ سے اچھی طرح واضح ہوتا ہے کہ قرآن انسانی سماج کو سرمایہ دارانہ نظم معیشت سے بچانا چاہتا ہے۔ چنانچہ آیت زیر بحث سے اس طرح کا استدلال خود قران کے مقصود ومدعا کے خلاف استعمال ہوتا ہے۔ کم از کم قرآن کے استقرائی اسلوب سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے۔
آیت زیر بحث کے مابعد آیات میں جو مضمون آیا ہے، وہ بھی اسی مفہوم کا موید ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
وَلَوْلَا أَن یَکُونَ النَّاسُ أُمَّۃً وَاحِدَۃً لَجَعَلْنَا لِمَن یَکْفُرُ بِالرَّحْمَنِ لِبُیُوتِہِمْ سُقُفاً مِّن فَضَّۃٍ وَمَعَارِجَ عَلَیْْہَا یَظْہَرُونَ، وَلِبُیُوتِہِمْ أَبْوَاباً وَسُرُراً عَلَیْْہَا یَتَّکِؤُونَ، وَزُخْرُفاً وَإِن کُلُّ ذَلِکَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃُ عِندَ رَبِّکَ لِلْمُتَّقِیْنَ (زخرف ۳۳۔۳۵)
’’اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ سب لوگ ایک ہی طریقے کے ہو جائیں گے تو جو لوگ رحمان کا انکار کرتے ہیں، ان کے لیے ہم ان کے گھروں کی چھتیں چاندی کی بنا دیتے اور زینے بھی جن پر وہ چڑھتے ہیں، اور ان کے گھروں کے کواڑ بھی اور تخت بھی جن پر وہ تکیہ لگا کر بیٹھتے ہیں اور سونے کے ؟؟ بھی اور یہ چیزیں تو صرف دنیا کی زندگی کا سامان ہیں اور آخرت تیرے رب کے پاس متقیوں کے لیے ہے۔‘‘ ۹
ان آیات کی تفسیر میں مولانا وحید الدین نے لکھا ہے:
’’پیغمبر اسلام جب مکہ میں ظاہر ہوئے تو اس وقت وہ لوگوں کو ایک معمولی انسان نظر آتے تھے۔ لوگوں نے کہا کہ خدا کو اگر اپنا کوئی نمائندہ ہماری ہدایت کے لیے بھیجنا تھا تو اس نے عرب کی مرکزی بستیوں (مکہ اور طائف) کی کسی عظیم شخصیت کو اس کے لیے کیوں نہیں چنا۔ مگر یہ ان کی نظر کی کوتاہی تھی۔ انسان صرف حال کو دیکھ پاتا ہے، جبکہ پیغمبر اسلام کی عظمت کو سمجھنے کے لیے مستقبل کو دیکھنے والی نظر درکار تھی۔ چونکہ لوگوں کو اس قسم کی دور بیں نظر حاصل نہ تھی، وہ پیغمبر اسلام کی عظمت کو سمجھنے میں ناکام رہے۔
پیغمبر اسلام کو کم سمجھنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی زندگی میں مادی چیزوں کی رونق لوگوں کو دکھائی نہ دیتی تھی، مگر ان مادی چیزوں کی خدا کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ چیزیں خدا کی نظر میں اتنی غیر اہم ہیں کہ وہ چاہے تو لوگوں کو سونے چاندی کا ڈھیر دے دے، مگر خدا نے ایسا نہیں کیا کہ لوگ انھی چیزوں میں اٹک کر رہ جائیں گے۔ وہ اس سے آگے بڑھ کر حقیقت کو نہ پا سکیں گے۔‘‘ ۱۰
اس تفسیر نے واضح کر دیا ہے کہ کفار مکہ نے چونکہ حضور علیہ السلام کو معاشی طور پر ادنی آدمی سمجھا ہوا تھا، اس لیے وہ ان سے ہدایت کے طالب نہیں ہونا چاہتے تھے اور یہ ایک طرح سے ذات نبوی کا استخفاف تھا۔ پس اس جگہ اللہ تعالیٰ نے معاشی درجات میں فرق مراتب کو لوگوں کے مابین استخفاف واستہزا کا نہ صرف سبب قرار دیا بلکہ انھیں ایسا کرنے سے منع بھی کیا۔ مطلب یہ کہ لوگوں میں یہ فرق اس لیے نہیں رکھا گیا ہے کہ اسے بنیاد بنا کر لوگ ایک دوسرے کا مذاق اڑائیں۔ قرآن مجید کے اس مقصود ومدعا تک بہت کم مترجمین پہنچ پائے ہیں۔ عصر حاضر کے نامور عالم دین پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اپنے ترجمے میں اس مدعاے قرآنی کو بہت عمدگی سے بیان کیا ہے:
’’کیا آپ کے رب کی رحمت (نبوت) کو یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟ ہم ان کے درمیان دنیوی زندگی میں ان کے (اسباب) معیشت کو تقسیم کرتے ہیں اور ہم ہی ان میں سے بعض کو بعض پر (وسائل ودولت میں) درجات کی فوقیت دیتے ہیں۔ (کیا ہم یہ اس لیے کرتے ہیں) کہ ان میں بعض (جو امیر ہیں) بعض (غریبوں) کا مذاق اڑائیں؟ (یہ غربت کا تمسخر ہے کہ تم اس وجہ سے کسی کو رحمت نبوت کا حق دار ہی نہ سمجھو) اور آپ کے رب کی رحمت اس (دولت) سے بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے (اور گھمنڈ کرتے ہیں)۔‘‘ ۱۱
واضح ہو کہ اس فکر کی تائید شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے ترجمہ قرآن میں بھی موجود ہے:
’’...... وبلند مرتبہ ساختیم بعض ایشان را بعض تا تمسخر گیرد بعض ایشان بعضے را .....‘‘ ۱۲
آپ نے دیکھا کہ شاہ ولی اللہ کا ترجمہ تمسخر کے مفہوم پر مشتمل ہے۔ شاہ ولی اللہ سے پہلے یہ مفہوم امام قرطبیؒ کی تفسیر میں بھی موجود ہے: ’ہو من السخریۃ التی بمعنی الاستہزاء ای یستہزئ الغنی بالفقیر‘ ۱۳
امام قرطبی نے معروف معنی کے ساتھ سخریۃ کا یہ معنی بھی نقل کیا ہے جو استہزا کے مفہوم پر متضمن ہے، یعنی وہ توہین جو کوئی مال دار کسی غریب کی کرتا ہے۔
افسوس کہ یہ انقلابی مفہوم امت میں رائج اور شائع نہ ہو سکا اور شاید اس کا سبب جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ ذہنیت کا غلبہ واستیلا رہا، مگر اب لوگوں کا قرآنی شعور بڑھ رہا ہے۔ لوگ اپنے مسائل کا ادراک اور اس کا حل قرآنی افکار سے طے کرنا چاہتے ہیں، اس لیے جدید مترجمین میں قرآنی مقصدیت سے مالامال یہ توانا فکر روز بروز پروان چڑھ رہی ہے۔ ماضی قریب کے ایک بزرگ عالم دین علامہ احمد سعید کاظمیؒ کے ترجمے میں بھی یہ حسن فکر ونظر موجود ہے:
’’..... اور ہم نے (دنیوی نعمتوں میں) انھیں ایک دوسرے پر بدرجہا فوقیت عطا فرمائی تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے کا مذاق اڑائیں اور آپ کے رب کی رحمت اس چیز سے بہت بہتر ہے جسے وہ جمع کر رہے ہیں۔‘‘ ۱۴
آخر میں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ مقدم الذکر یعنی عمومی فکر کی رو سے جو تراجم کیے گئے ہیں، وہ بھی بلاشبہ امر واقعہ کے طور پر اپنے محل میں صحیح بیٹھتے ہیں، مگر اس امکان غالب کے ساتھ کہ اس میں ایسے واقعاتی شہادات موجود ہیں جن کی تعبیر وتفسیر مثبت ومنفی ہر دو طرح سے ممکن ہے، جبکہ موخر الذکر یعنی خصوصی فکر کی رو سے قرآن کے قاری کو ایک ایسا منہاج عطا ہوتا ہے جس کی انقلاب آفریں تعبیر وتفسیر اول وآخر مثبت ہی مثبت اور ہر طرح کی منفیت سے محفوظ ہے اور یہی اس فکر کا حسن وکمال ہے۔
حوالہ جات
۱ ترجمان القرآن، جلد سوم ص ۱۳۷، مرتبہ: غلام رسول مہر، شیخ غلام علی اینڈ سنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ، ۱۹۶۰ء
۲ تذکیر القرآن، جلد دوم، دار التذکیر، رحمن مارکیٹ، غزنی اسٹریٹ، اردو بازار، لاہور، ۲۰۰۵ء
۳ کنز الایمان، ناشر: المجدد احمد رضا اکیڈمی، کراچی ۱۹۷۶ء
۴ تبیان القرآن، فرید بک اسٹال، لاہور، ۲۰۰۵ء
۷ تدبر قرآن، جلد ہفتم ص ۲۲۶، فاران فاؤنڈیشن، لاہور ۱۹۸۸ء
۸ اسلام اور جدید معیشت وتجارت، ص ۴۲، ادارۃ المعارف کراچی، ۱۹۹۶ء
۱۱ عرفان القرآن، منہاج القرآن پبلی کیشنز، لاہور، اشاعت ہفت دہم، ۲۰۰۶ء
۱۲ فتح الرحمن، ناشر: الامیر الولید بن طلال بن عبد العزیز آل سعود، ۱۴۱۶ھ۔ ترجمہ کے حاشیہ میں یہ عبارت درج ہے: بچشم حقارت نگرد۔
۱۳ ابو عبد اللہ محمد بن احمد الانصاری القرطبی، الجامع لاحکام القرآن، الجزء السادس، الناشر: دار الکاتب العربی للطباعۃ والنشر بالقاہرۃ، ۱۳۸۷ھ/۱۹۶۷ء