(۲ اپریل ۲۰۰۹ کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں علما کی ایک پروقار تقریب سے حضرت مولانا مفتی محمد زاہد، حضرت مولانا مفتی محمد طیب اور حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب نے اہل علم کی ذمہ داریوں اور اکابر علماے دیوبند کے تصور علم کے مختلف پہلووں پر خطاب کیا۔ اکادمی کے رفقا مولانا محمد سلیمان اور مولانا ساجد مسعود نے انھیں صفحہ قرطاس پرمنتقل کیا ہے۔ ان کے شکریہ کے ساتھ یہ خطابات یہاں افادۂ عام کے لیے شائع کیے جا رہے ہیں۔ مدیر)
حضرت مولانا مفتی محمد زاہد
(استاذ الحدیث جامعہ اسلامیہ امدادیہ، فیصل آباد)
الحمد للہ رب العالمین، والصلوۃ والسلام علی خیر خلقہ سیدنا ومولانا محمد وعلی آلہ اجمعین ومن تبعہم باحسان الی یوم الدین۔ اما بعد!
قابل صد احترام علماے کرام!
اپنے جیسے طالب علموں کے سامنے بولنے کا تو روزمرہ کا معمول ہے۔ کام ہی یہی ہے، طالب علموں کے سامنے بولنا۔ لیکن علما اور اہل علم کی موجودگی میں کوئی بات کرنا ایک آزمایش سے کم نہیں۔ بہرحال چونکہ میرا نام بول دیا گیا ہے، اس لیے چند باتیں آپ کی خدمت میں عرض کروں گا۔
اللہ جل جلالہ کا ارشاد ہے جس کا ہم کثرت سے تذکر ہ کرتے رہتے ہیں: انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء، کہ اللہ کی خشیت اختیار کرنا، اللہ سے ڈرنا یہ صرف علما کا کام ہے۔ علم ہوگا تو خشیت ہو گی۔ اگر علم نہیں تو خشیت بھی نہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ جب ’’انما‘‘ کا استعمال ہوتا ہے تو جملہ کا آخری لفظ محصورعلیہ بن رہا ہوتا ہے، یعنی اس کے اندر حصر کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اگر یوں کہا جاتاکہ ’’انما یخشی العلماء اللہ‘‘ تو اس کا مطلب اور ہوتا اور ’’انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء‘‘ کا مطلب اورہے۔ اس میں ’’ العلماء‘‘ کا لفظ جملے کے آخرمیں ہے۔ اس کی مثال اہل بلاغت نے کچھ اس طرح دی ہے کہ ایک آدمی کہتا ہے ’’انما یعرف زید النحو‘‘ تو اس میں محصور علیہ نحو ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زید کو صرف نحو آتی ہے، اور اس کے سوا کچھ اور نہیں آتا۔ اگر اس میں تھوڑی سی ترتیب بدل دیں اور یوں کہیں کہ ’’انما یعرف النحو زید‘‘ تو مطلب بدل جائے۔ مطلب یہ ہوگا کہ نحو اگر کسی شخص کو آتی ہے تو وہ زید ہے۔ نحو جاننے والا وہی ہے، اور کوئی نہیں ہے۔ تو یہاں اللہ جل جلالہ نے فرمایا: ’’انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی خشیت اختیار کرنا، یہ کام ہی اہل علم کا ہے۔ علم کے ایک لازمی تقاضے کو اللہ جل جلالہ نے یہاں بیان فرمایاہے اور یہ بتلایا ہے کہ اگر اہل علم خشیت اختیار نہیں کر یں گے تو پھر اللہ کے بندوں میں سے کون ہے جو خشیت کو، اللہ سے ڈرنے کو اختیار کرے گا، تعلق مع اللہ کو اختیار کرے گا؟
اللہ جل جلالہ نے ہم سب کو علم کے ساتھ کسی نہ کسی درجے میں نسبت عطا کی ہے۔ علم کی نسبت مل جانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ جل جلالہ نے ہمیں وہ ظرف بنادیا ہے، ہمیں وہ پائپ لائن بنا دیا ہے جس سے گزر کر یہ علم اگلی نسلوں تک پہنچ جائے گا اور ظاہر ہے کہ جس طرح یہ بات ضروری ہے کہ پائپ کے اندر سے جو پانی گزر رہا ہے، جو چیزیں گزر رہی ہیں، وہ صاف شفاف ہوں، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ جس پائپ کے اندر سے گزر رہی ہے، وہ پائپ خود بھی صاف ہو۔ جہاں سے پائپ کے اندر پانی داخل ہو رہا ہے، جس ٹنکی سے داخل ہو رہا ہے، وہ ٹنکی بھی بہت صاف ستھری ہے، پانی بھی بہت نفیس ہے، لیکن پائپ کے ا ندر کوئی گڑبڑ ہے، پائپ کے اندر کوئی leakage ہے جس کی وجہ سے باہر کی کوئی چیز اس کے اندر مل رہی ہے، پائپ کے اندر زنگ لگا ہوا ہے تو ظاہر ہے کہ اس سے پانی جو آگے سپلائی ہو گا، اس میں بھی اس کے اثرات آئیں گے۔ اللہ جل جلالہ نے ہمیں اپنے بندوں تک دین پہنچانے کا ذریعہ بنایا ہے اور دین انتہائی قیمتی اور نفیس چیز ہے، لیکن اس کے باوجود بعض اوقات ہماری محنت کے وہ اثرات سامنے نہیں آتے جو ہونے چاہییں اور اسی طرح بعض اوقات ہم دین کے نام پر کام کرتے ہیں، لیکن اس کی وجہ سے اس کے نتیجے میں کوئی فتنہ اور فساد پیدا ہو جاتا ہے۔ مسائل دین سے حل ہوتے ہیں، لیکن بعض اوقات حل ہونے کی بجائے پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو اللہ کی طرف سے جو چیز آئی ہے، اس میں کوئی نقص نہیں ہو سکتا، کوئی کمی نہیں ہوسکتی، کوئی خامی نہیں ہو سکتی، اس میں کوئی ملاوٹ نہیں ہو سکتی ۔ ہم سب کو ظرف جو بنایاگیا ہے، ہمیں جو پائپ لائن بنایا گیا ہے، اس میں کہیں نہ کہیں خرابی آگئی ہے اور وہ خرابی نفسانیت کی ہوتی ہے، اپنی خواہشات کی ہوتی ہے، وہ تکبر کی ہوتی ہے، وہ عجب کی ہوتی ہے، وہ غرور کی ہوتی ہے۔ وہ اس طرح کی چیزیں جنہیں صوفیا کرام کی اصطلاح میں رذائل کہا جاتا ہے، یہ ہمارے اند رہوتی ہیں اور ان رذائل کے ساتھ جب ہم دین کو لے کر چلتے ہیں تو جہاں دین آگے پہنچتا ہے، بعض اوقات ہمارے ان رذائل کے اثرات بھی آگے پہنچتے ہیں، ہماری نفسانیت کے اثرات بھی دوسروں تک منتقل ہوتے ہیں۔ جہاں علم کی روشنی جاتی ہے، وہیں ہمارے اندر کی ظلمت بھی منتقل ہو رہی ہوتی ہے۔ جہاں علم کی مٹھاس اور شیرینی جا رہی ہوتی ہے، وہیں ہمارے ان رذائل کی کڑواہٹ بھی منتقل ہو رہی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دین کی بات کرنا چھوڑ دیں، دین کاعلم آگے پہنچانا چھوڑ دیں۔ نہیں، دین تو آگے پہنچانا ہی ہے۔ اگر اس میں کچھ ملاوٹ ہو بھی گئی تو ہو سکتاہے ہم سے دین کو لینے والے ملاوٹ کو الگ کر لیں۔ ایسا ہوتا ہے کہ اگلی نسل صاف کر لے، لیکن بہرحال ہماری یہ ذمہ داری ضرور ہے کہ ہم کوشش کریں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے ظرف بنا دیا، اتنی قیمتی اور اتنی نفیس چیز اس برتن میں ڈال دی ہے تو اس برتن کو صاف ستھرا اورپاک صاف رکھنے کا اہتمام کریں۔
آج جب حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی دامت برکاتہم ضلع گوجرانوالہ تشریف لائے تو انہوں نے کسی کو دعا دیتے ہوئے یہ بات ارشاد فرمائی کہ اللہ تعالیٰ تجھ کو فقہ الظاہر اور فقہ الباطن کا جامع بنائے۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر، صحابہ کرامؓ سے لے کر، تابعین سے لے کر ہمارے قریب کے زمانے کے بزرگوں تک ایک مشترکہ کوشش رہی ہے۔ ایک قدر مشترک سب کے اندر رہی ہے کہ جہاں وہ ظاہری علوم حاصل کرنے کا اہتمام کرتے تھے، وہیں اس بات کی بھی فکر انہیں رہتی تھی کہ اللہ کے ساتھ، جس ہستی کے علم کے ہم وارث ہیں، اس کے ساتھ ہمارا رشتہ و تعلق کیسا ہے۔ اللہ کی خشیت ہم میں کیسی ہے۔ اللہ کی یاد ہمارے اندر کیسی ہے اور ہمارے دل ودماغ نفسانیت اور رذائل سے کتنے پاک ہیں۔ خاص طور پر جو اہل علم میں کثرت سے آنے کا خطرہ ہوتا ہے، وہ حب جاہ کی بیماری ہے، خود پسندی کی بیماری ہے، تکبر کی بیماری ہے۔ اپنی رائے پر اصرار اور جمو د جس کو ’’اعجاب کل ذی رای برایہ‘‘ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعبیر کیا ہے، یہ بیماری ہے۔ تو میں اس میں سب سے پہلے اپنے آپ کو مخاطب کر رہا ہوں کہ میں اس کا سب سے زیادہ محتاج ہوں کہ وقتاً ووقتاً اس بات کا جائزہ لیتا رہوں، اپنا محاسبہ کرتا رہوں کہ وہ بیماری جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نشان دہی فرمائی ہے، یہ کہیں میرے اندر موجود تو نہیں ہے۔ میں نے فلاں موقع پر جو بات کہی، فلاں موقع پر جو طرز عمل اختیار کیا، فلاں موقع پر جو انداز اختیار کیا، جس کومیں بظاہر احقاق حق سمجھ رہا ہوں، جس کو میں بظاہر بہت اچھی بات سمجھ رہا ہوں، کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اس کے اندر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ بیماریوں میں سے کوئی بیماری بھی شامل ہو۔ انسان دوسروں کو دھوکا دے سکتا ہے، اپنے آپ کو دھوکا دینا بہت مشکل ہے۔ اگر واقعتا آدمی اپنا محاسبہ کرنے پر آجائے تو ’’بل الانسان علی نفسہ بصیرۃ‘‘۔ اس لیے اپنے بارے میں ہر انسان کو، خاص طور پر جس کو اللہ تعالیٰ نے دین کے ساتھ کوئی نسبت اور وابستگی عطا فرمائی ہے، محاسبہ، جائزہ، اپنے اوپرنظر رکھنے اور اپنی نگرانی پر توجہ دینی چاہیے۔ قرآن کریم کی روشنی میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کی روشنی میں جو ہم پڑھتے رہتے ہیں، یہ کام ہمیں کرتے رہنا چاہیے۔
بس ا نہی گزارشات پر میں اپنی بات کو ختم کرتا ہوں۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
حضرت مولانا مفتی محمد طیب
(صدر جامعہ اسلامیہ امدادیہ ،فیصل آباد)
اللھم صل علی سیدنا ومولانا محمد وعلی آل سیدنا ومولانا محمد وبارک وسلم
حضرات علماے کرام اور معزز حاضرین! اس وقت آپ ایک عظیم مقصد کے لیے یہاں جمع ہیں۔ آپ نے سنا کہ آپ کے شہر میں ایک عظیم فقیہ تشریف لا رہے ہیں اور آپ حضرات ان کی زیارت کے لیے اس وقت جمع ہیں۔ مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم آپ کے شہر میں اس وقت موجود ہیں۔ ان شاء اللہ اس نشست میں آپ سے مخاطب ہوں گے۔ اس وقت جب بھائی عمار صاحب نے کہاکہ کچھ بات کہہ دیجیے تو یہ خیال آیا کہ علما کی مجلس میں، علما کے سامنے بات کہی تو نہیں جا سکتی، ہاں کسی بات کا تکرار کیا جا سکتا ہے۔ اور ہمارے اساتذہ نے کہا ہے کہ سبق پڑھنے کے بعد تکرار میں جو ذہین طالب علم ہے، وہی بات کہے، یہ ٹھیک نہیں ہے۔ بلکہ کوشش کرنی چاہیے کہ جو کمزور طالب علم ہو، وہ بات کا اعادہ کرے، تاکہ اس کو استاد کا فیض زیادہ مل سکے اوراس کی کمزوری نکلے۔ تو میں بھی ایک آپ کا کمزور سا طالب علم بھائی ہوں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ’’ اختلاف امتی رحمۃ‘‘ یعنی میری امت کا اختلاف رحمت ہے ۔اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ اس امت میں اختلاف ضرور ہوگا اور دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اس امت میں جو اختلاف ہوگا، وہ اس امت کے لیے نقصان دہ نہیں ہوگا بلکہ امت کی مشکلات کے حل کا ذریعہ ہے۔ یہ ایک رحمت ہے اور اس میں ضمناً ایک تیسری بات کی طرف بھی اشار ہ ہے، وہ یہ ہے کہ امت میں علم اور تحقیق کا سلسلہ آگے چلے گا، کیوں کہ اختلاف وہیں آیا کرتا ہے جہاں علم اور تحقیق کاسلسلہ چل رہا ہو۔ جہاں سب ایک دوسرے کا اتباع کرنے والے ہوں، تقلید کرنے والے ہوں، وہاں اختلاف کی بھی کوئی شکل نہیں ہوتی، کوئی صورت نہیں ہوتی۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ آج کل نصاریٰ میں دینی بنیادوں میں ان کے ہاں کوئی اختلافات نہیں ہوتے، اس لیے کہ دین ان کے اندر موجود ہی نہیں ہے اور دین پر عمل ہی موجود نہیں ہے اوردینی مسائل پر تحقیق بھی موجود نہیں ہے، بلکہ یہ نقطہ نظر کہ زندگی کے ہر مرحلے میں دین پر عمل ہونا چاہیے، یہ نقطہ نظر بھی ان کے ہاں نہیں ہے۔ جب زندگی میں دین نہیں ہے تو زندگی کے مسائل پر دینی نقطہ نظر سے ان کے ہاں گفتگو بھی نہیں ہوگی۔ اور جہاں ان میں عمل کرنے کاجذبہ ہوگا اور یہ عقیدہ ہوگا کہ ہم زندگی کے ہر معاملے میں دین سے ہدایات لینے کے پابند ہیں، وہاں دین کے مسائل پڑھے جائیں گے، نئے مسائل بھی پیدا ہوتے رہیں گے، تحقیقات بھی ہوتی رہیں گی اورا ن کا حل بھی نکالا جا تا رہے گا، اور اس حل کو نکالتے ہوئے آپس میں اختلاف بھی ہوگا۔
اس اختلاف کی حیثیت کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اختلاف رحمت ہے، لیکن آج جو صورت حال ہمیں نظر آرہی ہے، وہ یہ ہے کہ رحمت کی بجائے ہمیں وہ زحمت نظر آرہی ہے اور اس اختلافات کی وجہ سے امت میں پریشانیاں بڑھ رہی ہیں۔ ایک تو عام لوگ کہا کرتے ہیں کہ جی علما کا آپس میں اختلاف ہے، ہم کدھر جائیں، کس کی بات کو لیں؟ اس کی بات کو لیںیا اس کی بات کو لیں؟ حالانکہ یہ جاہلانہ بات ہے۔ آپ کو جس عالم پر اعتماد ہے اور جس کی تحقیق کو آپ صحیح سمجھتے ہیں، آپ جس کا اتباع کرتے ہیں، اس مسئلہ میں بھی آپ اس کا اتباع کر لیجیے۔ لیکن یہ صورت حال صرف عوام کے سوال تک محدود نہیں ہے۔ صورت ہمارے علما کے اندر بھی ہے کہ ایک مسئلہ میں اگر اختلاف ہو جائے تواس اختلاف کے نتیجے میں گروہ بندی بن جاتی ہے۔ اس اختلاف کے نتیجے میں وہ مسئلہ ایک گروہ کی شناخت بن جاتا ہے۔ جس مسئلہ میں اختلاف ہوا، گروہ بندی بن گئی اور یہ کہا جاتا ہے کہ اس مسئلہ میںیہ فلاں گروپ سے تعلق رکھتا ہے، اس مسئلہ میں یہ فلاں گروپ سے تعلق رکھتاہے۔ بات صرف اس حد تک نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے کی تنقیص بھی ہوتی ہے اور اپنے آپ کو چڑھایا جاتا ہے اور دوسرے کو گرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ توآج امت کے اندر اختلاف جو ہے جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رحمت فرمایا ہے، یہ اختلاف رحمت کی بجائے آج عوام میں بھی مشکلات پیداکررہا ہے، یہی اختلاف آج کے علماے کرام میں بھی مشکلات پیدا کر رہا ہے اور بہت سارے مسائل ایسے ہیں جو نئے پیدا ہو رہے ہیں اور علما کا اختلاف ہوتا ہے، اس اختلاف کی وجہ سے باہمی منافرت ہوتی ہے۔ علما اور طلبہ دو حصوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں اوران سے اعتقاد کرنے والے جو دینی حلقے میں جڑے ہوئے لوگ ہیں، وہ بھی دوحصوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں۔ پھر جب یہ صورت حال پیدا ہوتی ہے تو کچھ درد دل رکھنے والے لوگ اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ اس اختلاف کوختم کیا جائے اور آپس میں بات چیت کرائی جائے اور بات چیت کے ذریعے مجلس میں بیٹھ کر کسی طریقے سے بات کو ختم کیا جائے۔ لیکن اس چیز کی کوشش کرتے ہیں تو اختلاف تو باقی رہتا ہے، ہاں اس اختلاف کی سنگینی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ کوشش ایک حدتک ٹھیک بھی ہے اور اختلاف جہاں پرہو، وہاں ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو دیکھاجائے اوراگر اپنی بات میں کوئی کمزوری نظر آئے، دوسرے کی بات میں صداقت نظر آئے تو دوسرے کی بات کو قبول کر لیاجائے۔ اس طریقے سے اختلاف کو ختم کیا جا سکتاہے، لیکن یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ جس مسئلہ میں اختلاف ہو، وہاں اختلاف ختم ہی ہو جائے۔
تو آج جو علما کا مسائل میں اختلاف پیدا ہو جاتا ہے اور تکلیف دہ صورت اختیار کر لیتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اختلاف میں ادب کا علم نہیں۔ یہ فقہامیں جو اختلافات ہیں، یہ اختلافات فقہا سے نہیں بلکہ یہ اختلافات صحابہ سے ہیں اور صحابہؓ سے فقہا میں آئے ہیں۔ ایک صاحب نے کہا کہ فقہانے امت کو چار حصو ں میں تقسیم کر دیا ۔ میں نے کہا، اللہ کے بندے! ایسا نہیں ہے، ہزاروں حصوں سے نکال کر ان چار حصو ں کی طرف لے آئے۔ صحابہ کرام کے دور میں بھی تو اختلافات مسائل میں زیادہ ہوتے تھے۔ تابعین کے زمانہ میں بھی زیادہ تھے۔ بعد میں یہ فقہیں مرتب ہونا شروع ہوئیں۔ بہت سے فقہا آئے لیکن ان فقہا کی فقہیں امت میں رائج ہوگئیں، اس طریقے سے صحابہ کا اختلاف سمٹ کر چار فقہوں میں آگیا۔ آپ جو علماے کرام ہیں، آثار صحابہ اور آ ثار تابعین کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں، و ہ یہ دیکھیں گے کہ وہ ان کو ہر بات میں مختلف آثار نظرآئیں گے۔ صحابہ کے فتاویٰ بھی مختلف نظر آئیں گے اور تابعین کے فتاویٰ بھی مختلف نظر آئیں گے، لیکن صحابہ کے دور میں اختلافی مسائل کی وجہ سے کہیں گروہ بندی ہوئی ہو، یہ آپ کو نظر نہیں آئے گی۔ مزاج کا اختلاف نظر آئے گا، ذوق کا اختلاف نظر آئے گا کہ کوفہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت علیؓ کا ذوق زیادہ تھا، وہ کوفہ میں آیا اور وہ اثرات فقہ حنفی میں آئے اور علماے احناف میں وہ منتقل ہوتے ہیں۔ ایک ذوق حضرت عبداللہ بن عمرؓ کاتھا جومدینہ میں تھا، وہ ذوق وہاں زیادہ پھیلا اورامام مالک ؒ کی فقہ پر اس کے زیادہ اثرات آتے ہیں۔ مکہ میں ایک ذوق تھا۔ جہاں جو صحابہ رہتے تھے، ان کے ذوق کا اختلاف تو تھا، اپنا رنگ تھا، ہر شہر میں جہاں وہ گئے ، ان کا اپنا رنگ تھا، وہ رنگ دوسروں کی طرف منتقل ہوا ہے ، لیکن اس کی وجہ سے گروہ بندی نہیں ہوئی۔ صحابہ، تابعین اور بعد کی چار فقہوں میں اختلاف تو تھا مگر گروہ بندی نہیں ہے۔ ہاںیہ ہوا ہے کہ کسی علاقے میں فقہ حنفی زیادہ پھیلی ہے تو وہاں حنفی زیادہ ہیں اور کسی علاقے میں فقہ شافعی کی تعلیمات زیادہ ہیں تو وہاں لوگ شافعی ہیں، اور ایسے بھی لوگ موجود ہیں جو امام ابوحنیفہ کے مداح اور ان کے حالات زندگی پر کتابیں لکھنے والے ہیں، لیکن امام شافعی کی فقہ پر عمل کرتے ہیں، اس لیے کہ جس علاقہ میں رہتے تھے، وہاں فقہ شافعی تھی۔ یہ مختلف علاقوں میں مختلف ملیں گی، لیکن یہ گروہ بندی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ بعض علاقوں میں ایک امام کی فقہ تھی، دوسرے علاقے میں دوسرے امام کی فقہ تھی اورا ن فقہا کی نسبت اور اثرات آج تک حرمین شریفین میں جا کر محسوس کریں گے۔ ہمارے ہاں ایک ایک مسئلہ کا اختلاف ہوتا ہے تو گروہ بند ی ہوجاتی ہے اور یہ چار فقہیں ہیں اور حرمین میںیہ جمع کی صورت میں آپ کو مل جائیں گی۔ ان فقہوں کے علما کے آپس میں تعلقات بھی ہوتے ہیں اور بطور شناخت کے حنبلی یا حنفی یا شافعی بھی کہہ دیتے ہیں، لیکن یہ اختلافی گروہ بندی نظر نہیں آتی۔ میں سوچتاہوں کہ یہ تو الگ الگ فقہوں پر کام کرنے والے ہیں، جب کہ ایک ہی شہرمیں رہتے ہیں اور ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھانے والے ہوتے ہیں، لیکن وہاں کوئی تعصب والی با ت نہیں ہوتی۔ ان کا نظریہ یہ ہے کہ فقہا کا اختلاف ادب کے دائرہ میں ہوا ہے، جیسا کہ اختلاف کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ آج تک ان فقہا کی فقہوں پر عمل کرنے والوں کے طرز زندگی میںیہ محسوس کیا جاتا ہے۔
ہمارے اکابر نے بھی ایک دوسرے سے مسائل میں اختلاف کیا ہے اور وہاں اختلاف کا طریقہ کار بھی بتایا ہے۔ میں چند مثالیں ذکر کر تاہوں۔ حضرت تھانوی ؒ کے ہاں سے جو فتاویٰ نکلتے تھے، وہ مختلف پرچوں میں شائع ہوجاتے تھے۔ اس کا ایک مقصد یہ ہوتاتھا کہ ان فتاویٰ سے اگر کسی کو اختلاف ہو یا کوئی غلطی محسو س کرے تو وہ مطلع کر دے۔ یعنی خود یہ حضرات چاہتے تھے کہ کوئی آدمی اختلاف کرے اور اگر کوئی غلطی ہوتو وہ اس کونکالے۔
ایک اور مثال دیکھیے۔ اس بات پر فقہاکا اتفاق ہے کہ وضو میں پاؤں، ننگے ہونے کی صورت میں دھو ئے جاتے ہیں جبکہ موزے کی صورت میں مسح کیا جاتا ہے، لیکن بعض صورتیں درمیانی سی آجاتی ہیں کہ جرابوں میں فقہاے اربعہ کے ہاں شاید اس کا جواز نہیں ہے، یعنی عام جرابوں پر مسح کرنے کے بارے میں جو ہم پہنتے ہیں۔ لیکن ا ن جرابوں پر چمڑا چڑھا لیا جائے تو وہاں کیا صورت حال ہے، وہاں اب کیا کرنا چاہیے؟ مسح کرنا جائز ہے یا نہیں؟ پھر چمڑا چڑھانے کی بھی مختلف صورتیں ہیں۔ ایک خاص صورت یہ ہے کہ نیچے تلوے پر چمڑا چڑھا لیا جائے اور اوپر کے حصے پر نہ چڑھا یاجائے۔ اس کو ’’جورب منعل‘‘ کہہ دیتے ہیں۔ اس پر مسح کرنا جائز ہے یا نہیں؟ فقہاے احناف کی عبارات بھی زیادہ واضح نہیں ہیں۔ اس لیے فقہا کی عبارات کی روشنی میں حضرت مدنی کی یہ رائے تھی کہ فقہ حنفی میں اس پر مسح کرنے کی گنجایش ہے۔ حضر ت مدنی ؒ دارالعلوم دیوبند کے صدر مدرس تھے اور آج کی اصطلاح میں شیخ الحدیث کہہ دیتے ہیں، لیکن اسی دارالعلوم دیوبند کے جو صدر مفتی تھے، مفتی محمد شفیعؒ ، ان کی رائے یہ تھی کہ ان پر مسح کرنا جائز نہیں ہے۔ اب یہ کوشش ہوتی ہے کہ اختلاف ختم ہو جائے تو حضر ت مدنی ؒ نے بھی یہ کوشش کی کہ یا تو مفتی محمد شفیع ؒ میری بات کے قائل ہوجائیں یا ان کی بات میری سمجھ میں آجائے۔ حضرت مدنی نے مفتی محمد شفیع ؒ سے کہا کہ میں دارالافتاء میں آپ کے پاس آجاؤں گا اور وہاں کتابیں بھی پڑی ہوں گی تو وہاں پر بیٹھ کر بات کرلیں گے۔ فرصت کے اوقات میں حضرت مدنیؒ تشریف لائے، ایک دن گفتگو ہوتی رہی، حوالے دیتے رہے ، مگر کوئی نتیجہ سامنے نہ آیا۔ دوسرا دن یہی صورت حال رہی، یہاں تک تیسرا دن بھی یہی صورت حال رہی۔ تین دن کی گفتگو کے بعد فرمایا کہ آپ کے موقف سے مجھے تسلی نہیں ہو رہی اور میرے موقف سے آپ کو شرح صدر نہیں ہو رہا تو اتفاق نہیں ہو سکتا۔ آپ اپنی رائے پر قائم رہیں اور میں اپنی رائے پر، حالانکہ وہ ایک ہی مدرسہ میں تھے اور اس بنیاد پر تقریر بھی کر سکتے تھے دارالحدیث میں بیٹھ کر، اور اس موضوع پر گفتگو بھی چلائی جا سکتی تھی۔ لیکن ایک موقع پر ایسا ہوا کہ حضرت مدنی ؒ کے ہاں مفتی محمد شفیع ؒ تشریف لائے اور وہاں پر اور حضرات بھی تھے تو نماز کا وقت آگیا۔ حضرت مدنیؒ نے بھی وضو کیا اور اسی جراب پر مسح کیا جس کے بارے میں اختلاف تھا۔ حضرت مدنیؒ بڑے تھے اور جہاں حضرت موجود ہوں تو حضرت ہی نے مصلے پر جانا تھا، لیکن اس موقع پر حضرت نے فرمایا کہ مولوی شفیع! آپ کی نماز تو میرے پیچھے ہوگی نہیں کیوں کہ جن جرابوں پرمیں نے مسح کیا ہے، ان پر مسح کرنا آپ کے نزدیک جائز نہیں ہے۔ آپ کے نزدیک میرا وضو پورا نہیں ہے، اس لیے آج میں نماز نہیں پڑھاؤں گا ۔ آپ نماز پڑھائیں تو اس موقع پر مفتی محمد شفیع نے نماز پڑھائی۔ یہ واقعہ مفتی عبدالشکور صاحب نے ایک موقع پر پڑھ کر سنایا، پھر رو کر فرمانے لگے کہ ہمارے اکابر نے اختلاف کیا ہے اور اختلاف کا طریقہ بھی سکھایا ہے۔
یہ تحریک خلافت کے زمانے کی بات ہے۔ تحریک خلافت کے بعض نکات پر حضرت تھانویؒ کو اختلاف تھا۔ بعض لوگوں نے تھانہ بھون کے قریب کانفر نس منعقد کرنی چاہی اور انہی مسائل پر کرنی چاہی تو حضرت شیخ الہند ؒ نے اس کو قبول نہیں کیا بلکہ فرمایا کہ ان کی رائے دوسری ہے، اس لیے ان کے شہر میں جاکر اس قسم کی کانفرنس کرنا مناسب نہیں ہے۔ اور وہ میرے شاگرد ہیں، ان کو کانفرنس میں آنے کا بوجھ محسوس ہوگا اوروہ میری وجہ سے آئیں گے۔ آنے اور نہ آنے، دونوں صورتوں میں ان کو مشکلات ہیں، لہٰذا اس قسم کی کانفرنس ان کے علاقے میں نہیں ہو سکتی۔ تو یہاں استاد اور شاگرد کا اختلاف ہے اور شاگرد اگر استاد کی رعایت کرے تو وہ بات ہوتی، لیکن یہاں استاد اپنے شاگرد کی رعایت کر رہا ہے۔
مولانا جلیل احمد صاحب علی گڑھی حضرت تھانوی ؒ کے ایک خادم خاص تھے۔ بہت زیادہ ان کے ساتھ بہت قرب تھا۔ حضرت کی خدمت بھی بہت کی۔ تھانہ بھون میں رہتے تھے، نواب اور جاگیردارتھے۔ کچھ زمینداری کے مسائل آگئے توحضرت تھانوی سے پوچھا۔ حضرت نے فرمایا کہ بھئی، فرصت نہیں ہے۔ آپ یہ سوال لکھ کر دیوبند بھیج دیں۔ دیوبند میں سوال گیا اور مفتی محمد شفیعؒ نے اس کا جواب لکھا۔ جب جواب آیا تو حضرت تھانوی کو اس سے شرح صدر اور اتفاق نہیں ہوا اور فرمانے لگے کہ میری رائے یہ نہیں ہے اور جب جمعرات کو مفتی محمد شفیع صاحب آئیں گے تو میں ان سے گفتگو کر لوں گا۔ جب مفتی صاحب آئے تو حضرت تھانوی نے گفتگو کی، لیکن مفتی صاحب کی رائے وہی رہی جو پہلے لکھ دی تھی اور حضرت تھانوی اس سے متفق نہیں تھے۔ اب پیر اور مرید کا اختلاف برقرار ہے۔ اس کو کیا کہہ رہے ہیں جس کاسوال ہے او ر جس کوعمل کے لیے ضرورت ہے؟ حضرت تھانویؒ نے فرمایا کہ اس کو بتا دیتے ہیں کہ میری رائے یہ ہے اور ان کی رائے یہ ہے۔ جس کی رائے پر چاہیں، وہ عمل کرلیں۔ وہ خود بھی عالم تھے اور حضرت تھانویؒ کے مرید تھے۔ ان کو بتایا گیا تو انہوں نے فرمایاکہ اگر آپ اجازت دیتے ہیں تو مجھے شرح صدر مفتی صاحب کی بات پر ہو رہی ہے، اس لیے میں عمل حضرت مفتی صاحب کی رائے پر کروں گا۔
اگر اختلاف ادب کے ساتھ ہوتو اس اختلاف کے ذریعے امت کے لیے رحمت کے دروازے کھلتے ہیں۔ یہ جو فقہا میں اختلاف ہوتا ہے، علما نے فرمایا کہ یہ ا یسا ہے جیسا کہ نصوص میں احادیث متعارض ہوتی ہیں۔ ہمیں متعارض نظر آتی ہیں، حالانکہ ان کا الگ الگ محمل ہوتا ہے اور کچھ خاص موقع پر جاکر سمجھ میں آتا ہے کہ اس حدیث کا یہ محمل ہے۔ خاص زمانہ میں جا کر سمجھ میں آتا ہے۔ ایسے ہی فقہا کے اختلافات میں جوا ن کی رائے ہوتی ہے توایک وقت میں ان کی بات سمجھ میں نہیں آرہی ہوتی، لیکن بعض علاقوں میں بعض خاص حالات میں جاکر پتہ چلتا ہے کہ نہیں، یہ جو بات اس فقہ نے کہی ہے، یہ ان حالات میں منطبق ہو رہی ہے۔ بہت سے مسائل میں مالکیہ کی رائے پر حنفیہ نے عمل کیا ہے۔ اور بہت سے مسائل ہیں جن میں اس وقت پوری دنیا میں امام ابوحنیفہ کی رائے پر عمل ہو رہا ہے۔ مثلاً عشا کی نماز کے وقت کے بارے میں تمام فقہا کی رائے یہ ہے کہ یہ شفق احمر سے شروع ہوتا ہے اور امام ابوحنیفہ کی رائے یہ ہے کہ شفق ابیض سے عشاء کا وقت شروع ہوتا ہے۔ اب یہ جو جنتریاں بنتی ہیں، عام فقہا کی رائے پر جنتریاں نہیں بنائی جا سکتیں کیوں کہ شفق احمر کے غروب ہونے کا کوئی معیار نہیں ہے، جبکہ شفق ابیض کے غروب ہونے کا معیار ہے، اور پوری دنیا میں امام ابوحنیفہ کی رائے پر عمل ہو رہاہے۔ جو دنیا میں نقشے بن رہے ہیں، وہ امام ابوحنیفہ کے قول پر بن رہے ہیں۔ اسی طرح ہم بھی بہت سارے مسائل میں امام مالک کا قول لیتے ہیں اور امام صاحب کے قول کو چھوڑ دیتے ہیں۔
یہ جو آج اختلاف رحمت نہیں رہا تو بات اصل میں یہی ہے کہ اس اختلاف کے ساتھ کچھ چیزیں ہمارے اندر کی بھی شامل ہیں۔ ہمارے علم کے ساتھ ہماری نفسانیت اس میں شامل ہے، تعلی کاجذبہ شامل ہے۔ ہمارے اکابر میںیہ ہوتا تھا کہ ایک فتویٰ دے دیتے تھے تو ڈرتے رہتے تھے اور ا ندیشہ رکھتے تھے کہ میرے فتویٰ میں کوئی غلطی ہو سکتی ہے اور اس انتظار میں رہتے تھے کہ کب کوئی میری غلطی نکالے گا۔ لیکن جب تواضع ہوگی، تب یہ صورت حال ہوگی، اورجب تواضع مفقود ہوگی اور تعلی ہوگی تو پھر صورت حال اور ہوگی۔ اسی طریقے سے تعصب بھی اسی سے پید اہوتاہے۔ آدمی جب چاہتا ہے کہ میری راے اوپر ہو اور چاہتا ہے کہ میری راے کی حمایت کرنے والے بھی بہت سارے ہوں تو تعصب پیدا ہوتا ہے۔ فقہا کو اس کی ضرورت نہیں تھی۔ ایک آدمی فتویٰ دیتا ہے، لیکن کوئی بھی اس پر عمل کرنے والا نہ ہو تو اس عالم کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ میری رائے کو قبول کرنے والے بہت سارے ہو جائیں تو یہ بھی تعلی کی وجہ سے ہوتاہے۔
تومیں عرض کر رہاتھا کہ اختلاف کا تعلق علم کے ساتھ ہے اور علم جہاں بھی آئے گا تو وہاں اپنی شاخیں نکالے گا، جیسے گھاس اگتا ہے تو وہ بھی اپنی شاخیں نکالتا ہے۔ تو علم اگے گا تو وہا ں شاخیں ضرورنکلیں گی۔ ضروراختلاف ہوگا اور قدم قدم پر اختلا ف ہوگا، لیکن اس اختلا ف کے ساتھ فقہاے صحابہ، تابعین کا ایک تعامل چلتا آ رہا ہے۔ اس وقت یہ موقع نہیں ہے او رآپ علما حضرات یہ جانتے ہیں، صرف توجہ دلانے کی ضرورت ہے کہ مسائل کی بنیادپر ہمارے ہاں جو گروہ بندی ہوگئی ہے، وہ نہیں ہونی چاہیے۔ پھر یہ کہ حق وباطل کا اختلا ف ہوتو بھی اس اختلاف کو ایک حد میں رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت اور بغض کو حد تک رکھنے کا حکم فرمایا کہ محبت کو اس حدتک نہ بڑھاؤ کہ بعد میں نقصان ہو، اور بغض کو اس حد تک نہ بڑھاؤ کہ آپس میں ملاقات کرنی مشکل ہو جائے۔ جہاں ہم حق وباطل کا اختلاف کہتے ہیں، کتنے ہی مسائل ہیں جن میں ہمیں اکٹھا ہونا پڑتا ہے، ایک ہی شہر میں ایک ہی شہر کے اندر۔ اس لیے جن مسائل کو ہم حق وباطل کا فرق سمجھتے ہیں، وہاں پر بھی یہ ضروری نہیں کہ اس اختلاف کو نفرتوں کی انتہا تک پہنچا یا جائے، بلکہ احقاق حق کے درجہ میں رکھنا چاہیے۔ آج علماے دیوبند میں بھی اختلاف ہوتے ہیں اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ الحمد للہ ہمارے طبقے میں علم وتحقیق جاری ہے۔ اسی لیے تو اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ مسائل پر گفتگو کرتے ہیں، اختلافات پیدا کرتے ہیں تو یہ اچھی بات ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ جو آگے گروہ بندی بن جاتی ہے اور اپنے مسئلے کو بڑھانا اور اپنے متبعین کو بڑھانے کے لیے گروہ بندی کرنا، یہ وہ چیز ہے جو اس رحمت کو زحمت میں بدل دیتی ہے۔ یہ ایک قابل غور بات ہے جو میں نے آپ حضرات کے سامنے رکھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کو رحمت کو بتایا تھا، وہ کہیں کہیں زحمت بھی بن جاتی ہے۔ اس لیے ہمیں اختلافات کے بارے میں اپنے رویوں پر تھوڑی سی نظر ڈالنی چاہیے۔
حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی
(صدر دار العلوم، کراچی)
نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم۔
حضرات علماے کرام اور معزز حاضرین!
حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب ہمارے بہت ہی معزز ومحترم بزرگ ہیں۔ حضرت مولانا سرفراز صفدر صاحب دامت برکاتہم سے ہماری زمانہ طالب علمی سے پرانی عقیدت ہے۔ جب ہم دورۂ حدیث کی کتابیں پڑھ رہے تھے، اس وقت حضرت کی تحقیقات ہمار ے اساتذہ ہمیں سنایا کرتے تھے۔ مولانا زاہدالراشدی دامت برکاتہم سے بھی ملاقاتیں تو ہوتی رہیں، لیکن سب سے پہلے حضرت کی جن باتوں سے میں متاثر ہوا، انگلینڈ میں برمنگھم میں ختم نبوت کانفرنس تھی، اس میں اس خاص موضوع پر انھوں نے جو بیان فرمایا، میں پہلی مرتبہ متاثر ہوا ۔ اس سے پہلے ملاقاتیں تو بہت ہوئی ہیں، لیکن کسی موضوع پر گفتگو کی نوبت یاد نہیں، لیکن اس کے بعد تسلسل سے الحمد للہ ہماری ملاقاتیں بھی رہی ہیں اور اہم مسائل میں مشورے بھی رہے ہیں اور آپ کی تحریریں بھی ہم استفادے کی نیت سے پڑھتے رہے ہیں۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ! ان کے علم وعمل اور عمر میں برکت عطا فرما اور امت کو ان کی مثبت سوچ سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کی توفیق عطا فرما۔
واقعہ یہ ہے کہ مولانا ابو عمار زاہد الراشدی صاحب کی شخصیت برسوں سے میرے لیے متعدد وجوہ سے قابل رشک ہے۔ ان کی متعدد صفات نے مجھے ہمیشہ متاثر کیا ہے۔ کسی کے منہ پر تعریف کرنا اچھا نہیں ہوا کرتا، لیکن میں آپ سے خطاب کر رہا ہوں، ان سے نہیں کر رہا۔ ان کی تواضع میرے لیے ہمیشہ قابل رشک رہی ہے۔ اللہ نے ان کو جو علم وفضل عطا فرمایا، اس کے ساتھ تواضع اور انکساری ایسی قابل رشک ہے کہ سچی بات یہ ہے کہ میرا مشورہ آپ حضرات کو یہ ہے کہ اس کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے طبقے میں یہ چیز کم ہوتی جا رہی ہے۔ ہر ملاقات میں ان کی تواضع میرے لیے سبق بھی بنتی ہے اور قابل رشک بھی ہوتی ہے۔ میری دعاہے کہ اللہ پاک ان جیسی تواضع مجھے بھی عطا فرمائے۔
پھر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو امت کے بارے میں اور امت کے مسائل کے بارے میں فکرمندی عطا کی ہے۔ یوں تو فکرمندی اور جذبات ہر مسلمان کے ہوتے ہیں، لیکن اس کا صحیح تجزیہ کرنا اور صحیح ادراک کرنا اور مثبت انداز میں اس کے حل کو سوچنا اور مثبت اندازمیں امت کی راہنمائی کرنا، یہ ہر ایک کاکام نہیں ہوتا اور الحمد للہ، اللہ نے ہمارے مولانا کو یہ سلیقہ عطا فرمایا ہے، تحریر میں بھی اور تقریر میں بھی۔ آپ کی سوچ میں ہمیشہ ایک مثبت انداز رہا ہے اور اس میں کبھی کسی کی دل آزاری بھی نہیں ہوتی، جو انبیاے کرام کا طریقہ رہا ہے۔ ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلہم بالتی ہی احسن۔ یہی ان کا طریقہ کار رہا ہے۔ الحمد للہ یہ تمام باتیں بہت ہی امید افزا بھی ہیں اور اس الشریعہ اکادمی کے لیے ان شاء اللہ فال نیک بھی ہیں۔ پھر ایک بات جس پر مجھے ہمیشہ رشک رہتا ہے، یہ ہے کہ ماشاء اللہ یہ ان تھک محنت کے عادی ہیں اور خود ہی ایک مرتبہ بتلا رہے تھے کہ میں راتوں کی نیند بسوں میں پوری کر لیتا ہوں۔ کسی جگہ گیا ہوا ہوں، دن بھر مصروفیت رہی، رات کو سفر میں گزرا، صبح آ کر سبق پڑھا دیا۔ لوگ تعجب کرتے ہیں کہ کس طرح سبق پڑھا دیا۔ ہوتا یہ ہے کہ میں نیند بس میں اور ریل میں پوری کر لیتا ہوں۔ اس پر بھی مجھے رشک آتا ہے۔ اللہ پاک ایسی نیند مجھے بھی عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ان کے کلام سے، ان کی فکر سے، ان کی تحریر وتقریر سے امت کو وہ فائدہ عطا فرمائے جو ان کے دل میں موج زن ہے۔
ابھی مولانا فرما رہے تھے کہ الشریعہ اکادمی میں ہم جو کام کر رہے ہیں، وہ روایتی انداز سے ہٹ کر ہے، ا س لیے لوگوں کو اس کے بارے میں بتلانا اور سمجھانا بھی بعض اوقات ذرا مشکل سا ہوتا ہے، لیکن سچی بات ہے، میں جو محسوس کرتا ہوں کہ مسلمانوں کی جو تعلیمی پالیسی عہد رسالت سے چلی آ رہی ہے، یہ اسی کا ایک تسلسل ہے جو الشریعہ اکادمی نے شروع کیا ہوا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کی تعلیمی پالیسی کے جو بنیادی عناصر ہیں، ان میں ایک بنیادی عنصر ’کلمۃ الحکمۃ ضالۃ المومن اخذہا من حیث وجد‘ ہے۔ حکمت کی ہر بات مومن کی گم شدہ متاع ہے، جہاں ملے،وہاں سے لے لیں۔ من یوت الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا۔ آج عالم اسلام کے سامنے جو مسائل ہیں، یہ امت کے مسائل تو نئے ہیں لیکن اس قسم کا چیلنج نیا نہیں ہے۔ سب سے پہلے یہ چیلنج مسلمانوں کو اس وقت پیش آیا تھا جب مسلمان جزیرہ عرب سے نکلے اور قوموں کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں آئی اور ان کا واسطہ دنیا میں پھیلے ہوئے مختلف فلسفیانہ نظریات اور یونان کے فلسفہ، ہندوستان کے فلسفہ اور وسرے نظریات سے پڑا۔ یہ بہت بڑا چیلنج تھا۔ معمولی چیلنج نہیں تھا۔ جیسا چیلنج آج ہمیں درپیش ہے، میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس سے بھی بڑا چیلنج تھا، کیونکہ اس وقت تک مسلمانوں نے فلسفہ کے اندر قدم ہی نہیں رکھا تھا۔ اب تو کیفیت یہ ہے کہ ہمیں تقریباً ایک ہزار سال سے زیادہ ہو گیا ہے کہ مختلف نظریات کے بارے میں سوچنے، سمجھنے اور ان کے جواب دینے کی ہمیں عادت پڑ گئی ہے، اس رخ پر سوچنے لگے ہیں، لیکن وہ وقت تو ایسا تھا کہ فلسفیانہ نظریات اچانک سامنے آئے۔ اس سے پہلے تو مسلمانوں کے سامنے ایسا کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں۔ تو مسلمانوں نے کیا کیا؟ ہمارے بزرگان واسلاف نے یہ کام کیا کہ ان تمام علوم کو حاصل کیا۔ وہی فلسفے جو اسلامی عقائد وعلوم سے ٹکرا رہے تھے، ان فلسفوں کے اندر مہارت پیدا کی۔ صرف یہ نہیں کہ سمجھ لیا، بلکہ مہارت پیدا کی۔ اس میں مصنف بنے، محقق بنے، نئے نظریات دنیا کے سامنے لائے اور دنیاکو باور کرا دیا کہ جتنا کچھ فلسفہ میں کام یونان کے فلاسفروں نے کیا، انسانی فکر وہیں جا کر ختم نہیں ہو گئی بلکہ آگے بھی فکر کا بہت بڑا میدان ہے۔ انھوں نے نئے نئے نظریات پیش کیے اور جہاں جہاں اس فلسفہ کا اسلامی نظریات سے ٹکراؤ تھا، فلسفیانہ بنیادوں پر اور فلسفیانہ طرز استدلال سے ان کا رد کیا۔ صرف یہی نہیں کہ وہ قرآن کے خلاف ہے، عربیت کے خلاف ہے، بلکہ بتلایا کہ وہ عقل کے بھی خلاف ہے۔ ارسطو نے اگر کوئی بات کہی ہے توبتلایا کہ وہ عقل کے خلاف ہے۔ فلسفیانہ دلائل پر ہم ثابت کرتے ہیں کہ ارسطو نے نہایت کمزور بات کہی تھی، افلاطون نے غلط کہا تھا اور سقراط نے جو کچھ کہا تھا، عقل اس کو تسلیم نہیں کرتی۔ دلائل سے اس بات کو ثابت کیا۔ تو یہ بھی امت میں ایک نیا کام تھا اور عام روش سے ہٹ کر تھا۔ اگر آپ تھوڑا سا عام روش سے ہٹ کر کام کر رہے ہیں تو درحقیقت بنیادی طورپر یہ اسلام اور مسلمانوں کی تعلیمی پالیسی سے ہٹ کر نہیں ہے۔
ہمارے بزرگان دیوبند کو آپ دیکھ لیں۔ انھوں نے ان تمام علوم وفنون کی حفاظت کی جو پچھلی صدیوں سے چلے آ رہے تھے۔ فلسفہ میں بھی، فلکیات میں بھی، منطق میں بھی، حکمت اور طب یونانی میں بھی اور دوسرے اسلامی علوم تواپنی جگہ پر تھے ہی۔ ان کے اندر بھی مہارت پیدا کی۔ دار العلوم میں ان تمام علوم کے ماہرین موجود تھے۔ اب ہمارا واسطہ جدید سائنس سے ہے، جدید انکشافات سے ہے، جدید سائنسی تجربات سے ہے۔ آج ہمارے لیے یہ بات بہت آسان ہے۔ اسلامی عقائد اور فلسفہ کا تصادم تو ہوا ہے، رہا ہے، آئندہ بھی رہے گا۔ فلسفیانہ عقائدکا تصادم اسلامی عقائد کے ساتھ ہو سکتا ہے اور ہوتا رہے گا، لیکن خوب سمجھ لیجیے کہ اسلامی عقائد کو سائنسی حقائق سے کبھی تصادم نہیں ہوگا، کیونکہ سائنسی حقائق، تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ ان کا کوئی عقل سلیم والا انکار نہیں کر سکتا اور اسلامی عقائد نے بھی کہیں ایسے حقائق کا انکارنہیں کیا جو واقعی حقائق ہوں۔ اس لیے یہ چیلنج ہمارے لیے آسان ہے۔ ہمارے بزرگوں کو فلسفیانہ عقائد میں مناظرہ اور مقابلہ کرنا پڑا تھا اور اپنے عقائد کا دفاع کرنا پڑا تھا۔ ہمیں اب فلسفیانہ نظریات سے اتنا زیادہ واسطہ نہیں ہے۔ ہمارا واسطہ دنیا میں جیتے جاگتے مسائل سے ہے، سائنسی حقائق سے ہے۔ ہمارا کام اب صرف اتنا ہے کہ ہم اپنے اہل زمانہ کو سمجھیں، جیسا کہ ابھی حضرت مولانا نے فرمایا کہ اس اکادمی کا مقصد موجودہ مسائل کو سمجھنا ہے۔ موجودہ چیلنج کیا ہیں؟ قانون کے میدان میں کیا چیلنج ہیں، طب کے میدان میں کیا مسائل ہیں، ان تمام میں امت کے کچھ مسائل ہیں۔ ان مسائل کو سمجھنا ایک عالم دین کا فرض منصبی ہے، یہی نہیں کہ مستحب ہے۔ اپنے زمانے کے مسائل کو سمجھنا اور جن لوگوں سے اسلام اور مسلمانوں کا واسطہ ہے، ان کو سمجھنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اور اب واسطہ صرف ایشیا کے لوگوں سے نہیں ہے، دنیا بھر کے لوگوں سے ہے۔ پوری دنیا سمٹ چکی ہے، ایک چھوٹے سے شہر کی طرح ہو گئی ہے اور پانچوں بر اعظم سمٹ کر ایک گاؤں کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ اس وقت امت مسلمہ کو پوری دنیا کے مسائل کا سامنا ہے۔ پوری دنیا میں مسلمان موجود ہیں۔ وہاں ان کو طبی مسائل بھی پیش آ رہے ہیں، معاشی مسائل بھی پیش آ رہے ہیں، سیاسی اور قانونی مشکلات بھی پیش آرہی ہیں، ان سب میدانوں کو سمجھنا ہمارا فرض منصبی ہے کیونکہ فقہا کا ایک مشہور قاعدہ ہے اور جب ہم تخصص فی الافتا کی تربیت حاصل کر رہے تھے تو یہ قاعدہ ہم نے اپنے والد ماجد مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع سے بار بار سنا۔ فرماتے تھے کہ من لم یعرف اہل زمانہ فہو جاہل۔ علما اور فقہا کی اصطلاح میں وہ شخص جاہل ہے جو اپنے زمانے کے حالات سے باخبر نہ ہو۔ ایک عالم دین کا فرضی منصبی ہے کہ وہ اپنے زمانے کی مشکلات اور چیلنجز کو سمجھے اور قرآن وسنت میں ان کا حل تلاش کر کے امت کی راہنمائی کرے۔
الحمد للہ اس اکادمی نے یہ کام شروع کیا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ پاک اس میں قدم قدم پر ان کی راہنمائی فرمائے، دستگیری فرمائے، جس مقصد کے لیے یہ کام شروع ہوا ہے، اس میں مکمل کامیابی عطا فرمائے۔ ابھی یہ ابتدائی مراحل میں ہے۔ ہماری دعا ہے کہ یہ آگے بڑھے اور خوب خوب آگے بڑھے اور درس نظامی کے فارغ التحصیل علما یہاں آ کر باقاعدہ داخلہ لیں اور مختلف موضوعات میں ان کو تخصص کرایا جائے تو ان شاء اللہ یہاں سے ایسے راہنما تیار ہو کر نکلیں گے جو امت کی راہنمائی کر سکیں اور اس کو نور ہدایت پہنچا سکیں۔ میں اس اکادمی کو پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہوں۔ بہت تفصیل سے دیکھنے کا موقع نہیں ملا، لیکن جتنا کچھ پہلے اس کے بارے میں پڑھتا اور سنتا رہا ہوں اور جو کچھ ابھی سنا ہے، اس کی روشنی میں اپنے تاثرات بیان کیے ہیں۔
البتہ ایک بات میں آپ سے عرض کروں گا۔ دیکھیں، جو کچھ آپ کو ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش میں نظر آ رہا ہے، علماے حق کاکہیں بھی کوئی ادارہ آپ کو نظر آ رہا ہے، یہ سارا فیض دار العلوم دیوبند کا ہے۔ خانقاہیں ہیں تو دار العلوم دیوبند کا فیض ہیں، مدارس ہیں تو دار العلوم دیوبند کا فیض ہے، اس قسم کی اکادمیاں ہیں تو یہ بھی دار العلوم دیوبند کا فیض ہے اور یہ فیض اب پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔ افریقہ میں، یورپ میں، امریکہ میں، جاپان میں، چین میں اور ایشیا کے تقریباً تمام ممالک میں کہیں کم کہیں زیادہ، دار العلوم دیوبند کا فیض پھیل رہا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کی دو خاصیتیں تھیں۔ ایک علم کی گہرائی اور پختگی، جس میں اہل زمانہ کے بارے میں واقفیت بھی داخل ہے۔ بزرگان دیوبند سے جو کچھ ہمیں ملا ہے، اس میں ایک بات یہ تھی کہ انھوں نے اس حقیقت کو سمجھا تھا کہ ’من لم یعرف اہل زمانہ فہو جاہل‘۔ وہ جتنی رہنمائی کر سکتے تھے، ان مشکل حالات میں جہاں انگریز کا تسلط تھا، وہاں رہتے ہوئے وہ امت کی جتنی رہنمائی کر سکتے تھے اور جتنے مسائل کو وہ پرکھ سکتے تھے، جانچ سکتے تھے، ان میں امت کی راہنمائی کی ہے اور آخر دم تک کرتے رہے ہیں۔ اکابر دیوبند کو علم کی گہرائی اور پختگی اس طریقے سے حاصل ہوئی کہ انھوں نے حاصل شدہ علم پر کبھی قناعت نہیں کی۔ آج ہماراحال یہ ہو گیا ہے کہ تھوڑے سے علم پر قانع ہو جاتے ہیں اور بہت سے مال پر قانع نہیں ہوتے، بڑے بڑے عہدوں پر قانع نہیں ہوتے۔ علماے دیوبند کی یہ خصوصیت تھی کہ وہ کبھی حاصل شدہ علم پر قانع نہیں ہوئے۔ مرتے دم تک ان کی تحقیق اور مطالعہ میں کمی نہیں آتی تھی، ان کی جستجو میں کمی نہیں آتی تھی۔ ا س کے بے شمار واقعات ہیں۔ اپنے بزرگوں کو ہم نے اسی حالت میں دیکھا ہے اور ہمارے بزرگ اپنے بڑوں کے حالات اسی طرح سناتے تھے۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک بات اوربھی تھی جو میں آپ سے خاص طورپر عرض کروں گا اور وہ بات دار العلوم دیوبند کے علاوہ کسی تعلیمی نظام میں نہیں ملتی۔ وہ باطنی تربیت ہے اور باطن کی اصلاح ہے، دل کی اصلاح ہے۔ والد صاحب بار بار فرمایا کرتے تھے کہ علمی تحقیق میں اللہ نے کمال عطا کیا علماے دیوبند کے اکابر کو، لیکن یہ کمال دیوبند کے ساتھ خاص نہیں تھا۔ جامعۃ الازہر میں بھی اس زمانے میں علم کی گہرائی اور پختگی کم نہیں تھی۔ اب تو وہ بات نہیں رہی، لیکن اس زمانے میں جب ہمارے اکابریہ کام رہے تھے، جامعۃ الازہر میں بھی کمی نہیں تھی، لیکن جس چیز کی کمی جامعۃ الازہر میں تھی اور اسے دار العلوم نے پورا کیا، وہ باطن کی اصلاح تھی۔ شاید آپ کو یہ بات معلوم نہ ہو کہ تخصص فی الافتاء پہلے تھا ہی نہیں، نہ دیوبند میں اور نہ ہندوستان وپاکستان میں۔ یہ سب سے پہلے حضرت والد صاحب نے دار العلوم کراچی میں شروع کیا۔ جب ہم دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے تو ہمیں تخصص کے لیے خود لے کر بیٹھ گئے۔ ہم سات آٹھ ساتھی تھے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کوئی بھی دن ایسا خالی جاتا ہو جس میں وہ یہ نہ فرماتے ہوں کہ دیکھو، تم نے فقہ ظاہر حاصل کر لیا ہے، لیکن فقہ باطن ابھی باقی ہے۔ تم نے ابھی آدھا دین حاصل کیا ہے، آدھا دین باقی ہے۔ تم ابھی ادھورے عالم ہو، پورے عالم نہیں بنے۔ تمھارے پاس ابھی آدھا دین ہے، تم نے پورا دین نہیں لیا۔ تم ابھی پورے مسلمان نہیں بنے اور نجات نہیں ہے جب تک پورے مسلمان نہیں بنو گے۔ وہ یہ کہ باطن اور دل کی اصلاح ہو۔ تاج دار کونین سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: الا ان فی الجسد مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسد کلہ الا وہی القلب۔
بزرگان دیوبند نے اس کو پکڑا اور والد صاحب سے ہم اپنے بزرگوں کی باتیں سنتے رہے ہیں کہ دار العلوم دیوبند دن میں درس گاہ ہوتی تھی اور راتوں کو طلبہ کے حجروں سے رونے کی آوازیں آتی تھیں اور خانقاہ بن جاتی تھی۔ کسی نے دار العلوم دیوبند کے بارے میں ہی کہا تھا کہ ’’در مدرسہ خانقاہ دیدم‘‘۔ وہ صرف مدرسہ ہی نہیں تھا، بلکہ ساتھ ساتھ خانقاہ بھی تھے۔ دن کو وہ علما تھے، راتوں کو راہب بن جاتے تھے۔ ہمارے دادا حضرت مولانا یاسینؒ کا مقولہ والد صاحب کثرت سے سنایا کرتے تھے۔ دادا جی دار العلوم دیوبند کے ہم عمر تھے۔ بہت غریب ماں باپ کے بیٹے تھے،مگر دیوبند میں ایک معلم خاندان تھا خلیفہ تحسین علی صاحب، ان کے بیٹے تھے۔ ہمارے دادا کے والد پورے دار العلوم کے استاد سمجھے جاتے تھے۔ تو دادا کی ولادت اس زمانے میں ہوئی جب دار العلوم قائم ہوا تھا۔ انھوں نے وہاں تعلیم حاصل کی۔ حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے ہم سبق تھے اور ان کے ساتھ دورہ کیا تھا اور حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ کے خاص مرید تھے۔ ان کا مقولہ والد صاحب سناتے تھے کہ وہ فرماتے تھے کہ میں نے دار العلوم دیوبندکا وہ دور دیکھا ہے جب یہاں کے مہتمم اور شیخ الحدیث سے لے کر چپڑاسی اورچوکی دار تک، سب صاحب نسبت ولی اللہ ہوتے تھے۔ خوب سمجھ لیجیے کہ دار العلوم دیوبند کا فیض جو پوری دنیا میں پھیلا ہے تو صرف علم ظاہر کی وجہ سے نہیں پھیلا۔ علم ظاہر اور بھی بہت جگہوں پر تھا۔ بلکہ وہ باطن کی اصلاح تھی اور اس علم کو اپنی صفت بنا لینا اور اس کے ساتھ متصف ہو جانا یہ بزرگان دیوبند کا خاصہ تھا۔ اور یہ وہی خاصہ تھا جو صحابہ کرام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نصیب ہوا تھا۔ ہمارے بزرگوں نے اخلاص، للہیت، تواضع اور تقویٰ میں صحابہ کرام کی یادیں تازہ کیں۔
تو میری درخواست ہے کہ دو کام کرنے کے ہیں۔ ایک دنیا کے حالات پر نظر رکھنا اور ان کو سمجھنا، یہ سیکھنا کہ دین کی تعبیر کیسے کی جائے، اور جس زبان میں ضرورت ہو، اس زبان میں تعبیر کی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسوہ چھوڑا ہے کہ مسلمانوں کی زبانیں محدود نہیں ہوتیں۔ بلاشبہ عربی زبان کو بڑی فضیلت حاصل ہے۔ وہ قرآن کی زبان ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان ہے، اہل جنت کی زبان ہے، لیکن اسلام توپوری دنیا کے لیے آیا ہے۔ اسلام کو اور بھی سب زبانوں کی ضرورت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جو ایلچی بڑے بڑے بادشاہوں، قیصر، کسریٰ، مقوقس اور نجاشی وغیرہ کے پاس بھیجے تھے، طبقات ابن سعد میں یہ بات لکھی ہے کہ وہ سب اس علاقے کی زبان جاننے والے تھے جہاں انھیں بھیجا گیا۔ حضرت زید بن ثابت کو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طورپر مامور کیا تھا کہ تم یہودیوں کی زبان سیکھو تاکہ تم ترجمانی کا کام کر سکو۔ تو دنیا کی ہر وہ زبان سیکھنے کی ضرورت ہے جس کی ضرورت آپ کو دین کا پیغام پھیلانے کے لیے ہوگی اور اس اسلوب کو سیکھنے کی ضرورت ہے جو ان شاء اللہ آپ کو یہاں ملے گا کہ آج کا اسلوب کیا ہے، ذہنوں کو متاثر کرنے والا اسلوب کیا ہے۔ اس اسلوب کو سیکھنا ہے۔دوسری بات جو دار العلوم دیوبند کی نمایاں خصوصیت ہے، وہ باطن کی اصلاح ہے۔ اس کی طرف ضرور توجہ کریں۔ کسی نہ کسی بزرگ کا دامن ضرور تھام لیں۔ اس کے بغیر عام طورپر اصلاح نہیں ہوتی۔ اسی طرح میری آپ سے درخواست ہے، آپ کو میں خاص طور سے اس لیے کہہ رہا ہوں کہ آپ حضرات سے توقعات ہیں۔ آپ ایسی اکادمی میں آ گئے ہیں جس کامقصد ہی یہ ہے کہ وہ کام کیے جائیں جو نہیں ہو رہے۔ ان کاموں کے لیے آپ کو تیار کرنا ہے۔ ان کاموں میں برکت، تاثیر اور قوت پیدا نہیں ہوگی جب تک دل کی اصلاح نہ ہو۔ اس کے لیے وہ کام کرنا پڑے گا جو بزرگان دار العلوم دیوبند کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق کامل عطا فرمائے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔