یہ جواب نہیں ہے

مولانا عبد المالک طاہر

ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ (مئی/جون ۲۰۰۹ء) کے صفحہ ۱۴۵تا ۱۴۸ پر حافظ زبیر صاحب کامضمون شائع ہوا جو انہوں نے راقم کے مضمون بعنوان ’’جہادی تنظیموں کے تنقیدی جائزہ پرایک نظر‘‘ (الشریعہ، مارچ ۲۰۰۹ء، صفحہ ۴۳ تا ۴۷) میں اٹھائے جانے والے اعتراضات وسوالات کے جواب کے طورپر لکھا ہے۔ مضمون کا عنوان ’’عبد المالک طاہر کے اعتراضات کے جواب میں‘‘ دیکھ کر یہ گمان ہوا کہ راقم کی طرف سے اپنے مضمون میں اٹھائے جانے والے اعتراضات کے جوابات ہوں گے، لیکن عنو ان اور نفس مضمون کا باہمی تعلق ایسا ہی ہے جیساکہ جناب کا (اپنی تحریروں کی روشنی میں) جہاد و مجاہدین کے ساتھ ہے۔ جناب نے منطقی انداز کو اختیار کرنے کی کوشش میں خلط مبحث کی طرف پہلا قدم اٹھایا ہے جو بحث کے نتیجہ خیز ہونے میں نہ صرف مانع ہوگا بلکہ ایسی بحث بے فائدہ اور شاید مضر بھی ہو۔ لہٰذاراقم اولاً اپنے سابقہ مضمون (مارچ ۲۰۰۹ء) کے سوالات واعتراضات کاذکر ضروری سمجھتا ہے تاکہ قارئین کو علم ہو کہ یہ راقم کے سوالات کے جواب نہیں بلکہ مزید اعتراضات ہیں۔ 

سوالات کچھ یوں ہیں:

اول: جناب نے اپنے مضمون بعنوان ’’پاکستان کی جہادی تحریکیں: ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ‘‘ (الشریعہ نومبر؍دسمبر ۲۰۰۸ء) میں لکھا ہے کہ لاعلم، سیدھے سادھے جذباتی نوجوانوں کے لیے جہادی تحریکوں کے معسکرات خرکار کیمپ ثابت ہوتے ہیں۔ جناب نے ان مجبور مجاہدین کے کچھ الفاظ بھی نقل کیے ہیں۔ اس پر سوال یہ تھاکہ ان خرکار کیمپوں کی لسٹ اور ان مجبور مجاہدین کے کوائف قوم کے سامنے لائیں تاکہ قارئین کو حقائق کا علم ہو سکے۔ جواب کے جلی عنوان کے باوصف اس سوال پر جناب کی نظر کرم نہیں ہوتی۔ 

ثانی: آ پ نے لکھا کہ روس کو افغان جہاد میں شکست مجاہدین نے نہیں بلکہ امریکہ وپاکستان نے دی۔ اس پر راقم نے تین سوالات کیے تھے۔

(الف) اس بات کا ثبوت کہ امریکہ وپاکستان کا عمل جارحیت کے کتنے سال بعد ہوا تھا؟

(ب) اس دخل سے قبل جنگی صورت حال کیا تھی؟

(ج) امریکی وپاکستانی عمل دخل کس نوعیت کا تھا؟

ثالث: آپ نے جہاد کو نماز پر قیاس کیا۔ اس پر سوال تھاکہ 

(الف) ایسا جہاد جس میں تمام مسلمانوں پر صرف لڑنا ہی فرض ہو، مسلسل کیسے چلے گا؟ 

(ب) طبعی ضروریات کا نظام کیونکر چلے گا؟ 

(ج) نئے افراد کی ذہن سازی وتربیت کے بغیر ایک مکمل نظام کتنا عرصہ چل سکے گا؟

رابع: حافظ صاحب نے بعض مفروضوں (یا جزوی واقعات) کو بنیاد بنا کر انتہا پسندانہ رائے قائم کرنے میں عجلت کا مظاہرہ کیا اور ثبوت طلب کرنے پر جوابی تحریر میں کسی قسم کی شہادت پیش کرنے کی بجائے مزید سوالات کے ضمن میں پھر وہی لہجہ اختیار کیا جس میں مجاہدین کے طریقہ کار پر تنقید کی بجائے جہاد سے تنفر زیادہ نظر آرہا ہے۔ 

خامس: زبیر صاحب کے مطابق غیر سرکاری جہاد سے کفار کو شکست دینا ناممکن ہے، جب کہ امریکی نمائندے مارک اسمتھ سمیت دیگر عسکری کمانڈروں نے اپنی شکست تسلیم کی ہے۔ ان مبتلیٰ بہ امریکی افواج کی (اب تک) کی تسلیم شدہ شکست کے مقابلہ میں زبیر صاحب اپنے نظریہ پر کوئی ثبو ت پیش کریں۔ 

سادس: حافظ صاحب نے اپنے مضمون میں علت قتال ظلم کو قرار دیا۔ اس پر سوال تھاکہ بالفرض اگر کوئی کفریہ اسٹیٹ غیر ظالم ہوتو اس کے خلاف جہاد ہو گا کہ نہیں؟ 

یہ چند سوالات اٹھائے گئے تھے جس پر حافظ صاحب نے جواب دینے کی بجائے بحث کارخ دوسری طرف پھیرنے کی کوشش کی ہے۔ کاش ! جواب والے جلی عنوان کی طرح مضمون کے اندر جوابات بھی اسی تناسب کے ساتھ ہوتے۔ گزارش ہے کہ ان سوالات کی طرف اورا پنے جوابی مضمون کی طرف نظر فرمائیں۔ 

جہاں تک حافظ صاحب کے مضمون (بعنوان ’’عبدالمالک طاہر کے اعتراضات کے جواب میں‘‘، مئی ؍جون ۲۰۰۹ء) میں اٹھائے گئے سوالات کاتعلق ہے تو ان کا جواب حوالہ قلم کرنے سے قبل عرض ہے کہ آئندہ بحث میں اگر محترم کایہی طرز (اعتراض برائے اعتراض، جواب کے نام پر بھی سوال) رہا تو بندہ کے لیے قارئین کے وقت اور الشریعہ کے صفحات کی قدر کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ایسی بے نتیجہ بحث کو جاری رکھنا مشکل ہو گا۔

اب الشریعہ مئی ؍جون ۲۰۰۹ء کے شمارے میں اٹھائے گئے سوالات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ 

سوال نمبر۱: موجودہ حالات میں جہادفرض عین ہے کہ نہیں؟ اگر ہے تو جہادی تحریکوں کے امراء ومسؤلین تو قتال نہیں کر رہے۔ (الشریعہ مئی ؍جون ۲۰۰۹ء، ص ۱۴۵) 

اس سوال کا منشا اورا س کی تفصیل میں چھپے استہزا پرمبنی اعتراضات در حقیقت جہاد کی اقسام ،ان اقسام کے حکم اور کس پر کون سا جہاد فرض ہے جیسے امور سے لاعلمی کا نتیجہ ہیں۔ شریعت اسلامیہ کے احکامات کے مطا بق جہاں کفار حملہ آور ہیں، ان مسلمانوں پر جہاد (قتال) فرض عین ہے، جب کہ پڑوس کے مسلمانوں پر بدرجہ ضرورت اقرب فالاقرب کے اصول کے تحت ضروریات کا پورا کرنا استطاعت کے مطابق فرض ہے۔ یعنی سب سے اول فرض ان مسلمانوں پر متوجہ ہوتا ہے جن پر کفار نے حملہ کیا ہے۔ ان کی کمزوری کی صورت میں آس پاس والے مسلمانوں پر الاقرب کے اصول کے تحت فرض ہے۔ 

فقہاے اسلام جہاد کو دوقسموں پر تقسیم کرتے ہیں: اقدامی جہاد جسے جہاد الطلب بھی کہتے ہیں اور دفاعی جہادجسے جہاد الدفع بھی کہا جاتاہے۔ اقدامی جہاد یہ ہے کہ ازخود مجاہدین کفار پرحملہ کریں۔ دفاعی جہاد کا مطلب ہے کفار کے مسلما ن ملک پر حملہ کی صورت میں مسلمانوں کا دفاعی لڑائی کرنا۔ صاحب قدوری اقدامی جہاد کا حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

الجہاد فرض علی الکفایۃ اذا قام بہ فریق من الناس سقط عن الباقین وان لم یقم بہ احد اثم جمیع الناس بترکہ، وقتال الکفار واجب وان لم یبدء ونا ( المختصر للقدوری، کتاب السیر، ص ۲۲۴) 
’’جہاد (عمومی حالات میں) فرض کفایہ ہے۔ اگر ایک جماعت اس فرض کو ادا کرے تو باقی کے ذمہ سے ساقط ہو جائے گااورا گر کوئی بھی اس فرض کفایہ کو ادا نہ کرے تو سب گناہ گار ہوں گے۔ اگر کفار از خود لڑائی کی ابتدا نہ بھی کریں تو جہاد واجب ہے۔‘‘

کنزالدقائق میں جہاد کی پہلی قسم (اقدامی جہاد ) کا ذکر ان الفاظ میں ہے:

الجہاد فرض کفایۃ ابتداء فان قام بہ قوم سقط عن الکل والا اثموا بترکہ (ص ۱۹۹) 
کنزالدقائق کی مذکورہ بالاعبارت کی تشریح کرتے ہوئے علامہ ابن نجیم ؒ فرماتے ہیں: ’’بیان لحکم فرض کفایۃ‘‘ کہ مذکورہ حکم فرض کفایہ جہاد کا حکم ہے۔ (البحرالرائق ، کتاب السیر ۵/۷۱)

اقدامی جہاد سے متعلق علامہ ابن عابدین ؒ فرماتے ہیں:

فیجب علی الامام ان یبعث سریۃ الی دارالحرب کل سنۃ مرۃ او مرتین وعلیٰ الرعیۃ اعانتہ الا اخذ الخراج فان لم یبعث کان کل الاثم علیہ۔
یعنی مسلمانوں کے امام ی ذمہ داری ہے کہ وہ سال میں ایک مرتبہ یا دو مرتبہ دارالحرب کی طرف لشکرروانہ کرے اور رعایا کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں امام کی اعانت کرے سوائے اس کے کہ امام پہلے کفار سے جزیہ وصول کرتا ہو۔ اگر امام لشکر نہ بھیجے تو گناہ کا بو جھ اسی پر ہوگا۔ (حاشیہ ابن عابدین ۳/۲۳۹) 

جہاد کی دو سری قسم یعنی دفاعی جہاد کے متعلق صاحب قدوری فرماتے ہیں:

فان ہجم العدو علی بلد وجب علی جمیع المسلمین الدفع تخرج المراۃ بغیر اذن زوجہا والعبد بغیر اذن الولی ( المختصر للقدوری، کتاب السیر ص ۲۲۳) 
یعنی اگر دشمن مسلمانوں کے کسی علاقے پر حملہ آور ہو تو تمام مسلمانوں پر دفاع (دشمن کو روکنا اور نکالنا) واجب ہے، حتی کہ عورت خاوند کی اجازت کے بغیر اور غلام آقا کی اجازت کے بغیر نکلے گا۔

دفاعی جہاد کے متعلق کنزالدقائق کی عبارت یوں ہے:

وفرض عین ان ہجم العدو فتخرج المراۃ والعبد بلا اذن زوجہا وسیدہ (کنزالدقائق، ص ۲۰۰)

اسی عبارت پرعلامہ ابن نجیم ؒ فرماتے ہیں:

لان المقصود عند ذلک لا یحصل الا باقامۃ الکل فیفترض علی الکل فرض عین فلا یظہر ملک الیمین ورق النکاح فی حقہ کما فی الصلوۃ والصوم۔

آگے چل کر ارشاد فرماتے ہیں:

والمراد ہجومہ علی بلدۃ معینۃ من بلاد المسلمین۔ فیجب علی جمیع اہل تلک البلد، وکذا من یقرب منہم ان لم یکن باہلھا کفایۃ۔ وکذا ممن یقرب ممن یقرب ان لم یکن ممن یقرب کفایۃ او تکاسلوا عصوا وہکذا الی ان یجب علی جمیع اہل الاسلام شرقا وغربا کتجہیز المیت والصلوۃ علیہ یجب اولاً علی اہل محلیۃ فان لم یفعلوا عجزاً وجب علی من بعدہم علی ما ذکرنا۔ (البحراالرائق، کتاب السیر ۵/۷۲) 
یعنی عورت اور غلام پر خاوند اور آقا کی اجازت اس لیے ضروری نہیں کہ مقصود (دشمن کادفع کرنا) تمام لوگوں کے جہاد پر نکلے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا سب پر فرض عین قرار دیاجائے گا۔ اس لیے ملک یمین اور رق النکاح کے اثرات اس کے حق میں ظاہر نہ ہوں گے جیسے کہ نماز روزہ ہیں۔ پھر فرماتے ہیں کہ حملہ سے مراد کفار کا مسلمانوں کے کسی معینہ شہر پر حملہ کرنا ہے۔ جب ایسی صورت پیدا ہو تواس شہر کے تمام باشندوں پر دفاع فرض ہوگا۔ یہ لوگ اگر کافی نہ ہوں تو قریب والوں پر فرض ہوگا۔ اگر وہ بھی کفایت نہ کریں یا سستی ونافرمانی کا مظاہرہ کریں توان کے قریب والوں پر دشمن کو روکنا فرض ہو گا۔ اس طرح مشرق ومغرب کے تمام مسلمانوں پر جہاد فرض ہوگا۔ جیسے کہ میت کی تجہیز اوراس پر نماز جنازہ اولاً اس کے محلہ والوں پر فرض ہے ۔ اگر وہ عاجز ہوں تو یہ فریضہ ادا نہ کرسکیں توا ن کے بعدوالوں پر ایسے ہی فرض ہے، جیساکہ ہم نے ذکر کیا۔

دفاعی جہاد کے متعلق علامہ ابن عابدینؒ فرماتے ہیں کہ اگر دشمن کسی اسلامی سرحد پر حملہ آور ہو جائے تو وہاں بسنے والوں پر جہاد فرض عین ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ان کے قرب وجوار والوں پر بھی فرض عین ہو جاتا ہے۔ البتہ جو لوگ ان سے پیچھے دشمن سے فاصلہ پر ہوں، ان پر جہاد اس وقت تک فرض کفایہ ہوتا ہے جب تک ان کی ضرورت نہ پڑے۔ لیکن اگر کسی وجہ سے ان کی ضرورت پڑ جائے۔ مثلاً 

۱۔ جس علاقے پر دشمن حملہ آور ہو، اس کے قرب وجوار کے لوگ دشمن کی مزاحمت کرنے میں بے بس ہو جائیں۔ 

۲۔ یا بے بس تو نہ ہوں، لیکن سستی کی وجہ سے جہاد نہ کریں۔ ایسی صورت میں ان کے ارد گرد بسنے والوں پر جہاد نماز روزہ کی طرح فرض عین ہو جاتا ہے اوراسے ترک کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ پھر فرضیت کا دائرہ اس کے بعد اورپھر اس کے بعد والوں تک حسب ضرورت پھیلتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اسی تدریج سے بڑھتے ہوئے ایک (ہی) وقت میں مشرق ومغرب میں بسنے والے ہر مسلمان پر جہاد فرض عین ہو جاتا ہے۔ ( حاشیہ ابن عابدین ۳/۲۳۸۔ نیز بدائع الصنائع جلد ۷ و فتح القدیر لابن ہمام جلد ۵۔ بحوالہ ’’ایمان کے بعد اہم ترین فرض عین‘‘ از عبداللہ عزام) 

مذکورہ بالاعبارات میں ہر مسلمان پر جہاد کو فرض عین قرار دینے سے یہ بات ہی واضح ہو جاتی ہے کہ ایسی حالت میں صرف حکومت پر جہاد فرض قراردینا اور خود سے فرضیت کو (از خود بلادلیل شرعی) ساقط کرنا غلط ہے۔ بندہ کے اس دعوی پر بین دلیل شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ کی مندرجہ ذیل عبارت ہے:

واما قتال الدفع فھو اشد انواع دفع الصائل عن الحرمۃ والدین فواجب اجماعاً۔ فالعدو الصائل الذی یفسد الدین والدنیا لا شئ اوجب بعد الایمان من دفعہ فلا یشترط لہ شرط (کالزاد والراحلۃ) بل یدفع بحسب الامکان۔ وقد نص علی ذلک العلماء، اصحابنا وغیرہم۔ 
’’اور جہاں تک با ت ہے دفاعی قتال کی تو حرمتوں اور دین پر حملہ آور دشمن کو پچھاڑنے کے لیے یہ قتال کی اہم ترین قسم ہے اوراسی لیے اس کے فرض ہونے پر امت کا اجماع ہے۔ ایمان لانے کے بعد سب سے اہم فریضہ دین ودنیا کو برباد کرنے والے حملہ آور دشمن کو پچھاڑنا ہے۔ اس کی فرضیت کے لیے کوئی شرط نہیں۔ (مثلاً زاد راہ اورسواری موجود ہونے کی شرط بھی ساقط ہو جاتی ہے) بلکہ جس طرح بھی ممکن ہو، دشمن کو پچھاڑا جائے گا۔ یہ بات علماء نے صراحتاً کہی ہے، خواہ وہ ہمارے فقہی مذہب کے علماء ہوں یا دیگر فقہی مذاہب سے ہوں۔‘‘ ( الفتاوی الکبرٰی ۴/۵۲۰، بحوالہ ایما ن کے بعد اہم ترین فرض عین۔ اردو ترجمہ: الدفاع عن اراضی المسلمین اہم فروض العیان بعد الایمان۔ از ڈاکٹر عبداللہ عزام شہیدؒ )

مذکورہ فقہی عبارات کی روشنی میں جن علاقوں پر کفار حملہ آور ہیں ،ان پر جہاد فرض عین ہے۔ اس ادائیگی جہاد میں اصل مقصود تو لوجہ اللہ قتال ہے۔ دیگر تمام شعبے اسی کی مضبوطی اور قیام کے لیے ہوں گے۔ جبکہ دوسرے درجہ میں پڑوسی ممالک کے مسلمانوں پر ان مظلوم مسلمانوں کی مقدور بھر امداد وتعاون واجب ہے۔ 

پاکستانی جہادی نظم اسی دوسرے درجے میں مقدور بھر امداد وتعاون کی راہ اپنائے ہوئے ہے جو صرف تحریر وتقریر کی حد تک محدود نہ ہے بلکہ عملی قتال بھی ان نظموں کا اصل کام ہے۔ جہاں تک ان کے امراء، مسؤلین اور غیر جماعتی حمایتی لوگوں کی کاوشوں، تحریر و تقریر کے ذریعے ( جب کہ وہ حقیقتاً جہاد کے لیے مفید بھی ہو نہ کہ تنقید کے نام پر الزامات کا پلندہ) جہاد کی حمایت کے درمیان فرق کا ذکر ہے کہ مسؤول پاکستان میں یہی کام کرے تو جہاد میں شریک کہلائے جب کہ دوسری طرف غیر جماعتی لوگ اسی کام کے کرنے کے باوجود جہاد میں شریک نہ کہلائیں، دونوں میں فرق کیا ہے؟ تو جہادی نظموں کے طریقہ کار پر غور کرنے سے یہ فرق سمجھ آ سکتاہے۔کہ جہادی نظم صرف تحریر وتقریر تک اپنی حمایت کو محدود نہیں رکھتے، بلکہ عملی طور پر اصلی میدان (قتال) سے وابستہ ہونے کی بنا پر انہیں قتال کی حقیقی ضروریات کا علم ہوتا ہے اوروہ یہ ضروریات تمام تر مشکلات ومصائب کے باوجود بطریق احسن پوری کرتے ہیں۔ اس میں صرف تجزیہ کے نام پر بے جاتنقید، تبصرہ کے نام پر الزامات یا بند کمرے میں بیٹھ کر مفت مشورے دینے تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ اموال کی بہم ترسیل، افراد کی مسلسل فراہمی اور تمام ضروریات کو مد نظر رکھ کر نظام کار وضع ہوتا ہے جس کی کچھ تفصیل آئندہ سطور میں بھی آ رہی ہے۔ اس کے مقابلے میں حافظ زبیر صاحب جیسے افراد ایک طرف جہاد ومجاہدین کے متعلق ہتک آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں اور دوسری طرف خود کوجہاد میں معروف منوانے پر بھی مصر ہیں۔ 

حافظ صاحب ہی بتائیں کہ کیاجہادی علماء، مسؤلین کی طرح تحریروں سے ہٹ کر بھی ان کی عملی کاوشیں میدان قتال کے لیے ہیں؟ افراد کی فراہمی، امداد کی ترسیل، اپنی تیاری، ضرورت پڑنے پر میدان قتال میں وقتاً فوقتاً خود اترنا اور ان کاموں پر مشتمل کوئی نظام ہے؟ انگلی کٹوا کر شہیدوں میں نام لکھوانے کی روایت ماضی سے چلی آرہی ہے۔ حافظ صاحب توقلم گھسا کر شہیدوں میں نام لکھوانے کی ریت ڈالنا چاہتے ہیں۔ (وہ بھی حمایت کی بجائے مخالفت کر کے) 

امید ہے کہ ان سطور سے حافظ صاحب کواپنے تعاون (وہ بھی اپنے تئیں) اورجہادی علماء و امراء کے تعاون کا فرق معلوم ہو گیا ہوگا۔ مقصدیہ ہے کہ حافظ صاحب جس تنقید کو تعاون ہی کی صورت قرار دے رہے ہیں، اگر فی الواقع وہ مثبت تنقید ہو تو تب بھی صرف تنقید، تائید تحریر وتقریر اور جہادی نظموں سے متعلق افراد کے کام میں بہت بڑا فرق موجود ہے۔ جہادی نظموں کا حدود اربعہ تنظیم اسلامی کی طرح صرف اخبارات، میڈیا کے کیمروں اورائیر کنڈیشن دفاتر تک محدود نہیں، بلکہ اسلام آباد کے دفاتر اور بعض اداروں سے کشمیر وافغانستان کے پہاڑوں تک اموال ودیگر ضروریات اور افراد کی تسلسل کے ساتھ فراہمی، پاکستان کے سینکڑوں مجاہدین کا ان پہاڑوں پر بکھرا ہوا خوشبو بکھیرتا سرخ لہو، اس بات پر شاہد ہے کہ یہ جماعتیں ممکنہ وسائل کی حد تک مظلوم مسلمانوں کی ضروریات پوری کر رہی ہیں۔ اگر پاکستان کی قومی پالیسی پر بزدلی کی دھند نہ ہوتی توان مقدس ہستیوں کے اسماے گرامی نقل کرتا جو علم کی دنیا سے متعلق ہیں، لیکن ان جماعتوں کے ذریعہ نہ صرف عملی جہاد ( قتال) میں شریک رہے بلکہ اب بھی شریک ہیں۔

اپنے مضمون کے نکتہ نمبر ۲ کے ضمن میں حافظ صاحب حق تنقید کاجواز ثابت کرکے اپنی تحریری کاوشوں کوجہاد منوانے پر مصر ہیں۔ (الشریعہ مئی؍جون ۲۰۰۹ء، ص ۱۴۶) یقیناًاہل علم کوجہادی نظموں کے طریق کار پر بحث، تنقید کا حق نہ صرف حاصل ہے بلکہ آئندہ بھی رہے گا، بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہے کہ اہل علم کا فریضہ ہے کہ وہ تنقید وبحث کے ذریعے نظام کار کی خامیوں کی نشاندہی کریں، مفید مشورے دیں اور حق تنقید ادا کریں، لیکن یہ تنقید حقیقی تنقید ہو نہ کہ بلا ثبوت الزامات ۔ صرف اتہامات کو تنقید قرار نہیں دیا جا سکتا۔ 

دوسری بات یہ کہ بند کمروں میں محض تحریر، یا جلسوں کی تقاریر اور مثبت تنقید جب کہ اپنی حدود وشرائط کے ساتھ ہوتو یقیناًجہادو مجاہدین کے ساتھ بہترین تعاون ہے۔ لیکن یہ جہادی نظموں کے کام کے برابر یا فریضہ جہادکی ادائیگی کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ ان نظموں سے منسلک علماء، امراء کی تحریر، تقریر اور فتاوٰی پر اپنی تنقید کو قیاس کرنا اس لیے بھی محل نظر ہے کہ یہ علماء عظام، مسوولین ، مفتیان کرام ایک نظم کے تحت یہاں مامور ہوتے ہیں ۔ اگر میدان قتال میں ان کی تشکیل کی جائے تو نہ صرف تیار بلکہ اس کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔ مجاہدین کی نصرت میں لگے یہ علماء کرام دھکے اور دھونس سے عملی مجاہدین کے فضائل کو خود پر منطبق کرنے پر اصرار نہیں کرتے بلکہ وہ خود کو ان مجاہدین کے خادم کہلوانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ان تحریکوں کی خدمات اور دیگر افراد کی انفرادی کوششوں، تعاون اورمشاورت کے درمیان یہی بنیادی فرق ہے کہ جہادی نظم عملی طور پر شعبہ قتال سے متعلق ہونے کی بنا پر اپنی ہمتوں کا اصل میدان جہاد (قتال) کو بناتے ہیں۔ عملاً وابستہ ہونے کی وجہ سے انہیں قتال کی حقیقی اور واقعی ضروریات کا مکمل ادراک ہوتا ہے۔ دیگر شعبہ جات عموماً اسی اصل کو مضبوط کرنے کے لیے قائم کرتے ہیں جیسے میدان قتال میں اموال کی فراہمی، افراد کی تشکیل ، خالص جہادی مسلمان بنانے کے لیے اورعملاً وابستہ کرنے کے لیے ذہنی وفکری تربیت۔ اس کے علاوہ مستند علماء کی زیر نگرانی کام کرنے والے نظموں میں کامل دین پر عمل پیرا ہونے کے لیے دین کے تمام شعبوں کے احیا کی تڑپ دیکھی جا سکتی ہے جس میں مثال کے طور پر اپنی اصلاح کے لیے فکر مند ہونا اور دیگر مسلمانوں کو متوجہ کرنا، اصلاحی مجالس قائم کرنا، معروف معنوں میں باقاعدہ اصلاحی بیعت، تصوف اور ذکر اللہ کی مجالس کا قیام، تمام کارکنوں کی اصلاحی تربیت کے لیے مستند علما کی کتب کا مطالعہ لازمی قرار دینا، ہر ماہ عام لوگوں کے لیے بنیادی دینی مسائل سکھانے کا منظم طریقہ، نماز جیسے اہم فریضہ کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کرنے کے لیے ملک گیر اقامت صلوٰۃ مہم، دعوت جہاد، دورات تفسیر آیات جہاد کا سلسلہ، ادائیگی عشر وزکوٰۃسمیت دیگر اجتماعی وانفرادی فرائض کی طرف عامۃ الناس کو متوجہ کرنے کی ملک گیر مہمات، زلزلہ زدگان اور متاثرین سوات جیسے ہزاروں بے سہارا وبے گھر افراد کی کفالت۔ 

ان جہادی نظموں کی خدمات کا وہ روشن باب ہے جس کا اعتراف جنرل پرویز مشرف جیسا لبرل ( مجاہدین کش) لیڈر بھی کرتا رہا۔ مورخہ ۲۵؍جون ۲۰۰۹ء کو نوائے وقت لاہور کی خبر کے مطابق اقوام متحدہ اور واشنگٹن پوسٹ کے ایک گروپ کے مطابق اب تک کی رپورٹوں کے مطابق جہادی گروپ سوات متاثرین کی امداد میں سب سے آگے ہیں۔ اس کے علاوہ نکاح مسنون کو آسان اور سہل طریقہ پر کرنے کے لیے اداروں کی صورت میں خدمات اور اس جیسے دیگر اسلامی احکامات کی طرف عامۃ المسلمین کو متوجہ کرنا ان جہادی نظموں کی تاریخ کا حسین باب کہلائیں گے۔ 

تیسرے نمبر کے ضمن میں حافظ صاحب نے لکھا ہے کہ جب جہادی تحریکوں میں جہاد (قتال) کے طریقہ کار، منہج اور تطبیق کے حوالے سے اختلافات ہو جائیں تواس کے باوجود وہ مجاہدین اور غازی کہلاتے ہیں۔ (الشریعہ مئی؍جون ۲۰۰۹ء ص۱۴۶) 

اس عبارت میں حافظ صاحب نے بنیادی طور پر دو چیزیں لکھی ہیں: 

(الف) اگر جہادی تحریکوں کے باہمی شدید اختلافات ، اختلافی نظریات کے باوجود بھی وہ جہاد کر رہے ہیں توان کی ( حافظ صاحب کی) مخالفت کیسے جہاد نہیں قرار دی جا سکتی؟ جواباً عرض خدمت ہے کہ اس حوالے سے سابقہ سطور کو مد نظر رکھنا ہی مفید ہوگا کہ کفار کے خلاف کفار کے مقبوضہ علاقوں میں جہاد کرنے والے تمام نظم باہمی اختلافات کے باوجود بہرحال جہاد کررہے ہیں۔ یہ لوگ محض قلمی ٹارزن نہیں ہیں۔ ( ہماری بحث سے مسلم ممالک میں برسرپیکار نوجوان خارج ہیں)۔ مقبوضہ مسلم علاقوں میں کفار کے خلاف لڑنے والی جماعتوں میں تمام تر نظریاتی وفکری اختلافات کے باوصف، طریقہ کار کے فرق کے باوجود ان کا اصل میدان قتال فی سبیل اللہ ہے نہ کہ تنقید کے نام پہ تنقیص۔ 

محترم بحث کے نام پر بے جا الزامات لگا کر بھی مجاہدین کی صف میں کھڑے نظر آنا چاہتے ہیں۔ اگر جناب کو فضائل جہاد اتنے اچھے لگتے ہیں (کہ ہر سطر میں وہ خود کو ان نظموں کے برابر جہاد کرنے و الا باور کروانا چاہتے ہیں) اور قرآن کی آیات جہاد آنکھوں کے سامنے ہیں تو طریقہ یہ ہے کہ آئیے خود کو خطرات میں ڈالیے، گھر سے دور تشکیل، ایجنسیوں کا واچ اورنگرانی کے نام پر تنگ کرنا، اپنوں کے طعنے، ساتھیوں کی گرفتاری کا غم، پیاروں کی شہادت کا دکھ، اپنی گرفتاری کا خوف، ذمہ داریوں کے بکھیڑے، ہمہ وقت صرف لاالہ الااللہ کا ویزا قرار دے کر باڈر کراس کرنے پر تیار، عملی میدان میں آگ وبارود کو سامنا، یہ تمغے سینے پر سجائیے، پھر اختلافی آرا دیجیے، بحث کیجیے، تنقید کا فرض ادا کیجیے اور خود کو مجاہد بھی کہلوائیے۔ 

(ب) زبیر صاحب کے مطابق جہادی تحریکوں کے اختلافات عامۃ الناس کے لیے کنفیوژن کا سبب ہیں کہ اگر سب جہاد ہی کر رہے ہیں تو ان میں اتنے دھڑے کیوں ہیں او ر عام آدمی کس تنظیم کے ساتھ مل کر جہاد کرے۔ 

حافظ صاحب نے اعتراض کے اس حصے میں ایک گھسا پٹا سوال کر کے چلے ہوئے کارتوس کو چلانے کی کوشش او ر سعی کی ہے۔ گزارش ہے کہ اگر اختلاف کو بنیاد بنا کر یہی سوال کوئی مسلکی اختلافات کے بارے میں کرے یا مسلمانوں میں موجود متعدد طبقوں کے مختلف نظریات کو سامنے رکھ کر اس اختلاف کو سلام سے چھٹی کاعذر بنائے تو کیا اس کا یہ نقطہ نظر درست ہوگا؟ یا کوئی فلسفی انسانوں کے اختلافات بلکہ فسادات، قتل وغارت کو بنیاد بنا کر جانوروں کی کسی پرامن قسم میں جا پہنچے اور خود کو انہیں میں سے قرار دے تو کیا اس کا یہ عمل دیگر عقل انسانوں کے ہاں درست قرار دیا جائے گا؟ 

اگر اختلاف کی بنیاد پر اسلام سے نکل کر کفر میں جانااور انسانیت سے نکل کر جانوروں میں جانا درست ہے تو فرمائیں۔ اور اگر درست نہیں اور یقیناًدرست نہیں تو پھر جہادی تحریکوں کے اختلاف کی بنا پر ترک جہاد کیسے درست ہوگا؟ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ انسان ان مختلف لوگوں میں سے کس کے ساتھ ہو تو انسانوں کے اختلاف پر، مسلمانوں کے اختلاف پر جیسے عامی آدمی کرتا ہے، ویسے ہی یہاں بھی کرے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی عقل کو استعمال کرے، مختلف نظموں کے حالات سے واقفیت پیدا کرے اورجس نظم کومعتبر علماء واکابر کی تائیدات حاصل ہوں، اس نظم سے تعلق جوڑے۔

چوتھے نمبر کے ضمن میں حافظ صاحب رقم طراز ہیں کہ امریکہ، اسرائیل، انڈیا کے خلاف جہاد فرض عین ہے، لیکن کس پر ؟ اس کے جواب میں خود ہی کہا ہے کہ حکمرانوں پر نہ عوام پر، بلکہ عوام پر پرامن طریقوں، جلسوں، مظاہروں کے ذریعے حکمرانوں کو مجبور کرنے کی ذمہ داری ہے یا عوام الناس کی اصلاح کی کوششوں میں معروف ہونے کی ذمہ داری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بعض نظموں کی مثال دے کر عدم تشدد پرمبنی جدوجہد کا سبق مجاہدین کو دینے کی کوشش کی ہے اور ساتھ ہی جہاد فرض عین کے فتاویٰ جاری کرنے والے علما پر پھبتی کسی ہے۔ 

ان سطور کے جواب کاایک حصہ تو گزشتہ صفحات میں آ چکا ہے۔ خلاصہ کے طور پر مکرر عرض ہے کہ جہاد کی دو قسمیں ہیں۔ اقدامی جہاد اصلاً حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ از خود کفار پر حملہ آور ہو جس کے ترک پر حکمران گناہ گار ہیں۔ (بحوالہ حاشیہ ابن عابدین ۳؍۲۳۹) اگرچہ بعض مخصوص صورتو ں میں نان اسٹیٹ ایکٹرز کی اقدامی کاروائیاں بھی حقیقی اقدامی جہاد کا حکم رکھتی ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں المبسوط للسرخسی،کتاب السیر، باب مااصیب فی الغنیمۃ مما کان المشرکون اصابوہ من مال المسلم، ۱۰؍۸۲بحوالہ ماہنامہ الشریعہ نومبر ؍دسمبر ۲۰۰۸ء، ص۷۳) 

موجودہ حالات میں جن خطوں میں جہاد ہو رہا ہے، وہ دفاعی ہیں نہ کہ اقدامی۔ ان عبارات سے واضح معلوم ہو رہا ہے، کہ دفاع کی ذمہ داری (اگرچہ اولاً حکمرانوں کی ہے) عام لوگوں کی بھی ہے۔ فقہاء کی عبارات میں ’’فان ھجم العدو وجب علی جمیع المسلمین الدفع‘‘ کے الفاظ ہیں کہ کافروں کے حملے کی صورت میں تمام مسلمانوں پر سرزمین اسلام کا دفاع اور دشمن کا روکنا فرض ہے، جیساکہ راقم مذکورہ بالا سطور میں امام ابن تیمیہؒ اور علامہ ابن عابدین ؒ کی عبارات سے کافی وضاحت کر چکا ہے، بلکہ یہ الفاظ بھی فقہی کتابوں میں نمایاں ہیں کہ ’’تخرج المراۃ بغیر اذن زوجہا، والعبد بغیر اذن المولی‘‘ کہ ایسے حالات میں عورت خاوند کی اجازت کے بغیر اور غلام آقا کی اجازت کے بغیر نکلیں گے۔ 

فقہاء کرام جس فرض پر علی جمیع المسلمین کے واضح الفاظ لا رہے ہیں اور ابن تیمیہ ’’ فلایشترط لہ شرط‘‘ فرما رہے ہیں، حافظ صاحب اس کو ’’ہمارے نزدیک یہ گورنمنٹ کی ذمہ داری ہے‘‘ کہہ کر بغیر ثبوت ودلیل اور حجت کے قرآن وسنت سے متصادم نظریہ پیش کر کے پھر منوانے پر مصر بھی ہیں۔ حکمرانوں کو فرائض ادائیگی کی طرف دعوت اور مختلف طریقوں سے ان کا قبلہ درست کرنے کی کوشش یقیناًعلمائے کرام اور عوام کی ذمہ داری ہے، اس سے مفر نہیں اور جہادی نظموں سے منسلک افراد اس فریضے کی ادائیگی بھی بحمداللہ کرتے ہیں اوراس کی بھاری قیمت بھی چکانا پڑتی ہے، لیکن اس کایہ مطلب بھی نہیں کہ حکمرانوں کی درستگی تک تعطل جہاد کا علم تھا م لیاجائے۔ زبیر صاحب نے مجاہدین کو پرامن مظاہروں کی ترغیب دیتے ہوئے مفتیان کرام کے فتاویٰ کو ان کی نفسیاتی تسکین کی حد تک مقید کہا ہے تو جناب عرض ہے کہ ان مفتیان کرام ( فنافی اللہ کادرجہ پانے والوں) کے فتاوی کی قوت آج بھی بطور مثال پیش کیے جانے والے مظاہروں سے سو فی صد زیادہ ظاہر اور نتیجہ خیز ہے۔ 

آپ کے ان مظاہروں سے، جلسوں سے قوم کو جو کچھ ملا، وہ اور اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ جب کہ آپ کے مطعون علماء کے فتاویٰ کی روشنی میں جو قوت جہاد ومجاہدین کی شکل میں سامنے آئی، وہ ماضی اورحال میں دو سپر پاوروں کو مکمل شکست دینے کے بعد تیسری سپر پاور کو بھی شکست دینے کے قریب پہنچ چکی ہے۔ زبیر صاحب سرپھڑوانے کی مثالیں ان کو دے رہے ہیں جوان راہوں پر چلتے چلتے جانیں تک لٹا رہے ہیں، جن پر یہ آیت صاد ق آتی ہے: ’’فمنہم من قضی نحبہ ومنہم من ینتظر‘‘۔

آخر میں دو باتوں کی طرف متوجہ کرنا مفید سمجھتا ہوں۔ ایک یہ کہ حافظ صاحب نے اپنی تحریر میں کسی دلیل شرعی اور حجت وثبوت کے بغیر ’’ہمارے نزدیک‘‘ کا لفظ استعمال کیا اور پھر اپنے قائم کردہ نظریہ پر کوئی حجت شرعی نہیں لا سکے۔ وہ مجاہدین کو اخلاص کے ساتھ علم سے مزین ہونے کا صائب مشورہ (اشارۃً) دیتے ہیں، لیکن خود ’’ہمارے نزدیک‘‘ جیسے جملے استعمال کر کے یوں سمجھ رہے ہیں جیسے یہ تحریر الشریعہ کے قارئین کے لیے نہیں بلکہ تصوف کے سلسلے کے مریدین کے لیے ہے۔ گزارش ہے کہ اپنے نظریات وافکار کو سند تصور کر کے لوگوں پر مسلط کرنے کی بجائے دلیل وحجت کی دنیا میں تشریف لائیں۔ 

دوسری بات کہ انہوں نے مجاہدین کو تبلیغی جماعت، جماعت اسلامی، تنظیم اسلامی اور تحریک نفاذ شریعت محمدی کے نہج پرکام کرنے کی دعوت دی ہے۔ وضاحت کے طور پر کچھ سطور تحریر کی جاتی ہیں کہ تنظیم اسلامی کے متعلق گذشتہ صفحات میں جو سطور آ چکی ہیں، وہی مجاہدین کے نظم اور تنظیم اسلامی کے درمیان موجود واضح فرق کو بیان کر نے کے لیے کافی ہیں۔ جہاں تک بات جماعت اسلامی اورتحریک نفاذ شریعت محمدی کی ہے (بعض جزوی اختلافات کے باوجود) یہ واضح ہونا چاہیے کہ یہ جماعتیں صرف قلمی جہاد اور دفتری اسلام کے قائل نہیں ہیں بلکہ دین کے تمام شعبوں پر عمل کی فکر کے ساتھ قربانیوں کی لازوال تاریخ رکھتی ہیں جن میں کشمیر وافغانستان کے پہاڑوں کی گواہیاں بھی موجود ہیں جو کہ حافظ صاحب کے مطابق درست نہیں۔ رہا تبلیغی جماعت کا معاملہ تو اب ان کی اکثریت ایک محدود نصاب تربیت کوکل دین تصور کرتی اور (مزعومہ مجہول درجہ کے) یقین کے حصول تک تعطل جہاد کی فکر رکھتی ہے جو الگ درد ناک موضوع ہے۔ تبلیغی جماعت کی اصلاحی کوششوں اور ان کے مفید نتائج سے انکار نہیں ، تاہم ان کی فکری بے اعتدالیوں کو علماء حق کی سوچ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ 

آراء و افکار

(فروری ۲۰۱۰ء)

تلاش

Flag Counter