سماجی، ثقافتی اور سیاسی دباؤ اور دین کی غلط تعبیریں

ڈاکٹر حافظ صفوان محمد چوہان

اللہ نے دین کو دنیا و آخرت کی کامیابی کا ذریعہ بنایا ہے۔ صحابۂ کرام علیہم الرضوان میں بہت کم لوگ ایسے تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے اور اُن میں بھی ایسے لوگ گنتی کے چند تھے کہ جنھیں دین فہمی میں رسوخ کا وہ درجہ حاصل تھا کہ اُن کے لیے زبانِ نبوت سے ’’فقیہ‘‘ کا جاوداں لقب حاصل ہوا۔ بحیثیت مجموعی یہ وہ لوگ تھے جن کو صحبت نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا وہ جوہر عطا ہوا تھا کہ جس کو کسی بھی بڑی سے بڑی نعمت کا مثل بتانے میں زمین و آسمان کی کل نعمتوں میں سے کسی پر نگاہ نہیں ٹھہرتی۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے مؤسسِ دعوت و تبلیغ حضرت مولانا محمد الیاس رحمۃ اللہ علیہ کے نظریۂ تعلیم و تعلم کا ذکر بایں الفاظ کیا ہے: ’’دین کا کچھ حصہ جوارح سے تعلق رکھتا ہے، وہ جوارح کی حرکت ہی سے حاصل ہوگا۔ کچھ حصہ قلب سے تعلق رکھتا ہے، وہ قلب سے قلب میں منتقل ہوسکتا ہے۔ کچھ حصہ ذہن سے، وہ بے شک کتابوں کے صفحات سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔‘‘ صحابہ کرام کی اکثریت دین کے اُس حصے کی حامل تھی جو اعضا و جوارح کی حرکت سے متعلق ہے۔ اُن کے اند ر دین متین کا یہ حصہ رچ بس گیا تھا۔ چنانچہ دین کے اِس حصے کو لے کر وہ جہاں گئے، دین کے اِس حصے کو زندہ کرتے چلے گئے۔ چند عشروں میں خدا کی پوری معلوم دنیا جسم سے نکلنے والے اعمال یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور شہادتین سے آشنا ہوگئی۔ دین دین کی محنت سے زندہ ہوتا ہے؛ باتوں سے باتیں پھیلتی ہیں۔ 

اللہ نے دین کو آسان کیا۔ لوگ اپنی ناسمجھی، معاشرتی دباؤ اور بسا اوقات عقیدت کی کسی خاص لہر میں آکر اِسے مشکل بنالیتے ہیں۔ ذیل کی سطروں میں ایسی ہی چند غلط فہمیوں کا بیان ہے۔ 

اللہ تعالیٰ نے نماز کو وقتِ مقرر پر فرض کیا ہے اور پوری دنیا کو سجدہ گاہ بنایا ہے۔ کسی نماز کو کسی خاص مسجد یا امامِ مسجد سے مخصوص کرلینا صرف ذوقی چیز ہے جس پر اصرار درست نہیں۔ مسجد بیت الحرام، مسجد نبویؐ اور مسجدِ بیت المقدس کے علاوہ دنیا کی تمام مساجد میں نماز کا ایک ہی جتنا اجر ہے، اور اِن تین مساجد کے علاوہ کسی بھی جگہ کے سفر کو عبادت کی نیت سے کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ کسی مذہبی جماعت کے صدر مقام پر برائے تربیت و اصلاح جانے والوں کو اپنی نیت کی درستی خاص طور سے کرنی چاہیے کہ وہاں کی گئی عبادت کا اللہ کے ہاں کوئی خاص درجہ نہیں ہے۔ یا مثلاً کسی کام کے ہوجانے پر کسی خاص مسجد میں نفل وغیرہ پڑھنے کی منت مان لی جائے، یہ بھی درست نہیں۔ نفل ضرور پڑھنے چاہییں اور اُن کی منت بھی مانگی جانی چاہیے، لیکن اِس ادائیگی کو کسی جگہ کے ساتھ مخصوص نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ کے وہ بندے جو قضائے عمری ادا کرتے ہیں، اُنھیں یہ بتایا جانا چاہیے کہ قضا صرف فرض نماز کی ہے جس میں نمازِ عشا کے تین وتر بھی آتے ہیں۔ عیدِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا لغوی مطلب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش مبارک کی خوشی ہے۔ اِس روز نماز سمیت کسی بھی عبادت کی کوئی الگ حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی اِس عید (یعنی خوشی) کی کوئی نماز ہے۔ نمازِ عشا کے بعد پڑھے جانے والے تمام نفل رات کی نماز یعنی تہجد کی تعریف میں شامل ہیں۔ 

صلوٰۃِ تسبیح کی جماعت نہیں ہوتی۔ کچھ لوگ نمازوں میں صرف سورۂ اخلاص اور سورۂ کوثر پڑھنے کو درست سمجھتے ہیں، ایسا درست نہیں۔ فجر کی سنتوں کی وجہ سے اگر جماعت جاتی ہو تو اِنھیں موخر کردینا چاہیے۔ نماز کے دوران موبائل کی گھنٹی بند کرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی، لیکن اِس میں جلدی کرنی چاہیے اور بٹنوں کو خوامخواہ ٹٹولنا نہیں چاہیے۔ جمعے کا خطبہ اور عیدین کے خطبے اپنے آداب کے اعتبار سے نماز ہائے جمعہ و عیدین کا ویسے ہی حصہ ہیں جیسے کہ نماز میں التحیات ہوتی ہے۔ اِن خطبوں کے دوران کوئی بات کی جائے یا کسی بات کا جواب دیا جائے یا محض اشارہ ہی کیا جائے یا کوئی نماز ہی پڑھی جائے تو خطبہ ٹوٹ جاتا ہے، یعنی اِس کا اجر نہیں ملتا۔ نمازیوں کا اِن خطبوں کو سننا خطیب کا حق ہے۔ باجماعت نماز اکیلے نماز پڑھنے سے کئی درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے چنانچہ جہاں تک ہوسکے، نمازِ باجماعت کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ اِس لیے بھی کہ پوری جماعت میں ایک بھی آدمی کی نماز قبول ہوجائے تو جماعت کی برکت سے سبھی کی نماز قبول کرلیے جانے کی امید ہے۔ 

نمازِ باجماعت، جمعہ اور عیدین کا اہتمام عورتوں کے لیے بھی کرنا چاہیے۔ اگر فتنہ کا خوف نہ ہو تو اہل خانہ کو چاہیے کہ عورتوں کے مسجد میں جاکر نماز ادا کرنے میں بلا وجہ رکاوٹ نہ ڈالیں۔ اللہ نے مردوں کو عورتوں پر قوام بنایا ہے یعنی اُنھیں عورتوں پر برتری دی ہے۔ مردوں کے ذمے ہے کہ عورتوں کے لیے باجماعت نماز کی ادائیگی کی صورتیں بنائیں، ورنہ خدا کے ہاں اپنا جواب سوچ رکھیں۔ مسجدیں صرف مسلمان مردوں کے لیے تربیت گاہیں یا میل جول کے مقامات (Community centres) نہیں ہیں بلکہ عورتوں اور بچوں کے لیے بھی ہیں۔ مسجدِ نبوی شریف میں عورتیں بھی تشریف لایا اور جمع ہوا کرتی تھیں۔ مسجد میں بچوں کو ضرور لے جانا چاہیے کیونکہ صحابہ کرام ایسا کرتے رہے ہیں۔ حضرات حسنین کریمینؓ اور حضرت امامہ بنتِ عثمان رضی اللہ عنہا تو اپنے بچپن میں مسجدِ نبوی شریف میں آکر کھیلتے بھی رہے ہیں۔ دودھ پیتے بچے روتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو مختصر فرما دیا کرتے۔ معلوم ہوا کہ اُس دور میں عورتیں شیر خوار بچوں کو بھی مسجد نبوی شریف میں لایا کرتی تھیں اور آج تک لاتی ہیں۔ 

ہر آزاد مسلمان (مرد ہو یا عورت) پر نماز ہر حال میں فرض ہے، چاہے وہ ہوا میں اُڑ رہا ہو یا پانی میں ڈوب ہی کیوں نہ رہا ہو۔ نماز کو چھوڑ کر مخیر یا بااخلاق بننے کی کوشش کرنا سخت بھول ہے جس میں بہت سے لوگ مبتلا ہیں۔ خوب یاد رکھنا چاہیے کہ نماز کی حیثیت دین میں ویسی ہے جیسی بدن میں سر کی ہے، چنانچہ اِس کے قیام کے بغیر اسلام کا دعویٰ ہی بے دلیل ہے۔ اذان اسلام کے شعائر میں سے ہے، اِس لیے اِس کی خاص طور سے فکر کرنی چاہیے۔ عورتیں اذان نہیں کہہ سکتیں، البتہ نابالغ بچہ کہہ سکتا ہے۔ نماز کے بارے میں یہ بات بھی بغور سمجھنے کی ہے کہ اِس سے صرف آخرت نہیں بنتی بلکہ دنیا کی صلاح و بربادی بھی نماز کے قیام اور چھوڑ دینے پر منحصر ہے۔ 

روزہ بھی ویسے فرض ہے جیسے نماز۔ جس طرح کسی کے ادا کرنے سے کسی دوسرے کی نماز نہیں ہوتی، ویسے ہی روزہ بھی بذاتِ خود رکھنا لازم ہے۔ جو روزے چھوٹ گئے ہوں، اُن کی قضا بھی لازم ہے۔ اللہ نے کچھ خاص مواقع کے لیے جو چھوٹ دی ہے، اُسے بہانہ بناکر روزے کا مذاق نہیں بنانا چاہیے۔ 

زکوٰۃ کا مطلب اپنے مال میں سے مخصوص حصے کو نکال کر پھینکنا نہیں ہے۔ جس طرح نماز کے لیے موقع و محل دیکھنا اور پاکی پلیدی کی جانچ ضروری ہے اور ہر نمازی کے لیے بذاتِ خود ضروری ہے، ویسے ہی زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے بھی موقع ڈھونڈنا اور اُس کی جانچ پڑتال کرنا ہر ایک کے لیے ضروری ہے اور بذاتِ خود ضروری ہے۔ سال پورا ہوتے ہی زکوٰۃ کا حساب فوراً مکمل کرلینا چاہیے اور جب بھی کوئی درست مصرف نظر آئے تو اِس رقم کو احتیاط سے استعمال کرنا چاہیے۔ باوجود پوری تلاش کے جب تک درست مصرف نظر نہ آئے، تب تک اِس رقم کو استعمال نہیں کرنا چاہیے خواہ یہ کتنے ہی دن تک رکھی رہے۔ مالِ زکوٰۃ جمع کرنے والے لوگوں اور اداروں کے بارے میں کامل اطمینان کے بعد ہی زکوٰۃ اُن کے سپرد کرنی چاہیے کیونکہ اِس کے بعد زکوٰۃ دینے والا فقہی طور پر اِس فرض سے فارغ ہوجاتا ہے اور یہ تحقیق کہ مالِ زکوٰۃ کہاں لگایا گیا، اُس کے ذمے نہیں رہتی۔ یاد رکھنا چاہیے کہ زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد بھی لوگوں کے مالوں میں برکت اور اُن کے مالوں کی حفاظت اِس لیے نہیں ہوتی کہ اُن کے زکوٰۃ کی مد میں دیے ہوئے پیسے زکوٰۃ کے درست مصرف میں استعمال نہیں ہوتے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ زکوٰۃ ادا ہو اور مال کی حفاظت نہ ہو جب کہ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ مالِ زکوٰۃ کے درست مصرف میں نہ لگنے سے نہ صرف یہ کہ زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی بلکہ مال جیسی نعمت کے غلط مصرف میں لگنے کا گناہ بھی ہوتا ہے۔ اِس بارے میں خاص احتیاط کی ضرورت ہے۔ زکوٰۃ کا صرف رمضان میں دیا جانا ضروری نہیں۔ پورے سال میں کسی بھی وقت کوئی مستحق نظر آجائے تو اُسے زکوٰۃ دے دینی چاہیے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کی ایک آسان ترتیب یہ بھی ہے کہ حساب کرلینے کے بعد کل رقم کو بارہ مہینوں پر تقسیم کرکے ہر مہینے ادائیگی کی جاتی رہے۔ یکمشت ادائیگی کبھی کبھی بوجھ بھی بن جاتی ہے۔ 

زکوٰۃ اِس انداز میں نہیں دینی چاہیے کہ لوگ اِسے اپنا حق سمجھنے لگیں، بلکہ اِسے اِس انداز میں لگانا چاہیے کہ زکوٰۃ لینے والا آئندہ کے لیے اِس کا مستحق نہ رہے اور خود زکوٰۃ دینے والا بن جائے۔ مدینہ شہر میں کوئی زکوٰۃ لینے والا اِس لیے نہیں ملتا تھا کہ اُن لوگوں نے مل جل کر سب ضرورت مندوں کو ایسی ترتیب بناکر زکوٰۃ دی تھی کہ کچھ ہی عرصے میں یہ سب کے سب اپنے پاؤں پر کھڑے ہوگئے تھے۔ زکوٰۃ کی درست ادائیگی کے لیے خاندان اور محلے کی سطح پر چھوٹے چھوٹے گروپ بنانے چاہییں یعنی کچھ کچھ لوگوں کو مل کر یہ کام کرنا چاہیے: ضرورت مند خود تلاش کریں اور خود خرچ کریں۔ اِس کی بہترین شکل یہ ہے کہ رشتے دار مل کر ہر بار اپنے کسی قریبی مستحق رشتے دار کو مناسب کاروبار کرادیں، اور اِسی طرح محلے دار، وغیرہ۔ زکوٰۃ کا مال جہاں کے امیروں سے لے کر جمع کیا گیا ہو اُسے اصولًا وہیں کے غریبوں پر خرچ کرنا چاہیے۔ جو رشتے دار جتنا قریبی ہے، وہ زکوٰۃ کا اُتنا زیادہ مستحق ہے۔ مدارس دینیہ اور سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم بے آسرا مسلمان طلبہ و طالبات مالِ زکوٰۃ کا ایک جائز مصرف ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ زکوٰۃ دینا فرض ہے، اور جو اِسے قبول کرے، اُس کا احسان ماننا چاہیے کہ اُس کی وجہ سے آپ اِس فرض کے ادا کرنے کے قابل ہوئے۔ اللہ بہت جزائے خیر دے ہمارے علمائے کرام کو کہ امت کے اِس بنیادی فرض کی ادائیگی کے لیے سبیلیں پیدا فرماتے رہتے ہیں۔ 

حج کی فرضیت کی بنیادی شرط اِس سفر کی استطاعت رکھنا ہے یعنی مالی اور بدنی اعتبار سے مضبوط ہونا۔ دوسروں کے ہدیہ کیے ہوئے پیسوں سے حجِ بدل ہوتا ہے نہ کہ حج۔ ہاں! اِس سے فریضۂ حج ادا ہوجاتا ہے اور حج کرنے والے کو زیارات اور عبادات کا اجر بھی ملتا ہے۔ حکومت کے کسی کو حج کرانے کی کوئی اصل نہیں ہے کیونکہ حکومت پر نہ تو حج فرض ہے اور نہ حجِ بدل کی کوئی تُک بنتی ہے۔ حج انسانوں پر فرض ہے نہ کہ حکومت پر۔ کوئی مسلم یا غیر مسلم حاکم کسی کو اپنے ذاتی مال سے حج کرادے تو اِسے حکومت کا کرایا ہوا حج نہیں کہیں گے۔ نیز جو حکومت خود قرضے پر چلتی ہو وہ کسی کو حج کیسے کراسکتی ہے؟ اور یہ بات معلوم ہے کہ اِس وقت پوری دنیا کی حکومتیں قرض لے کر کام کرتی ہیں۔ مقروض پر تو حج ویسے ہی فرض نہیں۔ جو لوگ کسی ادارے میں کام کرتے ہیں اور مالکِ ادارہ قرعہ اندازی یا نامزدگی کے ذریعے ملازمین کو حج کی سعادت حاصل کرنے کا موقع دیتا ہے تو کسی کے ذاتی کاروبار کی حد تک تو اِسے یوں درست کہا جاسکتا ہے کہ اُس مالک نے اپنے لیے حجِ بدل کرایا ہے یا حج کے لیے رقم ہدیہ کی ہے، لیکن اگر ادارہ سرکاری ہو تو اجتماعی مال کے ساتھ ایسا حیلہ کرنا بڑی جرات ہے۔ فقہ میں اگرچہ بیت المال کی رقم سے حج کرانے کی اجازت موجود ہے لیکن تقویٰ میں عمومی کمی، مال کے بارے میں للچاؤ، اقربا پروری اور دیگر کئی وجوہ سے یہ عملًا مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ کوشش کرنی چاہیے کہ حکومت کے مال سے حج و عمرہ نہ کیا جائے۔ 

نبیِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مدینہ و مکہ شہروں میں عورتیں بھی دکانداری کرتی تھیں، بلکہ آج تک کرتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مالِ تجارت لے کر بذاتِ خود سفر فرمایا ہے۔ معلوم ہوا کہ اسلام میں عورتوں کا ملازمت کرنا اور کاروبار کرنا ہرگز حرام نہیں ہے۔ ہاں! بے پرد ہونا حرام ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ عورتوں کو عصری تعلیم اور فنی تربیت دے کر معاشرے کا کارآمد رکن بنانا دورِ جدید کی روشن خیالی نہیں ہے بلکہ ابتدائے نبوت سے اسلام کی تعلیم ہے اور اِن کو عضوِ معطل بناکر گھر ہی میں ڈالے رکھنا دین کے فہم سے عاری ہونے کی علامت ہے۔ صحابہ کرام کی بیٹیاں اور بیویاں گھر کا خرچ چلانے کے لیے اپنے مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی رہی ہیں۔ حضرت علی شیرِ خدا رضی اللہ عنہ کی اہلیہ خاتونِ جنت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا اونٹوں کو کھلانے کے لیے کھجور کی گٹھلیاں پیسا کرتی تھیں اور اناج پیسنے کے لیے چکی چلاتی تھیں، اور اُن کے جسمِ اطہر پر پانی کی مشک مستقلًا لادنے کی وجہ سے نشان پڑگئے تھے۔ نبیِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنھیں مخصوص ذکر ’’تسبیحاتِ فاطمہ‘‘ عنایت فرمایا تھا جس سے جسمانی مشقت سے ہونے والی تھکاوٹ دور ہوجاتی ہے۔ یہ ذکر خاص عورتوں کے لیے ہے جس سے مرد بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیٹیاں ہی بیٹیاں تھیں جو گھریلو صنعت لگاکر کام کرتی تھیں۔ اُن سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جو شخص ہر رات میں سورۂ واقعہ پڑھے، اُس کے گھر میں فاقہ نہیں آتا۔ پوری امت اِن محنتی اور کارگزار خواتین کی احسان مند ہے کہ اِن کی برکت سے امت کو یہ اعمال تعلیم فرمائے گئے۔ امت کی فلاح و بہبود کے لیے کوشش کرنا جیسے مسلمان مردوں کے ذمے ہے ویسے ہی مسلمان عورتوں کے بھی ذمے ہے۔ 

ایسی ہی کچھ غلط فہمیاں استخارہ، اعتکاف، صدقہ و خیرات، لباس، نکاح اور نکاحِ ثانی، عدت، ساس بہو کے جھگڑے کو مذہبی سٹنٹ بنانا، میڈیا اور تصویریت، قرض کی واپسی اور لین دین، اور قومی و ملّی شعائر و شخصیات کے احترام وغیرہ کے بارے میں بھی عام ہیں۔ استخارہ اللہ سے مشورہ ہے۔ مشورہ وہی کرتا ہے جس کا معاملہ ہو۔ یاد رکھیے کہ جب حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو پیغام بھیجا تو اُنھوں نے جواب دیا کہ میں اپنے اللہ سے استخارہ کروں گی۔ آج یہ بات سمجھنے کے لیے بڑے بڑے دین دار بھی تیار نہیں ہیں۔ دیکھیے! اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام آیا ہے اور یہ خاتون خود استخارہ کرنے کا کہتی ہے! یہ اِس لیے تھا کہ اُن لوگوں میں دین کی سمجھ تھی۔ کیا یہ خاتون، ہماری ماں، ام المومنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا اِس بات سے ناواقف تھیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان کے نکلنے والی ہر بات اللہ کی منشا کے مطابق ہوتی ہے اور یہ کہ اُنھوں نے اللہ کے حکم ہی سے اُنھیں اپنا رشتہ بھیجا ہے؟ اِن لوگوں کو دین کی ایسی سمجھ تھی کہ اِس خاتون نے یہ بھی نہیں کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا ہو کہ وہ اُن کے لیے استخارہ فرمادیں۔ اپنے لیے استخارہ اُنھوں نے خود ہی کیا! اُن لوگوں کو شرم کرنی چاہیے جو استخارہ سنٹر بناکر سادہ لوح مسلمانوں کو لوٹتے ہیں۔ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ گاجریں کوئی کھائے اور پیٹ میں درد کسی اور کے ہو؟ میں ایک نوجوان کو جانتا ہوں جو ابھی خود شادی شدہ نہیں ہے اور استخارے کے لیے لڑکیوں کی تصویریں جمع کرانے کو کہتا ہے۔ اچھی طرح سمجھنے کی بات ہے کہ کسی بزرگ کا تو کیا سوال، لڑکی کے لیے استخارہ تو اُس کے ماں باپ تک نہیں کرسکتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المومنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی سنت یہ ہے کہ شادی کے لیے استخارہ صاحبین معاملہ یعنی وہ لڑکا اور لڑکی خود کریں جن کا رشتہ ہونے کی بات چل رہی ہے۔ اگر اِن استخارہ کرنے والے لڑکا یا لڑکی کو کوئی اشارہ مل جائے تو ٹھیک، ورنہ یہ اللہ کی جانب سے اُن کے لیے گویا بلینک چیک ہے۔ اِن کے رشتے میں خیر ہی خیر ہوگی، اِس لیے کہ اِن دونوں نے اللہ سے مشورہ کرلیا ہے۔ اور اللہ سے مشورہ کرنے والا کبھی نامراد نہیں ہوتا! استخارے کی اِسی فلاسفی کو کاروبار، سفر، وغیرہ کے لیے بلاتکلف استعمال کیا جانا چاہیے۔ 

اعتکاف ایک مستقل سنت ہے۔ کسی معتکف کے لیے اگر گھر سے کھانا لانے لے جانے والے کا انتظام نہ ہو تو وہ خود کھانا لا اور لے جاسکتا ہے، اِس خدمت کے لیے کسی پر بوجھ بننا اور سوال کرنا ناجائز ہی نہیں بلکہ شدید مکروہ فعل ہے۔ رفعِ حاجت کے لیے گھر میں آیا جاسکتا ہے۔ ہاں! فالتو ایک لمحے کے لیے بھی نہیں رکنا چاہیے۔ سخت گرمی کے دنوں میں اعتکاف میں بیٹھے لوگوں کو نہانے سے روکنا اور سلام کا جواب تک دینے سے منع کرنا وغیرہ وہ شدتیں ہیں جو تمام بلادِ اسلامیہ میں صرف ہمارے ہاں ہی پائی جاتی ہیں۔ پاکستان کی ایک مسجد میں مکۂ معظمہ کے قدیمی رہائشی کچھ عربوں نے معتکفین کی یہ صورتِ حال دیکھی تو بہت جزبز ہوئے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنا سر مبارک گھر کے اندر کرکے تیل بھی لگوایا ہے، اور ایسا کرتے ہوئے سلام دعا بھی یقینًا فرمائی ہوگی۔ عورتوں کو بھی اعتکاف کی ترغیب دینی چاہیے اور اُن کے لیے اِس کا ماحول بنانا مردوں کے ذمے ہے۔ 

صدقہ بلاؤں کو دور کرتا ہے، لیکن اِس کی ادائیگی کے معاملے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں عام طور سے رواج میں ہیں جن سے مکروہ معاشرتی برائیاں وجود میں آتی ہیں۔ صدقے کے بارے میں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ کسی کو اِتنا مال دے دینا کہ وہ للچا جائے یا غلط فہمی کا شکار ہوجائے، یہ درست نہیں۔ زکوٰۃ کی طرح صدقہ بھی ایک ہی ضرورت مند کو بھی دیا جاسکتا ہے اور تقسیم کرکے کئیوں کو بھی۔ صدقے میں جانور کا ذبح کرنا درست ہے لیکن اِس کے لیے کالے رنگ کے جانور پر اصرار صرف ہم ہندی مسلمانوں کے ہاں ہے۔ کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو ہندو اِسے بدشگونی سمجھتے ہیں، مسلمانوں نے شاید اِسی سے کالے رنگ کے جانور کی قربانی کو بدشگونی رفع کرنے کا سبب سمجھ لیا ہے۔ صدقہ روزانہ دینا چاہیے اور اِتنی مقدار میں کہ بوجھ محسوس نہ ہو۔ صدقہ و خیرات کرکے خود قلاش و محتاج ہوجانا بالکل درست نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے والے لوگوں کا مال قبول نہیں فرمایا، اور ایسوں کا بھی جو صدقہ و خیرات کرکے احسان جتاتے ہیں۔ صدقے کی حقیر سے حقیر مقدار بھی اللہ کے ہاں مقبول ہے۔ کسی کو اچھی بات بتا دینا اور خندہ پیشانی سے پیش آنا بھی صدقہ ہے۔ کسی کے لیے کچھ پڑھ کر اُسے بخش دینا بھی صدقہ ہے۔ ایسا صدقہ جس کا سلسلہ مرنے کے بعد بھی ختم نہ ہو صدقۂ جاریہ کہلاتا ہے: مسجد، پل یا تالاب بنوا دینا، کسی کو عالم، حافظ یا قاری بنا دینا، کسی کو عصری تعلیم دلا دینا کہ وہ اپنے خاندان کی کفالت کرسکے اور معاشرے کا کارآمد فرد بن سکے، دینی یا دنیاوی علوم کی درسگاہ بنوا دینا، وغیرہ۔ 

اب لباس کی طرف آئیے۔ اسلام نے لباس کے آداب اور رکھ رکھاؤ (Dress code) دیا ہے نہ کہ فی نفسہٖ کوئی خاص لباس، اور یہ اِس لیے ضروری تھا کہ اسلام نے قیامت تک کے زمانے کے لیے اور دنیا کے گرم و سرد اور بنجر و شاداب ہر علاقے کے لیے اپنے آپ کو قابلِ قبول بنانا تھا۔ بلکہ ایک اِس دنیا ہی کے لیے کیا، جتنے سیارے اِس کے علاوہ ہیں اور جتنے ابھی دریافت ہونے والے ہیں اُن سب میں جہاں جن و انس آباد ہوسکتے ہیں اُن کے لیے مناسبِ حال شرعی پہناووں کا متنوع حل دینا بھی اِس عالمی و فطری مذہب کے لیے ضروری تھا۔ معاشرتی دباؤ اور چلن کی وجہ سے لباس کے بارے میں غیر ضروری شدت بلکہ لباس کو ’’اسلامی‘‘ اور ’’غیر اسلامی‘‘ تک قرار دے دینا ہماری دلچسپ اسلامی حماقتوں میں سے ہے۔ نبیِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام عمر دھوتی پہنی، شلوار کبھی نہیں پہنی، اور نہ کبھی شیروانی پہنی۔ ہمارے دین دار لوگ شلوار ہمیشہ اور شیروانی اکثر پہنتے ہیں، لیکن حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بھر کی سنت یعنی دھوتی البتہ بالکل نہیں پہنتے۔ اِلّا ماشاء اللہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کی مانگ کے بارے میں احادیث موجود ہیں۔ چنانچہ یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ کچھ لوگوں نے اِسے دیکھا تھا تو ہی یہ حدیثیں بیان ہوئی ہیں۔ سر کا ڈھکا ہونا ادب بھی ہے اور سنت بھی، لیکن اِسے ٹھیٹھ اسلام اور غیر اسلام کا مسئلہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔ سید ذوالکفل مرحوم فرماتے تھے کہ اتباعِ سنت میں ٹوپی ضرور پہننی چاہیے، لیکن اتباعِ سنت ہی میں اِسے کبھی کبھی اتار بھی دینا چاہیے۔ کالر والے کوٹ اور کالر والی یا گول گھیرے والی قمیص کو عیسائیت کا نشان سمجھنا بھی دورِ حاضر کی شدید غلط فہمی ہے؛ لباس کی یہ وضع قطع قدیم مسلمان عمائدین سے لے کر خلافتِ عثمانیہ کے اہلکاروں کے سرکاری لباسوں تک میں ملتی ہے۔ لڑکیوں کو فراک پہنانا بھی برِ عظیم پاک و ہند میں بڑی دیر تک دین باہر ہونے کی علامت رہا ہے کیونکہ یہ لباس فرنگنیں اپنے ساتھ لائی تھیں، حالانکہ معلوم ہے کہ اِس لباس میں پردہ زیادہ ہے۔ پتلون کو ٹھیٹھ فرنگی لباس سمجھنا بھی راہِ اعتدال سے ہٹ جانا ہے؛ حضرت عمر اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم کی اسلامی فوج کے یونیفارم کی وضع ایسی ہی رہی ہے اور آج تک کی مسلمان افواج میں چلن میں ہے۔ اِسی طرح ٹائی کو صلیب سمجھنا بھی ایک دیرینہ اسلامی لطیفہ رہا ہے۔ المختصر ضرورت کے وقت ایسے پہناوے استعمال کرلینے والے مسلمانوں کے بارے میں دل برا نہیں کرنا چاہیے۔ دنیا بھر کے اسلامی ممالک میں یہ اور ایسے لباس اب عام شہری اور دفتری چلن میں ہیں۔ خلاصۂ کلام یہ کہ کوئی لباس اسلامی یا غیر اسلامی نہیں ہوتا؛ جس جگہ کے مہذب مسلمان جو لباس عام طور سے اختیار کرلیں وہی وہاں کا عام مذہبی لباس ہے۔ 

عورتوں کے لباس کی اسلامائزیشن کے بارے میں بھی ایسی ہی کئی غلط فہمیاں ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ پردہ اسلام کے شعائر میں سے ہے اور مسلمان عورتوں کا امتیازی نشان، اور برقع پردہ کرنے کے لباسوں میں سے ایک لباس ہے۔ لہٰذا موقع و محل کے مطابق پردے کے لیے برقع یا کوئی اور لباس یعنی چادر وغیرہ استعمال کی جاسکتی ہے۔ برقعے کی کوئی بھی وضع قطع مسنون نہیں ہے۔ ٹوپی والا تو برقع تو خالص ہمارے علاقے کی ایک ڈیڑھ صدی پہلے کی ایجاد بلکہ بدعتِ حسنہ ہے۔ جب اِس میں شدت کی گئی تو اِس کے لازمی ردِ عمل کے طور پر ایسے برقعے نظر آنے لگے جو اِتنے جاذبِ نظر اور چست ہوتے ہیں کہ پہنے ہی اِس لیے جاتے ہیں کہ کوئی دیکھے تو بار بار دیکھے، بلکہ ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا کا دیکھتا رہ جائے۔ پہلی نظر معاف ہے؛ یہ پہلی نظر اگر ختم ہو تو دوسری کی باری آئے۔ یعنی برقعے کا مقصد ہی فوت ہوگیا۔ نیز کئی صورتیں بھی ایسی ہوتی ہیں کہ اگر برقع نہ پہنیں تو اُنھیں کوئی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھے۔ چنانچہ ایسا برقع ہی داعیِ گناہ بن جاتا ہے۔ واضح رہے کہ جس برقعے یعنی بڑی چادر کا ذکر احادیثِ پاک میں ملتا ہے اُس وضع قطع والا پہناوا وہ ہے جو آج عبایا کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور ایران، عراق، شام و فلسطین وغیرہ میں عام رواج میں ہے۔ میں ایک بار سید ذوالکفل مرحوم کے ساتھ ایک اسلامی ملک کے سفارت خانے میں گیا جہاں کے عملے میں ایک برقعے والی پاکستانی لڑکی بھی تھی اور دفتری کوٹ کے ساتھ گھٹنوں تک سکرٹ پہنے ہوئے ادھ ننگی ٹانگوں والی کچھ انگریزنیاں بھی۔ بھائی ذوالکفل نے چھوٹتے ہی کہا کہ اِس برقعے والی جھانپو کبوتری کو دیکھ کر وہ حدیث پاک یاد آئی کہ کچھ عورتیں کپڑے پہنے ہوئے بھی ننگی ہوں گی۔ بات چلی تو مزید فرمایا کہ دفتر میں کام کرنے والے مردوں اور عورتوں کو یونیفارم کی طرح کا کوئی مخصوص دفتری لباس پہننے کی پابندی ہونی چاہیے کیونکہ اِس سے بہت حفاظت رہتی ہے۔ 

عورتوں کو برقعے میں اِتنا چھپا ہوا نہیں ہونا چاہیے کہ اُنھیں پہچانا ہی نہ جاسکے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ برقعے کا مقصد زینت کو چھپانا ہے نہ کہ عورت کی شناخت کو چھپانا۔ شناخت کو چھپانا شرعًا اور قانونًا جرم ہے، اور خصوصًا آج کے حالات میں تو اپنی شناخت لازمًا خود ہی کرانی چاہیے۔ لیکن اِس سب بحث سے عورتوں کے لیے پورے جسم خصوصًا چہرے کا پردہ نہ کرنے کا جواز نہیں ڈھونڈنا چاہیے۔ پردے کا حکم بالکل وہی ہے جو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد فرمودہ ہے۔ اللہ کے احکامات قیامت تک تبدیل نہیں ہوں گے۔ حیا مسلمان کا زیور ہے اور برقع و چادر مسلمان عورتوں کے لیے اِس کا ظاہری لباس ہے، چنانچہ یہ اسلام کے شعائر میں سے ہے۔ اِس پر کسی حال میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہیے۔ اللہ بہت جزائے خیر دے ہماری اُن خواتین کو جنھوں نے دین کے اِس شعیرہ کو زندہ رکھا ہے۔ 

اگلی بات نکاح و شادی سے متعلق ہے۔ نبیِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ترین حلقے کے ایک مالدار ترین صحابی حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ایک روز خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے تو کپڑوں پر کچھ زعفران کا سا رنگ تھا جیسا کہ اُس دور میں شادی کا معمول تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر ہمیں بلایا ہوتا تو ہم بھی آپ کی شادی میں شرکت کرتے۔ معلوم ہوا کہ شادی کرنا اُس دور میں اِس قدر آسان ہوگیا تھا اور اِس کو کوئی ایسا موقع تصور نہیں کیا جاتا تھا کہ ضرور ہی ساری برادری اور سبھی اہم لوگوں کو جمع کیا جائے۔ شادی کا اعلان ضروری ہے نہ سب کو جمع کرنا، کئی کئی روز تک پرتکلف کھانے کھلانا اور پوری برادری میں جوڑے بانٹنا۔ رسموں کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے میں پڑجانے کی وجہ سے ہم لوگوں نے شادی کو خاندان کی معاشی موت بنا دیا ہے۔ عربستان میں نکاحِ مسیار کا مسئلہ اِنہی رواجی خرچوں کو درجۂ اسلام تک پہنچا دینے کی شدت کا لازمی نتیجہ ہے جو ہماری مسلمان بہنوں بیٹیوں نے عفت اور فطرت کی زندگی گزارنے کے لیے تنگ آکر شروع کیا ہے۔ کیا معلوم کچھ عرصے میں یہ ’’بغاوت‘‘ ہمارے ہاں بھی ہوجائے۔ نکاح اور شادی دو الگ الگ چیزیں ہیں: نکاح کو سنت کے مطابق کرنا چاہیے اور شادی یعنی اِس موقع کی خوشی کو اپنے رواج، آسودگی اور سہولت کے مطابق اسراف سے بچتے ہوئے سادگی سے کرنا چاہیے۔ یاد رکھیے کہ اگر شادی یعنی نکاح کے موقع کی خوشی کو بڑے پیمانے پر منانے کی استطاعت نہ ہو تو اِس کی وجہ سے نکاح کو موخر نہ کرنا چاہیے۔ اگر اِن دونوں مواقع کو ایک دوسرے سے ذرا سا الگ کرکے کرنے کا رواج بنا لیا جائے تو بہت سہولتیں ہوسکتی ہیں اور سفید پوشی کا بھرم رہ سکتا ہے۔ اور اِس کے ذیلی نتائج میں گھر بیٹھی بوڑھی ہوتی لڑکیوں کو پرنانے کے مسئلے کا آسان حل بھی پوشیدہ ہے۔ 

وقت پر شادی نہ ہونے کی اُتنی بڑی وجہ معاشی ناآسودگی نہیں ہے جتنی کہ ذات برادری۔ اِسے کیا کیجیے کہ ذات برادری کے خالصتًا رواجی چکر کو بھی مذہب کی حمایت عطا کردی جاتی ہے۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ نبیِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اُن کی اتباع میں سبھی صاحبِ استطاعت صحابہ کرام نے خود مختلف خاندانوں میں شادیاں کرکے اور برادری باہر والوں میں اپنی بیٹیاں اور بہنیں دے کر اِس جہلِ مرکب کو ختم کرنے میں اپنا شاندار کردار ادا فرما دیا ہے۔ ہم میں سے کسی کی بیٹی نبیِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں سے زیادہ عالی خاندان کی نہیں ہے، اور یہ بات معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹیاں باہر دی ہیں، لہٰذا بیٹی خاندان سے باہر دینا سنت بھی ہے۔ خاندان باہر والوں سے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اِتنے راضی تھے کہ فرمایا کہ اگر میری سو بیٹیاں بھی ہوتیں تو بیاہ دیتا۔ اوروں کا تو کیا ذکر، افسوس اِس پر ہے کہ آج پاکستان و ہندوستان میں سید ہی وہ لوگ ہیں جو اِس سنت کو پوری قوت کے ساتھ چھوڑے ہوئے ہیں، چنانچہ اِن کی دیکھا دیکھی ارائیں، جٹ، راجپوت، اعوان، وغیرہ بھی خاندانی عصبیت کی اِسی رو میں بہہ نکلے ہیں۔ اِس (ظاہراً) نابرابری کے مسئلے کو مستقبل میں بڑھتا دیکھ کر شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے، کہ خود سید تھے، لکھا تھا کہ ہندوستان میں راجپوت سیدوں کے کفو یعنی برابر ہیں (اُس وقت میں یہاں بڑی راجدھانیاں راجپوتوں کی تھیں)۔ بین الخاندانی، بین البرادری، بین المللی اور بین الثقافتی شادیوں میں قومی، صوبائی، لسانی وغیرہ منافرتوں کا جڑ سے اکھیڑ دینا بھی پنہاں ہے، اور اسلام کے ابتدائی زمانے میں تو شادیوں سے یہ کام بطورِ خاص لیا گیا ہے۔ حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے کہ میں نے نکاح سے زیادہ کسی چیز کو جوڑنے والا نہیں پایا۔ چنانچہ جو چیز ضروری ہے وہ یہ کہ رشتہ تلاش کرتے وقت معاشی، سماجی، ذہنی و تعلیمی، جسمانی اور صحت وغیرہ کے اعتبارات سے برابری کو پہلے دیکھا جائے اور صرف برادری ہی پر اصرار نہ کیا جائے۔ ہمارا عمومی حال یہ ہے کہ ہم برابری سے مراد صرف برادری لیتے ہیں، اور نتیجۃً بچوں بچیوں کو زندہ گاڑ دیتے ہیں۔ 

برابری کا دیکھا جانا کتنا ضروری ہے، اِس کے لیے یہی مثال دینا کافی ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو طلاق سماجی نابرابری کی وجہ سے دلوائی تھی کیونکہ اِس عالی خاندان آزاد خاتون کا نکاح غلام مرد سے ہوا تھا۔ خاندان برادری کی اکڑ کے ساتھ ساتھ ایک شدید غلط فہمی دین داری اور تعلیم کے معاملے میں بھی ہے۔ بیٹیوں کے لیے کسی حسن بصری کے انتظار میں اور بیٹوں کے لیے رابعہ بصری کے انتظار میں اولاد کو بٹھائے رکھنا اور شادی کی عمر گزار دینا کہاں کا اسلام ہے؟ ہم ذرا سے کم پر کیوں راضی نہیں ہوجاتے؟ کیا ہم خود ہر کمی سے پاک ہیں؟ کیا ایک مسلمان لڑکا یا لڑکی جو آج ذرا سا کم دین دار ہے، کسی نسبۃً زیادہ دین دار خاندان میں شادی ہونے کی برکت سے بہتر مسلمان بننے کا امکان نہیں رکھتا؟ نیز اگر بیٹی زیادہ پڑھی لکھی ہے تو کیا نسبۃً کم پڑھا لکھا لڑکا نہیں چل سکتا؟ اور اگر ڈگری کی برابری کے بغیر رشتہ نہیں سِرتا تو کیا لڑکے کے شادی کے بعد تعلیم جاری رکھے رکھنے پر کوئی شرعی یا قانونی پابندی ہے؟ ذات برادری کے ساتھ ساتھ جائیداد کی تقسیم کا مسئلہ اور جائیداد کا چتھیرا جانا بھی لڑکیوں کو بٹھائے رکھنے کا سبب ہے۔ یہ جھوٹ نہیں ہے کہ برِ عظیم پاک و ہند کے کچھ علاقوں میں لڑکی کا نکاح مرغے کے ساتھ اور کہیں قرآن کے ساتھ کردیا جاتا ہے۔ اِس مذاق کا اسلام جیسے فطری مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں سوائے اِس کے کہ یہ مذاق کرنے والے مسلمان ہیں! 

اِس وقت عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں خاصی زیادہ ہوچکی ہے۔ ساری دنیا کے چلن دار مذاہب میں اِس گمبھیر مسئلے کا حل صرف اور صرف مسلمانوں کے پاس ہے، اور یہ اسلام کے فطری مذہب ہونے کی ایک زندہ علامت ہے کہ اِس کے پاس ہر دور کے مسائل کا حل موجود ہے۔ موت فوت ہر ایک کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ یورپ و امریکہ اور بہتیرے بلادِ اسلامیہ کے مسلمانوں میں طلاق یافتہ یا بیوہ لڑکی کی دوسری شادی میں کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا کیونکہ وہاں کے لوگ اپنے ماحول کی وجہ سے ایسے سانحات کو لازمی سماجی زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں جو کسی کے ساتھ بھی پیش آسکتا ہے، چنانچہ ایسے سانحات کا شکار لڑکیوں کو منحوس یا دوسرے درجے کا شہری تصور نہیں کیا جاتا جیسا کہ ہمارے ہاں عام ہے۔ غضب خدا کا، میں نے ایک نئی شادی شدہ لڑکی اور اُس کی ماں کو دیکھا کہ وہ ایک نوجوان بیوہ کے ہاں تعزیت کے لیے جانے سے گریزاں تھیں، اور جب مارے باندھے چلی ہی گئیں تو اُس بے چاری کے پیش کردہ گلاس ہاتھ میں پکڑنے سے انکاری تھیں۔ بالآخر اُن کی مہمانداری خاندان کی ایک اور خاتون نے کی۔ ہندوؤں کے سماجی اثرات کو قبول کرتے کرتے ہم ہندی مسلمان یہاں تک تو آگئے ہیں کہ اچھے بھلے دین دار لوگ بھی بیوہ/ طلاق یافتہ لڑکی کو منحوس جانتے ہیں، چنانچہ اُس کی دوسری شادی کا تو کیا سوال۔ کیا معلوم ہندو عورتوں میں ستی ہوجانا اِسی لیے شروع ہوا ہو کہ خاوند کے بعد دھتکاریں نہ پڑیں کیونکہ کسی اور سے تو شادی ہو نہیں سکتی۔ ہم مسلمانوں کی ایسے سانحے سے گزری ہوئی لڑکیاں زندگی کی آخری سانس تک زندہ ستی ہوتی رہتی ہیں۔ کیا ابھی بھی وقت نہیں آیا کہ ہم اسلام کے ہندوستانی ورژن کی بجائے اصل ورژن پر عمل کرنے کو لازم پکڑیں؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بڑی بیٹی سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی کم و بیش چھے (۶) شادیاں ہوئیں۔ اِن پے در پے شادیوں کے باوجود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سمیت کسی کی ناک نہیں کٹی اور نہ ہی یہ محترم خاتون کبھی نشانۂ تعریض بنیں۔ کیا ہماری بیوہ بہنیں بیٹیاں سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے زیادہ محترم ہیں، یا خاکم بدہن ہم یارؐ اور یارِ غارؓ سے زیادہ غیور ہیں؟ بیوہ یا مطلقہ کسی بھی عمر کی ہوں، اُن کو فارغ نہ رکھنا اور عدت و سوگ کا زمانہ ختم ہوتے ہی جلد سے جلد دوبارہ بیاہ دینا، بلکہ عدت کے اندر ہی سلسلۂ جنبانی شروع کردینے میں بھی کوئی عیب نہ سمجھنا، وہاں کے معاشرتی رواج میں لے آیا گیا تھا۔ اِس میں بڑی بچت ہے، کیونکہ یہ عینِ فطرت ہے۔ 

کنوار پنے کی نسبت رنڈاپا پاکبازی سے گزارنا زیادہ مشکل ہے، عورتوں کے لیے بھی اور مردوں کے لیے بھی۔ کھلی آنکھوں سے اِرد گرد کے حالات پر ذرا غور کیجیے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ فقہ میں زنانِ شوہر دیدہ کے لیے احکامات مختلف کیوں ہیں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود زیادہ شادیاں کرکے اور اُن کی اتباع میں حضرات صحابہ کرام نے بھی ایسا کرکے اسلام کے ابتدائی دنوں میں وہ صورت بنادی تھی کہ پورے شہر اور خاندان میں کوئی عورت خالی نہ رہتی تھی۔ اُس معاشرے میں ہر عورت کے سر کا سائیں ضرور ہوتا تھا اور کوئی عورت گواچی گائے کی طرح نہیں پھرتی تھی۔ یہی وجہ ہوئی کہ وہاں نہ صرف پردے پردے بدکاری بلکہ پیشہ ورانہ بدکاری بھی کم سے کم ہوتی گئی اور نکاح آسان سے آسان ہوتا گیا، یہاں تک کہ ایک صحابی دوسرے کو اپنا وکیل بناکر ایک گھر میں پیغام دے کر بھیجتا ہے، وہ واپس آتا ہے تو اُس وکیل ہی کو قبول کرلیا گیا ہوتا ہے، اور اِس پر اِن دونوں میں کوئی شکر رنجی نہیں ہوتی۔ اِس فطری انسانی ضرورت کی پکار پر ہاں کہتے ہوئے کچھ مسلم معاشروں میں یہ رواج رہا ہے کہ وہاں رہنے کے لیے ہر مرد کو شادی کرنا لازم ہوتا تھا۔ بیواؤں اور مطلقہ عورتوں کی شادی کے ضمن میں اگر ہماری عورتیں ذرا سا دل بڑا کرلیں اور اتباعِ سنت میں دوسری بہن کو برداشت کرنا سیکھ لیں تو یہ مسئلہ مسئلہ ہی نہیں رہتا۔ الغرض اگر نکاح کو آسان بنایا جائے اور نکاحِ ثانی والی منشائے دین محمدی کو رواج میں لانے کی سنجیدہ کوشش کی جائے تو جہاں تاعمر غیر فطری زندگی گزارنے، جنسی و سماجی گھٹن، لوگوں کی نگاہوں میں ہمدردی کے تکلیف دہ پیغام پڑھنے، کنواریوں اور سہاگنوں کو اپنی پرچھاؤں سے بچتے پانے، اور طرح طرح کے گناہوں اور بدکاری میں کمی ہوگی وہاں معاشرے میں بحیثیت مجموعی معاشی ترقی بھی ہوگی کیونکہ نبیِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے کہ نکاح سے معاشی آسودگی ملتی ہے، اور اگر ایک نکاح سے نہیں ملتی تو دوسرا نکاح کرنا چاہیے اور اِسی طرح تیسرا۔ ہاں! نکاحِ ثانی کا مسئلہ صرف عورتوں کا نہیں ہے۔ میں نے کئی ایسے ادھیڑ عمر کے مرد دیکھے ہیں جو بیوی کے داغِ مفارقت دے جانے یا کسی لاعلاج مرض کا شکار ہوجانے کے بعد سماجی دباؤ کی وجہ سے ساری زندگی رِس رِس کر گزار دیتے ہیں۔ یہ بھی ہندوؤں کے سماجی اثرات قبول کرنے کا نتیجہ ہے۔ 

ایک ایسا ہی مسئلہ عدت کا ہے جس کی شرح میں ہر عیسیٰ کا اپنا دین ہے اور ہر موسیٰ کا اپنا۔ کسی خاتون کا شوہر فوت ہوجائے تو جہاں وہ بے آسرا ہوجاتی ہے، وہاں کئی رشتے دار بھی اُس کا خیال رکھنے کے اسلامی حکم کی کچھ ایسی تاویلات کرتے ہیں کہ خاکم بدہن عدت کے مسائل کا پتھراؤ شروع کردیتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ عدت الگ حکم ہے اور خاوند کا سوگ الگ۔ معاشرتی دباؤ کی وجہ سے ہمارے ہاں یہ مغالطہ بڑے بڑوں کو لگا ہوا ہے کہ عدت اور سوگ ایک ہی چیز ہیں۔ عدت کی مدت وضعِ حمل تک ہے جس کا مقصد حمل کی تحقیق ہے۔ چنانچہ بچہ پیدا ہوتے ہی یا حمل کے کسی بھی وقت گر جانے سے عدت فوراً ختم ہوجاتی ہے، سوگ البتہ باقی رہتا ہے۔ جس عورت کی بچہ دانی آپریشن کرکے نکالی جاچکی ہو، اُس کی عدت صرف سوگ ہے، کیونکہ جب محل حمل ہی موجود نہیں تو حمل کی تحقیق کا کیا سوال۔ اور سوگ کا مطلب اور مقصد بھی بے جا آرائش سے گریز ہے نہ کہ پھٹے پرانے کپڑے پہنے رہنا اور کنگھی تیل تک نہ کرنا۔ عدت کے اندر بھی عورت ضروری سفر کرسکتی ہے اور جتنی بار ضروری ہو اُتنی بار کرسکتی ہے، مثلًا ڈاکٹر کے ہاں جانا، یا مثلًا جس دفتر یا بنک میں حاضری ضروری ہو وہاں جانا جیسے پنشن وغیرہ سے متعلق امور میں۔ مختصراً یہ کہ جہاں جانا شرعًا یا قانونًا ضروری ہو، وہاں دورانِ عدت و سوگ بھی آیا جایا جاسکتا ہے۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ دورانِ عدت سفر کی اِس شرعی چھوٹ کو رسمی تقریبات وغیرہ میں جاکر مذاق نہیں بنانا چاہیے۔ نیز اگر یہ بیوہ خود ملازمت کرتی ہے اور اِس کا دفتر عدت کے پورے سوا چار مہینے کی چھٹی نہیں دیتا تو اِسے دفتر کے قانون سے ٹکرانے کی شرعًا اجازت صرف اِسی صورت میں ہے کہ روزی روٹی کی محتاجی نہ ہوجائے۔ ہمارے معاشرے میں عدت اور سوگ دونوں کو بے چاری بیوہ کی مسکینی کے بقدر گاڑھا کیا جاتا رہتا ہے اور اِن میں ایسی ایسی موشگافیاں کی جاتی ہیں کہ بیوہ عملًا ایک اچھوت اور بوجھ بلکہ نشانِ عبرت بن کر رہ جاتی ہے۔ 

ساس بہو اور نندوں کا جھگڑا بھی ہمارا خالص ہندوستانی سماجیات کا مسئلہ ہے جسے بوجوہ مذہب کی سان پر چڑھاکر اسلام کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ اسلام کے آغاز میں اِس مسئلے کا وجود ہی نہیں تھا۔ وجہ یہ تھی کہ بلادِ عرب میں بلکہ آس پاس کے سبھی علاقوں کی ثقافتوں میں شادی کرتے ہی لڑکا لڑکی کو الگ کردیا جاتا تھا (اور ہے)۔ اِس میں شک نہیں کہ عورتوں کے دین کا بہت بڑا حصہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، لیکن ذرا توجہ سے دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ اِس سب ذخیرۂ حدیثِ پاک میں ساس بہو سے متعلق ایک بھی حدیث نہیں ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے، کہ اُن کو کبھی ساس سے واسطہ ہی نہ پڑا تھا۔ چنانچہ ساس بہو کے جھگڑوں سے نبٹنے کی جتنی بھی صورتیں ہیں، وہ سب کی سب استنباطی ہیں نہ کہ دینی۔ حدیثیں اور آیتیں جوڑ کر اُنھیں ساس کی عزت کے لیے استعمال کرانا نہایت درجہ کی جرات ہے۔ لڑکی کو لڑکے کے لیے بیاہ کر لایا جاتا ہے نہ کہ لڑکے کے گھر والوں کے لیے، اور خصوصًا ساس صاحبہ کی ’’خدمت‘‘ کے لیے۔ گھر کے سب لوگوں کے کام کرنا ہرگز لڑکی کے ذمے نہیں ہے، نہ شرعًا نہ اخلاقًا۔ وہ اگر کوئی ذمہ داری لیتی ہے تو یہ اُس کا احسان ہے۔ اللہ نے تو عورت کے لیے بچے کو دودھ تک پلانا لازم نہیں کیا۔ 

گھر میں جھگڑا اِس بنیادی بات یعنی حقوق و فرائض کی طرف توجہ نہ دینے سے شروع ہوتا ہے، اور بڑھتے بڑھتے اخلاق و مروت اور شرم و حیا کی سب حدوں کو ملیا میٹ کردیتا ہے۔ لڑکی کا گھر اجاڑنے میں (اُس کی اپنی ماں کے بعد) ساس کے علاوہ شاید ہی کوئی عورت وجہ بنتی ہو، کیونکہ اُسی کو اِس نئی لڑکی کی آمد سے اپنا راج سنگھاسن ڈولتا محسوس ہوتا ہے۔ چنانچہ گھر میں جھگڑوں کی وجہ بڑے بنتے ہیں نہ کہ چھوٹے۔ گھر میں بڑے اگر بڑا بن کر رہیں تو چھوٹوں کے چھوٹا بن کر رہنے کا راستہ ہموار ہوسکتا ہے، اور اِس کے لیے ضروری ہے کہ ہم دین پر چلیں نہ کہ رواج پر۔ اور جیسا کہ اوپر کی گفتگو سے معلوم ہوا، دینِ اسلام میں خالص ہندی اصطلاح میں ’’مشترک خاندان‘‘ کا ہرگز کوئی تصور نہیں ہے۔ اِس بات کو صاف لفظوں میں لکھنا ضروری ہے کہ میں یہاں خاندانی نظام کے خلاف بات نہیں کر رہا جو ہم ہندوستان و پاکستان والوں پر اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے، بلکہ خاندانوں کی ’’دولتِ مشترکہ‘‘ (Union) کے تصور کی بات کر رہا ہوں۔ چھوٹے چھوٹے یونٹ مل کر ایک دوسرے کے لیے زیادہ کارآمد اور قابلِ قبول ہوسکتے ہیں نہ کہ ایک بڑا گھر جہاں کے مکینوں کو صرف دیواروں نے ایک جگہ جمع کیا ہوا ہو! ’’مشترک خاندان‘‘ کی صورت میں رہنے میں پردے کا حکم بھی ٹوٹتا ہے۔ پورے پاکستان میں گنتی کے چند گھر ہوں گے جہاں شرعی پردہ ہوگا؛ اور اِن میں کے کچھ گھروں کو میں جانتا ہوں کہ مشترک خاندان ہونے کی وجہ سے پردے کی یہ صورت مکینوں کے لیے وبالِ جان بنی ہوئی ہے اور آئے دن کے جھگڑوں کی وجہ سے نوبت بغاوت تک آپہنچی ہے۔ 

یہ بات بھی واضح ہونی چاہیے کہ گھروں میں جھگڑوں کی اُتنی بڑی وجہ معاشی ناآسودگی اور سماجی ناہمواری نہیں ہے جتنی کہ بڑے چھوٹے کا لحاظ ملاحظہ نہ کرنا۔ ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ اپنی اولاد کا اکرام کرو۔ ہم اولاد سے تو اکرام و احترام چاہتے ہیں، خود اُن کا اکرام کرنے میں البتہ کمی کرتے ہیں۔ بچوں کو بلاوجہ اِدھر اُدھر دوڑاتے پھراتے ہلکان کرنا کوئی اچھی عادت نہیں ہے۔ ہاں! ماں باپ اپنے بچوں سے روزانہ ایسی جسمانی خدمت ضرور لیا کریں کہ اُن کے لیے اپنے گھر کا/ کی ہونے کے بعد یہ بوجھ محسوس نہ ہو بلکہ اِس میں وہ اپنی سعادت جانیں۔ حدیث پاک میں ارشاد ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے، لیکن حدیثِ پاک ہی میں باپ کو جنت کا دروازہ کہا گیا ہے جس کی طرف توجہ نہیں کی جاتی۔ خاوند کا لغوی معنی ہی خدا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک فرمان کا مفہوم ہے کہ اگر خدا کے علاوہ کسی کو سجدہ جائز ہوتا تو میں عورتوں کو حکم دیتا کہ اپنے خاوندوں کو سجدہ کریں۔ خاوند بلائے تو عورت کے لیے نماز جیسی عبادت کو مختصر کرکے اور اگر نفل پڑھ رہی ہو تو نیت توڑ کر جانے کا حکم ہے۔ عورت کی ہر نفلی عبادت یہاں تک کہ روزہ بھی خاوند کی اجازت پر موقوف ہے۔ یہ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح احکامات ہیں۔ اب ایک نظر اپنے اِردگرد دوڑائیے تو معلوم ہوتا ہے کہ میڈیا کے شور شرابے سے صنفی مساوات کے بہکاوے میں آکر مسلمان معاشرے کا یہ بنیادی یونٹ یعنی خاندان شدید ابتری کا شکار ہوچکا ہے۔ لڑکیوں کو خاوندوں کی عزت کرنا سکھانا ماؤں کے ذمے ہے، اور ظاہر ہے کہ لڑکیاں یہ کرداری خوبی اپنی ماؤں کے ذاتی عمل سے روزانہ کی بنیاد پر سیکھتی ہیں۔ چنانچہ اگر اپنے ذاتی عمل سے بڑے چھوٹے کی تمیز سکھا دی جائے تو یہ مسئلہ مسئلہ ہی نہیں رہتا۔ یاد رکھنا چاہیے کہ تمیز کوئی ٹیکہ نہیں ہے جسے لگا دینے سے بچے بچی کی رگوں میں تمیز داری دوڑنے لگے؛ یہ بڑی توجہ سے اور مستقل کرنے کا کام ہے جس میں خاندان کے بڑوں کا اپنا دیرینہ عمل ہی اصل محرک اور مثالی نمونہ ہوتا ہے۔ 

تصویر اور میڈیا کے ناجائز ہونے کے بارے میں ایک طرف اِتنا غلو کیا گیا اور دوسری طرف اِتنی آزادی برتی گئی ہے کہ اب تو اِس پر سنجیدگی سے کہنے کو کچھ بھی باقی نہیں رہ گیا۔ ابھی تو اُن پاک نفس علما کی آوازیں میرے کانوں میں گونجتی ہیں جو سرے سے اخبار ہی پڑھنے کے قائل نہ تھے، کہ اِن سے جھوٹ اور غیبت کی اشاعت ہوتی ہے اور تجسس۔ آج کیا ٹی وی اور انٹرنیٹ، اور کیا اخبار کا رنگین صفحہ، لگتا ہے کہ تشہیر کا کوئی بھی ذریعہ اب ویسا حرام نہیں رہا جیسا کہ اب سے صرف دس سال پہلے تک ہوتا تھا۔ مذہبی مکالمہ ہو، سماجی و سیاسی مباحثہ ہو، پریس کانفرنس ہو یا انٹرویو، اِس کے لیے میک اپ کے ساتھ کیمرے کی روشنیوں میں بیٹھنا آج بہت سے لوگ جائز سمجھنے لگے ہیں۔ حالانکہ یہ وہی لوگ ہیں جن کے گھروں کے بڑوں نے ایک پیڑھی پہلے کے علماء کی تقریریں سن کر ٹی وی سیٹ توڑ ڈالے تھے۔ القصہ تصویر جہاں ضروری ہو وہاں اتروانی چاہیے، اور اِس کو اسلام اور غیرِ اسلام کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ جامعہ الازہر، سعودی محکمۂ افتاء اور پاکستان کے بڑے دار ہائے اِفتا نے سکیورٹی وجوہات کی وجہ سے سکیورٹی کیمروں کے سامنے مرد و عورت دونوں کے لیے پورا چہرہ کھول کر اور آنکھیں چار کرکے تصویر بنوانے کو ضروری قرار دے دیا ہے۔ اللہ پاک حضرات مفتیانِ کرام کو بہت جزائے خیر دے کہ اِن کی بدولت امت کا بڑا حصہ احساسِ گناہ کے ساتھ جیے جانے کے بوجھ سے آزاد ہوا۔ محتاط علما کے نزدیک تعلیم و تربیت کے مقاصد کے لیے میڈیا، تصویر یا ویڈیو استعمال کرلینے میں کوئی حرج نہیں۔ عوامی اکٹھ کی جگہوں، دفاتر، مساجد اور گھروں وغیرہ میں حفاظتی کیمرے لگانے اور اِن سے لوگوں کے علم میں لائے بغیر اُن کی حرکات و سکنات دیکھنا اور ریکارڈ کرنا بھی فتوتًا درست ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ تصویر اور ویڈیو کی یہ اور ایسی سب صورتیں ضرورتِ حادثہ کی پیداوار ہیں۔ فتوے کا مطلب حرام کو حلال کرنا نہیں ہوتا، لہٰذا بدلتے حالات کی وجہ سے تصویر کے لیے دی گئی اِس شرعی چھوٹ کو مذاق نہیں بنانا چاہیے۔ جو علماء تشہیریت کے لیے تصویر کے معاملے میں آزادہ روی میں بہت آگے چلے گئے ہیں اُن کو مثال بناکر چلنے کی بجائے علماء کے دوسرے طبقے کو قابلِ تقلید جاننا زیادہ بہتر ہے۔ 

ایک بڑا مسئلہ کرنسی کی قدر و قیمت کا ہے۔ ایک صاحب نے آپ سے کچھ روپے قرض لیے۔ جب وہ واپس کرتے ہیں تو اِن کی قیمت وہ نہیں ہوتی جو لیتے وقت تھی۔ کیونکہ نوٹ اصل مال نہیں ہے بلکہ مال کی رسید ہے، اِس لیے رقم کی واپسی کے وقت مال کو پورا ہونا چاہیے نہ کہ رسیدوں پر لکھے ہندسوں کو۔ خوب یاد رکھیے کہ رقم کے (خصوصًا لمبی مدت کے لیے کیے گئے) لین دین میں کسی ایسی چیز کو معیار بنائیے جو متوازن رہتی ہو اور اُس کی قدر کم نہ ہوتی ہو، مثلًا سونا، گندم یا چاول، یا مثلًا ڈالر، یورو، پاؤنڈ یا ریال وغیرہ۔ چنانچہ یہ لین دین یوں ہونا چاہیے کہ مثلًا آج اِتنے تولہ سونے/ اِتنے من گندم یا چاول/ اِتنے ڈالر/ یورو/ پاؤنڈ/ ریال کی قیمت پاکستانی روپوں میں قرض لی، اِسے جب ادا کروں گا تو اِتنے ہی تولہ سونے/ اِتنے من گندم یا چاول/ اِتنے ڈالر/ یورو/ پاؤنڈ/ ریال کی قیمت اُس وقت کے مطابق پاکستانی روپوں میں دوں گا۔ علیٰ ہٰذا۔ جن لوگوں نے دوسروں کے پیسے دبا رکھے ہیں اُنھیں اگر واپسی کی توفیق ہوجائے تو اصل مالیت واپس کرنی چاہیے نہ کہ نوٹوں پر لکھے ہوئے ہندسوں کی تعداد کو پورا کرنا، ورنہ اللہ کی میزان میں تو ہر تول پورا کر ہی دیا جائے گا۔ 

میرے بچپن کی بات ہے کہ ہم مدرسے کے بچوں کو ایک مذہبی کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہور لے جایا گیا۔ مینارِ پاکستان والے پارک میں جلسہ ہوا۔ نماز کا وقت ہوا تو میں نے ماسٹر صاحب سے کہا کہ نماز بادشاہی مسجد میں جاکر پڑھنی چاہیے۔ وہ بمشکل راضی ہوئے۔ ہم علامہ اقبال کے مزار کے سامنے پہنچے تو اذان شروع ہورہی تھی۔ میں نے عرض کیا کہ یہاں فاتحہ بھی پڑھتے چلتے ہیں۔ اِس پر ماسٹر صاحب نے، جو ایک ایسی جماعت سے تعلق رکھتے تھے جو پاکستان بنانے کے ’’گناہ‘‘ میں شریک نہ تھیں، اقبال کے بارے میں بڑی عجیب و غریب باتیں ہمارے کانوں میں انڈیلیں۔ قصہ کوتاہ، میں اور میرے ساتھ تقریبًا سارے ہی بچے اُن کی حکم عدولی کرتے ہوئے اندر جاکر فاتحہ پڑھ آئے۔ 

میں ٹوٹا پھوٹا سہی لیکن بحمداللہ مسلمان ہوں۔ میں پاکستانی ہوں۔ وطن کی محبت میرے ایمان کا حصہ ہے (یہ ایک حدیثِ پاک کے الفاظ ہیں)۔ میں کسی بھی ملک میں جاتا ہوں تو مجھے اپنا وطن یاد آتا ہے، اور میں اتباعِ سنت میں اپنے وطن کو یاد کرتا ہوں۔ پاکستان کی ایک تاریخ ہے، ایک جغرافیہ ہے، ایک ثقافت ہے۔ مجھے اِس سب پر فخر ہے، اِس لیے کہ یہ سب میرا اپنا ہے۔ وطن عزیز پاکستان نے اپنے بہت سے قومی وسائل مجھ پر اور میرے خاندان پر خرچ کیے ہیں۔ پاکستان اگر مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی کچھ جماعتوں کے مزاج اور توقعات کے مطابق نہیں بنا ہے تو اِس پر میں کیا کرسکتا ہوں۔ واللہ میں آج تک نہیں سمجھ پایا کہ سیاسی اختلاف رکھنے والا کلمہ گو ’’کافر‘‘ کیسے ہوجاتا ہے۔ سید القوم سر سید احمد خان، مولانا حالی، سر آغا خان، ڈاکٹر علامہ سر محمد اقبال اور قائدِ اعظم محمد علی جناح وغیرہ ہماری قومی و ملّی تاریخ کے ڈیڑھ ہزار سالہ سفر میں آنے والی تابناک کہکشاؤں میں سے چند بڑے نام ہیں۔ یہ وہ مردانِ راہ داں ہیں جو ستاروں کے لیے نشاناتِ راہ ہیں اور جن کی مختلف جہتوں میں کی گئی سنجیدہ اور پیہم کوششوں سے مسلمانانِ ہند پر آزادی کا سورج طلوع ہوا۔ اِن دور اندیش اور دردمند لوگوں نے اُن شاطر انگریزوں کی بچھائی ہوئی بساط پر اُنھیں ہراکر ہم درماندہ مسلمانوں کے لیے آزادی چھینی تھی جو قال اللہ قال الرسول پڑھنے پڑھانے والے ہمارے بڑوں کو توپ سے باندھ کر اُڑا دیا کرتے تھے یا کالا پانی بھیج کر اُنھیں موت کی دعائیں مانگنے میں لگا دیا کرتے تھے۔ 

آج کچھ لوگ مذہبی و سیاسی آزادی اور وطنی تشخص کو اُس وقت کی غلامی کے مقابلے میں ہلکا جانتے ہیں، یہ نری سادہ خیالی ہے اور حقائق سے فراریت۔ جن لوگوں نے بھی جس جس دور میں اقبال شکنی، جناح شکنی یا سرسید شکنی کی کوششیں کی ہیں یا اِن لوگوں کو کافر کہا ہے، وہ آج کہاں کھڑے ہیں؟ آج اُن کی کیا عزت ہے؟ بلکہ اُن کو آج جانتا کون ہے؟ یہ اور اِس قبیل (Profile) کے بڑے لوگ کارواں ران ہوتے ہیں۔ جو اِن کے ساتھ چلتا چلا جاتا ہے، منزل پاجاتا ہے اور جو اِن کے منہ کو آتا ہے، وہ کارواں سے ٹوٹ جاتا ہے اور جلد ہی اِدھر اُدھر ٹکراکر تھک جاتا ہے۔ ایسے لوگ جنھیں اللہ نے عزت دی ہو، اگر کسی خاص دینی مسلک یا سیاسی مشرب پر نہ ہوں تو بھی اِنھیں برا بھلا نہیں کہنا چاہیے کیونکہ اِس غلیظ گوئی سے ایسے ہیاکل کی عزت اور مرتبہ کم نہیں ہوا کرتے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ اِن کا تھوکا منہ پر آتا ہے۔ یہ ذکر کردہ لوگ تقویٰ طہارت اور عقائد کے اعتبار سے کیسے بھی کمزور ہوں، بہرحال مسلمان ہیں، اور برِ عظیم کی قومی و ملّی تاریخ کے شدید ہیجانی دور میں شاندار قائدانہ کردار ادا کرگئے ہیں۔ اِس کرداری وصف کی بدولت اللہ نے اِنھیں عمومی نیک نامی اور عوامی مقبولیت عطا فرما دی ہے۔ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم نبیِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم والے اخلاق کے ساتھ جییں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی عزت داروں اور سرداروں کو ذلیل نہیں کیا بلکہ اُن کی حیثیت اور مرتبے کو دین کی بہتری اور ترویج کے لیے استعمال فرمایا۔ اللہ ہمیں اِس کی سمجھ دے۔ 

اِسی طرح عوام میں بہت سی غلط فہمیاں عالمی طور پر پھیلانے والا ایک نیٹ ورک ای میل اور موبائل فون پر بھیجے جانے والے سندیسچے یعنی ایس ایم ایس ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ کے نام کا کوئی وظیفہ دس یا پچاس لوگوں کو فارورڈ کرنے سے دس دن میں کوئی خوش خبری نہیں ملتی اور اِسے نہ بھیجنے سے کوئی آفت نہیں آتی۔ کسی اسلامی مہینے کی مبارک باد دینے سے جنت واجب نہیں ہوتی۔ کسی ایس ایم ایس کو فارورڈ کرانے کے لیے نبیِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم دینا نہایت درجے کی کم قسمتی ہے۔ کسی بڑی سے بڑی ہستی کا کسی کے خواب میں آنا بزرگی کی دلیل نہیں ہے کیونکہ کئی غیر مسلموں کو بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم تک کی زیارت ہوئی ہے، چنانچہ ایسے خوابوں کی اور خصوصًا اہل بیت کی خواتین سے متعلق خوابوں کی تشہیر نہیں کرنی چاہیے۔ ہمارے علاقوں میں ایسی غلط فہمیوں کی بنیاد مدینہ منورہ کے رہائشی شیخ احمد کے پیغامات کو کئی کئی سو لوگوں تک پہنچانے کی گپ سے شروع ہوئی تھی۔ یہ شیخ احمد کوئی دو سوا دو سو سال سے برِ عظیم پاک و ہند کے سادہ لوح مسلمانوں کو یہ پیغام بھیج رہا بلکہ دھمکیاں دے رہا ہے۔ المختصر اِن چیزوں کی کوئی اصل نہیں ہے۔ اِس قسم کے ایس ایم ایس بھیجنے سے پہلے سمجھدار مفتی صاحبان سے دریافت کرلینا چاہیے۔ 

یہ اور ایسے کئی مسائل ہیں جن کے بارے میں ہمارے مخصوص سماجی ماحول اور شدت پسند رویوں کی وجہ سے بہت سی غلط فہمیاں رواج پاگئی ہیں۔ اسلام ہرگز تنگ نظر مذہب نہیں ہے بلکہ ہمارے سماجی اور ثقافتی رویے تنگ نظر ہیں۔ ہم اپنے سماج اور ثقافت کو اسلام کی وسعتوں سے ہم آہنگ کرنے کی بجائے اسلام کو اِن تنگ نظر رویوں کی عینک پہن کر دیکھتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ اِس اِفراط تفریط سے پیدا ہونے والی دیرینہ غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔ اِس میں سبھی کا فائدہ ہے۔ 

واَمّا مَا یَنْفَعُ النّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الارْض۔ 

ملتان: ہفتہ۔ ۲/ اپریل ۲۰۱۱ء

مطابق ۲۸/ ربیع الاخریٰ ۱۴۳۲ھ

آراء و افکار

(جولائی ۲۰۱۱ء)

جولائی ۲۰۱۱ء

جلد ۲۲ ۔ شمارہ ۷

تلاش

Flag Counter