ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت! اگر ایک رسالہ ایسا اور لکھا جاتا کہ جس میں ہر پیشہ ور کے معاملات کے احکام کو اس میں شرعی حیثیت سے بصورت مسائل بیان کر دیا جاتا تو بڑی سہولت ہو جاتی، اس لیے کہ لین دین وغیرہ میں آج کل نئی نئی صورتیں پیدا ہو گئی ہیں اور اکثر احکا م شرعیہ کے خلاف عمل درآمد ہو رہا ہے اور ان سے اجتناب کرنے کو لوگ دشوار سمجھتے ہیں۔ یہ سب مشکلیں حل ہو جاتیں۔ فرمایا کہ آپ آج یہ کہہ رہے ہیں، میں نے تو ایک عرصہ ہوا، اس وقت چاہا تھا کہ سب اہل معاملہ اپنے اپنے معاملات کو سوال کی صورت میں جمع کر کے مجھ کو دے دیں، چاہے وہ تجارت پیشہ ہو یا زراعت پیشہ یا ملازمت پیشہ وغیرہ وغیرہ۔ میں کوشش کر کے ان کے متعلق روایتیں جمع کر دوں گا اور احکام بتلا دوں گا، مگر کسی نے میری مدد نہ کی۔ بڑے کام کی کتاب ہوتی۔
اسی کے متعلق میں نے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا تھا کہ اگر کثیرۃ الوقوع معاملات پر دوسرے ائمہ کے مذاہب پر فتویٰ دیا جائے تو کوئی تو نہیں ہے؟ حضرت نے فرمایا تھا کہ کوئی حرج نہیں۔ اس سے بہت ہی قوت ہو گئی تھی کہ اب تو کوئی مانع ہی نہیں رہا۔ اور میں خود اس لیے نہیں لکھ سکا کہ مجھ کو معاملات یا واقعات ہی کی خبر نہیں، اس لیے اگر تجارت پیشہ وزراعت پیشہ وملازمت پیشہ اہل صنعت وحرفت یہ سب ان چیزوں کے متعلق واقعات بصورت استفتا جمع کر کے دے دیتے تو میں سوال وجواب کی صورت میں ان کے احکام جمع کر دیتا۔ اگر کسی مسئلہ میں امام ابوحنیفہؒ کے مذہ پر جواز نہ نکلتا تو میں یہ طے کیا تھا کہ امام شافعیؒ کے مذہب پر فتویٰ دے دوں گا، امام مالکؒ کے مذہب پر فتویٰ دے دوں گا، امام احمدؒ بن حنبل کے مذہب پر فتویٰ دے دوں گا اور اگر ان سے بھی کوئی صورت نہ نکلے تو ان کی سہل تدابیر بتلاؤں گا کہ یوں کر لیا کرو جس صورت سے جواز نکل آتا اور اگر کوئی بات سمجھ ہی سے باہر ہوئی تو اس کا کوئی علاج نہیں، معذوری ہے۔ اور اب اتنے بڑے کام کی ہمت نہیں رہی۔ ضعف کے سبب تحمل نہیں، تکلیف ہوتی ہے۔ اب ایسا کام نہیں ہوتا۔
(ملفوظات حکیم الامت ص ۲۱۴ جلد ۶۔ مطبوعہ ادارۂ تالیفات اشرفیہ ملتان)