’’رد قادیانیت کے زریں اصول‘‘ پر تقریظ
حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی، ان مجاہدین اسلام میں سے ہیں جن کی زندگی کا ہر لمحہ دین حق کی سربلندی اور مسلمانان عالم کی ملی وحدت اور یک جہتی کے لیے وقف ہے۔ مولانا چنیوٹی گزشتہ پچاس سے ختم نبوت کے تحفظ کو اپنی زندگی کامشن بنائے ہوئے ہیں۔ ختم نبوت کے خلاف کھڑی ہونے والی ہر سازش کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ ہمیشہ مجاہدین اسلا م کی صف اول میں موجود رہے ہیں۔ گزشتہ صدی کے اواخر میں اٹھنے والے فتنہ قادیانیت ومرزائیت کی تردید وتعاقب کو مولانا نے اپنی زندگی کا خاص الخاص مشن قرار دیا ہے۔ اندرون ملک وبیرون ملک اٹھنے والی ہر قادیانی سازش کا انہوں نے فکری، علمی، تعلیمی اور عوامی سطح پر بھرپور مقابلہ کیا۔
اس جہد مسلسل میں اپنے دست وبازو پیدا کرنے اور اس عمل کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے مولانا چنیوٹی نے ایک تربیتی پروگرام بھی شرو ع کر رکھا ہے جس کے ذریعے وہ نوجوان علما کو ختم نبوت کی تبلیغ اور قادیانیت کی تردید کے لیے تیار کرتے ہیں۔ زیر نظر کتا ب مولانا چنیوٹی نے ان زیر تربیت نوجوان علما کے لیے مرتب کی ہے جو فتنہ قادیانیت سے ہنوز کما حقہ واقف نہیں ہیں اور اب تربیت کے اس دور میں قدم رکھ رہے ہیں جس سے نکل کر ان کو اس فتنہ سے عہدہ برآ ہونا ہے۔
مجھے امید ہے کہ یہ کتاب نوجوان مبلغین اسلام میں مقبول ہو گی اور ان مقاصد کی تکمیل کرے گی جن کی خاطر یہ مرتب کی گئی ہے۔ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ مولانا کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور دارین میں ان کے لیے درجات کی بلندی کا ذریعہ بنائے۔
Muhammad (pbuh) foretold in the Bible by Name پر پیش لفظ
اسلام اور مسیحیت کے درمیان بحث و گفتگو اتنی ہی پرانی ہے جتناکہ بذات خود اسلام ہے۔ پچھلے چودہ سو سال کے دوران میں اسلام اور مسیحیت کے درمیان بحث و استدلال متعدد نشیب و فراز سے گزرا ہے۔ اسلام، شروع ہی سے اس طویل بحث و استدلال کو ایک پائیدار تعاون اور افہام و تفہیم کی صورت میں ڈھالنے کا خواہاں رہاہے۔ اپنی دعوت کے بالکل ابتدائی مکی دور سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارد گرد کے مسیحیوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرنے اور بحال رکھنے کی کوشش کی۔ حقیقت یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اولین وحی کے نزول کے فوراً ہی بعد اسلام کا مسیحی دین سے پہلا سامنا ہوا۔ وحی الٰہی کے اپنے اولین تجربے سے چند ہی گھنٹے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زوجہ خدیجہ کے کزن جناب ورقہ بن نوفل سے ملے۔ آپ کے وطن میں ورقہ غالباً اکلوتے دانشور صاحب علم تھے جو مسیحیت کا علم رکھتے تھے۔ ورقہ نے نہ صرف ا س نئے پیغام کی الہامی بنیاد کا اعتراف کیا بلکہ اس نے اپنے اس جوان مہمان کے سامنے اس کی آئندہ زندگی میں پیش آنے والے حالات و مشکلات کی وسعتوں کی بھی وضاحت کی۔ جو چیز اس بزرگ مسیحی دینی رہنما نے پہچان کر فوری طور پر مان لی، ٹھیک اسی بات کی دیگر آسمانی ادیان کے پیرووں سے بھی توقع ہونی چاہیے۔ قرآن کریم نے مدنی وحی میں یہ دعوت بڑے واضح اور غیر مبہم الفاظ میں دہرائی ہے۔ اس نے اہل کتاب کو اس بات کی دعوت دی ہے کہ وہ آسمانی مذاہب کے ان مشترکہ مقاصدکی تکمیل کے لیے مسلمانوں کے ساتھ مل کر کام کریں جو انسانیت کے لیے برکات الٰہی کی ناقابل شکست زنجیر کا کام دیتے ہیں۔
قرآن کریم کے نزدیک مسلمان بننے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے تمام انبیا و رسل پر ایمان رکھا جائے۔ ایک مسلمان پر لازم ہے کہ وہ دائرہ اسلام میں رہنے کے لیے حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ اور بائبل میں مذکور دیگر تمام انبیا پر ایمان لائے۔ نبوت کی اس زنجیر کے، جو غیر منقطع طور پر مربوط ہے، تسلسل کی اہمیت واضح کرنے کے لیے یہ عقیدہ و ایمان بہت ضروری ہے۔ اس ربط و تسلسل کی اہمیت مزیدواضح کرنے کے لیے ہی سابقہ انبیا اور الہامی کلام نے آخری پیغمبر کی آمد اور آخری و کامل پیغام کے الہام کی پیشین گوئی کی تھی۔ قرآن تو اس حد تک گیاہے کہ اس نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ کم از کم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے یہودیوں اور مسیحیوں نے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو اتنی جلدی اور آسانی سے پہچان لیا تھا جتنی جلدی اور آسانی سے وہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو پہچان لیتے تھے۔ ایک مشہور قرآنی آیت میں تو یہاں تک آیاہے کہ حضرت عیسیٰ نے اپنے پیرووں کو بتا دیا تھا کہ ان کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہ تھا کہ وہ اپنے بعد آنے والے احمد نام کے ایک پیغمبر کی بعثت کی خوشخبری سنا دیں۔
قرآن کے ایسے بیانات کی بنیاد پر مسلم علما سابقہ مذہبی صحائف کے مطالعے میں مصروف رہے۔ سابقہ الہامی کتب پر تحقیق کی حوصلہ افزائی نہ صرف قرآنی آیات میں کی گئی ہے بلکہ ایسی متعدد روایات میں بھی کی گئی ہے جو یہودی اور عیسائی پس منظر رکھنے والے متعدد ایسے صحابہ کرام کی طرف منسوب ہیں جو دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ انہوں نے ایسی چیزوں کی نشان دہی کی ہے جو قرآنی اور دیگر اسلامی بیانات کی تائید کرتے ہیں۔ دوسری طرف یہودی ومسیحی علما کی اکثریت نہ صرف اپنی الہامی کتب میں ایسی پیشین گوئیوں کے وجود سے انکاری رہی ہے بلکہ یا تو متعلقہ الفاظ و آیات کے تراجم میں تبدیلی کر کے اور یا پھر ان کی مختلف تاویلات کر کے مسلمانوں کے نقطہ نظر کی تردید کرتی رہی ہے۔
کسی متفقہ نقطہ نظر پر پہنچنے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ان اکثر آسمانی صحیفوں کے ابتدائی و اصلی متن کی عدم دستیابی ہے جو اب صرف نامعلوم مترجمین کے بالواسطہ اور ثانوی تراجم ہی کے ذریعے سے دستیاب ہیں۔ اس موضوع پر لکھنے والے مسلم علما کاخیال ہے کہ بائبل لٹریچر کے متعلقہ الفاظ و عبارات کا الحاق یہودو نصاریٰ کی طویل تاریخ کے دوران میں واقع ہونے والے مختلف ہنگاموں اور مصائب کے زمانے میں عمل میں آیا ہے۔ ان کے اس خیال کو اس بات سے تقویت ملتی ہے جب ایک شخص یہ دیکھتا ہے کہ بعض الفاظ و اصطلاحات کا بائبل کے مختلف مترجمین نے مختلف انداز میں ترجمہ کیا ہے۔ مسلمانوں کی علمی و فکری تاریخ کے مختلف ادوار میں مسلم علما نے اس پر سیرحاصل بحث کی ہے۔ جن علما نے اس علمی کام میں حصہ لیا، ان میں پرانے دور کے طبری، ان حزم، شہرستانی، قرطبی اور رازی جیسے مستند ومسلم علما شامل ہیں اور جدید دور کے مصنفین میں سے رحمت اللہ کیرانوی، دریا بادی اور مودودی شامل ہیں۔ انہوں نے بائبلی لٹریچر کے ایسے الفاظ و آیات کی نشاندہی کی کوشش کی ہے جن میں نبی آخرالزمان کی بعثت کی پیشین گوئیاں موجود ہیں۔
مسیحی مصنفین متعلقہ الفاظ و آیات کی استعارانی مفہوم میں تاویل کرتے ہیں، تاہم علوم بائبل کے مسلم مصنفین کے درمیان متنازعہ الفاظ وعبارات کی تاویل و توضیح کے بارے میں قریب قریب اتفاق ہے۔ بائبل کے عہد نامہ عتیق میں پائی جانے والی ’’غزل الغزلات‘‘ ایسی عبارات میں سے ایک ہے ۔ جناب عبدالستار غوری نے اس عبارت کا گہرائی میں جاکر مطالعہ کیاہے اور پوری کامیابی کے ساتھ کوشش کی ہے کہ یہ ثابت کردیں کہ یہ عبارت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق رکھتی ہے۔ انہوں نے اپنے موضوع کو ثابت کرنے کے لیے اس قدرے طویل عبارت کا مکمل تجزیہ کیاہے اور موثر دلائل ترتیب دیے ہیں۔
موجود ہ کتاب برسوں بلکہ عشروں کے طویل اور صبر آزمامطالعہ و تحقیق کا نتیجہ ہے۔ وہ کافی عرصے سے بائبلی علوم کے ایک سنجیدہ طالب علم رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی انہوں نے مسلم، مسیحی اور یہودی دینی علما کی مشترکہ دلچسپی کے متعدد مضامین اور مطبوعات شائع کی ہیں۔ انہیں بائبل اور اس سے متعلقہ دیگر علوم میں گہری بصیرت حاصل ہے۔ ان کی عبرانی کی واقفیت نے ان کو ایسے مواد تک رسائی میں مدد کی ہے جو انگریزی تراجم میں دستیاب نہیں۔
موجودہ کتاب ان کی علمی زندگی کا ایک کارنامہ ہے۔ طویل مطالعے اور گہری تحقیق پر مبنی یہ کتاب اپنا نقطہ نظر ٹھوس دلائل اور معروضی انداز میں پیش کرتی ہے۔ انہوں نے اپنے نتائج تحقیق کا غیر مسلم مصنفین کی تحریروں سے موازنہ کر کے موخرالذکر مصنفین کی کمزوریاں ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے بائبل کی تمام تاویلات کے سلسلے میں قریباً کلیتاً مغربی مآخذ پر اعتماد کیا ہے۔ مستند مسلم مآخذ کا صرف اسی جگہ حوالہ دیاگیا ہے جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعض پہلوؤں کا ذکر ہے۔
مجھے امید ہے کہ اس کتاب میں نہ صرف مسلم قارئین دلچسپی لیں گے، بلکہ مسیحی، یہودی اور دوسرے مذہبی گروہوں کے پیروکار بھی اس میں اپنی دلچسپی کا سامان پائیں گے۔ یہ کتاب بڑے بروقت موقع پر سامنے آئی ہے۔ آج مسیحیت اور اسلام کے درمیان تعلقات انتہائی کمزور ہوچکے ہیں۔ مسلم دنیا اور مغرب کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مناقشہ اور ہنگامہ آرائی کی فضا میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ مختلف الہامی مذاہب کے متبعین کے درمیان مفاہمت کی فضا استوار کی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی کوئی کوشش انسانیت کی عظیم خدمت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جناب غوری کی کتاب اس مقصد کی تکمیل میں معاون ثابت ہوگی۔ انسانیت سے محبت رکھنے والے لوگوں کو عموماً اور الہامی مذاہب کے پیرو کاروں کو خصوصاً اس کتاب کا خیرمقدم کرنا چاہیے۔
’’اسلام کا نظام سیاست وحکومت‘‘ پر تقدیم
اسلام کے سیاسی اور دستوری تصورات واحکام اور انتظامی ہدایات پر بیسویں صدی میں بہت وقیع اور قابل ذکر کام ہوا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ بیسویں صدی کے مسلم اہل علم ودانش نے اسلام کے دستوری احکام کو ایک نئی اجتہادی بصیرت کے ساتھ ازسرنو مرتب کیا ہے۔ قدیم اسلامی لٹریچر میں اسلام کے سیاسی تصورات اور دستوری احکام تفسیر، حدیث، فقہ، کلام اور تاریخ وادب کی کتابوں میں بکھرے ہوئے ملتے ہیں۔ خالص سیاسی تصورات اور دستوری احکام پر کتابوں کی تعداد تفسیر، حدیث اور فقہ وکلام کی کتابوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ بیسویں صدی کے وسط میں جب بہت سی مسلم ریاستیں پے در پے وجود میں آنی شروع ہوئیں تو جہاں اور بہت سے معاملات ومسائل سامنے آئے، وہاں اسلامی ریاست کی نوعیت، اسلام کے دستوری احکام اور انتظامی ہدایات پر بھی نئے انداز سے غور وخوض کا آغاز ہوا۔ اس عمل میں علما اور فقہا کے ساتھ ساتھ ماہرین دستور وسیاست بھی شامل تھے۔
سالہا سال کی اس مسلسل اجتماعی اور اجتہادی کاوش کے نتیجے میں اسلام کے سیاسی تصورات اور دستوری احکام نہ صرف منقح ہو کر سامنے آ گئے، بلکہ ان کو آج کی دستوری زبان اور رائج الوقت قانونی اصطلاحات میں مرتب بھی کر لیا گیا۔ اسلام کے یہ نومرتب شدہ دستوری احکام دنیاے اسلام کے متعدد ممالک کے قوانین ودساتیر کی تدوین میں، جہاں جس قدر ممکن ہوا، مفید اورموثر بھی ثابت ہوئے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلامی دستور کی تدوین نو اور اسلام کی سیاسی فکر کی تشکیل جدید کا یہ کام فقہ اسلامی کی تاریخ کا ایک بہت اہم اور نمایاں باب ہے۔ اسلامی دستور کے بعد اب اسلام کی انتظامی ہدایات اور مسلمانوں کے انتظامی تجربات پر بھرپور علمی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ اب دنیاے اسلام کے اہل علم اس طرف توجہ دے رہے ہیں۔
زیر نظر کتاب افغانستان کے ایک جیدصاحب علم اور بالغ نظر محقق مولانا عبد الباقی حقانی کی فاضلانہ کتاب ’’السیاسۃ والادارۃ الشرعیۃ فی ضوء ارشادات خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک بہت جامع کتاب ہے۔ فاضل مصنف نے تفسیر وحدیث اور فقہ وکلام کے علاوہ تاریخ، ادب اور تذکرہ کی کتابوں کو کھنگال کر یہ قیمتی مواد جمع کیا ہے جس کے لیے وہ ہم سب کے شکریہ کے مستحق ہیں۔ کتاب کا اردو ترجمہ مولانا شکیل احمد حقانی اور مولانا سید الامین حقانی نے کیا ہے۔ زبان وبیان میں عربیت کے گہرے اثرات کے باوجود امید ہے کہ ترجمہ عام فہم ثابت ہوگا۔ میں دل کی گہرائیوں سے کتاب کے فاضل مصنف جناب مولانا عبد الباقی حقانی کا شکرگزار ہوں کہ انھوں نے اپنی طویل محنت اور تحقیق کے نتائج کو اتنی جامع ترتیب سے اہل علم کے سامنے پیش کیا۔ میں دست بستہ دعاگو ہوں کہ ان کی یہ کاوش اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہو اور قارئین کے لیے مفید اور نافع ثابت ہو۔
’’خطبات راشدی‘‘ پر پیش لفظ
ایک مشہور حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ دین اور شریعت کا علم ہر دور میں اہل علم کے ایک طبقے کے ذریعے محفوظ رہے گا جو اس علم کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ان غلط فہمیوں کی تردید بھی کرتے رہیں گے جو انتہا پسندوں اور غلو کاروں کے ذریعے پھیلیں گی، ان بے بنیاد باتوں کی تردید بھی کرتے رہیں گے جو اہل باطل کے ذریعے فروغ پائیں گی اور ان غلط تعبیرات وتصورات کی اصلاح بھی کرتے رہیں گے جو دین کے جاہل اور کم علم عقیدت مند پھیلائیں گے۔ اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ صحابہ کرام کے زمانے سے لے کر آج تک مخلص اہل علم کی ایک تعداد ان تینوں ذمہ داریوں کو انجام دیتی چلی آ رہی ہے۔ یہ انھی بابرکت نفوس کی مبارک کوششوں کا ثمرہ ہے کہ قرآن مجید اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم آج بھی اپنی اصل تعلیم کے ساتھ موجود ہیں۔ شریعت الٰہی کا روشن چہرہ آج بھی دنیا کے سامنے منور ہے۔ اکابر اسلام کے تاریخ ساز کارنامے آج بھی دنیا کے سامنے موجود ہیں۔
اہل علم کے اسی بابرکت قافلے کے ایک قافلہ سالار حضرت مولانا زاہد الراشدی ہمارے دور میںیہی فرائض سہ گانہ انجام دے رہے ہیں۔انھوں نے عرب وعجم اور مشرق ومغرب ہر جگہ اپنی فصیح اللسانی اور رواں قلم کے ذریعے اسلام کا مسلسل دفاع کیا ہے اور کر رہے ہیں۔ انھوں نے دین اور شریعت کی تعلیمات پر کیے جانے والے اعتراضات کا ہمیشہ موثر اور مثبت جواب دیا ہے۔ باطل پرست طبقات کی طرف سے جب بھی اسلام یا اسلامی تہذیب سے کوئی غلط چیز منسوب کی گئی، مولانا کے موثر اسلوب اور طاقت ور قلم نے اس کی کمزوری کھول کھول کر عیاں کردی۔ دین کے نادان دوستوں اور جاہل عقیدت مندوں کی کمزور تاویلات کے نتیجے میں جب بھی کسی کو دین وشریعت پر اعتراض کا موقع ملا، مولانا زاہد الراشدی نے جرات سے کام لے کر اس موقف کی کمزوری واضح کی۔
مولانا کی یہ فاضلانہ تحریریں پاکستان اور انگلستان کے بیسیوں اخبارات اور رسائل کی فائلوں میں منتشر بلکہ مدفون تھیں۔ اخبارات کی زندگی چند گھنٹوں اور رسائل کی زندگی چند دنوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔اخبارات چند گھنٹوں میں اور رسائل چند دنوں میں ردی کی نذر کر دیے جاتے ہیں۔ عام طو رپر اخبارات ورسائل میں شائع ہونے والی علمی وفکری تحریروں کو محفوظ رکھنے کا کوئی موثر بندوبست نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے اس بات کا شدید خطرہ تھا کہ مولانا راشدی کے قلم سے نکلے ہوئے یہ جواہر پارے وقت کے ساتھ ساتھ ضائع ہو جائیں۔ مجھے خوشی ہے کہ لاہور کے بعض علم دوست حضرات نے ان مضامین کی اہمیت کا احساس کیا اور ان کو یکجا کر کے کتابی صورت میں شائع کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مولانا کے یہ مقالات ومضامین اور تقاریر وخطبات متعدد جلدوں میں مرتب ہو کر محفوظ ہو جائیں گے اور اہل علم ودانش کے لیے دستیاب ہوں گے۔
مجھے امید ہے کہ مولانا زاہد الراشدی کے یہ وقیع خطبات ومقالات دور جدید میں دعوت وتبلیغ کے نئے اسلوب کو جنم دیں گے اور ان کی مدد سے ملک کے نوجوان علماء کرام تبلیغ دین کے ایک نئے اور منفرد ڈھنگ سے آشنا ہوں گے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا کی عمر، علم اور کوششوں میں برکت عطا فرمائے اور ان کی تحریروں اور تقریروں کو نتیجہ خیز اور مفید بنائے۔