جناب محمد عمار خان ناصر صاحب کے بارے میں، میں کچھ نہیں جانتا نہ ہی ان کے علم وفضل کے خد وخال سے پوری طرح آگاہ ہوں کہ ان کا علم وفضل میں کیا مقام ومرتبہ ہے۔ البتہ ان کے والد محترم کی کئی تقریریں سننے کا اعزاز مجھے حاصل ہے اور میں ان کی علمی عظمت کا بھی قائل ہوں۔ جہاں تک ان کی خاندانی عظمت کا تعلق ہے، اسے تسلیم نہ کرنا بھی کوتاہی وکم نظری کے مترادف خیال کرتا ہوں۔
محمد عمار خان ناصر کے ایک مضمون پر مولانا عبد القیوم حقانی صاحب کا تنقیدی مضمون میری نظر سے گزرا جس میں انھوں نے جناب عمار خان ناصر کی اس تحریر پر گرفت کی ہے جو انھوں نے قادیانیوں کے بارے میں تحریر کی ہے۔ عمار خان ناصر تحریر فرماتے ہیں:
’’اگر کسی معاشرے میں کشف والہام انفرادی دائرے سے اٹھ کر ایک باقاعدہ اداراتی صورت اختیار کر چکے ہوں، ان کی بنیاد پر شخصیات اور جماعتوں کے عند اللہ مقبول ہونے یا نہ ہونے کے فیصلے کیے جاتے ہوں، لوگوں کو ان کی طرف دعوت جاتی اور ان کے ساتھ وابستہ ہونے والوں کو نجات کی بشارت دی جاتی ہو، القا والہام کی بنیاد پر مراقبہ وسلوک کے نظام مرتب کیے جاتے بلکہ سیاسی ومذہبی اختلافات میں بھی حق وباطل کی تفریق کرنا ایک عام چلن ہو، جہاں خواب اور بشارات کسی کے مامور من اللہ ہونے کا ایک مستند ذریعہ سمجھے جاتے ہوں، ایسی فضا میں اگر کوئی شخص ’’شبانی سے کلیمی دو قدم ہے‘‘ کا نعرۂ مستانہ بلند کر دے اور لوگ اس کے فریب میں مبتلا ہو کر اسے ایک ’’امتی نبی‘‘ مان لیں تو انھیں کس حد تک قصور وار ٹھہرایا جا سکتا ہے اور راہ راست پر لانے کی ہمدردانہ کوشش کی بجائے ان کا معاشرتی مقاطعہ کرنے اور قانونی اقدامات کے ذریعے سے انھیں مسلمانوں سے الگ تھلگ کر دینے کو کس حد تک اخلاق، حکمت اور دعوت دین کے تقاضوں کے مطابق قرار دیا جا سکتا ہے؟‘‘
جناب محمد عمار خان ناصر کی مندرجہ بالا تحریر بظاہر بڑی بھولی بھالی، انتہائی مسکین اور عاجزانہ سی نظر آتی ہے، لیکن اگر اس کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے اور غور وفکر سے کام لیا جائے تو انتہائی خطرناک، گمراہ کن اور قابل مذمت بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بے چاری اللہ کی مخلوق ہماری غفلت کی وجہ سے ہم سے کٹ کر الگ ہو گئی، انھیں دعوت حق دے کر ساتھ ملانے کی کوشش ہی نہیں کی گئی اور ان کے نزدیک مسلمانوں کا یہ رویہ اخلاقی تقاضوں کو پورا نہیں کرتا۔ گویا ان کی نگاہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو امتی نبی مان لے تو اس بے چارے کا کیا قصور ہے کہ اسے ملت اسلامیہ سے الگ تھلگ کر دیا جائے؟ ان کی اس معصوم خواہش پر تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ:
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
قادیانیوں کو دعوت حق دے کر اپنے ساتھ ملانے کی کوشش پر تو ہمیں اعتراض نہیں ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی بڑی شدت کے ساتھ یہ خواہش تھی کہ کوئی شخص ایسا نہ رہ جائے جو اسلام قبول کر کے ملت اسلامیہ کا فرد نہ بن جائے، بلکہ آپ کی یہ خواہش اس قدر شدید ہو گئی کہ آپ اس کے بارے میں متفکر رہنے لگے تو علما بیان کرتے ہیں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے کہہ دیا تھا کہ آپ کا کام صرف اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچا دینا ہے۔ کوئی اسلام قبول کرتا ہے یا نہیں کرتا، اس بارے میں آپ متفکر نہ رہا کریں کہ اللہ کو ہی علم ہے کہ کس نے اسلام قبول کرنا ہے اور کسے نہیں کرنا۔ عمار ناصر کو بھی اسی انداز میں سوچنا چاہیے کہ یہی اسوۂ حسنہ کا تقاضا ہے۔
اس کا عملی ثبوت بھی ہمارے سامنے ہے کہ جن قادیانیوں نے اسلام قبول کرنا تھا، انھوں نے مشکل حالات میں بھی اسلام قبول کیا اور اسلام قبول کر لینے کے بعد رد قادیانیت کا دینی فریضہ زندگی بھر سرانجام دیتے رہے اور جنھوں نے اسلام قبول نہیں کرنا تھا، وہ آج تک قادیانی ہیں۔ عمار ناصر صاحب کو قادیانیوں پر اتنا ترس کیوں آ رہا ہے؟اس ترس اور اس خواہش کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟ عبد الرحمن مصری کی مثال سے بات اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے کہ عمر بھر مرزا بشیر الدین محمود کی خرمستیوں کے خلاف علم بغاوت تو بلند کرتا رہا، لیکن اسلام قبول نہیں کیا اور قادیانی مرا، جبکہ اس کے بیٹے حافظ بشیر احمد نے مرزائیت ترک کی، دہریت کی دہلیز تک پہنچا اور پھر اسلام قبول کر کے عمر بھر دینی خدمات سرانجام دیتا رہا۔ عمار ناصر صاحب کو اس بات کا کیوں علم نہیں کہ جسے دین اسلام قبول نہیں کرنا، ا س کے ساتھ خواہ آپ کتنا ہی مخلصانہ اور مہربانہ رویہ اختیار کرلیں، نتیجہ وہی ہوگا جو اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم کو وحی کے ذریعے بتا دیا ہے۔
پھر یہ بات بھی محل نظر ہے کہ ہم نے قادیانیوں کو اپنے سے الگ کیا ہے۔ ہم نے نہیں، انھوں نے اپنے آپ کو ہم سے علیحدہ کیا ہے جس کا ہم پر الزام سرے سے درست ہی نہیں ہے۔ تو پھر عمار ناصر صاحب کا یہ واویلا کس حقیقت کی نشان دہی کرتا ہے؟ یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ ان کی اپنی سوچ اور اپنی فکر ہے یا کہیں سے انھوں نے کسی خاص مقصد کے حصول کے لیے مستعار لی ہے اور اگر ایسا ہے تو یہ بات اسلام اور مسلمانوں کے لیے انتہائی خطرناک بات ہے۔ مرزا غلام احمد سے لے کر آج تک کوئی ایک ایسی بات اگر عمار ناصر صاحب کے علم میں ہو جس کو بنیاد بنا کر ہم مسلمان انھیں اپنے قریب لا کر دین اسلام کی دعوت دے سکیں تو وہ بتائیں۔ دعوت حق تو اسی وقت دی جائے گی جب دعوت حق کا ماحول باقی رہے گا۔ اگر دعوت حق دے کر انھیں قریب لانا اتنا ہی آسان ہوتا تو ہمارے بزرگ یہ کام کرنا جانتے تھے اور انھوں نے یہ کوشش بھی کی جو رائیگاں گئی۔ ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے۔ جب بات حد سے گزر جائے تو پھر اس کا دوسرا علاج کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ پھوڑا اگر کینسر بن جائے تو اسے جسم سے الگ کرنا ہی پڑتا ہے، ورنہ پورے جسم کے ختم ہو جانے کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ جو کچھ ملت اسلامیہ نے قادیانیوں کے ساتھ کیا، یہی علاج بہتر تھا اور جو کچھ قادیانیوں کے ساتھ ہوا، اس کی ذمہ داری مسلمانوں پر نہیں، قادیانیوں پر عائد ہوتی ہے۔ خود کردہ را علاجے نیست۔ قومی اسمبلی جس نے انھیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا، اس کی ساری کارروائی موجود ہے جو میری اس بات کی ایک بین دلیل ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ قادیانیوں نے مسلمانوں کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا اور کیوں اختیار کیا کہ کوئی ایسی قدر باقی نہ رہی جس کو بنیاد بنا کر ہم وہ کام کر سکتے جس کی خواہش نے عمار ناصر صاحب کی راتوں کی نیند اور دن کا چین ان سے چھین لیا ہے۔
اگر ان تمام باتوں کے باوجود عمار ناصر صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا ممکن تھا، لیکن کیا نہیں گیا تو پھر انھیں ہمارا مشورہ یہی ہے کہ اب وہ خود اس نیک کام کا آغاز کر دیں۔ انھیں کون روک رہا ہے؟ وہ قادیانیوں کے ساتھ معاشرتی، ثقافتی، سیاسی، معاشی تعلقات استوار کرنے کا آغاز کریں۔ کوئی ایسی تنظیم بنا لیں تو زیادہ منظم طریقے سے بھی یہ نیک کام ہو سکتا ہے، لیکن مجھے معلوم ہے کہ وہ یہ کام نہیں کر پائیں گے کہ کہہ دینا تو آسان ہوتا ہے، کر گزرنا مشکل ہے۔
عمار خان ناصر صاحب نے ماہنامہ ’’اجتہاد‘‘ کے صفحہ ۸ پر جن خیالات کا اظہار فرمایا ہے، وہ تو انتہائی قابل اعتراض ہیں جس میں انھوں نے قادیانیت کے خلاف امتناعی قوانین اور توہین رسالت کی سزا کو محض عوامی سطح پر پائے جانے والے جذبات کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ اسے ’’یک رخے انداز فکر‘‘ کا نتیجہ بتایا ہے۔ میرے خیال میں جب وہ یہ انتہائی قابل اعتراض سطور تحریر کر رہے تھے تو وہ خود اسی جذباتی کیفیت میں مبتلا تھے جس کا وہ ہمیں طعنہ دے رہے ہیں۔ ان کو اس بات کا علم نہیں کہ ’’جذبہ‘‘ فی نفسہ کوئی بری بات نہیں بلکہ اچھی شے ہے۔ جذبات سے عاری انسان تو ان صفات کا سرے سے متحمل ہی نہیں ہو سکتا جو شخصیت کی تکمیل اور انسان کہلانے کے لیے ضروری اور لازمی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جذبہ مثبت ہے یا پھر منفی۔ یہ دونوں پہلو اگر ساتھ ساتھ رہیں تو جذبہ کار خیر کے لیے ایک تحریک پیدا کرتا ہے۔
آزادی کی مثال سے بات مزید واضح ہوتی ہے۔ آزادی کے بھی دو پہلو ہیں۔ ایک منفی اورایک مثبت۔ منفی پہلو میں ایک فرد کو کچھ کاموں سے روک دیا جاتا ہے اور مثبت پہلو کے ذریعے ایک فرد کو کچھ کاموں کی آزادی ہوتی ہے۔ اگر آزادی کا منفی پہلو نظر انداز کر دیا جائے تو آزادی مادر پدر آزادی میں تبدیل ہو جاتی ہے جس کانقصان پورے معاشرے کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اسی طرح اگر جذبہ صحیح جگہ پر صحیح کام کر رہا ہے تو پھر جذبہ مضر نہیں رہتا، کیونکہ اس کا مثبت پہلو منفی پہلو پر غالب رہتا ہے۔ ایسا جذبہ معاشرے کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے اور اگر جذبہ غلط کاموں کا محرک بن جائے یعنی مثبت پہلو سے ہٹ کر منفی پہلو کو پیش نظر رکھے تو پھر جذبہ مضر ہے۔ اس لیے جناب عمار ناصر صاحب کو سوچنا چاہیے کہ اگر مسلمانوں کے جذبات نے انھیں صحیح کام کرنے پر آمادہ کیا ہے تو یہ کام کوئی غلط کام نہیں تھا جسے نشانہ تنقید بنایا جائے۔
حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اپنی کمان ابوجہل کے سر پر مار کر اسے زخمی کر دیا تھا تو وہاں پر بھی جذبہ ہی تھا جو اس کا محرک بنا اور اگر ابوجہل نے اپنے آخری وقت میں اپنا سر قلم کراتے ہوئے یہ کہا تھاکہ سر ذرا اوپر سے کاٹنا کہ سردار کا سر نیزے پر اونچا نظر آئے تو یہاں بھی جذبہ ہی ہے۔ اب دونوں جذبوں میں جو فرق ہے، وہ واضح ہے۔ اس لیے مسلمانوں نے قادیانیوں کے خلاف جو کچھ بھی کیا، وہ بھی جذبہ ہی ہے، لیکن یہ جذبہ مثبت ہے، منفی نہیں۔ یہ جذبہ حضرت حمزہؓ سے لیا گیا ہے، ابو جہل سے نہیں۔ یہ سب کچھ محض عوامی جذبات نہیں، بلکہ عالم اسلام اس بات کا معتقد ومعترف ہے کہ جو کچھ ہوا، ہونا چاہیے تھا اور قادیانیوں کو ان کی اصل جگہ پر لا کھڑا کرنا ضروری تھا۔ یہ ملت اسلامیہ کی ایک ایسی کامیابی ہے جس پر آنے والی نسلیں ہمیشہ فخر کرتی رہیں گی۔ اب کوئی دعواے نبوت کرے گا تو اسے پھلنے پھولنے کا وہ موقع میسر نہیں آئے گا جو مرزا غلام احمد قادیانی کو آیا۔ یوسف کذاب کی مثال آ پ کے سامنے ہے۔ یہ انھی امتناعی احکامات کا نتیجہ ہے کہ اب قادیانی اسلامی شعائر کو استعمال کر کے بھولے بھالے مسلمانوں کو گمراہ نہیں کر سکتے، اس لیے میری ان سے درخواست ہے کہ وہ ان بھولے بھالے قادیانیوں پر ترس کھانے کے بجائے ان بھولے بھالے مسلمانوں پر ترس کھانا شروع کریں جو قادیانیوں کی تخریب کاری سے اب بھی اس طرح محفوظ نہیں جس طرح ہونا چاہیے کہ اب بھی لالچ، دھوکا، فریب کے طریقوں سے قادیانی مسلمانوں کو اپنے چنگل میں پھنسا لیتے ہیں، اگرچہ امتناع قادیانیت آرڈیننس نے ان کے لیے یہ کام بہت مشکل کر دیا ہے کہ اب شکاری، شکاری کے لباس میں ہے، دین کے مبلغ کے لباس میں نہیں۔
قادیانی اپنے آپ کو غیر مسلم تسلیم کر کے بھی تبلیغ کر سکتے ہیں جیساکہ اس غیر اسلامی ریاست میں دوسرے مذاہب کے لوگ کر رہے ہیں۔ ان کو مسلمان بن کر یا مسلمان کہلا کر مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکہ ڈالنے دینا کس لحاظ یا کس پہلو سے درست ہے کہ آپ امتناعی قوانین کو بھی اپنی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ آخر میں ہم جناب عمار خان ناصر صاحب کو اپنے خیالات پر دوبارہ سوچنے کا مشورہ دیتے ہیں کہ ان کی یہ سوچ اکابرکی قربانیوں اور شہداے ختم نبوت کے خون سے غداری کے مترادف ہے جو ایک دینی گھرانے کو زیب نہیں دیتی۔
آپ نے اپنے رسالے میں بھی کسی کے ایک سوال کے جواب میں جو کچھ تحریر کیا ہے، وہ بھی آپ کے انھی خیالات وجذبات کا عکس ہے جن کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے۔ جواب کا وہ حصہ نذر قارئین ہے:
’’قادیانی قیادت اور ان کے تاویلاتی جال میں پھنس جانے والے عام سادہ لوح مسلمانوں کے مابین جو فرق حکمت دین کی رو سے ملحوظ رکھا جانا ضروری تھا، وہ نہیں رکھا گیا اور عام لوگوں کو ہمدردی اور خیر خواہی سے راہ راست پر واپس لانے کے داعیانہ جذبے پر نفرت اور مخاصمت کے جذبات نے زیادہ غلبہ پا لیا۔ میرے نزدیک قادیانی گروہ کو قانونی طور پر مسلمانوں سے الگ ایک غیر مسلم گروہ قرار دے دیے جانے سے امت مسلمہ کے تشخص اور اس کی اعتقادی حدود کی حفاظت کا مقصد پورا ہو جاتا ہے اور اس کے بعد مسلمانوں کے علما اور داعیوں کی محنت اور جدوجہد کا ہدف اصلاً یہ ہونا چاہیے کہ وہ دعوت کے ذریعے سے ان عام قادیانیوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کریں جن کے حوالے سے قادیانی قیادت کا مفاد بھی یہی ہے کہ وہ مسلمانوں سے الگ تھلگ اور اسلام کی حقیقی تعلیمات سے ناواقف رہیں اور معلوم نہیں کن ضرورتوں یا مجبوریوں کے تحت ہماری مذہبی قیادت بھی انھیں مسلمانوں سے دور ہی رکھنے کو اپنی ساری جدوجہد کا ہدف بنائے ہوئے ہے۔ ‘‘
اس پر میں اب کیا تبصرہ کروں! انتہائی افسوس کے ساتھ یہ شعر ہی پیش خدمت ہے۔
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے