اسلامی شریعت

عدت کے شرعی احکام : چند ضروری توضیحات

ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

احکام شریعت عموماً‌ دو طرح کے پہلووں کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ ایک پہلو ’’معلل” یعنی کسی قانونی علت پر مبنی ہوتا ہے جس کے وجود یا عدم وجود پر حکم کا مدار رکھا جاتا ہے اور مجتہدین اس کی روشنی میں حکم کے قابل اطلاق ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ دوسرا پہلو ’’تعبدی” ہوتا ہے، یعنی جس کی کوئی ظاہری قانونی علت نہیں ہوتی اور اس کی پابندی محض شارع کے امتثال امر کے طور پر کی جاتی...

نصوص کے فہم اور تعبیر پر واقعاتی تناظر کے اثرات

محمد عمار خان ناصر

نص کی تعبیر میں جو چیزیں مفسر یا فقیہ کے فہم پر اثر انداز ہوتی ہیں، ان میں ایک اہم چیز وہ عملی صورت حال ہوتی ہے جس میں کھڑے ہو کر مفسر یا فقیہ نص پر غور کرتا اور مختلف تفسیری امکانات کا جائزہ لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عملی حالات کے بدل جانے سے انھی نصوص کی تعبیر کے کچھ ایسے امکانات سامنے آتے ہیں جو سابق مفسرین کے پیش نظر نہیں تھے۔ گویا حکم کی تعبیر کے مختلف امکانات عملی حالات سے مجرد ہو کر صرف متن پر غور کرنے سے سامنے نہیں آتے، بلکہ حکم کو عملی صورت واقعہ کے ساتھ جوڑنے سے وہ اصل تناظر بنتا ہے جس میں مجتہد مختلف تعبیری امکانات کا جائزہ لیتا ہے اور...

اسلامی شریعت اور حلالہ / ایک سوال نامہ اور اس کے مختصر جوابات

محمد عمار خان ناصر

ہمارے معاشرے میں دین وشریعت کے غلط اور مبنی بر جہالت فہم کے جو مختلف مظاہر پائے جاتے ہیں، ان میں سے ایک، حلالہ کی رسم ہے۔ مروجہ رسم کے مطابق حلالہ کا تصور یہ ہے کہ اگر شوہر، بیوی کو تین طلاقیں دے دے تو اب ان کے اکٹھا رہنے کے جواز کے لیے شرط ہے کہ عورت، عارضی طور پر کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے، اس سے جسمانی تعلق قائم کرے اور پھر طلاق لے کر پہلے شوہر کے پاس واپس آ جائے۔ یعنی اس میں دو تین چیزیں پہلے سے طے ہیں: ایک یہ کہ یہ دوسرا نکاح وقتی اور عارضی مدت کی نیت سے ہوگا۔ دوسرا یہ کہ اس کا مقصد ہی پہلے شوہر کے لیے عورت کو حلال کرنا ہے۔ اور تیسرا یہ کہ اس سارے...

اسلامی شریعت کی تعبیر و تشریح: علمی و فکری سوالات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مسلم ممالک میں شریعت اسلامیہ کے نفاذ اور اسلامی احکام وقوانین کی عمل داری کا مسئلہ جہاں اپنی نوعیت واہمیت کے حوالے سے ہمارے ملی فرائض اور دینی ذمہ داریوں میں شمار ہوتا ہے، وہاں اس کی راہ میں حائل متنوع مشکلات اور رکاوٹوں کے باعث وہ ایک چیلنج کی حیثیت بھی رکھتا ہے اور مسلم معاشروں میں اس سے نمٹنے کے لیے مختلف اطراف سے کوششیں جاری ہیں۔ ان مشکلات اور رکاوٹوں میں سیاسی، تہذیبی، اقتصادی اور عسکری امور کے ساتھ ساتھ یہ علمی رکاوٹ بھی نفاذ اسلام کی راہ روکے کھڑی ہے کہ آج کے بین الاقوامی حالات اور جدید عالمی تہذیبی ماحول میں اسلامی احکام وقوانین...

شرعی سزاؤں میں ترمیم و تغیر کا مسئلہ

حافظ محمد سلیمان

موجودہ دور میں فرد کی تقدیس و احترام میں بہت زیادہ مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے اور اس کو پوری معاشرتی زندگی کا محور ومرکز قرار دیتے ہوئے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام کی سزائیں وحشیانہ، ظالمانہ اور متشددانہ ہیں اور ان کے ذریعے معاشرہ میں خونریزی اور بربریت وجود میں آتی ہے۔ نیز یہ سزائیں درحقیقت قدیم زمانہ کے وحشیوں کے لیے وضع کی گئی تھیں۔ چونکہ معاشرہ مسلسل ترقی کی طرف رواں دواں ہے، لہٰذا اب ان سزاؤں کو نافذ کرنا موجودہ انسانی معاشرہ کے ساتھ ناانصافی اور سراسر ظلم ہے، اس لیے اسلامی سزاؤں کو کالعدم قرار دے کر یا ان میں ترمیم کرکے عصرحاضر...

زنا بالجبر کی سزا

محمد عمار خان ناصر

قرآن مجید میں زنا کی سزا بیان کرتے ہوئے زانی اور زانیہ، دونوں کو سزا دینے کا حکم دیا گیا ہے جس سے واضح ہے کہ قرآن کے پیش نظر اصلاً زنا بالرضا کی سزا بیان کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سزا کا اطلاق زنا بالجبر بھی ہوگا، لیکن چونکہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ زنا بالرضا سے زیادہ سنگین جرم ہے، اس لیے زنا کی عام سزا کے ساتھ کسی تعزیری سزا کا اضافہ، جو جرم کی نوعیت کے لحاظ سے موت بھی ہو سکتی ہے، ہر لحاظ سے قانون وشریعت کا منشا تصور کیا جائے گا۔ اس ضمن میں کوئی متعین سزا تو قرآن وسنت کے نصوص میں بیان نہیں ہوئی، البتہ روایات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض فیصلے...

زنا کی سزا (۲)

محمد عمار خان ناصر

زنا کی سزا سے متعلق دوسری آیت سورۂ نور میں آئی ہے۔ ارشاد ہوا ہے: ’’زانی عورت اور زانی مرد، ان میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے مارو۔ اور اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر فی الواقع ایمان رکھتے ہو تو اللہ کے دین کے معاملے میں ان دونوں کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ تم پر حاوی نہ ہو جائے۔ اور ان دونوں کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود ہونا چاہیے۔‘‘(النور۲۴: ۲)۔ آیت، جیسا کہ واضح ہے، کسی قسم کی تخصیص کے بغیر زنا کی سزا صرف سو کوڑے بیان کرتی ہے۔ یہاں قرآن مجید کا سو کوڑوں کی سزا کے بیان پر اکتفا کرنا اور اس میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ میں کسی فرق کی تصریح...

زنا کی سزا (۱)

محمد عمار خان ناصر

قرآن مجید میں زنا کی سزا دو مقامات پر بیان ہوئی ہے اور دونوں مقامات بعض اہم سوالات کے حوالے سے تفسیر وحدیث اور فقہ کی معرکہ آرا بحثوں کا موضوع ہیں۔ پہلا مقام سورۂ نساء میں ہے۔ ارشاد ہوا ہے: ’’اور تمھاری عورتوں میں سے جو بدکاری کا ارتکاب کرتی ہوں، ان پر اپنے میں سے چار گواہ طلب کرو۔ پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو ایسی عورتوں کو گھروں میں محبوس کر دو، یہاں تک کہ انھیں موت آ جائے یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی اور راستہ بیان کر دیں۔ اور تم میں سے جو مرد وعورت بدکاری کا ارتکاب کرتے ہوں، انھیں اذیت دو۔ پھر اگر وہ توبہ اور اصلاح کر لیں تو ان سے درگزر کرو۔...

شرعی سزاؤں کی ابدیت و آفاقیت کی بحث

محمد عمار خان ناصر

شرعی قوانین اور بالخصوص سزاؤں سے متعلق شرعی احکام کی تعبیر وتشریح کے حوالے سے معاصر مسلم فکر میں ایک اہم اور بنیادی بحث یہ ہے کہ قرآن وسنت میں مختلف معاشرتی جرائم مثلاً زنا، چوری، قذف اور محاربہ وغیرہ سے متعلق جو متعین سزائیں بیان کی گئی ہیں، آیا وہ ابدی اور آفاقی نوعیت کی ہیں یا ان کی معنویت اور افادیت ایک مخصوص زمان ومکان تک محدود تھی۔ ایک مکتب فکر یہ رائے رکھتا ہے کہ یہ سزائیں تجویز کرتے وقت اہل عرب کے مخصوص تمدنی مزاج اور معاشرتی عادات واطوار کو پیش نظر رکھا گیا تھا اور اس معاشرت میں جرائم کی روک تھام کے حوالے سے یہ موزوں اور موثر تھیں،...

’’شریعت، مقاصد شریعت اور اجتہاد‘‘

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حضرت شاہ ولی اللہؒ نے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے مقدمہ میں اس مسئلے پر تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے کہ شریعت کے اوامر ونواہی اور قرآن وسنت کے بیان کردہ احکام وفرائض کا عقل ومصلحت کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ انھوں نے اس سلسلے میں ایک گروہ کا موقف یہ بیان کیا ہے کہ یہ محض تعبدی امور ہیں کہ آقا نے غلام کو اور مالک نے بندے کو حکم دے دیا ہے او ربس! اس سے زیادہ ان میں غور وخوض کرنا اور ان میں مصلحت ومعقولیت تلاش کرنا کار لاحاصل ہے، جبکہ دوسرے گروہ کا موقف یہ ذکر کیا ہے کہ شریعت کے تمام احکام کا مدار عقل ومصلحت پر ہے اور عقل ومصلحت ہی کے حوالے سے یہ واجب العمل...

کفارہ کا عقیدہ اور عمل کی اہمیت

مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم بائیبل، کتاب مقدس اور انجیل مقدس کے حوالے سے یہ ثابت کر دیں کہ ہر ایک کو عمل کرنا پڑے گا اور تب جا کر کہیں نجات نصیب ہو سکتی ہے۔ جب ہر ایک کے لیے عمل ضروری ٹھہرا تو پھر کفارے کا سوال کہاں سے؟ اور اس نامنصفانہ عقیدہ اور نظریہ کو بھلا سنتا بھی کون ہے؟ استثنا باب ۲۷ آیت ۲۶ میں ہے: ’’لعنت اس پر جو شریعت کی باتوں پر عمل کرنے کے لیے ان پر قائم نہ رہے اور سب لوگ کہیں: آمین۔‘‘ اگر شریعت کی باتوں کو ترک کر کے محض کفارہ ہی کا عقیدہ موجب نجات ہے تو پھر یہ لعنت کیسی اور کیوں؟ انجیل لوقا باب ۶ آیت ۴۶ تا ۴۹ میں ہے: ’’جب تم میرے کہنے...

اسلام کا قانون ازدواج اور جدید ذہن کے شبہات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’الشریعہ‘‘ کے گزشتہ شمارے میں روزنامہ جناح اسلام آبادکے کالم نگار جناب آصف محمود ایڈووکیٹ کے حوالے سے چند سوالات شائع کیے گئے جن کا تعلق دورحاضر کے معروضی حالات، مغربی فکرو فلسفہ کی یلغار اور بین الاقوامی میڈیا کے پھیلائے ہوئے شکوک وشبہات کے ماحول میں اسلام کے مختلف احکام وقوانین کی تفہیم کے بارے میں نوجوانوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والی الجھنوں سے ہے۔ ہم نے اس کے ساتھ گزارش کی تھی کہ ان سوالات پر ایک تبصرہ ’الشریعہ ‘ کے زیر نظر شمارے میں پیش کیاجائے گا، لیکن جب اس کے بعد ان سوالات کا جائزہ لیاگیاتو محسوس ہوا کہ سرسری تبصرہ سے بات نہیں...

مسئلہ رجم اور مولانا اصلاحیؒ کا تفسیری موقف

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی

مولانا مرحوم کی تفسیر ’تدبّر قرآن‘ کا حوالہ الفرقان میں باربار آیاہے۔مولانا کو والد مرحوم سے ایک قدیم تعلق تھا۔ عمر میں بھی دونوں کی بس ایک سال کا فرق تھا۔ تدبر کی پہلی ہی جلد نکلی تو مولانا کی طرف سے ہدیہ ہمارے ہاں آئی اور تہدیہ کے الفاظ تھے: ’’ہدیہ اخلاص بخدمت مولانا محمد منظور نعمانی صاحب زاد لطفہ‘‘۔ پھر مزید جلدیں بھی آتی رہیں۔ راقم سطور کو الفرقان میں جو لکھنا لکھانا ہوتاتھا، جس کا سلسلہ ۱۹۵۳ء سے شروع ہوا، اس میں اکثر قرآنی آیات بھی کسی استدلال واستشہاد میں آتیں اور ضرورت ہوتی کہ آیت جس مفہوم کے ساتھ اپنے ذہن میں آئی ہے اس کی توثیق...

سود کے بارے میں چند گزارشات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سودی نظام وقوانین کے ۳۰ جون ۲۰۰۲ء تک خاتمہ کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان کے تاریخی فیصلے پر نظر ثانی کے سلسلے شریعت اپیلٹ بنچ سپریم کورٹ آف پاکستان میں یوبی ایل کی اپیل کی سماعت کے موقع پر دینی وملی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے ’’پاکستان شریعت کونسل‘‘ کی طرف سے حسب ذیل گزارشات شریعت اپیلٹ بنچ کے معزز ارکان‘ فریقین کے وکلا اور اس موضوع سے دل چسپی رکھنے والے دیگر سرکردہ ارباب علم ودانش کی خدمت میں پیش کی گئیں: * سود تمام آسمانی شریعتوں میں حرام رہا ہے اور بائبل میں بھی اس سلسلے میں واضح ہدایات موجود ہیں چنانچہ بائبل...

نفاذِ شریعت کی ضرورت و اہمیت

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

جب تک برصغیر پر انگریز حکمران رہا اہلِ ایمان اس کے قانون کی پابندی پر مجبور تھے۔ سیاسی، اقتصادی، معاشرتی، تجارتی قوانین سب انگریز کے وضع کردہ تھے۔ البتہ اس نے مسلمانوں کو بعض رعایات دے رکھی تھیں جن کو پرسنل لاء کہا جاتا تھا اور مسلمان اپنے عقیدہ کے مطابق ان کو اختیار کر سکتے تھے۔ مگر آزادی کے بعد تو انگریزی قانون کے نفاذ کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ پاکستان کے قیام کے فورًا بعد تمام قوانین کو اسلامی قوانین میں تبدیل کر لیا جاتا مگر افسوس کہ آج تک ایسا نہیں ہو سکا۔ اس ضمن میں کارپردازانِ حکومت خاص طور پر اور عام مسلمان...

سؤر کے گوشت کے نقصانات

حکیم محمود احمد ظفر

قرآن حکیم نے سؤر کے گوشت کے بارے میں یہ حکم دیا: انما حرم علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر وما اھل بہ لغیر اللہ فمن اضطر غیر باغ ولا عاد فلا اثم علیہ ان اللہ غفور رحیم۔(البقرہ ۱۷۳)۔ بے شک اللہ تعالی نے حرام کر دیا ہے تم پر مردار، خون اور سؤر کا گوشت اور وہ چیز جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔ ہاں جو شخص مجبوری اور اضطرار کی حالت میں ان میں سے کوئی چیز کھالے بغیر اس کے کہ وہ قانون شکنی یا حد سے تجاوز کرنے کا ارادہ رکھتا ہو، تو اس پر کچھ گناہ نہیں۔ بے شک اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا...

شراب ۔ انسان کی بد ترین دشمن

حکیم محمود احمد ظفر

شراب انسان کی بد ترین دشمن ہے۔اسی وجہ سے قرآن حکیم نے اس کو حرام قرار دیا اور لوگوں کو اس سے اجتناب کا حکم فرمایا۔ چنانچہ قرآن حکیم میں ہے: یسئلونک عن الخمر والمیسر قل فیھما اثم کبیر ومنافع للناس واثمھما اکبر من نفعھما۔ (البقرہ ۲۲۰)۔ لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ ان دونوں چیزوں میں بڑا گناہ ہے اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ فائدہ بھی ہے لیکن ان کا گناہ ان کے فائدہ سے بہت زیادہ ہے۔ دنیا میں صحت کے مشہور ماہر پروفیسرہرش(HIRSCH) نے اس موضوع پر لکھی گئی اپنی کتاب میں...

حدودِ شرعیہ کی مخالفت - فکری ارتداد کا دروازہ

مولانا سعید احمد عنایت اللہ

اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود اور بھیانک معاشرتی جرائم، ڈکیتی، بدکاری، شراب نوشی اور قذف وغیرہ پر جو شرعی سزائیں خالقِ بشر نے مقرر فرمائی ہیں وہ پوری کائنات کے لیے سراسر رحمت ہیں۔ انسانی معاشرے میں قیامِ امن اور بشریت کی ہر دو صنف مرد و زن کی عزت و عصمت، ان کے مال و جان کی حفاظت کی ضامن ہیں، بلکہ انسانیت کے مقامِ شرافت و کرامت کی کفیل یہی حدود اللہ ہیں جن کے مبارک ثمرات کا اولین نتیجہ انسانوں کے اس دنیا میں مکمل تحفظ کی صورت میں ملتا ہے۔ ان سراپائے رحمت حدود کو دہشت گردی گرداننا کفرانِ نعمت اور صرف خدا رسول سے ہی بیزاری کا اعلان نہیں بلکہ انسانیت...

سخت سزائیں اور کتب و اُمم سابقہ

محمد اسلم رانا

مغرب زدہ افراد کا ایک طبقہ ہے جو اسلامی حدود کے نفاذ کا خواہاں نہیں ہے۔ اس کا خیال ہے کہ یہ اسلامی سزائیں سخت ہیں، غیر انسانی ہیں اور وحشیانہ ہیں۔ لیکن ظاہر بات ہے کہ یہ خیال و تاثر محض مغرب سے مرعوبیت اور مسحوریت کا نتیجہ ہے ورنہ اسلامی سزائیں جہاں نافذ ہوتی ہیں وہ معاشرہ جرم و گناہ سے تقریباً‌ پاک ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں سخت سزائیں اسلام ہی نے مقرر نہیں کی ہیں بلکہ اسلام سے قبل آسمانی مذاہب میں بھی اسی نوعیت کی سزائیں تھیں اور یہ سزائیں آج تک ان کی مقدس کتابوں میں موجود ہیں جنہیں اہل مغرب (عیسائی اور یہودی) بھی مذہبی اور مقدس مانتے ہیں۔ اس...

شرعی سزاؤں کا فلسفہ

حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

جان لو کہ کچھ گناہ ایسے ہیں جن میں اللہ تعالٰی نے حد (دنیاوی سزا) مقرر فرمائی ہے۔ اس لیے کہ ہر گناہ فساد کے کچھ اسباب پر مشتمل ہوتا ہے جس سے زمین میں خرابی ہوتی ہے اور مسلمانوں کا امن و سکون غارت ہوتا ہے۔ اس گناہ کی خواہش انسانوں کے دلوں میں ہوتی ہے جو برابر بڑھتی رہتی ہے اور دلوں میں خواہش کے جڑ پکڑ جانے کے بعد وہ اس بری عادت سے نکلنے کی استطاعت نہیں رکھتے اور اس میں ایسا ضرر ہے جسے مظلوم اپنے اپ سے دور رکھے کی اکثر اوقات طاقت نہیں پاتا اور یہ صورت بہت زیادہ لوگوں میں وقوع پذیر رہتی ہے۔ پس اس قسم کے گناہوں میں صرف آخرت کے عذاب سے ڈرانا کافی نہیں...

کمیونزم نہیں، اسلام

حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

نام نہاد کمیونزم میں جس قدر مسکین نوازی ہے اس سے کہیں زیادہ امام ولی اللہ رحمہ اللہ تعالٰی کے فلسفے میں ہے اور اس میں مزدور اور کاشت کار کے حقوق کا زیادہ خیال رکھا گیا ہے لیکن اس کی بنیاد خدا کے صحیح اور صاف تصور پر ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک کارکن اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس زندہ تصور کے ساتھ گزارتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ہے، یا کم از کم یہ کہ اللہ تعالٰی اسے دیکھ رہا ہے۔وہ یہ تصور بھی ایک زندہ اور پائیدار شکل میں اپنے سامنے رکھتا ہے کہ اگر اس نے کم تولا یا کسی کے حق کو ناجائز طور پر پاؤں تلے روندا تو دنیا میں بھی سزا پائے گا اور مرنے...
1-21 (21)
Flag Counter