تنقیدی جائزہ یا ہجوگوئی؟ (۱)

محمد رشید

الشریعہ کے خاص شمارہ (جنوری فروی 2011) کے چار سو صفحے پڑھنے کے بعد پروفیسر میاں انعام الرحمن کے مضمون ’’محاضرات معیشت و تجارت کا ایک تنقیدی مطالعہ‘‘ کا اس ذہن سے مطالعہ شروع کیا کہ ہمیں ایک معیاری،شستہ اور باوقارتنقیدی جائزہ پڑھنے کو ملے گا، لیکن اس تنقیدی مطالعے کے پہلے ہی صفحے میں الفاظ کے استعمال پر ہم کھٹکے، تاہم پھر بھی ہم اسے پڑھتے چلے گئے ۔لیکن ہم بمشکل پانچ صفحے ہی پڑھ پائے تھے کہ بوریت نے ہمارا برا حال کردیا چنانچہ اس کے بعد چھٹا صفحہ پڑھنا ہمارے لیے بے حد مشکل ہوگیا۔اس کے بعد ہمارا یہ حشر ہوا کہ ہم ہر روزارادہ کرتے کہ آج اس مضمون کو پڑھتے ہیں ، لیکن الشریعہ اٹھانے کو دل ہی نہ کرتا۔اسی آنکھ مچولی میں آٹھ دس دن گزرگئے۔اتوار والے دن ٹھان کر ہی بیٹھے کہ چاہے مضمون کتنا ہی بور لگے، بہرحال ایک دفعہ پڑھنا ضرور ہے۔اور پھر اپنے اس ارادے کوہم نے رات دیر تک عملی جامہ پہنا ہی دیا۔تاہم اس مضمون کے پہلے چھ صفحے ہمیں جتنے بور لگے اگلے ساٹھ صفحے ہمیں اتنے ہی تکلیف دہ محسوس ہوئے۔ہمیں حیرت ہے کہ مضمون نگار محترم ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمۃ اللہ علیہ پر تضاد فکری کا الزام بڑے دھڑلے سے لگاتے ہیں لیکن اپنے ہی مضمون کے پہلے ہی صفحے پروہ ڈاکٹر صاحب کے علم و فکر کی جس بلندی کا اقرار کرتے ہیں باقی ساٹھ صفحات میں شد و مدسے سے اس کا انکار کرتے پائے گئے ہیں ،جس کا عروج ان کے مضمون کے آخری صفحے پر ہمیں ملتا ہے۔ 

مضمون نگار اپنے نام میں ’’پروفیسر میاں‘‘ کے لاحقے کے ساتھ اور الشریعہ کے لکھاری ہونے کی وجہ سے ہمیں جتنے موٹے محسوس ہورہے تھے،اپنے انداز تحریر اور قلم کے استعمال کی وجہ سے وہ ہمیں اس سے کہیں بڑھ کر چھوٹے محسوس ہوئے۔مضمون نگار کا یہ پہلا مضمون تھا جو ہم نے اپنے ہوش و خرد کو مکمل حاضر رکھتے ہوئے بیک وقت مکمل مطالعہ کر لیا۔ مضمون نگار کے ظرف کا چھوٹا پن ان کے انداز تحریر سے بار بار ٹپک رہا تھا۔اور ہم بار بار افسوس کا اظہار کررہے تھے کہ اے کاش! ایسے ’’چھوٹے‘‘ آدمی سے واسطہ نہ ہی پڑتا تو اچھا تھا۔لیکن ڈاکٹر غازی رحمۃ اللہ علیہ جیسے عظیم استاد کے (غائبانہ ہی سہی)انتہائی حقیر شاگرد ہونے کی حیثیت نے ہمیں پابند کیا کہ ہم ان کے افکارکے تنقیدی جائزہ کا کھلے دل سے جائزہ لیں۔ہم نہایت افسوس سے عرض کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں کہ یہ مضمون ’’تنقیدی و علمی جائزہ ‘‘کم اور’’تحقیری /استہزائی و ادعای‘‘ انداز زیادہ لیے ہوئے تھا۔

ایسا غیر معیاری اور ظرف سے عاری مضمون کسی بھی طرح ایک عظیم شخصیت کی وفات کے موقع پر اس کی یاد میں شائع ہونے والے مضامین میں جگہ پانے کے قابل نہیں۔یا تومدیرالشریعہ نے اس مضمون کو دیکھا ہی نہیں یا پھر الشریعہ کی روایتی اعلیٰ ظرفی نے ایسے گھٹیا مضمون کو غلط موقع پر شائع کرنے کی غلطی کرائی۔ایسا مضمون اگر کسی مباحثے کے دوران شائع کیا جاتا تو بات دوسری ہوتی۔مگرڈاکٹر محمود احمد غازی رحمۃ اللہ علیہ ایسی نہایت اعلیٰ ظرف شخصیت کی یاد میں ایسے ’’کم ظرف‘‘ مضمون کی اشاعت سخت ناانصافی ہے۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ محترم ڈاکٹر غازی صاحب رحمۃ اللہ علیہ پر تنقید نہیں ہوسکتی۔ بلا ریب ہر علمی و فکری کام کرنے والے کے ’’کام‘‘ کا تنقیدی محاکمہ و تجزیہ ہر اہل علم کا حق ہے مگر تنقیدی محاکمہ اور گھٹیا اتہام بازی میں دور دور تک کوئی رشتہ و ناطہ نہیں۔ پہلی چیز ایک زندہ و باضمیر معاشرے کی نہایت بنیادی ضرورت ہے تو دوسری چیز ایک صالح علمی روایت کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔

ہم ذیل میں حضرت انعام کے اس خود ساختہ تنقیدی جائزے کے چند نکات ونتائج کا جائزہ لیتے ہیں۔

۱۔ مضمون نگار محترم غازی صاحبؒ کے محاضرہ کا اقتباس پیش کرتے ہیں جس کا آخری حصہ یوں ہے:

’’من صنع منکم شیئا فلیحسنہ‘‘ کہ تم میں سے اگر کوئی شخص کوئی چیز بنائے، یادرکھیے کہ یہاں صنعت کا لفظ استعمال ہوا ہے جس میں پوری صنعت اور انڈسٹری شامل ہے۔ ’’فلیحسنہ‘‘ تو اس کو بہت خوبصورت اور بہتر انداز سے مکمل کرے ، بہتر انداز سے بنائے۔ یہ صنعت کاروں کے لیے ایک ہدایت ہے کہ تم جو بھی صنعت تیار کرو، جو چیز بھی پیداوار کرنے کے لیے اختیار کرو، اس کو جتنا خوبصورت بناسکتے ہو بناؤ۔‘‘

صاحب محاضراتؒ نے حدیث سے بہت ہی خوبصورت اور عصری زندگی کی راہنمائی کرتے ہوئے ایک بامعنی تشریح کی۔مگر مضمون نگار حضرت انعام اس پر اپنی ’’کم ظرفی‘‘ کا اظہار یوں فرماتے ہیں:

’’اس تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے کہ اب ہم فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم :’’من صنع منکم شیئا فلیحسنہ‘‘ کو دنیا کے سامنے اس دعوے کے ساتھ پیش کریں کہ دیکھو! تم لوگوں نے صنعتی انقلاب کے بعد اور اس صنعت کی خرابیوں کے ظہور کے بعد غیر موزونیت سے آگاہ ہوکر موزونیت کا عمل شروع کیا ہے، لیکن دیکھو! اسلام نے چودہ سو تیس سال سے بھی پہلے عالم انسانیت کے اس سلسلے میں راہنمائی کی ہے۔ غورکیجئے کہ کیا ہمارے اس دعوے میں کوئی وزن ہوگا؟ اس قسم کے دعوے ہم اکثر و بیشتر کرتے رہتے ہیں اور اہل علم ہمیں جاہل قرار دیتے ہوئے خاموشی سے اپنا کام کیے جاتے ہیں۔(خیال رہے یہاں اہل علم مغربیوں کو کہا جارہا ہے)‘‘

نہایت افسوسناک بات ہے کہ حضرت انعام صاحب محاضرات کا ایک خوبصورت اقتباس لے کر پہلے لایعنی تنقیدی تجزیہ پر ایک صفحہ سیاہ کرڈالتے ہیں اور پھر محترم غازی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تفہیم حدیث کے سلسلے میں ایک خوبصورت نکتہ کے خلاف اپنے بغض، استکباراور گھٹیا پن کا اظہار درج بالا اقتباس کے ذریعے کرتے ہیں۔محترم غازی صاحبؒ کا اندازبیان اور نقطہ نظر اورمضمون نگار کا انداز بیان ہردومخالف اقتباسات کو آمنے سامنے رکھ کراس بات کا بخوبی ادراک کیاجاسکتا ہے کہ مضمون نگار نے بڑے ڈرامائی انداز میں محترم غازی صاحب کا مذاق اڑانے کی کوشش کی ہے۔ مضمون نگار کے الفاظ اس بات کی چغلی کھارہے ہیں کہ وہ مغرب کی ’’علمیت ‘‘ کے اندھے عقیدے میں مبتلا ہیں اور مغرب کے علمی مغالطوں اور کمزوریوں پراہل مشرق یا اہل اسلام کی طرف سے پیش کی جانے والی بڑی سے بڑی اور مضبوط سے مضبوط دلیل سے بھی وہ اس لیے چڑتے ہیں کیونکہ اہل مغرب’’اصل اہل علم‘‘مسلمانوں کو جاہل قرار دیتے ہیں۔

۲۔ چند سطور کے بعد صاحب محاضراتؒ کے ایک نقطہ نظر پر لایعنی و سطحی تنقید کرنے کے بعد جہاں اپنے آپ کو بے بس پاتے ہیں تو یہ انداز بیان اختیار کرتے ہیں:

’’البتہ صرفی قرضوں کی تجویز کی حد تک ڈاکٹر غازی سے سو فی صد اتفاق کرنا پڑتا ہے۔‘‘ 

انداز بیان پر غور فرمائیں ’’ڈاکٹرغازی سے‘‘ کے الفاظ سے واضح تاثر مل رہا ہے کہ حضرت انعام بے حد بلند و غیرمعمولی مقام کی حامل شخصیت ہیں اور ڈاکٹر غازی مرحوم ایک معمولی درجے کے کوئی مولوی ہیں جن سے حضرت انعام کو ’’اتفاق کرنا پڑرہا ہے‘‘ ۔محترم آپ کے سرپر کیا کسی نے کوئی ڈنڈا اٹھا رکھا ہے ’اتفاق کرنے کے لیے‘‘جس کی وجہ سے آپ کو مجبوراً ’’اتفاق کرنا پڑرہا ہے۔‘‘ 

اگر انسان کی گفتگو میں ’’باڈی لنگویج‘‘ اور الفاظ کے چناؤ و استعمال کی ترکیب کو خاص اہمیت حاصل ہے تو ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ حضرت انعام کا درج بالا اقتباس محترم غازی صاحبؒ کے کسی فکر کی بلندی کا اعتراف نہیں بلکہ ایک معمولی درجے کے مفکرکے مقابلے میں مضمون نگار کا اپنی وسعت ظرفی کا اعلان لیے ہوئے ہے۔

۳۔ اس کے بعد محترم غازی صاحب ؒ کے اقتباس پیش کرنے کے بعد مضمون نگارلایعنی بحث اور تنقید پر صفحے کے صفحے سیاہ کرتے چلے جاتے ہیں۔بالکل ایسے ہی جیسے ’’گھوڑوں کی اصناف‘‘ پرکتاب لکھنے کا دعویدار پہلے صفحے پر ’’گھوڑا دوڑ رہا ہے‘‘ لکھنے کے بعد ہر صفحے پر ’’دغڑ دغڑ‘‘ لکھتا چلا جاتا ہے، اور سمجھتا ہے کہ وہ کوئی بہت بڑا علمی کام کررہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مضمون نگار کے ’’تنقیدی جائزہ‘ ‘ کا’’علم و تحقیق‘‘ سے دور دور تک کوئی واسطہ نظر نہیں آتااور تنقید کے مستند اصولوں اور معیارات سے بھی گرا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ہمارے نزدیک یہ ’’تنقیدی جائزہ‘‘اس سطح کا ہے ہی نہیں کہ اس کاتجزیہ کرنے پر وقت ضائع کیا جائے۔لیکن چونکہ یہ ایک موقر علمی و تحقیقی ماہنامے میں شائع ہوا ہے لہٰذا اس کا محاکمہ کرنے کے تلخ فریضہ کی ادائیگی پر ہم نے اپنے آپ کو مجبور محسوس کیا ہے۔

۳۔ مضمون نگارمحترم غازی صاحبؒ کا کوئی اقتباس پیش کرتے ہیں اور پھر اٹکل پچو اور جذبات کی لٹھ لے کر چڑھ دوڑتے ہیں۔ صاحب محاضرات کا ایک اقتباس درج کرنے کے بعد الشریعہ کے ص ۴۱۹ پریوں رقمطراز ہیں:

’’غالباً ڈاکٹر غازی مرحوم مستضعفین کو قارونی طبقہ کے خلاف بغاوت پر اکسا کر قرآنی نقطہ اعتدال (جسے وہ خود قیام للناس کہتے ہیں) کے ابلاغ کی ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں ہیں، اسی لیے مستخلفین کو امر واقعی کے انداز میں لے رہے ہیں۔ خیر! یہ کوئی نئی بات نہیں تاریخ بتاتی ہے کہ (شاہ ولی اللہؒ اور کارل مارکس جیسے افراد کے استثنا کے ساتھ) علما اور سکالرز کی اکثریت کا یہی شیوہ رہا ہے۔‘‘

علم و فکر کے توازن کے شاہکار ایک باکردارانسان کی وفات کے موقع پر اسے خراج عقیدت دینے کا یہ نہایت نادر ،بدبودار اورپست انداز پہلی دفعہ حضرت انعام کے مضمون کے ذریعہ ہمارے مشاہدہ میں آیا ہے۔قارئین کرام !درج بالا پیراگراف پر غورفرمائیں اور پھر بتائیں کیا اس کے لفظ لفظ سے ’’نفرت اور حقارت ‘‘ نہیں پھوٹ رہی کہ شاہ ولی اللہ اور کارل مارکس کے سوا علما وسکالرز کی اکثریت بشمول ڈاکٹر غازی قارونی طبقہ کے درپردہ حمایتی اور پشتیبان رہے ہیں۔مضمون نگار کی اس ہجوگوئی کے برعکس محترم غازی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کس فکری حسن اور متوازن نقطہ نظر کے حامل تھے اس کی ہلکی سی جھلک ان کے محاضرات ’’معیشت و تجارت‘‘ کے درج ذیل اقتباسات میں دیکھی جاسکتی ہے۔:

’’قرآن کریم نے ربا کی حرمت کو بہت تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس پر ایک تفصیلی گفتگو میں بات ہوگی۔مال کو جمع کرنے اور سینت سینت کر رکھنے کی برائی بیان کی گئی ہے۔ مال کو خرچ کرنے کی جابجا تلقین کی گئی ہے۔ مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کی مدد کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ بھوکے کو کھانا کھلانا، نادار کی مدد کرنا، کمزوروں کا بوجھ اٹھانے میں مدد دینا۔ یہ وہ اخلاقی رویے ہیں جو قرآن مجید مسلمانوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ یہ اخلاقی رویہ محض اجتماعی یا ثقافتی میدان سے تعلق نہیں رکھتا، بلکہ اس کا تعلق انسانوں کے معاشی رویے سے بھی ہے۔ جب انسانوں کے اخلاق و کردار میں بہتری آئے گی، جب انسان مال و دولت کے بارے میں اخلاقی ہدایات کے پابند ہوں گے تو معاشی رویے میں اصلاح خود بخود پیدا ہوگی۔‘‘(محاضرات معیشت و تجارت ۔ صفحہ 31)
’’عدل اور قسط کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ قرآن مجید کی رو سے یہ ریاست کا فریضہ ہے کہ حقیقی انصاف قائم کرنے میں عامۃ الناس کی مدد کرے اور ریاست اپنے وسائل کی حد تک ، اپنے مقدور کی حد تک عدل و انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے۔۔۔۔۔۔۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ جملہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ حکومت اور مملکتیں کفر کے ساتھ تو قائم رہ سکتی ہیں۔ ظلم کے ساتھ قائم نہیں رہ سکتیں۔اس لیے کہ ظلم اس دنیا میں بھی تباہی کا موجب ہوتا ہے اور آخرت میں بھی تاریکیوں کا اور ظلمتوں کا سبب ہے۔‘‘ (محاضرات معیشت و تجارت ۔ صفحہ 32)

معلوم نہیں یہ مضمون نگار کی بدنیتی ہے یا کہ بدمذاقی کہ جس صفحے کا ایک اقتباس لے کر وہ استاد محترم پر قارونی طبقہ کی مخالفت سے اعراض کا الزام لگا رہے ہیں،مضمون نگار کے اسی اقتباس سے پہلے اور بعد میں محترم غازی صاحب کے مذکورہ بالا اقتباسات سے اندھوں کو بھی اس چیز کا واضح ادراک ہوجاتا ہے کہ غازی صاحب ؒ قارونیت،ظلم اوراستحصال کے نہ صرف مخالف تھے بلکہ وہ قرآن وسنت اور صحابہ کرام کے حوالہ جات سے اس کا بطلان کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔قارونیت کی مخالفت سے اعراض کرنے کا طعنہ دینے والے ذرا محترم غازی صاحبؒ کا درج ذیل اقتباس بھی ملاحظہ فرمائیں:

’’۔۔۔قرآن مجید نے فقر و فاقے کے معاملے سے بہت زیادہ اعتنا کیا ہے۔ قرآن مجید نے ان تمام اسباب کو ختم کرنے کی تعلیم دی ہے، ان تمام راستوں کو بند کرنے کی تلقین کی ہے جن کے نتیجے میں فقر و فاقہ پیدا ہوتا ہے؟ معاشرے میں فقر کیوں پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو سب کے لیے وسائل رزق یکساں پیدا کیے ہیں۔ ہر انسان کو دو ہاتھ دے کر بھیجا ہے، ہر انسان کو سوچنے والی عقل عطا فرمائی ہے۔۔۔۔۔۔۔ہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت تکوینی سے انسانوں کے درمیان بعض پہلوؤں سے تفاوت رکھا ہے۔ لیکن جو بنیادی اسباب ہیں وہ سب کے لیے یکساں طور پر فراہم کیے گئے ہیں۔ ان اسباب کا تقاضا یہ تھا کہ معاشرے میں فقر و فاقہ نہ پیدا ہو۔ معاشرے میں معاشی تفاوت ایک حد سے آگے نہ بڑھے۔
جب یہ تفاوت حد سے بڑھنے لگتا ہے اور غریب اور امیر اور فقیر اور دولت مند میں تفاوت بہت بڑھ جاتا ہے تو اس کے کچھ خارجی اور غیر فطری اسباب ہوتے ہیں۔ یا تو کہیں تقسیم دولت میں عدم مساوات سے کام لیاگیا ہے یا مواقع کی فراہمی غیر یکساں کردی گئی ہے، یا کہیں اور بے انصافی جنم لے رہی ہے یا دولت کا ارتکاز ہورہا ہے یا کچھ لوگ جہالت کا شکار ہیں جس کی وجہ سے وہ کاروبار اور تجارت کے تازہ ترین طریقوں سے ناواقف رہتے ہیں، یا کسی علاقہ میں امراض پھیل گئے ہیں کہ کچھ لوگ ان امراض کی وجہ سے اپنے وسائل کا صحیح استعمال نہیں کرارہے ہیں۔ یا حلال و حرام میں تمیز ختم ہوگئی ہے جس کی وجہ سے آمدنی بھی ناجائز ہے، اخراجات بھی ناجائز ہیں۔
یہ وہ بڑے بڑے اسباب ہیں جن کے نتیجے میں فقر و فاقہ جنم لیتا ہے۔ ان میں سے کوئی ایک یا متعدد اسباب جب پیدا ہوں گے تو معاشرے میں دولت کی تقسیم متاثر ہوگی ، وسائل کی تقسیم میں گڑبڑ پیدا ہوگی۔ غریب غریب تر ہوجائے گا، دولت مند مزید دولت مند ہوجائے گا۔ قرآن مجید نے ان تمام مسائل کا بہت جامع حل تجویز کیا ہے۔ سب سے پہلا حل قرآن کریم نے یہ دیا ہے کہ تقسیم دولت کا ایک نیا نظام عطا فرمایا۔ ۔۔۔
پھر قرآن مجید نے عدل و انصاف کے قیام پر اتنا زور دیا ہے کہ شاید کسی اور آسمانی کتاب نے اتنا زور نہیں دیا۔ جب معاشرے میں عدل و انصاف قائم ہوگا تو بہت سے ایسے اسباب ختم ہوجائیں گے جو دولت کے ارتکاز کا ذریعہ بنتے ہیں، تقسیم دولت میں ناہمواری کو جنم دیتے ہیں۔پھر خود ارتکاز دولت بھی شریعت کی نظر میں ایک بہت بڑی برائی ہے اور اس کا خاتمہ قرآن کریم کی معاشی پالیسی کا ایک اہم نکتہ ہے۔ ’’کی لایکون دولۃ بین الاغنیاء منکم‘‘ یہ سب احکام اس لیے دیے گئے ہیں کہ دولت صرف دولت مندوں میں گردش نہ کرے۔ بلکہ معاشرے کے ہر طبقے میں گردش کرے۔۔‘‘(ایضاً صفحہ35۔36)
’’ان بالواسطہ اقدامات کے ساتھ ساتھ شریعت نے دولت کی وسیع پیمانے پر تقسیم کے لیے کچھ مثبت اور براہ راست ہدایات بھی دی ہیں۔ مثلاً ذخیرہ اندوزی کی ممانعت کی ہے۔ مثلاً غیر ضروری طور پر بڑے بڑے رقبہ جات کی ملکیت اور ان کو غیر آباد چھوڑنے کو ناپسند قرار دیا ہے۔ کسی کی زمین کی تین سال تک بغیر آبادی اور کاش کے ملکیت شریعت کی نظر میں ناپسندیدہ ہے۔ اگر سرکاری زمین کسی شخص کو آباد کرنے کے لیے الاٹ کی گئی ہے اور وہ تین سال تک آباد نہ کرسکے تو وہ زمین اس سے واپس لے لی جائے گی۔ اسی طرح سے سرکاری چراتاہوں کے علاوہ ذاتی چراگاہیں یا گھوڑی پال مربعے قائم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ یعنی بڑے پیمانے پر لوگ رقبوں کو روک لیں اور اپنے جانوروں کے چرنے کے لیے اس کو خالی چھوڑدیں، دوسروں کو استعمال نہ کرنے دیں، اس کی بھی اجازت نہیں ہے۔ صرف سرکاری یا فوجی جانوروں کے چرنے کے لیے جو جہاد میں کام آتے ہوں، حکومت کو اجازت ہے کہ وہ سرکاری چراگاہیں قائم کرے اور وہاں جانوروں کی نسل کشی کا انتظام کرے۔
ان تمام اقدامات کے ساتھ ساتھ قرآن کریم نے جگہ جگہ مال کو جمع کرنے کی برائی اور خرچ کرنے کی اچھائی بیان کی ہے۔ مال کو جمع کرنا برا بتایا ہے، خرچ کرنا اچھا بتایا ہے۔ خرچ کرنا اللہ کے راستے میں ہو تو بلاشبہ، یہ ایک بہت بڑی نیکی ہے۔ لیکن اگر کسی شخص کو اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی توفیق نہ ہو، وہ اپنی ذات پر خرچ کرے، اپنے خاندان پر، اپنے گھروالوں پر خرچ کرے تو مجرد خرچ کرنا بھی مال کو روک کر رکھنے سے بہتر ہے۔
جب مال کو انسان روک کر رکھتا ہے تو وہ نہ اس کے کام کا نہ کسی اور کے کام کا۔ گھر میں سونے چاندی کے انبار رکھے ہوں تو وہ کس کام کے۔ پرانے زمانے میں لوگ گھروں میں گڑھے کھود کر سونے چاندی کی اینٹیں جمع کرلیتے تھے اور بعض صورتوں میں ایسا ہوتا تھا، بارہا ایسا ہوا کہ کسی شخص نے خاموشی سے دولت جمع کی، اپنے گھر میں دفن کردی اور بعد میں مرگیا۔ کسی کو بتایا نہیں،د ولت ضائع ہوگئی۔ بعد میں کبھی کسی کے ہاتھ لگ گئی تو لگ گئی ورنہ ضائع ہوگئی۔
آج کل پاکستان میں بھی یہی ہورہا ہے۔ بعض بڑے بااثر لوگ ناجائز دولت پاکستان سے حاصل کرتے ہیں اور مختلف فرضی ناموں سے مغربی بنکوں میں جمع کرادیتے ہیں۔ وہ ان کے مرنے کے بعد ضائع ہوجاتی ہے۔ ایسے لوگوں کی داستانیں وقتاً فوقتاً اخباروں میں آتی رہتی ہیں کہ فلاں گورنر صاحب نے، فلاں وزیر صاحب نے، فلاں بااثر آدمی نے، فلاں ملک کے بنک میں اکاؤنٹ کھولا ہوا تھا، اس میں اتنی رقم تھی اور فلاں نام سے تھی، ان کے مرنے کے بعد وہ ضائع ہوگئی۔ ظاہر ہے کوئی والی وارث نہیں ہے، کوئی ثبوت نہیں ہے، کوئی عدالت نہیں ہے۔
یہ ناجائز دولت کے وہ نتائج ہیں جن کی وجہ سے شریعت نے ارتکاز دولت کو منع کیا ہے۔ قرآن مجید سے یہی پتا چلتا ہے کہ دولت کے حد سے زیادہ پھیلاؤ اور فراوانی کے بہت منفی نتائج برآمد ہوتے ہیں، جن کی قباحتیں اخلاقی اعتبار سے بہت بری ہیں۔ مترفین کے کرتوت معاشرے کو تباہی کا نشانہ بنادیتے ہیں۔ مترفین سے مراد وہ طبقہ ہے جس کے پاس دولت کی ریل پیل ہو، جو دولت کے انبار اپنے پاس رکھتا ہو، دولت کے بڑے بڑے تالابوں پر قابو اس کو حاصل ہوگیا ہواور وہ ان سے کھیلتا ہو۔ جب کسی طبقے میں مترفین کی کثرت ہوتی ہے تو وہاں کثرت سے ایسے فارغ البال اور دولت سے کھیلنے والے وجود میں آجاتے ہیں جن کی کوئی ذمہ داری نہ ہو، جن کو بے تحاشا دولت بغیر محنت کے مل گئی ہو۔
جب ایسے طبقے کی کثرت ہوتی ہے تو اس سے معاشرے میں بے شمار اخلاقی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ معاشرے کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ معاشرے میں جو نظم اور توازن قائم ہوتا ہے وہ بگڑجاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پورا معاشرہ تباہی کا شکار ہوجاتا ہے۔ قرآن کریم میں بھی یہ بات بیان کی گئی ہے کہ جب اللہ کے حکم تکوینی کی رو سے کوئی بستی تباہ ہوتی ہے تو اس کی فوری وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ اس بستی یا آبادی میں مترفین کی کثرت ہوجاتی ہے۔مترفین اتنی کثرت سے ہوتے ہیں کہ ان کا فسق و فجور اور ان کے کرتوت اور گناہ پوری بستی کو لے ڈوبتے ہیں۔‘‘(ایضاً صفحہ 45۔46)
’’توازن کی جنتی صورتیں معیشت اور مادیات سے متعلق ہیں، ان کو قائم کرنا اور عدم توازن کو جنم لینے سے روکنا یہ معاشرے کی ذمہ داری بھی ہے اور ریاست کی ذمہ داری بھی ہے۔ یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب معاشرے سے استحصال کی تمام قوتوں کا خاتمہ کردیا جائے۔ استحصال سے مراد یہ ہے کہ کچھ لوگ اپنی قوت، دولت، وسائل، اختیارات اور اثر رسوخ سے ناجائز کام لے کر وہ فوائد حاصل کرنا چاہیں جو اخلاقی یا قانونی طور پر ان کو حاصل نہیں کرنے چاہئیں اور دوسرے لوگوں کو ان ضروریات سے محروم کردیں جو ان کی جائز اور بنیادی ضروریات ہیں۔ یہ رویہ استحصال کہلاتا ہے۔‘‘(ایضاً صفحہ102)

قارونیت اور ظلم و استحصال کے خلاف اتنے خوبصورت، سلیس ،متوازن اور پراثر پیرایے میں ابھارنا اور اکسانا یقیناًمحترم ڈاکٹر محمود غازیؒ ہی کی خوبی ہے ، شاید یہی خوبی معترض وہجوگو مضمون نگار کو بری لگتی ہے کہ ڈاکٹر غازیؒ اس موضوع پر لکھتے اور بولتے ہوئے ’’کارل مارکس‘‘ کے الفاظ و اصطلاحات اور اس کے فکر سے مدد کیوں حاصل نہیں کرتے۔

۴۔ محترم غازی صاحبؒ نے تجارت کی فضیلت و اہمیت کے بیان میں ایک حدیث بیان کی۔حضرت انعام کوشاید حدیث سنانے پر بے حدغصہ آیا کہ اتنا بڑا سکالربنا پھرتا ہے اور عقل سے کام لینے کی بجائے موطا کی حدیث سنانے بیٹھ گیا ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے محترم غازی صاحبؒ کو ان الفاظ میں اپنے نشانے پر لے آتے ہیں: ’’اس اقتباس کا یہ بیان کہ ’’جس طرح چاہے جتنا چاہے اور جتنا نہ چاہے‘‘ اتنا سادہ نہیں ہے جتنا ڈاکٹر مرحوم نے بنا دیا ہے۔‘‘(الشریعہ صفحہ420)

مضمون نگار کا یہ انداز بیان بزبان حال کہہ رہا ہے کہ ڈاکٹر مرحوم ایک سطحی انسان تھے یا پھر سطحیت بیں ہونے کی بناوٹ کیا کرتے تھے۔ کیا ایسے پست انداز فکر کا کوئی علمی جواب دیا جاسکتا ہے؟ہم قارئین سے صرف اتناا عرض کریں گے کہ وہ ’’محاضرات معیشت و تجارت‘‘ کا صفحہ نمبر82اور 83مکمل پڑھ کر بتائیں کہ محترم غازی صاحبؒ اپنے اقتباس میں جو بات کہنا چاہتے ہیں کیا اس پر وہ اعتراض پیدا ہوتا ہے جو ہجوگو مضمون نگار پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

۵۔ غازی صاحبؒ مضاربہ کے ضمن میں مغربی دنیا کے بعض تجربات سے استفادہ پر بات کرتے ہیں تو مضمون نگار بھڑک اٹھتے ہیں اور صاحب محاضرات کا اقتباس درج کرنے کے بعد ہمیشہ کے لیے جدا ہونے والے اس عظیم انسان پر یوں نشترزنی کرتے ہیں:

’’مغربی نظام کی افادیت و کامیابی کو ڈاکٹر غازی مرحوم صحیح تناظر میں نہیں دیکھ پارہے‘‘
’’جو بات مغربیوں سے سیکھنے کی ہے ڈاکٹر غازیؒ سمیت ہم میں سے اکثر لوگ اس کے لیے ذہنی طور پر آمادہ نہیں ہیں۔‘‘
’’اس لیے ہمیں معاشی ترقی میں مطلوب اخلاقیات (business ethics)کو رواج دینے کی زیادہ ضرورت ہے نہ کہ مغربی طرز کے ظاہری قواعد و ضوابط کی اندھا دھند پیروی کی۔‘‘

مضمون نگار کھینچ تان کر اعتراض کررہے ہیں کہ محترم غازی صاحبؒ کومغربی نظام کا نہ ہی صحیح ادراک ہے اور نہ ہی وہ اس سے کچھ سیکھنا چاہتے ہیں۔ اور پھر وعظ فرماتے ہیں کہ ’’ ہمیں معاشی ترقی میں مطلوب اخلاقیات کو رواج دینے کی زیادہ ضرورت ہے نہ کہ مغربی طرز کے ظاہری قواعد و ضوابط کی اندھا دھند پیروی کی۔‘‘ مضمون نگار سے سوال کیا جاسکتا ہے کہ جناب غازی صاحبؒ نے کب اور کہاں مغربی طرزکی اندھا دھند پیروی کی دعوت دی ہے؟ اور پھر ’’معاشی ترقی میں مطلوب اخلاقیات کو رواج دینے‘‘ کی جو بات حضرت واعظ انعام صاحب فرمارہے ہیں کیا محترم غازی صاحب نے اپنے محاضرات میں اس اغماض برتا ہے۔ ہمیں نہایت افسوس سے عرض کرنا پڑتا ہے کہ مضمون نگار نے اپنے مضمون سے شدید ناانصافی اور خیانت کا ارتکاب کیا ہے، کیونکہ محترم غازی صاحب رحمۃ اللہ نے تو اپنے محاضرات معیشت و تجارت کا آغاز ہی ’’معاشی ترقی میں مطلوب اخلاقیات‘‘ سے کیا ہے اور پھر ان اخلاقی قدروں کو محض معاشی ترقی تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ معاشرے کے تمام شعبوں کی استحکام و ترقی کے لیے انہیں ضروری قرار دیا ہے۔ ملاحظہ ہو محاضرات شریعت سے درج ذیل اقتباسات:

’’دوسری اہم بات قرآن مجید کے طالب علم کو یہ ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ قرآن مجید اجتماعی، اقتصادی اور مادی معاملات کے خلاقی اور روحانی پہلوؤں سے زیادہ اعتنا کرتا ہے۔ معاملات کے خالص انتظامی اور دنیاوی پہلوؤں کے مقابلہ میں قرآن پاک کی زیادہ دلچسپی ان امور کے اخلاقی اور روحانی پہلوؤں سے ہے۔ یقیناًمعاملات کے دنیاوی اور مادی پہلو قرآن کریم نے نظر انداز نہیں کیے۔ لیکن ان سے قرآن کریم کی دلچسپی جزوی ہے۔ قرآن کریم کی اصل دلچسپی معاملات کے اخلاقی او رروحانی پہلوؤں سے ہے۔ ‘‘(صفحہ15)
’’قرآن مجید اور سنت کی توجہ کا مرکز وہ معاشی معاملات ہیں جن میں normativeپہلو بہت نمایاں ہیں۔ دولت کو کیسے حاصل کیاجائے، کہاں خرچ کیاجائے، کیسے خرچ کیاجائے، کون کون سے معاملات جائز ہیں، کون کون سے معاملات ناجائز ہیں۔ کاروبار وتجارت کے بنیادی اخلاقی اصول کیا ہونے چاہئیں۔ انسانوں کا آپس کا لین دین، تجارت اور مالی تعاون کس نہج پر استوار ہونا چاہیے۔ یہ وہ معاملات ہیں جن کے بارے میں قرآن مجید نے بنیادی ہدایات دی ہیں۔‘‘(صفحہ16)
’’انسان کے رویے کی تشکیل، انسان کی ذہن سازی، کردارسازی اور اخلاق کی تعمیر، یہ اہداف قرآن مجید کا سب سے بڑا مقصود ہیں۔ ایک مرتبہ یہ کردار سازی ہوجائے، ایک مرتبہ مناسب رویے کی تشکیل ہوجائے تو پھر یہ رویہ معاشیات میں بھی جھلکتا ہے، سیاسیات میں بھی جھلکتا ہے اور زندگی کے دوسرے تمام پہلوؤں میں بھی نظر آتا ہے۔ اسی لیے جہاں جہاں قرآن مجید اس طرح کے مضامین کو بیان کرتا ہے، وہاں جگہ جگہ کہیں کوئی معاشی انداز کی ہدایت ہے، کہیں کوئی ثقافتی رہنمائی ہےء کہیں کوئی اجتماعی اور معاشرتی زندگی کی ہدایات ہیں۔ کہیں انسانوں کے درمیان آپس کے میل جول اور تعاون کا تذکرہ ہے۔ اس طرح سے قرآن کریم کی تلاوت کرنے والا جب بار بار اس کی تلاوت کرتا ہے تو جہاں اور بہت سے حقائق اس کے ذہن نشین ہوجاتے ہیں وہاں اسلام کی معاشی تعلیم کی اساس اور بنیاد بھی اس کے ذہن میں پوری طرح سے راسخ اور مرتسم ہوجاتی ہے۔‘‘(صفحہ17)

۶۔ مضمون نگار کو محترم غازی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اس اعلیٰ اور محفوظ فکر پر بھی شدید اعتراض ہے کہ وہ قرآن و سنت کی نصوص اورقرآن و سنت سے اخذ کردہ فقہائے اسلام کے متفق علیہ قواعدکی پیروی کی بات کیوں کرتے ہیں۔صاحب محاضرات کی اس فکری سلامتی پر وہ منکرین سنت کی طرح اس قدر سیخ پا ہوتے ہیں کہ کئی صفحے اس کی تغلیط پرسیاہ کردیتے ہیں۔صفحہ 435سے 440تک وہ اپنا علامہ پن اسی تسلسل میں بگھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔

(جاری)

آراء و افکار

(جولائی ۲۰۱۱ء)

جولائی ۲۰۱۱ء

جلد ۲۲ ۔ شمارہ ۷

تلاش

Flag Counter