ریمنڈ ڈیوس کیس کے تناظر میں اسلامی فوجداری قانون کا ایک مطالعہ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

اس وقت ہر طرف شور و غل برپا ہے کہ پاکستان کی ایک عدالت نے پاکستانیوں کے ایک امریکی قاتل کو باعزت بری کر دیا ہے۔ یہ بات سو فی صد غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایک عدالت کے ایک ’قاضی‘ نے پاکستانی مسلمانوں کے ایک غیر مسلم امریکی قاتل کو ’دیت‘ لے کر چھوڑ دیا ہے۔ وطن عزیز کے اسلام پسندوں کو خوشی کے شادیانے بجانے چاہییں کہ امریکہ بہادر کم از کم ایک اسلامی قانون کی ’حکمتوں‘ کا قائل ہو گیا ہے اور یہی امر سیکولر لبرل حلقوں کے لیے باعث تشویش ہونا چاہیے کہ اسلامی قوانین کی حکمتیں اگر اسی انداز میں جلوہ افروز ہوتی رہیں تو وہ دن دور نہیں جب ان قوانین کو سامراجی ہتھکنڈے کے طور پر نافذ کرنے کے لیے عالمی استعماری طاقتوں کی مہربانیوں اور فنڈز کا رخ مکمل طور پر اسلام پسندوں کی طرف ہو جائے گا اور سیکولر لبرل این جی اوز حیرت و حسرت سے منہ تکتی رہ جائیں گی۔

قارئین کرام! ریمنڈ ڈیوس کیس میں قصاص و دیت کے جس جاں فزا اسلامی قانون کو ’برتا‘ گیا ہے، اس قانون کے مندرجات میں الجھے بغیر ہم کوشش ہو گی کہ قصاص و دیت کے قرآنی مفاہیم کے تناظر میں اس کیس کو سمجھنے کی سعی کریں۔ ہماری یہ کاوش سیکولر لبرل حلقوں کے لیے تو ناقابلِ قبول ہی ہوگی، لیکن توقع ہے کہ حدود اللہ اور حدود قوانین میں فرق نہ کرنے والے اسلام پسندوں کو بھی اس پر جذباتی اچھل کود کے اچھے خاصے مواقع میسر آئیں گے۔

قرآنی تناظر میں دیت اور ریاستی اختیار

اس وقت ریاستی موقف کے مطابق، ریمنڈ ڈیوس کیس میں ورثا نے دیت لے کر امریکی قاتل کو معاف کر دیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قتل کے کسی بھی کیس میں دیت کی صورت میں معاملہ طے کرانے میں کیا ریاست دخل اندازی کر سکتی ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ ریاستی مداخلت کس نوعیت کی اور کس حد تک ہو سکتی ہے؟ رائج الوقت حدود قوانین سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اگر ہم نصوصِ قرآنی کی طرف براہ راست رجوع کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ: 

(۱)اصلاً ریاستی اختیار کی نوعیت، بنیادی طور پر دیت کی ’ادائیگی‘ کو یقینی بنانے تک محدود ہے اور یہ اختیار بھی تب عمل میں آتا ہے جب فریقین (قاتل اور مقتول کے ورثا معاشرتی مداخلت کے بعد) قصاص کے بجائے دیت پر باہم رضامند ہو جائیں۔

(۲) جہاں تک دیت کا معاملہ طے کرانے کا تعلق ہے، اس میں ریاست کی براہ راست مداخلت کسی نص شرعی سے ثابت نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں ریاست کی زیادہ سے زیادہ مداخلت، صرف پس منظر میں رہتے ہوئے (بالواسطہ طور پر ایسی عمومی) سماجی فضا انگیخت کرنے تک محدود ہے جس کی موجودگی، قتل کے اکثر کیسوں میں مقتول کے ورثا کو قصاص کے بجائے دیت لینے پر بغیر جبر و اکراہ کے آمادہ کرسکتی ہے۔ اس نکتے کے مطابق اگرچہ معاملہ طے کرانے میں ریاستی مداخلت کی گنجائش نکل آتی ہے لیکن اس گنجائش پر بھی دو قدغنیں عائد ہوتی ہیں: 

(۱) ریاست دیت کا معاملہ طے کرانے میں براہ راست دخیل نہیں ہو سکتی، بلکہ بالواسطہ انداز میں ہی معاشرے کی (خوابیدہ)عمومی اخلاقی حِس کو بیدار کرنے کی کوشش کر سکتی ہے تاکہ اس اخلاقی قوت کے بل بوتے پر سوسائٹی میں قصاص کے بجائے عفو و احسان (فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ شَیْْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء إِلَیْْہِ بِإِحْسَان) جیسی اقدار پھل پھول سکیں۔ اس سلسلے میں براہ راست مداخلت کا اصلاً اور بالفعل اختیار صرف اور صرف معاشرے (بشمول قاتل و مقتول کے ورثا)کا ہی ہے۔ 

(۲) پھر یہ بالواسطہ ریاستی مداخلت بھی کسی ’مخصوص کیس‘ کے لیے بطورِ خاص کسی خاص وقت پر نہیں کی جا سکتی کہ اس عمل سے معاشرے کو ’ہائی جیک‘ کرنے کا تاثر پھیلے گا نہ کہ دیت کی عمومی ترویج کے لیے ریاستی فرائض کی ادائیگی کا بھر پور احساس تاثر پکڑے گا۔ 

مذکورہ نکات نصوصِ قرآنی سے مستنبط ہیں۔ یہ ہماری ذہنی اختراع نہیں ہیں۔ اگرچہ روایتی فقہی مباحث میں دیت کے ضمن میں ریاستی اور معاشرتی حدود کی تفریق اس طرح غالباً نہیں کی گئی، لیکن یہ امر تقریباً طے شدہ ہے کہ قصاص و دیت اور معافی کے احکام کی بنیادی آیت سورۃ البقرۃ۲ کی آیت۱۷۸ جیسا سخت استوار حکم ہے۔

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الْقِصَاصُ فِیْ الْقَتْلَی الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأُنثَی بِالأُنثَی فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ شَیْْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء إِلَیْْہِ بِإِحْسَانٍ ذَلِک تَخْفِیْفٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ فَمَنِ اعْتَدَی بَعْدَ ذَلِکَ فَلَہُ عَذَابٌ أَلِیْمٌ

اس میں (الْقِصَاصُ فِیْ الْقَتْلَی الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأُنثَی بِالأُنثَی) جیسا سخت استوار حکم، جس کا مخاطب (یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ)مومنین کا مقتدر نظمِ اجتماعی( معروف معنوں میں ریاست) ہے، کے بعد (فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ شَیْْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء إِلَیْْہِ بِإِحْسَان) جیسے نرمی و لچک پر مبنی بیان، جس کا باقاعدہ اظہار (ذَلِک تَخْفِیْفٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ)کے الفاظ میں کیا گیا ہے، اپنے اندر ایک دعوتِ فکر رکھتا ہے اور کئی سوالات کو جنم دیتا ہے مثلاً: 

(۱) شارع کا منشا اگرسختی (قصاص) ہی ہے تو پھر نرمی (دیت و معافی)کی گنجائش کیوں رکھی گئی ہے؟

(۲) اگر دیت و معافی ہی شارع کا منشا و مقصود ہے تو پھر قصاص کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟

(۳) قصاص کے حکم میں (کُتِب) کا لفظ لزومیت لیے ہوئے مومنین کے مقتدر نظمِ اجتماعی(ریاست) کو خطاب کرتا نظر آتا ہے، ایسا کیوں ہے؟

(۴) عفو و احسان کے مخاطبین افرادِ معاشرہ ہیں نہ کہ مومنین کا مقتدر نظمِ اجتماعی، ایسا کیوں ہے؟

(۵) نکات ۳ اور ۴ کے مطابق مخاطبین بالترتیب ریاست اور معاشرہ ہیں، مخاطبین کا یہ فرق کیا حکمت لیے ہوئے ہے؟

(۶) آیت ۱۷۸ میں دیت و معافی کو مقصود کی سطح پر رکھتے ہوئے اس سے متصل آیت ۱۷۹ میں (فِیْ الْقِصَاصِ حَیَاۃٌ) ’قصاص میں حیات ہے جیسے اٹھتے ہوئے اسلوب میں دوبارہ قصاص کا ذکر کیوں کیا گیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔

ہم نے اپنے مضمون ’’قرآن مجید میں قصاص کے احکام‘‘ میں اس قسم کے سوالات سے تعرض کیا ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ یہ سوالات داخلی شواہد پر مبنی جوابات لیے ہوئے اس آیت مبارکہ سے خود بخود ہمارے سامنے آئے ہیں۔ (تفصیل کے لیے ماہنامہ الشریعہ ستمبر ۲۰۰۸ دیکھیے۔) اس مضمون کے ملخص کے مطابق دیت کا معاملہ طے کرنے اور طے کرانے میں قاتل و مقتول کے ورثا اور سماج کا کردار کلیدی ہے۔ ریاست کی ذمہ داری قصاص کے اصول کو قائم رکھنے کی ہے تاکہ مقصود کی سطح پر دیت و معافی کے ضمن میں دھونس زبردستی نہ ہوسکے۔ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے سے (اس کیس کے صحیح یا درست ہونے سے قطع نظر )ایک اصولی سوال پیدا ہوتا ہے جس پر ہم نے مذکورہ مضمون میں بات نہیں کی تھی کہ اگر قاتل کوئی غیر ملکی ہو تو دیت طے کرنے کرانے میں اس کی اور اس کے متعلقین کی رسائی مسلم سوسائٹی تک کیسے ہو گی؟کیونکہ اس سلسلے میں ریاست اصولاً (نص کے مطابق) براہ راست مداخلت کی مجاز نہیں ہے۔ اندریں صورت یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی غیر ملکی قاتل اور اس کے متعلقین کو مسلم ریاست سے بالا بالا مقتول کے ورثا اور سول سوسائٹی سے روابط قائم کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟اور پھر وہ غیر ملکی ہو بھی غیر مسلم ، اور کسی ایسی قوم کا فرد ہو جو مسلم ریاست کے لیے کئی حوالوں سے کافی اہمیت رکھتی ہو۔ اس قسم کے سوالات فقہا کی توجہ کے مستحق ہیں۔ ہماری ناقص رائے میں مسلم ریاست کسی غیر ملکی قاتل کو (شاید) دیت کی آپشن دینے کی ہی پابند نہیں ہے، دیت کا معاملہ طے کرنا کرانا تو اگلی بات ہے۔ اس سلسلے میں ریاست اپنی بنیادی ذمہ داری یعنی قصاص کے نفاذ کو ہی یقینی بنائے گی کیونکہ اس کی عمل داری (jurisdiction) میں اس سے رجوع کرنے کے بجائے کسی غیر ملکی نے اپنے طور پر معاملہ نمٹاتے ہوئے اسے کھلے عام دعوتِ مبارزت دی ہے۔ لیکن اس موقف کے لیے براہ راست استدلال سورۃ البقرۃ۲ آیت۱۷۸ سے(شاید) نہیں کیا جا سکتا (کیونکہ یہ بنیادی طور پر معافی کی آیت ہے)اس لیے اس سلسلے میں دیگر قرآنی آیات کا مطالعہ ناگزیر اور مفید ہوگا۔

قصاص اور جزاکے قرآنی مفاہیم

ہماری رائے میں امریکی قاتل ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں سورۃ البقرۃ۲ آیت ۱۷۸ جیسے قرآنی حکم کا اطلاق نہیں ہوتا (کیونکہ اس آیت کے مفاہیم میں قاتل کے قتل کرنے کے پیچھے موجود کسی نہ کسی ’جواز‘ کا لحاظ رکھا گیا ہے)۔ اگر نرمی کو بہت ہی غالب رکھا جائے تو ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ سورۃ بنی اسرائیل۱۷ آیت۳۳ (وَلا تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّہُ إِلاَّ بِالحَقِّ وَمَن قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَاناً فَلاَ یُسْرِف فِّیْ الْقَتْلِ إِنَّہُ کَانَ مَنْصُوراً) جیسے قرآنی حکم کے مطابق نمٹانا جانا چاہیے تھا جس کے مطابق مظلوم مقتول کے ولی کو ’سلطان‘ قرار دیتے ہوئے معاشرتی و ریاستی طاقت اس کی پشت پر کھڑی کر دی گئی ہے تاکہ وہ(ولی) قصاص لازماًلے سکے لیکن اسراف کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ (تفصیلی بحث کے لیے ماہنامہ الشریعہ اکتوبر۲۰۰۸ میں ہمارا مضمون ’قرآن مجید میں قصاص کے احکام قسط ۲‘ ملاحظہ کیجیے)۔

لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ امریکی قاتل ریمنڈ ڈیوس قصاص کا نہیں بلکہ جزا کا مستحق تھا۔ سورۃ النساء۴ آیت۹۳ (وَمَن یَقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً فَجَزَآؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِداً فِیْہَا وَغَضِبَ اللّہُ عَلَیْْہِ وَلَعَنَہُ وَأَعَدَّ لَہُ عَذَاباً عَظِیْماً) سے معلوم ہوتا ہے کہ (فَجَزَآؤُہُ) یک طرفہ کارروائی ہے۔ اس میں نہ تو قاتل کے لیے کسی قسم کی گنجائش (قانونی، اخلاقی، سماجی وغیرہ) نظر آتی ہے اور نہ ہی کسی بھی درجے میں مقتول مومن کے ورثا کو قابلِ توجہ سمجھا گیا ہے۔ ایک لحاظ سے یہ ’طے‘ کر دیا گیا ہے کہ مومن کو عمداً قتل کرنے والے قاتل کے لیے ایک ہی فیصلہ ہے اور وہ ہے (جَہَنَّمُ خَالِداً فِیْہَا وَغَضِبَ اللّہُ عَلَیْْہِ وَلَعَنَہُ وَأَعَدَّ لَہُ عَذَاباً عَظِیْماً)۔ لیکن اس قرآنی حکم کے سرسری جائزے سے یہ مغالطہ لاحق ہوتا ہے کہ (فَجَزَآؤُہُ) اور اس کے بعد (جَہَنَّمُ خَالِداً فِیْہَا وَغَضِبَ اللّہُ عَلَیْْہِ وَلَعَنَہُ وَأَعَدَّ لَہُ عَذَاباً عَظِیْماً)کا بیان صرف اور صرف اخروی سزا کے لیے آیا ہے، دنیاوی سزا سے اس کا سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حقیقت میں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اس آیت میں ’قصاص‘ کے لفظ کی عدم موجودگی دنیاوی سزا کے تعطل پر دلالت نہیں کرتی بلکہ قصاص کے متبادل کے طور پر لایا گیا لفظ ’جزا‘ قصاص سے بہت بڑھ کر سزا کی ایسی نوعیت کی غمازی کرتا ہے جس میں کیفیت میں عدم تطابق کے تدارک کے لیے اور وزن و کمیت میں برابری کی خاطر، سزا میں ظاہری طور پر مختلف صورت کا اپنایا جانابھی شامل ہے۔ قرآن مجید میں ’جزا‘ کے اطلاقات ہمارے موقف کی تنقیح کرتے ہیں مثلاً: 

وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُواْ أَیْْدِیَہُمَا جَزَاء بِمَا کَسَبَا نَکَالاً مِّنَ اللّہِ وَاللّہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (المائدۃ۵ :۳۸)
’’ اور جو مرد یا عورت چور ہو تو ان کا ہاتھ کاٹو ، ان کے کیے کی جزا اللہ کی طرف سے عبرت ، اور اللہ غالب حکمت والا ہے‘‘

اگر جزا کا مطلب(قصاص کے مانند) ویسا ہی بدلہ ہے توچور کی سزا چور کے ہاں چوری کی صورت میں ہونی چاہیے تھی، لیکن چونکہ ایسی ظاہری مطابقت ممکن نہیں تھی ، اس لیے عدم مطابقت کے تدارک کے لیے قطع ید کی جزا مقرر کی گئی۔پھر عام طور پر چور کا کٹا ہوا ہاتھ ، سماجی کلنک کی علامت بھی بن جاتا ہے جسے اللہ رب العزت نے (نَکَالاً مِّنَ اللّہِ) کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا قطع ید اور (نَکَالاً مِّنَ اللّہِ) جرم کے عین مطابق سزا کے بجائے زیادہ سزا پر دلالت کرتے ہیں؟اس سلسلے میں ’جزا‘ کے دیگر قرآنی اطلاقات ، قطعیت کے ساتھ راہنمائی کرتے ہیں کہ سزا کی ایسی نوعیت سزا میں کسی قسم کا اضافہ نہیں ہے ، لہذا اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے ’ ظلم‘ کی علامت بھی نہیں ہے بلکہ حقیقت میں کسی منفی فعل یا جرم کا عین بدل ہے ، مثلاً:

مَن جَاء بِالْحَسَنَۃِ فَلَہُ عَشْرُ أَمْثَالِہَا وَمَن جَاء بِالسَّیِّئَۃِ فَلاَ یُجْزَی إِلاَّ مِثْلَہَا وَہُمْ لاَ یُظْلَمُونَ (الانعام۶ :۱۶۰)
’’جو ایک نیکی لائے تو اس کے لیے اس جیسی دس ہیں اور جو برائی لائے تو اسے جزا نہ ملے گی مگر اس کے برابر ، اور ان پر ظلم نہ ہو گا‘‘
مَن جَاء بِالْحَسَنَۃِ فَلَہُ خَیْْرٌ مِّنْہَا وَمَن جَاء بِالسَّیِّئَۃِ فَلَا یُجْزَی الَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّئَاتِ إِلَّا مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ (القصص۲۸ :۸۴)
’’ جو نیک کام کرے اسے اس سے بہتر صلہ ملے گا اور جو برا کام کرے تو انہیں جو برا کام انجام دیتے ہیں ، جزا نہیں ملے گی سوا اس کے جو وہ کرتے تھے‘‘
الْیَوْمَ تُجْزَی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ لَا ظُلْمَ الْیَوْمَ إِنَّ اللَّہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ (غافر ۴۰:۱۷)
’’ آج ہر جان اپنے کیے کی جزا پائے گی آج کسی پر ظلم نہیں ، بے شک اللہ جلد حساب لینے والا ہے‘‘
مَنْ عَمِلَ سَیِّئَۃً فَلَا یُجْزَی إِلَّا مِثْلَہَا وَمَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِّن ذَکَرٍ أَوْ أُنثَی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَأُوْلَئِکَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ یُرْزَقُونَ فِیْہَا بِغَیْْرِ حِسَابٍ (غافر ۴۰ :۴۰)
’’ جو برا کام کرے اسے جزا نہیں دی جائے گی مگر اتنی ہی ، اور جو اچھا کام کرے مرد ہو یا عورت اور وہ ہو مومن ، پس وہ جنت میں داخل کیے جائیں گے وہاں بے حساب رزق پائیں گے‘‘
وَخَلَقَ اللَّہُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ وَلِتُجْزَی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ وَہُمْ لَا یُظْلَمُونَ (الجاثےۃ ۴۵ :۲۲) 
’’ اور اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ بنایا اور اس لیے کہ ہر جان اپنے کیے کی جزا پائے اور ان پر ظلم نہ ہو گا ‘‘ 

چور کو قطع ید کی جزا اور اللہ کی طرف سے عبرت ، اگرچہ ظاہری طور پر زیادہ سزا معلوم ہوتے ہیں ، لیکن اگر قرآن مجید میں کسی کا مال حرام طریقے سے کھانے وغیرہ ، اور کسی سماج میں مال کی اہمیت وغیرہ ، کو مدِ نظر رکھا جائے تو قطع ید کی جزا، وزن و کمیت کے لحاظ سے جزا کی معنوی سطح پر پوری اترتی ہے اور جرم کا عین بدل معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے زیرِ نظر النساء۴ آیت ۹۳ کے مطابق بھی مقتول مومن کے قاتل کو قتل کرنا ہی جزا نہیں کہ ایسی جزا میں مقتول کے ’ایمان‘کا دھیان نہیں رکھا جاتا، اس لیے جرم کی نوعیت کے لحاظ سے ، جزا کی معنوی سطح کا اطلاق(بہ اعتبار وزن و کمیت ) اسی صورت ممکن ہے جب قاتل کے قتل سے بھی بڑھ کر سزا تجویز کی جائے ۔ شاید اسی لیے شارع نے اس آیت میں قصاص کے بجائے جزا کا لفظ استعمال کیا ہے۔ المائدۃ آیت ۳۸ میں سے (نَکَالاً مِّنَ اللّہِ) اور النساء آیت ۹۳ میں سے (وَغَضِبَ اللّہُ عَلَیہِ) کا تنقیدی تقابلی مطالعہ شارع کے منشا کی مزید صراحت کرتاہے جس کے مطابق قرآنی مغضوبین کی ’ ذلت و محتاجی کی حالت‘ (نَکَالاً مِّنَ اللّٰہِ) سے بہت بڑھی ہوئی ہے۔ لہٰذا، زیرِ نظر النساء آیت ۹۳ میں ’جزا‘ کے مذکورہ مفہوم کو ذہن میں رکھتے ہوئے ، قرآنی مغضوبین کی ذلت و رسوائی پر بھی توجہ کی جائے ، تو استدلال کیا جا سکتا ہے کہ المائدۃ آیت ۳۸ کے مانند ، مومن کے قتل کی جزا کا وزن و کمیت کے لحاظ سے اطلاق ، قاتل کی ذلت و رسوائی کے بغیر ممکن نہیں ۔اہم بات یہ ہے کہ النساء آیت ۹۳ کے علاوہ ، قرآن مجید میں جن دو مقامات پر مغضوب و ملعون کااکٹھے ذکر کیا گیا ہے وہاں بھی دنیاوی ذلت و رسوائی کا واضح اہتمام موجود ہے :

قُلْ ہَلْ أُنَبِّئُکُم بِشَرٍّ مِّن ذَلِکَ مَثُوبَۃً عِندَ اللّہِ مَن لَّعَنَہُ اللّہُ وَغَضِبَ عَلَیْْہِ وَجَعَلَ مِنْہُمُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَنَازِیْرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ أُوْلَئِکَ شَرٌّ مَّکَاناً وَأَضَلُّ عَن سَوَاء السَّبِیْلِ (المائدۃ ۵ :۶۰)
’’ تم فرماؤ کیا میں بتا دوں جو اللہ کے یہاں اس سے بدتر درجہ میں ہیں وہ جن پر اللہ نے لعنت کی اور غضب فرمایا اور ان میں سے کر دیے بندر اور سور اور طاغوت کے پجاری ، یہ لوگ جگہ کے لحاظ سے بدتر اور سیدھے راستے سے زیادہ ہٹے ہوئے ہیں ‘‘
وَیُعَذِّبَ الْمُنَافِقِیْنَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِکِیْنَ وَالْمُشْرِکَاتِ الظَّانِّیْنَ بِاللَّہِ ظَنَّ السَّوْءِ عَلَیْْہِمْ دَائِرَۃُ السَّوْءِ وَغَضِبَ اللَّہُ عَلَیْْہِمْ وَلَعَنَہُمْ وَأَعَدَّ لَہُمْ جَہَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِیْراً (الفتح ۴۸ :۶)
’’ اور عذاب دے منافق مردوں اور منافق عورتوں اورمشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو ،جو اللہ کی نسبت برے گمان رکھتے ہیں، ان پر برا وقت پڑنے والا ہے اور اللہ ان پر غضب ناک ہے اور ان پر لعنت کرتا ہے اور اس نے ان کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے ‘‘

اس لیے یہ اخذ کرنا نص میں اضافہ نہیں ہو گا کہ النساء آیت۹۳ میں (فَجَزَآؤُہُ) کے بعد ، جہنم میں خلود ، اللہ کا غضب و لعنت اور عذابِ عظیم کی تیاری کابیان (کیفیت میں عدم تطابق کے تدارک اور وزن و کمیت میں برابری کی خاطر) مقتول مومن کے قاتل کے قتل سے بڑھ کر کسی ایسی مرکب سزا کی راہ دکھاتا ہے جس میں ذلت و رسوائی کا پہلو بدرجہ اتم موجود ہو ۔ 


سورۃ النساء۴ آیت۹۳ میں ’عمد‘ حق راہ جاننے کے حوالے سے تحقق اور اتمامِ حجت پر دلالت کرتا ہے اور پھر قرآن مجید نے تو مطلق انسان کے قتل کو انتہائی ناپسندیدہ قرار دیا ہے (المائدۃ۵:۳۲) چہ جائے کہ مومن کا عمداً قتل ہو۔ اگر اس نکتے کو بھی دھیان میں رکھا جائے کہ کہ تخلیقِ آدم سے قبل فرشتوں نے کہا تھا کہ انسان تو زمین میں فساد پھیلائے گا قتل و غارت کرے گا ، اور اللہ نے فرمایا تھا کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے، اس لیے مومن ، فرشتوں کے اس سوال کا جواب ہونے کے ناطے ایک جہت سے آیتِ الہی ہے اور دوسری جہت سے آیاتِ الہی کی تجسیم ہے ، نہ فسادی اور نہ قتل و غارت پر تلا ہوا ۔اس لیے اگر اس کا قتل ، آیتِ الہی کے خاتمے کی کوشش خیال کیا جائے تو اس کے قاتل کو ’جزا‘ کے طور پر لوگوں کے لیے آیت بنا دیا جانا چاہیے ،جیسا کہ سورۃ الفرقان میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے: 

وَقَوْمَ نُوحٍ لَّمَّا کَذَّبُوا الرُّسُلَ أَغْرَقْنَاہُمْ وَجَعَلْنَاہُمْ لِلنَّاسِ آیَۃً وَأَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِیْنَ عَذَاباً أَلِیْماً (۳۷)
’’اور نوح کی قوم کو جب انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا ہم نے ان کو ڈبو دیا اور انہیں لوگوں کے لیے نشانی کر دیا اور ہم نے ظالموں کے لیے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے ‘‘ 

اگرمومن کی دوسری جہت ، یعنی آیاتِ الہی کی تجسیم کو پیشِ نظر رکھا جائے تو:

وَالَّذِیْنَ سَعَوْا فِیْ آیَاتِنَا مُعٰجِزِیْنَ أُوْلَئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ مِّن رِّجْزٍ أَلِیْمٌ (سبا ۳۴ :۵)
’’ اور جنہوں نے ہماری آیتوں میں ہرانے کی کوشش کی ، ان کے لیے سخت درد ناک عذاب ہے ‘‘

کے مصداق ، اس کا قتل ، آیاتِ الہی کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے اس لیے خدائی نظام میں فتنہ و فساد برپا کرنے کی کوشش ہے اور قرآن مجید کا فیصلہ ہے : وَالْفِتْنَۃُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ (البقرۃ ۲:۱۹۱) ’’اور فتنہ سخت تر ہے قتل سے‘‘ وَالْفِتْنَۃُ أَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ (البقرۃ ۲ :۲۱۷) ’’اور فتنہ انگیزی ، قتل سے بھی بڑھ کر ہے‘‘۔ ایسے فتنہ و فساد پر قرآن نے خاموشی اختیار نہیں کی اور نہ ہی محض اخروی سزاؤں پر انحصار کیا ہے بلکہ ان کے سدِ باب کے لیے سخت دنیاوی تدابیر و سزائیں مقرر کی ہیں ، مثلاً: سورۃ النور آیت ۲ میں زانی مرد و عورت پر ترس نہ کھانے اور مومنین کے ایک گروہ کی حاضری کا حکم آیا ہے ، ظاہر ہے کہ اس حکم کے پیچھے جواز یہی ہے کہ زانی لوگ ، ایک لحاظ سے آیاتِ الہی کو چیلنج کرتے ہوئے ، قرآنی اقدار پر مبنی اجتماعی نظم میں خلل اندازی کی کوشش کرتے ہیں، اس لیے وہ ترس کے بجائے ذلت و رسوائی کے زیادہ مستحق ہیں ۔ زنا کے مقابلے میں مومن کا قتل ، آیاتِ الہی کو کلی اعتبار سے چیلنج کرنے کے مترادف اور اجتماعی نظم میں خلل اندازی کی انتہائی کوشش ہے ، اس لیے منطقی طور پر اس کے قاتل کے لیے نہ تو نرمی کا کو ئی گوشہ ہونا چاہیے اور نہ ہی اس کی ذلت و رسوائی میں کوئی کسر باقی چھوڑنی چاہیے۔ النساء۴ آیت ۹۳ کو دوبارہ دیکھیے (وَمَن یَقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً فَجَزَآؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِداً فِیْہَا وَغَضِبَ اللّہُ عَلَیْْہِ وَلَعَنَہُ وَأَعَدَّ لَہُ عَذَاباً عَظِیْماً)، اس میں کہیں بھی کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں کیا گیا جس میں قاتل کے لیے کسی حوالے سے نرمی کی ذرہ برابر بھی گنجایش نکلتی ہو ۔ اس کے برعکس ، سورۃ بنی اسرائیل آیت ۳۳ میں مقتول کے مظلوم ہونے کے باوجود (فَلاَ یُسْرِف فِّیْ الْقَتْلِ) کے الفاظ، ظالم قتل کے لیے ایک حد تک نرمی ظاہر کرتے ہیں ۔ اس لیے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ النساء آیت ۹۳ میں اس اسراف (سختی و رسوائی )کی اجازت(بلکہ حکم ) دیا گیا ہے جس کی بنی اسرائیل آیت ۳۳ میں ممانعت کی گئی ہے۔ اگرالمائدۃ آیت ۳۲ کے بیان (مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَیْْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ الأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعاً) ’’جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی ‘‘ میں انسانی جان کی حرمت اور قرآن میں مومن کے مقام پر نظر رکھتے ہوئے، النساء آیت ۹۳ میں قصاص کے مقابل ’جزا‘ کی معنویت کا احاطہ کرکے ، مذکور سزاؤں جہنم غضب لعنت عظیم عذاب پر غور و خوض کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مومن کے قاتل کے ساتھ ’اسراف‘ کرنے کی صورت میں بھی ’جزا‘ کا معنوی اطلاق (قاتل کے فعل کے مساوی ، وزن و کمیت کے لحاظ سے ) ممکن نہیں ہوتا ، اس لیے قاتل کی سزا کے لیے ایسے الفاظ (جہنم غضب لعنت عظیم عذاب) برتے گئے ہیں جو بدیہی طور پر اخروی سزا پر دلالت کرتے ہیں ، یعنی دنیاوی سزا کی کوئی بھی نوعیت چونکہ قاتل کے فعل کا بدل نہیں ہو سکتی ، اس لیے آخرت میں بھی اسے لازماََ سزا ملے گی ۔(آیت مذکور کے مزید پہلوؤں پر غور کے لیے ماہنامہ الشریعہ فروری۲۰۰۹ میں ہمارا مضمون’قرآن مجید میں قصاص کے احکام:قسط۳‘ ملاحظہ کیجیے)۔

عمداً قتل کیے جانے والے مومن کا ولی

سورۃ بنی اسرائیل آیت ۳۳ (وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّہُ إِلاَّ بِالحَقِّ وَمَن قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَاناً فَلاَ یُسْرِف فِّیْ الْقَتْلِ إِنَّہُ کَانَ مَنْصُوراً) میں قاتل کو سزا دینے کے لیے مقتول کے ولی کی قانونی پوزیشن (ًفَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَاناً) کے الفاظ میں واضح کی گئی ہے، لیکن النساء آیت ۹۳ میں مقتول مومن کے ولی کی قانونی پوزیشن کی تصریح کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ، بلکہ مزید غور سے دیکھا جائے تو ولی کا بیان ہی موجود نہیں، قانونی پوزیشن کی صراحت تو خیر اگلی بات ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے اندازِ بیان سے شارع کا منشا کیا ہے؟ ( خیال رہے کہ البقرۃ آیت ۱۷۸ میں (فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ شَیْْءٌ) کے الفاظ اور المائدۃ آیت ۴۵ میں (فَمَن تَصَدَّقَ بِہِ فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہُ) کے الفاظ کسی فریق ثانی یا ولی کی موجودگی پر دلالت کر رہے ہیں ) جبکہ النساء آیت ۹۳ میں فریق ثانی وہ مومن ہے جس کو عمداََ قتل کیا جا چکا ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مقتول مومن کا قائم مقام آخر کون ہو گا؟ ہم سمجھتے ہیں کہ مقتول مومن کے قائم مقام کو تلاش کرنے سے ہی ، اس آیت میں کسی فریق ثانی یا ولی کی عدم موجودگی میں پنہاں شارع کا منشا سامنے آ سکتا ہے ۔

مقتول مومن کے قائم مقام کی تلاش میں بنی اسرائیل آیت ۳۳ اور النساء آیت ۹۳  کا تقابلی مطالعہ کافی معاونت کر سکتا ہے ۔ سورۃ بنی اسرائیل آیت ۳۳ میں (وَمَن قُتِلَ مَظْلُوماً) کے بیان سے ، سورۃ النساء آیت ۹۳ میں (وَمَن یَقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً) کے ذکر کی بظاہر کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی ، کہ مقتول مظلوم ، مومن بھی ہو سکتا ہے ۔ لیکن غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل آیت ۳۳ میں مقتول کی ’’مظلومیت کی نوعیت ‘‘بیان نہیں کی گئی ۔ چونکہ مقتول مظلوم ، غیر مومن بھی ہو سکتا ہے ، اس لیے قرینہ بتاتا ہے کہ مظلومیت ، نوعیت کے اعتبار سے دنیاوی پہلو کی حامل ہے ،مثلاََ سماج میں طبقاتی کھینچا تانی کے عمل میں کوئی شخص مظلومانہ قتل ہو سکتا ہے یا کارا کاری جیسی کسی قبیح رسم کی بھینٹ چڑھ سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔اسی لیے شارع نے ایک طرف (بنی اسرائیل آیت ۳۳کے تناظر میں ) النساء آیت ۹۳ میں ’مومن‘ پر فوکس کیا ہے اوردوسری طرف (البقرۃ آیت ۱۷۸ کے تناظر میں )’عمد‘ پر توجہ مرکوز رکھی ہے کہ کسی بھی قسم کے جواز کے بغیر ، جانتے بوجھتے مومن کو عمداََ قتل کرنا ، اللہ کے غضب اللہ کی لعنت اور جہنم میں ہمیشہ رہنے کے عذابِ عظیم کو دعوت دینے والی بات ہے ۔ اس تقابلی مطالعہ سے یہ نکتہ بھی سامنے آتا ہے کہ اگر کسی شخص کا طبقاتی کھینچا تانی وغیرہ کے عمل میں مظلومانہ قتل ہو جائے اور وہ شخص مومن بھی ہو تو ، اس کے قاتل کے جرم کی سنگینی بہت بڑھ جاتی ہے۔ غالباََ اسی سنگینی کو باقاعدہ ظاہر کرنے کے لیے ہی، بنی اسرائیل آیت ۳۳ کے برعکس مقتول(اور اس کے ولی ) کے بجائے النساء آیت۹۳ میں قاتل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے (فَجَزَآؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِداً فِیْہَا وَغَضِبَ اللّہُ عَلَیْْہِ وَلَعَنَہُ وَأَعَدَّ لَہُ عَذَاباً عَظِیْماً) جیسی سخت وعید بیان کی گئی ہے ۔اس وعید میں یہ معنویت بھی مستور ہے کہ چونکہ مومن قرآن کے نظامِ اقدار کا متشکل روپ یا تجسیم ہے ،اس لیے اسے عمداََ قتل کرنا ایسے ہی ہے جیسے قرآن کو حق جانتے ہوئے نہ صرف جھٹلا یا جائے بلکہ اس کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی مذموم کوشش بھی کی جائے ۔لہذا ، اس آیت سے یہ معانی اخذ کیے جا سکتے ہیں کہ مومن کو بلا جوازعمداََ قتل کرنا درحقیقت قرآنی اقدار پر مبنی ہیتِ اجتماعی(معاشرہ) کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے اس لیے ایسے مقتول مومن کے قائم مقام یا ولی کی حیثیت مسلم معاشرے کی اجتماعیت کی نمائندگی کرنے والی مقتدر طاقت (معروف معنوں میں خلافت یا ریاست) کو ہی حاصل ہو گی۔ اس لیے ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ریمنڈ ڈیوس کیس میں مقتولین کے ورثا کو ’ولی‘ کا رتبہ حاصل نہیں تھا، اگر وہ رضامندی سے بھی دیت لینے پر آمادہ ہو جاتے تو اس آمادگی کی کوئی شرعی توجیہ نہیں کی جا سکتی تھی۔ اس کیس میں ولی کی حیثیت مومنین کی معاشرت کی نمائندگی کرنے والے ادارے کو حاصل تھی جسے آج کل ریاست کہتے ہیں اور اس ریاست کے پاس بھی امریکی قاتل کو عبرت ناک مرکب سزا دینے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا (جیسا کہ جزا کی بحث میں ذکر ہو چکا)۔ ریاست کے پاس سزا دینے کے علاوہ کسی بھی آپشن کی عدم موجودگی سے، مقتول مومن کے ورثا کو ولی کی حیثیت نہ دیے جانے کی حکمت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ شارع کا منشا اس نوعیت کے کیسوں میں ایسی انتہائی سخت سزا کا نفاذ ہے جو جرم کی سنگینی کو ممکن حد تک قریب سے ایڈریس کر سکے۔

قصاص میں ریاست کا اختیار 

یہاں ضمناً ایک نکتے کی صراحت بے جا نہ ہو گی کہ قصاص کے معاملے میں ریاستی اختیار(ریاست بطور فریق) پر زور دینے والے اہلِ علم اپنے استدلال کی بنیاد سورۃ البقرۃ۲ آیت۱۷۸ پر رکھتے ہیں، جو سراسر غلط ہے۔ البقرۃ آیت ۱۷۸ (یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الْقِصَاصُ....) میں ریاست کو فریق کی حیثیت یا ریاستی اختیار، پورا معاملہ طے پا جانے کے بعد کسی قسم کی گڑ بڑ کی صورت میں (فَمَنِ اعْتَدَی بَعْدَ ذَلِکَ فَلَہُ عَذَابٌ أَلِیْم) آیت کے تکمیلی الفاظ سے شروع ہوتا ہے۔ تکمیلی الفاظ سے قبل کا بیان ریاست کو اصولاً (صرف اور صرف)قصاص کی تلوار اٹھائے رکھنے کا پابند کرتا ہے تاکہ اس کے سائے تلے مقتول کے ورثا اطمینانِ قلبی کے ساتھ (دھونس زبردستی کا شکار ہوئے بغیر) دیت وغیرہ کا معاملہ طے کر لیں جو شارع کا (اصلاً)مقصود و منشا ہے۔ ہماری ناقص رائے میں قتل جیسے معاملات میں ریاست کو فریق بنانے کی بنیاد سورۃ النساء۴ آیت۹۳ میں تلاش کی جانی چاہیے۔ سورۃ البقرۃ۲ آیت۱۷۸ کے بنیادی حکم میں ایسی تلاش نص میں اضافہ شمار ہوگی۔ 

کسی غیر ملکی پر اسلامی حدود کا نفاذ

ریمنڈ ڈیوس کیس سے ایک بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی غیر ملکی پر جب کہ وہ غیر مسلم بھی ہو، کیا اسلامی حدود کا نفاذ اصولاً کیا جا سکتا ہے؟ اس سلسلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ قصاص و دیت کی بنیادی آیت سورۃ البقرۃ ۲آیت۱۷۸ کے آغاز میں ہی مومنین کو خطاب کیا گیا ہے (یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الْقِصَاصُ فِیْ الْقَتْلَی الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأُنثَی بِالأُنثَی) جس سے غیر ملکی غیر مسلم مستثنیٰ معلوم ہوتے ہیں۔لیکن یہاں مومنین کے نظمِ اجتماعی یعنی ریاست کو خطاب کرنے کی وجہ سے یہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اس مقام پر مومنین کا ذکر ان کی’ مقتدر ذمہ داری‘ کے حوالے سے کیا گیا ہے کہ وہ اس حکم کی تنفیذ کو (مسلم غیر مسلم کی تفریق میں الجھے بغیر) عمومی صورت میں یقینی بنائیں۔ لیکن پھر (فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ شَیْْء) کے بیان میں ( أَخِیْہ) کی کیا توجیہ کریں گے؟ کیونکہ اس سے یہ سوال جنم لے گا کہ کیا قرآن مجید کے مطابق مومن اور کافر بھائی بھائی ہو سکتے ہیں؟سورۃ الحجرات۴۹ آیت۱۰ (إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَۃٌ فَأَصْلِحُوا بَیْْنَ أَخَوَیْْکُمْ وَاتَّقُوا اللَّہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ) کے تناظر میں (جس کا مزید حصر سورۃاٰل عمران۳ آیت۱۵۶ کرتی ہے) اگر اس سوال کا جواب’نہیں‘ میں ہے تو دیت کے بیان (فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء إِلَیْْہِ بِإِحْسَان) کے بعد اللہ کی رحمت کے خاص ذکر (ذَلِکَ تَخْفِیْفٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ) کا مخاطب کوئی غیر ملکی غیر مسلم نہیں رہتا، کیونکہ یہاں تک پہنچنے کی بنیاد (بھائی) ہی کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس آیت کے داخلی شواہد اس کے کسی غیر ملکی غیر مسلم پر اطلاق میں مانع ہیں۔ 

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی معاملے میں ایک فریق مسلمان ہو اور دوسرا غیر ملکی غیر مسلم(جیسا کہ ریمنڈ ڈیوس کیس کا معاملہ ہے) اور نصِ قرآنی اس غیر ملکی غیر مسلم پر منطبق نہ ہو رہی ہو (جیسا کہ البقرۃآیت۱۷۸ کے جائزے سے معلوم ہوا) تو کیا شریعت خلا میں معلق رہے گی؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ انطباق کے حوالے سے تعطل اسی وقت سامنے آتا ہے جب قضیے سے متعلق موزوں آیت سے استدلال نہ کیا جائے۔ سورۃ البقرۃ۲ آیت ۱۷۸ کے آغاز سے یہ بات تو تقریباً طے ہو جاتی ہے کہ قرآن مجید میں جہاں جہاں تخصیص کے ساتھ بھی مومنین کو مخاطب کیا گیا ہے وہاں اصلاً ایسی مقتدر ذ مہ داری نبھانے کو کہا گیا ہے جس کی عمل داری (jurisdiction) غیر ملکی غیر مسلم تک بھی پھیلی ہوئی ہے۔ اس پر مستزاد، ایسی آیات بھی بکثرت موجود ہیں جن میں کسی تخصیص کے بغیر خطاب کیا گیا ہے۔ اس لیے یہ امر اتنا قابلِ بحث نہیں رہتا کہ غیر ملکی غیر مسلم شرعی حدود کی (jurisdiction) میں آتا ہے یا نہیں، بلکہ صرف موزوں احکامات کا اطلاق ہی قابلِ توجہ اور قابلِ تنقیح قرار پاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس کیس میں سورۃ النساء۴ آیت ۹۳، اطلاقی پہلو سے نہایت موزوں آیت ہے۔یہ آیت اصولی لحاظ سے یہ امر بھی واضح کرتی ہے کہ شریعت کی تنفیذ غیر مسلموں پر کی جا سکتی ہے ۔ کیونکہ اس آیت کے مطابق مومن کو عمداً قتل کرنے والا اگر خود بھی مومن ہو تو اس قبیح فعل کے بعد وہ مومن نہیں رہتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سورۃ النساء۴ آیت ۹۳ کا اطلاق (عمومی طور پر) دائرہ ایمان سے خارج لوگوں پر ہو تا ہے، اس لیے ایمان نہ رکھنے والے ہی اصلاً اس آیت کی عمل داری میں آتے ہیں۔ 

ریمنڈ ڈیوس کیس سے جنم لینے والے واقعاتی سوالات 

امریکی قاتل ریمنڈ ڈیوس کی طرف سے دیت (اس کے درست یا غلط ہونے سے قطع نظر) کی ادائیگی کے معاملے میں بھی سوالات اٹھتے ہیں، کیونکہ شنید ہے کہ کسی اسلامی ملک (بشمول اسلامی جمہوریہ پاکستان) نے ریمنڈ ڈیوس کی دیت کا معاملہ ہی ’طے‘ نہیں کروایا بلکہ ایک قدم مزید بڑھتے ہوئے قاتل کی طرف سے دیت کی رقم اد ا کرنے کی ’سعادت‘ بھی حاصل کی ہے۔ سنا ہے کہ کسی بااثر پاکستانی مسلمان شخصیت نے بھی ’نمک حلالی‘ کرتے ہوئے اپنی آخرت سنوارنے کی خوب کوشش کی ہے۔ کہتے ہیں کہ کہ دھواں آگ کا پتہ دیتا ہے ، بات کچھ بھی ہو، اگر اس میں کسی قدر سچائی پائی جاتی ہے تو شخصیت موصوف اور اسلامی ریاست نے امریکی قاتل کے ’عاقلہ‘ کا کردار ادا کیا ہے جس سے ان کا ’قبلہ‘ بے نقاب ہو گیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان یااسلامی ریاست، کسی غیر ملکی غیر مسلم مجرم کے لیے ’عاقلہ‘ کے فرائض سر انجام دے سکتے ہیں؟ اگر نہیں، تو ایسا کر گزرنے والوں کی بابت کیا حکمِ شرعی ہے؟ 


ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے متعلق ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ اسے وسیع تر قومی مفاد میں رہا کیا گیا ہے۔ اس لیے عدالتی کاروائی محض ایک کاروائی تھی، مقصد اسے ہر صورت رہا کرنا تھا۔ لہذا اس پورے معاملے کو خالصاً قانونی زاویے سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ اگر قومی مفاد کی یہ منطق مان بھی لی جائے اور یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان نے ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں جو کرتب دکھائے ہیں اس سے امریکہ بہت مرعوب ہو اہے اور اپنے بِل میں دبک کر بیٹھ گیا ہے تو پھر بھی ایک سوال موجود رہتا ہے کہ امریکی قاتل کی رہائی کے لیے اسلامی حدود کا غلط استعمال کیوں کیا گیا؟ کیا کسی اور ذریعے سے اسے رہا نہیں کیا جا سکتا تھا؟یا پھر اس کی رہائی کے ساتھ یہ مقصد بھی شامل تھا کہ اسلامی حدود کی تضحیک کی جائے اور انہیں متنازعہ بنایا جائے؟ یہاں ایک اصولی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلامی حدود کو ریاست کی تزویراتی مہمات (strategic adventures) کی بھینٹ چڑھایا جا سکتا ہے، چاہے یہ مہمات مبنی بر قومی مفاد ات ہی ہوں؟ اگر اس سوال میں کسی بھی درجے میں سنجیدگی پائی جاتی ہے تو آج کے اہلِ علم کو اسلامی حدود کے مطالعات کی نئی جہتیں متعارف کروانی ہوں گی۔


امریکی قاتل ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے معاملے میں اسلامی حدود کو جس طرح ’برتا‘ گیا ہے اس سے ایک بہت ہی بنیادی نوعیت کا سوال جنم لیتا ہے کہ کیا مومنین کا کوئی ایسا نظمِ اجتماعی ، جو فی الواقعی مقتدر حیثیت کا حامل نہ ہو، اپنی نام نہاد عمل داری (jurisdiction) میں اسلامی حدود کے نفاذ کا شرعی حق رکھتا ہے؟ ہماری رائے میں تو اصولیین اور فقہا کو(جدید صورتِ حال کے تناظر میں) مومنین کے نظمِ اجتماعی کی اس کم از کم مقتدر حیثیت(prerequisite sovereignty) کا باقاعدہ تعین کرنا چاہیے جس کی عدم موجودگی میں حدود کے نفاذ پر اصولاً پابندی عائد ہو، تاکہ اسلامی حدود کا مذاق نہ اڑایا جا سکے۔ اور اگر یہ طے پا جائے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ایسی کم از کم مقتدر حیثیت (prerequisite sovereignty) کا حامل نہیں ہے تو اسلام پسند حلقوں کو شریعت کے نفاذ کے بجائے نافذ شدہ حدود کی تنسیخ کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلام پسند حلقے ایسی جرات اور بالغ نظری کا مظاہرہ کر پائیں گے؟ یہ حلقے ریمنڈ ڈیوس قضیے کو دبے لفظوں میں ’جرمِ ضعیفی کی سزا‘ قرار دے رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں جب تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کا’مردانہ ضعف‘ دور نہیں ہو جاتا، اس وقت تک کے لیے اس ریاست میں حدود کے نفاذ کی جدوجہد کرنے والوں کو دیت کے ’حشرنشر‘ سے بہت کچھ سیکھنا چاہیے اور اپنی ترجیحات کا ازسرِ نو تعین کرلینا چاہیے۔ 

آراء و افکار

(اپریل ۲۰۱۱ء)

تلاش

Flag Counter