۲) مجوزین کے نظریہ بینکاری کا جائزہ
اس مختصر وضاحت کے بعد ہم درج بالا نظریہ بینکنگ (جو درحقیقت مجوزین اسلامی بینکاری کا نظریہ بینکنگ بھی ہے) کا تنقیدی جائزہ پیش کرتے ہیں۔ بحث کو سادہ اور عام فہم رکھنے کے لیے حد امکان تک علم معاشیات کے ٹیکنکل مواد سے صرف نظر کرنے کی کوشش کی جائے گی، اسی لیے بہت سی دیگر تفصیلات کونظر انداز کرتے ہوئے ہم درج بالا تصور بینکنگ کی دو خامیوں پر اکتفا کریں گے (۱۳)۔
۲.۱: نیوکلاسیکل نظریہ بینکنگ کی بنیادی خامیاں
نیوکلاسیکل مفکرین کا یہ اصول کہ ’بینک کو بچتوں سے زائد قرض فراہم نہیں کرنے چاہیے ‘ ان مفروضوں پر مبنی ہے کہ (۱) چونکہ بینک کے قرضوں کا منبع لوگوں کی بچتیں ہوتی ہیں لہذا بچتوں کے بغیر بینک قرض نہیں دے سکتا، نیز (۲) اس کے قرضے بچتوں کے برابر ہوسکتے ہیں۔ ذیل میں ان دونوں دعووں کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
بینک کے قرض بچتوں کے برابر ہوسکنے کا دعویٰ
اس بینکاری نظام (جسے fractional reserve banking کہتے ہیں) میں بینکوں کے قرض اس کی بچتوں کے برابر ہونا ایک امر محال ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بینک اپنے قرض لوگوں کی بچتوں سے نہیں دیتا بلکہ وہ ’بلا کسی عوض‘ (out of nothing)قرض دے کر تخلیق زر کا باعث بنتا ہے۔ (اس عمل کی مکمل تفصیل مضمون کے ضمیمے میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے یہاں صرف خلاصہ بیان کیا گیا ہے) محض دوباتوں پر غور کرلینے سے یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے:
اولاً ایک شخص مثلاً زید جب بینک میں اپنا اکاؤنٹ کھلواتا ہے تو وہ اپنی رقم (liquidity) خرچ کرنے سے دستبردار نہیں ہوجاتا بلکہ وہ ’کسی بھی وقت ‘ اپنی ’جمع شدہ کل رقم کے برابر‘ قوت خرید استعمال کرسکتا ہے (چاہے یہ استعمال بذریعہ چیک ہو یا Debit کارڈ ) ۔
ثانیاً بینک جب کسی شخص مثلاً ناصر کو نیا قرض جاری کرتا ہے تو وہ زید کے اکاؤنٹ سے کوئی رقم منہا نہیں کرتا بلکہ ناصر کو ’نئی قوت خرید‘ دیتاہے ۔
فرض کریں زید بینک الف میں سو روپے جمع کراتا ہے اور اب وہ کسی بھی وقت سو روپے تک چیک لکھ کر اشیا خرید سکتا ہے- (اس مثال میں سمجھانے کے لیے مجوزین کے اس مفروضے کو درست تسلیم کر لیا گیا ہے کہ بچت قرضوں سے پہلے آرہی ہے جبکہ یہ بھی غلط ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے)۔ اب فرض کریں بینک ناصر کو پچاس روپے کی قوت خرید (liquidity) قرض دیتا ہے۔ اگر تو یہ پچاس روپے زید کے اکاونٹ سے نکال کر دئیے گئے ہوتے تو بینک زید کے اکاؤنٹ کو پچاس سے منہا کردیتا مگر بینک ایسا کبھی نہیں کرتا بلکہ زید اب بھی سو ہی روپے کی قوت خرید کامالک رہتا ہے اور ناصر کو بھی پچاس روپے مل جاتے ہیں۔ ظاہر ہے جو پچاس روپے ناصر کو دئیے گئے ہیں وہ یا تو ناصر کے پاس ہونگے یا پھر بینک کے، اس رقم کا ایک ساتھ دو لوگوں کی ملکیت میں ہونا محال ہے۔ عموماً بینک قرض اکاؤنٹ کی شکل میں دیتا ہے یعنی ہماری مثال میں وہ ناصر کا پچاس روپے کا اکاؤنٹ کھول کر اسے بذریعہ چیک پچاس روپے تک خریداری کی اجازت دے گا۔ یوں مجموعی اکاؤنٹس بڑھ کر ایک سو پچاس روپے ہوجاتے ہیں (یعنی سو زید کے اور پچاس ناصر کے)۔ دیکھئے یہاں بچت تو سو روپے ہی رہی مگر زید و ناصر دونوں کے ڈپازٹس بڑھ کر ایک سو پچاس روپے ہوگئے۔ لہذا جب بینک قرض دیتا ہے تو وہ ایک شخص سے قوت خرید لے کر کسی دوسرے شخص کو نہیں دیتا بلکہ نئے سرے سے قوت خرید تخلیق کرتا ہے اور یہ قوت خرید بینک بلا کسی عوض تخلیق کرتا ہے جس کے بدلے دینے کے لیے اس کے پاس (سوائے ایک ناممکن الوقوع جھوٹے وعدے کے ) کچھ نہیں ہوتا (۱۴)۔
ایک اہم غلط فہمی کا ازالہ: مجوزین اسلامی بینکاری کو یہ غلط فہمی لاحق ہے کہ چونکہ وہ قرض کے بجائے اثاثوں پر مبنی بینکنگ کرتے ہیں، لہٰذا اسلامی بینکاری درج بالا تمام برائیوں سے پاک بینکنگ ہے۔ مجوزین کا یہ دعویٰ محض سطح بینی کا نتیجہ ہے۔ اوپر دی گئی مثال میں فرض کریں زید سو روپے بینک میں جمع کرواتا ہے اور اب ناصر اسلامی بینک کے پاس آکر مشین خرید نے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے جس کی قیمت پچاس روپے ہے۔ اسلامی بینک ناصر سے بیع مرابحہ کرکے اسے پچاس روپے کی مشین ساٹھ روپے میں بیچ دیتا ہے۔ فرض کریں یہ مشین صہیب سے خریدی گئی تھی۔ اب صورت حال یہ ہوگی:
- زید کے پاس بدستور سو روپے کی قوت خرید موجود ہے، یعنی وہ سور وپے تک اشیا خرید سکتا ہے ۔
- ناصر اسلامی بینک کا مقروض ہوگیا ۔
- صہیب پچاس روپے کی قوت خرید کا مالک بن گیا ۔
دیکھئے یہاں پھر وہی صورت حال درپیش ہے جو اوپر بیان کی گئی۔ دونوں میں فرق ’نوعیت مسئلہ اور نتیجے ‘ کا نہیں بلکہ محض کاروائی درج کرنے کے طریقے کا ہے یعنی جو کام عام بینک ایک کاروائی میں کرتے ہیں اسلامی بینک اسے دو اندراجوں میں مکمل کرتے ہیں۔ عام بینکوں میں ناصر بینک کا مقروض ہونے کے ساتھ پچاس روپے کی (فرضی) قوت خرید کا مالک بھی بن جاتا ہے جبکہ اسلامی بینکوں میں یہ قوت خرید ناصر کے بجائے صہیب کو ملتی ہے۔ جس طرح عام بینک یہ قوت خرید کسی عوض کے بغیر محض کمپیوٹر کی یاداشت (memory) میں ایک نمبر تحریر کرکے تخلیق کرتے ہیں، اسی طرح اسلامی بینک بھی یہی کام کرتے ہیں۔ دونوں کا نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے یعنی ’بلا کسی عوض قرض پر مبنی زر کی تخلیق‘ (مزید تفصیل ضمیمے میں)۔ چنانچہ یہ خیال کہ اثاثوں پر مبنی بینکاری سے تخلیق زر کی صورت پیدا نہیں ہوتی، قلت تدبر کا نتیجہ ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ عام بینک بھی جو قرض جاری کرتے ہیں، قرض خواہ ان سے بھی کسی نہ کسی اثاثے کی خرید وفروخت عمل میں لاتے ہی ہیں، یہاں فرق صرف اتنا ہورہا ہے کہ قرض خواہ کے بجائے اسلامی بینک خود اس فرضی قوت خرید سے خریدوفروخت کا معاملہ کرتا ہے اور بس۔
یہ غلط فہمی کہ اثاثوں پر مبنی بینکاری سے تخلیق زر کی صورت پیدا نہیں ہوتی اس خیال سے بھی پیدا کی جاتی ہے کہ چونکہ روایتی بینک بیع کے بجائے اپنے گاہک کو اکاؤنٹ (deposit) کی صورت میں قرض دیتے ہیں، اسی وجہ سے یہ جعلی زر تخلیق کرتے ہیں، اس کے مقابلے میں اسلامی بینک چونکہ اثاثے کی خرید کے لیے پوری قیمت ادا کردیتے جسکے نتیجے میں قوت خرید اسلامی بینک کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے لہذا یہ اس برائی سے پاک ہیں۔ درحقیقت یہ دعوی بھی اصل معاملے پر غور نہ کرنے کا ہی کا نتیجہ ہے کیونکہ تخلیق زر کا تعلق اس بات سے نہیں کہ آیا بینک کرنسی کی صورت میں کوئی ادائیگی کرتا ہے یا نہیں بلکہ اس امر سے ہے کہ ادا کردہ رقم پوری یا اس کا ایک حصہ دوبارہ بینکنگ نظام میں واپس آتا ہے یا نہیں۔ اس اعتبار سے دیکھئے تو معاملہ یوں بنتا ہے کہ اسلامی بینک جو قیمت ادا کرتا ہے وہ دو میں سے کسی ایک حال سے خالی نہیں ہوتی، فرض کریں اسلامی بینک ٹویوٹا کمپنی سے دس لاکھ روپے مالیت کی ایک گاڑی خرید تا ہے:
۱) اس کی قیمت یاتو چیک کی صورت میں ادا کی جاتی ہے یعنی اسلامی بینک ٹویوٹا کمپنی کو اپنا جاری کردہ دس لاکھ روپے مالیت کا چیک دیتا ہے جسے ٹویوٹا کمپنی اپنے بینک میں بھیج کر رقم منتقل کروالیتی ہے۔ اس صورت میں پوری ادا کردہ رقم دوبارہ بینکنگ نظام میں واپس آجاتی ہے اور یوں بینکاری نظام مجموعی طور پر دس لاکھ روپے کے نئے ڈپازٹ تخلیق کردیتا ہے کیونکہ اس ادائیگی کے بعد بینک اپنے کسی بھی گاہک کی قوت خرید کو منہا کئے بغیر کمپنی کے کھاتے میں دس لاکھ روپے جمع کردیتا ہے ۔
۲) زیادہ تر قیمت کی ادائیگی اوپر بیان کردہ یعنی بینک چیک کی صورت ہی میں ادا کی جاتی ہے، مگر اس کا دوسرا امکان یہ ہے کہ اسلامی بینک یہ قیمت کرنسی کی صورت میں ادا کرے، یعنی اسلامی بینک ٹویوٹا کمپنی سے دس لاکھ روپے مالیت کی گاڑی بعوض کرنسی خرید لیتا ہے۔ اس صورت میں کمپنی یا تو پوری کی پوری رقم یا اس کے محض ایک حصے کو اپنے پاس کیش کی صورت میں رکھ کر بقیہ (فرض کریں آٹھ لاکھ روپے) کو اپنے بینک اکاؤنٹ میں جمع کرادیتی ہے اور یوں پھر پہلی صورت ہی کی طرح نئے ڈپازٹ تخلیق ہوجاتے ہیں ۔
یہاں یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ کمپنی پوری کی پوری قیمت کو بصورت کیش اپنے پاس رکھ لے۔ اس میں شک نہیں کہ کمپنی کے لیے ایسا کرنا ممکن ہے، مگر یہ طرز عمل بینک کے کسی ایک گاہک کے لیے تو تصور کیا جا سکتا ہے لیکن اگر تمام لوگ اسی طرح ہر معاہدے کے بعد ادا کردہ کیش اپنے پاس رکھنے لگیں اور ہر بیع بعوض کیش ہی کرنے لگیں تو بینک دیوالیہ ہوجائیں گے۔ ایسا اس لیے کہ اگر رقم یوں ہی بینکوں سے نکلتی رہے تو بینک اپنے کھاتے داروں کو رقم کی ادائیگی کہاں سے کرے گا؟ لہذا یہ سمجھنا کہ اسلامی بینکوں کا اثاثوں پر مبنی بینکنگ کرنا انہیں روایتی بینکوں سے ممیز کردیتا ہے ایک غلط فہمی کے سواء اور کچھ نہیں کیونکہ تخلیق زر کے عمل کا تعلق بذریعہ قرض یا بیع بینکاری کرنے سے نہیں بلکہ fractional reserve banking (اصل زر کے محض ایک مخصوص حصے کو بطور کرنسی اپنے پاس رکھنے ) کے اصول سے ہے۔
بینک ڈپازٹ کی قرض پر اولیت کا دعویٰ
اب تک کی بحث سے یہ واضح ہوجانا چاہیے کہ چاہے مرکزی بینک ہو یا کمرشل بینک، دونوں جس زر کو تخلیق کرتے ہیں، وہ ’قرض‘ کی رسید (promise of payment) سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا (۱ور وہ بھی ایسا قرض جسکا عوض ادا کرنا ناممکن الوقوع ہوتا ہے جیسا کہ ضمیمے سے واضح ہے)۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ مالیاتی و زری نظام کو Debt or Credit Money System (قرض پر مبنی نظام زر ) کہتے ہیں۔ اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ سمجھنا بالکل آسان ہوجاتا ہے کہ بینک ’بچتیں قرض کا باعث بنتی ہیں‘ کے بجائے ’قرضے ڈپازٹس کو جنم دیتے ہیں‘ (loans create deposits model) کے اصول پر کام کرتا ہے (اور کرسکتا ہے)۔ ہم دیکھیں گے کہ ایک بینک اکاؤنٹ قائم ہونے سے ’قبل‘ ایک قرض تخلیق ہونا ضروری امر ہے۔ سادہ تفہیم کے لیے (۱۵) بات یہاں سے شروع کرتے ہیں کہ فرض کریں ایک شخص (زید) کسی خدمت کے عوض حکومت سے نوٹ (legal tender) وصول کرتا ہے۔ اس موقع پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر یہ شخص اس رقم (یا اس کے ایک حصے ) کو کسی کمرشل بینک میں جمع کراتا ہے تو یہ اکاؤنٹ بنا کسی ماقبل قرض قائم ہوجائے گا، لہٰذا ثابت ہوا کہ ڈپازٹ قرض سے ماقبل ہوتاہے۔ یہ خیال درست نہیں کیونکہ سوال یہ ہے کہ حکومت نے زید کو یہ رقم کس مد سے ادا کی؟ اس کا جواب دو میں سے کسی ایک صورت سے ہوسکتا ہے:
۱۔ اگر یہ قوت خرید ٹیکسوں کی آمدنی سے ادا کی گئی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت نے عوام کی قوت خرید عوام کو واپس لوٹا دی (کیونکہ ٹیکس کی آمدن عوام سے ہی وصول کی گئی تھی)۔ اس صورت میں زر کی مقدار پر حکومت کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور کسی قسم کی کوئی قوت خرید وجود میں نہیں آئے گی۔ دوسرے لفظوں میں اس صورت حال میں گویا ہم ایک غیر سرمایہ دارانہ مالیاتی نظام میں ہونگے جہاں نہ تو تخلیق زر کا عمل ہوگا اور نہ ہی زر اعتباری کا کوئی وجود، لہٰذا کمرشل بینک بھی کوئی ڈپازٹ لینے کے لائق نہ ہوں گے (اس لیے کہ ڈپازٹ قائم کرکے وہ زر اعتباری یعنی ’بینک ڈپازٹس ‘ ہی تو تخلیق کرتے ہیں ) ۔
۲۔ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ حکومت نے یہ رقم نئے نوٹ وغیرہ چھاپ کر ادا کی۔ مگر اوپر ہم دیکھ آئے ہیں کہ نوٹ چھاپنے کا مطلب حکومت کا خود کو قرض دینا ہوتا ہے کیونکہ نوٹ سرکاری قرضہ ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا اس صورت میں ڈپازٹ سے پہلے قرض پایا گیا۔ الغرض بینک ڈپازٹ قائم ہونے کے لیے پہلے قرض کا پایا جانا ضروری ہے ۔
ایک دفاع کا ازالہ: مشہور نیوکلاسیکل (زیادہ صحیح الفاظ میں کنیزین) معیشت دان Tobin نے روایتی اصول ’بچتیں قرض کا باعث بنتی ہیں‘ کا ایک دفاع پیش کرنے کی کوشش کی۔ Tobin اس بات پر زور دیتا ہے کہ بینک ڈپازٹ وجود میں آنے کے لیے لازمی شرط یہ ہے کہ معاشرے میں ایک ایسا ایجنٹ (صارف، فرم وغیرہ) موجود ہو جو اس اکاؤنٹ کا مالک بننا چاہتا ہو بصورت دیگر بینک ڈپازٹ کبھی قائم نہیں ہوسکتا۔ اس سادہ بحث سے Tobin یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ بینک ڈپازٹ کے وجود کا انحصار بینک کے قرض دینے یا نہ دینے پر نہیں بلکہ فرد کے اس فیصلے پر ہے کہ وہ اپنی دولت کا ایک حصہ بینک اکاؤنٹ کی صورت میں رکھنا چاہتا ہے یا نہیں۔ اگر تمام افراد اپنی دولت بینک ڈپازٹ کے بجائے کسی دوسری صورت (مثلاً سونا، اشیا یا سیکیورٹیز وغیرہ) میں رکھنے کا فیصلہ کرلیں تو بینک ڈپازٹ کا وجود ختم ہوجائے گا۔ لہٰذا Tobin کے خیال میں بینک ڈپازٹ کی مقدار کا تعین بینکوں کے جاری کردہ قرضوں کی مقدار سے نہیں بلکہ بینک ڈپازٹ کی طرف لوگوں کی ترجیحات سے ہوتا ہے۔ بظاہر Tobin کی یہ دلیل خاصی وزنی معلوم ہوتی ہے البتہ ذرا غور کرنے سے اس کی غلطی واضح ہوجاتی ہے۔ پہلی بات یہ کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگ اپنی دولت کو مختلف شکلوں میں محفوظ رکھنے کی ترجیحات خود طے کرتے ہیں مگر فرد کی اس فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ اپنے فیصلے اور ترجیحات سے بینک کے ’مجموعی ڈپازٹس‘ کی مقدار زیادہ یا کم کر سکتا ہے۔ مثلاً فرض کریں زید اپنی دولت کی حفاظت سے متعلق اپنی ترجیحات کو تبدیل کرنا چاہتا ہے (دھیان رہے کہ اس مثال کا تعلق ایسے مالیاتی نظام سے متعلق ہے جہاں صرف ’بینک زر‘ بطور زر استعمال کیے جاتے ہیں) ۔ اگر زید اپنے بینک ڈپازٹ کو بڑھانا چاہتا ہے تو ایسا کرنے کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی دولت کے کسی دوسرے اثاثے (مثلاً اشیا، سونے یا سیکیورٹیز وغیرہ) کو بیچے ۔ اسی طرح اگر وہ اپنے بینک ڈپازٹ کو کم کرنا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ بینک ڈپازٹ سے کچھ رقم نکال کر کوئی دوسرا اثاثہ خریدلے۔ زید کے ان دونوں فیصلوں کے روبا عمل ہونے کے لیے معاشرے میں کسی ایسے دوسرے فرد (مثلاً ناصر ) کا ہونا ضروری ہے جو زید کے فیصلے کا بالکل الٹ کرنے کے لیے تیار ہو۔ اس پوری صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ مجموعی بینک ڈپازٹس کی مقدار جوں کی توں بدستور برقرار رہی جس سے ثابت ہوا کہ بینک کے مجموعی ڈپازٹس کا افراد کی ترجیحات سے کوئی تعلق نہیں۔
یہ سوال کہ اگر بینک ڈپازٹس کی مقدار میں اضافے یا کمی کا انحصار افراد کی ترجیحات پر نہیں ہوتا تو پھر کس چیز پر ہوتا ہے، تو اس کا جواب ہے بینکوں کا قرض زیادہ یا کم ہوجانا۔ ڈپازٹس کی مقدار میں اضافہ تب ہوتا ہے جب بینک قرضوں کی مقدار میں اضافہ کرتا ہے اور کمی اس وقت ہوتی ہے جب فرد ڈپازٹ کی شکل میں بینک کا قرض واپس کرتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ یہاں دلیل کا رخ یہ نہیں کہ بینک کا ہر قرض لازماً ڈپازٹ کی شکل اختیار کرتا ہے بلکہ یہ ہے کہ بینک ڈپازٹ قائم ہونے سے قبل ایک قرض کا پایا جانا ضروری ہے اور Tobin کی وضاحت اس پہلو کو رد کرنے میں کوئی مدد فراہم نہیں کرتی۔
اس ساہ مثال کے بعد اب ایسے مالیاتی نظام کی مثال لیجئے جہاں بینک ڈپازٹس کے علاوہ زر قانونی بھی بطور کرنسی استعمال ہوتا ہو یعنی جہاں دو چیزیں بطور آلہ مبادلہ (means of payment) چلتی ہوں ایک بینک ڈپازٹس دوسری زر قانونی (جیسا کہ دور حاضر کا حال ہے)۔ فرض کریں زید اپنے بینک ڈپازٹ کی مقدار کم کر کے زر قانونی کی زیادہ مقدار حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات معلوم ہے کہ اگر ڈپازٹس کے بجائے کرنسی کی ترجیح میں اضافہ ہوجائے تو بینکوں کی قرض دینے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے (دیکھئے ضمیمہ) لہذا اس صورت میں بینک اپنے قرض اور نتیجتاً ڈپازٹس کم کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ مگر قرضوں میں کمی کا یہ عمل ڈپازٹس میں کمی کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ بینک قانوناً اس پر مجبور ہوتے ہیں کہ انہیں Reserves کی ایک کم از کم مقدار اپنے پاس محفوظ رکھنا ہوتی ہے۔
قرضوں کے پس پشت ڈپازٹس کا وجود ثابت کرنے کا آخری امکان یہ فرض کیا جاسکتا ہے کہ بحیثیت مجموعی لوگوں کی اپنی بچت ڈپازٹس کی صورت میں جمع کرنے کی ترجیح میں اضافہ ہوجائے (یعنی مثلاً پہلے اگر وہ دس فیصد بچت ڈپازٹس میں رکھتے تھے تو اب بیس فیصد رکھنے لگے)۔ ایسی صورت حال میں عموماً بینکوں کے جاری کردہ قرض زیادہ ہوجاتے ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ بینک قرض اپنے ڈپازٹس سے جاری کرتا ہے۔ البتہ یہ امکان بھی درست نہیں کیونکہ مفروضہ صورت حال کا مطلب یہ ہوا کہ بچتوں کا زیادہ حصہ اب ڈپازٹس کی طرف جانے لگا جبکہ تمسکات (۱۶) (securities) وغیرہ کی مد میں محفوظ کیا جانے والا حصہ کم ہوگیا۔ ایسی صورت حال میں کمپنیاں بینکوں سے زیادہ قرض لینے پر مجبور ہوں گی اور یوں وہ زیادہ مقدار میں بینکوں کی مقروض ہوجائیں گی۔ گو یہاں بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بینک کے قرضوں کی مقدار میں اضافہ بینک ڈپازٹس کی طلب بڑھ جانے کی وجہ سے ہوا مگر قرضو ں میں یہ اضافہ کمپنیوں کی قرض کی طلب بڑھ جانے کی وجہ سے ہوتا ہے نہ کہ بچت کی رسد بڑھ جانے سے۔
’بچت قرضوں کا باعث بنتی ہے ‘ کا اصول اپنالینے کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ معیشت دان ’ایک بینک ‘ کے اس عمل کو سامنے رکھ کر نتائج اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہر بینک زیادہ سے زیادہ reserves اور ڈپازٹس حاصل کرنے کے لیے دوسرے بینکوں سے مسابقت کرتا ہے جس سے یہ محسوس ہوتا ہے گویا قرضے ڈپازٹس سے دئیے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بینک کے reserves بڑھ جانے سے اس کی قرض دینے کی صلاحیت میں اضافہ ہوجاتا ہے مگر (ا) یہ اصول کسی ’ایک بینک ‘ کے لیے تو درست ہے البتہ ’بینکنگ بحیثیت مجموعی ‘ کے لیے قابل عمل نہیں کیونکہ بینکوں کے مجموعی ڈپازٹس میں اضافہ صرف اس وقت ممکن ہے جب مرکزی بینک نیا قرض جاری کرے، علی الرغم اس سے کہ یہ قرض ایک بینک کو دیا جائے یا حکومت کو (ب) اس کی وجہ ڈپازٹس کے پس پشت مخصوص مقدار میںreserves رکھنے کی قانونی پابندی سے ہے، اگر اس پابندی کو ختم کردیا جائے تو بینکوں کی قرض دینے کی صلاحیت لامحدود ہوجائے گی۔ پس ایسا مالیاتی نظام جہاں (۱) زر قانونی بطور کرنسی استعمال ہو اور (۲) بینکنگ نافذ العمل ہو، وہاں ہر ڈپازٹ سے ’ قبل‘ ایک قرض کا پایا جانا منطقی لازمہ ہے۔ پس ہم نظام بینکاری کے اصل تصور کو درج ذیل شکل سے سمجھ سکتے ہیں۔ اس تصویر میں یہ بات دکھائی گئی ہے کہ بینک قرض کی صورت میں قوت خرید کی منتقلی لوگوں کی بچتوں سے نکال کر نہیں دیتا بلکہ محض کمپیوٹر میں چند اعداد وشمار لکھ کر تخلیق کرلیتا ہے ۔ اس قرض پر بینک سود کماتا ہے۔ دوسری طرف بینک کھاتے داروں سے ڈپازٹس وصول کرتا ہے تاکہ بینک کو اپنی فرضی رسیدوں کی پشت پناہی کے لیے کچھ رقم ملتی رہے اور اس کا کاروبار محفوظ طریقے سے چلتا رہے۔ بینک اپنے کھاتے داروں کو رقم کی ادائیگی اسلیے کرتا ہے کہ وہ بینک کے ساتھ مخلص رہیں اور بینک ڈپازٹس کھلواتے رہیں۔
۲.۲: بینکاری تاریخی پس منظر میں
اس مقا م پر موجودہ بینکنگ کو اس کے تاریخی پس منظر میں سمجھنا نہایت ضروری ہے کیونکہ موجودہ بینکاری (بشمول اسلامی بینکاری) نظام اسی دھوکے اور جھوٹ پر مبنی ہے جو سولہویں اور سترہویں صدی کے صراف یورپ کے عیسائیوں اور دیگر اہل مذاہب کو دیا کرتے تھے۔ بینکنگ کے ارتقاء کو ہم چند ادوار (stages) میں تقسیم کرکے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں (یہ تقسیم واقعاتی ترتیب کے اعتبار سے نہیں بلکہ محض تفہیم کے نقطہ نظر اختیار کی گئی ہے، تاریخی طور پر یہ سارے ادوار اس ترتیب سے گزرے یا نہیں ایک الگ موضوع ہے)۔
پہلا دور: یورپ میں بینکنگ کا پہلا دور یہ تھا کہ لوگ اپنا سونا و چاندی (زر اصلی) بطور امانت صرافوں کے پاس رکھوا دیتے۔ یہ امانتیں عموماً حفاظتی و سفری ضرورتوں کی بناء پر جمع کرائی جاتی تھیں۔ صراف ان امانتوں کے بدلے ’صاحب امانت کے نام‘ رسیدلکھ دیتے جو اس بات کی ضمانت ہوتی تھی کہ رسید پر درج نامی شخص فلاں مقدار سونے کا مالک ہے جسے وہ جب چاہے صراف سے واپس لے سکتا ہے۔ ابتداً یہ رسیدیں بذات خود زر یا مال تصور نہیں کی جاتی تھیں، بلکہ محض ’قرض کی رسید‘ (debt receipts or promise of payment)سمجھی جاتی تھیں۔
دوسرا دور: رفتہ رفتہ یورپ میں ان رسیدوں پر اعتماد بڑھنے کے ساتھ لوگوں نے ہر دفعہ سونا نکال کر اشیا خریدنے کے بجائے براہ راست ان رسیدوں کو اشیا کے تبادلے کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔ دھیان رہے کہ اب بھی یہ رسیدیں محض ’قرض کی رسیدیں‘ ہی سمجھی جاتی تھیں مگر اب انہیں بطور ’سونے کے متبادل‘ آلہ مبادلہ استعمال کرنا شروع کردیا گیا۔ (یہیں سے ساری خرابی شروع ہوتی ہے جیسا کہ آگے واضح کیا جائے گا۔)
تیسرا دور: جب یورپی صرافوں نے دیکھا کہ لوگ عموماً رسیدوں ہی سے معاملات کر لیتے ہیں اور سونا نکلوانے کم ہی آتے ہیں تو انہوں نے جمع شدہ سونے کو سود پر ادھار دیکر پیسہ بنانا شروع کردیا۔ البتہ انہیں اپنی جاری کردہ رسیدوں کا کچھ فیصد سونا بہر حال اپنے پاس رکھنا پڑتا تھا تاکہ اگر کوئی صاحب سونا لینے آئیں تو ان کی یہ طلب فوراً پوری کی جا سکے۔ اس مقام پر آکر ایک اہم فرق رونما ہوجاتا ہے اور وہ یہ کہ ’سونے کے بدلے جاری کردہ قرض کی رسیدیں ‘ اور ’بعینہ وہی سونا‘ ’ایک ساتھ ‘ بطور آلہ مبادلہ استعمال ہونے لگے اور یوں یورپی صراف خفیہ طور پر زر کی رسد بڑھانے کا باعث بننے لگے۔ مثلاً فرض کریں تمام لوگوں نے مجموعی طور پر 100گرام سونا صرافوں کے پاس جمع کرایا جس کے بدلے 100 رسیدیں (فی رسید ایک گرام سونا کے حساب سے) جاری کردی گئیں۔ اگر پچاس گرام سونا قرض دے دیا گیا تو ایک طرف قرض خواہ سو رسیدیں (یعنی سو گرام سونا) بطور آلہ مبادلہ استعمال کررہے ہیں جبکہ دوسری طرف صرافوں کے مقروض پچاس گرام سونا بھی استعمال کررہے ہیں۔ یوں زر کی کل رسد بڑھ کر 150 گرام سونے کے برابر ہوگئی۔ اس مقام پر پہنچتے ہی گویا بینک پیدا ہوگئے (کہ بینک کا اصل کام زری ثالثی نہیں بلکہ بلا کسی عوض تخلیق زر ہے جیسا کہ واضح کیا گیا)۔ دوسرے لفظوں میں ’قرض کی رسید‘ (Promise of payment) اب دو افراد کا باہمی معاملہ (private contract) نہیں رہا بلکہ اسے بطور زر عام خریدا اور بیچا جانے لگا ۔
چوتھا دور: یہ روش آگے بڑھتی گئی اور لوگ زیادہ بڑی مقدار میں سونا یورپی صرافوں کے پاس جمع کرانے لگے۔ جب ان صرافوں نے غور کیا کہ چونکہ لوگ ہماری کل جاری کردہ رسیدوں کی ایک خاص مقدار (فرض کریں 20 فیصد) سے زیادہ سونا کبھی نکلواتے ہی نہیں نیز لوگ ہماری جاری کردہ رسید کی صورت میں بھی قرض وصول اور ادا کرنا قبول کرلیتے ہیں (کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ دوسرے لوگ ان رسیدوں کے بدلے اشیاء کی خریدوفروخت کے لیے تیار ہیں) تو انہیں یہ ترکیب سوجھی کہ سونے کے بجائے رسیدوں کی صورت میں قرض دینا شروع کیا جائے اور چونکہ لوگ جاری کردہ رسیدوں کی محض مخصوص مقدار کے برابر سونا نکلواتے ہیں تو جمع شدہ سونے سے زیادہ رسیدیں جاری کردینے میں کچھ حرج نہیں، لہٰذا انہوں نے ایسا کرنا شروع کردیا۔ فرض کریں اگر سب لوگوں نے مل کر 100گرام سونا جمع کروایا اور لوگ جاری کردہ رسیدوں کے بیس فیصد سے زیادہ سونا کبھی نہیں نکلواتے تو اس صورت میں صراف 100 گرام سونے کے بدلے 500 گرام ’تک‘ رسیدیں جاری کرسکتے (500 رسیدوں کا بیس فیصد یعنی 100 گرام سونا وہ اپنے پاس رکھتے، گویا 100 گرام سونا 500 رسیدوں کی پشت پناہی کرنے کے لیے کافی ہوسکتا تھا، مزید تفصیل ضمیمے میں دیکھئے)۔ دھیان رہے کہ ان پانچ سو رسیدوں میں سے صرف سو رسیدوں کے برابر سونا اکانومی میں موجود ہوتا جبکہ بقیہ چار سو قرض کی رسیدیں محض فرضی و جعلی طور پر وجود میں لائی جاتیں جن کے عوض ادا کرنے کے لیے صرافوں کے پاس کوئی اثاثہ موجود نہ ہوتا۔ اب نوعیت معاملہ میں یہ واضح تبدیلی آگئی کہ قرض کی جن رسیدوں (promise of payments)کو ’ذریعہ ادائیگی‘ (means of payment) کے طور پر استعمال کیا جانے لگا تھا، ابتداً جب تک ان کے پیچھے مساوی مقدار میں سونا موجود تھا، اس وقت تک یہ کسی ’حقیقی دعوے و وعدے‘ (factual claim and true promise of payment) کی رسیدیں تھیں، مگر اب یہ محض ’فرضی دعوی و وعدہ‘ (fictious claim and false promise of payment) بن کر رہ گئیں، ایک ایسا وعدہ جسے پورا کرنا عملاً ناممکن الوقوع تھا۔ ظاہر ہے 100 گرام سونا 500 رسیدوں کے بدلے کبھی ادا نہیں کیا جاسکتا۔ یعنی صرافوں کے کاروبار کا انحصار اس بات پر تھا کہ لوگ کبھی ان کی تمام رسیدوں کے برابر سونے کی طلب نہ کریں، جس دن ایسا ہوا صرافوں کے دھوکے کی پول کھل جائے گی۔
اس مقام پر ذہنوں میں یہ سوال آسکتا ہے کہ بینک رسیدیں لکھ کر اور پھر انہیں قرض پر دیکر سود کمانے کے لمبے چکر میں کیوں پڑ تے تھے، اس کے بجائے وہ ان رسیدوں کو براہ راست اشیاء و خدمات کی خریداری کے لیے بذات خود کیوں استعمال نہ کرتے؟ درحقیقت یہ حکمت عملی بارآور ثابت نہ ہوسکتی تھی کیونکہ خریدی گئی اشیاء کا مالک ان رسیدوں کے عوض بینک سے سونے کی طلب کرے گا اور بینکوں کے پاس یہ سونا ہوتا ہی کب تھا۔ چونکہ اس طرح سے خرچ کی گئی رسیدیں گھوم کر پھر انہی بینکوں کے سامنے سونے کی طلب کے ساتھ آنا تھیں لہذا بینکوں کے لیے اپنی ہی تخلیق کردہ رسیدیں خود استعمال کرنا اپنے ہی پیر پر کلہاڑی مارنے کے مترادف تھا۔ پس بینکوں کے لیے ضروری تھا کہ وہ ان رسیدوں (جو اس وقت زر کی حیثیت اختیار کر چکی تھیں) کو سود کے بدلے قرض پر دے کیونکہ اس کا فائدہ یہ تھا کہ جب بینکوں کا قرض بذات خود ان رسیدوں کی ہی شکل میں ادا کیا جاتا تھا تو رسیدوں کی صورت میں تخلیق کیا گیا زر خود بخود ختم ہوجاتا اور اس کا کوئی ثبوت باقی نہ رہتا جبکہ بینک اپنا ’نفع‘ کھرا کرلیتا۔ اسی طرح بینکوں کے لیے یہ بھی ممکن نہ تھا کہ وہ شرکت وغیرہ کی بنیاد پر قرض دیکر کاروبار کرتے کیونکہ ان کا کاروبار پہلے ہی ایک بڑے خطرے (risk) سے دو چار تھا کہ وہ اصل زر (سونے) کی واپسی کے وعدہ پر اصل سے بہت زیادہ فرضی زر تخلیق کئے بیٹھے تھے اور یہ وعدہ نبھانا انکے لیے ممکن نہ تھا۔ شرکت پر کاروبار کرنے کا مطلب اپنے اس کاروبار کو دہرے خطرے سے دوچار کرنے کے مترادف ہوتا کہ اگر ان قرضوں پر نقصان ہوا تو بینک اس نقصان کا ذمہ دار ہوگا اور جو سونے کی شکل میں قابل ادا ہوگا۔ اس لیے بینک سودی قرضے دیتے جن سے ایک طرف انکا نفع یقینی ہوجاتا اور دوسری طرف اصل بھی محفوظ رہتا۔ اس اصل کو مزید محفوظ بنانے کے لیے بینک قرض کے برابر شے بطور رہن رکھوانے کی شرط بھی رکھتے۔ اس طرح یہ ایک محفوظ و مامون کاروبار کی صورت اختیار کرتا چلا گیا (۱۷) ۔
یورپ کے اندر اس سارے عمل کے نتیجے میں بینکاری ایک انتہائی ’نفع بخش‘ (بصورت سود) کاروبار بن گیا کیونکہ معاملہ گویا یہ تھا کہ صرافوں کے ہاتھ زر تخلیق کرکے پیسہ کمانے کا دھندہ آگیا تھا۔ حالات کا اندازہ لگا کر دیگر چالاک لوگوں نے بھی اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کے لیے یہ کاروبار شروع کردیا۔ اب یورپی صراف قرض کی رسیدیں ’قرض خواہ کے نام‘ (bearers name) کے بغیر ’اپنے نام سے جاری کرتے‘ تاکہ ان کی قبولیت مزید بڑھ جائے (جیسے آج کل حکومت وقت کا نوٹ ہوتا ہے جس پر وصول کنندہ کا نام تحریر نہیں ہوتا)۔ اس کاروبار کے پھیلاؤ اور رسیدوں کے عام استعمال میں آنے سے اکانومی میں قرض پر مبنی زر (debt money) بڑھنے لگا اور آہستہ آہستہ معاشرے صرافوں (قدیم بینکوں) کے مقروض ہونے لگے (کیونکہ بینک کی جاری کردہ رسید لازماً کسی نہ کسی پر قرض ہی ہوتی ہے)۔ جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا کہ بینکوں کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ اپنی جاری کردہ رسیدوں کا کچھ فیصد سونے کی صورت میں سنبھال رکھیں تاکہ لوگوں کی سونے (آج کل کے محاورے میں Cash) کی روز مرہ ضروریات پوری کی جاس کیں۔ جب لوگ زیادہ مقدار میں بینک سے سونا نکلواتے تو بینک مصیبت میں پھنس جاتے اور بینک اس طلب کو دوسرے بینکوں سے سونا قرض پر اٹھا کر پورا کرتے۔ یورپ و امریکہ میں اٹھارویں اور انیسویں صدی میں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں جنہیں "Note Wars" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، یعنی ایک بینک اپنے مد مقابل بینک کی زیادہ سے زیادہ رسیدیں اکھٹی کرکے اس کے سامنے ایک ہی دن میں ادائیگی کے لیے پیش کرنے کی کوشش کرتا تاکہ دوسرا بینک دیوالیہ ہوجائے اور اس کے لیے میدان صاف ہوجائے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ یہی وہ دور ہے جب یورپ میں سود کے جواز کی فکری و علمی بنیادیں نیز اس کے ’مذہبی متبادل‘ فراہم کرنے کی روش عام ہوئی، گویا سود کے جواز ومتبادل کا مسئلہ کسی علمی و فطری ارتقاء کی وجہ سے نہیں بلکہ بینکنگ کا ادارہ عام ہوجانے کے بعد پیدا ہوا۔ اس سلسلے میں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ آج اسلامی معاشیات و بینکاری کے نام پر جس طرح سرمایہ دارانہ اداروں کی تھوک کے حساب سے اسلام کاری کی مہم جاری ہے بعینہہ یہی عمل عیسائی یورپ میں ’اصلاح مذہب‘ کا نعرہ لگانے والے حضرات کرگزرے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں گروہوں کے طریقہ واردات اور دلائل میں بھی حیرت انگیز طور پر یکسانیت پائی جاتی ہے (۱۸) ۔
پانچواں دور: یہ دور نجی سطح پر جاری بینکنگ کے حکومتی تحویل و نگرانی میں آکر مرکزی بینک میں تبدیل ہوجانے سے تعلق رکھتاہے۔ یہ سوال کہ یہ عمل کس طرح رونما ہوا مختلف معیشت دان اس کے مختلف جواب دیتے ہیں۔ نیوکلاسیکل طرز کے معیشت دان جو ہر سرمایہ دارانہ ادارتی تنظیم کو فطری ارتقاء کا نتیجہ قرار دیتے ہیں انکے خیال میں بینکاری کا یہ ارتقاء بھی ایک رضاکارا نہ فطری عمل کا نتیجہ تھا۔ یعنی نظام بینکاری بحیثیت مجموعی جس خطرے سے دوچار تھا اسے اس سے محفوظ رکھنے کے لیے چند اصول و اصلاحات (rules and regulations) کا فریم ورک وضع کرکے نافذ کرنا ضروری تھا اور ظاہر ہے یہ کام ریاستی جبر کے تحت ہی ممکن تھا۔ انکے نزدیک مرکزی بینکنگ اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے سامنے آئی، یعنی جس طرح دیگر سرمایہ دارانہ حکومتی ادارے مارکیٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے حکمت عملی وضع کرتے ہیں اسی طرح مرکزی بینک کا کام نجی بینکوں کی کارگزاری (operations) کو کنٹرول کرنے کے لیے زری پالیسی (monetary policy) بنانا ہوتاہے۔ مگر تاریخی شواہد اس ’ارتقائی تعبیر ‘ کا ساتھ نہیں دیتے۔ دیگر معیشت دانوں کے مطابق (۱۹) یورپ میں مرکزی بینک کی صورت اس وقت پیدا ہوئی جب قوم پرستانہ سرمایہ دارانہ ریاستوں کے بادشاہوں کو اپنی طویل جنگی مہمات کے اخراجات پورا کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ ان بھاری اخراجات کو پورا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہوسکتا تھا کہ عوام الناس پر بھاری ٹیکس عائد کردئیے جائیں، مگر جنگی حالات کی ماری ہوئی عوام ان ٹیکسوں کا بوجھ اٹھانے سے قاصر تھی۔ ان حالات میں بادشاہوں کو یہ ترکیب سوجھی کہ بڑے بڑے بینکوں کو نجی تحویل میں لیکر انہیں مرکزی بینک کا درجہ دے دیا جائے اور بینکوں کی رسیدوں کو سرکاری نوٹوں میں تبدیل کرکے نوٹ چھاپ چھاپ کر اپنے اخراجات پورے کرنا شروع کردئیے جائیں۔ گویا اس موقع پر جھوٹ اور فریب پر مبنی نظام بینکاری کو قانونی سند عطا کردی گئی اور پہلے جو بدمعاشی و ظلم نجی سطح پر عام بینکار کیا کرتے تھے اب اسے ریاستی پشت پناہی فراہم کردی گئی۔ ابتداً ان نوٹوں کی پشت پر سونے کی ایک مخصوص مقدار رکھنا ضروری سمجھی جاتی تھی مگر گردش زمانہ اور حالات کی تبدیلی کے تحت اس خانہ پوری سے جان چھڑا لی گئی اور اب جس چیز کو ’سرکاری نوٹ‘ کہا جاتا ہے وہ محض ’زر قانونی‘ (legal tender) کی حیثیت رکھتا ہے جسکے پس پشت کسی قسم کا کوئی اثاثہ موجود نہیں ہوتا بلکہ یہ محض ایک ’قرض کی رسید‘ ہے جو مرکزی بینک حکومت کو اپنے اخراجات وغیرہ پورا کرنے کے لیے جاری کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید ماہرین معاشیات موجودہ مالیاتی نظام پر مبنی اکانومی کو Barter نہیں مانتے بلکہ وہ اس کا تجزیہ Credit economy کے تحت کرتے ہیں۔ Barter اکانومی وہ ہوتی ہے جہاں اشیاء کی لین دین مساوی قدر کی اشیاء سے ہوتی ہو اور اس کے لیے ضروری ہے کہ جس شے کو بطور آلہ مبادلہ یا زر استعمال کیا جائے وہ ’حقیقی قدر‘ (نہ کہ قانونی قدر یا Token value ) کی متحمل ہو جیسے کہ سونا یا چاندی وغیرہ (۲۰) ۔
نظام بینکاری کے ارتقا سے متعلق یہ تفصیلات جاننے کے بعد اس حوالے سے مولانا تقی عثمانی صاحب کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیے :
’’لوگ اپنا سونا بطور امانت صرافوں کے پاس رکھ دیتے تھے اور سنار رسید لکھ دیتے تھے، پھر رفتہ رفتہ ان رسیدوں سے ہی معاملات شروع ہوگئے۔ لوگ اپنا سونا واپس لینے کم آتے تھے تو یہ صورتحال دیکھ کر صرافوں نے سونا قرض دینا شروع کردیا۔ پھر جب یہ دیکھا کہ لوگ عموماً رسیدوں سے ہی معاملات کرتے ہیں تو صرافوں نے بھی قرض خواہوں کو سونے کے بجائے رسیدیں دینا شروع کردیں۔ اس طرح بینک کی صورت پیدا ہوئی۔‘‘ (ص: ۱۱۵)
ہو سکتا ہے مولانا نے یہ مختصر انداز بیان محض ’سمندر کو کوزے میں بند کرنے‘ کی خاطر اپنا یا ہو، مگر اس تحریر کو پڑھنے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مولانا بینکاری نظام کو کسی قسم کے جھوٹ، فریب اور دھوکہ دھی پر مبنی نہیں سمجھتے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس ’جھوٹ اور فریب‘ کا ’اسلامی متبادل‘ ممکن سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر (اور ضمیمے میں) واضح کیا گیا کہ موجودہ نظام بینکاری درحقیقت اسی جھوٹ اور فریب پر مبنی ہے جو پچھلے دور کے صراف عوام الناس کو دیا کرتے تھے، فرق صرف یہ ہے کہ پہلے اسے دھوکہ سمجھا جاتا تھا اور اب قانون کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ مگر یہ بات بالکل بدیہی ہے کہ کسی باطل عمل کو قانونی سند عطا کردینے سے وہ ’حق‘ نہیں بن جا تا۔ اگر آج تمام لوگ اپنے ڈپازٹس میں جمع شدہ رقوم کی وصولی کے لیے بینکوں کا دروازہ کھٹکھٹانے لگیں تو بینکوں کا جھوٹ اور فریب روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گا۔
خلاصہ مباحث
آگے بڑھنے سے قبل ہم اب تک کے مباحث کا خلاصہ بیان کیے دیتے ہیں:
۱۔ بینک کو ’زری ثالث ‘ سمجھنا غلط فہمی اور دھوکے کے سوا اور کچھ نہیں ۔
۲۔ حقیقتاً اور اصلاً بینک زر کی لین دین نہیں بلکہ اس کی تخلیق کا کام سر انجام دیتا ہے ۔
۳۔ بینک جو قوت خرید و زر تخلیق کرتا ہے، وہ ’قرض‘ کی صورت میں ہوتا ہے، اسی لیے مروجہ زر کو debt money (قرض پر مبنی زر ) کہتے ہیں ۔
۴۔ بینک کے قرض بچتوں کے برابر ہونا نا ممکن الوقوع شے ہے ۔
۵۔ بینک قرضے ڈپازٹس سے نہیں دیتا بلکہ اس کے برعکس اس کے ڈپازٹس قرضوں سے وجود میں آتے ہیں ۔
۶۔ بینکنگ کا اصل دھندہ بلا کسی عوض قرض پر سود (اور اسلامی بینکوں کا ’سود نما‘ نفع) کمانا ہے۔
۷۔ بینکنگ اصلاً جھوٹ، فریب اور چال بازی پر مبنی ہے ۔
۸۔ مرکزی بینکنگ کا مقصد جھوٹ و فریب پر مبنی زری نظام کو محفوظ طریقے سے چلانے کے لیے حکمت عملی تیار کرنا ہوتا ہے ۔
۹۔ مرکزی بینک جو نوٹ جاری کرتا ہے وہ محض قرض کی رسید (promise of payment) ہے ۔
۱۰۔ قرض کی یہ رسید ان معنوں میں جعلی ہے کہ اسے جاری کرنے سے قبل اس کی پشت پر ادائیگی کے لیے کوئی اثاثہ موجود نہیں ہوتا ہے۔
حواشی
۱۳۔ نیوکلاسیکل مکتبہ ہائے فکر کی ایک بنیادی خامی موجودہ زر کو exogenous فرض کرکے سرمایہ دارانہ معیشتوں کا تجزیہ کرنا ہے۔ یہ مفروضہ علم معاشیات کے تقریباً ہر جدید نظریے میں رد کیا جا چکا ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ یا مروجہ زر ایک endogenous (داخلی) عنصر کی حیثیت رکھتا ہے جس کی مقدار کا تعین اشیا کی لین دین کے لیے کی جانے والی طلب سے ہوتا ہے ، دیکھئے Post-Keynasian Theories، مثلاً:
- Philip Arestis and Thanos Skouras کی کتا ب Post Keynesian Economic Theory
- Louis Philippe and Sergio Rossi کی کتا ب Modern Theories of Money
- Philip Arestis and Malcom Sawyer کی کتا ب A Handbook of Alternative Monetary Economics
۱۴۔ مشہور معیشت دان Schumpeter نے یہ بات 1934 میں اپنی کتاب Theory of Economic Development, Chap 3 part I میں بیان کردی تھی
۱۵۔ نیوکلاسیکل نظریہ معاشیات میں بچتوں کو سرمایہ کاری سے قبل فرض کرنے کی کوئی علمی بنیاد موجود نہیں کیونکہ ان کے نظریہ تقسیم دولت (جسے marginal productivity theory کہتے ہیں ) کے مطابق تمام ذرائع پیداوار کو ان کی اجرت وغیرہ پیداواری عمل مکمل ہونے کے بعد ادا کی جاتی ہے، لہٰذا ان نکے ماڈل میں پیداواری عمل شروع کرنے سے قبل کسی سرمایہ کاری کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اسکے برعکس کلاسیکل مفکرین (جیسے ریکارڈو اور مارکس) وغیرہ کے خیال میں اجرتیں پیداواری عمل مکمل ہونے سے قبل ادا کی جاتی ہیں لہٰذا ایک ابتدائی سرمایہ کاری فرض کرنا لازم ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف کلاسیکل مفکرین تقسیم دولت کی marginal productivity theory کو تسلیم نہیں کرتے (جو نیوکلاسیکل مکتبہ فکر میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے) اور دوسری طرف انکے خیال میں بچت اور سرمایہ کاری معیشت کے دو علیحدہ ایجنٹ (بالترتیب عام صارفین اور کاروباری طبقہ) نہیں کرتے جیسا کہ نیوکلاسیکل مفکرین کا خیال ہے بلکہ یہ دونوں کام ایک ہی ایجنٹ یعنی سرمایہ کار کرتے ہیں
۱۶۔ تمسکات (securities) بھی فائنانشل دعوے ہوتے ہیں جنہیں عام طور پر کاروباری و مالیاتی ادارے جاری کرتے ہیں اور ان کا مقصد قرض پر رقم کا حصول ہوتا ہے ۔
۱۷۔ ظاہر ہے اس عمل کے نتیجے میں تقسیم دولت کے نظام پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہوئے کیونکہ اب قرض کی صورت میں دولت کا جھکاؤ ان لوگوں کی طرف ہوگیا جو پہلے سے اتنے امیر ہوں کہ قرض کی مطلوبہ رقم سے زیادہ رہن جمع کرواسکتے ہوں۔ بینکنگ کی اسی حکمت عملی پر یہ طنزکسا گیا ہے کہ ’بینک آپ کو قرض تب دے گا جب پہلے آپ یہ ثابت کردیں کہ آپ کو اس قرض کی ضرورت نہیں‘۔ موجودہ دور میں دولت کی ہوش ربا غیر منصفانہ تقسیم در حقیقت نتیجہ ہے اس ظلم کا جو صدیوں تک نظام بینکاری کے نام پر قانوناً لوگوں پر روا رکھا گیا۔ افسوس کہ مجوزین کو اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے اسی بینکاری کا حصہ بن جانے کی فکر لاحق ہے ۔
۱۸۔ یہ تمام تفصیلات نفس موضوع سے متعلق نہیں، اس کے لیے دیکھئےTawney کی کتاب Religion and the Rise of Capitalism (خصوصی طور پر باب نمبر دو The Continental Reformers )
۱۹۔ دیکھئے Malcolm Sawyer کی کتاب The Political Economy of Central Banking
۲۰۔ Barter economy، monetary economy اور credit economy کا فرق سمجھنے کے لیے دیکھئے Augusto Graziani کی کتاب The Monetary Theory of Production, Chap 3
(جاری)