دعوت الی اللہ کا فریضہ اور ہمارے دینی ادارے (۲)

مولانا محمد عیسٰی منصوری

دعوت میں کوتاہی کے ناقابل تلافی نقصانات

قرون اولیٰ کے بعد من حیث الامت دعوت میں کوتاہی سے جو نقصانات ہوئے، ان کی تلافی کبھی نہیں ہوسکتی۔ مثلاً برطانیہ کے بادشاہ جان لاک لینڈ (۱۱۶۷ء --۱۲۱۶ء) جس نے مشہور میگنا کارٹا(منشورآزادی) دیا، جب اس کے پادریوں سے اختلافات بڑھے تو اس نے ۱۲۱۳ء میں مراکش واسپین کے حکمران ناصر لدین اللہ کے پاس سفارت بھیجی جس کے ارکان میں ٹامس ہارڈینٹن، رالف فرنکسوس، ماسٹررابرٹ وغیرہ شامل تھے۔ انہوں نے شاہِ انگلستان کی طر ف سے پیغام دیا کہ عیسائیت پر سے میرا اعتقاد ختم ہو گیا ہے، اگر آپ پادریوں کے مقابلے پر میری فوجی مدد کریں تو میں اپنی پوری رعایا کے ساتھ مسلمان ہونے کو تیار ہوں۔ سفیروں نے مزید کہا کہ ہم انگلستان کے باشندے لاطینی، انگریزی، فرانسیسی زبانوں کے علاوہ مختلف صلاحیتوں کے ساتھ یورپ میں اسلام پھیلائیں گے، مگر شاہِ مراکش ناصر لدین اللہ نے پیش کش ٹھکرادی۔ ناصرلدین اللہ کو یہ ٹھکرانا بہت مہنگا پڑا۔ نتیجتاًناصرلدین اللہ کی زندگی ہی میں اس کے چھ لاکھ کے لشکر جرّار کو فرانس، انگلینڈ، اسپین کی افواج نے شکست فاش دے کر اسپین کا بڑاحصہ چھین لیا۔ اس طرح ایک عظیم امکان بدترین انجام میں بدل گیا۔ حالیہ دنوں میں مشہور اخبار ٹائمز نے لکھاتھا کہ تیرہویں صدی کے ابتدا میں امکان پیداہوگیا تھا کہ انگلستان خالص مسلم ملک بن جاتا اور برطانیہ میں قرآن کا حکم نافذ ہوتا۔

اسی طرح شہنشاہِ روس ولادیمر اول (۹۵۶ء -۱۰۱۵ء) کا اعتقاد بت پرستی سے اٹھ گیا تو اس نے مسلمان علما کو بلایا اور اسلام کی فطری تعلیمات سے دلچسپی ظاہر کی، لیکن کہا کہ میں شراب کا عادی ہوں، اسے چھوڑنامشکل ہے۔ اس مسئلے میں مجھے رخصت دی جا ئے، باقی سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہوں۔ علما رخصت دینے پر راضی نہیں ہوئے۔ اس کے بعد عیسائی علما نے دانش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے رخصت دے دی تو اس نے عیسائیت سے اصولی طور پر مطمئن نہ ہونے کے باوجود مسیحیت قبول کرکے پوری مملکت کو بتوں خالی کروا کر اپنی ساری رعایا کو عیسائی بنادیا۔ ان علما کو اسلام کا مسئلہ معلوم تھا، لیکن وہ شاید دعوت کی اس حکمت سے ناواقف تھے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ثقیف طائف کو زکوٰۃ وجہاد وغیرہ سے وقتی رخصت عطا فرما کر اختیار کی تھی اور فرمایا تھا کہ جب اسلام قبول کر لیں گے تو زکوٰۃ بھی دیں گے، جہاد بھی کریں گے۔ اسی طرح ۱۸۹۱ء میں جاپان کے شہنشاہ میجی نے خلافت عثمانیہ کے فرمانروا سلطان عبدالحمید ثانی کو لکھا کہ ہم اتحادی ہیں، ہماری مصلحت یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے قریب ہوں تاکہ ہمارے درمیان معنوی رشتہ قائم ہوجائے اور فرمائش کی کہ اسلام کو ان کے ملک میں بطور تحفہ بھیجا جائے جیسے کسی دور میں بدھ مذہب بطور تحفہ بھیجا گیا تھا۔ سلطان عبدالحمید ثانی نے ترکی کے شیخ الاسلام اور بڑے علما کے سامنے یہ مسئلہ پیش کیا۔ علما کسی بات پر متفق نہ ہوسکے، باہم مختلف ہو گئے۔ بالآخر سلطان نے شکریہ کا خط لکھا اور کہا کہ ہم بعد میں کبھی (اسلام) کے مبلغین بھیجنے کی کوشش کریں گے۔ آج جاپان صنعت وٹیکنالوجی کا بے تاج بادشاہ ہے، دنیا کا سب سے بڑا معطی (اقوام عالم کو امداد دینے والا) اور اقوام متحدہ کا سب سے زیادہ خرچ اٹھا نے والا ملک اور دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت ہے۔ ان ساری ترقیوں کے باوجود واضح مقصد حیات یا قابل برآمد نظریہ نہیں رکھتا۔ جاپانی وزارت خارجہ کے ایک قابل افسر ہڈیاکی کا سے (HIDEAKKASE) نے کہا ہمارے پاس کچھ آدرش (نظریات) ہونے چاہییں جس میں عالم انسانی کے لیے اپیل ہو۔ اگر ہم دعوت کے ان تینوں مواقع میں سے کسی ایک سے بھی فائدہ اٹھالیتے تو شاید آج دنیا کی تاریخ مختلف ہوتی۔ یہ عظیم نقصان دعوت کے مزاج وذہنیت کھودینے کا نتیجہ ہے۔

قرون اولیٰ کے بعد ملت اسلامیہ نے دعوت کو فریضہ سمجھنا چھوڑ دیا

قرون اولیٰ کے بعد عام مسلمان تو درکنار، عام طور پر علماء کرام نے دعوت سے اغماض برتا، ہندوستان کے آٹھ سو سالہ مسلم دور میں علماء کرام یا تو شاہی درباروں سے منسلک ہوکر اپنی دنیوی ضروریات پوری کرنے میں لگے رہے یا اپنے حجروں میں بیٹھ کر درسی کتب پر شروحات وحواشی چڑھاتے رہے یا انہوں نے خود کو مسلمانوں کی ضروریات دین نماز، روزہ ،اور فضائل ومسائل بتانے تک محدود رکھا ،دعوت واشاعت اسلام پر بہت کم توجہ دی گئی،اگر دور غلامی (برٹش دور)میں بھی ہمیں ہوش آجاتا اور ہم آنے والے دور کا اندازہ کرکے اپنی صلاحیت، طاقت اور وسائل برصغیر کے اقوام کو اللہ کا پیغام پہنچانے میں لگائے ہوتے تو آج بر صغیر کا نقشہ مختلف ہوتا ، نہ ملت اسلامیہ ہند تین ٹکڑوں میں بٹتی نہ ایک تہائی سے زیادہ حصہ بدترین دشمن برہمن کے یہاں یرغمال بنتا ،تقریباً ہم نے پونے دوسو سال تک ملک کی آزادی کی جو جنگیں لڑیں ان میں کیسی کیسی صلاحیت وصفات والے ہزاروں اکابر علماء ومشائخ نے جام شہادت نوش کیا ،پھانسی پر چڑھے قید وبند اور ہر طرح کے مصائب سے گزرے اس سارے جہاد کا رزلٹ یہ ہے کہ وہ برہمن جس کی کبھی کوئی حیثیت نہیں تھی آج عالمی صہیونیت وصلیبیت کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے پوری دنیاسے اسلام اور مسلمانوں کو تباہ کرنے پر کمر بستہ ہے ہماری پوری چودہ سو سالہ تاریخ کا مطالعہ بتاتاہے دعوت کے سوا جہاں کہیں ہمارا جان ومال،وسائل وصلاحیتیں صرف ہوئیں اس کا نتیجہ ہمارے حق میں ہر اعتبار سے تباہ کن ثابت ہوا۔

برصغیر میں مسلم اقتدار کے بعد کی صورت حال

بر صغیر سے مسلمانوں کا اقتدار ختم ہونے کے بعد زوال وتباہی دن بدن بڑھتی گئی حتیٰ کہ اس کا اندیشہ پیدا ہوگیا کہ بر صغیر میں اسپین کی تاریخ نہ دہرادی جائے ان ناز ک حالات میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور آپ کے چاروں نامور صاحبزادگان اور سید احمد شہید بریلوی ؒ اور شاہ اسماعیل شہید ؒ کی ہمہ جہت کاوشوں کی بدولت ملت اسلامیہ ہند میں قرآن وسنت کی تعلیم اور دعوت وجہاد کی روح زندہ ہونی شروع ہوئی، پھر حضرت گنگوہی ؒ حضرت نانوتویؒ حضرت شیخ الہندؒ اور ان اکابر سے وابستہ حضرات کی کوششوں نے حالات کو کچھ اور سمبھالا دیا ،جگہ جگہ تعلیم وتعلم اور ذکروفکر کے چراغ روشن ہونے لگے، پھر بیسویں صدی میں شیخ حسن البنّا، ؒ مولانا الیاسؒ ، مولانا ابوالحسن علی ندویؒ اور مولانا مودودیؒ کی دعوتی سرگرمیوں کی بدولت ہماری تعلیم یافتہ نئی نسل، مغربی تہذیب وتمدن مغربی فلسفہ میں پوری طرح ضم ہوکر ختم ہونے سے بچ گئی ،بلاشبہ ان میں سے بعض حضرات نے فکری طور پر ٹھوکریں بھی کھائی ، غرض جب کبھی ملت اسلامیہ پرنازک حالات آئے، تو دعوت ہی سے حالات اسلام کے حق میں پلٹے ایک ایک داعی (شیخ حسن البنّا، مولانا الیاس، مولاناابوالحسن ندوی، ؒ مولانا مودودیؒ )کی بدولت سیکڑوں ہزاروں ادارے وجودمیں آئے ، دوسری طرف تعلیمی ودینی اداروں کے لاکھوں کروڑوں پڑھنے والوں میں سے عموماً اللہ تعالیٰ نے صرف انہی لوگوں سے کام لیا جو کسی داعی یا دین کا درد کڑھن رکھنے والی صاحب نسبت شخصیت سے وابستہ ہوئے۔

مذہب انسان کی فطری ضرورت ہے

مذہب ہرانسان کی فطری ضرورت ہے جس طرح ایک بچہ ایر پورٹ یا اسٹیشن پر اپنی ماں سے بچھڑ جائے آپ اسے کھلونے چاکلیٹ ٹافی سب کچھ دیدیں لیکن جب تک اسے ماں نہ ملے گی وہ روتا تڑپتا رہے گا، اسی طرح انسان اپنے خالق سے بچھڑ کر کبھی چین وتسکین نہیں پاسکتا،اسے سکون قلب سے جینے کے لیے ضرورت ہے، ایک اطمینان بخش نظریۂ حیات (آئڈیالوجی )کی ضرورت انسانی فطرت ہے، وہ کوئی ایسی آئڈیا لوجی چاہتاہے جس کے ذریعہ کائنات کی اور اپنی زندگی کی توجیہ کر سکے ،مقصد حیات کو پاسکے، خود کو تسکین دے سکے۔

موجودہ دور کا سب سے بڑا مسئلہ نظریاتی خلا ہے

رشیا کی آئڈیالوجی (کمیونزم )وقتی اور فرضی تسکین تھی جو جھوٹی اور غلط ثابت ہوچکی ہے، اور اس کے بعد سرمایہ دارانہ نظام دنیا کے معاشی بحران میں دوسری آئڈیالوجی یعنی کپیٹل ازم کا نظریہ بھی منہدم ہوچکا،اب دنیا میں زبردست نظریاتی خلا پیداہوگیا۔ ۱۹۹۱ء میں سویت یونین کا انہدام اور ۹؍جنوری ۱۹۹۲ء میں امریکی صدر جورج بش کا ٹوکیو(جاپان)میں ڈنر کے وقت کرسی سے گرپڑنے کے وقت اس دن کے ٹائمس آف انڈیا نے (BUSH COLLAPSES AT TOKYO RECEPTION)کی سرخی لگائی۔ گویا نئی صدی (اکیسویں صدی) شروع ہونے سے پہلے روس کے حقیقی اور امریکہ کے علامتی انہدام نے دنیا میں نظریاتی خلاء کا اعلان کردیا تھا، اس کوصرف اور صرف اسلام ہی پُر کرسکتاہے،کیونکہ علوم کے ارتقا اور جدید سانس نے اسلام کی حقانیت کو پوری طرح ثابت کردیا ہے ، مراکش کے مشہور کرسچن اسکالر ڈاکٹر مورس بوکا ئی نے اپنی معرکۃ الآرا کتاب ’’بائبل قرآن، اور سائنس‘‘ میں قرآن اور بائبل کے سینکڑوں سائنسی بیانات کوجدیدسائنسی اور علمی تحقیقات کی کسوٹی پر پرکھ کر ثابت کیا ہے کہ جدید سائنس اور علمی تحقیقات کی روسے قرآن کے سینکڑوں سائنسی بیانات میں ایک بات بھی غلط ثابت نہ ہوسکی ،اس کے برخلاف بائبل،ہرسائنسی بیان، جدید علمی تحقیق اور سائنس نے غلط ثابت کرکے رد کر دیا۔ یہ اس مذہب (کرسچن یاعیسائیت)کی بات ہے جو اسلام سے صرف ۵۷۰ سال پہلے کا ہے۔ یہودیت، بدھ ازم اور ہندومت جو عیسائیت سے ہزاروں سال قبل کے ہیں، جدید سائنسی وعلمی دور میں ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں ٹھہر سکے۔ یہ مذہب قرآن کے الفاظ میں اساطیرالاولین یعنی پچھلی من گھڑت کہانیوں کا پلندہ ہیں۔ قرآن کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک باشعور شخص محسوس کرتاہے کہ وہ کوئی کتاب نہیں بلکہ اپنی فطرت پڑھ رہا ہے۔ اسے قرآن فطرت کی آوازیا پکار محسوس ہوتی ہے، اس لیے اس کا انکار نہ صرف اپنی فطرت یعنی خود اپنی نفی کرناہے۔ کون ہے جو خود اپنی نفی کا متحمل ہوسکے! جدید علوم کی روشنی میں آج اسلام ہر شخص کے لیے ایساہی قابل قبول ہے جیسے پیاسے کے لیے پانی۔

ہرکچے پکے گھر میں اسلام کے داخلے کی پیشین گوئی کاوقت آپہنچاہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشین گوئی ہے: لا یبقی علی ظہر الارض بیت مدرٍ ولا وبرٍ الا ادخل اللہ کلمۃ الاسلام (مشکوٰۃشریف) روئے زمین پر کوئی کچا پکا گھر ایسانہیں بچے گا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس میں اسلام کا کلمہ داخل کر دے گا۔ کچھ عرصہ پہلے تک جدید ترین الیکٹرونک میڈیا کے باوجودکمیونسٹ بلاک (عظیم سویت یونین) میں اسلام کاپیغام پہونچنا بظاہرناممکن نظر آرہاتھا، مگر سوویت امپائر کے انہدام کے بعد لگتاہے وہاں کی سرزمین اسلام کی کہیں زیادہ پیاسی ہے، چنانچہ برطانیہ کے اخبارڈیلی نائمز نے ۱۲؍مارچ ۱۹۹۰ء کو روس کے بارے میں ایک بالتصویر رپورٹ چھاپی تھی جس کا نہایت بامعنی عنوان رکھا۔ (Karl Marx Makes Room for Mohammad)کارل مارکس، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جگہ خالی کرتاہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس پیشین گوئی کے پوراہونے کا وقت قریب آگیا ہے۔ آج کا انسان سیاسی مذہب کے بجائے روحا نی مذہب کا متلاشی ہے جس سے سکونِ قلب میسر آئے۔ عصر حاضر کی نئی نسل، خواہ وہ عیسائی، بدھسٹ، ہندوہو، خوب جانتی ہے کہ چرچ اور مندروں کے اسٹیچو (مورتیاں) خدا نہیں ہیں۔ خداوہ ہے جو نہ گرے نہ ٹوٹے۔ دنیا میں بے شمار افراد اذان کے الفاظ کا ترجمہ معلوم کرکے یا نماز پڑھنے کا عملی منظردکھ کر یاقرآن کی کسی آیت کا ترجمہ پڑھ کر مسلمان ہو رہے ہیں۔ یورپ کے مشہور ادیب واسکالر جارج برنارڈشا نے بہت پہلے پیشین گوئی کردی تھی کہ اسلا م عقل اور فطرت انسانی کے عین مطابق واحدقائم شدہ مذہب ہے اس کی تعلیمات سے کوئی ذہین تعلیم یافتہ شخص انکار نہیں کرسکتا،جدید تعلیم یافتہ ذہن کے لیے اسلام قبول کرنے میں ایسی کوئی رکاوٹ نہیں کہ اگر وہ اسلام کو لیتا ہے تو عقل وسائنس کو چھوڑنا پڑے۔ جارج برنارڈ شا نے تقریباً ایک صدی پہلے کہہ دیاتھا کہ جلد اسلام عظیم سیلاب بن کر تیزی کے ساتھ یورپ کی انسانی آبادیوں میں داخل ہوگا اور مغر ب کے لیے مستقل کا مذہب اسلام ہی ہوگا۔ اسی طرح افریقہ میں عیسائی مشنریوں کی کوششیں پوری طرح پھیل چکی ہیں، لیکن وہاں اسلام تیزی سے اپنی جگہ بنارہا ہے۔ ابھی چندسال پہلے عالمی عیسائی مشنریوں نے ایک چھوٹے سے پس ماندہ افریقی ملک لیبریا (LIBERYA)کی راجدھانی منورویا (MONROVIYA) میں ایک عالمی مشنری نے وہاں کے دس لاکھ مسلمانوں کو کرسچن بنانے کے لیے پانچ ہزار افراد کو اس قدر تیارکیا کہ وہ وہاں کی نصف درجن قبائلی زبانیں بھی روانی سے بولتے تھے۔ انہیں خاموشی سے مسلم قبائل کے درمیان بسادیاگیا۔ وہاں کے علما نے سمجھداری سے کام لیا، انہیں مذاہب کانفرنسوں اور علمی مباحثوں کے ذریعہ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کرایا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یہ پانچ ہزار عیسائیت کے داعی ومبلغین مسلمان ہوکر اسلام کے مبلغ بن گئے۔

جدید علمی و سائنسی دور کا مذہب

قرآن انسانیت کے نام خالق کائنات کا آخری پیغام ہے جس طرح خالق ہر ہر اعتبار سے مخلوق پر حاوی اور غالب ہے اسی طرح اس کا کلام اور پیغام بھی، البتہ ہرہردور کے انسانوں کی ذہنی سطح اور علوم وفنون کے مطابق اس کے معجزات ظاہر ہوتے رہیں گے جب فصاحت وبلاغت الفاظ کے دقائق سمجھنے کا دور تھا قرآن کے کلام کی فصاحت وبلاغت اور الفاظ کی تاثیرکا معجزہ ظاہر ہوا،بائبل میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جوپیشین گوئیاں ہیں، ان میں ایک یہ ہے کہ قوموں کو تسخیر کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے ایک تلوار نکلتی ہے (یوحناعارف کا مکاشفہ ۹۰۰/۱۵)یعنی تاثیر والا کلام جس کی تاثیر نے آپ کی حیات مبارکہ ہی میں جزیرۃ العرب کو تہ وبالا کردیا تھا ،موجودہ دور طبعیات وسائنس کے علوم سے انفس وآفاق کی ہرہرچیزکے متعلق تفصیلی کھوج وتحقیق کا دور ہے تو دنیا حیران ہے کہ جونئی تحقیق اور ریسرچ سامنے آتی ہے وہ قرآن میں موجود پاتی ہے۔

دعوت، آخری دور کا سب سے مؤثر اسلحہ

پتھر کے دور سے لے کر آج الیکٹرونک اسلحہ کے دور تک ہر دور میں اسلحہ کی نوعیت بدلتی رہی۔ آنے والے دور کا اسلحہ دعوت اور میڈیا ہے۔ ماضی قریب میں رشیا کو شکست امریکی اسلحہ نے نہیں بلکہ امریکی میڈیا نے دی تھی۔ معلوم ہوتاہے کہ اسلام کا غلبہ اور فتوحات اسی راہ سے ہوگی۔ مسلم شریف کی ایک حدیث میں وارد ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی فرمائی کہ قیامت کے قریب ایک شہر جس کا ایک رخ خشکی کی طرف ہوگا اور دوسرا سمندر کی طرف، دونوں طرف کی شہر پناہ (دیواریں) مسلمان لشکر کے لا الہ الااللہ، اللہ اکبرکے نعرے سے گرجائیں گی۔ اس روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ کا لفظ استعمال فرمایا۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آخری دور کا سب سے بڑا اسلحہ دعوت ہوگی اور یہ دعوت مسلمانوں کے عالمی غلبہ وکامیابی کا سب سے بڑا ذریعہ ہوگی۔ بالفاظ دیگر آخری دور میں اسلحہ کے بغیر اسلام کی فکری ونظریاتی اور دعوتی طاقت قوموں کو مسخر کرنے والی ہوگی۔

مغرب میں دعوت کے خلاف عالمی طاقتوں کا خفیہ منصوبہ

موجودہ دور میں قدرت کے مخفی ہاتھ نے لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کو مغرب (امریکہ یورپ)میں پہنچادیا ہے۔ شاید ان سے کوئی کام لینا منظورہے۔ ایسے دور میں جب انسانی مسائل کے حل میں سارے نظریات ومذاہب ناکام ہوچکے ہیں اور عصر حاضر کے انسان کو اپنی روح کی پیاس بجھانے کے لیے ایک نظریۂ حیات کی اشد ضرورت ہے، شاید فطرت کی یہ ضرورت پوری کرنے کے لیے یہ اللہ کا انتظام ہے۔ ہم نے یہاں (مغرب) پہونچ کر سینکڑوں ہزاروں مساجد ومکاتب اور درجنوں دارالعلوم قائم کیے، مگر ایسا چھوٹا سا سینٹر نہیں بناسکے جہاں نو مسلموں کو سال دو سال رکھ کر انہیں اسلامی تعلیمات سے روشناس کرواکر ان کے اپنے معاشرے میں داعی بناکر بھیجیں۔ ہماری اس غفلت کا نتیجہ یہ ہے کہ گزشتہ تیس چالیس سالوں میں مغرب میں جتنے لوگ مسلمان ہوئے، خواہ وہ اپنی ذاتی جستجوسے مسلمان ہوئے ہوں خواہ یا کسی نے مسلمان کیا، آج وہ سب کے سب شیخ ناظم ترکی کے پاس پہونچ چکے ہیں جس کا کام تصوف کا نام لے کر امت میں تفرقہ پیدا کرنا اور ان نومسلموں کو معطل بناناہے تاکہ وہ دعوت کا کام نہ کرسکیں۔ اس شخص (شیخ ناظم) کے نزدیک امام حرم، عرب علما، علمائے دیوبند ،تبلیغی جماعت، سلفی حضرات سبھی باطل وگمراہ ہیں (غالی قبر پرست بدعتیوں کے سوا)۔ بندہ کی تحقیق کے مطابق یہ شخص عالمی صہیونی طاقتوں کا گماشتہ ہے، اس کا آقا وشیخ مراکش میں صیہونیوں کا ایجنٹ ہے اور اس شخص کو امریکی ایما پر عرب حکمران کروڑوں اربوں روپے دے رہے ہیں۔ 

دینی جامعات اور عصر ی تقاضے

آج ہماری سب سے بڑی ضرورت اقوام عالم کے لیے داعی تیار کرناہے، اس کام کے لیے نظرباربار ہمارے دینی اداروں (دارالعلوم اور جامعات) کی طرف جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہبر صغیر اور جنوبی ایشیا کے ممالک میں ان دینی مدارس کا نہایت اہم رول رہا ہے۔ آج ان ممالک میں جودین اور علم دین کے چرچے ہیں، سب انہی کی برکتیں ہیں۔ یہ بلاشبہ دین کے قلعے ہیں،لیکن وقت کے علوم وضروریات کے ساتھ ساتھ ان دینی قلعوں میں بھی آج کی عصری ضرورتوں کا لحاظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ آج مضبوط ومستحکم قلعے بھی آثار قدیمہ کے میوزیم بن کر رہ گئے ہیں۔ اسی طرح ہمارے دینی مدارس میں تقویٰ وتوکل کی صفات اور عصری تقاضوں کا شعور نہ رہے تو اندیشہ ہے کہ یہ بھی آثار قدیمہ بن کر نہ رہ جائیں۔ گذشتہ دنوں بندہ کا یورپ کے ایک چھوٹے سے ملک میں جاناہوا جس کی آبادی چند لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ وہاں کی کرسچن مشنری میں دیکھا کہ وہاں بنگالیوں سے اچھی بنگالی، پنجابیوں سے اچھی پنجابی اور ہم سے اچھی اردو عربی بولنے والے موجود ہیں جبکہ عیسائیت ایک غیر دعوتی مذہب ہے۔ بائبل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مقولہ مشہور ہے کہ میں صرف بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑو ں کے لیے بھیجا گیا ہوں، جبکہ اسلام ایک دعوتی دین ہے۔ گذشتہ ڈیڑھ صدی میں ہمارے جامعات نے کتنے ایسے داعی تیار کیے جو اسپینش، جرمنی، فرانسیسی یا رشین زبانوں میں دعوت دے سکیں۔ گذشتہ ڈیڑھ صدی میں برصغیر میں دین کا بنیادی کام انہی دینی مدارس نے انجام دیا۔ ان اداروں سے کماحقہ فائدہ اسی وقت تک ہواجب تک وہ اصل بنیادتقویٰ وتوکل پر قائم رہے۔ یا درکھئے! ہماری بنیاد تقویٰ وتوکل، اور کفر کی بنیاد ملک ومال ہے اور بنیاد مثل زمین کے ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے کی زمین پر اپنی عمارت تعمیر کرلے تو صاحب زمین جب چاہے کہہ سکتا ہے اپنی عمارت اٹھاکرلے جاؤ، میری زمین خالی کرو۔ تقویٰ و توکل کے بجائے مال کی بنیاد پر بننے والے عظیم الشان جامعات گویا دوسروں کی زمین پر کھڑے ہیں۔ ایسے ادارے باطل کی ایک آندھی کامقابلہ نہیں کرسکیں گے، جیسے وسط ایشیا کے ممالک میں ہوا۔ سمرقند،بخارا،تاشقندوغیرہ میں سینکڑوں عظیم الشان دینی جامعات تھے۔ کمیونزم کی ایک آندھی چلی اور سب جامعات زمیں بوس ہوگئے۔ روحانی صفات، تقویٰ وتوکل سے عاری فارغ ہونے والے مولوی صاحبان کی فوج ظفر موج باطل کے ایک جھونکے کی تاب نہیں لاسکے گی۔ وسط ایشیا میں علما اور عوام کا جوڑختم ہوگیا تو وہ عوام جو علما کے ہاتھ چومتے تھے، خود انہوں نے ان علما کی گردنیں کاٹیں۔

افراد سازی میں ہمارے دینی جامعات و مدارس کی ناکامی

تقریباً ایک صدی پہلے مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب ؒ نے لکھا تھا کہ ہمارے مدارس اور خانقاہ بانجھ ہوتے جارہے ہیں۔ غور کریں توہمارے زکوٰۃ وصدقات کا بڑاحصہ دینی مدارس اور دارالعلومو ں پر خرچ ہورہاہے، مگر ان سے زیادہ تر معمولی صلاحیت کے لوگ مل رہے ہیں، رسمی امام وخطیب یامکتبی مولوی۔ ان بیچاروں کی اکثریت عربی تو درکنار، صحیح اردو لکھنے پڑھنے سے بھی عاری ہے۔ پھر یہ حضرات جو لکھتے بولتے ہیں، درسی زبان میں ہوتاہے جو عام لوگوں کے سروں کے اوپر سے گزرجاتی ہے۔ برطانیہ میں پہلے ہم سوچتے تھے یہاں کوئی بڑا دارالعلوم ہوناچاہیے تاکہ یہاں کے ضروریات وتقاضوں کو پورا کرنے کے لیے افراد کار میسر آسکیں۔ اب درجنوں دارالعلوم قائم ہوگئے، لیکن ہماری ضرورتیں جوں کی توں ہیں۔ اگر ان جامعات کا حاصل مکتب میں پڑھنے والے مولوی صاحبان اور مساجدکے اما م ہی ہے تو مکتبی مولوی اور مسجد میں نماز پڑھانے والے امام ان دارالعلوموں سے پہلے بھی میسرتھے۔

دعوت کا جذبہ اور فکر آخرت پیدا کرنے کی ضرورت

اگر کوئی شخص طالب علم بن کر ہمارے پاس آتاہے توضروری ہے کہ اس کی نسبت اور ارادہ دین کے کام کرنے کا ہو کہ مجھے اب زندگی میں صرف دین کا کا م کرناہے، اور اہل مدارس کو بھی چاہیے کہ جن طلبہ کے بارے میں اندازہ ہو کہ ان میں نہ دین پھیلانے کا جذبہ ہے نہ دین پر چلنے کا شوق تو انہیں ضروریات دین کا علم دے کر دوسال میں فارغ کریں۔ ملت کا پیسہ ان پر ضائع نہ کریں۔ موٹی سی بات ہے، اگر کسی شخص کو محض اپنی ذاتی قابلیت پیداکرنے یااپنے معاش کے لیے علم وہنر سیکھنا ہے تو اسے اپنے ذاتی اخراجات سے سیکھنا چاہیے، جیسے دنیا میں ہر شخص کار چلانا، کمپیوٹر کا استعمال، ہندی انگریزی زبان اپنے اخراجات سے سیکھتاہے۔ ملت کی زکوٰۃ وصدقات کی امانت ایسوں پر پرکیوں ضائع کی جائے؟ ہمارے دینی مدارس کے اخراجات کا خاصا بڑاحصہ ایسے لوگوں پر ضائع ہورہاہے جودین پھیلانے کا جذبہ نہیں رکھتے۔ دعوتی اسپرٹ کے بغیر طالب علم کو علم دینا ایساہی ہے جیسے کوئی کاغذوں میں علم جمع کردے یا آڈیو، ویڈیو کیسٹ میں بھر دے۔ حضرات انبیاء علیہم السلام دعوت کے ذریعہ انسانوں کے دلوں کا رخ دنیا سے آخرت کی طرف اور خواہشات سے رضاے الٰہی کی طرف موڑدیتے تھے، پھر انسان کی ساری زندگی آخرت بنانے کی فکر اور رضاے الٰہی کی طلب میں گزرتی تھی۔ ہم مدارس کے ذریعہ کسی درجہ میں علوم تو دے رہے ہیں، مگر ان کے دلوں میں فکر آخرت اور اللہ کا تعلق پیدا کرنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ جب دلوں میں دنیا بسی ہو تو انسان کی ساری علمی صلاحیتیں بھی اپنی دنیا بنانے پر صرف ہوتی ہیں۔ ادھر چندسالوں میں ہمارے دینی وتعلیمی جامعات میں تخصص کے شعبہ جات قائم کرنے کا ذوق اور رجحان بڑھ رہاہے۔ یہ بہت اچھی چیز ہے کہ زمانہ کسی فن میں تخصص ہی کا ہے۔ ہرعلم وفن ایک وسیع سمندر ہے۔ انسان کسی ایک شعبۂ علم میں بھی بصیرت ورسوخ پیداکرلے تو بڑی بات ہے، مگر یہاں بھی اصل خرابی یہی ہے کہ صلاحیت پیداکرنے کے ساتھ دلوں کا رخ آخرت کی طرف کرنے پر توجہ نہیں۔ اگرہم بنظر غائر دیکھیں کہ گذشتہ پچیس تیس برسوں میں دیوبند سے کیرالہ تک جن طلبہ نے دینی علوم وفنون میں تخصص کیا، مثلاً قرآن، حدیث، فقہ، تفسیر، ادب، معاشیات، انگریزی زبان، عربی زبان، کمپیوٹر کا استعمال وغیرہ وغیرہ، ان میں کتنے فیصد طلبہ انسانوں کوخدا کی طرف بلانے یا ان تک دین پہنچانے میں مصروف ہیں؟ آج ان کی بھاری اکثریت ریڈیو اسٹیشنوں، اخبارات، چینلوں میں کام کرنے، ترجمہ کرنے، کمپیوزنگ کرنے یا پروگرام ترتیب دینے میں مشغول ہے یا کسی عرب سفارت خانہ میں ملازمت یا ملٹی نیشنل کمپنیوں میں خدمات انجام دیتی نظر آتی ہے۔ کیاملت کے لاکھوں کروڑوں روپے اس لیے صرف کیے گئے تھے کہ چندعلما کے معاشی حالات اور معاشی زندگی معیاری ہو جائے؟

قرآ ن وسیرت کے بجائے فقہ میں زیادہ اشتغال کے نقصانات

صدیوں سے بر صغیر کے علماء کرام کا زیادہ تر اشتغال فقہ میں رہا کیوں کہ مسلم دور حکومت میں قاضی محتسب اوقاف ووصایا کے متولی ونگراں عہدے، مناصب اور روزی فقہ سے وابستہ تھیں۔ اس کے برخلاف قرآن وسیرت نبوی پر توجہ بہت کم رہی۔ برصغیر کے آٹھ سو سالہ مسلم حکمرانی کے دور میں شاید سیرت پر کوئی جامع کتاب نہیں لکھی گئی، نہ نصاب تعلیم میں سیرت اور قرآن پر کوئی توجہ تھی۔ (الحمدللہ بیسویں صدی میں علماء ہند (جیسے شبلی نعمانیؒ ، سید سلمان ندوی، قاضی سلمان منصور پوری، مولانا مناظرا حسن گیلانی وغیرہ) نے سیرت پر اعلیٰ درجے کا علمی وتحقیقی کا م کرکے تلافی کردی۔ اس (فقہ) کی جھلک برصغیر کے نصاب و نظام تعلیم میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ نودس سالہ نصاب تعلیم میں اصل توجہ فقہ پرہی رہتی ہے، آخری سالوں میں قرآن اور احادیث کو اپنے اپنے فقہی مسلک کے سانچے میں ڈھال کر پڑھا دیا جاتاہے، جبکہ اصل کسوٹی قرآن وسنت ہونی چاہیے نہ کہ متأخرین کے فقہی اجتہادات وفتاویٰ۔ اس ترتیب وذوق کا بہت بڑا نقصان یہ ہواکہ ہمارے یہاں ہر دور میں فقہ القرآن اور فقہ الحدیث کا ملکہ رکھنے والے افراد کمیاب بلکہ نایاب رہے۔ 

فقہ دور عباسی میں مرتب ہوئی جو ہماری قوت وطاقت اور دنیا بھر پر حکمرانی کا دورہے۔ دور عباسی کے بعد بھی ہم صدیوں تک دنیا بھر میں غالب وحکمران ملت اور سُپر پاورامت کے طور پر تھے، اس لیے ہمارے فقہی ذخیرہ میں قوت وطاقت اور حکمرانی کے دور کے لیے لائحۂ عمل پوری تفصیل کے ساتھ ملے گا، لیکن بے بسی اور کمزوری کے دور کا جب ایک تہائی مسلمان اقلیت میں دوسروں کے رحم کرم پر ہو ں اور باقی مسلم حکومتیں بھی دنیا کی باطل ودجالی طاقتوں کے سامنے مجبور محض ہوں، ایسے دور کے لیے لائحۂ عمل اور مکمل رہنمائی جسے ہم فقہ الاقلیات یا بے بسی کے دور کا لائحۂ عمل کہہ سکتے ہیں، ہمارے فقہی ذخیرہ میں بہت کم ملے گا، کیوں کہ جس دور میں فقہ مرتب ہو ئی، اس کے بعد صدیوں تک فقہائے کرام اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ کبھی دنیا میں ایسادور بھی آسکتاہے کہ دنیا بھر کے مسلمان کفر کے سامنے ایسے بے بس ولاچار مجبور ومظلوم بن کر زندگی بسر کررہے ہوں۔ اس کمزوری اور ضعف کے دور کے لیے زندگی کے ہر شعبہ کامکمل اور تفصیلی لائحہ عمل قرآن اور سیرت میں ملے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریباً پوری زندگی اور نزول قرآن کا سارا دور مسلمانوں کی بے بسی اور کمزوری کا دور تھا۔ صلح حدیبیہ کی شرائط پر ایک نظر ڈالنے سے آٹھ ہجری تک کی صورت حال کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس صلح نامہ میں ہمارے عصرحاضر کے مسائل ومشکلات میں بہت کچھ رہنمائی اور بصیرت ہے۔ اگرچہ فتح مکہ پورے جزیرۃ العرب کی فتح کے ہم معنی تھی، مگر اطراف کی قوتوں، پرشین امپائر اوررومن امپائر کے عزائم کو سامنے رکھا جائے اور غزوہ تبوک اور جیش اسامہ کا پس منظر سامنے ہو تو سمجھاجا سکتاہے کہ بالکل آخری دورتک دشمنان اسلام کی طاقت وقوت کا دور ہے۔ مسلمانوں کو حقیقی اور صحیح معنی میں قوت دور فاروقی میں حاصل ہوئی۔ اس لیے پوراقرآن اور پوری سیرت گویا ہمارے آج کے دور کے لیے تفصیلی اور مکمل رہنمائی اور ہرہرشعبۂ زندگی کے لیے لائحۂ عمل ہے ،مگر ہم ہیں کہ فقہ میں اشتغال کے ذریعہ اپنے غلبہ وقوت دنیابھر پر حکمرانی کا دور سامنے رکھے ہوئے ہیں، اس لیے عصری مسائل میں اپنے لیے نہ کوئی راہِ عمل متعین کر پارہے ہیں نہ اپنے مسائل کا حل نکال پا رہے ہیں۔ 

آج کے دور میں ہمیں فقہ کے متعدد ابواب جیسے کتا ب الرقاق، کتاب الغنیمۃ بے جوڑ اور ناممکن نظر آتے ہیں۔ بندہ کے نزدیک اپنے غلبہ کے دورمیں مرتب ہونے والی فقہ پر ساری توجہ دینے کی وجہ سے نہ ہم آج کا دور سمجھ پارہے ہیں نہ موجودہ حالات میں اسلام کے غلبہ کی راہیں تلاش کر پا رہے ہیں۔ لگتاہے گویا ہم پر سارے دروازے بندہیں، مجبوری اور معذوری میں زندگی بسر کرناہی ہمارا مقدر ہے۔ یہ ساری مصیبت فقہ القرآن اور فقہ السیرت سے ناواقفیت اور غفلت کی وجہ سے ہے، ورنہ سیرت پاک اور قرآن حکیم آج کے دور کی رہنمائی سے بھراپڑاہے۔

برصغیرکے دینی مدارس کا اصل امتیاز

برصغیر میں دیوبند جیسے دینی مدارس کی اصل کامیابی وطاقت جس کا لوگوں کے دلوں پر سکہ جماہواہے، وہ تصنیف وتالیف، ریسرچ وتحقیق اور دوسرے علمی کارناموں کانہیں ہے، ان میں دوسرے ادارے مثلاً جامعہ ازہر بہت آگے ہے جہاں ہر طالب علم کو پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھنا لازم ہے، بلکہ اعظم گڑھ کا معمولی سا چند کمروں پر مشتمل ادارہ دارالمصنفین بھی شاید تصنیفی وتحقیقی کا م میں آگے ہے۔ ہمارے دینی مدارس کا اصل امتیاز وخصوصیت تقویٰ وتوکل، تعلق مع اللہ، اتباع سنت، زہدو قناعت والی زندگی، ملت کا درد وغم، دین کی خاطر مر مٹنے اور جاں فروشی کے جذبات ہیں۔ اگر یہ صفات نہ رہے تو دیوبند جیسے مدارس کے پاس کچھ بھی نہیں بچے گا۔ موجودہ دور کا سب سے تشویشناک پہلو یہی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کے بعد کئی پشتوں (تقریباً ڈیڑھ سو سالہ) دینی، تعلیمی واصلاحی جدوجہد کے برگ و بار آنے کا وقت آیا تو تقویٰ وتوکل کی جگہ عالی شان عمارتوں اور ما ل کی ریس نے دینی اداروں کو کھوکھلا اور بے روح بنادیا۔ خاص طور سے گذشتہ تیس چالیس سال سے ساری توجہ ظاہری شان وشوکت والی عمارتوں نے کھینچ لی، علم اور مجاہدے کا دور ختم ہوگیا، ایمانی صفات میں ضعف آگیااور افراد سازی سے توجہ ہٹ گئی۔ ہماری صفوں میں بہت سی کالی بھیڑیں داخل ہوگئیں، دینی مدارس کی عمارات جتنی بلندوبالا اور خوبصورت بنتی گئیں، ظاہری سجاوٹ کے ساتھ دلوں کی باطنی دنیا اجڑ تی گئی۔ تعلق مع اللہ، تقویٰ وتوکل، زہدوقناعت، سادگی اور جفاکشی کم ہوتی گئی۔ بلاشبہ بہت سے دینی مدارس میں کسی درجہ میں یہ صفات باقی ہیں اور کسی نہ کسی درجہ میں افراد کا ر بھی وہاں ہی تیار ہو رہے ہیں، اکیسویں صدی داخل ہونے تک ہمارے تعلیمی ادارے ظاہراً تو بہت بارونق اور عالی شان ہوگئے، مگر علمی وروحانی اخلاقی عملی طورپر بھیانک تباہی آگئی۔ آخرت کی طلب، دنیا سے بے رغبتی، دین پر مر مٹنے کا جذبہ، عوام تک دین پہنچانے کی تڑپ وکڑھن اور نبیوں کی طرح بے طلب لوگوں میں دین پہنچانے کے لیے مارے مارے پھر نا ماضی کی داستان بن گیا۔ اب دینی ادارے دکان اور فیکٹریوں کی طرح چلائے جانے لگے۔ یہ مدارس ذاتی، خاندانی اور موروثی جائیداد بن گئے جس کی وجہ سے موروثیت کی تمام خرابیاں اور فساد درآیا۔ 

آج کل دین کے نام پر ہم مولویوں کی ساری جدوجہد کا لب لباب یہ ہے کہ ہمیں پیسے دو، ہم اپنا ایک الگ ادارہ قائم کریں گے۔ ہم میں ہر شخص کے پاس کروڑوں اربوں کے منصوبے اقوام عالم تک ایمان واسلام پہنچانے یا ملت اسلامیہ کی تربیت وافراد سازی کے نہیں، محض عالی شان عمارات بنانے کے ہیں۔ دین کے نام پر ہر وقت مانگنے والا پیشہ ور طبقہ پیداہو گیا ہے۔ بقول مولانا زاہدالرشدی کے آج ہمارے بہت سے مولوی صاحبان کا تعارف وشناخت یہ ہے: ہر وقت مانگنا، ہر ایک سے مانگنا اور ہر چیز مانگنا۔ کسی معاشرہ میں مانگنے والے کا جو مقام وحیثیت ہوتی ہے، وہی ہماری بنتی جا رہی ہے۔ اگر اب بھی ہم نے سنجیدگی سے اس مسئلہ کو نہ لیا تو عالم بننا اعزاز کے بجائے ذلت کا لیبل بن جائے گا اور شاید سمر قند وبخارا کی تاریخ یہاں بھی دہرا دی جائے۔

دینی مدارس کی موجودہ صورت حال کا ایک جائزہ 

اگرچہ ہر مدرسہ کے ذمہ دار زبان سے یہی کہتے ہیں کہ ہمارے ادارے سے فارغ ہونے والے دنیا میں دین پھیلائیں گے، سوال یہ ہے کیسے پھیلائیں گے جبکہ آپ نے نہ دعوت کی تربیت، دی نہ داعی کامزاج بنایا، نہ آخرت کی فکر پیداکی، نہ روحانی وباطنی اوصاف سے آراستہ کیا بلکہ وہ بھی اوروں کے دیکھا دیکھی دین کے نام پر اپنی ذاتی جائیداد یں بنائیں گے۔ آج صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ ہر مولوی جوچرب زبانی سے اہل مال کی جیب سے مال نکلوانے کا فن جانتاہے، وہ رئیس الجامعہ یا حضرت مہتمم صاحب سے کم پر راضی نہیں۔ وہ خوب جانتا ہے کہ مہتمم بنتے ہی میری اولاد، دامادوں اور دیگر رشتہ داروں کی روزی کا مسئلہ مستقل حل ہوجائے گا۔ حضرت مہتمم صاحب سے کون پوچھ سکتاہے کہ آپ نے خود کی اور اولاد کی تنخواہ کس معیار پر مقرر کی، اس لیے وہ کسی قدیم بنے بنائے ادارے میں خدمات انجام دینے کے بجائے اپنا جامعہ ضروری سمجھتاہے۔ اگر مہتمم کا کوئی علمی، اخلاقی ورحانی معیار مقرر کرکے امتحان لیاجائے تو شاید نوے فیصد مہتمم صاحبان فیل ہو جائیں گے۔ بندہ نے یہاں انگلینڈ میں اپنی آنکھوں سے بارہا دیکھا کہ اپنا جامعہ قائم کرنے کی خاطر مولوی صاحبان ہر قسم کی عصبیت جاہلیت، علاقائی، ضلعی، گروہی، لسانی، برادری وقومی حتیٰ کہ ایک ہی ضلع کے لوگوں میں شہر سے آنے والے اور دیہات سے آنے والے اور براہ راست انڈیا سے آنے والے اور افریقی ملکوں میں جاکر آنے والوں میں عصبیت بھڑکائی تاکہ میرے ضلع، گاؤں برادری کا پیسہ باہر نہ جائے۔ کیا ایسے دارالعلوموں سے للہٰیت اور مجاہدے کے ساتھ دین کا کام کرنے والا طبقہ پیدا ہوگا؟ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے خود احتسابی کا عمل بالکل ترک کردیا ہے۔ ہم میں کوئی کسی منکرپر نکیر کرنے کے لیے تیار نہیں کہ میری مقبولیت اور تعلقات میں فرق نہ پڑے، مجھے سبھی اچھا سمجھتے رہیں۔ ہمارے بعض بزرگ جو اہل مدارس کے نزدیک نہایت محترم سمجھے جاتے ہیں، وہ بھی نجی مجالس میں ان خرابیوں کا تذکرہ کرلیتے ہیں مگر براہ راست ان ذمہ داروں کو ٹوکنے کے لیے تیار نہیں۔ جامعہ کے معنی یونیورسٹی کے ہیں جو ضلع میں ایک آدھ ہی ہوتی ہے، مگر یہاں دومیل کے فاصلے پر اور ایک ہی بستی میں متعدد جامعات بن رہے ہیں۔ جامعہ کہاں کس جگہ کس سائز کا بنے، آج یہ سب ایک فرد کی مرضی پر موقوف ہے جسے حضرت مہتمم صاحب بننا ہے۔

ابھی اکتوبر۲۰۱۱ء کے اخیر میں استنبول (ترکی) میں حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ پر منعقد ہونے والی انٹرنیشنل کانفرنس میں بندہ سے ایک رئیس الجامعہ صاحب فرمانے لگے، مولانا! آپ ہم سے بہت خفالگتے ہیں اور سخت الفاظ میں ٹوکتے اور لکھتے ہیں، مثبت کام کیجیے۔ بندہ نے عرض کیا، آپ تمام حضرات تو ماشاء اللہ مثبت کا م کرہی رہے ہیں۔ لاکھوں مولوی مثبت کام میں لگے ہوئے ہیں، کیا اتنا سارا مثبت کا م کافی نہیں ہے؟آج ہم نے مداہنت کو مثبت کام سمجھ لیا ہے۔ یہ دکانوں کے انداز پر قائم ہونے والے شخصی جامعات نااہل مولویوں کا ڈھیر لگاتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے علم اور علما دونوں کا وقار اور عظمت مٹی میں مل رہاہے۔ جیسے کسی شہر میں پچاس ڈاکٹروں کی ضرورت ہو، آپ وہاں پانچ سو ڈاکٹر پیدا کر دیں تو ڈاکٹروں کی نہ صرف قدروقیمت ختم ہوجائے گی بلکہ ڈاکٹر صاحبان ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ کر اپنے پورے طبقہ کی ذلت کا سبب بنیں گے۔ یہی ہم مولویوں کی صورتحال ہے۔ یادرکھیے! تعلیم وتعلم یا دین سکھانے کے دو مرتبے ہیں۔ ایک فرض عین، دوسرا فرض کفایہ۔ فرض عین ہے ہر مسلمان کو اس کی ضروریات کا علم دینا اور فرض کفایہ ہے کچھ افراد کو پورے دین کا تفصیلی علم دلائل کے ساتھ دینا۔ آج ہماری ساری توجہ فرض عین کے بجائے فرض کفایہ پر ہے، کیوں کہ فرض عین میں نبیوں کی طرح جان کھپانی پڑتی ہے اور لوگوں میں مارے مارے پھرنا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس فرض کفایہ میں لگنے سے ہم حضرت مہتمم صاحب اور حضرت رئیس الجامعہ بن کر اپنے حلقوں اور بستیوں کی اہم شخصیت بن سکتے ہیں جسے بندہ اسلامی وڈیرے وجاگیر دار کہتاہے۔ 

دعوت کی مثال بادل کی سی ہے کہ بادل ہر جگہ خود جاکر بے طلب لوگوں پر برس کربنجر زمینوں کو سیراب وشاداب بنادیتاہے اور دینی اداروں کی مثال کنویں کی سی ہے جسے طلب وضرورت ہو، ہمارے پاس آئے۔ حضرات انبیا علیہم السلام بادل بن کررہتے تھے، نہ کہ کنواں بن کر۔ حضرت مولانا سعیداحمد خان مکی فرمایا کرتے تھے: کُن عالماً ولا تکن مولویاً۔ اگر بھارت کے پندرہ کروڑ مسلمانوں کو آپ مولوی قاری حافظ مفتی بنادیں تو کیا آپ کے سارے مسائل حل ہوجائیں گے؟ کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا، سارے تعلیمی، سیاسی، معاشرتی، اقتصادی، تہذیبی و فکری مسائل اپنی جگہ پر رہیں گے۔ بلاشبہ دین کے لیے دارالعلوم اور جامعات ضروری ہیں، مگر یہ ضروری نہیں کہ سارے مولوی صاحبان ملت کے تمام اجتماعی مسائل سے آنکھیں بندکرکے ایک ہی کام کرتے رہیں۔

علماء کرام کی عوام سے لاتعلقی خطرے کی گھنٹی

آج سب سے تشویشناک اور فکر انگیز مسئلہ یہ ہے کہ اگر چہ دینی اداروں کی بہتات ہے، مگر علما اور عوام کاجوڑ وتعلق ختم ہوتا جارہا ہے۔ آج برصغیر کے تینوں ملکوں میں جو دینی پروگرام ہوتے ہیں، ان میں زیادہ تر علماء کرام اور طلباء مدارس ہوتے ہیں۔ عام مسلمانوں میں سے بہت کم لوگ نظرآتے ہیں۔ ہمارے کاشتکار، ہمارے تاجر، ہمارا ملازمت پیشہ طبقہ، ہمارے جدید تعلیم یافتہ لوگ اور ملت اسلامیہ کے دیگر طبقات کے لوگوں کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے۔ کیا دین واسلام ان کا مسئلہ نہیں ہے یا انھیں دینی رہنمائی کی ضرورت نہیں؟ یہ صورتحال خطرے کی گھنٹی ہے، باطل طاقتیں ایسے ہی مواقع سے فائدہ اٹھاکر مسلم عوام کوورغلا کر علما کے خلاف استعمال کرتی رہی ہیں۔ اگر علماء کرام کا اپنے عوام سے مضبوط تعلق قائم رہے تو باطل کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ماضی میں سمر قند، تاشقند اور بخارا کی تباہی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ علماء کرام اپنے عوام سے بے تعلق اور بے نیاز ہوگئے تھے، اس سے فائدہ اٹھاکر کمیونسٹوں نے مسلم عوام کو بھڑکاکر انہیں کے ہاتھوں علماء کرام، مدارس ودینی شعار کا خاتمہ کروایا۔ آج بھی باطل طاقتوں کی پوری کوشش ہے کہ مسلم عوام کو علماء کرام سے دور کیاجائے۔

ہمارے اکابرین اپنے گاؤں ضلع علاقہ میں عوام سے گہراتعلق رکھتے تھے، جیسے مظاہرعلوم وقف کے حضرت مفتی مظفر حسین ؒ صبح دوتین گھنٹے حدیث کا درس دیتے اور ظہرکے بعد اکثر اطراف کے کسی گاؤں یادیہات میں جاکر لوگوں سے ملتے، دین کی باتیں بتاتے، موسم خواہ کتناہی سخت ہو، سخت گرمی ہویا سردی یا بارش ہو۔ آخری عمرمیں لوگ عرض کرتے کہ حضرت! آپ کی صحت کاتقاضا ہے کہ آرام کیجیے، ان گاؤں والوں کویہیں بلوالیتے ہیں توفرماتے، وہاں سے دوچار آدمی آئیں گے، لیکن جب میں وہاں جاؤں گا تو پورا گاؤں مجھ سے ملے گا، دین کی باتیں مجھ سے سنے گا۔ اسی طرح حضرت مولانا صدیق احمد باندویؒ اور دیگر اکابرین عام مسلمانوں سے وابستہ رہتے تھے، جبکہ آج ہم عوام سے کٹتے جا رہے ہیں۔ اس مسئلہ پر ہمیں سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

آراء و افکار

(جولائی ۲۰۱۱ء)

جولائی ۲۰۱۱ء

جلد ۲۲ ۔ شمارہ ۷

تلاش

Flag Counter