ڈاکٹر حافظ صفوان محمد چوہان

کل مضامین: 4

سماجی، ثقافتی اور سیاسی دباؤ اور دین کی غلط تعبیریں

اللہ نے دین کو دنیا و آخرت کی کامیابی کا ذریعہ بنایا ہے۔ صحابۂ کرام علیہم الرضوان میں بہت کم لوگ ایسے تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے اور اُن میں بھی ایسے لوگ گنتی کے چند تھے کہ جنھیں دین فہمی میں رسوخ کا وہ درجہ حاصل تھا کہ اُن کے لیے زبانِ نبوت سے ’’فقیہ‘‘ کا جاوداں لقب حاصل ہوا۔ بحیثیت مجموعی یہ وہ لوگ تھے جن کو صحبت نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا وہ جوہر عطا ہوا تھا کہ جس کو کسی بھی بڑی سے بڑی نعمت کا مثل بتانے میں زمین و آسمان کی کل نعمتوں میں سے کسی پر نگاہ نہیں ٹھہرتی۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے مؤسسِ دعوت و تبلیغ حضرت...

ڈاکٹر محمود احمد غازی علیہ الرحمۃ

میرے والد پروفیسر عابد صدیق صاحب کا انتقال ۷؍ دسمبر ۲۰۰۰ء کو ہوا۔ وفات سے کچھ دن پہلے اُنھوں نے مجھے ایک خط لکھا جس میں دعوت و تبلیغ کی مرکزی شخصیت حضرت مولانا محمد احمد انصاری صاحب مدظلہ العالی سے متعلق معلومات فراہم کیں۔ میں اُن دنوں مولانا محمد الیاس رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات کے انگریزی ترجمے (Words & Reflections of Maulana Ilyas) کے آخری حصے پر کام کر رہا تھا جس میں تبلیغ سے متعلق شخصیات کے بارے میں ضروری شخصی معلومات دی گئی ہیں۔ اِس خط کا ایک جملہ تھا: ’’مولانا محمد احمد صاحب مدظلہ ۔۔۔ جامعہ عباسیہ [بہاول پور] میں ۔۔۔ ۱۹۴۲ء میں دورۂ حدیث مکمل کرنے کے...

احیائے ثقافت اسلامی کی تحریک

دعوت و تبلیغ کا کام اپنے معروف معنوں میں حضرت آدم علیہ السلام کے دنیا میں تشریف لانے سے شروع ہوتا ہے۔ جتنی انسانی آبادی اُن کی حیات تک موجود رہی وہ اُس سب کے باپ اور مربی تو تھے ہی، اُن کے نبی اور رسول بھی تھے۔ اپنی اولاد کو خالقِ کائنات کا تعارف کرانا، اُس کی مرضیات پر چلنے یعنی اطاعت و عبادت پر آمادہ کرنا، زخارفِ دنیا میں الجھ کر راہ گم کردینے کے بجائے آخرت کو مطمحِ نظر بنائے رکھنے پر لانا، وغیرہ، سب امور اُن کے فرائضِ منصبی تھے۔ اِن فرائض کو ایک باپ اور ایک نبی کی حیثیت سے ادا کرتے کرتے وہ اپنے اللہ کے حضور حاضر ہوگئے۔ اللہ رب العزت نے حضرت...

’’پوشیدہ تری خاک میں۔۔۔‘‘ : ایک مطالعہ

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کا سفرنامۂ اندلس ’’پوشیدہ تری خاک میں۔۔۔‘‘ پڑھا۔ جو چند باتیں فوری طور پر ذہن میں جگہ پاگئی ہیں، اُنھیں ایک امانت خیال کرتے ہوے معرضِ تحریر میں لانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ سب سے پہلی اور نمایاں بات تو یہ ہے کہ پونے تین سو صفحات کے اِس سفرنامے میں، جو کہ سرزمینِ یورپ کے دو ممالک کے سفر کی روداد ہے، ایک جگہ پر بھی کوئی خاتون در نہیں آئی-- نہ اِشارتاً نہ صورتاً۔ یہ بات نمایاں اِس لیے ہے کہ اردو میں سفرنامہ لکھنا جب سے ’’صنعت‘‘ کی شکل اختیار کرگیا ہے، Marketing کا یہ اُصول کہ ہر چیز کی تشہیر عورت کے ذریعے سے ہو، ہر سفرنامے...
1-4 (4)