محمد انور عباسی
کل مضامین:
4
سود، کرایہ و افراطِ زر : اصل سوال اور جواب کی تلاش
الشریعہ کے جنوری کے شمارے میں محترم مغل صاحب کا مضمون نظر سے گزرا۔ اپنے موضوع پر ایک جاندار اور عام ڈگر سے ہٹا ہوا اور سوچ کو ابھارنے والا مضمون دیکھنے کو ملا۔ یہ جریدہ اس لحاظ سے ایک منفرد حیثیت کا حامل ہے کہ اس میں ہر ماہ ہی اہل علم کی فکر انگیز تحریریں ملتی ہیں جو ذہن کو جلا بخشتی ہیں۔ ہر وہ تحریر ، حتیٰ کہ ایک جملہ بھی،قدر کی نگاہ سے دیکھے جانے کے قابل ہے جو کسی بھی لحاظ سے مکالمے پر انگیز کرے۔ کبھی کبھی یہ خواہش شدید تمنا کا روپ دھار لیتی ہے کہ ملک عزیز کے دیگر رسائل و جرائدبھی یہی رویہ اپنائیں اور اپنے ہاں اس طرح کے مکالمے پر ابھارنے والی...
تہذیب مغرب: فلسفہ و نتائج (۲)
تحریکِ نسوان یا نسوانیت (Feminism): روشن خیالی کی تحریک سے قبل مغربی معاشرے میں عورت کو معاشرے کا کوئی مفید فرد تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔ ہیگل اور فرائیڈ دونوں نے عورت کے بارے میں کچھ مثبت رائے کا اظہار نہیں کیا۔ شوپنہار (Schopenhauer) نے تو صاف طور پر عورت کو انتہائی سادہ لوح اور کوتاہ نظر قرار دیا ہے۔ اس کے نزدیک عورت کو مکمل انسان نہیں کہا جا سکتا۔ (۱۰) اسی بنیاد پر عورت کو تو ووٹ کا بھی حق نہیں تھا۔ پروفیسر کرسٹن کے الفاظ میں: "By the second wave of Feminism in the 1960s to 1970s most women in Western Countries had gained basic social and political rights such as the vote after considerable social dispute." (11) یعنی۱۹۶۰ اور ۱۹۷۰ کے...
تہذیب مغرب: فلسفہ و نتائج (۱)
انسان کا مطالعہ اہم سہی لیکن مغرب کے انسان کا مطالعہ اس لحاظ سے زیادہ اہم ہے کہ چند صدیاں قبل کا مغربی انسان آج کے اس انسان سے یکسر مختلف ہے۔ اس کے فلسفہِ حیات نے اسے ایسا فرد Human being) ) بنا کر ہمارے سامنے لا کھڑا کیا ہے جس کی پیروی کی خواہش آج کل دنیا کے اکثر انسانوں کے دلوں میں خواب بن کر تڑپ رہی ہے، یہ سمجھے بغیر کہ مغرب کا انسان کس طرح سے آزاد ہے، اس کی زندگی کا فلسفہ کیا ہے اور اس کے نتائج کیا ہیں؟ لبرل ازم نے اس کے رویّوں میں کیا تبدیلی پیدا کردی ہے اور اس کی سمت کیا ہے؟ ہم مسلمانوں کے لیے یہ مطالعہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہمارے پاس اپنا ایک فلسفہ...
’’حدود و تعزیرات‘‘ ۔ چند تنقیدی تاثرات
محترم محمد عمار خان ناصر صاحب کی قابل قدر کتاب ہمیں بذریعہ ڈاک بروقت موصول ہوئی تھی، مگر بعض مصروفیات آڑے آئیں اور جلد اس کتاب کامطالعہ نہ کیاجا سکا۔ ایک وقفے کے بعد کتاب شروع کی تو ایک ایک سطر بغور پڑھی جس کے نتیجے میں یہاں چند تاثرات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ہمیں کتاب کے زیادہ تر مندرجات سے نہ صرف اتفاق ہے بلکہ خوشی ہے کہ بڑے سلجھے ہوئے انداز، اسلوب بیان اور منطقی استدلال سے بڑے مشکل اور حساس موضوعات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ایسی کتاب ایک عرصے کے بعد پڑھنے کو ملی جس میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا اسلوب، زورِ بیان اور متانت...
1-4 (4) |