اپنی کلاسیکل علمی روایت کے ساتھ شعوری وابستگی عصرِ حاضر میں جن اصحاب کے حصے میں آئی ہے، ڈاکٹر محموداحمد غازی مرحوم ان میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ مرحوم کے محاضرات خواص و عوام میں پذیرائی حاصل کر چکے ہیں۔ اگر مسلم علمی روایت کے اس پہلو کو پیشِ نظر رکھا جائے کہ اس میں زبان و بیان، قلم و قرطاس پر چھائے رہے تو ڈاکٹر غازی ؒ اس روایتی پہلو کے جدید ترین نمائندہ تھے۔ ان کے محاضرات کا توضیحی و تنقیحی اسلوب گواہی دے رہا ہے کہ انہوں نے ’’نگہ بلند،سخن دل نواز،جاں پرسوز‘‘ کے ساتھ اسلاف کے علمی کارنامے نئی نسل تک پہنچانے کا حق ادا کر دیا۔ اللہ ان کی مغفرت کرے اور درجات بلند فرمائے،آمین۔ اس وقت ہمارے پیش نظر ڈاکٹر محمود مرحوم کی کتاب ’’محاضراتِ معیشت و تجارت‘‘ ہے جو اسلامی معاشیات پر ان کے بارہ خطبات کا مجموعہ ہے۔ اس کے صفحات ۴۵۹ ہیں اور قیمت۵۰۰ روپے ہے۔ الفیصل ناشران لاہور نے اسے شائع کیا ہے۔
ڈاکٹر غازی مرحوم علمی دیانت داری کا ثبوت دیتے ہوئے ’’تقدیم‘‘ کی سطروں میں کھلے عام اعتراف کرتے ہیں کہ وہ معاشیات میں کسی مہارت کے مدعی نہیں ہیں۔ ان کا یہ اعتراف فنِ معاشیات کا باقاعدہ یا بے قاعدہ طالب علم نہ ہونے تک پھیلا ہواہے۔ وہ بڑی اخلاقی جرات کے ساتھ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ جدید فنی معاشی مسائل سے ان کی واقفیت سرسری اور جزوی ہے، اس لیے وہ ماہرین معاشیات سے بلا جھجھک درخواست کرتے ہیں کہ ان محاضرات کی فنی خامیوں اور کم زوریوں سے درگزر کریں، نیز ان کی نشاندہی کر کے راہنمائی بھی فرمائیں۔ ہم حیرت سے کبھی اعتراف نامہ دیکھتے ہیں اور کبھی ان محاضرات کے مندرجات۔ یہ مندرجات گواہی دے رہے ہیں کہ ہمارے ممدوحؒ کا اعتراف نامہ اسلاف کے طرزِ عمل کی پیروی ہے، وگرنہ محاضرات تو فکری و فنی پختگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
اللہ رب العزت نے ہم مسلمانوں کو ایک خاص آسانی سے نوازا ہے۔ وہ یہ ہے کہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں ہمیں عملی راہنمائی درکار ہو تو فوراًسے پہلے ہم اسوہ نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے، اس لیے ان کی نظریں بھی خود بخود اسی مرکز کی جانب اٹھ جاتی ہیں:
’’خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے بہت بڑی تجارت قائم فرمائی تھی جس کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی کامیاب نگرانی فرمائی۔ اس کی آمدنی کا بیشتر حصہ دعوت و تبلیغ کی سرگرمیوں پر خرچ ہوا۔‘‘ (دوسرا خطبہ: ص ۷۴)
ڈاکٹر غازیؒ نے یہ اشارہ تو کر دیا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تجارت کی آمدنی کا زیادہ حصہ دعوت و تبلیغ میں صرف ہوا، لیکن موضوع کی مناسبت سے یہ وضاحت نہیں کی کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے معاملاتِ تجارت کیسے نمٹائے ، تجارت میں منافع کی شرح کیا رکھی اور حضرت خدیجہؓ کے ساتھ منافع کی تقسیم کس اصول کے تحت اور کتنے فی صد طے پائی، وغیرہ وغیرہ۔ اگر ڈاکٹر صاحب اس قسم کے سوالات سے تعرض کرتے تو آج کے تاجروں کے لیے ہدایت کا مینارہ نور قائم کر دیتے۔ اس سلسلے میں پروفیسر ڈاکٹر نور محمد غفاری نے اپنی کتاب ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشی زندگی‘‘ میں فقط اتنا اضافہ کیا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا سامانِ تجارت لے کر شام کا دوسرا سفر کیا تو یہ مضاربت سے زیادہ اجارہ کی ایک صورت تھی، کیونکہ حضرت خدیجہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو متعین اجرت ادا کی تھی جو کہ ایک اونٹ تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کے علاوہ یمن اور بحرین کے بھی تجارتی سفر کیے جن کی بابت تاحال زیادہ تفصیلات میسر نہیں ہیں۔ ڈاکٹر نور محمد غفاری نے حلف الفضول کو بھی معاشی تناظر میں دیکھنے کی قابل غور کوشش کی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے قبل تقریباً ۲۰ برس کی عمر میں ایک ایسے معاہدے میں شمولیت فرمائی جس کی نوعیت سراسر معاشی و سماجی انصاف کی تھی۔ اہم بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منصبِ نبوت پر فائز ہونے کے بعد بھی فرمایا کرتے تھے کہ اگر مجھے اس قسم کے معاہدہ کی طرف آج بھی دعوت دی جائے تو میں بخوشی شامل ہونے کو تیار ہوں گا۔ اس معاہدے میں مضمر مخصوص خیر کی بنا پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا تھا کہ اس کے مقابلے میں اگر مجھے سرخ اونٹ بھی دیے جاتے تو میں نہ بدلتا۔ لہٰذا ما قبل نبوت کا یہ تناظر پورا قرینہ فراہم کرتا ہے کہ انسانی زندگی میں معاشی سرگرمی کی خاص اہمیت ہے۔ اسی لیے نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا منصب سنبھالنے سے قبل خالصتاً بشری حیثیت میں صرف تجارت نہیں بلکہ تجارت کا سفر کیا اور متاہل زندگی (married life) بسر کی اور کاروبار و شادی کے مراحل سے گزرنے کے باوجود مخالفین کی نظر میں امین و صادق کہلائے۔ ہمارے ہاں الطاف حسین حالی مرحوم کے کہے مصرعے ’’اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا‘‘ کو کچھ اس طرح رومانوی روپ دے دیا گیا جس سے مجموعی طور پر دین اسلام کے حقیقی مزاج سے مغایرت وبے گانگی (alienation) کے رویے نے خوب فروغ پایا۔ حالانکہ امرِ واقعہ یہ ہے کہ کسی انسان کی خو بو اور مزاج کا صحیح پتہ اس وقت چلتا ہے جب وہ متاہل زندگی بسر کرے یا اس کے ساتھ سفر کیا جائے یا مال و دولت کا کوئی معاشی معاملہ طے کیا جائے۔ معاملہ طے کرنے کے دوران میں اور طے پا جانے کے بعد اس کا رویہ اس کے حقیقی مزاج کی خبر کرتا ہے۔ چونکہ نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم صرف نور نہیں ہیں بلکہ بشر بھی ہیں اور بشر کی ارضی زندگی میں ازدواجی و معاشی سرگرمی بنیادی اہمیت رکھتی ہے، اس لیے اس ازدواجی و معاشی سرگرمی کی بنیادی اہمیت کو اجاگر کرنے اور انہی سے پھوٹتے بشری رویے کو تدین کا معیار بنانے کی خاطر، اللہ رب العزت نے نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کو خالصتاًبشری حیثیت میں معاشی انصاف پر مبنی معاہدے اور تجارت و سفر تجارت اور شادی جیسے مراحل سے گزارا ۔ ذرا غور کیجیے کہ تجارت و سفرِ تجارت اور متاہلانہ زندگی (بشمول بیٹیوں کا باپ ہونے اور ان کی شادیاں تک کر دینے) کی جاں گسل راہ سے گزار کر، اس وقت کے معاشرے کو ایک ’’بشری معیار‘‘ دینے کے بعد محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو ختمِ نبوت کے منصب پر فائز فرمایا گیا۔ ہمارے موقف کی تنقیح حضرت سائبؓ کے اس بیان سے ہوتی ہے جو انہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد دیا تھا۔جب وہ نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو صحابہ کرامؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ان کی تعریف کرنے لگے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس کو تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ اس پر سائب نے کہا کہ:
صدقت بابی انت وامی، کنت شریکی فنعم الشریک کنت، لا تداری ولا تماری (ابوداود، رقم ۴۸۳۶)
’’میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں، آپ نے درست فرمایا۔ آپ میرے شریک تجارت تھے اور آپ نہ تو جھگڑا کرتے تھے اور نہ بحث کرتے تھے۔‘‘
اس گواہی پرذرا غور تو فرمائیے۔ واقعہ یہ ہے کہ دینِ اسلام کی اس اصالت کا اظہار بعد کی صدیوں میں ہوتا رہا جب مسلمان تاجروں نے اپنے ازدواجی و معاشی رویے سے تشکیل پانے والے تدین کی بنیاد پر اسفارِ تجارت کے ذریعے اسلام کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچا دیا۔ ڈاکٹرمحمود احمد غازیؒ بجا کہتے ہیں کہ:
’’اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ اسلام اور تجارت اور اسلام اور معیشت کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔‘‘ (دوسرا خطبہ: ص ۷۴)
اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب نے ابن العربیؒ کا قول پیش کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن العربیؒ کتنے معروضی انداز میں (objectively) دین اسلام کا حقیقی مزاج دیکھ رہے تھے:
’’انسانی ترقی کا دارومدار یا انسان کی بقا کا دارومدار جن معاملات پر ہے، ان میں مشہور مالکی فقیہ اور مفسرِ قرآن علامہ ابن العربیؒ کے بقول عقدِ نکاح اور عقدِ بیع دو بنیادی اہمیت رکھنے والے معاملات ہیں، اس لیے کہ وہ یہ کہتے ہیں: ’’یتعلق بھما قوام العالم‘‘ دنیا کی پوری زندگی کی بقا ان دونوں پر موقوف ہے۔‘‘(چھٹا خطبہ:ص۲۶۱)
لہٰذا دینِ اسلام کی ایسی تعبیر جس کے مطابق دینی عقیدہ، سماجی زندگی کے رگ و پے میں اترنے کے بجائے رسوم و عبادات کے شبستانوں میں خوابِ خرگوش کا مزہ لیتا رہے، ہرگز قابلِ قبول نہیں ہو سکتی۔ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ نے ایک شخص کو عبادت و ریاضت میں ڈوبا ہوا دیکھا تو اسے درہ رسید کرتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ تیرا برا کرے، ہمارے دین کو مردہ بنا کر پیش نہ کر‘‘۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج ہمارے دور میں عبادت و ریاضت میں گھلے جانے والے کو دین زندہ کرنے والا سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ اسی ریاضت پسند اور عبادت گزار شخص سے جب کوئی معاملہ کیا جائے تو تدین اور موصوف، بالکل الگ الگ ہو جاتے ہیں۔ سیدنا عمرفاروقؓ کے دور کا ہی واقعہ ہے کہ ایک شخص بطور گواہ آپ کے پاس آیا۔ آپ نے اسے کسی ایسے شخص کو لانے کو کہا جو اسے جانتا ہو۔ وہ ایک شخص لایا جس نے اس کے بارے میں بہت اچھی رائے کا اظہار کیا۔ آپ نے پوچھا، کیا تم اس کے ہمسائے ہو اور اس کی زندگی سے خوب واقف ہو؟اس نے کہا نہیں۔ آپ نے پوچھا تم نے اس کے ساتھ سفر کیا ہے؟ اس نے پھر نفی میں جواب دیا۔ آپ نے پوچھا ، کیا تم نے اس شخص کے ساتھ کوئی معاملہ کیا ہے؟ اس نے اس سے بھی انکار کیا۔ پھر آپ نے فرمایا،میرا خیال ہے کہ تم نے اسے مسجد میں کھڑے قرآن پڑھتے، کبھی سر جھکاتے، کبھی اوپر اٹھاتے دیکھا ہے۔ اس نے ہاں میں جواب دیا۔ تب آپ نے فرمایا، چلے جاؤ تم اس کو بالکل نہیں جانتے اور اس شخص کو حکم دیا کہ جاؤ اور کسی ایسے شخص کو لے کر آؤ جو تمہیں ’’واقعی‘‘ جانتا ہو۔ غور کیجیے، یہ واقعہ خلیفہ دوم فاروقِ اعظمؓ کا ہے جو دینِ اسلام کے حقیقی مزاج کو بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ دین کی زندہ متحرک اور سماج سے وابستہ یہ تعبیر سیدنا عمر فاروقؓ کے بعد بھی جاری و ساری رہی۔ ڈاکٹر غازی مرحوم تاریخ کے جھروکے سے پردہ اٹھاتے ہیں:
’’مشہور تابعی فقیہ اور حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کے استاد الاستاذ ابراہیم نخعیؒ فرمایا کرتے تھے کہ سچا دیانت دار تاجر مجھے زیادہ محبوب ہے بہ نسبت اس شخص کے جو سب کام چھوڑ چھاڑ کر عبادت میں اپنی زندگی گزارے۔ اس لیے کہ جو شخص تجارت کرتا ہے ، زندگی کی سرگرمیاں بھرپور طریقے سے انجام دے رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عبادت بھی کرتا ہے، دینی ذمہ داریاں بھی انجام دیتا ہے۔ وہ مسلسل جہاد کی کیفیت میں رہتا ہے، وہ جہاد جو اس کا اپنے نفس کے خلاف ہے، شیطان کے خلاف ہے۔ اس لیے کہ ابراہیم نخعیؒ نے کہا کہ شیطان طرح طرح سے اس تاجر کے سامنے آتا ہے، کبھی ناپ تول اور ترازو کے ذریعے آتا ہے، کبھی لین دین کے ذریعے سامنے آتا ہے اور اس کو راہِ راست سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ دیانت دار تاجر شب و روز شیطان کے ان حربوں کو ناکام بنانے میں مصروف رہتا ہے اپنے کو ان سے دور رکھتا ہے اپنے طرزِ عمل کو پاکیزہ رکھتا ہے۔ یوں اس کو تزکیہ حاصل ہوتا ہے اور تزکیہ کے نتیجے میں جو کھرا پن پیدا ہوتا ہے، جو ستھرا مزاج انسان کا بنتا ہے، وہ اس شخص کا نہیں ہوسکتا جو سب کام چھوڑ کر مسجد کے گوشے میں یا خانقاہ کے گوشے میں بیٹھ گیاہو۔‘‘ (چھٹا خطبہ:ص۲۵۱،۲۵۲)
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تجارت کی پر خطر راہ سے گزر کر تزکیہ حاصل کرنے کے بجائے کسی کونے کھدرے میں بیٹھ کر متقی کہلانے والوں کے لیے ہی علامہ مرحوم نے کہا تھا:
جہاں میں تو کسی دیوار سے نہ ٹکرایا!
کسے خبر کہ تو ہے سنگ خارہ یا کہ زجاج
معاشی سرگرمی پر مبنی دین کی متحرک تعبیر کا ایک اور دلچسپ واقعہ ڈاکٹر غازیؒ نے پیش کیا ہے، ملاحظہ کیجیے:
’’مشہور محدث حضرت ابو قلابہؒ جو علمِ حدیث کی تاریخ کی نمایاں شخصیتوں میں سے ہیں، جن کی سند سے بہت سے ائمہ حدیث کو بہت سی روایات ملی ہیں، انھوں نے ایک شخص کو دیکھا جو مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ کر تلاوت اور عبادت کیا کرتا تھا۔ انہوں نے اس سے پوچھا کہ تم کیا کرتے ہو؟ تمہارا ذریعہ آمدنی کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ذریعہ آمدنی کچھ بھی نہیں ہے۔ لوگ ہدیہ دیتے ہیں، وہ استعمال کرتا ہوں اور اپنا وقت عبادت میں صرف کرتا ہوں۔ ابوقلابہؒ نے کہا کہ: ’’لان اراک تطلب معاشک احب الی من ان اراک فی زاویۃ المسجد‘‘، میں تمہیں معاشی زندگی اور رزقِ حلال کے حصول میں سرگرم دیکھوں، یہ مجھے زیادہ پسند ہے بہ نسبت اس کے کہ میں تمہیں مسجد کے گوشے میں بیٹھے دیکھوں۔ اس لیے کہ عبادت کا اپنا وقت ہے معاشی سرگرمی کا اپنا وقت ہے، دونوں کی ذمہ داریاں اپنی اپنی جگہ ہیں۔ ایک کو دوسرے کے لیے قربان کرنا یہ شریعت کے توازن اور اعتدال کے خلاف ہے۔‘‘(چھٹا خطبہ:ص۲۵۳)
ہمیں ابوقلابہؒ کی خوش بختی پر رشک آ رہا ہے کہ ان کے دور میں تبلیغی جماعتوں کے ا جتماع منعقد نہیں ہوتے تھے جہاں سے اب دین کی وہی تعبیر بڑے منظم طریقے سے پھیلائی جا رہی ہے جس کی نفی ابوقلابہؒ کر رہے تھے۔ اگر وہ عبادت گزار تبلیغی جماعت سے وابستہ کوئی فرد ہوتے تو اپنے عجیب و غریب جواب سے ابوقلابہ صاحب کی قلابازیاں لگوا دیتے۔ خیر! یہ قلابازیاں تو مفروضے پر مبنی ہیں اور ’’اگرمگر‘‘ کی شرط کے ساتھ ہیں، لیکن ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم نے نام نہاد متقیوں کی قلابازیاں واقعی لگوا دی ہیں۔ دیکھیے ذرا:
’’ یہی وجہ ہے کہ علمائے اسلام نے یہ لکھا تھا کہ تجارت انسان کی کسوٹی ہے۔ انسان کے تدین، تقویٰ اور پرہیز گاری کا امتحان، لین دین اور تجارت میں ہی ہوتا ہے۔ بعض اوقات ایک شخص پوری زندگی تدین کا رویہ ظاہر کرتا رہتا ہے۔ نمازیں روزے عبادات اور تمام مذہبی سرگرمیوں کی پوری پابندی کرتا ہے۔ یہ سب کام اس کے ٹھیک رہتے ہیں، لیکن اس کو کبھی بھی کسی سے لین دین کا اتفاق نہیں ہوتا۔ جب لین دین کا اتفاق پہلی مرتبہ ہو جائے تو پتا چلتا ہے کہ کتنا زرپرست انسان ہے۔ ذرا ذرا سی چیز پر کس حد تک لڑنے جھگڑنے کو تیار ہے۔ معمولی معمولی بات پر سب و شتم پر اتر آتا ہے۔ یوں تقویٰ کا سارا ملمع منٹوں میں اتر جاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ حقیقی تقویٰ کا اصل مظاہرہ کاروبار اور لین دین میں ہی ہوتا ہے۔‘‘(چھٹا خطبہ:ص۲۵۹)
ڈاکٹر محمود مرحوم، شاعر مشرق کے ہم نوا معلوم ہوتے ہیں۔ اقبالؔ نے بھی دین کی اصل روح کے بجائے رسوم و عبادات پر بے جا زور دینے کے متعلق خوب کہا ہے:
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز وروزہ وقربانی وحج
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے
بہرحال! ڈاکٹر غازیؒ کے فرمودہ میں سے آخری فقرے کو دیکھیے اور اس میں مندرج ’’ہی‘‘ پر غور کیجیے۔ یہ ’’بھی‘‘ بھی ہو سکتا تھا۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اظہارِ حقیقت نے موزوں لفظ چنا ہے اس لیے اگر کوئی تعصب یا ضد آڑے نہ آئے تو ڈاکٹر صاحب سے اختلاف کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ اسلام کی ابتدائی صدیوں کے بعد سلوک و تصوف کی غلط روی نے، عقیدہ و ضمیر کو بے عملی کی خلوت گاہوں میں تھپک تھپک کر سلا دیا۔ نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کے بجائے ’’اللہ کے سوا ہر چیز کی نفی‘‘ کے نام پر بے عملی (اور بد عملی) کی راہیں کشادہ کر دی گئیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ’’اللہ کے سوا ہر چیز کی نفی‘‘ اپنی اصالت میں تحرک کا باعث بنتی ہے کہ اللہ کی صفات اس کی ذات کا ہی حصہ ہیں۔ بے عمل فرد ان صفات کا عملی انکار کر رہا ہوتا ہے اور نتیجے کے لحاظ سے اعلیٰ درجے کی بد عملی کا مرتکب ہو رہا ہوتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ: صِبْغَۃَ اللّٰہِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً وَنَحْنُ لَہُ عَابِدون (البقرۃ۲:۱۳۸) کے مفاہیم فقط اللہ ہو اللہ ہو کی رٹ لگانے کی دعوت دیتے ہیں یا سماجی معاشی و فکری فعالیت پر اکساتے ہیں؟ اقبالؔ نے کتنا درست کہا تھا کہ:
کمالِ ترک نہیں آب وگل سے مہجوری
کمالِ ترک ہے تسخیر خاکی ونوری!
ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید کا بیشتر حصہ اوراحادیث کے دفاتر کے دفاتر اسی نوع کی غلط فہمیوں کی نہ صرف تصحیح و درستی کرتے ہیں بلکہ ترغیب و ترہیب کے ذریعے صراطِ مستقیم پر گامزن کرتے ہیں۔ ڈاکٹرمحمود غازی ؒ ہمیں بتاتے ہیں کہ اسلاف اس مسئلے کی نزاکت سے بخوبی آگاہ تھے:
’’ امام محمد بن حسن شیبانیؒ جو فقہ حنفی کے مدون اول ہیں، ان سے کسی نے کہا کہ آپ نے زہد پر کوئی کتاب نہیں لکھی۔ اس زمانے میں یعنی دوسری تیسری صدی ہجری میں محدثین کرام زہد اور رقاق کے موضوعات پر کثرت سے کتابیں تصنیف فرمایا کرتے تھے۔ یعنی احادیث کے مجموعے یا ان ہدایات کے مجموعے جو انسان کے دل میں دنیا سے استغنا پیدا کریں، للہیت پیدا کریں، دل میں نرمی پیدا کریں اور اللہ سے تعلق کو مضبوط بنائیں۔ امام محمد ؒ سے پوچھا گیا کہ آپ نے اس موضوع پر کوئی کتاب نہیں لکھی؟ امام محمدؒ نے جواب دیا، میں نے کتاب البیوع لکھ دی ہے۔ یعنی جب کتاب البیوع میں بیان کردہ حلال و حرام کے احکام پر انسان مسلسل عمل کرے گا تو لازماًتدین پیدا ہو گا۔ جب تدین پیدا ہو گا تو حلال و حرام کی تمیز پیدا ہو گی۔ جہاں حرام سے اجتناب کا جذبہ پیدا ہوگا، وہاں مشتبہات سے اجتناب کا جذبہ بھی پیدا ہو گا، اس لیے زہد خود بخود پیدا ہو جائے گا۔ اور اگر کوئی شخص احکامِ حلال و حرام کی خلاف ورزی کرے گا تو اس کے زہد و استغنا کے سارے دعوے رکھے رہ جائیں گے۔ اس لیے اکل حلال کا گہرا تعلق صدق مقال سے ہے اور صدق مقال اور اکلِ حلال دونوں کا گہرا تعلق زہد و استغنا سے ہے۔‘‘(چھٹا خطبہ:ص۲۶۱،۲۶۲)
مسلم تاریخ کے اس دور میں امام محمدؒ جیسے افراد کی قبولیتِ عامہ بتاتی ہے کہ مسلم سوسائٹی کا عمومی رجحان کیا تھا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ علما او رفقہا کے نزدیک دین کی اصل روح کیا تھی۔ امام محمدؒ کا طرزِ عمل صراحت کرتا ہے کہ آخرت کی منزل دنیا کے راستے سے گزر کر ملتی ہے۔ بقول اقبالؔ :
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
دنیا دارالعمل ہے اور عمل کا ’’معیاری اظہار‘‘ حلا ل و حرام کی تمیز یعنی مثبت معاشی سرگرمی سے ہوتا ہے۔ ہمیں نہایت تاسف سے یہ اعتراف کر لینا چاہیے کہ آج کے علما اور فقہا عمل کے ’’معیاری اظہار‘‘ کے فروغ کے بجائے تبلیغِ محض کا کام سر انجام دے رہے ہیں۔ دین کی کلیت و جامعیت اور اس کلیت و جامعیت میں سے اساس پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے اپنے تسکین ذوق کی خاطر کلیت کی نفی کر رہے ہیں، جامعیت کا انکار کر رہے ہیں اور اساس سے بیگانہ ہو رہے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم دینِ اسلام کی کلیت و جامعیت کی بھر پور ترجمانی کچھ یوں کرتے ہیں:
’’مسلمانوں کی خالص مذہبی زندگی میں متعدد احکام ایسے ہیں جن کا گہرا اثر مسلم معاشرہ پر پڑتا ہے۔ کفارات، زکوٰۃ، صدقاتِ واجبہ وغیرہ جیسے احکام اس کی مثال ہیں۔ ان سب کے واضح اور نمایاں معاشی نتائج نکلتے ہیں۔ وقف ایک طرف عبادت ہے، دوسری طرف ایک معاشرتی اور معاشی ادارہ بھی ہے۔ یہاں تک کہ اسلامی قوانین میں بعض ایسے احکام بھی پائے جاتے ہیں کہ ان پر عمل درآمد کے نتیجہ میں خالص فوجداری معاملات کے بھی جہاں معاشی اثرات نکلتے ہیں، وہاں ان کی مذہبی جہتیں بھی ہیں۔ چنانچہ دیت، قتلِ عمد کا کفارہ وغیرہ اگرچہ خالص فوجداری معاملات ہیں لیکن کفارہ جب ادا کیا جائے گا تو ظاہر ہے کہ غریبوں کو ادا کیا جائے گا۔ اس کے قواعد و ضوابط ہوں گے، ان قواعد و ضوابط کا گہرا تعلق اسلام کے فوجداری قانون سے بھی ہو گا۔ اسلام کے عبادات کے احکام سے بھی ہو گا اور ان احکام کی معاشی جہت بھی ہوگی۔ اس لیے اسلامی معاشیات کو ان تمام معاملات کو پیشِ نظر رکھنا پڑے گا۔‘‘(بارھواں خطبہ:ص۴۳۲)
دینِ اسلام کے تمام پہلوؤں کے داخلی ربط پر مبنی یہی جامعیت ہے جس کی وجہ سے اس دین کے معیارات دیگر نظاموں کے معیارات سے کافی مختلف ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اسی نکتے کو موضوع سخن بناتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’ معاشی ترقی اسلامی تصور کی رو سے کیا ہے، مغربی تصور کی رو سے کیا ہے؟ اس کی شرائط اور تقاضے کیا ہیں؟ رکاوٹیں کیا ہیں؟یہ بھی ایک اہم معاشی مسئلہ ہے جس پر مفکرینِ اسلام نے غور کیا ہے۔ شریعت اسلامیہ کے مطابق معاشی اور اجتماعی وسائل کی تیاری اور استعمال، افرادِ کار کی تیاری، کسبِ حلال کا بندوبست اور مسلم معاشرے کی مادی اور تہذیبی مقاصد کی تکمیل، یہ وہ بنیادی عناصر ہیں جن کو ترقی کا اسلامی تصور قرار دیا جا سکتا ہے۔ ترقی کے اسلامی تصور میں صرف مادی ترقی شامل نہیں ہے۔ روحانی اخلاقی ذہنی اور تہذیبی ترقی بھی شامل ہے۔ قرآن مجید نے اس کو ’’حیاۃِطیبہ‘‘ کے الفاظ سے یاد کیا ہے۔ ایسی پاکیزہ اور ستھری زندگی جو ہر اعتبار سے پاکیزہ اور ہر اعتبار سے ستھری ہو۔ ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوا کہ آسمان اور زمین کی برکتیں تم پر کھل جائیں گی۔ آسمان اور زمین کی برکتوں سے مراد تمام اخلاقی روحانی مادی اور اقتصادی برکات کا حصول ہے۔‘‘(تیسرا خطبہ:ص۱۵۹)
ڈاکٹر غازی مرحوم غالباًیہ کہنا چاہتے ہیں کہ مغرب میں ترقی کا معیار ، مربوط اور جامع نہیں ہے۔ وہاں شعبہ ہائے زندگی کی تقسیم نے ترقی کو بھی الگ الگ خانوں میں بانٹ دیا ہے۔ اس لیے اہلِ مغرب کے ہاں معاشی ترقی کا سماجی ترقی، روحانی ترقی یا زندگی کے دیگر پہلوؤں کی ترقی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے برعکس اسلام میں (کم از کم نظری اعتبار سے) معاشی ترقی، زندگی کے دیگر پہلوؤں سے بے نیاز رہ کر ترقی نہیں کہلا سکتی۔
ڈاکٹرمحمود احمد غازی مرحوم نے اسلامی اقتصاد کے ایک پوشیدہ گوشے کی نقاب کشائی کی ہے اور خوب کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ:
’’بعض لوگوں کے ذہن میں بیٹھ گیا ہے کہ جمالیات سے فرار دینی زندگی کا لازمی تقاضا ہے یا روحانی کمالات، ذوقِ جمال اور جمالیات کے ساتھ جمع نہیں سکتے۔ یہ اسی طرح کی غلط فہمی ہے جو ہندوؤں میں عیسائیوں میں عام ہے کہ دنیا کے تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ روحانی تقاضے انجام نہیں پا سکتے۔ یہ تفریق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں نہیں ہے۔ یہاں تو ہدایت یہ ہے کہ ’’ان اللہ جمیل یحب الجمال‘‘، اللہ خود بھی جمیل ہے، صاحبِ جمال ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔ یہاں جمال سے مراد محض جسمانی یا ظاہری جمال نہیں ہے بلکہ کردار کا جمال، کارکردگی کا جمال، خدمات کا جمال، اخلاق کا جمال ہے۔ ہر وہ چیز جس میں کمال اور جمال حاصل کیا جا سکتا ہو، اس میں کمال اور جمال حاصل کیا جانا اللہ تعالیٰ کی مشیت کے عین مطابق ہے۔ ایک دوسری جگہ زیادہ وضاحت سے ارشاد فرمایا ہے: ’’من صنع منکم شیئا فلیحسنہ‘‘کہ تم میں سے اگر کوئی شخص کوئی چیز بنائے، یاد رکھیے کہ یہاں صنعت کا لفظ استعمال ہوا ہے جس میں پوری صنعت اور انڈسٹری شامل ہے، ’’فلیحسنہ‘‘ تو اس کو بہت خوبصورت اور بہتر انداز سے مکمل کرے بہتر انداز سے بنائے۔ یہ صنعت کاروں کے لیے ایک ہدایت ہے کہ تم جو بھی صنعت تیار کرو، جو چیز بھی پیداوار کرنے کے لیے اختیار کرو، اس کو جتنا خوبصورت بنا سکتے ہو بناؤ۔‘‘ (پہلا خطبہ: ص ۵۱،۵۲)
ڈاکٹر صاحب نے جمال کی مجمل تشریح میں درست نہج کی نشاندہی کی ہے، لیکن ان کا جمال کو حَسن کے مترادف لینا شاید پوری طرح درست نہیں۔ جمال اپنی حقیقت میں اخلاق کے مبالغے کی ایک مستقل حالت ہے، جبکہ حَسن، عقل و بصیرت پر مبنی ایسے جاری عمل (فعلیت)کے لیے مستعمل ہے جو نگاہ میں بھی بھلا معلوم ہو۔ بہرحال! اس پر غور کیجیے کہ کوئی بنائی گئی چیز(مصنوع) اپنی ذات میں کیا بھلائی(حسنۃ) عمدگی رکھتی ہے؟ زیادہ سے زیادہ یہی نا کہ وہ کسی نگاہ کو بھلی (خوبصورت) معلوم ہوتی ہے، لیکن یہ بھی مصنوع سے الگ تھلگ کوئی دوسری چیز ہے جو اسے بھلی قرار دے رہی ہے۔ اس لیے حسنہ یعنی بھلائی کا تعلق حقیقت میں، خارج میں موجود دیگر عناصر سے اس مصنوع کی مطابقت میں ہے۔ یوں سمجھیے کہ چاند کو صرف اسی صورت میں بھلا قرار دیا جا سکتا ہے اگر یہ کائنات کے دیگر مظاہر کے ساتھ مطابقت میں ہو۔ جس طرح کائنات کے مظاہر الگ الگ اپنا وجود رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ان کے درمیان مطابقت و موزونیت بھی پائی جاتی ہے جس سے وہ کائناتی نظم تشکیل پاتا ہے جو نہ صرف ہر کائناتی مظہر کو بقا بخشتا ہے بلکہ کائنات کی ناتمامی کو صدائے کن فکیون سناتا رہتا ہے، اسی طرح انسانوں کی بنائی ہوئی اشیا بھی دیگر اشیا (مادی وغیر مادی) اور کائناتی مظاہر کے ساتھ مطابقت میں ہونی چاہییں۔ آج کے انسان نے تکنیکی و صنعتی ترقی کے بل بوتے پر نت نئی اشیا کے ڈھیر ضرور لگا دیے ہیں، لیکن ان میں سے بعض اشیا سماجی، ارضی اور کائناتی موزونیت کی مطابقت میں نہیں ہیں جس سے(سماجی اور) ماحولیاتی آلودگی، گلوبل وارمنگ اور اوزون تہہ میں شگاف جیسے انتہائی سنجیدہ مسائل پیدا ہو رہے ہیں جس کے نتیجے میں سماجی ارضی اور کائناتی نظم بری طرح منتشر ہو رہا ہے۔ انسانوں کے مابین کشمکش بڑھ رہی ہے، موسموں میں تغیر رونما ہو رہا ہے، زلزلے اور سیلاب آئے دن تباہی مچاتے رہتے ہیں۔ اس سارے عمل کا ایک بنیادی سبب ہے اور وہ ہے ’’فلیحسنہ‘‘ کے بغیر ’’من صنع منکم شیئا‘‘ پر اندھا دھند مسلسل عمل کیے جانا جو حسنہ کے بجائے سیۂ کا لازمی نتیجہ دیتا ہے۔ اس لیے صناعی کے جوہر دکھانے والوں کو احسن الخالقین کی اتباع کرنی چاہیے جوخالقوں میں اس لیے بھی ’’احسن‘‘ہے کیونکہ اس کی کاریگری کے نمونے باہم مربوط اور ایک دوسرے کی مکمل مطابقت میں ہیں۔اس احسن نے انسان کو بھی احسن تقویم پر تخلیق کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ ارضی صناعوں کو خود اپنی طرف ہی دیکھ لینا چاہیے کہ ان کا وجود فی نفسہ کتنا مربوط ہے اور خارجی اشیا سے کس حد تک موزوں ہے۔ اسی لیے اس کی تقویم احسن تقویم ہے۔ لہٰذا آج کی صنعت اور آج کی تکنیک کو یہ باور کرانے کی اشد ضرورت ہے کہ وسیع تر انسانی مفاد میں اس کا پیداواری اظہار، سماجی ارضی اور کائناتی موزونیت کی مطابقت میں ہونا چاہیے۔
موجودہ عالمی صورتِ حال کے تناظر میں اس بحث سے ایک لطیف نکتہ برآمد ہوتا ہے۔ آج بین الاقوامی تعلقات میں معاشی تعلقات کی اہمیت چونکہ بہت بڑھ گئی ہے، اس لیے کوئی بھی عالمی تبدیلی ان معاشی تعلقات سے مَس کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اگر آج کا مسلم ضمیر بیدار مغزی کا ثبوت دیتے ہوئے عالمی معاشی تعلقات میں مذکورہ بحث کے مضمرات سمو دے تو اسے ایک غالب و جاری معاشی نظام میں جگہ بنانے کا موقع مل سکے گا جس کے توسط سے عالمی اصلاحی تبدیلی کی امید بندھ سکے گی۔ لیکن افسوس کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ معیشت کے اس پہلو میں بھی مغربیوں کو سبقت حاصل ہے۔ ان کے ہاں معیشت کی یہ جہت اتفاقاًسامنے آئی ہے، لیکن اس کی بنیاد وہی ’’تجربہ و مشاہدہ ‘‘ ہے جو ان کی تہذیبی اساس قرار پاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ان کی موزونیت کی تلاش کا مذاق اڑایا جاتا ہے کہ یہ دہریے لوگ خواہ مخواہ اتنے تکلف میں پڑے ہیں، یہ اللہ کا کام ہے۔ غیر موزوں مصنوع کی پیدا کردہ خرابیوں کو اللہ خود ہی دیکھ لے گا، اس کا نظامِ قدرت ہے وغیرہ وغیرہ۔
اس تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے کہ اب ہم فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم: ’’من صنع منکم شیئا فلیحسنہ‘‘ کو دنیا کے سامنے اس دعوے کے ساتھ پیش کریں کہ دیکھو! تم لوگوں نے صنعتی انقلاب کے بعد اور اس صنعت کی خرابیوں کے ظہور کے بعد غیر موزونیت سے آگاہ ہو کر موزونیت کا عمل شروع کیا ہے، لیکن دیکھو! اسلام نے چودہ سو تیس سال سے بھی پہلے عالمِ انسانیت کی اس سلسلے میں راہنمائی کی ہے۔ غور کیجیے کہ کیا ہمارے اس دعوے میں کوئی وزن ہوگا؟ اس قسم کے دعوے ہم اکثر و بیشتر کرتے رہتے ہیں اور اہلِ علم ہمیں جاہل قرار دیتے ہوئے خاموشی سے اپنا کام کیے جاتے ہیں (خیال رہے یہاں اہلِ علم مغربیوں کو کہا جا رہا ہے)۔ سوال یہ ہے کہ ہم اپنے ہاں کام کرنے کی رِیت کب ڈالیں گے؟ اور کب ہم بعد میں بے وزن حوالے دینے کے بجائے سبقت کرتے ہوئے اسلام کی حقانیت کے مظاہر دنیا کے سامنے رکھیں گے؟ خیر! مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس وقت مغرب میں ’’ماحول دوست معیشت‘‘ کو فروغ دیا جا رہا ہے یعنی معیشت کو ماحول کے ساتھ موزوں کیا جا رہا ہے، لیکن وہ لوگ ماحول میں سماج و اخلاق کو شامل نہیں کرتے۔ اگر آج کا مسلم ضمیر مغرب کی موزونیت کی تلاش میں سماج و اخلاق کو شامل کرا سکے تو نہ صرف اسلام کی عصری حقانیت کا ایک پہلو سامنے آئے گا بلکہ عالمِ انسانیت بھی اس کی احسان مند ہو گی۔ لیکن اس سلسلے میں ما بعدالصنعتی دنیا (post industrial world) کابے لاگ تنقیدی مطالعہ کرنا ہو گاکہ اس نے انفرادی اور سماجی موزونیت کو کس حد تک کہاں اور کیسے منتشر کیا ہے۔
دینِ اسلام کے تمام پہلوؤں کے درمیان normative relation پر ہمارے ممدوحؒ کی گہری نظر ہے۔ اسی معیاری تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے وہ ہمیں بھولا ہوا سبق یاد دلانے کی کوشش کرتے ہیں:
’’ اسلامی نظامِ معیشت کا ایک اہم میدان جس کا تعلق معاشی زندگی کے ساتھ ساتھ علم اور عدلیہ سے بھی رہا ہے، جس کا تعلق معاشرتی انصاف سے بھی بہت گہرا ہے، وہ اسلام کا ادارہ وقف ہے۔ یہ ایک ایسا منفرد ادارہ ہے جو روزِ اول سے اسلام کی تاریخ میں قائم رہا۔ سب سے پہلا وقف خود سرکارِ دوعالم علیہ الصلوۃ والسلام نے قائم فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ میں سب سے پہلا وقف قائم کرنے کی توفیق اور شرف سید نا عمر فاروقؓ کو حاصل ہوا۔ یہ ادارہ دینی، معاشرتی، تعلیمی، اقتصادی، تہذیبی، ثقافتی اور نیم عدالتی ادارہ رہا ہے۔ زندگی کے ان تمام پہلوؤں میں وقف کے ادارہ نے مثبت اور نئے نئے اثرات پیدا کیے ہیں۔ امام شافعیؒ کا ارشاد ہے کہ وقف اسلام اور مسلمانوں کی خصوصیات میں سے ایک ہے۔ .....ایک زمانہ تھا کہ بعض بڑے بڑے مسلم شہروں کی جائیداد کا بڑا حصہ اوقاف پر مشتمل ہوتا تھا، اس لیے کہ ہر صدی میں اور ہر دور میں مالکانِ جائیداد نے اپنی جائیدادیں وقف کیں۔ مثال کے طور پر استنبول اور مکہ مکرمہ کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ان شہروں کی جائیدادوں کا غالب ترین حصہ وقف پر مشتمل تھا۔ ظاہر ہے یہ اوقاف ہر دور میں قائم کیے گئے، ہر صدی میں اصحابِ خیر لوگوں نے اپنی جائیدادیں وقف کیں۔ ......وقف کا اہم اصول یہ تھا جس سے تمام فقہا اتفاق کرتے ہیں اور اس پر عمل درآمد ہر دور میں ہوا ہے کہ ’’شرط الواقف کنص الشارع‘‘ کہ وقف کرنے والے کی شرائط کااور تفصیلات کا اسی طرح سے خیال رکھا جائے گا، اسی طرح سے ان کا اہتمام کیا جائے گا، ان کی تعبیر و تشریح انھی قواعد کے مطابق کی جائے گی جس طرح شریعت کی نصوص کی پابندی کی جاتی ہے اور تعبیر و تشریح کی جاتی ہے۔ اس سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی تاریخ میں وقف کا ادارہ کتنی اہمیت رکھتا تھا۔ ‘‘ (دوسرا خطبہ: ص۱۱۸،۱۱۹)
ڈاکٹر صاحب کی بیان کردہ وقف کی اہمیت، اس کی بابت اسلاف اور مسلم سوسائٹی کا طرزِ عمل، نیز امام شافعیؒ کا اسے اسلام اور مسلمانوں کی خصوصیات میں شمار کرنا، ہمارے آج کے عمومی رویے سے میل نہیں کھاتا۔ اب بات یہاں تک بڑھی ہوئی ہے کہ وقف کو خیراتی ادارے کا نام دے کر اس کی مشابہت عیسائی مشنری اداروں میں ڈھونڈی جاتی ہے اور یہ کام ایسے لوگ کرتے ہیں جو اپنے تئیں دین اسلام کے مزاج سے پوری واقفیت رکھتے ہیں۔ اور تو اور، ہمارے ہاں جو تھوڑے بہت وقف موجود ہیں، ان کی جائیدادوں پر قبضہ کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی جاتی۔ اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ اسلام کو لوٹے مصلے کی تنگنائے سے نکال کر اس کے حقیقی مزاج سے ہم آہنگ دینی تعبیر لوگوں کے اذہان میں بٹھائی جائے تاکہ وقف جیسے امتیازی اسلامی اداروں کا احیا ممکن ہو سکے۔ اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ وقف کا احیا عصری تقاضوں کی مطابقت میں ہونا چاہیے تاکہ مسلم معاشرہ اس کے عملی ثمرات سے بہرہ مند ہو سکے۔ لہٰذا ڈاکٹر غازی مرحوم کی اس تجویز سے اتفاق ضروری ہو جاتا ہے کہ :
’’اگر ایسے اوقاف قائم کر دیے جائیں جو لوگوں کو ذاتی ضروریات کے لیے بلا سود قرض دیا کریں تو بینکوں کا بہت سا بوجھ بھی کم ہو جائے گا اور عام لوگوں کی ایک حقیقی ضرورت کی تکمیل کا بندوبست بھی ہو جائے گا۔ یہ اوقاف حکومتِ پاکستان بھی قائم کر سکتی ہے، مختلف بنک بھی قائم کر سکتے ہیں، افراد بھی قائم کر سکتے ہیں۔ وقف کی یہ رقم سرمایہ کاری میں لگا دی جائے، اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں جو آمدنی ہو، اس آمدنی کو بھی وقف سمجھا جائے اور جس شخص کو بلا سود قرضے کی ضرورت ہو، مثلاًعلاج کے لیے شادی تعلیم حج وغیرہ کے لیے تو وہاں سے بلا سود قرضہ لے لے۔ اسی طرح بیت المال میں اس بات کا بندوبست ہو سکتا ہے۔ پاکستان بیت المال الحمد للہ موجود ہے۔ یہ ادارہ پندرہ بیس سال سے کام کر رہا ہے۔ اگر بیت المال میں ایسا بندوبست کر دیا جائے کہ ایک ریوالونگ فنڈ ہو، اس کو کسی کامیاب اور جائز سرمایہ کاری میں لگا دیا جائے۔ مثلاًاس کے حصص خرید لیے جائیں اور اس فنڈ کی آمدنی سے ذاتی مقاصد کے لیے لوگوں کو غیر سودی بنیادوں پر صرفی قرضے دیے جائیں تو یہ بیت المال کے مقاصد کے عین مطابق ہوگا۔ .......اگر قرضوں کی یہ اسکیم بیت المال میں شروع کر دی جائے تو بڑے پیمانے پر لوگ اس سے مستفید ہوں گے۔ جو بیت المال سے قرضہ لے کر حج کر آئے گا وہ زندگی بھر بیت المال کا شکر گزار رہے گا۔‘‘ (دسواں خطبہ: ص ۳۷۲، ۳۷۳)
واقعہ یہ ہے کہ وطنِ عزیز کے جس طبقے کی حمایت میں ڈاکٹر صاحب یہ تجاویز پیش کر رہے ہیں، اس طبقے کی جوانی نا گفتہ بہ معاشی حالت کی نذر ہو جاتی ہے۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ اس طبقے کی اکثریت زندگی کے آخری ایام میں آرام کرنے کے بجائے حج کی مشقت اٹھانے کو ترجیح دیتی ہے اور یوں ان کی زندگی بھر کی کمائی آخرت کے ذخیرے کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ اس لیے ہمارے ممدوحؒ کا یہ فرمانا کہ بیت المال سے قرضہ لے کر حج کرنے والا زندگی بھر بیت المال کا شکرگزار رہے گا، حقیقت بیانی نہیں ہے۔ اس بے چارے کی زندگی باقی ہی کتنی رہ جاتی ہے؟ یہاں بنیادی سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرض اٹھا کر حج کرنے کی ترغیب دینا کیا مقاصدِ شریعت سے مطابقت رکھتا ہے؟ پھر جس طبقے کو قرض اٹھا کر حج کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے، کیا اس کی معاشی زندگی اس سطح کی ہوتی ہے کہ وہ قرض لے کر کسی معاشی سرگرمی میں ملوث ہونے کے بجائے حج کرنے کی ٹھان لے؟ کیا اس طبقے کی معاشی حالت اور حج کے تقاضے ہم آہنگ اور باہم مربوط ہیں؟ اگر ڈاکٹر صاحب فرماتے کہ وقف یا بیت المال کی آمدنی کا چند فی صد حصہ ایسے طبقے کے حج کرنے کے لیے مختص کر دیا جائے تو یہ بہتر تجویز ہوتی۔البتہ صرفی قرضوں کی تجویز کی حد تک ڈاکٹر غازیؒ سے سو فی صد اتفاق کرنا پڑتا ہے۔ ایسے قرضے بلا شبہ وقت کی اشد ضرورت ہیں۔ اس قسم کی تجاویز ڈاکٹرمحمود غازی مرحوم کے زرخیز ذہن کی عکاسی کرتی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ مرحوم کا نقطہ نظرمجموعی طور پر واقعیت پسندانہ ہے۔ درج ذیل اقتباس ہی ملاحظہ کیجیے کہ ان کی سوچ کے اس رخ کا اس میں خوب اظہار ہو رہا ہے:
’’ بیمہ اورانشورنس کا اصل محرک شرعاًقابلِ اعتراض نہیں ہے۔ یہ بات کہ اگر ایک شخص کو معاشی پریشانی کا سامنا ہو یا مالی مشکلات پیش آئیں تو دوسرے لوگ مل کر اس کی مدد کریں، یہ تصور شریعت میں پسندیدہ ہے اور شریعت کے احکام کے عین مطابق ہے۔ ایک حد تک یہ تصور اسلام میں پہلے دن سے موجود ہے۔ عاقلہ کے احکام احادیث میں تفصیل کے ساتھ دیے گئے ہیں۔ عاقلہ کے معنی یہی ہیں کہ کسی شخص پر اس کی کسی غلطی کے بغیر، کسی جرم کے بغیر یا محض بھول چوک سے کوئی تاوان مثلاًدیت یا ضمان عائد ہو جائے تو پوری برادری یا قبیلہ یا بستی کے لوگ مل کر اس کو ادا کریں۔ یہ تصور میثاقِ مدینہ میں بھی موجود ہے۔ جس کو اسلام کا پہلا تحریری دستور قرار دیا گیا ہے اور بعض اہلِ علم نے اس کو دنیا کی تاریخ کا پہلا تحریری دستور بھی قرار دیا ہے۔ اس میں یہ بات موجود ہے کہ عاقلہ کا جو نظام قریش میں پہلے سے موجود تھا وہ بدستور جاری رہے گا۔ جس جس قبیلے میں عاقلہ کا جو نظام موجود تھا، وہ اسی طرح موجود رہے گا اور ہر گروہ رائج الوقت معروف طریقے اور انصاف کے مطابق اپنے مقروضوں کا قرض ادا کرتا رہے گا۔ خود قرآن مجید میں زکوٰۃ کی مدات میں ایک اہم مد غارمین کی رکھی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص مقروض ہو تو اس کا قرض زکوٰۃ سے ادا کر دیا جائے۔ .......فقہائے اسلام میں سب سے پہلے جس نے اس پر توجہ دی، وہ علامہ ابن عابدینؒ ہیں جو اپنے زمانے کے غالباًسب سے بڑے حنفی فقیہ تھے اور متاخرین فقہائے احناف میں ان کا بہت اونچا درجہ ہے۔ انہوں نے اس کے لیے سوکرہ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ یہ غالباًسکیورٹی کا معرب ہے۔ ..... انہوں نے اس معاملے کو غیر مشروع اور حرام قرار دیا ہے یعنی اس صورت کو جو ان کے زمانے میں یورپ میں رائج تھی، اس کو انہوں نے حرام قرار دیا۔ .....وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے غور و خوض ہوتا گیا، بیمہ کاری کی عملی تفصیلات واضح ہوتی گئیں، بیمہ کے رائج الوقت قوانین سے آگاہی ہوتی گئی۔ بیمہ کے بارے میں شریعت کا نقطہ نظر بھی واضح ہوتا گیا اور بالآخر یہ طے ہوا کہ تعاونی بیمہ Cooperative Insurance جائز ہے۔ .....لیکن تجارتی بیمہ کے بارے میں علمائے کرام کی غالب اکثریت کا کہنا ہے کہ یہ ناجائز اور حرام ہے۔ ......بیمہ کے ساتھ ساتھ ایک اہم مسئلہ جس کا ابھی تک قابلِ عمل اور شریعت کے اعتبار سے قابلِ قبول حل مکمل طور پر سامنے نہیں آ سکا، وہ Re-insurance کامعاملہ ہے۔ ری انشورنس سے مراد یہ ہے کہ بڑی بڑی انشورنس کمپنیاں اپنے انشورنس کے معاملات کی بھی انشورنس کرواتی ہیں۔ یہ ری انشورنس یعنی بیمہ کا بیمہ بہت بڑی بڑی کمپنیوں میں ہوتا ہے۔ ابھی تک ری انشورنس کی کوئی قابلِ ذکر اور بڑی کمپنی دنیائے اسلام کے کسی ملک میں موجود نہیں ہے۔ ری انشورنس کے لیے جدید ماہرین نے ری تکافل کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ انگریزی میں تکافل اور ری تکافل کا لفظ اب عام استعمال ہونے لگا ہے۔‘‘(گیارھواں خطبہ:ص۴۲۲،۴۲۳،۴۲۴)
بظاہر بیمہ اور عاقلہ کے درمیان ایسا تعلق بنتا نظر نہیں آتا جیسا کہ ڈاکٹر غازیؒ نے بنا دیا ہے البتہ دونوں کے مقاصد پیشِ نظر رکھے جائیں تو نہ صرف ایسے تعلق کی گنجایش نکلتی ہے بلکہ بیمہ کو عاقلہ کا قائم مقام ٹھہرا کر ترویج دینے کی بھی ترغیب پیدا ہوجاتی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں ایک بنیادی اشکال وارد ہوتا ہے کہ ماضی میں تو عاقلہ کے فرائض قبیلہ انجام دیتا تھا جدید دور میں اس کی کیا صورت ممکن ہوسکتی ہے؟ اگر عاقلہ کی ذمہ داری ریاست یا ریاست کے زیرِ انتظام کسی ادارے کے سپرد کر دی جائے تو اس سے ایک تو قومی ریاست کے جدید تصور کو قبولیت عامہ ملتی ہے جس سے اسلام کا تصورِ ملت جو عوامی حلقوں میں کسی نہ کسی حد تک اب بھی پایا جاتا ہے، مجروح ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بفرضِ محال قومی ریاست اور تصورِ ملت میں تطبیق دے لی جاتی ہے تو پھر بھی جدید مسلم قومی ریاستوں میں کرپشن میں روزافزوں اضافہ، عاقلہ کی ذمہ داریاں ریاست کے سپرد کرنے میں مانع ہو جاتا ہے۔ اس لیے علاقائی بنیادوں (یعنی قومی ریاست) کے بجائے گروہی شناخت کے دیگر عناصر مثلاًبرادری، زبان، نسل وغیرہ، کو اگر نظری اعتبار سے بھی قبول کر لیا جائے(کہ عملاًانہیں قبولیت عامہ حاصل ہے)، تو نہ صرف ایک مصنوعی غیر فطری شناخت (یعنی قومی ریاست)جو گروہوں کے سر تھوپ دی گئی ہے (جس کی وجہ سے نہ مطلوب اجتماعی نظم قائم ہوتا ہے اور نہ مطلوب مقاصد حاصل ہو پاتے ہیں) سے چھٹکارا مل سکتا ہے اور اسے اس کی فطری حدود میں پابند کیا جا سکتا ہے بلکہ گروہی شناخت کے فطری عناصر کو راہ ملنے سے حقیقی معنوں میں ایسا نظمِ اجتماعی قائم ہو سکتا ہے جس پر لوگ (یعنی متعلقین گروہ) واقعتادل و جان سے نثار ہوں گے۔ واقعہ یہ ہے کہ عاقلہ کی ذمہ داری ایسا ہی نظم اجتماعی بطریق احسن پوری کر سکتا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ فی الحال(یعنی عبوری دور کے لیے) عاقلہ کی ذمہ داری ریاست کو تفویض کر کے کیا اصلاحِ احوال کی امید کی جاسکتی ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنا مصلحت کے خلاف ہو گاکہ یہ عبوری دور ہمیشہ ناتمام رہے گا۔ اس لیے عبوری دور کے لیے، ریاست کے بجائے معاشرے کے مختلف گروہوں کو یہ اختیار تفویض کر دیا جائے تو ایک تو یہ گروہ نسبتاًذمہ دارانہ کردار ادا کریں گے اور دوسرا یہ کہ یہی گروہ ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے بتدریج دیگر ریاستی فرائض بھی سنبھالتے چلے جائیں گے اور اس دوران میں ان مختلف سماجی گروہوں کے درمیان باہمی انحصار (inter-dependence) پر مبنی ایسی موافقت بھی پروان چڑھے گی جس کے نتیجے میں امہ یا ملت کا تصور حقیقی معنوں میں اور عملی صورت میں رونما ہو سکے گا۔ اس وقت وطن عزیز میں مختلف سماجی گروہ برادری وغیرہ کی بنیاد پر عاقلہ سے مماثل فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ مثلاً مختلف شہروں میں مختلف برادریوں نے ٹرسٹ ہسپتال اور تعلیمی ادارے قائم کر رکھے ہیں جن کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ اسی عمل کی توسیع کرتے ہوئے اگر بیمہ وغیرہ کو بھی شامل کر لیا جائے تو کامیابی کی امید کی جا سکتی ہے، کیونکہ برادری زبان وغیرہ انسانی شناخت کے فطری عوامل ہیں، اس لیے ان بنیادوں پر لوگ آپس میں انس و قربت محسوس کریں گے اور ایک دوسرے پر اعتماد بھی کریں گے۔ اس طرح تشکیل پانے والے نظام میں کسی برادری کے سرکردہ لوگ یعنی عاقلہ کے مدار المہام بھی اخلاقی دباؤ میں پوری طرح جکڑے ہوئے ہوں گے، کیونکہ برادری سے کٹ کر اور برادری کے مفادات سے ہٹ کر کوئی فیصلہ کرنا، کوئی قدم اٹھانا ان کے لیے عملاً ممکن نہیں ہو گا۔ اس کے برعکس اگر یہ ذمہ داری ریاست کے سپرد کر دی جائے تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ فرد اور ریاست ایک دوسرے کو فریق کے طور پر دیکھتے ہیں۔ عاقلہ کا بنیادی فلسفہ یہی ہے اور اس کے احیا کا بنیادی تقاضا بھی یہی ہے کہ فرد اور عاقلہ کے درمیان کسی بھی حوالے سے کسی بھی نوعیت کے تناؤ یا کھینچا تانی کا کوئی احتمال سرے سے پایا ہی نہ جاتا ہو، بلکہ فرد اور عاقلہ ایک دوسرے سے پوری طرح ہم آہنگ ہوں، موافق ہوں، موزوں ہوں۔
واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں صنعتی انقلاب کے بعد انسانوں کے مابین ایک نیا رشتہ تشکیل پایا ہے، وہ ہے مالک اور مزدور کا رشتہ۔ یہ رشتہ سماجیوں اکائیوں میں ایک نیا اضافہ ہے۔ اگر شروع میں ہی مالک اور مزدور کے تعلق کو ایک نئی سماجی اکائی کے طور پر دیکھا جاتا تو اسلام کے تصورِ عاقلہ وغیرہ کے تحت مالک اور مزدور کے معاملات بطریق احسن لازماً سلجھالیے جاتے۔ لیکن اب ٹریڈ یونینز اور لیبر یونینز، مالکان کو حریف کے طور پر دیکھتی ہیں اور مالکان بھی ان سے خائف رہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں دو طرفہ مفاہمانہ طرزِ عمل کے بجائے مخاصمانہ انداز و اطور اختیار کیے جاتے ہیں۔ مالکان سیاست کرتے ہوئے ان یونینز کے عہدیداران کو ہاتھوں میں لے لیتے ہیں اور یہ عہدیداران ذاتی مفادات کی خاطر اپنی کمیونٹی کے مفادات کو قربان کر دیتے ہیں۔ لیکن جہاں کہیں مالک اور مزدور کے مابین مفاہمانہ طرزِ عمل سامنے آیا ہے، وہاں نہ صرف باہمی مخاصمت میں کمی واقع ہوئی ہے بلکہ مالک اور مزدور دونوں کو سہولت میسر آئی ہے، مثلاً سوشل سکیورٹی ہسپتال اور تعلیمی ادارے دیکھ لیجیے۔ اس لیے مالک اور مزدور کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ وہ ایک ہی کشتی کے سوار ہیں، یعنی اس نئے رشتے نے انہیں عاقلہ کی لڑی میں پرو دیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مسلم ممالک میں چونکہ صنعتی انقلاب کے اثرات بہت بعد میں آئے، اس لیے یہ ممالک نسبتاً زیادہ بہتر پوزیشن میں تھے کہ مغربی ممالک میں مالک اور مزدور کے تعلق کی کش مکش کو مد نظر رکھتے ہوئے اصلاحِ احوال کی غرض سے کوئی متبادل صورت پیش کرتے اور اپنے ہاں صنعتی پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ اس متبادل نظام کو رائج کرکے اس گھمبیر مسئلے کا حل دنیا کے سامنے پیش کر دیتے۔ اگر ایسا ہوتا تو مسلم ممالک کے فکری راہنماؤں کی نظر عاقلہ جیسے اسلامی اداروں کی طرف اٹھ سکتی تھی، لیکن افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ مسلمان تو کوئی متبادل نظام پیش کرنے سے قاصر رہے ، البتہ سوشلزم اور کمیونزم جیسا انتہا پسندانہ تصور قبولیتِ عامہ سے بہرہ مند ہوا، لیکن اس سے مالک اور مزدور کے مسائل بطریق احسن سلجھ نہیں سکے۔اس لیے اگر اسلام کے تصورِ عاقلہ کو اب بھی عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے تو مالک اورمزدور کے تعلق سمیت زندگی کے مختلف شعبوں میں مثبت پیش رفت ممکن ہو سکتی ہے، کیونکہ عاقلہ کا طرہ امتیاز انس و قربت ہے نہ کہ چپقلش و کش مکش۔
اگر واقعیت پسندی سے کام لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہمارے ہاں فرقہ وارانہ فضا نے بھی مختلف فرقوں کو الگ الگ سماجی اکائیوں میں بانٹ رکھا ہے۔ اس اندوہ ناک صورت کو بھی مثبت جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ ایک ہی فرقے سے وابستہ لوگ آپس میں انس و قربت محسوس کرتے ہیں۔ ان کے احساسات کو عاقلانہ تنظیم دے دی جائے تو نہ صرف ایسے فرقہ وارانہ فروعی مسائل کا بیان کافی کم ہو جائے گا جن کا زندگی اور مقاصدِ شریعت سے دور کا بھی تعلق نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ فروعی مسائل کی اس جہت کو بھی فروغ حاصل ہو گا جو مقاصد شریعت سے پوری طرح ہم آہنگ ہو گی۔
اس سلسلے میں مسئلہ یہ ہے کہ مذہبی حلقوں کی طرف سے ایسے اقدامات کی بابت حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کی ہی توقع کی جاسکتی ہے کہ اہلِ مذہب کے نزدیک اس عمل سے امت کے مزید منتشر ہونے کا خطرہ ہے۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ امت صرف تصور کی حد تک کتابوں میں پائی جاتی ہے، اس کا سرے سے جسمانی وجود ہی نہیں ہے، چہ جائیکہ منتشر ہونے کا خطرہ پیدا ہو جائے۔ مذہبی حلقوں کے اس طرزِ عمل سے البتہ اتنا ضرور ہوا ہے کہ مثبت جہت میں منظم ہونے کے بجائے ایسے مختلف سماجی گروہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں اور ان کا رخ بھی غلط اطراف میں مڑتا جا رہا ہے۔ اس طرح سماج کاری (socialization) کے جس جاری عمل سے عاقلہ کے ظہور کی عملی صورت ممکن ہو سکتی تھی، اس کی راہ میں قدم قدم پر اسپیڈ بریکر قائم ہو گئے ہیں۔ اس تشویش ناک صورتِ حال میں بھی اگر گروہی شناخت کے فطری مظاہر کو تسلیم کر لیا جائے اور علاقائی بنیاد پر قائم قومی ریاست کے بجائے ان سماجی گروہوں سے عاقلہ جیسے فرائض کی بجاآوری کی توقعات وابستہ کر لی جائیں تو اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ بہت ہی کم عرصے میں یہ سماجی گروہ قدیم زمانے کے قبائل کے مانند عاقلہ کا بھر پور کردار ادا کریں گے۔اس سلسلے میں ہم محض اشارے کنایے میں یہ گزارش کریں گے کہ ایک امتیازی اسلامی ادارے وقف کو بھی عاقلہ کے ساتھ منسلک کر دیا جائے تو مختلف شناختوں کے حامل صاحبِ ثروت افراد اپنے اپنے مخصوص گروہ کے لیے جائیدادیں وقف کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے جس کے نتیجے میں معاشرتی و معاشی(نیز اخلاقی) ابتری میں خاطر خواہ حد تک کمی واقع ہوگی۔
مذکورہ بالا اقتباس کے آخر میں ڈاکٹر محمود مرحوم نے بیمہ کا بیمہ یعنی ری انشورنش یا ری تکافل کی بات کی ہے۔ ہمارے خیال میں ایسے امور میں قومی ریاست زیادہ بہتر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہو گی، لیکن ایسی قومی ریاست جو مختلف شناختوں کے حامل مختلف سماجی گروہوں کی حقیقت یعنی کثرت میں وحدت (unity in diversity) کو قبول کرتے ہوئے وحدت میں کثرت (diversity in unity ) کا واقعیت پسندانہ مظاہرہ کرے۔ اسی اصول کو مزید پھیلاتے ہوئے عالمی سطح پر اوآئی سی، رابطہ عالم اسلامی وغیرہ کے پلیٹ فارم سے بیمہ کا بیمہ کا بھی بیمہ ممکن ہو سکے گا جس کے نتیجے میں معیشتِ اسلامی کا ایک گم گشتہ باب عصری تقاضوں کی مطابقت میں بازیافت ہو گا۔
وسائل رزق اور مال و دولت کی انسانی زندگی میں کیا اہمیت ہے، ڈاکٹر محمود احمد مرحوم اس پر یوں اظہارِ خیال کرتے ہیں:
’’یہ مال و دولت یہ وسائل جو اللہ نے روئے زمین پر پیدا کیے ہیں، یہ انسانی معاشرے کے لیے وہی حیثیت رکھتے ہیں جو انسانی جسم کے لیے خون کی ہے۔ قرآن کریم نے مال و دولت کو قیام للناس کے لفظ سے یاد کیا ہے۔ ......کوئی معاشرتی یا اجتماعی زندگی، معاشی سرگرمی کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی اور معاشی سرگرمی کے لیے مال و دولت کا ہونا وسائل رزق او راسبابِ پیداوار کا ہونا ناگزیر ہے۔ اس لیے اسبابِ رزق اور وسائل پیدا وار کی حیثیت قیام للناس کی ہے۔‘‘(پہلا خطبہ:ص۲۶)
واقعہ یہ ہے کہ اگر تعصب آڑے نہ آئے تو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ کارل مارکس کی جدلیاتی مادیت (Dialectical Materialism ) کا پس منظر جدا ہے، الفاظ جدا ہیں، ورنہ قیام للناس اور اس کے درمیان کوئی آہنی پردہ (iron curtain) حائل نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی درج ذیل وضاحت سے مزید صراحت ہو جاتی ہے۔ فرماتے ہیں:
’’انسان یہ سمجھ لے کہ جو مال و دولت میرے تصرف یاقبضے میں ہے، میں اس کا حقیقی مالک نہیں ہوں۔ ’’المال مال اللہ‘‘ یہ سارا مال اللہ کا ہے اور میری حیثیت اس مال میں اللہ کے جانشین کی ہے۔ ’’مستخلفین فیہ‘‘ کہ تم لوگوں کواس مال میں اللہ کا جانشین بنایا گیا ہے، اس لیے یہ رویہ ’’ان نفعل فی اموالنا ما نشاء‘‘ کہ ہم اپنے مال میں جو چاہیں کریں، یہ رویہ درست نہیں ہے۔ گویا جس رویے کو مغربی معاشیات کی تاریخ میں laissez faire کہا جاتا ہے، یہ رویہ اسلامی شریعت سے متعارض ہے۔ اسلامی معیشت ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک ریگولیٹڈ معیشت کی علم بردار ہے۔‘‘ (پہلا خطبہ: ص ۳۱، ۳۲)
پہلی بات تو یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ’’المال مال اللہ‘‘ اور ’’مستخلفین فیہ‘‘ کی تشریح یک رخی کی ہے۔ سورۃ النساء، آیت۹۷ میں ’’مستضعفین فی الارض‘‘ (oppressed in earth) جیسے جواز پر اللہ رب العزت کی گرفت: ’’ فَأُوْلَئِکَ مَأْوَاہُمْ جَہَنَّمُ وَسَاءتْ مَصِیْراً‘‘ کتنی سخت ہے، اس کو دھیان میں رکھیے اور سورۃ الحدید کی آیت۷ میں مذکور ’’مستخلفین فیہ‘‘ (in which as deputies) پر دوبارہ غور کیجیے۔ کیا اس کا یہی مطلب نہیں کہ جب مال کسی بشر کی ملک ہی نہیں بلکہ بشر مستخلفین (deputies) ہیں تو پھر وہ کیونکر خود کو پستی میں گرا کر مستضعفین (oppressed) کی سطح پر قانع ہو جاتے ہیں۔ اس لیے مستضعفین کا جدوجہد کر کے خود کو مستخلفین کی صف میں شامل کرانا (یعنی یکساں حقوق و یکساں نیابت کا دعویٰ کرنا) شارع کا منشا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اسے مسلمہ حقیقت (settled fact) قراردے رہے ہیں کہ سبھی انسان مستخلفین ہیں اور مستضعفین سرے سے موجود ہی نہیں ہیں، حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں، مسلم ممالک میں اور وطن عزیز میں کتنے فی صد لوگ ہیں جو مستخلفین کی حیثیت میں جی رہے ہیں اور کتنے فی صد لوگ مستضعفین کی پست سطح پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، یہ جاننے کے لیے کیا اعداد و شمار کے گورکھ دھندے کی ضرورت ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے نوعِ انسانی کو اصولاًاور مقصوداً مستخلفین کے مقام سے نوازا ہے۔ حقیقت کے اعتبار سے سورۃ الحدید جیسے بیانات یاددہانی اور تنبیہ سے عبارت ہیں کہ کہیں نوعِ انسانی کا کوئی طبقہ اپنے تئیں مستخلفین کی سطح سے بلند ہوکر قارون کی طرح مال و دولت کا مالک بن بیٹھے اور دیگر طبقات کو مستضعفین کی انتہائی پست و حقیر سطح پر لے آئے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انتہائی طاقت ور ہونا اور انتہائی کم زور پسا ہوا ہونا، قرآن کے مطابق دو انتہائیں ہیں اور ان کے درمیان نقطہ اعتدال مستخلفین ہونا ہے۔ غالباًڈاکٹر غازی مرحوم مستضعفین کو قارونی طبقہ کے خلاف بغاوت پر اکسا کر قرآنی نقطہ اعتدال (جسے وہ خود قیام للناس کہتے ہیں) کے ابلاغ کی ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں ہیں، اسی لیے مستخلفین کو امر واقعی کے انداز میں لے رہے ہیں۔ خیر! یہ کوئی نئی بات نہیں،تاریخ بتاتی ہے کہ (شاہ ولی اللہؒ اور کارل مارکس جیسے افراد کے استثنا کے ساتھ) علما اور سکالرز کی اکثریت کا یہی شیوہ رہا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ laissez faire سے مراد معیشت کا ریاستی کنٹرول سے حتی الامکان آزاد ہونا ہے۔ اگر ’’الاصل فی المعاملات الاباحۃ‘‘ کے اصول کے تناظر میں دیکھا جائے تو laissez faire کو اسلامی شریعت سے متعارض قرار دینا اتنا آسان نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ بازار کے معاملات کو آزاد چھوڑ دینا چاہیے، اس لیے ریگولیٹڈ اکانومی کو اسلامی قرار دینا خاصا مشکل ہے کہ اس میں بازار کے معاملات میں(ریاست وغیرہ کی طرف سے) غیر فطری مداخلت کا احتمال موجود رہتا ہے۔ اسلامی معیشت کے بارے میں البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مائیکرو لیول پر اس میں laissez faire کی گنجایش موجود ہے اور میکرو لیول پر ریگولیشن کی، یعنی ریاست ضرورت پڑنے پر فطری مداخلت کی حد تک محدود رہے۔ سیدنا عثمان غنیؓ کے درج ذیل طرزِ عمل سے بخوبی اندازہ ہو تا ہے کہ فرد کی آزادی اور ریاست کی حاکمیت کے درمیان خط تفریق کہاں کھینچا جاناچاہیے:
’’ حضرت عثمان غنیؓ کے زمانے سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ اموالِ ظاہرہ کی زکوٰۃ ریاست وصول کرتی تھی اور اموالِ باطنہ کی زکوٰۃ افراد خود دیا کرتے تھے۔ سیدنا عثمان غنیؓ کو اللہ تعالیٰ نے بہت غیر معمولی بصیرت عطا فرمائی تھی۔ انہوں نے بہت سے معاملات میں ایسے فیصلے کیے جن کے بہت دور رس اثرات ظاہر ہوئے اور اگر وہ یہ فیصلے نہ فرماتے تو آج بہت سے مسائل کھڑے ہو گئے ہوتے۔ چنانچہ اموالِ ظاہرہ اور اموالِ باطنہ کی تقسیم بھی ان اہم معاملات میں سے ایک ہے۔ سیدنا عثمان غنیؓ نے یہ محسوس فرمایا کہ ہو سکتا ہے آئندہ چل کر کچھ لوگ اپنے اموالِ باطنہ کی زکوٰۃ دینے میں تامل کریں۔ محصلِ زکوٰۃ اصرار کرے کہ ان کے پاس مال ہے، وہ اصرار کریں کہ ان کے پاس مال نہیں ہے اور نوبت تلاشی اور گرفتاری تک پہنچے تو یہ سرکاری کارندوں کو ایک ایسا ہتھیار دینے کے مترادف ہو گا جس سے کام لے کر سرکاری کارندے ہر شخص کی شخصی زندگی میں بے جا مداخلت کر سکتے ہیں۔ یوں تجسس کا ایک ایسا مکروہ عمل عام ہو جائے گا جس کے نتیجے میں بہت سی قباحتیں پیدا ہوں گی۔ شریعت نے تجسس سے منع کیا ہے۔ عامۃ الناس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ اس لیے یہ توقع کرنی چاہیے کہ عامۃ الناس اپنے اموالِ باطنہ کی زکوٰۃ خود ادا کر دیں گے اور اموالِ ظاہرہ کی زکوٰۃ ریاست وصول کرے گی۔‘‘ (پانچواں خطبہ: ص ۲۱۴، ۲۱۵)
بہرحال! فرد کی معاشی آزادی اور ریاستی مداخلت کی حدود خاصا نازک مسئلہ ہے۔ یہ تناؤ اور کھینچا تانی کی دو مستقل حالتیں ہیں، اس لیے ان میں سے کسی ایک کی بہت واضح برتری، معاشی واخلاقی توازن کے بگاڑ کا باعث بنتی ہے۔ لیکن یہ ایک زاویہ نگاہ ہے اسے دوسرے زاویے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر محمود مرحوم فرماتے ہیں کہ:
’’ یہ بات کہ تجارت میں حصہ لینا فی نفسہ نیکی کا کام ہے اور خدمتِ خلق ہے، یہ متعدد احادیث میں بیان ہوئی ہے۔ ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروقؓ نے فرمایا اور یہ روایت موطا امام مالکؒ میں موجود ہے کہ جو شخص گرمی سردی کی پرواہ کیے بغیر ہماری منڈیوں میں باہر سے مال لے کر آتا ہے اور اس کو فروخت کرتا ہے تو وہ عمر کا مہمان ہوگا ، یعنی سرکاری مہمان ہوگا۔ ہماری مہمانی کے دوران جس طرح چاہے، اپنا سودا فروخت کرے اور جتنا چاہے، فروخت کرے اور جتناچاہے، فروخت نہ کرے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ تاجروں کو سہولتیں فراہم کرے اور ان سہولتوں کو فراہم کرنے میں سرکاری وسائل بھی خرچ کرے۔ ‘‘(چھٹا خطبہ: ص ۲۳۶، ۲۳۷)
نیکی کے جس تصور کی تبلیغ ڈاکٹر غازی مرحوم کر رہے ہیں ، اس کا تصور بھی ہمارے ہاں محال ہے۔ لیکن فاروقِ اعظمؓ کا عمل صراحت کر رہا ہے کہ نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتگان نیکی کے حقیقی تصور سے نہ صرف پوری طرح آگاہ تھے بلکہ عملاًاس پر کاربند تھے۔ تاجر کو سرکاری مہمان بنانے والی بات پر ذرا غور تو کیجیے کہ مومنین کی ہےئت اجتماعی(خلیفہ یا خلافت) اس کی مہمان نوازی کر رہی ہے۔ خیال رہے کہ خلافت کے ذریعے سے مومنین اور اسلام کے مجموعی فکر و عمل کا اظہار ہوتا ہے۔ اس اظہار کی نوعیت پر دوبارہ غور تو کیجیے اور اپنے ہاں رائج دین کے فرسودہ تصور پر ماتم کیجیے۔ اس اقتباس کا یہ بیان کہ ’’جس طرح چاہے جتنا چاہے اور جتنا نہ چاہے‘‘ اتنا سادہ نہیں ہے جتنا ڈاکٹر مرحوم نے بنا دیاہے۔ اس کی بابت ہماری رائے یہ ہے کہ سیدنا عمرفاروقؓ کے اس بیان کو ان کے دیگرمعاشی سرگرمیوں سے متعلق بیانات اور شریعت کے منشا کے ساتھ ملا کر سمجھنا چاہیے۔
یہاں موقع کی مناسبت سے غنیمت معلوم ہوتا ہے کہ چند اصولی نکات پر بحث چھیڑی جائے تاکہ فرد کی آزادی اور ریاستی مداخلت کے حوالے سے دوسرا زاویہ نگاہ سامنے آ سکے۔ دیکھا جائے تو فرد کی آزادی کے دو پہلو ہیں: مثبت اور منفی۔ مثبت سے مراد فرد کو ایسی سہولیات کی فراہمی ہے جن کے بغیر اس کی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار نہیں ہو سکتا اور منفی سے مراد فرد کی خود غرضی وغیرہ کی تہذیب کے لیے اس پر پابندیاں عاید کیا جانا ہے کہ اس کی خود غرضی سے دوسرے افراد کی آزادی کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں(اور اس سے اس کی اپنی آزادی بھی غیر محفوظ ہو جاتی ہے)۔ اسی بات کو پلٹا کر دیکھا جائے تو ریاستی مداخلت کے بھی دو پہلو سامنے آتے ہیں، مثبت اور منفی۔ فرد کی صلاحیتوں کے بہتر اظہار کی غرض سے اگر ریاست مداخلت کرتے ہوئے سہولتیں فراہم کرتی ہے تواسے مثبت مداخلت کا ہی نام دیا جا سکتا ہے اور فرد کی خود غرضی وغیرہ کی تہذیب کے لیے اگر اس پر پابندیاں عائد کرتی ہے تو اسے منفی مداخلت کہا جا سکتا ہے، لیکن چونکہ دیگر افراد یعنی سوسائٹی کی آزادی کو لاحق خطرات دور کرنے کی غرض سے منفی مداخلت کی جاتی ہے، اس لیے اسے منفی مداخلت کا عنوان دینا شاید مناسب نہ ہوگا، بلکہ یہ مثبت مداخلت سے بڑھ کر دوہری مثبت مداخلت ہے۔ نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مباک کہ محمد کی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو اس کے ہاتھ کاٹ دیے جاتے، اس دوہری مثبت مداخلت کی بہترین مثال ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ اسلامی احکامات کا نفاذ ہمیشہ مثبت مداخلت کے لیے ہوتا ہے، چاہے اکہری مثبت مداخلت ہو چاہے دہری مثبت مداخلت ہو۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ اسلامی احکامات کا نفاذ، لفظوں کی خاطر کسی انسان کی جان لینا نہیں ہے یا لفظوں کی خاطر کسی انسان کے ہاتھ کاٹنا نہیں ہے وغیرہ، بلکہ اصلاً ومقصوداً مفادِ عامہ کے تحفظ یا کلی مصلحت کی غرض سے ان احکامات کی تنفیذ کی جاتی ہے، وگرنہ حقیقت یہی ہے کہ انسان الفاظ سے کہیں زیادہ قیمتی اور اہم ہے۔ بخاری کی اس روایت پر غور کیجیے اور بتائیے کہ کیا اس میں اور ریاست کی مذکورہ دوہری مثبت مداخلت میں مماثلت نہیں پائی جاتی؟ اس روایت سے سے ہمارے موقف کی تنقیح ہو جاتی ہے:
’’اللہ کی کھینچی ہوئی حدود کا پاس رکھنے والے اور ان سے تجاوز کرنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے کچھ لوگ تھے جنہوں نے باہم شریک ہو کر ایک کشتی حاصل کی۔ کچھ لوگوں کو اوپر کا حصہ ملا اور کچھ لوگوں کو نیچے کا۔ جو لوگ نیچے کے حصے میں رہتے تھے، ان کو پانی پینے کے لیے اوپر والوں سے ہو کر گزرنا پڑتا تھا۔ انہوں نے سوچا کہ کیا اچھا ہوتا اگر ہم اپنے ہی حصہ میں ایک سوراخ کر لیں اور اوپر والوں کو تکلیف دینے سے بچ جائیں۔ اگر لوگ ان کو ان کا ارادہ پورا کرنے دیں تو خود بھی ہلاک ہوں اور اگر ان کا ہاتھ پکڑ لیں تو وہ بھی بچ جائیں اور سب کے سب نجات پائیں۔‘‘ (بخاری، رقم ۲۳۶۱)
المختصر! کلی مصلحت یا مفادِ عامہ (public interest) کے تحفظ کے اس اصول کا پورا پورا لحاظ اسلامی معاشی احکامات کو روبہ عمل لاتے ہوئے بھی رکھنا چاہیے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب سیدناعمرفاروقؓ مہمان نوازی کی بات کرتے ہیں تو در حقیقت ریاستی مداخلت کی سنگل مثبت جہت کا اظہار کرتے ہیں اور مفادِ عامہ (public interest) کے تحفظ کے اصول کو عملی جامہ پہناتے ہیں۔
اسلامی معیشت کی رو سے جدید بینکاری میں ربا(سود) ایک سنجیدہ مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم نے اس پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ ربا کے بارے میں وہ ایک اصولی بات سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’ ربا کے باب میں ایک بنیادی اور اہم بات یاد رکھنی چاہیے، نہ صرف ربا کے باب میں بلکہ یہ حکم شریعت کے تمام معاملات اور لین دین سے متعلق ہر قسم کے کاروبار میں دیا گیا ہے: ’’العبرۃ با لمضمون والجوہر ولیس بالصورۃ والمظھر‘‘ کہ کسی کاروبار یا تجارت یا لین دین کے حلال و حرام ہونے میں اصل اعتبار اس کے مندرجات اور اس کے مضمون کا ہے، اس کی ظاہری صورت یا عنوان کا نہیں ہے۔‘‘(ساتواں خطبہ: ص ۲۷۴)
ہمارے خیال میں غلامی کے مسئلے میں بھی ظاہری صورت یا عنوان کے بجائے مندرجات حقیقت اور ماہیت کو لیا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ جدید دور کی پیچیدگی نے ربا کے مانند غلامی کو بھی ملفوف کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ربا کے بارے میں تو پھر بھی بات اٹھتی رہتی ہے، لیکن غلامی کے بارے میں علما وفقہا مکمل خاموش ہیں اور اس کے نت نئے عنوانات کو اس کے مندرجات کی بنیاد پر ہدفِ تنقید نہیں بناتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جدید دور میں معاشی مسئلے کا حقیقی حل صرف ربا کے خاتمے سے ممکن نہیں ہے بلکہ ربا کا بھی مکمل خاتمہ ممکن نہیں ہے جب تک کہ غلامی کے عنوان کے خاتمے سے قطع نظر اس کے مندرجات کی حقیقت کو تسلیم کرکے اصلاحِ احوال کی کوشش نہ کی جائے۔ خیر! یہ ایک جملہ معترضہ تھا۔ ڈاکٹر محمود احمد مرحوم ربا(سود) سے متعلق بات بڑھاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ:
’’ربا کی حرمت شریعت کے بہت سے احکام کی طرح بالتدریج نازل ہوئی ہے۔ شریعت کا یہ مزاج رہا ہے کہ بہت سی اصلاحات میں بہت سے اہم معاملات میں احکام کے نزول میں تدریج سے کام لیا گیا ہے۔ اگر کوئی عادت خاص طور پر عادتِ قبیحہ لوگوں میں بہت جاگزین تھی تو اس کو بیک وقت ختم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اس تدریج کی وجہ یہ ہے کہ شریعت کوئی غیر عملی نظام نہیں ہے۔ شریعت کی بنیاد محض جذبات و احساسات یا عواطف پر نہیں ہے۔ اگرچہ جذبات و احساسات و عواطف کی انسانی زندگی میں بہت اہمیت ہے اور شریعت بھی اس اہمیت کا احساس و ادراک رکھتی ہے، لیکن انسانی معاملات میں حقائق پر نظر رکھنا واقعات اور انسانی زندگی کی نفسیات کو پیشِ نظر رکھنا، یہ شریعت کے اہم امتیازی اوصاف میں سے ہے۔ ان اہم امتیازی اوصاف میں تدریج کا طریقہ کار بھی ہے۔‘‘(ساتواں خطبہ:ص۲۷۵)
تدریج کے اصول کی وضاحت ڈاکٹر صاحب کے ذمہ تھی کہ آج بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں؟ کیونکہ اس کا عمومی جواب ’’نہیں‘‘ میں ملتا ہے، اس لیے ڈاکٹر صاحب اس نفی میں شریک معلوم ہوتے ہیں۔ بہرحال! ڈاکٹر غازی مرحوم مضاربہ کو سود کی متبادل اساس قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسلامی بینکاری مضاربہ کی بنیاد پر کھڑی کی جا سکتی ہے، کہتے ہیں کہ:
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نوجوانی میں نبوت سے بہت پہلے مضاربہ کی بنیاد پر کاروبار کا آغاز فرمایا۔ حضرت خدیجۃ الکبریؓ کا مال لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تجارت کے لیے تشریف لے گئے۔ یہ مضاربہ ہی کی ایک شکل تھی۔ بعد میں بھی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور صحابہ کرامؓ نے مضاربہ کی بنیاد پر کاروبار کیے۔ ....... مضاربہ کی بنیادی روح یہ ہے کہ سرمایہ دار یا جس شخص کے پاس سرمایہ یا سامانِ تجارت ہے، اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ تجارت اور کاروبار میں بھی مہارت رکھتا ہو۔ دوسری طرف جو شخص تجارت اور کاروبار کے گروں سے واقف ہے اور تجارت کا تجربہ رکھتا ہے، اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ سرمایہ بھی رکھتا ہو۔ اس لیے ان دونوں کے وسائل سے بیک وقت فائدہ اٹھانے کے لیے مضاربہ کا طریقِ کار دنیا میں بہت پہلے سے رائج ہے۔ ...... بیسویں صدی کے وسط میں جب اسلامی بینکاری پر گفتگو اور بحث و مباحثے کا آغاز ہوا تو اہلِ علم کی نظر سب سے پہلے مضاربہ پر پڑی، اس لیے کہ مضاربہ وہ طریقِ کار ہے جس کو بہت آسانی کے ساتھ جدید بینکاری کے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جو حضرات بینکوں میں اپنی رقوم رکھتے ہیں، ان کی حیثیت رب المال کی قرار دی جا سکتی ہے۔ گویا وہ رب المال ہیں اور وہ اپنا سرمایہ کاروبار اور تجارت کے لیے دے رہے ہیں۔ بنک کی حیثیت اس مضارب کی ہو گی جو اپنے سرمایے کو آگے مضاربہ پر دے دیتا ہے۔ فقہ کی کتابوں میں اس عنوان کے تحت اس موضوع پر بحث ہوتی ہے: ’’باب المضارب یضارب‘‘۔ مضارب اگر آگے مضاربہ کرنا چاہے تو اس کو اجازت ہے اور رب المال کی اجازت سے کچھ شرائط کے تحت وہ آگے دوسرے کاروباریوں سے مضاربہ کر سکتا ہے۔ چنانچہ بنک ان تمام رقوم کو لے کر کچھ رقوم کو تو خود کاروبار میں لگاتا ہے اور بقیہ رقوم کو وہ آگے کاروبار کے لیے تجارت کرنے والوں کو دے دیتا ہے۔ یہ entrepreneur جو بنک سے سرمایہ لے کر تجارت کرتے ہیں، صنعت لگاتے ہیں یا کوئی اور کاروبار کرتے ہیں، یہی دراصل مضارب ہیں۔ بنک کی حیثیت درمیانی کارندے کی ہے۔ یہاں بنک کی دو حیثیتیں ہیں۔ اصل رقم دینے والوں کے لیے اس کی حیثیت مضارب کی ہے اور اصل مضارب کے مقابلے میں اس کی حیثیت رب المال کی ہے۔ اس عمل کو اگر شریعت کے احکام کے مطابق انجام دیا جائے تو یہ جدید بینکاری کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے موزوں ترین اور مفید ترین طریقِ کار ہے۔‘‘(آٹھواں خطبہ:ص۳۱۴،۳۱۵)
ڈاکٹر صاحب کی تجویز بلاشبہ کارآمد ہے۔ وہ ایک قدم اور آگے بڑھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اسلامی طریقوں، اصولوں اورمقاصد سے مماثلت رکھنے والے مغربی یا غیر اسلامی بینکوں کے طریق ہائے کار سے سیکھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے:
’’ ایک اہم بات یہ ہے کہ خود مغربی دنیا میں مضاربہ سے ملتا جلتا ایک طریقِ کار رائج ہے جس پر وہاں بہت کامیابی سے عمل ہورہا ہے۔ یہ طریقِ کار venture capital کہلاتا ہے۔ وینچر کیپیٹل کی روح بھی یہی ہے کہ سرمایہ فراہم کرنے والا ایک شخص ہو ، جس کو وہاں خاموش شریک یعنی sleeping partner کہا جاتا ہے۔ وہ براہ راست کاروبار میں حصہ نہیں لیتا ۔ دوسری طرف کاروبار کرنے والا شخص ہوتا ہے جو اصل کاروبار کرتا ہے، یہی دراصل مضارب ہے۔ وینچر کیپیٹل کو بہت آسانی کے ساتھ بغیر کسی بڑی تبدیلی کے مضاربہ کے احکام کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے۔ ......ہمارے یہاں بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب ہم مضاربہ پر کسی کو مال دیں گے تو وہ لازماً کاروبار میں نقصان ظاہر کرے گااور یہ دعویٰ کرے گا کہ مضاربہ میں کوئی نفع نہیں ہوا۔ لہٰذا جو گھر بیٹھا شریک (sleeping partner) ہے اس کو نقصان ہی نقصان ہو گا۔ یہ اعتراض بلاشبہ وزن رکھتا ہے، اس لیے کہ ہمارا تجربہ اس طرح کی سرمایہ کاری کے بارے میں خوش آئند نہیں رہا۔ ماضی میں فائنانس کمپنیوں کے حالات اور کارکردگی سے ہم سب واقف ہیں۔ تاج کمپنی جیسے ادارے میں جو مسائل پیدا ہوئے، اس سے ہم سب واقف ہیں۔ اس لیے بعض لوگ مضاربہ پر عمل درآمد کے بارے میں واقعتا اس لیے تامل کرتے ہیں کہ اگر لوگوں کے اعتماد پر بھروسہ کر کے ان کو بھاری رقمیں سرمایہ کاری کے لیے دے دی جائیں تو اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ وہ واقعتا اصل حسابات مالکانِ سرمایہ کے سامنے پیش کریں گے اور ان کو ان کا جائز حق ادا کریں گے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ اگر وینچر کیپیٹل کے قواعد و ضوابط کو سامنے رکھا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ مغربی دنیا میں اس پر کیسے عمل ہو رہا ہے، وہاں کے تجربات اور طریقہ کار سے استفادہ کیا جائے تو مضاربہ کو درپیش بہت سی مشکلات پر قابو پایا جاسکتاہے۔‘‘(آٹھواں خطبہ:ص۳۱۶،۳۱۷)
مغربی نظام کی افادیت و کامیابی کو ڈاکٹر غازی مرحوم صحیح تناظرمیں نہیں دیکھ پا رہے۔ مغربی بینکاری میں رائج وینچر کیپٹیل کی کامیابی کا راز محض قواعد و ضوابط کی طلسم کاری نہیں ہے۔ وہاں قواعد و ضوابط حقیقت میں امدادی و اضافی حیثیت میں کام کر رہے ہیں۔ جب بھی مغربی سوسائٹی کے معاشی مقاصد اور ان قواعد و ضوابط میں مطابقت کم ہونی شروع ہوتی ہے تو وہ لوگ قواعد پر مقاصد کو ترجیح دیتے ہوئے فوراًسے پہلے مقاصد سے ہم آہنگ قاعدی تبدیلی کر لیتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اہل مغرب بحیثیت مجموعی، اپنے معاشی مقاصد سے پوری طرح متفق اور باخبر ہیں۔ اس اتفاق و باخبری نے ان میں ایک خاص اخلاقی حِس پیدا کر رکھی ہے جس کا تعلق معاملات و معاشیات سے ہے۔ اسے ہم (business ethics) کا نام دے سکتے ہیں۔ ہمارا اصل مسئلہ اس حِس کی غیر موجودگی یا اس کا خوابیدہ ہونا ہے۔ اس لیے یہ محض خام خیالی ہے کہ وینچر کیپٹیل میں رائج قواعد سے استفادہ کر کے مضاربہ کو درپیش مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ جو بات مغربیوں سے سیکھنے کی ہے ڈاکٹر غازیؒ سمیت ہم میں سے اکثر لوگ اس کے لیے ذہنی طور پر آمادہ نہیں ہیں۔ ہم کسی طور یہ تسلیم ہی نہیں کر سکتے کہ مغربی تہذیب صرف مادی اعتبار سے ترقی یافتہ نہیں ہے بلکہ اخلاقی لحاظ سے بھی برتر و بالادست ہے۔ یعنی ہم صرف مادی ترقی میں پیچھے نہیں ہیں بلکہ اخلاقی اعتبار سے بھی ناگفتہ بہ حالت میں ہیں۔ اگرچہ اپنے تئیں ہم یہ دعویٰ کرنے سے بالکل نہیں چوکتے کہ مغربیوں کو اخلاقیات کا درس ہم سے ضرور لینا چاہیے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارے اس قسم کے دعوے حقیقت سے فرار کے سوا اور کچھ نہیں ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہی قوم دنیا کی راہنمائی کے منصب پر فائز ہوتی ہے جو اخلاقی لحاظ سے بھی نسبتاًبہتر حالت پر قائم ہو۔ اس لیے ہمیں معاشی ترقی میں مطلوب اخلاقیات (business ethics) کو رواج دینے کی زیادہ ضرورت ہے نہ کہ مغربی طرزکے ظاہری قواعد و ضوابط کی اندھا دھند پیروی کی۔ بہرحال! سود کی متبادل اساس کی تشریح کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ:
’’مشارکہ یا شرکت سے مراد ہر وہ کاروبار ہے جو دو یا دو سے زائد افراد مل کر کریں۔ آج کل کی اصطلاحات کی رو سے پارٹنر شپ، جوائنٹ اسٹاک کمپنی اور کارپوریٹ فائنانسنگ کی ساری قسمیں، یہ سب مشارکہ ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ ......فقہائے اسلام جس زمانے میں مشارکہ کے احکام مرتب فرما رہے تھے، اس زمانے میں مشارکہ کی جو جو شکلیں رائج تھیں، ان کا انہوں نے جائزہ لیا اور شریعت کے قواعد کی روشنی میں ان کے احکام مرتب کر دیے۔ اس زمانے میں شرکتِ عنان، شرکتِ مفاوضہ وغیرہ قسم کی شراکتیں رائج تھیں۔ بعض علما کا خیال ہے کہ آج کل کارپوریٹ فائنانسنگ کے نظام کے تحت جو کمپنیاں بنائی جاتی ہیں، ان کی نوعیت شرکتِ عنان سے بہت مشابہ ہے۔ اس لیے ان علما کے خیال میں شرکتِ عنان کے احکام کے تحت کمپنیوں کے نظام کو بہت آسانی کے ساتھ شریعت کے مطابق بنایا جا سکتا ہے۔ ......بالفرض اگر شرکتِ عنان کی تفصیلات کسی کمپنی کے طریقِ کار پر پوری نہیں اترتیں تو بھی اس کمپنی کے کاروبار کے جائز ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ شرکتِ عنان کے سو فی صد مطابق ہو۔ اگر کوئی کمپنی ایسی ہے کہ اس کے قواعد و ضوابط اور طریقِ کار میں کوئی چیز شریعت کے قواعد اور احکام سے متعارض نہیں ہے تو وہ جائز ہے، چاہے اس کو شرکتِ عنان کہا جا سکے یا نہ کہا جا سکے۔ یہی کیفیت مشارکہ کی دوسری قسموں کی ہے۔ .......علامہ عزالدین بن عبدالسلام نے اپنی انتہائی فاضلانہ کتاب ’’قواعد الاحکام فی مصالح الانام‘‘ میں بیان کیا ہے ’’کل تصرف تقاعد دون تحصیل مقصودہ فھو باطل‘‘ کہ ہر وہ تصرف یا سرگرمی جس سے اس کا اصل مقصود پورا نہ ہو وہ باطل ہے۔ لہٰذا مشارکہ متناقصہ ہو، مشارکہ منتہیہ بالتملیک ہو یا اور نئی شکلیں ہوں، اگر ان کے نتیجے میں شریعت کے مقاصد پورے ہو رہے ہیں، اگر ان کے نتیجے میں عامۃ الناس نفع نقصان کے تحت کاروبار میں آزادانہ شریک ہو رہے ہیں، اگر ان میں سے کسی طریقِ کار میں شریعت کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی تو پھر یہ سب جائز ہیں۔ لیکن اگر یہ مقاصد ان سے پورے نہیں ہو رہے تو محض عربی میں نام رکھ لینے سے کوئی طریقِ کار جائز نہیں قرار دیا جا سکے گا۔‘‘ (آٹھواں خطبہ: ص ۳۱۸، ۳۱۹، ۳۲۰)
ہمارے ممدوحؒ نے سود خوری سے جنم لینے والی برائیوں مثلاً بزدلی، سستی، کاہلی وغیرہ پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ سود خور اپنے سرمایے کاغیر فطری تحفظ کرتے کرتے over-protection کا شکار ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں ایسی جملہ صفات جو تازہ خون کے مانند جسم کو توانا رکھتی ہیں، آہستہ آہستہ اس سود خور فرد و قوم سے رخصت ہو جاتی ہیں۔مثال کے طور پر جرات، اقدام اور حوصلہ ، صحت مند زندگی کی لازمی صفات ہیں۔ ان اوصاف سے مزین انسان مثالی طرزِ عمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔ معاشی زندگی میں ایسے مثالی طرزِ عمل کی بابت ڈاکٹر غازی مرحوم کہتے ہیں کہ:
’’ دوسری بات جو شریعت کے احکام سے واضح طور پر سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ ایک تاجر اور کاروبار کرنے والے میں یہ حوصلہ ہونا چاہیے کہ وہ پہل کرسکے اور اقدام کر سکے یعنی کوئی جرات مندانہ قدم اٹھا سکے۔ یہ کامیابی اور ترقی کی ایک اہم شرط ہے۔ زندگی کے کسی بھی پہلو میں واقعہ یہ ہے کہ پہل اورا قدام کا حوصلہ رکھے بغیر کامیابی اور ترقی حاصل نہیں ہوتی۔ ربا اور سود خوری سے یہ جذبہ ختم ہوجاتا ہے۔ گھر بیٹھ کر کھانے کی عادت ہو جاتی ہے، اس لیے شریعت نے یہ کوشش کی ہے اور جا بجا ایسے احکام دیے ہیں جن کے نتیجے میں ہر جائزروزی کمانے والا محنت، پہل اور اقدام سے کام لے۔ گھر بیٹھ کر کھانے کا عادی نہ ہو۔ اس لیے کہ گھر بیٹھ کر کھانے سے تجارتی سرگرمی بھی کم زور ہو جاتی ہے اور پہل اور اقدام کا جذبہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔‘‘(چھٹا خطبہ:ص۲۴۱)
ہماری ناقص رائے میں گھر بیٹھ کر کھانے سے پہل اور اقدام کا جذبہ ختم نہیں ہوتا بلکہ غلط رخ موڑ لیتا ہے جس سے کئی اخلاقی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ یہ بات اب تقریباًمسلمات میں سے ہے کہ انسانی جذبات کی تہذیب کی جا سکتی ہے، لیکن انہیں مکمل ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یوں سمجھیے جیسے مادہ ختم نہیں ہوتا بلکہ شکلیں بدلتا رہتا ہے، اسی طرح انسانی جذبات بھی اظہار کے نت نئے پیرایے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ اگر انہیں درست سمت میں گامزن (channelize) نہ کیا جا سکے تو کسی چاتر بہروپیے کے مانند یہ روپ بدلتے رہتے ہیں۔ جب بدلے ہوئے روپ میں ان کا اظہار ہوتا ہے تو ظاہر بین سمجھتے ہیں کہ اصل جذبہ تو ختم ہو چکا ہے، یہ کوئی اور ہی چیز ہے، حالانکہ یہ وہی اصل جذبہ ہوتا ہے جو مناسب راستہ نہ ملنے کی وجہ سے سی آئی ڈی کو چکمہ دے کر کہیں نہ کہیں کارروائی ڈال رہا ہوتا ہے۔ ربا (سود) کے معاملے میں یہ نہایت ہی اہم نکتہ ہے کہ اس سے انسانی فعلیت کی ایک خصوصیت ’’پہل‘‘ کا اظہار نامناسب بلکہ اکثر اوقات شرم ناک انداز میں اور غیر موزوں مقامات پر ہوتا ہے۔ اس سے ایک تو یہ نقصان ہوتا ہے کہ اسے درست سمت میسر نہ ہونے کی وجہ سے معاشی سرگرمی سست روی کا شکار ہو جاتی ہے اور دوسرا یہ کہ اس کے غلط رخ لینے سے کئی قسم کے نفسیاتی و اخلاقی مسائل پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں جن کا انجام سوائے تباہی کے اور کچھ نہیں ہوتا۔
مسلکی اعتبار سے ڈاکٹر صاحب کے یہاں عصبیت نہیں پائی جاتی۔ ان کا رجحان ’’امتزاجی مسلک‘‘ کی جانب ہے جس کا اظہار انہوں نے بغیر لگی لپٹی رکھے کافی کھل کر کیا ہے۔ مثلاًفرماتے ہیں کہ:
’’بینکوں کو شکایت یہ ہے کہ ہمارے یہاں جب کوئی شخص بینکوں سے رقم لینے آتا ہے تو بڑی موثر اور متاثر کن قسم کی رپورٹ لے کر آتا ہے۔ .......چند سال گل چھرے اڑانے کے بعد آتا ہے، بینکوں کو درخواست دیتا ہے کہ میری صنعت تو نہیں چلی، میری تجارت میں تو گھاٹا ہو گیا۔ اس سارے عمل کی حیثیت چونکہ ایک وعدے کی ہے اور فقہ حنفی کی رو سے کوئی وعدہ عدالتی اور قانونی طور پر واجب العمل نہیں ہوتا، اس لیے اس فزیبلٹی رپورٹ feasibility report میں کیے گئے وعدوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ اس مسئلے کا حل بعض عرب ممالک میں اہلِ علم نے تجویز کیا ہے۔ انہوں نے فقہ مالکی سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ اگر کسی شخص کے وعدے کی بنیاد پر کوئی شخص کوئی ایسا کام کرے جو وہ نہ کرتا اگر اس سے یہ وعدہ نہ کیا جاتا، اور وعدہ بعد میں جھوٹا ثابت ہو تو وعدہ کرنے والا اس نقصان کی تلافی کا پابند ہے۔ اس لیے عرب ملکوں میں عام طور پر رائے یہ ہے کہ فزیبلٹی رپورٹ میں جو کچھ کہا گیا ہے، اس کو حتمی کمٹمنٹ سمجھا جائے گا اور اس کی قانونی اور عدالتی پابندی لازمی ہو گی، الا یہ کہ فریق عامل یعنی entrepreneur یہ ثابت کرے کہ جن اسباب سے وہ تجارت یا صنعت کامیاب نہیں ہوئی، وہ اس کے بس سے باہر تھے۔ پھر یہ ایک امرِ واقعہ کا سوال ہو گا، اس پر عدالتیں غور کریں گی، گواہیوں اور شواہد کی بنیاد پر معاملات طے کیے جائیں گے۔‘‘(گیارھواں خطبہ:ص۴۰۵،۴۰۶)
سوال یہ ہے کہ جس قوم کا صدر میثاق کر کے مکر جائے اور توجیہ پیش کرے کہ میثاقِ جمہوریت قرآن و حدیث نہیں ہے، یہ سمجھے بغیر کہ قرآن حدیث میثاق کی پابندی کا حکم دیتے ہیں، اس قوم کے لیے فزیبلٹی رپورٹ کی کیا اہمیت ہو گی؟ ہماری رائے میں قرآنی حکم ’’اوفوا بالعقود‘‘ اور حدیثِ مبارکہ ’’المسلمون عند شروطھم‘‘ کا فہم مالکیوں کے استدلال کو تقویت بخشتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ فقہ حنفی کو ہی دین سمجھنے والے انگشت بدنداں رہ جائیں کہ غیر احناف کا استدلال قابلِ قبول’’کیسے ‘‘ہو سکتا ہے؟ لیکن ہمارے ممدوحؒ کی خو، بات بڑھانے والی ہے، اس لیے بہت صاف صاف کہتے ہیں:
’’ بعض علما کا کہنا ہے کہ خرید وفروخت اور عقود کے معاملات میں امام احمد بن حنبل ؒ کا نقطہ نظر بہت آسان اور وسیع ہوتا ہے۔ اس لیے امام احمد بن حنبلؒ کے اجتہادات سے اگر خاص طور پر استفادہ کیا جائے تو بیع کے احکام کو زیادہ آسانی کے ساتھ مرتب کیا جا سکتا ہے۔ کچھ اور حضرات کا کہنا ہے کہ بیوع کے بارے میں امام مالکؒ کے وضع کردہ اجتہادی قواعد بہت پختہ اور بہتر ہیں۔ ......اس لیے دنیائے اسلام میں آج کا رجحان یہی ہے اور یہ بہت مفید اور مثبت رجحان ہے کہ فقہ اسلامی کے پورے ذخیرے کو سامنے رکھ کر اجتہادی معاملات میں یہ دیکھا جائے کہ ائمہ فقہ کا کون سا اجتہاد ہے جو آج کل کے تقاضوں کے زیادہ مطابق ہے اور آج کل کے مسائل کو زیادہ آسانی کے ساتھ حل کر سکتا ہے۔‘‘ (آٹھواں خطبہ: ص ۳۲۱، ۳۲۳)
ڈاکٹر صاحب جس اعلیٰ ظرفی کی سو فی صد توقع کر رہے ہیں ، کم از کم پاکستان کے علما کے لیے تو اس کا پچاس فی صد اظہار بھی سو فی صد ناممکن ہے۔ اگر بات شعوری اور متصلب حنفیوں تک محدود ہوتی تو شاید کسی طور کھینچ تان کر انہیں اجتماعی ملی دھارے میں لایا جا سکتا تھا، لیکن خیر سے یہاں ایسے متعصب، ضدی، تنگ نظر اور فرقہ پرست مینڈکوں کی بہتات ہے جن کے لیے کنواں ہی سمندر ہے۔ بہرحال! ڈاکٹر غازی مرحوم اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اسلامی بینکاری کی کامیابی لوگوں کی ’’واقعی ضروریات‘‘ کی تکمیل سے وابستہ ہے۔ اس لیے فرماتے ہیں کہ:
’’اگرچہ آج پاکستان میں ایسے جائز ذرائع الحمدللہ موجود ہیں جہاں اس طرح کی رقم لگائی جا سکتی ہے اور جائز طریقے سے گھر بیٹھے آمدنی ہو سکتی ہے۔ لیکن چونکہ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے بددیانتی اور دھوکہ دہی کا دور دورہ ہے، اس لیے بہت سے لوگ اپنا پیسہ لگاتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ بینکوں کا نظام چونکہ شروع سے چلا آ رہا ہے، دو سو ڈیڑھ سو سال سے ایک خاص نہج پر قائم ہے، وہاں دھوکہ کے امکانات نسبتاًکم ہوتے ہیں، اس لیے کچھ لوگوں کی واقعی ضرورت ہے کہ ان کے لیے ایسانظام وضع کیا جائے جن کو گھر بیٹھے ماہانہ رقم مل سکے۔ اب چونکہ پاکستان میں بہت سے بینکوں نے اسلامی شعبے بھی قائم کر دیے ہیں، اسلامی برانچیں بھی بنائی ہیں، اس لیے اب یہ نسبتاًآسان ہو گیا ہے اور اسلامی بینکوں کو یا روایتی بینکوں کے جو اسلامی شعبے ہیں یا اسلامی شاخیں ہیں، ان کو یہ کام کرنا چاہیے اور بیوہ خواتین، بوڑھے پنشنرز، بے گھر لوگ، یتیم بچے اور بے سہارا، ایسے حضرات کے لیے شریعت کے مطابق کوئی ایسی اسکیمیں بنانی چاہیےیں جہاں وہ پیسہ لگا سکیں اور ان کو گھر بیٹھے آمدنی ہو سکے۔‘‘(نواں خطبہ: ص ۳۵۰، ۳۵۱)
ربا کی بحث میں ظلم و استحصال کے حوالے سے ناقدین کی تاویلات کو ڈاکٹر غازی مرحوم نے آڑے ہاتھوں لیا ہے، کہتے ہیں کہ:
’’ ظلم اور استحصال کا بعض حضرات بہت کثرت سے حوالہ دیتے ہیں اور عجیب بات ہے کہ ظلم اور استحصال کے بار بار حوالے کے باوجود ربا کی بعض قسموں کو جائز قرار دینا چاہتے ہیں۔ بنک انٹرسٹ کی کوئی قسم ایسی نہیں ہے جس میں اس مفہوم میں ظلم اور استحصال نہ پایا جاتا ہو جس مفہوم میں قرآن مجید نے ظلم اور استحصال کو ناجائز قرار دیا ہے۔ قرآن مجید کی رو سے ظلم یہ ہے کہ اصل سرمایے سے زیادہ کا مطالبہ کیا جائے اور یہ بھی ظلم ہے کہ اصل سرمایے سے کم واپس کیا جائے۔‘‘(نواں خطبہ:ص۳۵۷،۳۵۸)
سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایک لاکھ رروپے قرض لیتا ہے اور سال بعد ایک لاکھ واپس کرتا ہے تو کیا وہ اصل سرمایہ واپس کرتا ہے؟ ہماری نظر میں وہ اصل سرمایے سے کم رقم واپس کرتا ہے کیونکہ افراطِ زر کے باعث روپے کی قیمت کم ہو چکی ہوتی ہے۔ اندریں صورت قرض دینے والا جس رقم سے خود نفع حاصل کر سکتا تھا، اس رقم کو قرض دے کر نہ صرف ایسے نفع سے محروم رہتا ہے بلکہ الٹا اسے اصل رقم کے بجائے(ویلیو کے اعتبار سے) کم رقم ملتی ہے۔ کیا یہ ظلم نہیں ہے؟ کیا یہ بھی’’ منفی ربا‘‘سے ملتی جلتی صورت نہیں ہے؟ کیا یہ بھی عجیب بات نہیں ہے؟ ڈاکٹر محمود مرحوم غالباًقرض کے معاملے میں افراطِ زر جیسے مسئلے کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، البتہ افراطِ زر اور اس کی قباحتوں سے وہ بخوبی واقف ہیں:
’’ اقتصادِ کلی کے دوسرے اہداف میں قیمتوں میں استحکام کا معاملہ بھی شامل ہے۔ قیمتوں میں استحکام ریاست کی معاشی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ اگر قیمتوں میں استحکام نہ ہو تو نہ درآمد درست ہو سکتی ہے نہ برآمد درست ہو سکتی ہے۔ قیمتوں میں استحکام نہ ہو تو تنخواہ دار طبقہ اور محدود آمدنی رکھنے والے لوگ اپنی زندگی کے معاملات کو درست نہیں کر سکتے۔ قیمتوں میں استحکام اس لیے بھی ضروری ہے کہ افراطِ زر جو آج کل زر اعتباری کا ایک لازمی نتیجہ ہو گیا ہے، اسے کم سے کم رکھا جائے۔ جب تک زر اعتباری کا نظام دنیا میں موجود ہے اس وقت تک مکمل طور پر افراطِ زر کو ختم کرنا شاید ممکن نہیں ہے۔ البتہ مناسب اقدامات اور تدبیروں سے اسے کم سے کم رکھا جاسکتا ہے۔ اتنا کم سے کم جو عامۃ الناس کی سکت سے باہر نہ ہو۔ اس کام کے لیے ضروری ہے کہ ایک متوازن مالیاتی اور زری پالیسی وضع کی جائے جس پر ریاست کے تمام ادارے کام کریں۔ مالیاتی اور زری پالیسی وضع کرنا ریاست کا ہی کام ہے اور یہ ریاست کے اقتصادی اہداف میں سے ایک ہے۔‘‘ (چوتھاخطبہ:ص۱۶۸)
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کا یہ کہنا ’’جب تک زر اعتباری کا نظام دنیا میں موجود ہے، اس وقت تک مکمل طور پر افراطِ زر کو ختم کرنا شاید ممکن نہیں ہے‘‘ اشارہ دے رہا ہے کہ ان کے ذہن میں زرِ اعتباری کا کوئی متبادل نظام موجود ہے، لیکن نجانے انہوں نے اس کا اظہار کیوں نہیں کیا۔ بہرحال! ڈاکٹر غازی ؒ اسلامی بینکاری میں سود کے شائبے تک سے بچنے کی خاطر، جہاں قرض کے معاملے میں افراطِ زر سے چشم پوشی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہاں اتنی نرمی ضرور دکھاتے ہیں کہ:
’’بنکوں کے واقعی اخراجات کو پوراکرنے کے لیے سروس چارج لگایا جا سکتا ہے۔ سروس چارج کے جائز ہونے پر عام طور پر اس دور کے علما کرام کا اتفاق ہے۔ سروس چارج کے قواعد و ضوابط بہت سے علمائے کرام نے مرتب فرمائے ہیں۔‘‘ (دسواں خطبہ: ص ۳۷۲)
سود سے پاک اسلامی بینکاری عملی طور پر کیسے آگے بڑھ سکتی ہے اور اس کے نتیجے میں اصولی طور پر کس قسم کا معاشی ڈھانچہ تشکیل پانا چاہیے جو اپنے ثمرات سے عامۃالناس کو نواز سکے؟ اس پر بھی ڈاکٹر محمو احمد مرحوم نے خوب اظہارِ خیال کیا ہے:
’’اسلامی بینکاری کو چاہیے کہ وہ مائیکرو فائنانسنگ پر خاص توجہ دے۔ چھوٹے لوگوں کو قرضے دینا ملکی معیشت کا تقاضا بھی ہے، عامۃ الناس کی ضرورت بھی ہے اور اسلامی بینکاری جتنی تیزی سے اور جتنے موثر انداز میں چھوٹی معیشت میں کامیاب ہو سکتی ہے، اتنی تیز رفتار کامیابی بڑی معیشت میں مشکل ہے۔ بڑی معیشت میں اسلامی اصلاحات کے کامیاب ہونے میں خاصا وقت لگے گا۔ مبنی بر شراکت تمویل کو یعنی participatory financing کو ترجیح حاصل ہونی چاہیے۔ یہ اسلامی بینکاری کا وہ کام ہے جو اسلامی بینکار کو کرنا چاہیے۔ ......اسلامی بینکاری میں نفع اگر آئے تو وہ دو طریقے سے آنا چاہیے۔ یا تو وہ نفع اس چیز کا نفع ہو جس کے نتیجے میں کوئی جائیداد یا اثاثہ جات assets وجود میں آئے ہیں یا کوئی ویلیو value وجود میں آئی ہے، یعنی value creation ہوئی ہے یا asset creation ہوئی ہے۔ محض opportunity cost یا وقت کی قیمت کی بنیاد پر آمدنی نہیں ہونی چاہیے۔ اگر آمدنی محض وقت کی قیمت کی بنیاد پر ہو رہی ہے تو چاہے اس کا جو بھی نام رکھا جاے اور کسی بھی تاویل سے کھینچ تان کر اس کا جواز دریافت کر لیا جائے، وہ اسلام کی روح اور مزاج سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اسلام کی روح اور تقاضوں سے ہم آہنگ وہی تمویل اور سرمایہ کاری ہے جس کے نتیجے میں عملاًکوئی تجارت پیدا ہو، کوئی صنعت وجود میں آئے، کوئی خدمت وجود میں آئے، کوئی جائیداد وجود میں آئے۔ لہٰذا جتنی وسعت زر میں ہو، اتنی ہی وسعت اثاثہ جات یا صنعتوں یا تجارت میں ہونی چاہیے۔ توسیع زر اور توسیع اثاثہ جات یہ دونوں ایک ساتھ اور متناسب انداز میں ہونے چاہییں۔‘‘ (دسواں خطبہ:ص۳۸۵،۳۸۶)
اپنے لوگوں کی نالائقی اور مغربیوں کی فنی پختگی سے ڈاکٹر صاحب خوب آگاہ ہیں اور آج کی عالم گیر فضا کے تقاضوں پر بھی ان کی نظر ہے، اس لیے ایک حسرتِ تعمیر ہے جو درویش صفت ڈاکٹر غازیؒ کے اندر ہی اندر غالبؔ کے اس کہے کے مطابق مچل رہی ہے :
گھر میں تھا کیا جو تیرا غم اسے غارت کرتا
وہ جو رکھتے تھے ہم اِک حسرتِ تعمیر، سو ہے
لیجیے! ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم کی حسرتِ تعمیر ملاحظہ کیجیے:
’’ کسی تجربے کی فنی خرابی کا ذمہ دار اسلامی بینکاری کو یا اسلامی شریعت کے احکام کو نہ ٹھہرایا جائے۔ اسلامی قوانین کے نفاذ اور اسلامی اصلاحات کی کامیابی کے لیے محض دینی جذبہ کافی نہیں ہے۔ اس کام کے لیے دنیا میں رائج الوقت تجربات سے واقفیت بھی ازحد ضروری ہے۔ جرمنی میں مرچنٹ بینکنگ کا تجربہ بہت کامیاب بتایا جاتا ہے۔ مرچنٹ بینکنگ کا تصور اسلامی بینکاری کے احکام سے خاصا قریب ہے۔ لہٰذا اگر جرمنی میں مرچنٹ بینکنگ کامیاب ہے تو اس سے استفادہ کر کے اس کو اسلامی بینکاری کے تقاضوں کے مطابق ڈھالاجا سکتا ہے۔ .......مغربی بینکاری اور اسلامی بینکاری کے درمیان ربط اور تعلق کی ممکنہ نوعیت کیا ہے؟ اس پر بھی غور ہونا چاہیے۔ ایک ممکنہ تعلق تو دشمنی اور دعوتِ مبارزت کا ہو سکتا ہے۔ ایک اور نوعیت مقابلہ اور منافرت کی ہو سکتی ہے۔ ان دونوں کے مقابلے میں جو تعلق مناسب تر اور بہتر معلوم ہوتا ہے، وہ تعاون اور تکامل کا ہے۔ اگر اسلامی بینکاری کے ادارے مغربی بینکاری کے اداروں سے شریعت کے احکام اور اخلاقی ضوابط کی مکمل پابندی کے ساتھ انسانی مقاصد میں تعاون کریں، عامۃ الناس کی بہبود اولین ترجیح ہو اور ان میدانوں پر توجہ دی جائے جو ابھی خالی ہیں، جن میں کام نہیں ہوا تو اسلامی بینکاری کے لیے مغربی دنیا میں پنپنا نسبتاًآسان ہو سکتا ہے۔ دشمنی اور دعوتِ مبارزت کا نتیجہ سوائے تباہی اور مشکلات کے اور کچھ نہیں ہو گا۔ ‘‘(دسواں خطبہ:ص۳۸۶،۳۸۷،۳۸۸)
ڈاکٹر غازیؒ نے خوب فرمایا کہ محض دینی جذبہ کافی نہیں ہے، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ دینی جذبہ بھی کفایت کر جاتا ہے بشرطیکہ وہ واقعی دینی جذبہ ہو۔ ہمارے ہاں جس قسم کے مباحث دینی جذبے کی نشو و نما کرتے ہیں، انہیں دیکھتے ہوئے مولانا رومیؒ کی ایک حکایت یاد آ جاتی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’ایک شخص نے دوسرے کو تھپڑ رسید کیا، جواب میں دوسرے نے بھی چپت رسید کر دی۔ تھپڑ مارنے والے نے کہا کہ میرے ایک سوال کا جواب دو اور مجھے مارنے کی حسرت پوری کر لو۔ میں نے تجھے تھپڑ مارا تو تڑاخ کی آواز آئی۔ مجھے بتاؤ کہ یہ آواز میرے ہاتھ سے پیدا ہوئی ہے یا تیری گدی سے؟ اس نے جواب دیا کہ تیرے تھپڑ کی تکلیف اور درد سے مجھ کو اتنی فرصت نہیں ہے کہ آواز پر کان دھروں۔ تجھ کو چونکہ کوئی تکلیف نہیں ہے، اس لیے اس نکتے پر تو غور کرتا رہ۔ جو درد میں مبتلا ہوتا ہے، اس کو ایسی باریکیاں اور نکتے نہیں سوجھتے۔‘‘ اب ذرا اپنے سماج میں برپا شور و غوغا پر توجہ فرمائیے کہ مسلمانوں کی دینی غیرت بیدار کرنے کی غرض سے کیسے کیسے نکات اٹھائے جاتے ہیں اور دماغ سوزی کے کیسے کیسے مظاہرے دیکھنے میں آتے ہیں۔ اس وقت بے چارہ تھپڑ رسیدہ سماج، رخسار سہلا رہا ہے اور علمائے دین کو مسلکی اٹھکیلیاں سوجھی جا رہی ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دینی جذبے کے عناصر ترکیبی اگر اخلاص، احسان، ایثار، اخوت اور باہمی حسن سلوک سے عبارت ہوں تو کم از کم ایک راستہ ضرور دکھائی دینے لگتا ہے، پھر مسافت چاہے طویل ہی ہو، گراں نہیں گزرتی۔
جہاں تک بینکاری کے شعبے میں مغرب سے تعاون کا تعلق ہے، تو فکر ولی اللٰہی ایسے تعاون کو منزل آشنا تسلیم نہیں کرتی۔ حالیہ دور میں معیشت کی اہمیت اور اس میں بینکاری کے کلیدی کردار کو دیکھتے ہوئے یہ اخذ کرنا چنداں مشکل نہیں کہ کلی نظام کو بدلنے کے لیے معاشی و بینکاری نظام میں مطلوبہ تبدیلی انتہائی ناگزیر ہے۔ شاہ ولی اللہؒ مطلوبہ تبدیلی کے بجائے نظام کا مکمل خاتمہ (فک کل نظام) چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک کسی نظام میں کی گئیں جزوی تبدیلیاں مطلوبہ مقاصد نہیں دے سکتیں، اس لیے وہ موجود نظام کی بساط مکمل طور پر سمیٹ دینے کے حامی اور داعی ہیں۔ اس کے برعکس ڈاکٹر غازیؒ جزوی تبدیلیوں کے ذریعے سے، موجود معاشی نظام کی بنیادی ساخت کو متاثر کرنا چاہتے ہیں، بلکہ ایک قدم مزید بڑھتے ہوئے تبدیلی کے اس ارتقائی عمل میں تعاونی انداز و اطوار اپنانے پر زور دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم گزارش کریں گے کہ مغربی اور اسلامی بینکاری کے درمیان تعاون پر مبنی تعلق کیا شریعت کے اصولِ تدریج کے بغیر ممکن ہے؟ ڈاکٹر محمود مرحوم تو صرف اور صرف ناسخ احکام کے قائل معلوم ہوتے ہیں، پھر کس اصول کے تحت اور کس جواز کی بنا پر تعاونی تعلق قائم کیا جائے گا؟ کیا ناسخ احکامات میں اس قدر لچک موجود ہے کہ وہ تعاونی تعلق کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں؟ یہ الگ بات ہے کہ بندہ اصولِ تدریج کو صدرِ اسلام کے زمانے سے مخصوص قرار دے، ناسخ و منسوخ کے تحت احکامِ شرعیہ کو انتہائی ٹھوس اور استوار سمجھے اور پھر ناسخ احکامات کی تنفیذمیں عملی مسائل بھانپ کر خود ساختہ تدریج قائم کرنے میں کوئی مضائقہ نہ سمجھے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ اس خود ساختہ تدریج میں ’’منسوخ‘‘ احکامات کو کوئی رعایت دینے کو تیار نہ ہو، بلکہ اپنی ذہنی اختراع کے مطابق اصلاحِ احوال کے لیے کوشاں ہو۔ اس سارے عمل کو، اگر نرم زبان استعمال کی جائے، داخلی تضاد کے سوا اور کیا نام دیا جا سکتا ہے؟
ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم پر اس تنقید کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم شاہ ولی اللہؒ سے اتفاق کرتے ہوئے نظام کے مکمل خاتمے (فک کل نظام) کے حامی ہیں اور مغربی نظامِ معیشت و بینکاری کے ساتھ مخاصمانہ رویہ اپنانا چاہتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ نظام کا مکمل خاتمہ کسی ’’طوفانِ نوح‘‘ کا تقاضا کرتاہے اور مشیت الٰہی اس تقاضے کے ساتھ معلوم نہیں ہوتی۔ ہمیں تو بس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنا ہے جس میں مکہ کے مشرکین اور مدینہ کے یہود و منافقین کے مقابل، بتدریج تبدیلی عمل میں لائی گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ اس تدریجی تبدیلی میں مبارزت اور تعاون ساتھ ساتھ شریک رہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ آج مغربی بینکاری کے ساتھ تعاونی تعلق ’ ہی‘ بہتر رہے گا، یک رخی پالیسی اپنانے کے مترادف ہوگاجس کا منطقی نتیجہ پسپائی و ہزیمت کی صورت میں برآمد ہو گا۔ اس لیے ڈاکٹر غازیؒ کی یہ حد بندی بہت قابلِ غور ہے کہ ’’ اگر اسلامی بینکاری کے ادارے مغربی بینکاری کے اداروں سے شریعت کے احکام اور اخلاقی ضوابط کی مکمل پابندی کے ساتھ انسانی مقاصد میں تعاون کریں‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مخاصمت و مبارزت کے لمحات بھی آتے جاتے رہیں گے۔ شاہ ولی اللہؒ غالباًتدریجی تبدیلی کے آخری مرحلے یعنی خطبہ حجۃالوداع سے استدلال کرتے ہوئے نظام کے مکمل خاتمے کی بات کرتے ہیں۔ ہمیں اس سے انکار نہیں کہ ایسا ہو سکتا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیے کہ یہ نہ صرف شریعت کامقصد ہے بلکہ عالمی سطح پر نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی ادائیگی کی ایک سبیل بھی ہے، لیکنحجۃ الوداع سے پہلے کیے گئے اقدامات کے مراحل سے گزرے بغیر ایسا کرنا بلکہ ایسا سوچنا بھی محال اور نا ممکنات میں شمار ہوگا جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فرسودہ نظام کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا:
’’آج سے ہر قسم کا سود ختم کیا جاتا ہے۔ تم صرف اصل رقم کے حق دار ہو۔ تم کسی پر ظلم نہ کرو، تم پر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ اللہ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ سود کو ختم کر دیا جائے۔ عباس بن عبدالمطلب کا جو سود دوسروں کے ذمہ واجب ہے، وہ ختم کیا جاتا ہے۔‘‘
تو اس سے پہلے اس سادہ زرعی دور کے تقاضے ملحوظ رکھے اور مقصد (رباکے خاتمے)کے واضح تعین کے باوجود احکامِ ربا کی نزولی ترتیب کے تتبع میں بتدریج عملی اقدامات اٹھائے۔واقعہ یہ ہے کہ شاہ ولی اللہؒ کے نام لیواؤں نے (فک کل نظام) کی غلط تعبیر ان کے سر منڈھ دی ہے حالانکہ شاہ صاحب کا اصولی موقف بھی نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مطابقت میں ہے۔ فرماتے ہیں :
’’واضح ہو کہ امت کی درستی اور سیاست کے لیے ضروری ہے کہ ہر قسم کی طاعت کی دو حدیں قرار دی جائیں، ایک اعلیٰ اور دوسری ادنیٰ۔ پس اعلیٰ وہ ہے جس سے پوری طرح پر مقصود حاصل ہو جائے اور ادنیٰ کے معنی یہ ہیں کہ اس سے اس قدر مقصود حاصل ہو کہ اس کے بعد کا درجہ لحاظ کے قابل بھی نہ ہو۔ ......اور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ اعلیٰ حالت کو چھوڑ کر ادنیٰ حالت پر ہی اکتفا کر لیا جائے کیونکہ یہ اعلیٰ حالت سابقین امت کا مشرب اور مخلصین کا حصہ ہے۔ ایسے درجے کو بالکل ترک کرنا لطفِ الٰہی کے منافی ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہوا کہ ادنیٰ حالت کی بخوبی توضیح کر کے اس کے ساتھ لوگ مکلف قرار دیے جائیں اور اس سے زائد اور اعلیٰ امور کی طرف بھی مائل کیے جائیں۔‘‘ (حجۃ اللہ البالغۃ: باب المصالح المقتضےۃ لتعیین الفرائض و الارکان والاٰ داب و نحوذٰلک)
بہرحال، خطبہ حجۃ الوداع میں حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب کا ذکر ہمارے لیے اس بات کی علامت ہے کہ آج کی عالم گیریت کی فضا میں جب ہم نظام کے مکمل خاتمے کے درپے ہوں یعنی سابقین امت اور مخلصین کے درجے میں آنا چاہیں تو ہمیں اس پوزیشن میں ہونا چاہیے کہ دوسروں کے ذمہ واجب اپنا سود ختم کر سکیں۔ معاف کیجیے گا، اس وقت تومعاملہ کافی دگرگوں ہے کہ دوسروں کا سود ہمارے ذمے واجب الادا ہے۔ تو کیا پھر صورتِ حال میں تبدیلی رونما ہو سکتی ہے؟ ہاں! کیوں نہیں، کہ اقبال ؔ نے کہا تھا:
وہی زمانے کی گردش پہ غالب آتا ہے
جو ہر نفس سے کرے عمر جاوداں پیدا
اسلامی بینکاری کے ضمن میں بیع مرابحہ پر اشکالات وارد ہوتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر محمود احمد مرحوم نے اس پر بھی گفتگو کی ہے:
’’ بیع مرابحہ کے بارے میں واقعہ یہ ہے کہ یہ سرمایہ کاری کا کوئی آئیڈیل طریقہ نہیں ہے۔ یہ تو تجارت کی ایک شکل ہے جس سے جزوی طور پر سرمایہ کاری کا فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔ بیع مرابحہ یہ ہے کہ کوئی شخص جو اپنا کوئی سودا فروخت کرنا چاہتا ہو، اس کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ اس کو کسی سودے کے حصول میں جو قیمت یا لاگت پڑے گی، اس پر وہ اتنے فی صد کے حساب سے نفع لے گا۔ .......بیع مرابحہ کو امپورٹ ایکسپورٹ میں خاص طور پر اور انڈسٹری کے دوسرے معاملات میں عام طور پر آسانی کے ساتھ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مثلاًایک شخص کوئی انڈسٹری لگانا چاہتا ہے۔ اس کے لیے ایک کروڑ روپے کی مشینری اس کو جرمنی سے درکار ہے۔ اس کے پاس ایک کروڑ روپے نہیں ہیں۔ اب روایتی بینکاری کے طریقِ کار میں تو یہ ہوتا تھا کہ وہ بنک کے پاس جائے اور ایک کروڑ روپے قرض لے اور اس پر دس فی صد سود دینے کا وعدہ کرے اور وقت آنے پر ایک کروڑ کے بجائے ایک کروڑ دس لاکھ روپے کی رقم ادا کرے اور قرض کی یہ رقم لے کر اپنی مشینری منگوا لے۔ یہ تو یقیناًسود ہے۔ اس کے مقابلہ میں بیع مرابحہ کا طریقہ یہ تجویز کیا گیا کہ بنک ایک کروڑ روپے سودی قرض دینے کے بجائے از خود وہ مشینری درآمد کرے۔ اس کے بعد خریدار کو بتائے کہ یہ مشینری بنک کو ایک کروڑ روپے میں پڑی ہے۔ اس پر دس فی صد بنک کا نفع ہو گا۔ یوں وہ خریدار ایک کروڑ دس لاکھ روپے ادا کر کے مشینری بنک سے خرید لے۔ یہاں قرضوں کا لین دین نہیں ہے۔ یہاں حقیقی اصول کا یعنی اثاثہ جات کا اور tangible assets کا کاروبار ہے اور شریعت کے احکام کے مطابق بیع کی ایک شکل ہے۔ اس لیے یہ جائز ہے۔‘‘(آٹھواں خطبہ:ص۳۲۳،۳۲۴)
اگرچہ ایسی بیع مرابحہ کے حق میں حیلے کی شرعی حیثیت کے حوالے سے بات کی جا سکتی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ عنوان اور مندرجات کی بحث (العبرۃ بالمضمون والجوہر و لیس بالصورۃ والمظھر) یہاں کیوں نہیں کی جا سکتی؟ خود ڈاکٹر صاحب نے نویں خطبے میں علامہ ابنِ قیم ؒ کے حوالے سے تقریباًیہی نکتہ اٹھایا ہے:
’’علامہ ابنِ قیم ؒ نے ایک جگہ حیلے سے بحث کی ہے اور خاص طور پر سودی حیلہ کاری کا ذکر کیا ہے۔ اس سیاق و سباق میں انہوں نے لکھا ہے کہ ربا کی حرمت کو کسی متعین صورت یا متعین الفاظ تک محدود کرنا درست نہیں ہے بلکہ ربا کی حرمت کا تعلق اس حقیقت کی وجہ سے ہے جس سے وہ تجارت اور خرید و فروخت سے ممیز ہوتا ہے۔ یہ حقیقتِ ربا جہاں بھی پائی جائے گی، وہاں حرمت کا حکم بھی منطبق ہو گا، چاہے اس میں الفاظ کوئی بھی اختیار کیے جائیں۔ شریعت کے احکام کا دارو مدار حقائق پر ہوتا ہے، الفاظ اور عنوانات پر نہیں ہوتا۔‘‘(نواں خطبہ:ص۳۵۴)
لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر غازیؒ کا رجحانِ طبع ، بیع مرابحہ جیسے عنوانات و مندرجات کی موافقت میں ہے، تبھی تو انہوں نے گیارھویں خطبے(ص۴۰۲،۴۰۳) میں اس کی وکالت کی ہے۔ شاید اسی لیے بینکاری کے بعض معاملات میں وہ حیلے کو اہمیت دیتے ہیں:
’’بظاہر کچھ معاملات ایسے ہیں کہ روایتی اور اسلامی بینکاری کے معاملات میں فرق زیادہ نمایاں طور پر محسوس نہیں ہوتا۔ لیکن شریعت کے بہت سے احکام میں ایسا ہے کہ جائز اور ناجائز میں جو فرق ہے، وہ طریقِ کار کا فرق ہوتا ہے۔ بہت سے معاملات شریعت میں جائز ہیں، بہت سے ناجائز ہیں۔ ایک ہی کام کو ایک طریقے سے کیا جائے گا تو جائز ہوگا دوسرے سے کیا جائے گا تو ناجائز ہو گا۔‘‘(دسواں خطبہ:ص۳۸۱)
لیکن امام شاطبی ؒ کے حوالے سے ہمارے ممدوحؒ ہمیں اس نکتے سے آگاہ کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں:
’’النظر فی مآلات الافعال معتبر شرعا، کہ کسی بھی معاملے کے انجام کی بنیاد پر اس معاملے کا فیصلہ کرنا شریعت کا ایک طے شدہ اصول ہے۔ لہٰذا اسلامی بینکاروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے معاملات جہاں فنی اعتبار سے سو فی صد درست ہوں، وہاں اسلامی اعتبار سے بھی مکمل طور پر شریعت کے احکام کے پابند ہوں۔‘‘(دسواں خطبہ:ص۳۸۵)
فیصلہ کرنا کافی مشکل ہے کہ بیع مرابحہ کوآخر کس کھاتے میں ڈالا جائے؟ اگر صرف اور صرف ’’ انجام‘‘ دیکھا جائے تو قرض لینے والے کو ایک کروڑ قرض پر، دونوں صورتوں میں ایک کروڑ دس لاکھ ادا کرنے پڑتے ہیں اور اگر ’’طریق کار‘‘ دیکھا جائے تو جواز بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اسلامی بینکاری میں بیع مرابحہ جیسے طریق ہائے کار کی اجازت عبوری دور کے لیے ہونی چاہیے، یعنی انہیں’’ اصولاً‘‘ تسلیم کرنے کے باوجود ’’مقصود‘‘ کے درجے میں ہرگز نہ رکھا جائے۔ اسلاف کا طرزِ عمل ایسے معاملات میں بہت ہی زیادہ احتیاط برتنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ واقعہ ہی دیکھ لیجیے:
’’ ایک شخص نے امام( ابوحنیفہ ؒ )سے قرض لیا ہوا تھا۔ امام صاحب کہیں تشریف لے جا رہے تھے۔ راستے میں کسی (دوسرے)شخص نے روک کر مسئلہ پوچھنا چاہا۔ امام صاحب رک کر کھڑے ہو گئے۔ وہ صاحب جو مسئلہ پوچھنا چاہتے تھے، وہ سورج کی تمازت اور گرمی کی وجہ سے ایک دیوار کے سایے میں کھڑے ہو گئے۔ امام صاحب کو بھی دعوت دی کہ دیوار کے سایے میں آ جائیں۔ امام صاحب دیوار کے سایے میں تشریف نہیں لائے، دھوپ میں کھڑے کھڑے جواب دیتے رہے۔ جب خاصی دیر ہوئی تو ان صاحب نے پھر اصرار کیا کہ دھوپ کی شدت سے بچنے کے لیے دیوار کے سایے میں آ جائیں۔ امام صاحب پھر بھی سایے میں تشریف نہ لائے اور اسی طرح جواب دے کر تشریف لے گئے۔ کوئی شاگرد یا نیاز مند جو ساتھ تھے، انہوں نے پوچھا کہ آپ ان صاحب کے بار بار کہنے کے باوجود دیوار کے سایے میں کیوں کھڑے نہیں ہوئے؟ امام صاحب نے جواب دیا کہ وہ مکان جس کی دیوار کا سایہ تھا، وہ میرے فلاں مقروض کا مکان تھا۔ میں اس کی دیوار کا فائدہ نہیں اٹھانا چاہتا تھا، اس لیے کہ وہ میرے مقروض ہیں۔ مقروض کی دیوار سے اتنا سا فائدہ اٹھانابھی کہ اس کے سایے میں کھڑے ہو جائیں، امام صاحب نے اس حدیث (کل قرض جر نفعاًفھو ربا) کے خلاف سمجھا۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ’’کل قرض جر نفعاًفھو ربا‘‘ کے حکم پر عمل درآمد کے بارے میں ائمہ کرام کا طرزِ عمل کیا تھا۔ وہ کتنے محتاط تھے اور کتنی جز رسی اور باریک بینی کے ساتھ وہ ان معاملات پر نظر رکھتے تھے۔‘‘ (ساتواں خطبہ: ص ۲۸۲، ۲۸۳)
ہماری روایتی علمی تاریخ میں، ربا کے باب میں ایک اختلافی واقعہ موجود رہا ہے۔ اس واقعے کی بابت خود کو مسلم علمی روایت کا پابند بناتے ہوئے ڈاکٹر غازی مرحوم فرماتے ہیں کہ:
’’ یہ معاملہ حدیث اور فقہ کے ادب میں ’’ضع وتعجل‘‘ یا ’’ضعوا وتعجلوا ‘‘کے عنوان سے مشہور ہے۔ ضعوا وتعجلوا صیغہ جمع میں ہے اور ضع وتعجل صیغہ مفرد میں ہے۔ ضع وتعجل کے لفظی معنی یہ ہیں کہ اصل مطالبے میں سے کمی کر دو اور بقیہ رقم پیشگی وصول کر لو۔ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بنو النضیرکے موقع پر ارشاد فرمائی تھی۔ اس موقع پر یہ طے ہوا تھا کہ بنوا لنضیر کے یہودیوں کو مدینہ منورہ سے جلاوطن کر دیا جائے۔ جب وہ جلا وطن ہونے لگے اس وقت یہ اندازہ ہوا کہ مدینہ منورہ کے بہت سے لوگوں کی رقمیں بنو نضیر کے ذمے واجب الادا ہیں۔ اس طرح کے ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسئلے کو حل کرنے کے لیے فرمایا: ’’ضعوا وتعجلوا‘‘۔ یعنی جو رقم ایک مدت کے بعد واجب الادا ہو گی، وہ ابھی وصول کر لو اور اصل مطلوبہ رقم میں سے کچھ حصہ کم کر دو۔ یہ مسئلہ غزوہ بنی النضیر کے دوران پیش آیا جو مدینہ منورہ کے ابتدائی سالوں کا واقعہ ہے۔ اس وقت تک ربا کی متعدد آیات نازل نہیں ہوئی تھیں۔ اس لیے ائمہ اربعہ کا خیال ہے کہ ربا کی آیات کے نازل ہونے کے بعد اس طرح کی اجازت اگر شریعت میں تھی تو وہ منسوخ ہو چکی ہے اور اب ’’ضع وتعجل‘‘ کے اصول پر عمل کرنا درست نہیں ہے۔ کچھ دوسرے حضرات کا شروع سے یہ خیال رہا ہے کہ یہ حکم منسوخ نہیں ہوا۔ تابعین میں حضرت امام نخعیؒ اور بعد کے فقہا میں شیخ الاسلام علامہ ابنِ تیمیہؒ اور علامہ ابنِ قیمؒ کی یہی رائے ہے۔ ان حضرات کے نزدیک ضع وتعجل کااصول باقی ہے اور اس پر بعد میں بھی عمل کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ دو اصول پیشِ نظر رکھے جائیں۔‘‘(نواں خطبہ:ص۳۵۵)
بڑی عجیب بات ہے کہ ڈاکٹر غازی مرحوم اپنے محاضرات میں کہیں تو مستنبط اصولوں کو نصوص کے دائرے میں لے آئے ہیں اور کہیں منصوص احکام کو منسوخ قرار دے کر مستنبط اصولوں سے بھی بہت پیچھے لے گئے ہیں۔ درج بالا اقتباس ہی دیکھ لیجیے۔ کیا اس میں نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کوتقریباًنظر انداز کیے جانے کا تاثر نہیں ملتا؟اور کیا یہ منسوخ کے نام پر نہیں ہو رہا؟ کیا اس طرزِ عمل سے قرآن و سنت پر فقہا کی عملی فوقیت قائم نہیں ہو جاتی؟ یہ کیسا طرزِ عمل ہے؟حیرت کی بات ہے کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم اصولِ تدریج کی واقعیت اور حکمت سے خوب واقف ہیں، اسی لیے ساتویں خطبے میں (ص۲۷۵پر) فرماتے ہیں کہ ’’ربا کی حرمت شریعت کے بہت سے احکام کی طرح بالتدریج نازل ہوئی ہے۔ شریعت کا یہ مزاج رہا ہے کہ بہت سی اصلاحات میں بہت سے اہم معاملات میں احکام کے نزول میں تدریج سے کام لیا گیا ہے۔ اگر کوئی عادت خاص طور پر عادتِ قبیحہ لوگوں میں بہت جاگزین تھی تو اس کو بیک وقت ختم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اس تدریج کی وجہ یہ ہے کہ شریعت کوئی غیر عملی نظام نہیں ہے۔‘‘ ہم سمجھتے ہیں کہ شریعت کے اصولِ تدریج کو ناسخ و منسوخ کے نام پرصدرِ اسلام کے لیے مخصوص کر دینے کے رویے نے ہی اب شریعت کو غیر عملی نظام بنا دیاہے۔ اس موضوع پر قدرے تفصیلی و اصولی بحث کے لیے ماہنامہ الشریعہ اگست ۲۰۰۶ء میں ہمارا مضمون ’’معاصر تہذیبی تناظر میں مسلم علمی روایت کی تجدید‘‘ دیکھ لیجیے۔ بہرحال! زیر نظر محاضرات میں بعض ایسے نظری اور اصولی نکات شامل ہیں جن کی تنقیح ضروری ہے۔ خاص طور پر موجودہ ماحول میں جبکہ تکنیکی ترقی نے انسانی زندگی کے مادی و غیر مادی پہلوؤں کو خاصا متاثر کیا ہے، ایسے مباحث کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ ڈاکٹر غازی مرحوم کہتے ہیں کہ:
’’جہاں تک قرآن کریم اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا تعلق ہے تو وہ ایک دائمی اساس ہے جو ہمیشہ رہے گی۔ یہ وہ بنیاد ہے جس پر ہمیشہ عمارت کی تعمیر ہوتی رہے گی۔ ان دو بنیادوں کے ساتھ ساتھ ائمہ اسلام کے وہ اجتہادات بھی بنیادی اہمیت کے حامل ہیں جن پر اتفاقِ رائے رہا ہے، جن پر اسلامی تاریخ میں تسلسل کے ساتھ عمل درآمد ہوتا رہا ہے۔ ان کی حیثیت بھی اسی طرح دائمی ہے جس طرح قرآن کریم اور سنتِ ثابتہ کی حیثیت دائمی ہے۔ ......جس تعلیم کو بقا ہے، جس حکم کو دوام ہے، وہ قرآن مجید کے احکام ہیں، وہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام ہیں اور ائمہ اسلام کے متفقہ اجتہادات ہیں۔‘‘(پہلا خطبہ:ص۱۹)
ڈاکٹر صاحب اسی نکتے کا اعادہ فرماتے ہیں :
’’الاصل فی المعاملات الا باحۃ، اس کے معنی یہ ہیں کہ کاروبار کی ہر قسم لین دین کی ہر قسم جائز ہے، بشرطیکہ وہ ان حرام عناصر سے پاک ہو جن کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔ اس لیے جدید نوعیت کے جتنے معاملات ہیں، چاہے وہ کسی روایتی عربی اسلامی اصطلاح کے تحت آ سکتے ہوں یا نہ آ سکتے ہوں، وہ سب جائز ہیں بشرطیکہ وہ قرآن کریم اور احادیث کی نصوص سے متعارض نہ ہوں اور ان متفق علیہ قواعد سے متعارض نہ ہوں جو فقہائے اسلام نے قرآن کریم اور سنت سے اخذ کیے ہیں۔‘‘(آٹھواں خطبہ:ص۳۰۱)
ڈاکٹر صاحب ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ معاملات میں اصل اباحت ہے اور اس بنیاد پر تجارت و کاروبار کی کوئی بھی صورت قابلِ قبول ہو سکتی ہے بشرطیکہ وہ قرآن و احادیث کی نصوص سے متعارض نہ ہو اور اسی سانس میں معاصر ین کو پابند کرنے کی خاطر یہ حکم لگا رہے ہیں کہ تجارت و کاروبار کی کوئی ممکنہ صورت ان متفق علیہ قواعدسے بھی متعارض نہیں ہونی چاہیے جو فقہائے اسلام نے قرآن و سنت سے اخذ کیے ہیں۔ لیکن ہمیں یہ تسلیم کرنے میں تامل ہے کہ متفق علیہ قواعد اتنی بنیادی اہمیت کے حامل ہیں کہ انہیں بھی قرآن و سنت کی نصوص کے متوازی حیثیت دے کر ہر زمانے اور ہر علاقے کے لوگوں کے لیے لازمی قرار دیا جائے۔ اگر ایسا ہی ہے تو ان قواعد کو بطور قواعد، اصولاًقرآن و سنت میں ہی کہیں مذکور ہونا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہماری بات سے نتائج کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ فرق مرتب نہ ہو، یعنی معاصرین بھی قرآن و سنت سے اخذ کر کے ویسے ہی قواعد لے آئیں، لیکن اس کے باوجود اس عمل کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ یوں سمجھیے کہ جس طرح حقیقت میں ہر دن نیا دن ہوتا ہے (کل یوم ھوفی شان) اگرچہ بعضوں کے نزدیک ہر دن ایک جیسا ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ نتائج کی خارجی یکسانیت کے باوجود مذکورہ عمل سے حقیقی فرق ظہور پذیر ضرور ہوتا ہے اگرچہ یہ فرق ظاہر بینوں سے پوشیدہ رہتا ہے۔ بقول اقبالؔ :
اے اہل نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن!
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے، وہ نظر کیا!
اس لیے ہمیں کہنے دیجیے کہ جوہری اعتبار سے یہ حقیقی فرق، سماج کے فکری جمود کے لیے ضربِ کلیم ثابت ہوتا ہے جس کے نتیجے میں تخلیقی سرگرمیوں کا ایک ماحول بننا شروع ہو جاتا ہے اور پھر ایسا ماحول ہی سماج کی واقعی ضروریات کی تکمیل کرتا ہے۔ غیر جانب داری سے ذرا غور تو کیجیے کہ کل یوم ھوفی شان قرآن مجید کا انتہائی مختصر حصہ ہے۔ اس کی یہ شان ہے کہ اس کا احاطہ ممکن نہیں تو پھر پورے قرآن مجید کو ائمہ اربعہ یا کبار فقہا کے مستنبط اصولوں میں محصور کر دینے کا عمل اپنے اندر آخر کتنا شرعی جواز رکھتا ہے؟ لہٰذا کل یوم ھوفی شان جیسی قرآنی آیات بہت صراحت سے راہنمائی کرتی ہیں کہ زندگی مسلسل ظہور میں ہے۔ ظہور کا تسلسل، لازمی طور پر انسانوں اور سماج پر اثرانداز ہوتا ہے اور اس اثر پذیری سے سماجی تقاضے بھی یقینی طور پر بدلتے رہتے ہیں۔ بدلے ہوئے تقاضے بدلے ہوئے رویوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جو سماج اور جو زمانہ ان مطالبوں کو تسلیم نہیں کرتا، اس کا وہی حشر ہوتا ہے جو موجودہ زمانے میں مسلم سماج کا ہوا ہے۔ شاید شریعت اسلامی کے اسی پہلو کی ترجمانی کرتے ہوئے حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ نے فرمایاتھا:
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِ آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی !
اس لیے کم از کم نظری اعتبار سے ہمیں بہت واضح ہونا چاہیے کہ قرآن و سنت کے متوازی کسی بھی قاعدے کو اس طرح لزوم کے درجے میں اصولاًنہیں لیا جا سکتا جس طرح ڈاکٹر غازی مرحوم فرما رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا بیان کردہ نظری منہج، صحیح معنوں میں ایسا علمی رویہ تشکیل کرسکتا ہے جو اسلام کو مطلوب ہے اور جو معاصر مسائل کے حل کے لیے اصولیین کی ایک جماعت بھی سامنے لا سکتا ہے۔ لیکن حد تو یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ایک مقام پر مستنبط اصولوں کو منصوص حیثیت دے دی ہے:
’’کسی معاملے کے ربا ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ جہاں نصوص کی بنیاد پر کیا جائے گا، قرآن کریم اور احادیث کے واضح احکام کو سامنے رکھ کر کیا جاے گا ، وہاں معاملات کے بارے میں عمومی قواعد کو بھی سامنے رکھنا پڑے گا۔ معاملات کے بارے میں شریعت کے عمومی قواعد میں کچھ تو وہ ہیں جن کا قرآن کریم اور احادیث میں صراحت کے ساتھ تذکرہ ہے، کچھ وہ ہیں کہ جن کا تذکرہ صراحت کے ساتھ تو نہیں ہے، لیکن فقہائے اسلام نے قرآن مجید کی متعدد نصوص اور متعدد احادیث سے ان اصولوں کا استنباط کیا ہے، اس لیے ان کی حیثیت بھی منصوص اصولوں کی ہے۔‘‘ (نواں خطبہ:ص۳۵۶)
گویا ڈاکٹر محمود احمد مرحوم کے نزدیک شریعت دو کے بجائے تین عناصر پر مشتمل ہے۔ وہ بصد اصرار اپنا موقف پیش کرتے ہیں۔ ان کے یہی الفاظ ملاحظہ کر لیجیے:
’’شریعت نے کسی ڈھانچے کو کوئی تقدس عطا نہیں کیا، نہ کسی ڈھانچے کو دوام بخشا۔ دوام صرف اور صرف قرآن مجید کی نصوص، سنت کے احکام اور ان دونوں کی بنیادوں پر مدون کیے جانے والے متفق علیہ احکام کو حاصل ہے۔ ان تینوں چیزوں کی بنیاد پر یعنی قرآن کریم کی نصوص، سنتِ مبارکہ اور امتِ مسلمہ کے متفق علیہ قواعد و ضوابط کی بنیاد پر مسلمانوں نے وقتاًفوقتاًمختلف انداز کے ڈھانچے اپنائے۔‘‘(گیارھواں خطبہ:ص۴۱۲)
آج ہمارے ممدوحؒ نے شریعت میں قرآن و سنت کے ساتھ متفق علیہ قواعد کو شامل کر لیا ہے، کل کلاں کوئی صاحب کسی اور چیز کو شامل کرلیں گے۔ اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ پھر اپنا پنا حسنِ کرشمہ ساز ہو گا اور خرد ، جنوں اور جنوں ، خرد قرار پائے گا۔ یوں اجتہاد سے بچنے کے لیے کیا جانے والا یہ ’’اجتہاد‘‘ دین کو چوں چوں کامربہ بنا دے گا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر غازیؒ ایک طرف متفق علیہ قواعد کو قرآن و سنت کے متوازی لے رہے ہیں اور دوسری طرف قرآن کریم کہنے کے بجائے قرآن کریم کی نصوص کہہ کر غالباًقرآن مجید کے ایک خاص حصے کو ہی شریعت کے دایرے میں شامل کر رہے ہیں۔ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟ اس موضوع پر چونکہ ہم اپنی بے لاگ رائے کا اظہار ماہنامہ الشریعہ دسمبر۲۰۰۶ میں بعنوان ’’قدامت پسندوں کا تصورِ اجتہاد‘‘ کر چکے ہیں، اس لیے اسی بیان پر اکتفا کرتے ہیں۔
انسانی زندگی کی بقا کو ملزوم اور ضروریاتِ زندگی میں شامل اشیا پر خواص کا تصرف اسلامی نقطہ نظر سے قابل قبول نہیں ہے۔ ڈاکٹر محمود احمدغازی مرحوم نے اس موضوع پر یوں لب کشائی کی ہے:
’’ان ممانعتوں کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں کی ممانعت بھی کی ہے جو اللہ تعالیٰ نے عام انسانوں کے لیے پیدا کی ہیں اور عام انسانوں کا ان پر حق یکساں ہے۔ جیسے ایک دریا ہے۔ ..... یہ ہر انسان کے لیے ہے، ہر جانور کے لیے ہے۔ اب کوئی شخص دریا کے کنارے ہتھیار لے کر بیٹھ جائے اور کہے کہ جب تک پیسے نہیں دو گے، پانی نہیں دیں گے، یہ جائز نہیں ہے۔ جو پانی کھلے دریاؤں میں سمندروں میں اور کھلے چشموں میں اور آبشاروں میں آ رہا ہے، وہ تمام لوگوں کی اور اس ملک اور علاقہ کے تمام باشندوں کی ملکیت ہے، اس پر کسی ایک شخص کا قبضہ نہیں ہوسکتا۔ یہاں تک کہ اگر کچھ لوگ سفر پر جا رہے ہوں، ایک شخص کے پاس ضرورت سے زیادہ پانی موجود ہے اور دوسرا محتاج ہے تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت فرمائی ہے کہ جو زائد از ضرورت پانی ہے، یہ دوسرے کو ویسے ہی دے دو، فروخت نہ کرو۔ بعض فقہا کے نزدیک یہ حرمت قانونی انداز کی ہے ...... بیشتر فقہا کا خیال یہ ہے کہ یہ ایک اخلاقی نوعیت کی ہدایت ہے۔‘‘ (پہلا خطبہ: ص ۶۲)
ڈاکٹر صاحب نے عام انسانوں کے لیے پیدا کی گئیں چیزوں میں سے ’’دریا‘‘ کی مثال دی ہے۔ یہ شاید اس لیے ہے کہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں کی ’’ذہانت‘‘ ابھی تک کوئی ایسا اصول اختراع نہیں کر سکی جس کی بنیاد پر دریاؤں پر بھی ان کی جارہ داری قائم ہو جائے۔ اس سلسلے میں جب وہ کوئی گل کھلائیں گے تو ’’دریا‘‘ کی مثال بھی عنقا ہو جائے گی اور بات آکسیجن تک آ جائے گی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسانوں کا ’’یکساں حق‘‘ کیا صرف اور صرف پانی تک محدود ہے؟ کیا انسان صرف اور صرف پانی کے سہارے زندہ رہ سکتا ہے؟ آج زمین کے اندر موجود چیزوں کے بارے میں تقریباًاتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ وہ نجی ملکیت میں نہیں دی جاسکتیں، مثلاًقدرتی گیس، پٹرول، سونا چاندی و دیگر معدنیات وغیرہ تو پھر زمین کے اوپر موجود پیداوار کو نجی تصرف میں کیوں دے دیا گیا ہے؟ وہ زمین جو مدفون خزانے رکھے اور وہ زمین جو پوشیدہ خزانے رکھے، آخر کو زمین ہے، اس میں فرق کیوں روا رکھا جاتا ہے؟ ذرا غور کیجیے کہ سونے کا بنفسہ، انسان کی بقا سے انسان کی زندگی سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے، اس کے باوجود آج کے انسان کا اجتماعی ضمیر سونے کی کانوں کو اس لیے نجی ملکیت میں دینے کو تیار نہیں کہ اس سے پورا معاشی نظام تتربتر ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں سماجی نظم برقرار نہیں رہ سکتا۔ تو پھر ایسی اشیا جو انسانی بقا کے لیے لازم ہیں اورضروریاتِ زندگی میں شمار ہوتی ہیں اور اسی زمین سے پیداوار کی شکل میں حاصل ہوتی ہیں ان پر اجارہ داریاں قائم کرنے کی اجازت کس اصول کے تحت جائز ہے؟ زمین کی پیداوار چاہے داخلی ہو چاہے خارجی ہو، اب تو بات اس قدرتی پیداوار سے بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ ہر قسم کی مصنوعات ، بلاواسطہ یا بالواسطہ زمین ہی کی کسی پیداوار کا نیا روپ ہیں۔ ابھی تک انسان نے اتنی ترقی نہیں کی کہ وہ کن فیکونکہے اور عدم سے اشیا ظہور میں آجائیں۔ اس لیے انسانی بقا اور انسانی ضروریات کو ملزوم اشیا کا دائرہ اگر مصنوعات تک بھی پھیلانا پڑتاہے تو ان پر یکساں انسانی حق تسلیم کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں حالیہ دور میں چینی کی مثال لے لیجیے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کے تناظر میں، جس کا ذکر ڈاکٹر صاحب نے کیا ہے، سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی احکامات کی قانونی اور اخلاقی تفریق میں ہم آخر کب تک الجھے رہیں گے؟ اگر کسی حکم کو اخلاقی قرار دیا جاتا ہے تو اس کا منشا کیا یہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں استحصالی طبقہ مزید مضبوط ہو اور پساہوا طبقہ مزید خاک آلود ہو؟ ہم سمجھتے ہیں کہ آج کے دور میں اسلامی احکامات پر از سرِ نو غور کر کے نہ صرف قانونی و اخلاقی دائروں کی تشکیل نو کی ضرورت ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اخلاقی احکام کی مقصدیت کی تنقیح بھی انتہائی ناگزیر اور لازمی ہے۔ افسوس! ہمارے ہاں اسلامی احکام کی مقصدیت پر ابھی تک تسلی بخش کام نہیں ہوا۔ زیر نظر محاضرات بھی اس کمی کا احساس دلاتے ہیں:
’’گندم گندم ہے، چاہے وہ اچھی ہو یا بری ہو۔ اگر کوئی شخص گندم کا گندم سے لین دین کرنا چاہے تو وہ برابری کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ اپنی قیمتی گندم فروخت کر کے ذرا معمولی قسم کی گندم زیادہ مقدار میں حاصل کر لے تو اس کو چاہیے کہ وہ مونٹری ایکانومی کی طرف جائے یعنی وہ پہلے سکہ رائج الوقت کے حساب سے اپنی گندم فروخت کرے۔ پھر اس نقد رقم سے جو حاصل ہو، بازار میں جتنی اور جیسی چاہے گندم خرید لے۔‘‘ (پہلا خطبہ: ص ۵۵)
ڈاکٹر غازی مرحوم نے اس اصول کے جواز اور حکمت پر تفصیلی روشنی نہیں ڈالی۔ آج کے حالات میں یہ اصول حیلہ معلوم ہوتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب جب کہ ہر چیز کی قیمت متعین ہوتی ہے، ایسے ماحول میں اچھی اور معمولی گندم کی قیمت مارکیٹ میں متعین ہو جائے تو ان قیمتوں کو پیمانہ مانتے ہوئے انہی قیمتوں کی بنیاد پر اچھی اور معمولی گندم کا تبادلہ کیوں ممکن نہیں؟ بارٹر سسٹم (اشیا کے بدلے اشیا کا تبادلہ) کے دور میں اشیا کی قیمتیں متعین نہیں ہوتی تھیں۔ اس کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ذرائع رسل و رسائل میں انسان کی پس ماندگی تھی جس کی وجہ سے ایک ہی علاقے میں ایک ہی شے کی مختلف قیمتیں ہوتی تھیں۔ مثلاًاگر ذرائع رسل و رسائل کی ترقی کو سمیٹ دیا جائے تو پاکستان کے مختلف شہروں میں(بلکہ ایک ہی شہر کی مختلف منڈیوں میں) ایک ہی چیز کی قیمت مختلف ہو جائے گی(اگرچہ ذہنی پس ماندگی کے باعث عملاًایسا ہی ہو رہا ہے)۔اب مواصلات کے شعبے میں حیرت انگیز ترقی نے انسانوں کو اس قابل بنا دیا ہے کہ اگر وہ چاہیں تو پوری دنیا میں کسی بھی چیز کی ایک ہی قیمت متعین کر سکتے ہیں۔ شاید مستقبل میں کبھی ایسا ہو بھی جائے، اس لیے آج کے دور میں قیمتوں کو پیمانہ بنا کر ایک ہی جنس کی شے کے تبادلے میں کمی بیشی کرنے میں معاشی اخلاقی اور شرعی اعتبار سے شاید کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے۔ چونکہ یہ اصول ڈاکٹر محمود مرحوم کی اختراع نہیں بلکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانِ مبارک سے اخذ کردہ ہے، اس لیے اس پر نہایت سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت عبادہ بن صامتؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’سونے کا مبادلہ سونے سے، چاندی کا چاندی سے، گیہوں کا گیہوں سے، جو کا جو سے، چھوارے کا چھوارے سے، نمک کا نمک سے، برابر برابر اور ہاتھ در ہاتھ ہونا چاہیے، اور جب یہ اصناف بدل جائیں تو جس طرح چاہو خرید و فروخت کرو، لیکن یہ خرید و فروخت بھی ہاتھ در ہاتھ ہونی چاہیے۔‘‘
یہ فرمانِ نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم واضح طور پر بارٹر سسٹم کے متعلق ہے۔ اب جبکہ مونیٹری سسٹم رائج ہے تو کیا اب اس حدیث پاک کو متروک سمجھا جائے؟ دیکھنے میں آیا ہے کہ معاصرین اس حدیث پاک کو عصری ماحول میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو اسے سودی نظام کی تفہیم تک محدود کر لیتے ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث میں گنوائی گئی اشیا کی تعداد اور بارٹر سسٹم کو الگ رکھ کر، ان اشیا کی نوعیت ملحوظ رکھتے ہوئے فرمانِ نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد دریافت کرنے کی کوشش کی جائے تو دو معنوی پرتیں سامنے آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ اشیا انسانی ضروریات کی عمومیت پردال ہیں، یعنی ان کا دائرہ ہر دور کی ضروریاتِ زندگی کے مطابق کم یا زیادہ کیا جا سکتا ہے جسے اصطلاحاًکفاف کہا جا سکتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر زمانے کی ضروریاتِ زندگی کے لحاظ سے اشیا کا تعین کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی عمومی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ اس حدیث پاک کی دوسری معنوی پرت یہ ہے کہ کسی زمانے میں ضروریاتِ زندگی کو ملزوم ایک ہی جنس کی شے ، اعلیٰ اور حقیر کے نام پر منقسم نہ کی جائے۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا ہے تو کوئی لازمی چیز مثلاًگندم چاول چینی وغیرہ، اعلیٰ ترین اور کم ترین کے نام سے مارکیٹ میں آئے گی اور زیادہ منافع کی غرض سے اعلیٰ درجے کی جنس کو رواج دینے کی کوشش کی جائے گی جس کے نتیجے میں ایک تو کفاف کے درجے میں کم ترین درجے کی جنس بھی اکثریتی آبادی کی ضروریات پوری نہ کر پائے گی اور دوسرا یہ کہ اس سے ضروریاتِ زندگی کی تکمیل میں بھی مساوات کے بجائے عدمِ مساوات قائم ہوجائے گی کہ معاشرے کا ایک مخصوص طبقہ اعلیٰ ترین درجے کی جنس کا خریدار ہو گا اور اس سے ضروریاتِ زندگی کے باب میں بھی دکھاوے کی دوڑ شروع ہو جائے گی۔ کفاف کے درجے میں ایسی دوڑ یا ایسی عدمِ مساوات دین اسلام کی روح سے بالکل میل نہیں کھاتی۔ لہٰذا اس حدیث نبوی میں مضمر مقصدیت کو پیچھے کی سطروں میں مذکور ’’یکساں حق‘‘ کی مطابقت میں لینا، اس کی عصری معنویت سے لگا کھاتا ہے۔یہاں ضمناًیہ نکتہ پیش نظر رہے کہ آج اکیسویں صدی میں شرعی احکام کے الفاظ کی پیروی کے بجائے شریعت کے مقاصد کی تفہیم (جیسا کہ وقف، بیمہ،عاقلہ اور وینچر کیپیٹل کی بحث میں بھی مقاصد پر نظر رکھی گئی)، غالباًواحد راستہ ہے جس پر چل کر دین اسلام عملی تقاضوں کا مناسب حل پیش کر سکتا ہے اور تنفیذ کی منزل پا سکتا ہے۔ اگر الفاظ ، مقاصد کے ذرائع کے بجائے خود ہی مقصد ہیں تو پھر(مثال کے طور پر) دشمن کے خلاف جہاد میں بھی گھوڑے دوڑانے چاہییں اور تیر برسانے چاہییں۔ ڈاکٹر غازی مرحوم نے کفاف کے ضمن میں ریاستی ذمہ داری پر اس طرح روشنی ڈالی ہے:
’’ شریعت کا رجحان اور مزاج یہ ہے کہ کفاف اور ضروریات کے لیے تو ریاست کے وسائل مکمل طور پر خرچ کیے جائیں۔ حاجیات کے لیے ریاست کے وسائل وہاں خرچ کیے جائیں جہاں دستیاب ہوں اور جتنے دستیاب ہوں، اتنے ہی خرچ کیے جائیں۔ تکمیلیات کا جہاں تک تعلق ہے، وہ چونکہ لامتناہی ہیں، اس لیے اگر ان پر کنٹرول نہ کیا جائے، ان کو حدود کے مطابق نہ بنایاجائے تو یہ رجحان ناپسندیدہ رنگ اختیار کر سکتا ہے۔ ایک حدیث میں آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’لو کان لا بن آدم وادیان من ذھب لابتغیٰ ثالثا‘‘ اگر آدم کے کسی بیٹے کے پاس دو وادیاں سونے سے بھری ہوئی ہوں تووہ تیسری وادی کی تلاش میں نکل پڑے گا۔ یہ انسان کا مزاج ہے۔ خود قرآن پاک کا ارشاد ہے: ’’انہ لحب الخیر لشدید‘‘ انسان مال کی محبت میں شدید ہے۔ ...... ریاست کی اصل اور بنیادی ذمہ داری کفاف کی ہے۔ کفاف میں بنیادی اور ناگزیر طور پر تین چیزیں تو لازماًاور ہر حال میں شامل ہیں۔ بھوکے کو کھانا کھلانا، بے لباس کو لباس فراہم کرنا، بے گھر کو گھر فراہم کرنا۔ روٹی کپڑا اور مکان کی فراہمی کفاف ہے اور یہ پوری امت مسلمہ کے ذمے واجب علی الکفایہ ہے۔ اس واجب کو یا فرض کفایہ کو عامۃ الناس کی طرف سے ریاست ادا کرے گی، اس لیے کہ ریاست عامۃ الناس کی وکیل ہے۔ عامۃ الناس موکل ہیں، ریاست ان کی وکیل ہے، اس لیے موکل کی طرف سے وکیل اس فریضے کو انجام دے گا۔ فقہائے اسلام میں سے بعض حضرات نے یہ لکھا ہے، جن میں علامہ ابنِ حزمؒ کا نام بہت مشہور ہو گیا ہے کہ اگر ریاست اپنے ان تقاضوں کو پورا نہ کرے یا ریاست ان فرائض کی انجام دہی میں غفلت اور کوتاہی اختیار کرے اور معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہوں جن کو روزی پیٹ بھر کر نہ ملتی ہو، ایسے لوگ موجود ہوں جن کے پاس تن ڈھانپنے کو لباس نہ ہو، سر چھپانے کو چھت نہ ہو تو وہ زبردستی خود باوسیلہ لوگوں سے اپنا حق وصول کر سکتے ہیں۔‘‘(چوتھا خطبہ:ص۱۸۲،۱۸۳)
اس اقتباس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب بندوق چلانا چاہتے ہیں لیکن ابنِ حزمؒ کے کندھوں پر رکھ کر ۔ ایسا کیوں ہے کہ ہمارے علما و سکالرز کی اکثریت اس طرح کے معاملات میں طرح مصرع ملنے پر بھی غزل کہنے سے گریز کرتی ہے؟ ان کا یہ سہما سہما معذرت خواہانہ انداز شاید اس لیے ہوتا ہے کہ ماضی میں سوشلزم کی مخالفت برائے مخالفت میں خود انھی مقاصد (کفاف وغیرہ) سے چشم پوشی کرتے رہے ہیں، حالانکہ خلیفہ اول نے طبقاتی کشمش کی پیش بندی کر کے مساوات اور حریتِ فکر کی راہ ہموار کر دی تھی جس کا اعتراف خود ڈاکٹر غازیؒ بھی کر رہے ہیں:
’’ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے زمانے میں جب تمام مجاہدین کی باقاعدہ تنخواہیں مقرر کی گئیں تو سیدنا صدیق اکبرؓ نے سب کی تنخواہیں برابر رکھیں۔ ان کی اپنی تنخواہ ، ایک عام مجاہد صحابی یا تابعی کی تنخواہ کے برابر تھی۔ وہ یہ فرماتے تھے کہ کمی بیشی اور اجر میں زیادتی یہ اللہ تعالیٰ کے یہاں جا کر ہو گی۔ دنیوی معاملات کی حد تک ہم سب کو برابر رکھیں گے ااور سب کو برابر تنخواہ دیں گے۔ اس لیے کہ معاشی ضروریات سب کی ایک جیسی ہیں۔ اہلِ خانہ سب کے ساتھ ہیں۔ کھانا پینا روزی علاج تعلیم، یہ سب کو حاصل کرنی ہے۔ اس لیے تنخواہوں میں کمی بیشی کا تصور ان کے خیال میں مناسب نہیں تھا۔‘‘ (چوتھا خطبہ: ص ۱۷۵)
سیدنا ابوبکرصدیق کے معاشی وژن کا قدرے تفصیلی ذکر ہم اپنے مضمون بعنوان’’اسلامی حکومت کا فلاحی تصور‘‘ میں کر چکے ہیں۔ (اس کے لیے فروری ۲۰۰۵ء کا ماہنامہ الشریعہ دیکھیے)۔ علامہ محمد اقبالؒ بھی اس صدیقی پالیسی سے متفق تھے۔ ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:
’’ملکیت، خواہ وہ جمہوریت ہی کی قبا میں پوشیدہ کیوں نہ ہو ، انسان کو فوز و فلاح سے آشنا نہیں کر سکتی بلکہ انسانی فلاح تمام انسانوں کی مساوات اور حریت میں پنہاں ہے۔‘‘ (اقبال اور قرآن از ڈاکٹر غلام مصطفی خان:ص۸۸۷)
ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم بھی اس پالیسی سے ملتے جلتے رجحانات رکھتے ہیں۔ شاید اسی لیے صدرِ اسلام سے ضروریاتِ زندگی اور مفادِ عامہ سے متعلق ایک واقعہ پیش کرتے ہیں:
’’مشہور صحابی سیدنا بلال بن حارث المزنیؓ (یہ حضرت بلالؓ موذن نہیں ہیں، یہ دوسرے بلالؓ ہیں) ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے قریب عقیق کے علاقے میں ایک بہت بڑی زمین دے دی۔ صحابہؓ نے بعد میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس زمین میں فلاں قسم کی پیدا وار ہوتی ہے جو عامۃ الناس کے لیے بہت ضروری ہے، اس لیے اگر وہ ایک شخص کے پاس رہی تو شاید اس کے اثرات مناسب نہ ہوں۔ اس پر وہ زمین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے واپس لے لی اور دوسری ایک زمین ان کو دے دی جس کی آباد کاری کا انہوں نے وعدہ کیا، لیکن وہ اس کو آباد نہیں کر پائے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے زمانے میں جب یہ دیکھا کہ سیدنا بلال بن حارثؓ اس زمین کو آباد نہیں کر پائے تو سیدنا عمرفاروقؓ نے ان سے وہ زمین واپس لے لی اور دوسرے مسلمانوں کو الاٹ کر دی۔‘‘ (چوتھا خطبہ :ص ۱۸۱)
نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کا مفادِ عامہ میں زمین واپس لینا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے نہ صرف ضروریات زندگی کو ملزوم تقاضے نبھانے کی خاطر، بلکہ کسی ممکنہ اجارہ داری کے سدِ باب کے لیے بھی کسی چیز کو اجتماعی نظم میں لینے کی پوری گنجائش نکلتی ہے۔ اور رہا سیدنا عمر فاروقؓ کا طرزِ عمل تو وہ صاف صراحت کر رہا ہے کہ اسلامی احکام قانونی اطلاق کے بجائے مقصد قانون کو اصلاًاہمیت دیتے ہیں، یعنی قانونی اطلاق کی حیثیت اضافی ہے اور مقصدِ قانون اس پر فوقیت رکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کسی حکم کی تنفیذ کے بعد مقاصد حاصل نہیں ہوپاتے تو اس تنفیذ کی تنسیخ اس حکم کے مقاصد سے پوری طرح ہم آہنگ ہوگی۔ ڈاکٹر محمود احمد مرحوم کا درج ذیل بیان سیدنا عمر فاروقؓ کے عمل کی توضیح معلوم ہوتا ہے:
’’ ایک اہم بات وسائل کا مکمل استعمال بھی ہے۔ جس کو آج کل optimum utilization کہتے ہیں، وہ شریعت کا بھی منشا ہے۔ شریعت کا حکم یہ ہے کہ اللہ نے جو رزق دیا ہے، جو وسیلہ عطا کیا ہے، اس کا مکمل اعتراف اور اس احسان کا مکمل اظہار ہو نا چاہیے۔ اس کی واحد شکل یہ ہے کہ اس کا استعمال مکمل ہو۔ ......اس کے لیے ضروری ہے کہ اس بات کا علم اور مہارت حاصل کی جائے کہ کسی چیز کا بہتر سے بہتر استعمال کہاں کہاں اور کیسے کیسے ہو سکتا ہے۔ حتیٰ کہ ایسا گھریلو جانور جو مر جائے جس کو لوگ اس کے گھر سے باہر پھینک دیتے ہیں، اس کے بارے میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس کو کسی ایسی طرح استعمال کرو اس کے مفید اجزا بالکل ضائع نہ ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں تشریف لے جا رہے تھے، راستے میں دیکھا کہ مردہ بکری پڑی ہوئی ہے جو کسی نے پھینک دی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ بکری مردہ ہے اس کو پھینک دیا، لیکن اس کی کھال کو استعمال کیا جاسکتا تھا۔ دباغت کے ذریعے اس کی کھال کا چمڑا بنایا جا سکتا تھا۔ یہ چمڑا کسی ایسے مقصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا جہاں چمڑا استعمال ہوتا ہے۔ اس سے واضح طور پر یہ ہدایت ملتی ہے کہ کسی چیز کو بھی بغیر مکمل استعمال کے ضائع کرنا درست نہیں ہے۔ یہ ہے وسائل کا مکمل استعمال۔‘‘ (چوتھاخطبہ:ص۱۷۳)
لیکن یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ انسان وسائل کا مکمل استعمال کسی مثبت نتیجے کی امید پر کرتا ہے۔ ڈاکٹر غازی مرحوم نے ایک روایت پیش کی ہے جس سے اخذ ہوتا ہے کہ نتیجے کی پروا کیے بغیر انسان کو کوئی بھی مثبت عمل کر گزرنا چاہیے۔ ملاحظہ کیجیے:
’’صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہارے پاس زمین ہو، کسی کے پاس زمین ہے یا تو اس میں خود کاشت کرے یا اپنے کسی بھائی کو کاشت کرنے کے لیے دے دے۔ یعنی وسائل کو بغیر استعمال کے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص پودا لگانے کے لیے بیٹھا ہو، ہاتھ میں اس کا بیج یا قلم ہو اور ابھی لگانے کے لیے بیٹھا ہے، قیامت کا صور پھنک گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اگر ہو سکے تو اس پودے کو لگا کر پھر اٹھو اور پھر دیکھو کہ قیامت آئی ہے تو اب کیا کریں۔ فان استطاع ان لا یقوم حتی یغرسھا فلیفعل ، اگر اس کو اتنی مہلت مل جائے کہ قیامت کا صور پھونکے جانے کے بعد بھی وہ پودا لگا سکے اور پودے کو لگانے کے بعد کھڑا ہو تو اس کو ایسا کر گزرنا چاہیے۔‘‘ (پہلاخطبہ:ص۵۱)
خیال رہے مثبت عمل وہ ہوتا ہے جو فی نفسہ نتیجہ خیز ہوتا ہے۔ اس لیے دینِ اسلام میں ایسی سرگرمی سے منع کیا گیا ہے جو اصلاًبے نتیجہ وبے ثمر ہو۔ اسی لیے خاص طور پر علم کے میدان میں بھی (نفع کے حقیقی تصورکے ساتھ) علم نافع ہی کو شریعت نے تسلیم و قبول کیا ہے۔ بقول اقبالؔ :
وہ علم اپنے بتوں کا ہے آپ ابراہیم!
کیا ہے جس کو خدا نے دل ونظر کا ندیم
وہ علم کم بصری جس میں ہم کنار نہیں!
تجلیاتِ کلیم ومشاہداتِ حکیم
اس لیے اس روایت سے یہ اخذ کرنا زیادہ صحیح ہو گا کہ اگر کوئی عمل فی نفسہ نتیجہ خیز ہے، ثمرآور ہے، نفع مند ہے تو پھر انسان کو یہ سوچ کر بلکہ یہ دیکھ کر بے عمل نہیں ہو جانا چاہیے کہ اس کی محنت کا ثمر اسے نہیں ملے گاکہ: السعی منی والاتمام من اللہ ، کہ کوشش میرا کام ہے اورا نجام کو پہنچانا اللہ کاکام ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ انسان کو ہر وقت کسی نہ کسی مثبت سرگرمی میں مصروف رہنا چاہیے اور دوسرا مطلب یہ ہوا کہ نتائج و ثمرات کے حوالے سے انسان کو خود غرض اور لالچی نہیں ہونا چاہیے۔ اقبالؔ نے سچ ہی کہا تھا:
جس کا عمل ہے بے غرض، اس کی جزا کچھ اور ہے
حور وخیام سے گزر، بادہ وجام سے گزر!
اس روایت میں قیامت کا صور پھونکے جانے کے ساتھ پودے کا بیان محض مثال کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کی ایک علامتی اہمیت بھی موجود ہے، لیکن سر دست اس علامت کی تحلیل و تشریح ہمارے لیے ممکن نہیں ہے کہ یہ ہمارے موضوع سے براہ راست مناسبت نہیں رکھتی۔
اپنی ذاتی منفعت کی خاطر لوگوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے لوٹنا ایک عام انسانی روش رہی ہے۔ ڈاکٹرغازی مرحوم ایک قرآنی لفظ’’بخس‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے اس سے عصری تقاضوں کے موافق معنویت اس طرح اخذ کرتے ہیں:
’’ یہ بات فقہاے اسلام نے قرآن کریم کی اس آیت سے نکالی ہے جس میں ارشاد ہو اہے کہ ’’ولا تبخسوا الناس اشیاءھم‘‘ لوگوں کی چیزوں اور مال ودولت (کی قیمت) کم نہ کرو ۔ اس حکم میں بہت عموم ہے۔ لوگوں کی چیزیں اونے پونے خرید لینا، کھوٹے سکے جاری کرنا، کم وزن کے دراہم و دنانیر سے کام چلانا، کسی کی قیمتی چیز کو کم قیمت قرار دے کر خرید لینا، یہ سب بخس میں شامل ہے۔ آج کل کے لحاظ سے ہم کہ سکتے ہیں کہ سکے کو ڈی ویلیو کرنا بھی بخس کی ایک قسم ہے۔ آپ نے بطور حکومت مجھے پانچ ہزار روپے دینے کا وعدہ کیا، اس کے بعد سکے کی قیمت کم کر کے آپ نے پانچ ہزار کی قیمت ڈھائی ہزار کر دی اور مجھے پانچ ہزار کا نوٹ پکڑا دیا۔ میرا استحقاق جس قیمت کا تھا، وہ قیمت آپ نے مجھے ادا نہیں کی۔ یہ بھی ’’ولا تبخسوا الناس اشیاءھم‘‘ میں شامل ہے۔ آج کل اس حکم پر عمل درآمد کی صورت کیا ہونی چاہیے؟ اس حکم کو آج کی معاشی زبان میں منتقل کیسے کیا جائے؟ یہ اہل علم کے غور کرنے کا سوال ہے۔ امام احمد بن حنبل ؒ نے کم وزن کے سکے جاری کرنے کو یا جعلی طور پر چلا دینے کو فساد فی الارض قرار دیا ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ فساد فی الارض کی سزا قرآن کریم میں بہت سخت ہے۔‘‘ (چوتھا خطبہ: ص ۱۸۸)
قرآن مجید میں کم از کم تین مقامات (اعراف۷:۸۵، ھود۱۱:۸۵، شعراء۲۶:۱۸۳ ) پر بخس کی ممانعت کے ساتھ فساد فی الارض کا ذکر کیا گیاہے، اس لیے اگر یہ طے پا جائے کہ رائج الوقت کرنسی میں کسی قسم کی گڑبڑ ’’بخس‘‘ کے دئیرے میں آتی ہے تو پھر امام احمد بن حنبلؒ کا کم وزن یا جعلی سکے چلانے کے عمل کو فساد فی الارض سے تعبیر کرنا یقیناًدرست سمجھا جانا چاہیے، لیکن ہمیں حیرت ہے کہ ڈاکٹر محمو احمد مرحوم نے (روپے کے شے نہ ہوتے ہوئے بھی) اس کی قدر گرانے (devaluation) کے عمل کو تو بخس میں شمار کیا ہے، لیکن’’ محنت‘‘ اونے پونے خریدنے کو قابل غور ہی نہیں سمجھا۔ اس سلسلے میں امام احمد بن حنبلؒ کو الزام نہیں دیا جا سکتا کہ ان کے دور میں محنت اونے پونے خریدنے کا عمل یا تو موجود ہی نہیں تھا یا اتنا کم تھا کہ اسے بخس کے عنوان سے فساد فی الارض میں شمار کرنا تقریباًناممکن تھا۔ ڈاکٹر غازی مرحوم چونکہ قرآن مجید کی نص سے براہ راست اخذ کرنے کے بجائے امام احمد بن حنبلؒ کے اخذ کردہ سے اخذ کر رہے ہیں، اس لیے ان کے ساتھ یہ مسئلہ پیش آرہا ہے۔ اب ہم امام احمد بن حنبلؒ کو کہاں سے لائیں کہ وہ آج کے دور کے مطابق کچھ اخذ کریں تاکہ ہمارے سکالرز ان کے پیچھے پیچھے کچھ جھاڑ پونچھ کر سکیں! خیر! ڈاکٹر صاحب کو محنت کے استحصال کا درد تو نہیں ہے، البتہ پانچ ہزار اور ڈھائی ہزار کی مثال بتا رہی ہے کہ انہیں تنخواہ دار طبقے کی حالت زار کا نہ صرف علم ہے بلکہ وہ ان کا درد بھی محسوس کر رہے ہیں۔ ایسا شاید اس لیے ہے کہ وہ خود سرکاری ملازم رہے ہیں۔ حالیہ دور میں روپے کی قدر میں تیزی سے کمی، افراطِ زر میں مسلسل اضافے اور مہنگائی کے نہ رکنے والے طوفان نے ملازم اور مزدور کو ادھ موا کر کے رکھ دیا ہے۔ تو کیا کوئی احمد بن حنبلؒ ہے جو اسے علی الاعلان فساد فی الارض قرار دے کر امامت کا منصب سنبھال سکے؟
خیر! منفی ربا کے مانند، ہمارے دور میں بخس کا نیا روپ منفی بخس بھی سامنے آیا ہے۔ اس میں کسی کی اونے پونے قیمت والی چیز، زیادہ قیمت میں خرید لی جاتی ہے۔ حکومتوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ایسے معاملات چلتے رہتے ہیں۔ مثلاً ملی بھگت سے پانچ لاکھ مالیت کی زمین سرکار کے لیے ایک کروڑ میں خرید لی جاتی ہے۔ نتیجہ اس کا صرف اتنا نکلتا ہے کہ سرکاری خزانے کو پچانوے لاکھ کا نقصان پہنچتا ہے اور پچانوے لاکھ کا ہی فریقین (بیچنے والے اور سرکار کی طرف سے ڈیل کرنے والے) کو فائدہ ہو جاتا ہے۔ یوں نفع و نقصان میں ’’برابری‘‘ کی بنیاد پر معاملہ ختم ہو جاتا ہے، یعنی ایک کو جتنا نفع ہوا دوسرے کو اتنا ہی نقصان ہوا۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ واقعہ یہ ہے کہ بددیانتی اور دھوکہ دہی بہروپیے کے مانند ہے۔ تجارت و کاروبار میں اس کے نئے نئے روپ سامنے آتے رہتے ہیں۔ قیمتوں میں مصنوعی اضافہ اس کا ایک مستقل روپ ہے۔ اس بابت ڈاکٹر محمود مرحوم فرماتے ہیں کہ:
’’جو لوگ خریداروں کو گم راہ کرنے کے لیے مصنوعی خریدار پیدا کرتے ہیں اور مصنوعی طور پر سودے کی قیمت بڑھاتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کو دھوکے باز بھی قرار دیا ہے، خائن بھی بتایا ہے اور بالواسطہ سودخور بھی قرار دیا ہے۔ بعض فقہا کے نزدیک یہ خرید و فروخت منعقد ہی نہیں ہوتی۔ اگر کسی دھوکے کے نتیجے میں خریدار نے زیادہ قیمت لگا دی اور بازار سے زیادہ قیمت میں کوئی چیز خرید لی، ایسے کسی گم راہ کن خریدار کے قیمت بڑھانے کی وجہ سے یہ بیع بعض فقہا کے نزدیک منعقد ہی نہیں ہوتی۔ یہ باطل ہے۔ بعض دوسرے فقہا کے نزدیک یہ voidable ہے۔ اگر متعلقہ فریق چاہے تو اس کو منسوخ قرار دلوا سکتا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کو حدیث میں نجش کہا گیا ہے۔‘‘(پہلاخطبہ:ص۶۶)
آج کل خاص طور پر پراپرٹی کے معاملات میں یہ رجحان بہت عام ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ نجش کو معاملہ فہمی کا نام دے کر اس پیشہ کا لازمی حصہ سمجھا جاتا ہے۔ وطنِ عزیز میں مختلف ہاؤسنگ سوسائٹیز نجش کو فروغ دے رہی ہیں اور عوام الناس کو خوب لوٹ رہی ہیں، لیکن علما کی جانب سے ان کی مخالفت میں کبھی بھی آواز بلند نہیں کی گئی اور یہی علما مذہبی مسلکی نوعیت کے معاملات میں فوراًسے پہلے آستینیں چڑھا لیتے ہیں۔ اس سے تاثر یہی ملتا ہے کہ سماج و معاش کا مذہب سے اور مذہب کا سماج و معاش سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے، ان کا دائرۂ عمل الگ الگ ہے۔ اگر اسلام ایک ’’دین‘‘ ہے جس کے سماجی معاشی مذہبی روحانی ، غرض تمام پہلو باہم مربوط ہیں تواس کے علم برداروں کو اپنے معاشرتی مقاطعے جیسے رویے پر سنجیدگی سے نظر ثانی کرنی چاہیے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم نے ایسے رویوں پر اس طرح رائے زنی کی ہے:
’’ آج کے اہلِ علم کی یہ ذمہ داری ہے کہ رائج الوقت اسالیبِ تجارت کا جائزہ لیں اور اگر ان میں کوئی چیز شریعت سے متعارض نہیں ہے تو اس کے بارے میں وضاحت کر دیں کہ یہ جائز ہے۔ اور اگر کوئی چیز شریعت سے متعارض ہے تو یہ بتائیں کہ وہ کیوں متعارض ہے اور اس تعارض کو دور کیسے کیا جائے اور اس رائج الوقت طریقے کو اسلام کے مطابق کیسے بنایا جائے۔ یہ دونوں کام انجام دینا اور اس ضرورت کی تکمیل کرنا آج کل کے علمائے کرام اور فقہا کی ذمہ داری ہے۔ کسی تجارت کو ناجائز قرار دے کر بالکلیہ نظر انداز کر دینا اور عامۃ الناس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اس سے مجتنب ہو جائیں گے، یہ قابلِ عمل رویہ نہیں ہے۔ یہ طرزِ عمل نہ صحابہ کرامؓ کا تھا نہ ائمہ مجتہدین کا تھا اور نہ گزشتہ تیرہ سو چودہ سو سال کے دوران فقہائے اسلام کا یہ طرزِ عمل رہا ہے۔‘‘(چھٹا خطبہ:ص۲۴۹)
ڈاکٹر صاحب خوامخواہ اتنا خون جلا رہے ہیں، ان کے مخاطبین ٹس سے مس نہ ہوں گے۔ وہ جس مٹی کے بنے ہیں، اس میں معاملہ فہمی، دور اندیشی اور واقعیت پسندی جیسی خاصیتیں پائی ہی نہیں جاتیں۔ اس مذہبی ذہن کا ایک خاص نفسیاتی مسئلہ ہے۔ وہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی ایسی بات کا فوراًانکاری ہو جاتا ہے جو اسے تاریخی اسلام میں نہ ملتی ہو۔ دین اسلام سے وابستگی کے بجائے اس کی وفاداری تاریخی اسلام کے ساتھ استوار ہے۔ (دین اسلام اور تاریخی اسلام میں فرق دیکھنے کے لیے ماہنامہ الشریعہ نومبر۲۰۰۶ میں ہمارا مضمون بعنوان’’اسلامی تہذیب کی تاریخی بنیاد‘‘ ملاحظہ کیجیے) لیکن ڈاکٹر غازی مرحوم ’’وما علینا الاالبلاغ‘‘ پر پختہ یقین رکھتے ہیں، اس لیے فرماتے ہیں کہ:
’’ کسی تجارت کے جائز اور مطابقِ شریعت ہونے کے لیے یہ ہرگز ضروری نہیں کہ وہ سو فی صد ان فقہی طریقوں کے مطابق ہو جو فقہائے اسلام نے فقہ کی کتابوں میں لکھے ہیں۔ فقہائے اسلام نے فقہ کی کتابوں میں جو طریقے لکھے ہیں، یہ وہ ہیں جو ان کے زمانے میں جا بجا رائج تھے۔ فقہائے اسلام نے ان طریقوں کا جائزہ لیا، ان میں جو چیز شریعت سے متعارض نہیں تھی، اس کے تفصیلی احکام بیان کر دیے۔ جب تک ان جائز طریقوں کو شریعت کے احکام کے مطابق برتا جاتا رہا، وہ اسلامی طریقے سمجھے جاتے رہے۔ جب تجارت کے ان طریقوں کو اسلام کی تعلیم سے ہٹ کر برتا گیا تو وہ غیر اسلامی طریقے ہوگئے۔ اسی طرح آج کے تمام رائج الوقت طریقوں کو اگر اسلام کے احکام کے مطابق برتا جائے گا تو وہ جائز طریقے ہوں گے۔ اسلام کے احکام سے ہٹ کر ان پر عمل کیا جائے گا تو وہ ناجائز طریقے ہوں گے۔‘‘(چھٹا خطبہ:ص۲۴۸،۲۴۹)
شخصیتِ اعتباری اور محدود ذمہ داری کا اصول عملی لحاظ سے بہت اہم ہے، کیونکہ یہ معاشرتی و ریاستی نظم کی نوعیت متعین کرتا ہے۔ زیرِ نظر محاضرات میں ڈاکٹر غازی مرحوم نے اس پر بھی گفتگو کی ہے، ملاحظہ کیجیے:
’’مشہور فقیہ اور صفِ اول کے قانون دان استاذ مصطفی احمد زرقا کا خیال تھا کہ شخصیتِ اعتباری کا تصور فقہ اسلامی میں پہلے دن سے موجود ہے۔ وہ اس کے لیے بیت المال اور وقف کی مثال دیا کرتے تھے کہ وقف کے متولی کی ذمہ داری وقف کی ذمہ داریوں تک محدود ہوتی ہے، اس کی ذات تک ممتد نہیں ہوتی۔ اسی طرح بیت المال کے متولی کی ذمہ داری بیت المال کے اموال تک محدود ہے، اس کی ذات تک اس کا اثر نہیں ہوتا۔ مثلاًاگر بیت المال کے متولی نے بیت المال کے لیے کوئی قرضہ لیا ہے اور وہ قرضہ بیت المال ادا نہیں کر سکا تو اس قرضے کی ادائیگی کے لیے قرض خواہوں کو متولی کی ذاتی جائیداد پر نظر اٹھانے کی اجازت نہیں ہوگی، اس لیے کہ یہاں متولی کی ذمہ داری بیت المال کے اموال تک محدود ہے اور اس معاملے تک محدود ہے جو اس نے بیت المال کے لیے کیا ہے۔ یہ حکم واضح طور پر شخصیتِ اعتباری اور محدود ذمہ داری دونوں تصورات پر مبنی ہے۔ بیت المال کی شخصیت متولی کی شخصیت سے الگ سمجھی جاتی ہے۔ آج ایک شخص متولی ہے، کل دوسراشخص متولی ہوگا، لیکن بیت المال کے معاملات بیت المال کے حقوق بیت المال کی آمدنی، کرایہ وصول کرنا، یہ معاملات متولی انجام دیا کرتا تھا۔ اس لیے ایک سطح پر شخصیتِ اعتباری کا تصور بھی موجود ہے اور محدود ذمہ داری کا تصور بھی موجود ہے۔ یہ دورِ جدید کے غالب فقہا کی رائے ہے۔ بعض حضرات اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ چنانچہ شام کے مشہور صاحبِ علم اور فقیہ شیخ سعید رمضان البوطی کی رائے میں شخصیتِ اعتباری اور محدود ذمہ داری کا فقہ اسلامی میں کوئی تصور نہیں۔ ان کی رائے میں یہ دونوں تصورات فقہ اسلامی کے لیے نا قابلِ قبول ہیں۔‘‘(گیارھواں خطبہ:ص۴۰۷،۴۰۸)
ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح فزیبلٹی رپورٹ اور وعدوں کی بحث میں فقہ حنفی کے بجائے بوجوہ فقہ مالکی سے مدد لی گئی ہے، اسی طرح قانون دان استاذ مصطفی احمد زرقا کے موقف کی مکمل حمایت کے بجائے شام کے فقیہ شیخ سعید رمضان البوطی کی رائے پر بھی نظر رکھی جانی چاہیے۔ ڈاکٹر غازی مرحوم نے شیخ سعید رمضان البوطی کے دلائل نقل نہیں کیے، اس لیے کسی کے حق یا مخالفت میں رائے زنی مناسب معلوم نہیں ہوتی ۔ البتہ اتنی گزارش ضرور کریں گے کہ محدود ذمہ داری اصل میں غیر ذمہ داری ہے۔ جدید دور کے معاشی معاملات کی پیچیدگیوں کے باعث کوئی صاحب محدود ذمہ داری کی آڑ میں بآسانی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ ایسے مظاہرے آئے دن ہوتے رہتے ہیں۔ حالیہ حج سکینڈل کو ہی لے لیجیے۔ سورۂ توبہ کی آیت۱۰۵ پر غور کیا جائے تو صاف اور واضح معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ذاتی انفرادی معاشرتی اور ریاستی یعنی (اخلاقی، قانونی، عدالتی) غرض ہر اعتبار سے جواب دہی کی طرف خصوصی توجہ دلائی گئی ہے:
وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمْ وَرَسُولُہُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَسَتُرَدُّونَ إِلَی عَالِمِ الْغَیْْبِ وَالشَّہَادَۃِ فَیُنَبِّءُکُم بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ (التوبۃ ۹:۱۰۵)
’’اور آپ کہہ دیجیے کہ عمل کرو۔ اب تمہارے عمل دیکھے گا اللہ اور اس کا رسول اور مومنین۔ اور ضرور تم کو اس کی طرف پلٹنا ہے جو چھپا اور کھلا سب جانتا ہے، سو وہ تم کو تمہارا سب کیا ہوا بتلا دے گا ۔‘‘
سورت توبہ کی اس آیت میں (فَسَیَرَی) کی نسبت اللہ اور اس کے رسول تک نہیں ہے بلکہ مومنین کو اس نسبت میں شامل کیا گیا ہے، اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ نہ صرف محدود ذمہ داری میں ’’محدود‘‘ کی تلافی کے لیے ’’جواب دہی‘‘ کے موثر نظام کے قیام کی غرض سے بلکہ فزیبلٹی رپورٹ کو قابلِ مواخذہ بنانے کے لیے بھی یہ آیت شرعی جواز فراہم کرتی ہے۔ خیال رہے کہ وطن عزیز میں قومیائے گئے ادارے اور صنعتیں محدود ذمہ داری کی ہی بھینٹ چڑھی ہیں اور اشتراکی نظام کے عملی مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ اسی نوعیت کا رہا ہے۔ اس لیے شخصیت اعتباری و محدود ذمہ داری اور جواب دہی کے امتزاج سے اگر کوئی نیا عملی اور موثر نظام وضع کیا جائے تو نہ صرف اسلام بلکہ انسانیت کی بھی عظیم خدمت ہوگی۔
اگر وسائل رزق اور مال و اسباب نا اہلوں کے ہاتھ آ جائیں تو ایسی معاشی ابتری جنم لیتی ہے جس کی روک تھام میں کوتاہی صدیوں کی سزا دیتی ہے۔ دین اسلام کے تمام پہلوؤں کا داخلی ربط ایسے کسی متوقع معاشی و اخلاقی عدمِ توازن کو، جس کا انجام تباہی ہی تباہی ہے، بہت سنجیدگی سے لیتا ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر غازی مرحوم اسلامی تعلیمات کا ایک پوشیدہ گوشہ سامنے لاتے ہیں:
’’قرآن مجید نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ اگر کسی وقت کوئی ایسا شخص کسی بڑی دولت کا یکایک وارث ہو جائے جو بہت بے وقوف اور بے عقل ہو، جو دولت کے استعمال کا طریقہ نہ جانتا تو اس کو اپنی دولت پر کنٹرول حاصل کرنے کی پورے طور پر اجازت نہ دی جائے۔‘‘(پہلا خطبہ:ص۴۷)
سوال یہ ہے کہ بے وقوف اور بے عقل کسے کہتے ہیں؟ ڈاکٹر صاحب نے بڑی جامع بات کی ہے کہ’’جو دولت کے استعمال کا طریقہ نہ جانتا تو اس کو اپنی دولت پر کنٹرول حاصل کرنے کی پورے طور پر اجازت نہ دی جائے‘‘ ۔ یہاں دولت استعمال کرنے کا طریقہ نہ جاننے کی توضیح و تشریح کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ دولت کے استعمال کے دوبڑے پہلو ہیں: (۱) کاروبار وغیرہ کرنا، (۲) خرچ کرنا۔ لہٰذا اگر کسی کو اس بنیاد پر بے وقوف قرار دیا جائے گا کہ وہ دولت استعمال کرنے کے طریقے نہیں جانتا تو ان دو پہلوؤں کو ملحوظ رکھنا پڑے گا۔ آج وطن عزیز میں ایسے دولت مند پائے جاتے ہیں جن کے کاروبار اور اخراجات انہیں بآسانی بے وقوفوں میں شامل کرا دیتے ہیں۔ جہل فی نفسہ اور جہل بالاحکام ، غرض ہر حوالے سے ان کا طرزِ عمل بے عقلی اور حماقت پر مبنی ہوتا ہے۔ شریعتِ اسلامی کا یہ پہلو جس کی تنفیذ سے فوری نوعیت کے معاشرتی و معاشی ثمرات حاصل ہوسکتے ہیں، مسلمانوں کے روایتی لٹریچر میں ’’حجر‘‘ کے عنوان سے موجود ہے۔ اس پر ایک وقیع مضمون ’’الحجر۔۔حجر کی لغوی شرعی تحقیق‘‘ مولانا سعیدالرحمن علوی مرحوم نے لکھا ہے جو ان کی کتاب ’’اسلامی حکومت کا فلاحی تصور‘‘ میں شامل ہے۔ مولانا مرحوم لکھتے ہیں کہ:
’’ امام مالکؒ ، امام ابویوسفؒ ، امام محمد بن شیبانیؒ اور امام شافعیؒ جیسے متقین اور اسلامک لا کے ماہرین ایک مسرف و مبذر پر پابندی کی بات کرتے ہیں اور ہیئت انتظامیہ کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ ایسے شخص پر تصرفاتِ مالیہ کے سلسلہ میں رکاوٹ و پابندی عاید کرے تو ظاہر ہے کہ اسی لیے ہے کہ مال و دولت کا ضیاع نہ ہو، کچھ لوگوں کے حقوق تلف نہ ہوں اور معاشرہ میں فساد و بگاڑ پیدا نہ ہو۔ ان ائمہ کے نزدیک وہ قرض دار بھی حجر کی زد میں آتا ہے جو اپنا قرض ادا کرنے کے لیے اپنی جائیداد بیچنے سے انکار کرتا ہے۔ اس حوالے سے حکومت ان لوگوں کے حالات پر سنجیدگی سے غور کرے جو بینکوں سے لاکھوں کروڑوں کے قرض لے کر پلازے اور صنعتی پلاٹ وغیرہ بنا کر جائیداد بناتے چلے جاتے ہیں اور پھر جب بینک ان سے واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہ بینکوں کو عدالتی حکمِ امتناعی کے چکر میں الجھا کر الٹا مزید نقصان کرتے ہیں اور اس طرح اسٹیٹ اور رعایا کا بے حد نقصان ہوتا ہے، لیکن یہ لوگ اپنے اللے تللے اڑاتے رہتے ہیں۔ اسی طرح یہ ائمہ اس شخص کو بھی حجر کا مستحق گردانتے ہیں جو مختلف النوع قومی ذمہ داریوں یا قرض کی ادائیگی سے بچنے کی غرض سے جائیداد کے جعلی انتقال کرتا پھرے اور صرف ذمہ داریوں سے بچنے کی غرض سے انہیں اِدھر ادھر کر دے۔ یہ صورتِ حال بھی بڑی نازک ہے۔ خاص طور پر ہمارے ملک میں جہاں ایک خاص طبقہ ملک کی غالب جاگیر و جائیداد پر ہی مسلط نہیں بلکہ انتظامیہ، مقننہ، عدلیہ اور دوسرے ہر شعبہ پر اس کا کنٹرول ہے۔ یہی طبقہ اب جاگیر و جائیداد پر قبضہ سے آگے بڑھ کر تجارت و صنعت پر بھی چھا چکا ہے۔ اول تو اس کے پاس جو جاگیر ہے، وہ ہی محلِ نظر ہے کہ اس کے آبا و اجداد نے قومی مفادات کا سودا کر کے غیر ملکی سامراج اور آقاؤں سے یہ جاگیر حاصل کی۔ پھر اس نے سرکاری ٹیکسز اور الٰہی ٹیکسز(عشر وغیرہ) کی ادائیگی کی کبھی فکر نہیں کی۔ (الا ما شاء اللہ تعالیٰ) اس نے تجوریاں بھریں اور مختلف ذرائع و اسباب سے سیاست و نظم اور عدل و مقننہ پر بھی قابض ہو گیا۔ اس کی ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ وہ زکوٰۃ تک جیسے لازمی حکم سے بچنے کی غرض سے سال ختم ہونے سے چند دن پہلے اپنا سرمایہ اپنی بیوی وغیرہ کے نام منتقل کرا دیتا ہے اور اگلے سال وہ پھر اسی طرح مالک رہتا ہے اور جب کبھی حکومت اس جائیداد اور جاگیر کے حصے بخرے کرنے کا سوچتی ہے تو وہ جعلی انتقالات سے جائیداد اِدھر ادھر کر دیتا ہے۔ ایسے اشخاص پر حجر و پابندی بے حد ضروری ہے۔ ہم اپنے ملک کی مختصر تاریخ میں زرعی اصطلاحات کے نام پر تین مرتبہ (دولتانہ، ایوب، بھٹوکے ادوار) اس قسم کے جعل و فراڈ سے گز ر چکے ہیں۔‘‘ (اسلامی حکومت کا فلاحی تصور: ص ۱۳۸، ۱۳۹، ۱۴۰)
سوال یہ ہے کہ ’’حجر‘‘ کا نفاذ کون کرے گا؟ کیا اس سے متاثر ہونے والے خود یہ قدم اٹھائیں گے؟ کیا وہ اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماریں گے؟ مال و اسباب ان کا، حکومت ان کی، ادارے ان کے اور (معاف کیجیے گا) علما بھی ان کے۔ اس کی ایک ہی عملی صورت ہو سکتی ہے کہ درد مند حضرات یہ پیغام عامۃ الناس تک پہنچانے کی بھر پور کوشش کریں، لوگوں کو ذہنی طور پر تیار کریں، رائے عامہ ہموار کریں اورخاص طور پر مسلم تاریخ سے حجر کے اطلاق کے نظائر ڈھونڈ ڈھونڈ کر لائیں۔ ایسے دردمند حضرات کو تاویلات پیش کرنے والوں کے سامنے بھی ا چھے خاصے پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔ بہرحال! ڈاکٹر غازی مرحوم اسراف و تبذیر کو سماجی عمومیت کے دائرے میں لاتے ہیں۔ ان کے درج ذیل نکات سے جزوی اتفاق کیا جا سکتا ہے:
’’مسلمان صارف کا رویہ غیر مسلم صارف سے مختلف بنانے کے لیے تربیت درکار ہے۔ آج کل کی پوری معیشت صارفین کے رویے کے مطالعے پر مبنی ہوتی ہے۔ بہت سی معاشی پالیسیاں صارفین کے رویوں کے مطالعے کی بنیاد پر تشکیل دی جاتی ہیں۔ اگر مسلمان صارف کا رویہ غیر مسلم صارف سے مختلف نہیں ہے تو پھر اسلامی معیشت کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اسلامی معیشت کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان صارفین کا رویہ غیر مسلم صارفین کے رویے سے مختلف ہو۔ مسلمان صارف وہ ہے جو حرام اشیا کی خریداری نہیں کرتا۔ مسلمان صارف وہ ہے جو اسراف اور تبذیر کا ارتکاب نہیں کرتا۔ مسلمان صارف وہ ہے جو مثلاًفحش رسائل اور کتابیں نہیں خریدتا۔ مسلمان صارف کی ضروریاتِ زندگی نسبتاًمحدود ہوں گی۔ مسلمان صارف دھوکہ دہی نہیں کرے گا۔ یہ چند مثالیں ہیں جن کے ذریعے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ مسلمان صارف کا رویہ غیر مسلم صارفین کے رویہ سے کیسے مختلف ہو گا۔‘‘ (بارھواں خطبہ: ص ۴۵۲، ۴۵۳)
سوال پیدا ہوتا ہے کہ معاشرے کا وہ طبقہ جو مسلم صارفین کو اسراف، دھوکہ دہی، حرام خوری وغیرہ کی ترغیب دینے کا باعث بنے جس کے نتیجے میں اسلامی معیشت ایک خواب بن کر رہ جائے، اس کے خلاف معیشت اسلامی کے مقاصد کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’حجر‘‘ کے عنوان سے سخت کارروائی کیوں نہیں کی جا سکتی؟ ڈاکٹرمحمود مرحوم خود فرما رہے ہیں کہ آج کی پوری معیشت صارفین کے رویے کے مطالعے پر مبنی ہے ، اس لیے موجودہ حالات میں حجر کی معنوی توسیع کی اور اس کے نفاذ کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔
مغربی دنیا کے استحصالی اقدامات ڈاکٹر غازی مرحوم کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ وہ بھر پور احساس رکھتے ہیں کہ مغربی اقوام کی ترقی، مشرقی اقوام بالخصوص مسلمانوں کی ضروریاتِ زندگی اور عزتِ نفس کی قیمت پر ہوئی ہے۔ افراطِ آبادی پر مسلم موقف کی موثر ترجمانی کے ساتھ ساتھ مغربی دنیا کے موقف کا تنقیدی جائزہ ڈاکٹر محمود مرحوم نے اس طرح لیا ہے:
’’ دوسری طرف یہ امرِ واقعہ ہے جس سے قرآن و سنت کا کوئی طالب علم انکار نہیں کر سکتا کہ اسلام کا رجحان کثرتِ آبادی کی طرف ہے، بشرطیکہ کثرتِ آبادی کسی فرد کے لیے ذاتی طور پر غیر عملی ثابت نہ ہو۔ شریعت نے نکاح کو سنتِ موکدہ قرار دیا، ازدواجی زندگی کو مجرد زندگی سے بہتر اور افضل قرار دیا۔ ......جتنے بھی انبیاء علیہم السلام تھے، وہ سب کے سب متاہلانہ زندگی گزار کر گئے ہیں اور ازواج و اولاد کے تمام جھمیلے انہوں نے برداشت کیے۔ .......یہاں تعداد اور آبادی کی کثرت کا مطلب کیفیت کی قیمت پر کمیت میں اضافہ نہیں ہے۔ بلکہ کیفیت کے ساتھ ساتھ کمیت میں بھی اضافہ مطلوب اور پسندیدہ ہے۔ کیفیت میں اضافہ کے لیے تو پورے قرآن کریم اور احادیث کے دفتر موجود ہیں جہاں بہتر سے بہتر اخلاق، بہتر سے بہتر ایمان ، بہتر سے بہتر کردار، بہتر سے بہتر کارکردگی، بہتر سے بہتر فکری اور تعلیمی ترقی کے بارے میں ہدایات موجود ہیں۔ ان سب کے ساتھ ساتھ کمیتی اعتبار سے بھی مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہیے، یہ اسلام کو مطلوب ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مغربی دنیا نے محض اپنی تحسینیات اور کمالیات کی خاطر دنیا کی ضروریات و حاجیات کو قربان کرنے کا وطیرہ اختیار کیا ہوا ہے۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ دنیا کی آبادی کنٹرول میں رہے تاکہ جو درجہ کمالیات اور تحسینیات کا ان کو حاصل ہے، وہ حاصل رہے۔ اس میں کوئی ان کا مقابلہ کرنے والا نہ ہو۔ کوئی انہیں compete کرنے والا نہ ہو اور کسی ملک کی آبادی اس حد تک نہ جائے جو ان کے لیے خطرہ ہو سکے۔‘‘ (تیسرا خطبہ:ص۱۴۹)
مسلم ممالک کی آبادی کنٹرول کرنے کے لیے آنے والی غیر ملکی امداد کو ڈاکٹر غازی مرحوم شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے خبر دار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’یہ بات محض اتفاق نہیں ہے کہ دنیائے اسلام کے کسی ملک کے لیے آبادی میں کنٹرول کے باب میں کبھی امدا د کی کمی نہیں ہوئی۔ مختلف ملکوں پر مختلف پابندیاں لگتی رہتی ہیں، پاکستان بھی ان پابندیوں کا شکار رہا ہے ، لیکن بدترین سے بدترین ادوار میں بھی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے باہر سے کبھی امدا دمیں کمی نہیں آئی ۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کے جواب پر غور کیا جائے تو بہت سے نکتے واضح ہو جاتے ہیں۔‘‘ (تیسرا خطبہ:ص۱۵۰)
اگر اعدادو شمار دیکھے جائیں تو ڈاکٹر محمود مرحوم کی بات سے اختلاف کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس وقت مسلم ممالک کی شرح پیدایش مغربی ممالک سے کہیں زیادہ ہے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے ہاں نوجوانوں کی تعداد میں نسبتاًمسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اور یہ بات مسلمات میں سے ہے کہ یہ نوجوان ہی ہوتے ہیں جو قوم کی رگوں میں تازہ خون بن کر دوڑتے ہیں اور قوم کو منزل آشنا کرتے ہیں۔ بہرحال! ڈاکٹر غازی مرحوم کی تلخ نوائی جاری ہے۔ خواتین کے حقوق کو آج کل جس طرح ایشو بنایا گیا ہے، اس کے تارو پود بکھیرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’ یہ بات آپ کو حیرت انگیز معلوم ہو گی کہ آپ نے آج تک پاکستان میں یا پاکستان سے باہر خواتین کے کسی بھی پلیٹ فارم کو یہ اعتراض کرتے نہیں سنا ہو گا کہ Primogeniture کا اصول خواتین کے حقوق کے منافی ہے۔ پوری جائیداد سب سے بڑے بیٹے کو یا سب سے بڑے پوتے کو یا سب سے بڑے بھائی کو کیوں چلی جائے؟ خواتین کو کیوں نہ ملے؟ اس پر آج تک کسی خاتون نے کسی تنظیم نے خواتین کے حقوق کے علم برداروں میں سے کسی نے اعتراض نہیں کیا، حالانکہ یہاں خواتین مکمل طور پر محروم ہیں۔ مرد بھی محروم ہیں۔ صرف ایک شخص دولت کا وارث بن رہا ہے۔ اس کے برعکس شریعت پر آئے دن آپ سنتے رہتے ہیں کہ عورت کا حصہ بعض صورتوں میں آدھا کیوں ہے؟ حالانکہ جن صورتوں میں عورت کا حصہ آدھا ہے، ان میں اور بقیہ تمام صورتوں میں بھی عورت پر کوئی معاشی ذمہ داری شریعت کے نظام میں نہیں ہے۔ بہرحال! قانونِ وراثت کا عملاًنافذ نہ ہونا بھی ارتکازِ دولت کے اسباب میں ہے۔‘‘(تیسراخطبہ:ص۱۴۴)
اگر مغرب میں Primogeniture کا قانون موجود ہے تو کیا ہوا؟ ہمارے ہاں بھی تو خیر سے عملاً بڑے بھائی کا ہی قبضہ ہوتا ہے۔ مغرب میں تو یہ عمل پھر بھی کسی قانون ضابطے کی مطابقت میں ہوتا ہے، لیکن ہمارے ہاں دھونس زبردستی سے ہوتا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اگر کوئی غلط قانون رائج ہو تو اس کے خلاف دلائل کی بنیاد پر تحریک چلائی جا سکتی ہے، رائے عامہ ہموار کی جا سکتی ہے اور آخر کار اسے منسوخ کیا جا سکتا ہے یا بدلا جا سکتا ہے۔ لیکن جہاں قانون کے بارے میں کوئی ابہام سرے سے موجود ہی نہ ہو ، لیکن عملاًقانون کا منشا پورا نہ ہو رہا ہو تو بتائیے، وہاں بغلیں جھانکنے کے سوا اور کیا کیا جا سکتا ہے؟ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم Primogeniture جیسے مغربی قوانین پر تنقید سے ایک درجہ بڑھ کر ان قوانین کے پس منظر اور مغربی فکر و نظر پر بھی ڈرون حملے کرتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:
’’مغرب کی پوری معیشت دن رات اسی بات کے لیے کوشاں رہتی ہے کہ انسانوں کے دل و دماغ کو نت نئی مادی اور شہوانی خواہشات کی آماج گاہ بنایا جائے۔ .....اسلامی شریعت اس مغربی تصور کو قبول نہیں کرتی کہ معاشی انسان سے مراد وہ زندہ وجود ہے جس کی زندگی کا مقصد وجود صرف یہ ہو کہ وہ مادی زندگی کا بہتر سے بہتر ہدف اور اعلیٰ سے اعلیٰ سطح حاصل کرے۔ حصولِ مال حصولِ زر اور حصولِ مادیات کے علاوہ اس کا کوئی محرک نہ ہو۔‘‘ (دوسرا خطبہ: ص ۹۲)
واقعہ یہ ہے کہ مذہبیات سے قطع نظر، مغرب میں اجتماعی نظم کے لیے درکار اخلاقیات بدرجہ اتم موجود ہے۔ اگر مذہبیات کو بھی شامل کر لیا جائے تو ان کے ہاں عموماًکرسمس جیسے مواقع پر اشیا سستی کرنے کا واضح رجحان دیکھنے کو ملتا ہے، جبکہ مسلمانوں کے ہاں خیر سے لوٹ مار کا بازار گرم ہوتا ہے۔ اشیا سستی ہونا تو درکنار، ان کی سابقہ قیمتیں بھی برقرار نہیں رہتیں۔ اس لیے مغربی فکر کو صرف مادیت پر مبنی اور اخلاقیات سے بالکل عاری قرار دینا زیادتی اور انصاف سے روگردانی ہے۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ حصولِ مال و زر اور مادیات ہی مغربی فکر کا منشا ہے، تب بھی یہ حقیقت جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ اس فکر نے ذرائع کے درجے میں سہی، لیکن انسانیت کی عملاًبڑی خدمت کی ہے۔ اس لیے ہم نہایت افسوس کے ساتھ گزارش کریں گے کہ اسلامی شریعت اگر ایسی مغربی فکر کو قبول نہیں کرتی جس نے کم از کم ذرائع کے درجے میں ہی انسانیت کی خاصی خدمت کی ہے تو کیا ہوا؟ مسلمان تو اس پر نثار ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ مسلمان اس کے آدھے حصے پر نثار ہیں یعنی حصولِ مال و زر اور مادیات پر۔ رہی انسانیت کی خدمت تو مسلمان اس سے یوں بدکتے ہیں جیسے جنگل کے کم زور جانور شیر سے بدکتے ہیں۔ اس سلسلے میں اصولی بات یہ ہے کہ ذرائع کی اہمیت مقاصد کے تقریباًبرابر ہوتی ہے ، یعنی مقصد کے حصول کی خاطر کوئی نہ کوئی ذریعہ لازماًاختیار کرنا پڑتا ہے۔ مثلاًاگر مقصد مکان کی چھت پر چڑھنا ہو تو سیڑھی ذریعے کا کام دیتی ہے۔ اب بتائیے اگر سیڑھی ہی موجود نہ ہو تو چھت پر کیسے جایا جا سکتا ہے؟ اس لیے اگر مغربی فکر نے زندگی کی ماورا مادی جہت کو، ذریعے کے درجے میں رکھ چھوڑا ہے تو بہت برا بھی نہیں کیا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب مغربیوں سے خوامخواہ ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ ایک مقام پر فرماتے ہیں:
’’اصطلاحات کے سلسلے میں ایک بات اور بھی ذہن میں رکھنی چاہیے، وہ یہ کہ بعض مغربی اصطلاحات ایسی ہیں جن سے دور دور بھی ان کا لغوی مفہوم مراد نہیں ہوتا۔ .....مثال کے طور پر ایک زمانے میں یوٹیلیٹی (utility) اور افادیت کی اصطلاحات بہت عام تھیں۔ ..... بیسویں صدی کے شروع کی دہائیوں میں بعض اہل علم ان اصطلاحات سے بہت متاثر ہوئے۔ بعض حضرات نے اپنے نام کے ساتھ افادی کا لاحقہ بھی شامل کر لیا۔ اپنے نام کے ساتھ افادی لکھنے لگے۔ .....لیکن مغربی معاشیات میں افادیت یا یوٹیلیٹی کے وہ معنی نہیں ہیں جو ان حضرات نے سمجھے۔ وہاں یوٹیلیٹی کا تصور بہت گہرا ہے جس کا تعلق فلسفہ اخلاق اور ما بعد الطبیعات سے ہے۔ پھر مغرب میں معاشی تصورات اور نظریات کے بدلنے سے افادیت کا مفہوم بدلتا رہا ہے۔ ایک زمانے میں کچھ تھا، اس کے بعد کچھ اور تھا۔ اب اس کا مفہوم خالص انفرادی مفاد کے قریب قریب ہے۔ جس چیز کو کوئی فرد اپنے خالص ذاتی مفاد کے لیے ناگزیر سمجھتا ہو، وہ اس کے لیے افادیت کی حامل ہے، چاہے وہ اخلاقی اعتبار سے یا کسی اور پہلو سے ضرر رساں ہو۔ اسی طرح سے معقول رویہ (rational behaviour) کی اصطلاح ہے۔ (rational behaviour) یا معقول رویہ کا مفہوم لغت کی مدد سے معلوم کیا جائے گا تو اس میں کوئی چیز قابلِ اعتراض نہیں معلوم ہوگی، لیکن معاشیات کی اصطلاح میں اس سے مراد یہ ہے کہ فرد کو اپنی ذاتی مصلحت کا زیادہ سے زیادہ حصول کرنا چاہیے اور نفع کی زیادہ سے زیادہ فراہمی کے رویے کو اپنانا چاہیے۔ یہ رویہ rational رویہ یا معقول رویہ کہلاتا ہے۔‘‘ (دوسراخطبہ:ص۸۸،۸۹)
ڈاکٹر غازیؒ نے اصطلاحات کے ضمن میں افادیت (utility) پر جو تنقید کی ہے، وہ خاصی دلچسپ ہے۔اگر ڈاکٹر غازی مرحوم مزید مثالیں پیش کرتے تو دلچسپی میں مزید اضافہ ہو جاتا۔ ڈاکٹر صاحب کا بنیادی اعتراض یہ ہے کہ اب افادیت کا مفہوم ’’خالص انفرادی مفاد کے قریب قریب ہے۔ جس چیز کو کوئی فرد اپنے خالص ذاتی مفاد کے لیے ناگزیر سمجھتا ہو، وہ اس کے لیے افادیت کی حامل ہے، چاہے وہ اخلاقی اعتبار سے یا کسی اور پہلو سے ضرر رساں ہو‘‘۔ ان کے اس اعتراض میں یہ تضاد بیانی پائی جاتی ہے کہ ’’ مغرب میں معاشی تصورات اور نظریات کے بدلنے سے افادیت کا مفہوم بدلتا رہا ہے۔ ایک زمانے میں کچھ تھا، اس کے بعد کچھ اور تھا‘‘۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مغرب میں اب تغیر کو قرار آ گیا ہے؟ کیا ان کے موجودہ افادی نظریے میں تبدیلی رونما نہیں ہو سکتی؟ دوسرے الفاظ میں ہم کہیں گے کہ کیا ان کے افادی نظریے میں کبھی بھی اخلاقیات کی دخل اندازی کا کوئی امکان نہیں ہے؟ بھئی! اگر ان کے افادی نظریے کا مفہوم بدلتا رہا ہے جیسا کہ ڈاکٹر صاحب باور کرا رہے ہیں تو مستقبل میں یہ مفہوم کیونکر نہیں بدلا جا سکے گا؟ جہاں تک ڈاکٹر صاحب کا یہ فرمانا ہے کہ ’’ مغربی معاشیات میں افادیت یا یوٹیلیٹی کے وہ معنی نہیں ہیں جو ان حضرات نے سمجھے۔ وہاں یوٹیلیٹی کا تصور بہت گہرا ہے جس کا تعلق فلسفہ اخلاق اور ما بعد الطبیعات سے ہے‘‘ تو ہم گزارش کریں گے کہ مغرب کے افادی نظریے کا فلسفہ اخلاق اور ما بعد الطبیعات سے کوئی تعلق ہے یا نہیں، یہ بات قابل بحث ہے۔ لیکن حج کا مسلمانوں کے فلسفہ اخلاق اور ما بعد الطبیعات سے بہت گہرا تعلق ہے، اس پر بحث کی گنجایش نہیں۔ تو لغت سے ہٹ کر ’’حاجی‘‘ کو جو معنی معاشرے نے دیے ہیں، ڈاکٹر صاحب اس کا دفاع کیسے کریں گے؟ واقعہ یہ ہے کہ افادی کا لاحقہ ہو یا حاجی کا سابقہ، جوہر کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق باقی نہیں رہا۔ بات بڑھانے کے بجائے ہم اسی بیان پر قناعت کرتے ہوئے اگلے نکتے کی طرف آتے ہیں۔
ڈاکٹر غازیؒ کو معقول رویے (rational behaviour) کے لغوی مفہوم پر اعتراض نہیں، جیسا کہ انہیں افادیت (utility) کے لغوی مفہوم پر بھی اعتراض نہیں تھا۔یہاں ان کا بنیادی اعتراض، فرد کی ذاتی مصلحت اور زیادہ سے زیادہ نفع (profit maximization) کے حصول پر ہے جسے مغرب میں معقول رویے (rational behaviour) کا نام دیا جاتا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ صدقہ خیرات وغیرہ کے مقابلے اور موازنے میں معقول (rational) کی یہ نوع اچھی خاصی غیر معقول (irrational) دکھائی دیتی ہے۔ لیکن ایسا ہکہ دینا ایک جذباتی سی بات ہے۔ مزہ تب ہے کہ مسلم سکالرز دلائل و براہین کے ذریعے سے مغرب پر واضح کر دیں کہ صرف ذاتی مفاد کا حصول اور تکثیر نفع، عقلی اعتبار سے اس وقت تک غیر معقول رہتے ہیں جب تک ان میں انسانی اخلاقی روحانی اقدار کو سمو نہ لیا جائے۔ اس کے لیے زندگی کی کلیت کو بھی ثابت کرنا ہو گا، نیز زندگی کے تمام پہلوؤں (معاشی سماجی ثقافتی روحانی اخلاقی مادی ما بعد الطبیعاتی وغیرہ) کے گہرے داخلی ربط کو نہایت وضاحت سے سامنے لانا ہو گا۔ لیکن مغرب کو حقیقی معقولیت (true rationalism) کی تبلیغ کرنے سے پہلے ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانک لینا چاہیے۔ لغت(یعنی کتابوں) میں ’’حنفی‘‘ وغیرہ کے مفہوم اور اس کی حدود کو دیکھیے، دیوبندی وغیرہ کے مفہوم اور حدود کو دیکھیے، نظری اعتبار سے یہ سب واقعی بہت معقول (rational) معلوم ہوتے ہیں لیکن عملی طور پرغیر معقولیت (irrationalism) کی انتہائی حدوں کو چھو رہے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ ہمارے علما نے فروعی مسائل کو معقولیت (rational) کا جامہ پہنا کر جس طرح ذاتی مصلحت اور (معاف کیجیے گا) تکثیر نفع کا بازار گرم کیا ہوا ہے، اس کے ہوتے ہوئے مغربیوں کو صحیح معقولیت کا درس دینا تو کجا، خود مسلم سماج میں بھی معقولیت کی ترویج ناممکن ہی قرار دی جا سکتی ہے۔ ہم یہ کہنے کی جسارت نہیں کریں گے کہ ڈاکٹر غازیؒ ایسے حقایق سے بالکل بے خبر رہے، البتہ اتنا ضرور کہیں گے کہ انہیں مغربیوں اور مغربی فکر سے خدا واسطے کا بیر لگتا ہے۔ اس لیے فرماتے ہیں:
’’انگریزی کی ضرب المثل جو بچپن سے پڑھتے آ رہے ہیں، اس میں پڑھا تھا: Honesty is the best policy ، دیانت داری بہترین پالیسی ہے۔ یعنی دیانت داری فی نفسہ بطور ایک اخلاقی قدر کے کوئی اچھی چیز نہیں ہے، نہ فی نفسہ دیانت داری مطلوب ہے بلکہ بطور پالیسی کے اختیار کی جائے تو بہت ہی اچھی چیز ہے۔ اس سے مغرب کا تصور واضح ہو جاتا ہے اور مغربی ذہن کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اجتماعی اور معاشی زندگی میں اخلاقی اقدار کی اہمیت کیا ہے۔ وہ بطور پالیسی کے اگر مفید ہیں تو ان کو اختیار کرنا چاہیے اور اگر غیر مفید ہیں تو ان کو چھوڑ دینا چاہیے۔‘‘ (دوسراخطبہ:ص۹۲،۹۳)
ڈاکٹر محمود مرحوم کا بنیادی اعتراض یہ ہے کہ دیانت داری کو پالیسی کیوں شمار کیا گیا ہے؟ذرا غور کیجیے کہ Policy کا عام ترجمہ حکمت عملی کیا جاتا ہے اور Honesty is the best policy کا ترجمہ ہوا: دیانت داری بہترین حکمت عملی ہے۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ دیانت داری کومحض مجرد تصور تک محدود نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے زندگی کے عملی احوال کا حصہ بنانا چاہیے۔ کیا پالیسی یا حکمت عملی میں یہ خامی ہے کہ اس سے ایک مجرد تصور(دیانت داری) کو عملی زندگی کے احوال کا حصہ بنانے پر زور دیاجا رہا ہے؟ غالباًڈاکٹر صاحب ’’فقط اللہ ہو اللہ ہو‘‘ کے قائل ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ کسی بھی اخلاقی تصور کو ذہن نشین کرانے اور اعمال کا حصہ بنانے کے لیے یہی انداز اختیار کیا جاتا ہے۔ مولانا محمد جلال الدین رومیؒ کی مثنوی ہی دیکھ لیجیے، اس میں اخلاقی تصورات کے ابلاغ کی غرض سے اور ان تصورات کو زندگی کے عملی احوال کا حصہ بنانے کی خاطر کیسے کیسے اسالیب اختیار کیے گئے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر غازیؒ ، مولانا رومیؒ کو بوجوہ رعایتی نمبر دے دیں گے ، حالانکہ مثنوی کے بعض جواہر پارے حکمت عملی سے بہت بڑھے ہوئے ہیں۔ بہرحال! یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ ہم مسلمانوں کے ہاں دیانت داری کو پالیسی کے طور پر بھی نہیں اپنایا گیا۔ لیکن ڈاکٹر غازی ؒ ہیں کہ مسلمانوں کی بد دیانتی پر تنقید برداشت کرنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ فرماتے ہیں:
’’ میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں کہ دنیائے اسلام کا تاجر تو دھوکے باز ہے اور مغرب کا تاجر دھوکے باز نہیں ہے۔ دھوکہ دہی انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ اس کانفس دھوکہ دہی اور جھوٹ بولنے پر اس کو آمادہ کرتا رہتا ہے۔ اگر شیطان پاکستان کے تاجر کو بہکا سکتا ہے تو امریکہ کے تاجر کو بھی بہکا سکتا ہے۔ یہ کہنا کہ امریکہ کا تاجر شیطان کے بہکاوے سے محفوظ و مامون ہے، پاکستان کا تاجر شیطان کے وسوسوں سے محفوظ نہیں ہے، یہ درست نہیں ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ان ممالک میں قوانین سخت ہیں۔ قوانین پر عمل درآمد کرانے والے ادارے انتہائی موثر ہیں اور رائے عامہ کے ذریعے ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے کہ کسی شخص کے لیے ان وساوس پر عمل کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ یہ کام دنیائے اسلام میں بھی کیا جا سکتا ہے اور کیا جانا چاہیے اور جلد سے جلد کیا جانا چاہیے۔‘‘ (آٹھواں خطبہ:ص۳۱۷)
یہ کہنا واقعی مشکل ہے کہ امریکہ وغیرہ کا تاجر شیطان کے بہکاوے سے محفوظ و مامون ہے، البتہ موازنہ کرتے ہوئے یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا تاجر کسی نہ کسی درجے میں خود شیطان ضرور ہے، اس لیے یہ قوانین کی دیوار میں ایسے روزن تلاشنے میں مگن رہتا ہے جن کے ذریعے اس کی رسائی خودغرضانہ مفادات تک ہو سکے۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ہے کہ مغرب میں قوانین پر عمل درآمد کرانے والے ادارے انتہائی موثر ہیں لیکن یہ وضاحت نہیں کی کہ دنیائے اسلام میں یہ ادارے انتہائی غیر موثرکیوں ہیں؟ جناب نے مغربی دنیا کے ماحول کی بات بھی خوب کی ہے لیکن دنیائے اسلام کے ’’ماحول‘‘ کے سوال پر طرح دے گئے ہیں۔ اگر دنیائے اسلام جیسا تجارتی و معاشی ماحول مغربی دنیا کا ہوتا تو ڈاکٹر صاحب اسے’’ شیطانی ماحول‘‘ کہنے سے ہرگز نہ چوکتے۔ ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہیے! لیکن ڈاکٹر غازی مرحوم احوالِ واقعی سے مکمل چشم پوشی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ ان کے مزاج کی واقعیت پسندی نے ان سے یہ کہلوایا ہے کہ :
’’ہمارے یہاں کارپوریٹ کاروبار کی نگرانی کا معاملہ بہت ڈھیلا ہے۔ دنیا کے ممالک میں یہ ادارے بہت قوی، بہت کھرے اور بہت کڑے ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں یہ ادارے نہ کھرے ہیں، نہ کڑے ہیں اور نہ تکڑے ہیں۔ نگرانی اور کنٹرول کے لیے جب تک کوئی مضبوط کھرا اور کڑا ادارہ نہیں ہوگا، اس وقت تک کارپوریٹ کاروبار کا نظام مضبوط بنیادوں پر قائم نہیں ہو سکے گا۔ ایک اہم تجویز یہ بھی ضروری محسوس ہوتی ہے کہ اقتصادی امور سے نپٹنے کے لیے فوری عدالتیں الگ ہونی چاہییں۔ عدالتوں کے پاس کام کا انبار بہت زیادہ ہے۔ کسی جج کے لیے، وہ اعلی عدالت کا جج ہو یا ماتحت عدالت کا جج ہو، اس پورے کام سے بطریق احسن نمٹنا بہت مشکل ہو جاتا ہے جو اس کو درپیش ہوتا ہے۔ مقدمات کی کثرت کی وجہ سے ان کو جمع شدہ مقدمات کو نپٹانے کے کام میں تاخیر ہوتی ہے اورتاخیر کے نتیجے میں وہ صورتِ حال پیدا ہوتی ہے جس کے بارے میں، میں نے ایک بار کہا تھا کہ پاکستان کی عدالتوں سے اپنا حق حاصل کرنے کے لیے صبرِ ایوب، عمرِ نوح اور دولتِ قارون کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا ایک جزوی حل یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہائی کورٹ کی نگرانی میں مختلف معاملات کی الگ الگ عدالتیں قائم کر دی جائیں۔ اقتصادی امور کی عدالتیں الگ ہوں، بینکاری کی عدالتیں الگ ہوں۔ اگر ایسا ہو جائے تو امید کی جا سکتی ہے کہ جن اسباب کی بنا پر کاروباری طبقہ پیش رفت کرنے سے گھبراتا ہے، ان رکاوٹوں کو جزوی حد تک ہی سہی، دور کیا جا سکے گا۔‘‘(بارھواں خطبہ:ص۴۴۶)
احوالِ واقعی کی بہتری کی غرض سے دی جانے والی مذکورہ تجویز نشاندہی کرتی ہے کہ ڈاکٹر محمود مرحوم جذباتیت کی رو میں بالکل ہی نہیں بہتے۔ ان میں حالات و واقعات کا معروضی جائزہ لینے کی صلاحیت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ انہی محاضرات میں یہ صلاحیت، شکوہ و شکایت کی آمیزش سے غالبؔ کے اس کہے کو عملی جامہ پہناتی نظر آتی ہے:
پر ہوں میں شکوے سے یوں، راگ سے جیسے باجا
اِک ذرا چھیڑیے، پھر دیکھیے، کیا ہوتا ہے!
ملاحظہ کیجیے کہ موصوف چھڑ گئے ہیں، لیکن قارئین کو خوب جھنجھوڑ گئے ہیں:
’’اس کے ساتھ ساتھ ایک بات اور بھی یاد رکھنی چاہیے جو ہم میں سے اکثرلوگوں کو یاد نہیں رہتی۔ ایک عام تاثر ہمارے ہاں یہ پیدا ہو گیا ہے کہ مغربیت کے دنیائے اسلام میں آنے کا واحد سبب مغربی استعمار ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ اس کا بڑا سبب مسلمانوں کی اپنی کم زوریاں ہیں۔ مسلمانوں کے نظام کا ڈھیلا پن ہے۔ دنیائے اسلام میں مغربی استعمار کی آمد سے خاصا پہلے سے اسلام کے احکام پر عمل درآمد میں شریعت کی روح کے بجائے محض روایت پرستی کا جذبہ نمایاں ہونے لگا تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی بے جان اور کم زور روایت پرستی تیزی سے جنم لے رہی تھی جس میں نہ اسلام کی حقیقی تعمیری روح موجود تھی نہ اسلامی تہذیب کی وہ اٹھان نظر آتی تھی جو اسلامی تاریخ کے ابتدائی ایک ہزار سال میں محسوس ہوتی تھی۔ اب نہ مسلمانوں میں فکر و تہذیب میں جدت پسندی یا نئے نئے تجربات کی کوئی امنگ باقی رہی تھی اور نہ زوال و انحطاط کی اس تیزی سے پھیلتی ہوئی رَو کا زیادہ ادراک و احساس تھا۔ یہ رویہ جو خالص فکری کم زوری کا اور تہذیبی انحطاط کا غماز تھا، یہ دسویں صدی کے لگ بھگ شروع ہوا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کے ادارے کم زور ہوتے گئے۔ شریعت کے احکام پر عمل درآمد کی کیفیت ظاہر پرستی کے قریب قریب پہنچ گئی اور شریعت کے مقاصد اصل اہداف اور محرکات پر توجہ دینے کے بجائے، قرآن و سنت کی ہمہ گیر اور عالم گیر نصوص پر توجہ ملحوظ رکھنے کے بجائے، بعض متاخرین کے فتاوی ہی کو شریعت کا قائم مقام سمجھا جانے لگا اور تمام معاملات مختلف علاقوں میں دنیائے اسلام کے مختلف ممالک میں رائج الوقت فقہی مسالک کے متاخر اہلِ علم کے فتاوی کے مطابق انجام دیے جانے لگے۔ شروع شروع میں تو اس غیر ضروری تقلیدی رویے کے اثرات زیادہ محسوس نہیں ہوئے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شریعت کے اصل مصادر یعنی قرآن وسنت سے تعلق کا احساس کم زور ہوتا چلا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قرآن و سنت کی تعلیم بھی اس توجہ کی مستحق قرار نہ پائی جتنی توجہ اس پر ہونی چاہیے۔ نظامِ تعلیم کی کم زوری اور کھوکھلے پن نے بھی ایسے علما پیدا کرنے بند کر دیے جو اس صورتِ حال میں عامۃ الناس کی موثر اور فعال مجتہدانہ رہنمائی کر سکتے۔‘‘(گیارھواں خطبہ:ص۳۹۴،۳۹۵)
بات یہ ہے کہ کل کے متاخرین آج کے متقدمین شمار ہوتے ہیں، اس لیے خواہ مخواہ کی اصطلاحات میں الجھے بغیر مسئلے کی جڑ ڈھونڈنی چاہیے۔ واقعہ یہ ہے کہ اصل مسئلہ فقہی مسالک کی بے جا پیروی کا ہے۔ دین کی قانونی تعبیر پر مبنی جامد علمی رویہ اس اندھا دھند پیروی کو جواز فراہم کر رہا تھا۔ لہٰذا مسئلے کی جڑ متاخرین نہیں بلکہ دین کی کلیت کے بجائے اس کے فقہی(بمعنی قانونی) پہلوؤں پر توانائیاں صرف کر کے دینی تعبیر کو محدود کرنے والا غیر علمی رویہ تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ علما کی اکثریت ابھی تک اسی رویے سے چمٹی ہوئی ہے۔ ان کے نزدیک وہ اسلامی قانون جو ہزار برس قبل تشکیل پایا تھا، اس کی تنفیذہی شریعت کااصل مقصد ہے۔ خود ڈاکٹر غازی مرحوم بھی کسی نہ کسی درجے میں اسی سوچ کے حامی رہے ہیں(جب وہ قرآ ن و سنت کے ساتھ متفق علیہ قواعد کو بھی دائمی قرار دیتے ہیں تو اسی فکر کی زلف کے اسیر دکھائی دیتے ہیں، لیکن حیرت ہے کہ یہاں ڈاکٹر صاحب قرآن و سنت کو ہی شریعت قرار دے رہے ہیں)۔ بہرحال! جہاں تک قرآن و سنت سے تعلق کی کمزوری کا تعلق ہے، یہ کمزوری وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت طاقت ور ہو گئی ہے ، خاص طور پر قرآن سے تو رسمی تعلق باقی رہ گیا ہے۔ دینی مدارس کے نصاب اور طریقہ تدریس میں قرآن کو جو ’’مقام‘‘ حاصل ہے، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس پر مستزاد کہ علماء کرام قرآن کے اسی ’’مقام‘‘ کی بقا کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی! ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم شاید رسوائی کا چرچا کرنے پر تلے ہوئے ہیں، اس لیے بھری بزم میں راز کی بات کہہ گئے ہیں، گستاخی و بے ادبی کے طعنے کی پروا کیے بغیر :
’’ ایک ایک کر کے دنیائے اسلام میں پہلے مغربی تصورات عام ہونے شروع ہوئے اور پھر ایک ایک کر کے مغربی ادارے بھی قائم ہونے شروع ہو گئے۔ جن ممالک پر استعمار کا قبضہ براہ راست ہو گیا تھا، وہاں تو لوگ یہ کہہ کر بے فکر ہو جاتے ہیں کہ مغربی استعمار نے یہ سب کر دیا، لیکن جن ممالک پر براہ راست مغربی استعمار کا قبضہ نہیں ہوا یا اس وقت تک نہیں ہوا تھا، وہاں بھی اس طرح کے نئے مغربی ادارے اور نئے قوانین آنا شروع ہو گئے جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اس نئی تبدیلی کا اصل سبب اور محرک محض مغربی استعمار نہیں تھا بلکہ وہ خلا، وہ کم زوری اور وہ ڈھیلا پن اس کا اصل سبب تھا جو مسلمانوں کے نظام میں پیدا ہوا۔ اس کے مقابلے میں بعض ظاہر بینوں نے جب مغربی دنیا کے فعال اداروں کو، مغربی دنیا کے زندگی سے بھر پور قوانین اور اداروں کو دیکھا تو اس سے متاثر ہوئے اور ان کے دلوں میں مغربی اداروں اور قوانین کو اپنانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ یوں دنیائے اسلام میں مغربی تصورات و قوانین کی طلب پیدا ہوئی۔ مغربی دنیا نے اس طلب سے فائدہ اٹھایا اور اپنے ادارے، اپنے تصورات، اپنے قوانین اور اپنے طور طریقے دنیائے اسلام کو برآمد کیے۔ چنانچہ مصر میں سودی بینکوں کا آغاز ۱۸۵۵ء میں ہو گیا تھا۔ .......۱۸۵۶ء میں عثمانی حکومت نے انگریزوں کو سلطنتِ عثمانیہ میں پہلا بنک قائم کرنے کی اجازت دی۔ ....... چند سال کے اندر اندر ۱۸۶۳ء میں اس پہلے انگریزی بنک میں فرانسیسی بھی شامل ہوگئے اور اس کا نام ’’البنک السلطانی العثمانی‘‘ قرار پایا۔ گویا سلطنتِ عثمانیہ جو خلافت کا مرکز تھی، جہاں کہا جاتا تھا کہ نظامِ حکومت شریعت کے مطابق قائم ہے، جہاں شیخ الاسلام اور مفتی اعظم کو انتہائی اہم مقام حاصل تھا، وہاں شیخ الاسلام اور مفتی اعظم اور دوسرے علما ئے کرام یہ اندازہ نہیں کر سکے کہ آج معاشیات کی دنیا میں بینکاری کے اس نئے نظام اور بین الاقوامی تجارت کی کیا اہمیت ہے اور اس اہمیت کو نظر انداز کرنے کے نتائج کیا نکلیں گے۔ چنانچہ بنک سلطانی عثمانی قائم ہو گیا، پھر بعد میں یہی بنک ایک سرکاری فرمان کے ذریعے ترکی کا سرکاری اور مرکزی بنک قرار دے دیا گیا۔ کرنسی اور سکہ جاری کرنا اسی کا اختیار قرار پایا۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایک خالص مغربی سودی بنک، مرکزِ خلافت میں قائم ہوا اور جب وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا تو اسی بنک کو سلطنتِ عثمانیہ کے پورے مالیاتی نظام کو وضع کرنے کنٹرول کرنے اور نگرانی کرنے کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔‘‘(گیارھواں خطبہ:ص۳۹۶،۳۹۷)
ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم اگر شکایت کناں ہیں تو غلط تو ہرگز نہیں ہیں۔ ملت اسلامیہ کے مرکز خلافتِ عثمانیہ کا یہ حال تھا تو باقی امہ کے احوالِ واقعی کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پستی کی کس اتھاہ گہرائی میں کسمسا رہی ہو گی۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ صورتِ حال جوں کی توں قائم و دائم ہے۔ الطاف حسین حالیؔ کی زبان میں:
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے
ڈاکٹر غازی مرحوم کا شکوہ اپنی جگہ بجا، لیکن سوال یہ ہے کہ پھر کارل مارکس کو گالیاں کیوں دی جاتی ہیں؟ غالباً اس کا یہ قصور کم نہیں ہے کہ اس نے شیخ الاسلام، مفتی اعظم اور علما وفقہا کے بر عکس نہ صرف سرمایہ داری کے عفریت کو سمجھ لیا بلکہ بر وقت اسے نکیل ڈالنے کی بھی بھر پور کوشش کی۔ اگر ہم یہ نکتہ اٹھائیں کہ مرکزِ خلافت ترکی (معروف معنوں میں مذہب) سرمایہ داری کے تحفظ اور فروغ کا علم بردار بن گیا توکیا اس تاریخی تناظر سے یہ اخذ کرنا جرم ہوگا؟ تلخ نوائی جاری رکھتے ہوئے ہم گزارش کریں گے کہ اس دور کی تاریخ کا تنقیدی مطالعہ غالباًیہ حقیقت بھی آشکارا کرے گا کہ اسی دور کے کسی مسلم مستقبل بین (Muslim Futurist) نے تاریخ کے دھارے کا رخ بھانپ لیا ہو گا، لیکن اس پر ’’متجدد‘‘ ہونے کی پھبتی کسی گئی ہو گی اور وہ بے چارہ اپنا ایمان سنبھالتا رہ گیا ہوگا۔ سچ تو یہ ہے کہ اسلام کو ضابطہ حیات کہنے والے خود ساختہ ضابطہ پکڑے بیٹھے رہے اور حیات کہاں سے کہاں پہنچ گئی، انہیں اس کی خبر تک نہ ہوئی۔ افسوس کا مقام ہے کہ ان پر یہ حالت ہنوز طاری ہے۔ ڈاکٹر غازی مرحوم بات بڑھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’چونکہ ایک مرتبہ حکمران اور بااثر لوگوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی اور حکمرانوں کو تجربے سے اس کا اندازہ ہو گیا کہ ان کے یہاں جو روایتی قوانین یا روایتی طور طریقے چلے آ رہے ہیں، جن کو علما کرام شریعت کا حتمی تقاضا قرار دیا کرتے تھے، وہ حکمرانوں کے خیال میں نئے تقاضوں اور نئے معاملات سے عہدہ برآ ہونے میں موثر ثابت نہیں ہو رہے۔ جب یہ تصور حکمرانوں کے ذہنوں میں پیدا ہوا، اس وقت علمائے کرام کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اس تصور کا احساس کرتے، اس کا ادراک کرتے اور پہلے سے پیش بندی کرتے ہوئے احکامِ شریعت کی روشنی میں ایسے قوانین اور قواعد ایسے ادارے اور اصول وضع کرتے جو نئی ضروریات کو پورا کرنے میں بھی موثر ثابت ہوتے اور شریعت کے احکام اور قواعد سے بھی مکمل طور پر ہم آہنگ ہوتے۔ بہرحال یہ نہیں ہو سکا۔ مجھے اجازت دیجیے کہ میں یہ عرض کروں کہ یہ جہاں پوری امتِ مسلمہ کی ناکامی تھی، جہاں یہ حکمرانوں کی کوتاہ اندیشی تھی، وہاں سب سے بڑھ کر یہ علمائے کرام کی ناکامی بھی تھی۔ اگر علمائے کرام اس کم فہمی اور بے بصیرتی کا مظاہرہ نہ کرتے تو شاید اس انجام سے بچا جا سکتا تھا جو پوری دنیائے اسلام کو دیکھنا پڑا۔‘‘(گیارھواں خطبہ:ص۳۹۸)
ہم سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی علمائے کرام پر تنقید بلا جواز ہے۔ وہ بے چارے جس دینی تعبیر کے پروردہ تھے اس کے ہوتے ہوئے ان سے زمان و مکاں کی نبض پر ہاتھ رکھنے کی توقع کرنا عبث ہے۔ اصل مسئلہ یا اصل کوتاہی اس دور کے علما کی نہیں جتنی ان سے قبل کے علما کی ہے، وہ علما جنہوں نے اس انجام کے لیے زمین تیار کی۔البتہ بعد کے زمانے کے علما نے مجتہد بننے کے بجائے یہی آپشن مناسب سمجھی کہ گلے میں پڑا ڈھول بجاتے رہیں۔ خیر سے یہ ڈھول اب تک بج رہا ہے، خوب بج رہا ہے اور نجانے کب تک بجتا رہے گا! اس صورتِ حال میں ہمارے ممدوحؒ نے روایتی معاشی علمی ذخیرے کو عصری تناظر میں دیکھتے ہوئے صاف صاف کہا ہے کہ:
’’آج کی ضروریات کے لحاظ سے اسلامی معیشت کا علم از سرِ نو مدون کیا جانا ضروری ہے۔ آج جس کو اسلامی معیشت یا اسلامی اقتصاد کہتے ہیں، وہ ایک بالکل نئی چیز بھی ہے اور قدیم بھی ہے۔ نئی اس اعتبار سے ہے کہ اقتصادِ اسلامی یا اسلامی معیشت کی اصطلاح فقہا کے یہاں موجود نہیں تھی، نہ اس فن اور عنوان سے انہوں نے فقہی احکام کو مرتب کیا۔ امام زید بن علیؒ امام ابوحنیفہؒ اور امام مالکؒ کے زمانے سے لے کر بیسویں صدی کے اوائل تک اسلامی معیشت یا اقتصادِ اسلامی یا اسلامک اکنامکس Islamic economics کی اصطلاح فقہ کی کسی کتاب میں استعمال نہیں ہوئی تھی۔ ان موضوعات و مباحث کے لیے فقہا نے فقہ المعاملات کی اصطلاح استعمال کی ہے، مالیات، عقودِ مالیہ کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے، بعض دوسری اصطلاحات بھی استعمال کی ہیں۔ لیکن آج جس کو علمِ اقتصاد کہا جا رہا ہے، اس میں اور فقہ المعاملات میں مطابقت یا تطابق کی نسبت نہیں ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فقہ المعاملات سارا کا سارا علم اقتصادِ اسلامی ہے یا علم اقتصادِ اسلامی فقہ المعاملات سے عبارت ہے۔ ان دونوں میں اگر منطق کی اصطلاح استعمال کی جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان عموم خصوص من وجہ کی نسبت ہونی چاہیے۔ فقہ المعاملات کی بہت سی تفصیلات اقتصادِ اسلامی کا حصہ ہوں گی۔ اقتصادِ اسلامی کے بہت سے معاملات وہ ہوں گے جو فقہ المعاملات کی حدود سے باہر ہوں گے۔ آج جس کو ہم علم اقتصادِ اسلامی کہ رہے ہیں، وہ فقہ المعاملات کے علاوہ تصورِ مال، نظریہ مال اور کسی حد تک ان مباحث پر مشتمل ہو گا جو فقہائے اسلام کی اصطلاح میں اخلاقیات کا حصہ تھے، علم الاخلاق کا حصہ تھے، حکمت عملی کا حصہ تھے، تدبیر منزل کا حصہ تھے، سیاست مدن اور سیاست شرعیہ کا حصہ تھے۔ ان تمام موضوعات سے متعلق اس پورے مواد کو جمع کر کے جو آج کے تصورات اور تقسیم مباحث کی رو سے اقتصاد سے متعلق ہو، ایک نئے انداز سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ (گیارھواں خطبہ: ص ۴۱۰)
اس اقتباس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر محمود مرحوم جدید صورتِ حال کے تناظر میں معیشت اسلامی کا احیا چاہتے ہیں۔ان کے نزدیک ’علومِ تازہ کی سرمستیاں گناہ نہیں‘ ہیں۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا معیشت اسلامی کا احیا، زندگی کے باقی شعبوں سے کٹ کر منفرد انداز میں (بلا شرکت غیرے)ہو سکتا ہے؟ اس سلسلے میں ہم پیچھے بیان کر آئے ہیں کہ دین اسلام کے تمام پہلوؤں کے درمیان ایک داخلی ربط پایا جاتا ہے جو دین کی ایسی وحدت و اساس پر دلالت کرتا ہے جس کے توسط سے زندگی کے سبھی شعبے متوازی انداز میں ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ خود ڈاکٹر غازیؒ بھی اس کے قائل ہیں۔ لہٰذا اس دینی اساس سے وابستہ ہوئے بغیر جو تمام شعبہ ہائے زندگی کو یکساں متاثر کرتی ہے، صرف اور صرف معیشت اسلامی کی بازیابی مزید مشکلات کا باعث بنے گی۔ (اس موضوع پر اصولی بحث کے لیے ہمارا مضمون’’مسلم تہذیب کی اسلامی شناخت میں قرآن و سنت کی اہمیت‘‘ ماہنامہ الشریعہ جون۲۰۰۷ میں ملاحظہ کیجیے)۔ بہرحال! مذکورہ بالا اقتباس کا ایک مطلب یہ ہے کہ اقتصادِ اسلامی کے شعبے میں ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے، لیکن غازی مرحوم اپنی کشت ویراں سے مایوس نہیں ہیں۔ غالباًدل ہی دل میں’’یا رب ! یہ چنگاری بھی ہماری خاکستر میں تھی ‘‘ کہتے ہوئے، ان کی نگہِ بلند پروفیسر شیخ محمود احمد مرحوم کے عالمانہ کام پر جا ٹکی ہے :
’’ طویل غور خوض اور مطالعے کے بعد انہوں نے ایک کتاب لکھی تھی: Man and Money جو بڑی جامع کتاب ہے۔ اس کتاب کا ایک خلاصہ آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس نے چند سال قبل شائع کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ اپنے موضوع پر انتہائی عالمانہ اور فاضلانہ کتاب ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں تاریخ مذہب، معاشیات، فلسفہ، ریاضی، غرض ہر فن کے دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ ربا کی تمام قسمیں اور شکلیں وہ تمام خرابیاں رکھتی ہیں جو اسلامی معاشرے کی اساس کو مختل کرنے کے مترادف ہیں۔ میں پوری دیانت داری سے علیٰ وجہ البصیرت یہ سمجھتا ہوں کہ پروفیسر شیخ محمود احمد مرحوم کی یہ کتاب جدید اسلامی معاشیات کی تاریخ میں وہی حیثیت رکھتی ہے جو امام غزالیؒ کی کتاب ’’تہافۃ الفلاسفہ‘‘ فکرِ اسلامی کی قدیم تاریخ میں رکھتی ہے۔‘‘ (ساتواں خطبہ:ص ۲۸۹، ۲۹۰)
جدید دور میں معاشیات کی اہمیت کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر غازیؒ نے اپنے ہم نام پروفیسرشیخ محمود احمد مرحوم کو ’’غزالی دوراں‘‘ کا خطاب دیا ہے۔ پروفیسر محمود مرحوم کی کتاب ہماری نظر سے نہیں گزری، لیکن ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم کے بیان ’’پوری دیانت داری سے علیٰ وجہ البصیرت ‘‘ پر اعتماد کرتے ہوئے اقبالی زبان میں ہم کہے بغیر نہیں رہ سکتے:
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا!
قومی زندگی کی بقا اور ترقی مضبوط دفاع کے بغیر تقریباًنا ممکن ہے۔ قومی بجٹ کا کم از کم اور زیادہ سے زیادہ کتنے فی صد دفاع کے لیے مختص کیا جا سکتا ہے، اس کے لیے تو ہمارے ممدوحؒ نے کسی قسم کے شواہد پیش نہیں کیے، لیکن دفاعی بجٹ کی داخلی تقسیم کن بنیادوں پر اور کتنے فی صدی حساب سے ہونی چاہیے، اس کے لیے انہوں نے خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروقؓ کے حوالے سے یہ بات گوش گزار کی ہے:
’’ ایک اور موقع پر آپؓ نے فرمایا کہ اگر میں اگلے سال زندہ رہا تو میں ایک سپاہی کی تنخواہ چار ہزار درہم کر دوں گا۔ ایک ہزار درہم اس کام کے لیے کہ وہ اپنے اسلحے پر خرچ کرے ، بہتر سے بہتر اسلحہ حاصل کرے۔ ایک ہزار درہم اس کے ذاتی اخراجات کے لیے، ایک ہزار درہم اس کے گھر والوں کے اخراجات کے لیے اور ایک ہزار درہم اس کے گھوڑوں کی تیاری کے لیے۔ اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ سپاہیوں کی تنخواہیں ان کی ذاتی ضروریات کے لیے بھی تھیں اور ان تمام وسائل اور ہتھیاروں کے لیے بھی تھیں جن کا بیشتر حصہ آج ریاست خود برداشت کرتی ہے۔ آج کا سپاہی اپنا اسلحہ خود فراہم نہیں کرتا۔ اپنی سواریاں خود فراہم نہیں کرتا۔ اپنی جیپ اور ٹینک خود لے کر نہیں آتا۔ اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ملک کے دفاعی بجٹ کا اگر ایک بٹا چار حصہ سپاہیوں کی تنخواہوں ، سہولیات، تیاری اور دیگر مراعات پر اور تین بٹا چار حصہ دوسرے وسائل، اسلحہ اور ہتھیاروں پر خرچ ہو تو یہ سیدنا عمرفاروقؓ کی اس پالیسی کے عین مطابق ہو گا۔‘‘(چوتھا خطبہ: ص ۱۷۸، ۱۷۹)
اگر ڈاکٹر صاحب سیدنا عمر فاروقؓ کی پالیسی کے عین مطابق چاہتے ہیں تو دفاعی بجٹ کا ایک بٹا چار نہیں بلکہ پورا نصف سپاہیوں کی تنخواہ اور گھریلو ضروریات پر خرچ ہوگا۔ سیدنا عمر فاروقؓ نے دفاعی بجٹ کی جو داخلی تقسیم کی ہے، اس میں بجٹ کا نصف تنخواہوں وغیرہ میں دیے جانے سے یہ اخذ کرنا شاید درست ہو گا کہ اسلحہ وغیرہ پر بے جا رقم خرچ کرنے سے دفاع مضبوط نہیں کیا جا سکتا، بلکہ حقیقت میں یہ سپاہی کی جواں مردی ہوتی ہے جو میدانِ کارزار میں کام آتی ہے اور دشمن کے دانت کھٹے کرتی ہے۔ بقول مرشد اقبالؔ ، رومیؒ :
بس کناں را آں سلاح بستن بکشت
بے رجولیت چناں تیغے بمشت
گر بپوشی تو سلاحِ رستماں!
رفت جانت چوں نباشی مرد آں
’’بہت سے لوگوں کو اس ہتھیار بندی نے مروا دیا جو ہمت مردانہ کے بغیر ہاتھ میں تلوار لیے نکلتے تھے۔ بے شک تم نے بہادروں کے ہتھیار پہن لیے ہوں، لیکن ان کے چلانے کی ہمت و صلاحیت نہیں تو جان لو کہ ہتھیاربندی تمہاری جان لے لے گی۔‘‘
آج مغرب نے اربوں کھربوں ڈالر اسلحہ سازی وغیرہ میں جھونک دیے ہیں، لیکن اس کے باوجود اسے دفاع کی فکر کھائے جا رہی ہے اور خوف کے مارے اس نے اقدامی جنگیں چھیڑ رکھی ہیں۔ غالباًمغرب کے دفاعی بجٹ کا بہت کم حصہ سپاہیوں کی تنخواہوں وغیرہ کی مد میں خرچ ہوتا ہے جس سے ان کی ہمت مردانہ مزید مضمحل ہوئی ہے۔ ہم مسلمانوں کے ہاں بھی ہمت مردانہ کو صحیح زاویے سے نہیں دیکھا گیا۔ اقبالؔ کے فرمودہ ’’مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی‘‘ کو مجموعی اقبالی فکر سے کاٹ کر غلط معنی پہنا دیے گئے ہیں۔ اس کہے کا محل اور ہے اور سپاہی کی گھریلو ضروریات کی تکمیل کا محل اور ہے۔ جس طرح پیاسے کے سامنے ’’پانی پانی‘‘ دہرانے سے اس کی پیاس نہیں بجھ سکتی، جس طرح نماز پڑھنے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی کہ ہر ایک کا جدا مقام ہے، اسی طرح سپاہی کو مومن قرار دے کر اس کی ضروریات سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ مومن ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ اب وہ فرشتہ بن گیا ہے اور انسانی واقعی ضروریات سے بے نیاز ہو گیا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ فکر و سوچ کے ایسے انداز و اطوار ہمارے مجموعی سماجی رویے میں سرایت کر چکے ہیں۔ دینی مدارس کے اساتذہ کی ’’خطیر‘‘ تنخواہوں کو ہی دیکھ لیجیے۔ ان سے جس سطح کے کام کی توقع کی جاتی ہے، کیا وہ محض ’’تقویٰ‘‘ کے سہارے انجام دیا جا سکتا ہے؟ بنیادی سوال تو یہ ہے کہ کیا تقویٰ انسان کو بنیادی ضروریات سے مکمل بے نیاز کر دیتا ہے؟ یقین جانیے، اگر ایسا ممکن ہوتا تو دنیا کے اکثر و بیشتر حاکم تقویٰ پر دل و جان سے نثار ہوتے کہ محض زبانی جمع خرچ سے ان کی جان چھوٹ جاتی، اس لیے وہ ریاستی سطح پر تقویٰ کی ترویج کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ لہٰذا سیدنا عمر فاروقؓ کے حکیمانہ بیان کو محض سپاہیوں کی تنخواہوں تک محدود رکھنے کے بجائے زندگی کے تمام پہلوؤں تک پھیلا کر دیکھنا چاہیے۔
خیر! قومی زندگی کا ایک اور اہم پہلو دوسری اقوام کے ساتھ اختیار کیا جانے والا طرزِ عمل ہے۔ اس سلسلے میں دین اسلام عدل و انصاف، حسن سلوک اور اخوت کا درس دیتا ہے، لیکن خیر اور شر کے اس معرکے کو دیکھا جائے جو ہر انسان کے اندر برپا ہے اور جس سماج و قوم کا انسان حصہ ہے، وہاں بھی برپا ہے تو دو اقوام کے درمیان اخوت کا ’’مثالی مظاہرہ‘‘ عملی طور پر ممکن نہیں رہتا۔ ڈاکٹر غازی مرحوم قومی زندگی کے اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دشمن کے ہاتھ کوئی ایسی چیز فروخت نہ کی جائے جس سے کام لے کر وہ مسلمانوں کے خلاف قوت حاصل کر سکے۔ .....آج بین الاقوامی تجارت میں یہ بات پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ سامان یا پیداوار جو مسلم ممالک غیر مسلم ممالک کو یا دشمنوں کو دے رہے ہیں، ان میں کون سی چیز ایسی ہے جو وہ خود مسلمانوں کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں اور ماضی میں کرتے رہے ہیں۔ فقہائے اسلام نے اپنی فہم اور اس زمانہ کی صنعت کی رو سے اسلحے کی خرید و فروخت کی ممانعت کی تھی کہ محارب دشمن کے لوگوں کو اسلحہ فروخت نہ کیا جائے۔ کچھ اور فقہا نے کہا کہ اسلحہ سازی کا جو خام مال مثلاًلوہا ہے، وہ بھی فروخت نہ کیا جائے۔ جنگ کے زمانے میں گھوڑے فروخت نہ کیے جائیں۔ ڈھالیں تیر، غرض وہ چیزیں جو جنگ میں مسلمانوں کے خلاف استعمال ہو سکیں، وہ دشمن کو فروخت نہ کی جائیں۔ آج کل کے لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ دھاتوں کی بعض قسمیں نہ فروخت کی جائیں۔ بعض ایسی مہارتیں نہ منتقل کی جائیں جس کے بارے میں یہ خطرہ ہو کہ وہ انسانیت کے خلاف یا مسلمانوں کے خلاف استعمال کی جائیں گی۔ یورینیم نہ فروخت کیا جائے۔‘‘ (پہلا خطبہ: ص ۶۶، ۶۷)
ڈاکٹر صاحب کے بیان کردہ نکات کی اہمیت اپنی جگہ مسلم، لیکن اس امر میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ دشمن بھی اس معاملے کو خوب سمجھتا ہے۔ اس لیے مغربی ممالک سے اسلحہ خریدنے کی دوڑ میں اول آنے کے بجائے مسلم ممالک کو تکنیکی حربی و معاشی خود کفالت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مغربی ممالک صرف اسی وقت اپنا اسلحہ اور تکنیک مسلم ممالک کو فروخت کرتے ہیں جب وہ اپنے لیے اس سے بہت بہتر اسلحہ بنالیتے ہیں اور تکنیکی ترقی میں بھی کئی درجے آگے بڑھ چکے ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے بارھویں خطبہ میں (ص ۴۵۰، ۴۵۱) اسلامی معیشت و تجارت کی پیش قدمی کے دس معیارات اشاریے (indicators) گنوائے ہیں:
۱۔ دولت کی وسیع تر تقسیم،
۲۔ چھوٹی اور گھریلو صنعتوں کا زیادہ سے زیادہ فروغ،
۳۔ مشارکہ اور مضاربہ اور ان کے تصور پر مبنی نئے طریقوں کا زیادہ سے زیادہ رواج،
۴۔ بیع مرابحہ اور تورق جیسے طریقوں کا کم سے کم استعمال،
۵۔ تجارت میں توسیع،
۶۔صنعتی ترقی میں نمایاں اضافہ اور مسلسل اضافہ،
۷۔معاشرے کے نادار طبقات کو استفادے کے مواقع کی زیادہ سے زیادہ فراہمی،
۸۔سودی معیشت میں لگی رقم کی نسبت میں کمی کا واضح رجحان،
۹۔اسلامی معیشت میں لگائے جانے والے سرمایہ میں نمایاں اضافہ کا رجحان،
۱۰۔ارتکازِ دولت میں کمی کا نمایاں رجحان۔
ہم یہ کہنے کی جسارت کریں گے کہ ان معیارات کا حصول آج پھر مسلمانوں کو دنیا کی امامت کے منصب پر فائز کر سکتا ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ معاملات اتنے سادہ نہیں ہیں۔ معیشت و تجارت اور بینکاری کے اسلامیانے (Islamization) کے عمل کے ساتھ ساتھ اگر مذکورہ معیارات کے حصول پر کڑی نظر نہ رکھی گئی تو اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ استحصالی طبقہ غصے سے پھٹے پڑے مظلوم و مقہور طبقے کو اسلامیانے کا لولی پاپ (Lolly Pop of Islamization ) دے کر ٹرخا دے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو نہ صرف سماج کی غالب اکثریت کے ساتھ صریحاً دھوکہ اور ظلم ہو گا بلکہ اسلام بھی قصور وار ٹھہر کر بدنامی مول لے گا۔ اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ معیشت کو اسلامیانے کی حکمت عملی ہمہ جہت و ہمہ رنگ ہو اور اس میں عدلِ اجتماعی کے قیام کا پورا پورا اہتمام کیا گیا ہو۔ اگر اس سلسلے میں کچھ پیش رفت ہوتی ہے تو گلوبلایزیشن کے شکنجے میں جکڑی اکیسویں صدی کی ما بعدالصنعتی دنیا (post- -industrial world ) کی اکثریتی آبادی کے لیے، جو پوری طرح بے دست و پا ہو کر معاشی و اخلاقی بحران کی زد میں ہے اور کسی مسیحا کی منتظر ہے، ایسی پیش قدمی روشنی کی کرن ثابت ہو گی اور دنیا کی یہ اکثریتی آبادی اسی روشنی کو حرزِ جان بنانے کے لیے بے اختیار لپکے گی۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم اس صورتِ حال سے بخوبی آگاہ ہیں اور اس کے ساتھ ہی فرمودہ اقبالؔ پر انہیں یقین ہے کہ ’’تری نسبت براہیمی ہے معمارِ جہاں تو ہے‘‘۔ اس لیے فرماتے ہیں کہ:
’’آج دنیا جس معاشی مشکل اور پریشانی کا شکار ہے، آج دنیا کو جو شدید معاشی بحران درپیش ہے، اس کا حل اسلامی تعلیم کے پاس موجود ہے۔ اسلامی شریعت اس بحران سے نکلنے میں دنیا کی راہنمائی کر سکتی ہے۔ یہ کام آج پاکستان کے تاجر اور کاروباری طبقے سے وابستہ حضرات کر سکتے ہیں کہ اسلام میں تجارت اور کاروبار کے جو اصول بتائے گئے ہیں، اسلامی معاشیات اور بینکاری کے جو قواعد دورِ جدید کے علما نے مرتب کیے ہیں، ان کو مغربی دنیا میں متعارف کرایا جائے اور ان کی بنیاد پر ایسی کامیاب تجارتیں منظم کی جائیں جو دنیا کو اسلام کی تعلیم کی طرف متوجہ کریں۔ یہ سرگرمی خود ایک عبادت ہے، لیکن جب اس نیت سے کی جائے گی کہ اس کے ساتھ ساتھ دعوت کا کام بھی کرنا ہے تو یہ اعلیٰ ترین درجہ کی عبادت بن جائے گی۔‘‘ (چھٹا خطبہ: ص ۲۳۶)
ڈاکٹر محمود احمدمرحوم درحقیقت اسی تصورِ عبادت کا درس دے رہے ہیں جو اس مضمون کے آغاز میں ہم نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ و مطہرہ کے حوالے سے پیش کیا ہے۔ اس تصورِ عبادت کی ترویج کے لیے جس درجے کی اخلاقی جرات درکار ہے، وہ طبقہ علما میں مفقود ہے۔ لیکن فطرت اپنی راہ خود نکال لیتی ہے اور اسلام دین فطرت ہے، اس لیے یہ ناممکن ہے کہ اس کی سچائیاں ڈھکی چھپی رہ جائیں اور اظہار کا راستہ تلاش نہ کر پائیں۔ سورۃ البلد کی آیت۴ میں ارشادِ ربانی ہے: لقد خلقنا الانسان فی کبد، کہ بے شک ہم نے انسان کو مشقت میں رہتا پیدا کیا ۔ لہٰذا سرگرمِ عمل رہنا، مشقت میں رہنا انسان کی فطرتِ ثانیہ ہے، اس لیے اپنے احیا کے لیے اسلام نے طبقہ علما کے تساہل سے نہیں بلکہ ہمیشہ انسان کی مشقت سے توقعات وابستہ کی ہیں۔ بقول اقبالؔ :
نقش ہیں سب نا تمام، خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام، خونِ جگر کے بغیر!
ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم کے محاضرات میں سے ’’محاضراتِ معیشت و تجارت‘‘ اس لحاظ سے بہت مفید ہیں کہ ان میں روایتی معاشی مباحث کو عصری اسلوب کا جامہ پہنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں کہیں کہیں عصری تناظر میں دیکھنے کی کوشش بھی کئی گئی ہے، لیکن اس سلسلے میں ڈاکٹر غازیؒ نے ضرورت سے زیادہ احتیاط پسندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ شاید اس کی وجہ ان محاضرات کا موضوع ہے جس کا فنی احاطہ ان کے لیے ممکن نہیں تھا۔ اگر عدل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے تو یہ بھی اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ان محاضرات کے بین السطور ڈاکٹر غازیؒ مغربی فکر سے مخالفت برائے مخالفت کی حد تک الرجک ہیں۔ وہ اپنوں کی خامیوں کے بارے میں گول مول بات کرتے ہیں، لیکن غیروں پر ڈرون حملے کرتے ہیں۔ اگر ہم اسے مثبت انداز میں لیں تو ’’عصبیت‘‘ کا نام دے کر ابن خلدون کی روح کو ثواب پہنچا سکتے ہیں، لیکن اسے اونٹ نگلنے اور مچھر چھاننے سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال! مجموعی طور یہ محاضرات عام قارئین اور دینی مدارس کے طلبہ کے لیے زیادہ مفید ہیں کہ ان کے توسط سے وہ نہ صرف اسلاف کے کارناموں سے واقف ہو سکیں گے بلکہ معیشت اسلامی کو درپیش جدید مسائل سے بھی کافی حد تک آگاہ ہو جائیں گے۔