سنت کے ثبوت کے بارے میں غامدی صاحب کے موقف پر فاضل ناقد نے بنیادی طور پر چار اعتراض کیے ہیں:ایک اعتراض یہ کیا ہے کہ غامدی صاحب معیار ثبوت میں فرق کی بنا پر حکم کی نوعیت اور اہمیت میں فرق کو تسلیم کرتے ہیں، جبکہ ذریعے کی بنیاد پر کسی چیز کے دین ہونے یا نہ ہونے میں فرق کرنا درست نہیں ہے۔ دوسرا اعتراض یہ کیا ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک سنت کے ثبوت کا معیاراخبار آحاد نہیں،بلکہ تواترعملی ہے، حالاں کہ تواتر کا ثبوت بذات خوداخبار آحاد کا محتاج ہے۔ تیسرا اعتراض یہ کیا ہے کہ غامدی صاحب نے سنت کی تعیین کے جو اصول قائم کیے ہیں ، بعض اطلاقات میں خود ان کی خلاف ورزی کی ہے۔ چوتھا اعتراض یہ کیا ہے کہ غامدی صاحب کا سنت کی اصطلاح کوامت میں رائج مفہوم و مصداق سے مختلف مفہوم و مصداق کے طور پر بیان کرنا درست نہیں ہے۔ ان اعتراضات کی تفصیل اور ان پر ہمارا تبصرہ درج ذیل ہے۔
معیار ثبوت کی بنا پر فرق
فاضل ناقد نے بیان کیا ہے کہ غامدی صاحب معیار ثبوت میں فرق کی بنا پر حکم کی نوعیت اور اہمیت میں فرق کو تسلیم کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ تواتر کے ذریعے سے ملنے والے احکام کو ایک درجہ دیتے ہیں اور آحاد کے ذریعے سے ملنے والے احکام کو دوسرادرجہ دیتے ہیں۔ یہ تفریق درست نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تواتر، دین کے نقل کا ذریعہ ہے اور ذریعے کی بنیاد پر کسی چیز کے دین ہونے یا نہ ہونے میں فرق کرنا درست نہیں ہے۔ صحابۂ کرام کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے والا ہر حکم دین تھا۔ بعد میں کسی حکم کو لوگوں نے تواتر سے نقل کیا اور کسی کو اخبار آحاد سے۔ ذریعے کو فیصلہ کن حیثیت دینے کا مطلب یہ ہے کہ اسے شارع پر مقدم مان لیا جائے ۔ بالفاظ دیگر غامدی صاحب نے تواتر کی شرط عائد کر کے لوگوں کو دین کے شارع کی حیثیت دے دی ہے۔ (فکرغامدی۵۹۔۶۰)
فاضل ناقد کی اس تقریر سے نہ صرف یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ تواتر عملی کے حوالے سے غامدی صاحب کی بات کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں، بلکہ یہ تاثر بھی ہوتا ہے کہ انھوں نے یہ تقریر ان مسلمات سے صرف نظر کرتے ہوئے کی ہے جو انتقال علم کے ذرائع کے بارے میں بدیہیات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ غامدی صاحب کے نزدیک اجماع و تواتر کی شرط کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے فریضۂ منصبی کے لحاظ سے اس پر مامور تھے کہ وہ اللہ کا دین پورے اہتمام، پوری حفاظت اور پوری قطعیت کے ساتھ اوربے کم و کاست لوگوں تک پہنچائیں۔ علماے امت بھی اس امر پر متفق ہیں کہ دین کومکمل اور بغیر کسی کمی یا زیادتی کے انسانوں تک پہنچانا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی منصبی ذمہ داری تھی۔ یہی مقدمہ ہے جس کی بنا پر اکابر اہل علم کے ہاں دو باتیں اصولی طور پر ہمیشہ مسلم رہی ہیں:
ایک کہ یہ دین کا اصل اور بنیادی حصہ، جس کا جاننا اور جس پر عمل پیرا ہونا تمام امت کے لیے واجب ہے، تواتر اور تعامل ہی سے نقل ہوا ہے ۔ چنانچہ کوئی ایسی چیزجو اس سے کم تر معیار پر ثابت ہو، اسے اصل دین کی حیثیت نہیں دی جا سکتی۔
دوسری یہ کہ اخبار آحاد میں مجمع علیہ سنت کے فروع اور جزئیات ہی ہو سکتے ہیں جن کے ثبوت میں بھی بحث ہو سکتی ہے، بلکہ فقہا کے مابین بکثرت ہوئی ہے، اور جن کا جاننا ہر مسلمان کے لیے لازم بھی نہیں ہے۔
ان دو مسلمات کے حوالے سے جلیل القدر علماکی آرا درج ذیل ہیں۔
۱۔اصل دین کااجماع اورتواتر سے منتقل ہونا
امام شافعی نے اجماع و تواتر سے ملنے والے دین کو’’علم عامۃ‘‘اور ’’اخبار العامۃ‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ یہ دین کا وہ حصہ ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عامۃ المسلمین نے نسل در نسل منتقل کیا ہے ۔ ہر شخص اس سے واقف ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی نسبت کے بارے میں تمام مسلمان متفق ہیں۔ یہ قطعی ہے اور درجۂ یقین کو پہنچا ہوا ہے ۔نہ اس کے نقل کرنے میں غلطی کا کوئی امکان ہو سکتا ہے اور نہ اس کی تاویل و تفسیر میں کوئی غلط چیز داخل کی جا سکتی ہے۔ یہی دین ہے جس کی اتباع کے تمام لوگ مکلف ہیں:
’’امام شافعی کہتے ہیں : سائل نے مجھ سے سوال کیا کہ علم (دین)کیا ہے اور اس علم (دین)کے بارے میں لوگوں پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟میں نے اسے جواب دیا کہ علم کی دو قسمیں ہیں:پہلی قسم علم عام ہے۔ اس علم سے کوئی عاقل،کوئی بالغ بے خبر نہیں رہ سکتا۔ اس علم کی مثال پنج وقتہ نماز ہے ۔ اسی طرح اس کی مثا ل رمضان کے روزے ، اصحاب استطاعت پر بیت اللہ کے حج کی فرضیت اور اپنے اموال میں سے زکوٰۃ کی ادائیگی ہے۔ زنا، قتل، چوری اور نشے کی حرمت بھی اسی کی مثال ہے۔ان چیزوں کے بارے میں لوگوں کو اس بات کا مکلف بنایا گیا ہے کہ وہ جو جاننے کی چیزیں ہیں، ان سے آگاہ ہوں، جن چیزوں پر عمل مقصود ہے، ان پر عمل کریں، جنھیں ادا کرنا پیش نظر ہے، ان میں اپنے جان و مال میں سے ادا کریں اورجو حرام ہیں، ان سے اجتناب کریں۔اس نوعیت کی چیزوں کا علم کتاب اللہ میں منصوص ہے اور مسلمانوں کے عوام میں شائع وذائع ہے۔ علم کی یہ وہ قسم ہے جسے ایک نسل کے لوگ گذشتہ نسل کے لوگوں سے حاصل کرتے اور اگلی نسل کو منتقل کرتے ہیں۔ مسلمان امت اس سارے عمل کی نسبت (بالاتفاق) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرتی ہے۔ اس کی روایت میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی نسبت میں اور اس کے لزوم میں مسلمانوں کے مابین کبھی کوئی اختلاف نہیں رہا۔یہ علم تمام مسلمانوں کی مشترک میراث ہے۔ نہ اس کے نقل میں غلطی کا کوئی امکان ہوتا ہے اور نہ اس کی تاویل اور تفسیر میں غلط بات داخل ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اس میں اختلاف کرنے کی کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی ۔‘‘ (الرسالہ۳۵۷۔۳۵۹)
ابن عبدالبر نے اجماع اور تواتر سے ملنے والی سنت کو ’نقل الکافۃ عن الکافۃ‘ کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے اور اسے درجۂ یقین پر ثابت تسلیم کیا ہے۔انھوں نے اس کے انکار کو اللہ کے نصوص کے انکار کے مترادف قرار دیا ہے۔ چنانچہ ان کے نزدیک اس کا مرتکب اگر توبہ نہ کرے تو اس کا قتل جائز ہے:
’’سنت کی دو قسمیں ہیں: ایک قسم وہ ہے جسے تمام لوگ نسل در نسل آگے منتقل کرتے ہیں ۔ اس طریقے سے منتقل ہونے والی چیزکی حیثیت جس میں کوئی اختلاف نہ ہو، قاطع عذر حجت کی ہے۔ چنانچہ جو شخص ان (ناقلین) کے اجماع کو تسلیم نہیں کرتا، وہ اللہ کے نصوص میں سے ایک نص کا انکار کرتا ہے۔ ایسے شخص پر توبہ کرنا لازم ہے اور اگر وہ توبہ نہیں کرتا تو اس کا خون جائز ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے عادل مسلمانوں کے اجماعی موقف سے انحراف کیا ہے اور ان کے اجماعی طریقے سے الگ راہ اختیار کی ہے۔ سنت کی دوسری قسم وہ ہے جسے ’’آحاد راویوں‘‘ میں سے ثابت، ثقہ اور عادل لوگ منتقل کرتے ہیں اورجس کی روایت میں اتصال پایا جاتا ہے۔‘‘ (جامع بیان العلم وفضلہ۲/۴۱۔۴۲)
امام سرخسی نے عمومی معاملات میں کسی چیز کے مشروع ہونے کے لیے اس کے مشہور اور معلوم و معروف ہونے کو ضروری قرار دیا ہے۔ انھوں نے بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی جانب سے اس پر مامور تھے کہ لوگوں کے لیے دین کے احکام کو واضح کریں ۔آپ نے اپنے صحابہ کو انھیں اگلی نسلوں کو منتقل کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اگر ان میں سے کوئی چیز کثرت اور شہرت کے ساتھ منتقل نہیں ہوئی، بلکہ خبر واحد کے طریقے پر منتقل ہوئی ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام امت کے لیے اسے مشروع نہیں کیا۔ ’اصول السرخسی‘ میں لکھتے ہیں:
’’شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ لوگوں کے لیے حاجت طلب احکام کو واضح فرمائیں۔ چنانچہ آپ نے انھیں حکم فرمایا کہ بعد میں آنے والوں کے لیے ان ضروری مسائل کو منتقل کریں۔ اگر کوئی ایسا معاملہ ہوتا کہ تمام لوگ اس میں مبتلا ہوتے تو ، ظاہر ہے کہ، شارع (علیہ السلام) نے تمام لوگوں کے لیے اس کے بیان اور تعلیم کو نہیں چھوڑا ہے۔ اور انھوں نے آپ سے استفادہ کے بعد اس کو نقل کیے بغیر نہیں چھوڑا۔ اگر ان کی طرف یہ روایت مشہور نہیں ہوئی تو ہمیں معلوم ہے کہ یہ سہو ہے یا حکم منسوخ ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جب متاخرین نے اس حکم کو نقل کیاہے تو ان کے درمیان یہ مشہور ہو گیا۔ اگر متقدمین میں بھی یہ ثابت ہوتا تو مشہور ہو جاتا۔ اورباوجود اس کے کہ عامۃ الناس کو اس کی معرفت کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اس کو منفرد (تنہا) ہو کر روایت نہ کرتے۔‘‘ (۱/۳۷۸)
علامہ آمدی نے قرآن مجید کے خبر واحد سے ثابت ہونے کو اسی بنا پر ممتنع قرار دیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ واجب تھا کہ آپ اسے قطعی ذریعے یعنی تواتر سے لوگوں تک پہنچائیں۔ نماز اور نکاح و طلاق جیسے مسائل جنھیں آپ لوگوں تک قطعی طور پر پہنچانے کے مکلف تھے، انھیں بھی آپ نے خبر واحد کے ذریعے سے نہیں، بلکہ تواتر ہی کے ذریعے سے لوگوں تک پہنچایا۔ ’’الاحکام فی اصول الاحکام‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’جہاں تک قرآن مجید کا تعلق ہے تو اس کا اثبات خبر واحد کے ذریعے سے ممتنع ہے۔ اس وجہ سے نہیں کہ وہ عموم بلویٰ مسائل میں سے ہے، بلکہ اس وجہ سے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اثبات میں معجز ہے اور اس کی معرفت کا طریق دلیل قطعی پر موقوف ہے۔ اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کی اشاعت اور حد تواتر تک لوگوں تک پہنچانا واجب تھا۔... قرآن مجید کے علاوہ جن چیزوں کی اشاعت ہوئی اور جن میں خاص و عام سب شریک ہیں، ان میں عبادت پنجگانہ، بیع، نکاح، طلاق اور عتاق جیسے معاملات کے اصول و قواعد شامل ہیں۔ ان کے علاوہ وہ احکام بھی ان میں شامل ہیں جن کی اشاعت نہ کرنا جائز ہے۔ ان کا اثبات یا اجماعی حکم کے ذریعے سے ہے یا اس وجہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ان کی اشاعت کرتے رہے ہیں۔‘‘ (۲/۱۶۴)
خطیب بغدادی نے ’’الکفایہ‘‘ میں بیان کیا ہے کہ دین کے وہ امور جن کا علم قطعی ذرائع سے حاصل ہوا ہے، ان کے بارے میں خبر واحد کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر کسی خبر کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعی نہیں ہے تو اسے کسی ایسی بات پر جس کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعی ہے، فائق قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لکھتے ہیں:
’’مکلفین پر قطعیت اور علم سے حاصل شدہ دین کے کسی مسئلہ میں خبر واحد کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس کی علت یہ ہے کہ جب پتا نہ چلے کہ وہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے تو وہ اپنے مضمون کی وجہ سے بعید از قیاس ہوگی، سوائے ان احکام کے جن کا جاننا واجب نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی توثیق فرما دی اور ان کے بارے میں اللہ عزوجل سے خبر لائے تو ان میں خبر واحد مقبول ہوگی اور اس پر عمل کرنا واجب ہے اور اس میں جو کچھ بھی بطور شرع وارد ہو، تمام مکلفین کے لیے اس پر عمل کرناواجب ہے۔ یہ اسی طرح ہے، جس طرح حدود، کفارات، رمضان و شوال کے چاند دیکھنے، طلاق، غلام آزاد کرنے، حج، زکوٰۃ، وراثت، بیوع، طہارت، نماز اور ممنوعہ چیزوں کے حرام کرنے کے احکام میں وارد ہوا ہے۔‘‘ (۱/۴۳۲)
صاحب ’’احکام القرآن‘‘ اور فقہ حنفی کے جلیل القدر عالم ابو بکر جصاص نے قراء ت خلف الامام کی صحیح روایات کے باوجود اسے اس لیے قبول نہیں کیا کہ اس حکم کے بارے میں صحابہ کا اجماع نہیں ہے۔ اس سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک اجماع سے ملنے والے حکم کو خبر واحد سے ملنے والے علم پر فوقیت حاصل ہے:
’’...یہ بات اس روایت پر دلالت کرتی ہے جو امام کے پیچھے قراء ت کرنے کی نہی اور قراء ت کرنے والے کے رد کے بارے میں آئی ہے۔ اگریہ حکم عام ہوتا تو عمومی حاجت کی وجہ سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے آپ کا حکم مخفی نہ رہتا اور شارع علیہ السلام کی طرف سے اجتماعی حکم ہوتا اور صحابۂ کرام اس کو اسی طرح جانتے، جس طرح نماز میں قراء ت کو جانتے تھے، کیونکہ جس طرح اکیلے نماز پڑھنے والے کے لیے اور امام کے لیے نماز میں قراء ت کی معرفت ضروری ہے، اسی طرح امام کے پیچھے بھی قراء ت کی معرفت ضروری ہوتی۔ جب اکابر صحابۂ کرام سے امام کے پیچھے قراء ت کرنے کا انکار مروی ہے تو ثابت ہو گیا کہ یہ ناجائز ہے۔ جن حضرات نے قراء ت خلف الامام سے منع کیا ہے، ان میں سے حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت سعد، حضرت جابر، حضرت ابن عباس، حضرت ابوالدرداء، حضرت ابو سعید، حضرت ابن عمر، حضرت زید بن ثابت اور حضرت انس رضی اللہ عنہم شامل ہیں... اگر یہ ان فرائض میں سے ہوتی جن کی حاجت عموماً پڑتی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ان کے لیے واجب قرار دیتے۔ جب ہمیں معلوم ہو گیا کہ صحابۂ کرام نے اس سے منع کیا ہے تو یہ بھی معلوم ہوگیا کہ آپ کی طرف سے تمام لوگوں کے لیے حکم نہیں تھا اور ثابت ہو گیا کہ یہ (قراء ت خلف الامام) واجب نہیں ہے۔ اس سے پہلے جو ہم نے ذکر کیا کہ اس مسئلے میں اکثر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تمام لوگوں کے لیے حکم نہیں ہے، اس بارے میں اس کو واجب قرار دینے والے کا قول باعث طعن نہیں ہے۔ بعض اس کی قراء ت کو تاویل یا قیاس کے ذریعے سے واجب قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ اس طرح کے حکم کے اثبات کے لیے ’کافہ‘ اور ’نقل امت کا طریق اختیار کیا جاتاہے۔‘‘ (جصاص، احکام القرآن ۳/۴۲۔۴۳)
بعض روایتوں میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ زکوٰۃ و صدقات صرف فقرا اور نادار اور معذور لوگوں کے لیے ہی جائز ہیں۔ کھانے پر قدرت رکھنے والے تندرست لوگوں کو انھیں دینا جائز نہیں ہے۔ اس بنا پر بعض اہل علم تندرست لوگوں کو زکوٰۃ دینے کی حرمت کے قائل ہیں۔ امام ابوبکر جصاص نے اس موقف کی تردید اس اصول پر کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر آج کے زمانے تک یہ بات عملی تواتر سے منتقل ہوئی ہے کہ زکوٰۃ و صدقات معذور یا تندرست کی تخصیص کے بغیر دیے جاتے ہیں:
’’جو صدقات اور اموال زکوٰۃ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیے جاتے انھیں، مہاجرین و انصار اور اصحاب صفہ میں تقسیم کر دیا جاتا۔ باوجود اس کے کہ وہ کمانے پر قادر بھی تھے اور تندرست بھی تھے۔ اس سے واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں تندرست لوگوں کو چھوڑ کر معذور لوگوں کے ساتھ مخصوص نہیں فرمایا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر آج تک تمام لوگوں کا یہی طریقہ ہے کہ وہ ضعیف اور تندرست فقیروں کو یکساں طور پر زکوٰۃ اور صدقات دیتے ہیں۔ اس میں وہ معذور اور تندرست میں فرق نہیں کرتے۔ اگر زکوٰۃ و صدقات تندرست فقرا پر حرام اور ناجائز ہوتے تو اس معاملے کی نوعیت عمومی اور روزمرہ کی ہونے کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس کا حکم سب کے لییصادر ہوتا۔ جب قادر اور کمانے والے حاجت مند فقرا کو صدقات دینے کی نہی کے بارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی حکم عام نہیں ہے تویہ اس بات کی دلیل ہے کہ تندرست اور معذور فقرا کو یکساں طور پر صدقات و زکوٰۃ دینا جائز ہے۔‘‘ (احکام القرآن ۳/۱۳۱)
بعض روایتوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صبح کے وقت قنوت پڑھنے کا ذکر ہے ۔ کیا ان روایتوں کی بنا پر اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معمول بہ عمل کے طور پر قبول کرنا چاہیے۔ اس مسئلے کے بارے میں ابن قیم نے بیان کیا ہے کہ اگر یہ عمل فی الواقع آپ کا معمول ہوتا اور آپ اسے امت میں جاری کرنا چاہتے تو آپ صحابہ کو اس کا امین بناتے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی کام آپ نے جاری فرمایا ہو اور پھر امت نے اسے ختم کر دیا ہو:
’’یہ بات یقیناًمعلوم ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر صبح قنوت پڑھتے، اور دعا میں بھی اس کو دہراتے اور صحابۂ کرام کو اس کا امین بناتے تھے تو امت اسے اسی طرح نقل کرتی، جس طرح اس نے صبح کی نماز کی جہری قراء ت کو، اس کی رکعات کو اور اس کے وقت کو نقل کیا ہے۔‘‘ (زاد المعاد ۹۵۔ ۹۶)
۲۔اخبار آحادمیں دین کے فروعات
امام شافعی نے اخبار آحاد کے طریقے پر ملنے والے دین کو ’’اخبار الخاصۃ‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ یہ علم دین کا وہ حصہ ہے جو فرائض کے فروعات سے متعلق ہے ۔ ہر شخص اسے جاننے اور اس پر عمل کرنے کا مکلف نہیں ہے۔ لکھتے ہیں:
’’دوسری قسم اس علم پر مشتمل ہے جو ان چیزوں سے متعلق ہے جو مسلمانوں کو فرائض کے فروعات میں پیش آتے ہیں یا وہ چیزیں جو احکام اور دیگر دینی چیزوں کی تخصیص کرتی ہیں۔ یہ ایسے امور ہوتے ہیں جن میں قرآن کی کوئی نص موجود نہیں ہوتی اور اس کے اکثر حصہ کے بارے میں کوئی منصوص قول رسول بھی نہیں ہوتا، اگر کوئی ایسا قول رسول ہو بھی تو وہ اخبار خاصہ کی قبیل کا ہوتا ہے نہ کہ اخبار عامہ کی طرح کا۔ جو چیز اس طرح کی ہوتی ہے، وہ تاویل بھی قبول کرتی ہے اور قیاساً بھی معلوم کی جا سکتی ہے۔سائل نے سوال کیا کہ پہلی قسم کے علم کی طرح کیا اس علم کو جاننا بھی فرض نہیں ہے؟ یاپھر اگراس کا جاننا فرض نہیں ہے توکیا اس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس علم کا حصول ایک نفلی عمل ہے اور جو اسے اختیار نہیں کرتا ،وہ گناہ گار نہیں ہے؟ یا کوئی تیسری بات ہے جو آپ کسی خبر یا قیاس کی بنیاد پر واضح کرنا چاہیں گے؟میں نے کہا: ہاں، اس کا ایک تیسرا پہلو ہے۔اس نے کہا: اگر ایسا ہے تو پھر اس کے بارے میں بیان کیجیے اور اس کے ساتھ اس کی دلیل بھی واضح کیجیے کہ اس کے کون سے حصے کو جاننا لازم ہے اور کس پر لازم ہے اور کس پر لازم نہیں ہے؟میں نے بیان کیا کہ یہ علم کی وہ قسم ہے جس تک عامۃ الناس رسائی حاصل نہیں کر پاتے۔ تمام خواص بھی اس کے مکلف نہیں ہیں، تاہم جب خاصہ میں سے کچھ لوگ اس کا اہتمام کرلیں (تو کافی ہے البتہ) خاصہ کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ تمام کے تمام اس سے الگ ہو جائیں۔چنانچہ جب خواص میں سے بقدر کفایت لوگ اس کا التزام کرلیں تو باقی پر کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ اس کا التزام نہ کریں۔ البتہ التزام نہ کرنے والوں پر التزام کرنے والوں کی فضیلت، بہرحال قائم رہے گی ۔‘‘ (الرسالہ۳۵۹۔۳۶۰)
امام شافعی نے ’’کتاب الام‘‘ میں بھی اطلاقی پہلو سے اسی بات کو بیان کیا ہے:
’’ اور یہ جاننے کے لیے کہ خاص سنن( یعنی احادیث) کا علم تو صرف اس شخص کے ساتھ خاص ہے جس کے لیے اللہ عزوجل اپنے علم کے دروازے کھول دے نہ کہ وہ نماز اور دیگر تمام فرائض کی طرح مشہور ہے جن کے تمام لوگ مکلف ہیں۔‘‘ (۱/۱۶۷)
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اہل علم کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ منصبی ذمہ داری تھی کہ اصل اور اساسی دین آپ کے ذریعے سے بے کم و کاست اور پوری قطعیت کے ساتھ امت کو منتقل ہو۔ لہٰذا آپ نے اصل اوراساسی دین سے متعلق تمام امور کوصحابہ کو منتقل کیا اور اپنی براہ راست رہنمائی میں اس طرح رائج اور جاری و ساری کر دیا کہ اسے اجتماعی تعامل کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ آپ کے اس اہتمام کے بعد ان امور کا تعامل اورعملی تواتر سے نسل در نسل منتقل ہوتے چلے آنا لازم اور بدیہی امر تھا ۔لہٰذا ایسا ہی ہوا اور اصل اور اساسی دین کسی تغیر و تبدل اور کسی سہو و خطاکے بغیر نسلاً بعد نسلٍ امت کو منتقل ہوتا چلا گیا ۔ اصل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دین کو بے کم و کاست اور پوری قطعیت کے ساتھ منتقل کرنے کا مکلف ہونااس بات کو لازم کرتا ہے کہ اصل اور اساسی دین کوانتقال علم کے قطعی ذریعے اجماع و تواتر پر منحصر قرار دیا جائے۔اگر اسے اخبار آحاد پر منحصر مان لیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ نے انسانوں تک دین پہنچانے کی ذمہ داری کو نعوذ باللہ لوگوں کے انفرادی فیصلے پر چھوڑ دیا تھا کہ وہ چاہیں تو اسے آگے پہنچائیں اور چاہیں تو نہ پہنچائیں اور یاد رہے تو پوری بات بیان کر دیں، بھول جائیں تو ادھوری ہی پر اکتفا کر لیں۔ یہ ماننا ظاہر ہے کہ’ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ‘ اور’مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ‘ کے نصوص کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماے امت بجا طور پریہ تسلیم کرتے ہیں کہ اصل دین تواتر اور تعامل ہی سے نقل ہوا ہے اورخبار آحاد میں متواتر اور مجمع علیہ دین کے جزئیات اور فروعات ہی پائے جاتے ہیں۔اس بناپر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ فاضل ناقد اگر یہ تسلیم کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دین کو پورے اہتمام،پوری حفاظت اور پوری قطعیت کے ساتھ لوگوں تک پہنچانے کے مکلف تھے تو انھیں لازماً یہ ماننا پڑے گا کہ کوئی چیز ایسی نہیں ہو سکتی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دینی امر کے طور پر صحابہ میں عملاً جاری کی ہو اور وہ بعد میں اخبار آحاد پر منحصر رہ گئی ہو۔
جہاں تک فاضل ناقد کی اس بات کا تعلق ہے کہ تواتر، دین کے نقل کا ذریعہ ہے اور ذریعے کی بنیاد پر کسی چیز کے دین ہونے یا نہ ہونے میں فرق کرنا درست نہیں ہے تو اس میں توکوئی شبہ نہیں ہے کہ دین منتقل کرنے کا ذریعہ بذات خود دین نہیں ہوتا، لیکن اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ یہ ذریعہ ہی ہے جس کے قوی یا ضعیف ہونے کی بنا پر کسی چیز کے دین ہونے یا دین نہ ہونے کا فیصلہ ہوتا ہے۔دین کے ذرائع کی اہمیت اس قدرہے کہ خود خدا نے ایک جانب ان کی حفاظت کا غیر معمولی اہتمام کیا ہے اور دوسری جانب ان ذرائع پر اعتماد کو ایمان کا جزو لازم قرار دیا ہے۔ان میں سے ایک ذریعہ اللہ کے مقرب فرشتے جبریل علیہ السلام ہیں جنھیں قرآن نے صاحب قوت، مطاع اور امین اسی لیے کہا ہے کہ ان کی قوتوں اور صلاحیتوں کی بنا پر اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ کوئی دوسری قوت یا ارواح خبیثہ انھیں کسی بھی درجے میں متاثر یا مرعوب کر سکیں یا خیانت پر آمادہ کر لیں یا خود ان سے اس وحی میں کوئی اختلاط یا فروگزاشت ہو جائے۔ اس طرح کی تمام کمزوریوں سے اللہ تعالیٰ نے انھیں محفوظ کر رکھا ہے۔ محدثین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہونے والی روایتوں کو جب مختلف اقسام میں تقسیم کیا تو اصل میں ذریعے ہی کو بنیا د بنا کر تقسیم کیا۔ جس روایت میں انھیں یہ ذریعہ زیادہ قوی محسوس ہوا، اسے انھوں نے خبر متواتر قرار دیا۔ ذریعے ہی کے قوی ہونے کی بنا پر روایات کو صحیح اور حسن قرار دے کر مقبول اور لائق حجت قرار دیا گیا اور ذریعے ہی کے ضعف کی بنا پر انھیں ضعیف،معلق، مرسل، معضل،منقطع، مدلس،موضوع، متروک، منکر، معلل کہہ کر مردود قرار دیا گیا۔
ذریعے کی صحت اور عدم صحت اور قوت اور ضعف کی بنا پر کسی چیز کو دین ماننے یا نہ ماننے کا فیصلہ اگر اخبار آحاد کے ذخیرے میں کرناسراسر درست ہے تو دین کے پورے ذخیرے میں اس بنا پر فیصلہ کرنا کیسے غلط ہو سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انتقال علم کا ذریعہ ہی اصل میں یہ فیصلہ کرتا ہے کہ باعتبار نسبت کون سی بات قطعی ہے اور کون سی ظنی ہے۔ تعجب ہے کہ یہ بات بیان کرتے ہوئے فاضل ناقد نے اس حقیقت واقعہ کو کیسے نظر انداز کر دیا کہ اصل دین کا قطعی الثبوت ہونا ہی اسلام کا باقی مذاہب سے بنیادی امتیاز ہے، ورنہ اگر دین کے اصل اور اساسی احکام بھی اس طرح دیے گئے ہیں کہ ان کے ثبوت میں اختلاف اور بحث ونزاع کی گنجایش ہے تو پھر دوسرے مذاہب اور اسلام میں استناد کے لحاظ سے کوئی فرق ہی باقی نہیں رہتا۔
یہاں یہ واضح رہے کہ جب کوئی صاحب علم خبر واحد کے مقابلے میں قولی و عملی تواتر کو ترجیح دیتا ہے یا اخبار آحاد پر تواتر عملی کی برتری کا اظہار کرتا ہے یا قرآن کی کسی آیت کے مقابلے میں خبر واحد کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے یا مسلمات عقل و فطرت کی بنا پر کسی روایت کے بارے میں توقف کا فیصلہ کرتا ہے تو یہ کوتاہ فہمی ہے کہ اس کے بارے میں یہ حکم لگایا جائے کہ اس نے نعوذ باللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا انکارکرنے کی جسارت کی ہے۔ اس کی اس ترجیح، اس انکار، اس تردید اور اس توقف کے معنی صرف اور صرف یہ ہوتے ہیں کہ اس نے اس خبر واحد کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت کی صحت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔مزید براں اہل علم کے نزدیک کوئی روایت اگر سند کے اعتبار سے صحیح کے معیار پر پوری اترتی ہے تو اس کے یہ معنی ہر گز نہیں ہیں کہ وہ فی الواقع حدیث رسول ہے۔ اس کے معنی صرف اور صرف یہ ہیں کہ اس روایت کو حدیث رسول کے طور پر ظن غالب کی حیثیت سے قبول کرنے کی اہم شرائط میں سے ابتدائی شرط پوری ہو گئی ہے ۔ اس کے بعد انھیں یہ دیکھنا ہے کہ وہ روایت قرآن وسنت کے خلاف تو نہیں ہے، عقل و فطرت کے مسلمات سے متصادم تو نہیں ہے۔ اس زاویے سے روایت کو پرکھنے کے بعد فہم حدیث کے حوالے سے وہ یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ روایت کا مفہوم عربی زبان کے نظائر کی بنا پر اخذ کیا جائے، اسے قرآن مجید کی روشنی میں سمجھا جائے، اس کا مدعا و مصداق موقع و محل کے تناظر میں متعین کیا جائے اور موضوع سے متعلق دوسری روایتوں کو بھی زیرغور لایا جائے۔ یہ اور اس نوعیت کے دیگر پہلووں کا لحاظ کیے بغیر جلیل القدر اہل علم کسی روایت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کر دینے کو صحیح نہیں سمجھتے اور ان تمام پہلووں سے اطمینان حاصل کر لینے کے بعد بھی اسے علم قطعی کے دائرے میں نہیں، بلکہ علم ظنی ہی کے دائرے میں رکھتے ہیں۔ اہل علم یہ التزام اس لیے کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کسی مشتبہ بات کی روایت دنیا اور آخرت، دونوں میں نہایت سنگین نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔ تاہم، یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ ان تمام مراحل سے گزر کر یا گزرے بغیر اگر کوئی شخص کسی خبر واحد کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت پر مطمئن ہو جاتاہے تو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اسے دین کی حیثیت سے قبول کرے۔ اس کے بعد اس سے انحراف ایمان کے خلاف ہے۔چنانچہ جناب جاوید احمد غامدی نے بیان کیا ہے:
’’...(اخبار آحاد) قرآن و سنت میں محصور اِسی دین کی تفہیم و تبیین اور اِس پرعمل کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کابیان ہیں۔ حدیث کا دائرہ یہی ہے۔ چنانچہ دین کی حیثیت سے اِس دائرے سے باہر کی کوئی چیز نہ حدیث ہو سکتی ہے اور نہ محض حدیث کی بنیاد پر اُسے قبو ل کیا جا سکتا ہے۔
اِس دائرے کے اندر ، البتہ اِس کی حجت ہر اُس شخص پر قائم ہو جاتی ہے جو اِس کی صحت پر مطمئن ہو جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل یا تقریر و تصویب کی حیثیت سے اِسے قبول کر لیتا ہے ۔ اِس سے انحراف پھر اُس کے لیے جائز نہیں رہتا ، بلکہ ضروری ہو جاتا ہے کہ آپ کا کوئی حکم یا فیصلہ اگر اِس میں بیان کیا گیا ہے تو اُس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔‘‘ (میزان۱۵)
جہاں تک فاضل ناقد کی اس بات کا تعلق ہے کہ غامدی صاحب نے تواتر کی شرط عائد کر کے لوگوں کو دین کے شارع کی حیثیت دے دی ہے تو ہماری درج بالا وضاحت کے بعد فاضل ناقد امید ہے کہ اس سادہ حقیقت پر مطلع ہو گئے ہوں گے کہ تواتر فقط دین کے انتقال کا ایک ذریعہ ہے اور اسے بطور ذریعہ قبول کرنے کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ اسے شارع کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے یا اسے دین پر حاکم مان لیا گیا ہے، تاہم اگر فاضل ناقد کے نزدیک اصول یہ ہے کہ دین کے انتقال کے ذریعے کو تسلیم کرنا اس ذریعے کو شارع کی حیثیت دینے کے مترادف ہے تو پھر خود فاضل ناقد کا اپنا موقف بھی اس اصول کی زد میں آتا ہے اور لوگوں کو شارع قرار دینے کا جو الزام انھوں نے غامدی صاحب پر عائد کیا ہے، اس کے ملزم وہ خود بھی قرار پاتے ہیں۔ تفہیم مدعا کے لیے فاضل ناقد کا مندرجہ بالا پیرا گراف مکرر طور پر درج ذیل ہے ۔ ہم نے اس میں فاضل ناقد او ر ان کے معیار ثبوت کے بارے میں موقف کے حوالے سے فقط یہ ترمیم کی ہے کہ ’’غامدی صاحب‘‘ کے الفاظ کو ’’زبیر صاحب‘‘ کے الفاظ سے اور ’’تواتر عملی‘‘ کے الفاظ کو’’اخبار آحاد‘‘ کے الفاظ سے تبدیل کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں فاضل ناقد کے مذکورہ اصول کا ان کے اپنے موقف پر انطباق، خود انھی کے اسلوب بیان میں واضح ہوگیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
’’غامدی صاحب کے نزدیک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ عمل جو کہ تواتر عملی سے ہم تک پہنچاہو، سنت ہے، اور سنت دین ہے، گویا کہ ان کے نزدیک تواتر عملی سے ایک عمل دین بن جاتا ہے اوراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک دوسراعمل جو تواتر عملی سے منقول نہ ہو بلکہ خبر واحد سے مروی ہو،وہ دین نہیں ہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل کے دین بننے میں اصل حیثیت تواتر عملی کی ہے۔گویایہ تواتر عملی ہی ہے جو کہ آپ کے کسی عمل کو دین بنا دیتا ہے اور کسی دوسرے عمل کو دین نہیں بناتا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جب آپؐ کے کسی عمل کے دین بننے کے لیے اصل معیار تواتر عملی ٹھہرا تو معاذ اللہ تواتر عملی کی حیثیت آپؐ سے بڑھ کر ہو گئی جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اعمال کو دین بنا دیتا ہے اور بعض کو دین نہیں بناتا، نتیجتاً اصل شارع تولوگ ہوئے ،نہ کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جس عمل کو لوگوں نے تواتر سے نقل کر دیا وہ دین بن گیا اور جس عمل کو تواتر سے نقل نہ کیا وہ دین نہ بن سکا،یعنی اصل حیثیت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کی نہیں ہے بلکہ اصل حیثیت لوگوں کے آپؐ کے اعمال پر عمل کی ہے ۔آپؐ کے جس عمل پر لوگوں نے تواتر سے عمل کیا ہے، وہ دین ہے اور جس پر تواترسے عمل نہیں کیا، وہ دین نہیں ہے۔‘‘
’’زبیر صاحب کے نزدیک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ قول و فعل جو اخبار آحاد سے ہم تک پہنچاہو، وہ سنت ہے، اور سنت دین ہے، گویا کہ ان کے نزدیک اخبار آحاد سے ایک عمل دین بن جاتا ہے اوراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک دوسراعمل جو اخبار آحاد سے منقول نہ ہو بلکہ تواتر عملی سے منقول ہو،وہ دین نہیں ہے۔ زبیر صاحب کے نزدیک اللہ کے رسول صلی اللہعلیہ وسلم کے کسی عمل کے دین بننے میں اصل حیثیت اخبار آحاد کی ہے۔گویایہ اخبار آحاد ہی ہیں جو کہ آپ کے کسی عمل کو دین بنا دیتے ہیں اور کسی دوسرے عمل کو دین نہیں بناتے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جب آپؐ کے کسی عمل کے دین بننے کے لیے اصل معیار اخبار آحاد ٹھہرے تو معاذ اللہ اخبار آحاد کی حیثیت آپؐ سے بڑھ کر ہو گئی جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اعمال کو دین بنا دیتے ہیں اور بعض کو دین نہیں بناتے۔ نتیجتاً اصل شارع توراوی ہوئے، نہ کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جس عمل کو راویوں نے اخبار آحاد سے نقل کر دیا، وہ دین بن گیا اور جس عمل کو اخبار آحاد سے نقل نہ کیا، وہ دین نہ بن سکا،یعنی اصل حیثیت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کی نہیں ہے بلکہ اصل حیثیت لوگوں کے آپؐ کے اعمال کی خبر کی ہے ۔آپؐ کے جس عمل کو آحاد راویوں نے نقل کیا ہے، وہ دین ہے اور جس کو نقل نہیں کیا، وہ دین نہیں ہے۔‘‘
تواتر اور خبر واحد
فاضل ناقد نے دوسرا اعتراض یہ کیا ہے کہ غامدی صاحب سنت کے ثبوت کا معیار تواتر عملی کو قرار دیتے ہیں، جبکہ تواتر کا ثبوت بذات خود خبر کا محتاج ہے۔ امت کی صدیوں پر محیط تاریخ میں کسی عمل پر تواتر سے تعامل کی حقیقت کو جاننے کا واحد ذریعہ خبر ہے۔ اگر مجرد طور پر تواتر عملی ہی کو ذریعۂ انتقال مان لیا جائے تودینی اعمال اور بدعات میں تفریق کرنی مشکل ہو جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح دین کے اصل اعمال نسل در نسل تواتر عملی سے منتقل ہوئے ہیں، اسی طرح بدعات بھی دینی اعمال کی حیثیت سے نسلاً بعد نسلٍ تواتر عملی ہی سے منتقل ہوئی ہیں۔ چنانچہ دینی اعمال کو بدعات سے ممیز کرنے کے لیے لازماً اخبار کے ذخیرے ہی کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ (فکر غامدی ۶۱)
ہمارے نزدیک فاضل ناقد کی یہ بات بالکل سطحی ہے اور انتقال علم کے ذرائع سے ناواقفیت پر مبنی ہے۔ ماضی کا تواتر اپنے ثبوت کے لیے تاریخی ریکارڈ کا محتاج ہوتا ہے نہ کہ حدثنا واخبرنا کے ساتھ کسی کتاب میں لکھی ہوئی خبر واحد کا۔ تاریخی ریکارڈ سے مراد کتب حدیث میں مدون روایات کے علاوہ ہر دور کے علما وفقہا کی تصنیفات، تاریخ وادب کی کتب اور مختلف دینی علوم وفنون کے مباحث میں محفوظ وہ ذخیرہ ہے جو پوری قطعیت کے ساتھ واضح کر دیتا ہے کہ کون سی چیز متواتر ہے اور کون سی متواتر نہیں ہے،کون سا عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک متصل ہے اور کون سا بعد کی پیداوار ہے، کس بات پر علماے امت متفق رہے ہیں اور کس پر ان کے مابین اختلاف ہوا ہے۔
تواتر کے ذریعے سے کیسے دین منتقل ہوا ہے ، اہل علم نے مختلف مسائل کے حوالے سے اسے جا بجا واضح کیا ہے۔امام شافعی کی درج ذیل عبارت سے واضح ہے کہ وہ عموم بلویٰ کی نوعیت کے احکام میں تواتر و تعامل ہی کو اصل معیار ثبوت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ تدفین کے احکام ان کے نزدیک ہمیں خبر سے معلوم نہیں ہوئے، بلکہ عامہ کی عامہ کو روایت ہی کے ذریعے سے معلوم ہوئے ہیں:
’’مردوں کے احکام اور ان کو قبر میں داخل کرنے کے احکام ہمارے ہاں کثرت اموات، ائمہ اور ثقہ لوگوں کی موجودگی کی وجہ سے مشہور ہیں۔ یہ ان احکام میں سے ہیں جن کے بارے میں گفتگو کرنا ضروری نہیں ہے۔ ان کے بارے میں گفتگو کرنا ایسے ہی ہے، جیسے لوگوں کو اس بات کا مکلف کرنا کہ وہ اس کی معرفت حاصل کریں، حالاں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، مہاجرین اور انصار کی زندگیاں ہمارے سامنے ہیں۔ عامہ عامہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اس بات میں اختلاف نہیں کرتے تھے کہ میت کو سرہانے کی طرف سے پکڑ کر کھینچ لیا جائے، پھر کوئی شخص کسی دوسرے شہر سے آکر ہمیں سکھاتا ہے کہ میت کو قبر میں کیسے داخل کریں۔‘‘ (الام ۱/۳۰۰۔۳۰۱)
دین کے ایک اہم رکن نماز جمعہ کے بارے میں شاہ ولی اللہ نے یہ تصریح کی ہے کہ اس کے لیے جماعت اور شہریت کا شرط لازم ہونا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے لفظاً منقول نہیں ہے۔ امت نے یہ بات آپ کے عمل سے براہ راست اخذ کی ہے:
’’امت کو یہ بات معناً پہنچی ہے نہ کہ لفظاً کہ نماز جمعہ میں جماعت اور شہریت شرط ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے خلفا رضی اللہ عنہم اور ائمۂ مجتہدین رحمہم اللہ تعالیٰ شہروں میں جمعہ کراتے تھے اور اس بنا پر دیہاتیوں کا مواخذہ نہیں کرتے تھے۔ وہ اپنے عہد میں کسی دیہات میں اس کا اہتمام نہیں کرتے تھے۔ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ جمعہ کے لیے جماعت اور شہریت شرط ہے۔‘‘ (حجۃ اللہ البالغہ۲/۵۴)
علامہ انور شاہ کشمیری نے اسی پہلو کو ایک دوسرے زاویے سے بیان کیا ہے۔ ان کے نزدیک اگر کوئی حکم عملی طور پر ثابت ہو اور اس کا مصداق پوری طرح واضح ہو تو اسی کو سنت ثابتہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ رفع یدین کی مثال سے انھوں نے واضح کیا ہے کہ قیام میں رفع یدین کے وجوب یا عدم وجوب کا انحصار اسناد پر نہیں، بلکہ تعامل پر ہے۔ لکھتے ہیں:
’’جس حکم کا مصداق کثرت عمل کے باوجود خارج میں معلوم نہ ہو، وہ محض تعبیری وہم ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس کے برعکس جب کسی حکم میں عمل خارج میں ثابت ہو اور اس کا مصداق واضح ہو تو وہ سنت ثابتہ ہے، اس کا رد اور نفی کرنا کسی سے ممکن نہیں، چاہے اس کے لییاپنے پیادہ و رسالہ کو لے آئے۔ چنانچہ جس طرح رفع یدین کی مطلقاً نفی کسی کے لیے ممکن نہیں، اسی طرح خارج میں عمل کا اثبات کیے بغیر محض الفاظ پیش نظر رکھتے ہوئے (رکوع و) قومہ میں رفع یدین کے تعدد کو ثابت کرنا بھی ناممکن ہے۔توارث اور تعامل (یعنی نسل در نسل عمل کرنا) دین کا بڑا حصہ ہیں۔ میں ان میں سے اکثر کو دیکھ چکا ہوں کہ وہ اسانید کی تو پیروی کرتے ہیں، لیکن تعامل سے غفلت برتتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو میں ان میں سے کسی کو رفع یدین کو ترک کرنے کا منکر نہ پاتا۔‘‘ (فیض الباری۱/۳۲۰)
فاضل ناقد نے غامدی صاحب کے اس موقف کی تردید کے لیے کہ سنت اجماع اور تواتر عملی سے منتقل ہوتی ہے اور اس کے مقابل میں اپنی اس راے کی تائید کے لیے کہ تواتر عملی کا اثبات اخبار آحاد کے بغیر ممکن نہیں ہے، نماز کی مثال کودلیل کے طور پر پیش کیا ہے ۔ انھوں نے یہ بیان کیا ہے کہ غامدی صاحب کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ نماز تواتر عملی کے ذریعے سے ملی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز کے اعمال کے بارے میں فقہا کے مابین ہمیشہ سے اختلافات موجود رہے ہیں۔ان اختلافی مباحث میں وہ اپنی آرا کے دلائل کے طور پر تواتر کو نہیں، بلکہ اخبار آحاد ہی کو پیش کرتے ہیں۔ اس سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک اصل دلیل کی حیثیت خبر واحد کو حاصل ہے، نہ کہ تواتر کو۔ (فکرغامدی۶۲۔۶۳)
فاضل ناقد کی یہ بات فقہا کے کام کے صحیح فہم پر مبنی نہیں ہے۔ یہ بات سراسر غلط ہے کہ علماے امت اصل اور اساسی معاملات میں تواتر کے بجاے خبر واحد کو ترجیح دیتے ہیں۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ علما کی اکثریت اصل دین کے بارے میں اخبار آحاد پر انحصار کی قائل نہیں ہے، البتہ جزئیات اور فروعات میں اس پر انحصار کیا جا سکتا ہے۔یعنی ایسا ہر گز نہیں ہے کہ وہ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، قربانی اور دیگر سنن اور ان کی بنیادی تفصیلات کو حدثنا اور اخبرنا کے طریقے پر نقل کی گئی روایات کی بنا پر ثابت مانتے ہیں۔ ان کے ثبوت کا معیار ان کے نزدیک سرتاسر اجماع اور تواتر و تعامل ہی ہے۔ تاہم، اس ضمن میں بعض نہایت جزوی اور فروعی معاملات میں ان کے مابین اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ اختلافات جہاں تاویل، قیاس اور اجتہاد کی مختلف جہتوں کی بنا پر قائم ہوئے ہیں، وہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے نقل ہونے والے اخبار آحاد کی بنا پر بھی قائم ہوئے ہیں۔چنانچہ فاضل ناقداگر غامدی صاحب کی محققہ سنن کی فہرست کو سامنے رکھیں اور ان میں سے ایک ایک چیز کو لے کر اس کے بارے میں علما و فقہا کی آرا کا جائزہ لیں تو ان پر یہ بات ہر لحاظ سے واضح ہو جائے گی کہ ان میں بنیادی طور پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ زکوٰۃ کی نوعیت، اس کی شروح اور حد نصاب میں کوئی اختلاف نہیں ہے،صدقۂ فطر میں کوئی اختلاف نہیں ہے، روزہ و اعتکاف کی شریعت میں کوئی اختلاف نہیں ہے، حج و عمرہ کے مناسک میں کوئی اختلاف نہیں ہے،قربانی اور ایام تشریق کی تکبیروں کے حوالے سے کوئی اختلاف نہیں ہے،عید الفطر اور عید الاضحی میں کوئی اختلاف نہیں ہے، نکاح و طلاق اور ان کے حدود و قیود میں کوئی اختلاف نہیں ہے، حیض و نفاس میں زن و شو کے تعلق سے اجتناب پر کوئی اختلاف نہیں ہے، سؤر ، خون ، مردار اور خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور کی حرمت کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، اللہ کا نام لے کر جانوروں کا تذکیہ کرنے کے مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، اللہ کا نام لے کر اور دائیں ہاتھ سے کھانے پینے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، ملاقات کے موقع پر ’السلام علیکم‘ کہنے اور اس کا جواب دینے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، چھینک آنے پر ’الحمدللہ ‘اور اس کے جواب میں ’یرحمک اللہ ‘ کہنے پر کوئی اختلاف نہیں ہے، لڑکوں کا ختنہ کرنے میں کوئی اختلاف نہیں ہے،میت کو غسل دینے، اس کی تجہیز و تکفین اورتدفین میں کوئی اختلاف نہیں ہے، مونچھیں پست رکھنے ،زیر ناف کے بال کاٹنے، بغل کے بال صاف کرنے، بڑھے ہوئے ناخن کاٹنے، ناک ،منہ اور دانتوں کی صفائی کرنے،استنجا کرنے، حیض و نفاس اور جنابت کے بعد غسل کرنے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
چند جزوی چیزیں ہیں جن میں بعض فقہا اخبار آحاد کی بنا پر اختلاف کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک چیز مثال کے طور پر یہ ہے کہ رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد، تیسری رکعت سے اٹھتے ہوئے اور سجدے میں جاتے اور اس سے اٹھتے ہوئے رفع یدین کیا جائے۔اسی طرح ایک چیز یہ ہے کہ امام کے پیچھے تلاوت دہرائی جائے یا خاموشی سے سنا جائے۔ قیام میں ہاتھ ناف سے ذرا اوپر باندھے جائیں یا لازماً سینے ہی پر باندھے جائیں۔نماز میں قراء ت بسم اللہ سے شروع کی جائے یا اس کے بغیر شروع کی جائے۔سفر میں قصر نماز فرض ہے یا اختیاری ہے،جمع بین الصلاتین میں تقدیم کا طریقہ اختیار کیا جائے یا تاخیر کا ۔نمازی کے آگے گزرنے سے نماز قطع ہو گی یا نہیں۔ یہ اور اس نوعیت کے بعض فروعی مسائل کے بارے میں علما کے مابین اختلافات مذکور ہیں۔ یہ اختلافات زیادہ تر اخبار آحاد میں مسائل کے تنوع اور ان کی مختلف تعبیرات اور علما کے ہاں ان کی تاویلات میں اختلاف پر مبنی ہیں ۔ ان کی حیثیت فروعی ہے اور ان سے نہ تواتر پر کوئی حرف آتا ہے اور نہ ان سنن کے سنن ہونے میں کوئی تغیر واقع ہوتا ہے۔ امام حمید الدین فراہی نے اپنے مقدمۂ تفسیر میں اسی بات کو واضح کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’اسی طرح تمام اصطلاحات شرعیہ مثلاً نماز، زکوٰۃ، جہاد، روزہ، حج، مسجد حرام، صفا، مروہ اور مناسک حج وغیرہ اور ان سے جو اعمال متعلق ہیں تواتر و توارث کے ساتھ سلف سے لے کر خلف تک سب محفوظ رہے۔ اس میں جو معمولی جزوی اختلافات ہیں، وہ بالکل ناقابل لحاظ ہیں۔ شیر کے معنی سب کو معلوم ہیں اگرچہ مختلف ممالک کے شیروں کی شکلوں صورتوں میں کچھ نہ کچھ فرق ہے۔ اسی طرح جو نماز مطلوب ہے، وہی نماز ہے جو مسلمان پڑھتے ہیں، ہر چند کہ اس کی صورت و ہیئت میں بعض جزوی اختلافات ہیں۔‘‘ (تدبر قرآن۱/۲۹)
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے موقف پرجب ایک صاحب نے وہی اعتراض کیا جو فاضل ناقد نے نماز کے حوالے سے کیا ہے تو انھوں نے یہی بات بیان کی:
’’ نماز کے جتنے اہم اجزاء ترکیبی ہیں ان سب میں تمام زبانی روایات متفق ہیں اور عہدرسالت سے آج تک ان کے مطابق عمل بھی ہو رہا ہے۔ اب رہے جزئیات مثلاً رفع یدین اور وضع یدین وغیرہ تو ان کا اختلاف یہ معنی نہیں رکھتا کہ نماز کے متعلق تمام روایات غلط ہیں بلکہ دراصل یہ اختلاف اس امر کا پتا دیتا ہے کہ مختلف لوگوں نے مختلف اوقات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مختلف دیکھا۔ چونکہ یہ امور نماز میں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے، اور ان میں سے کسی کے کرنے یا نہ کرنے سے نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا، اور حضور خود صاحب شریعت تھے اس لیے آپ جس وقت جیسا چاہتے تھے عمل فرماتے تھے۔ ....یہ اختلاف کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور یہ ہرگز اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقۂ ادائے نماز کے متعلق سرے سے کوئی قولی و فعلی تواتر ہی نہیں پایا جاتا۔‘‘(تفہیمات ۱/۳۷۶۔۳۷۷)
اس تفصیل سے واضح ہے کہ نماز کے معاملے میں فقہا کے مابین پایا جانے والا سارا اختلاف فروع اور جزئیات میں ہے نہ کہ نماز کے ا صل اور اساسی ڈھانچے میں جس کو غامدی صاحب سنت سے تعبیرکرتے ہیں۔ چنانچہ فاضل ناقد اگر غامدی صاحب کی کتاب ’’میزان‘‘ کے باب ’’قانون عبادات‘‘ کا ملاحظہ کریں تو ان پر یہ بات واضح ہو گی کہ انھوں نے نماز کے متفقہ اور متواتر اعمال واذکار کو سنت کے عنوان سے الگ ذکر کیا ہے اور اخبار آحاد سے مروی اسوۂ حسنہ کو اس کی فرع کے طور پر الگ نقل کیا ہے۔
(جاری)