اسلام اور سیاست

جدید ریاست، حاکمیت اعلیٰ (ساورنٹی) اور شریعت

محمد دین جوہر

افکارِ جدیدیت کے تحت نیچر اور انسانی زندگی کے ہر ہر پہلو کو بالکل نئے انداز میں سوچا اور پھر عمل میں لایا گیا ہے، اور اس طرح سامنے آنے والی سوچ اور عمل کا ماقبل جدیدیت کی اوضاعِ فکر اور زندگی سے قریب یا دور کا کوئی تعلق یا نسبت نہیں ہے۔ جدیدیت کے ذیل اور ضمن میں آنے والی تبدیلیوں کا بہت بڑا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دنیا اب کسی بھی معنی میں بدیہی نہیں رہی۔ دنیا کی تمام نئی تشکیلات جدیدیت کے نظری وسائل سے تخلیق کی گئی ہیں اور ان تک عقلی رسائی کے بغیر قابلِ فہم نہیں ہیں۔ عین یہی امر مسلم شعور کے لیے حیرت انگیز اور ناقابل فہم ہے، اور ماقبل جدیدیت دنیا...

ریاستی نظام کی تنقید کے مروجہ رجحانات

محمد عمار خان ناصر

نظام حکمرانی کی تنقید کے حوالے سے ہمارے ہاں مختلف زاویے اور بیانیے موجود ہیں۔ ہمارا مجموعی تاثر یہ ہے کہ ہمارا، سیاسی تنقید کا غالب پیرایہ زمینی سیاسی حقیقتوں سے قطعی طور پر غیر متعلق ہے اور اس کی وجہ تنقید کے صحیح اور متعلق (relevant) فکری وسائل کی کم یابی یا نایابی ہے۔ اس وقت سیاسی تنقید کے جو اسالیب کسی نہ کسی سطح پر ذرائع ابلاغ میں دستیاب ہیں، انھیں ہم حسب ذیل مختلف درجوں میں تقسیم کر سکتے...

سیاست شرعیہ کا مفہوم، نوعیت اور اہمیت

محمد عمار خان ناصر

مسلم تہذیب کی تشکیل وتعمیر میں دینی نقطہ نظر سے تین چیزوں کا کردار رہا ہے اور ان تینوں کی اپنی الگ اہمیت ہے۔ ان میں سے کسی بھی چیز کو دوسری کا متبادل نہیں کہا جا سکتا۔ یہ تین چیزیں یہ ہیں: ۱۔ شریعت ۲۔ سیاست شرعیہ ۳۔ فقہ۔ ہماری بحثوں میں سارا ارتکاز شریعت اور فقہ پر رہتا ہے، سیاست شرعیہ ایک مستقل موضوع کے طور پر زیرغور نہیں آتی۔ اس کو فقہ کا حصہ سمجھنا یا اس کے اندر ضم کر دینا غلط ہے، اس لیے کہ یہ اپنے اصول اور حدود اور دائرہ کار کے لحاظ سے فقہ سے بہت مختلف ہے۔ فقہ بنیادی طور پر جزئی سوالات میں شرعی حکم اجتہاداً‌ طے کرنے کا عمل ہے جو فقیہ کا وظیفہ...

آئین، اسلام اور بنیادی حقوق

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

ہمارے آئین کی بنیاد اس اعتراف اور تصدیق پر رکھی گئی ہے کہ پوری کائنات پر اقتدار اعلی اللہ تعالیٰ کا ہے اور اختیارات کا استعمال ایک مقدس امانت ہے؛ اور ریاستی طاقت اور اختیار کا استعمال عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے کیا جائے گا۔ آئین کا دیباچہ مزید یہ کہتا ہے کہ ریاستِ پاکستان میں جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری، برداشت اور سماجی انصاف کا اطلاق اسلامی اصولوں کے مطابق ہوگا۔ اسی طرح اس میں کہا گیا ہے کہ اقلیتوں کو اپنے مذاہب کی پیروی کرنے، ان پر عمل کرنے اور اپنی ثقافتوں کی ترویج کےلیے مناسب مواقع دیے جائیں گے۔ آئین 280 دفعات پر مشتمل ہے مگر...

اسلامی سیاسی فکر ۔ جدید اسلامی فکر کے تناظر میں

ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

عصر حاضر میں جس طرح قرآن ،حدیث فقہ جیسے خالص اسلامی علوم پر زبردست کام ہواہے۔ اوربیش بہاتحقیقات منظرعام پر آئی ہیں ۔اسی طرح علوم اسلامیہ کے دوسرے میدانوں میں بھی علماء اورارباب فکرونظرنے بہترین کاوشیں کی ہیں۔چنانچہ اسلام کی سیاسی فکرپر بھی بہت کچھ لکھاگیاہے فقہ وافتاء کے مباحث اورفتاوی کے ضمن میں بھی سیاسی مباحث سے تعرض کیاگیاہے(1) اورخاص اسلامی سیاست پر لکھی گئی تحریروں میں بھی۔بعض اصحاب فکرنے قدماء کی کئی رایوں سے اختلاف کا اظہاربھی کیاہے اوربعض نے اکثروبیشتران کے خیالات کی ترجمانی پر اکتفاکیاہے بعض نے ان پر کچھ اضافے بھی کیے ہیں ۔اس...

معاصر مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کا مسئلہ (پہلی مجلس مذاکرہ)

ادارہ

(پاکستان مرکز برائے مطالعات امن (PIPS) اسلام آباد کے زیر اہتمام مجالس مذاکرہ کی روداد)۔ قابل بحث نکات۔ الف۔ خروج کا جواز وعدم جواز۔ ۱۔ ریاست کے تمام شہری ایک معاہدے کے تحت اس کے پابند ہوتے ہیں کہ نظم حکومت کے خلاف کوئی مسلح اقدام نہ کریں۔ کیا معاہدے کی یہ پابندی ہر حالت میں ضروری ہے یا اس میں کوئی استثنا بھی پایا جاتا ہے؟ ۲۔ اگر بعض اسباب اور وجوہ سے پابندی لازم نہیں رہتی تو وہ کون سے حالات ہیں؟ کیا اپنے دفاع کی خاطر یا حکمرانوں کو شریعت نافذ کرنے پر یا قومی مصالح کے خلاف اختیار کردہ پالیسیاں بدلنے پر مجبور کرنے کے لیے یا غیر اسلامی نظام حکومت...

معاصر مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کا مسئلہ (دوسری مجلس مذاکرہ)

ادارہ

(پاکستان مرکز برائے مطالعات امن (PIPS) اسلام آباد کے زیر اہتمام مجالس مذاکرہ کی روداد)۔ خروج کے جواز کے حق میں اہم استدلالات: اصولی طور پر: ۱۔خروج کی ممانعت کا تعلق یا تو عادل حکمرانوں سے ہے یا ایسے حکمرانوں سے جو اپنی ذاتی حیثیت میں ظلم وجبر اور فسق کے مرتکب ہوں، لیکن ریاست کا نظام بحیثیت مجموعی شریعت پر مبنی ہو اور ریاست کے دیگر تمام ادارے شرعی نظام کے مطابق کام کر رہے ہوں۔ اگر نظام ریاست کفر پر مبنی ہو یا کفریہ قوانین کو تحفظ دیتا ہو یا شرعی قوانین کی عمل داری میں رکاوٹیں کھڑی کرتا ہو تو اس صورت سے ممانعتِ خروج کی احادیث بالکل غیر متعلق ہیں۔...

معاصر مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کا مسئلہ (تیسری مجلس مذاکرہ)

ادارہ

(پاکستان مرکز برائے مطالعات امن (PIPS) اسلام آباد کے زیر اہتمام مجالس مذاکرہ کی روداد)۔ ڈاکٹر خالد مسعود (میزبان، سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل)۔ اس سے پہلے کہ ہم گفتگو شروع کریں، میں یہ شیئر کرنا چاہتا ہوں کہ میں اس مسئلے کو کیسے دیکھتا ہوں۔ تکفیر اور خروج دو مختلف مسائل ہیں، لیکن دونوں کی نزاکت اور اہمیت جو ہے، وہ دینی سے زیادہ سیاسی ہے اور اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی طورپر ایسے کہ یہ سیاسی نظام کی ساخت میں کبھی شامل ہو جاتی ہے اور کبھی شامل سمجھی جاتی ہے اور دوسرا یہ کہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ ہمارا اس نشست میں یہ کام...

عصر حاضر میں خروج کا جواز اور شبہات کا جائزہ

محمد زاہد صدیق مغل

چند روز قبل ایک این جی او کی طرف سے راقم الحروف کو مکالمہ بعنوان ’’عصر حاضر میں تکفیر و خروج‘‘ کے موضوع پر شرکت کی دعوت دی گئی جس میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام نے شرکت فرمائی۔ چند وجوہات کی بناء پر راقم مکمل پروگرام میں شرکت نہ کرسکا، البتہ پروگرام کی ریکارڈنگ کے ذریعے شرکائے گفتگو کا مقدمہ اور ان کے دلائل سننے کا موقع ملا۔ پوری نشست کا خلاصہ یہ ہے کہ تقریباً تمام ہی شرکائے محفل نہ صرف یہ کہ عصر حاضر میں مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کے اصولی عدم جواز پر متفق ہیں بلکہ قریب قریب ان کا یہ نظریہ ایک آفاقی قضیہ بھی ہے، یعنی ماسوا کفر بواح خروج...

غلط نظام میں شرکت کی بنا پر تکفیر کا مسئلہ ۔ خطے کے موجودہ حالات کے تناظر میں

مولانا مفتی محمد زاہد

خروج اور تکفیر کے حوالے سے علمائے امت میں ہمیشہ سے کئی ایشوز زیر بحث رہے ہیں۔ آج کل کے حالات کے تناظر میں بالخصوص ہمارے خطے کے تناظرمیں جوسب سے اہم سوال ہے وہ یہ ہے کہ ایک طبقے کے خیال میں پاکستان جیسے ملک نہ تودارالاسلام ہیں اورنہ اسلامی ریاست کہلانے کے قابل ۔اس طرح کے ملکوں کے نظام کفریہ ہیں،اس لئے ان میں حصہ لینے والے، ان کے مدداگار بننے والے ،یا ان کی حفاظت کرنے والے سب کے سب کفریہ نظام کاحصہ ہیں ،اس لئے وہ بھی کافرہیں۔ایک سوچ یہ بھی موجود ہے کہ ایسے لوگ واجب القتل ہیں ۔چنانچہ ایسے خاص طبقے کے لٹریچر میں پاکستان اورافغانستان کے ریاستی...

خروج ۔ کلاسیکل اور معاصر موقف کا تجزیہ، فکر اقبال کے تناظر میں

محمد عمار خان ناصر

ریاست و حکومت سے متعلق عصری مسائل پر غور کرتے ہوئے فکر اقبال کے تناظر میں ’’خروج‘‘ کے موضوع کو زیر بحث لانا بظاہر عجیب دکھائی دیتا ہے، اس لیے کہ ’’خروج‘‘ کی بحث بنیادی طور پر ایک فروعی اور اطلاقی فقہی بحث ہے جبکہ اس نوعیت کی بحثیں عام طور پر اقبال کے غور وفکر کے موضوعات میں داخل نہیں۔ تاہم ذرا گہرائی سے موضوع کا جائزہ لیا جائے تو اس بحث کے ضمن میں فکر اقبال کی relevance اور اہمیت بہت نمایاں ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ فقہ اسلامی میں ’خروج‘ کی اصطلاح اس مفہوم کے لیے بولی جاتی ہے کہ مسلمانوں کی ریاست میں بسنے والا کوئی گروہ اپنے کسی مذہبی تصور کی...

اسلام کا نظام خلافت اور دور حاضر میں اس کا قیام ۔ اذان ٹی وی کے سوال نامہ کے جوابات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

سوال نمبر۱: اسلامی نظام اور خلافت کیا ہے؟ جواب: قرآن و سنت میں انسانی زندگی کے انفرادی، خاندانی، معاشرتی، قومی او ر بین الاقوامی مسائل کے بارے میں جو ہدایات و احکام موجود ہیں، ان کا مجموعہ اسلامی نظام ہے اور ان کے عملی نفاذ کا سسٹم خلافت کہلاتا ہے۔ سوال نمبر ۲: اسلامی نظام کے نفاذ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جواب: قرآن و سنت کے تمام احکام و قوانین ایک مسلمان کے لیے واجب الاتباع ہیں اور ان میں شخصی، خاندانی یا معاشرتی قوانین کی تفریق نہیں ہے، اس لیے جس طرح ایک مسلمان شخص کے لیے نماز، روزہ اور عبادات کے احکام پر عمل کرنا ضروری ہے ، اسی طرح مسلمان سوسائٹی...

مثالی حکمران کے اوصاف اسوۂ فاروقی کی روشنی میں

مولانا مشتاق احمد

آزادئ فکر، آزادئ اظہار، قانون کی بالادستی، خود احتسابی، عدل وانصاف، قومی خزانہ کی حفاظت، خوشامدیوں سے دوری، ہدیہ قبول کرنے سے انکار، سادگی، خوف خدا، اچھے رفقا کی عہدوں پر تقرری، اصول مساوات، عوام کی تنقید کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا ایک اچھے مسلمان حکمران کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ اسلامی تاریخ کے نامور حکمران خلیفہ راشد حضرت سیدنا عمربن خطابؓ ان تمام مذکورہ اوصاف سے متصف تھے۔ ذیل میں ان کے زمانہ خلافت کی چند جھلکیاں پیش کی جاتی ہیں۔ یہ واقعات سید عمر تلسانی کی کتاب’’عمر بن الخطاب‘‘ کے اردو ترجمہ اور علامہ شبلی نعمانی کی ’’الفاروق‘‘...

اسلامی حکومت کا فلاحی تصور

پروفیسر میاں انعام الرحمن

سرد جنگ میں سرمایہ دارانہ بلاک کی فتح کے بعد اشتراکیت کے توسط سے آنے والے فلاحی تصور کی بنیادیں کھوکھلی ہونی شروع ہو گئی ہیں۔ اب ایک طرف دنیا بھر میں قومی اداروں کی نج کاری سے بے روزگاری میں شدت سے اضافہ ہو رہا ہے، امریکہ میں سوشل سکیورٹی سسٹم بحران کی طرف بڑھ رہا ہے اور دوسری طرف سیکولر ازم اور جمہوریت کی توسیع کے لیے اسی نوعیت کے تشدد اور عدم رواداری کو بروئے کار لایا جارہا ہے جس کے خاتمے کے لیے ہی مذہبیت کے بالمقابل سیکولر ازم اور بادشاہت کے مقابلے میں جمہوریت کے تصور ات پروان چڑھے تھے۔ تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیے! اب سیکولر عدم رواداری اور...

اسلامی ریاست کے خارجہ تعلقات کی اساس ۔ فقہی نظریات کا ایک تقابلی جائزہ

جنید احمد ہاشمی

غیر مسلم ریاستوں کے ساتھ اسلامی ریاست کے تعلقات کے احکام پر مشتمل مواد کو ہمارے فقہی لٹریچر میں ’’سِیَر‘‘ کے عنوان کے تحت بیان کیا گیا ہے۔ جدید اصطلاح میں اسے ’’الفقہ الدولی‘‘ یا اسلامی قانون بین الاقوام (International Law) کہا جاتا ہے۔ غیر مسلم ریاستوں کے ساتھ اسلامی ریاست کے تعلقات کی بنیاد امن ہے یا جنگ؟ آئندہ سطور میں اس سوال کا جواب ’’سیر‘‘ یا اسلامی قانون بین الاقوام کے جدید رجحانات کے تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پہلا نقطہ نظر۔ جمہور فقہا نے، جن میں احناف کو امتیازی حیثیت حاصل ہے، غیر مسلموں کے ساتھ اسلامی ریاست کے تعلقات کی...

اسمبلیوں میں ’اسلام‘ کی نمائندگی

قاضی عبد الحلیم حقانی

’الشریعہ‘ گوجرانوالہ وہ واحد پرچہ ہے جس کا میں باقاعدہ خریدار ہوں ورنہ عام مولویوں کی طرح میرا بھی دینی پرچوں کے معاملے میں مفت خوری کا ذوق ہے جو واقعۃً کسی طرح بھی درست نہیں کہ دین کے پرچے جب دین کے نام پر کھانے والے کمانے والے نہ خریدیں تو کون خریدے؟ ہاں ’الشریعہ‘ کا میں بھی آسانی سے خریدار نہیں بن سکا۔ ’الشریعہ‘ کے مدیر اعلیٰ کا بعض ضروری تحفظات کے ساتھ ابتدا سے میں مداح اور قائل ہوں۔ شاید اس کا اثر ہو کہ ایک دفعہ ’الشریعہ‘ کے مدیر اعلیٰ زاہد الراشدی صاحب نے خواب میں مجھے بے تکلفی سے کہا کہ نکالو صد روپیہ ’الشریعہ‘ کے چندہ کا۔ اتفاق...

علما اور عملی سیاست

خورشید احمد ندیم

کیا علما کو عملی سیاست میں حصہ لینا چاہیے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرتے وقت دو باتیں پیش نظر رہنا چاہییں۔ ایک تو یہ ہے کہ یہ شریعت کا نہیں، حکمت وتدبر کا معاملہ ہے۔ یہ جائز اور ناجائز کی بحث نہیں ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ شریعت نے علما کو سیاست میں حصہ لینے سے روک دیا ہے یا انہیں اس کے لیے حکم دیا ہے۔ جب ہم اس سوال کو موضوع بناتے ہیں تو ہمارے پیش نظر محض یہ ہے کہ اس سے دین اور علما کو کوئی فائدہ پہنچا ہے یا نقصان؟ دوسری بات یہ کہ عملی سیاست سے ہماری مراد اقتدار کی سیاست (Power Politics) ہے یعنی اقتدار کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا یا کسی کے عزل ونصب کے لیے کوئی...

ملکی سیاست اور مذہبی جماعتیں

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ملکی سیاست میں حصہ لینے والی مذہبی جماعتیں اس وقت عجیب مخمصے میں ہیں اور ریگستان میں راستہ بھول جانے والے قافلے کی طرح منزل کی تلاش بلکہ تعین میں سرگرداں ہیں۔ مروجہ سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کرتے وقت مذہبی جماعتیں یقیناًاپنے اس اقدام پر پوری طرح مطمئن نہ تھیں اور وہ خدشات وخطرات اس وقت بھی ان کے ذہن میں اجمالی طور پر ضرور موجود تھے جن سے انہیں آج سابقہ درپیش ہے لیکن ان کا خیال یہ تھا کہ مروجہ سیاست میں شریک کار بنے بغیر ملکی نظام میں تبدیلی کی کوشش نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی اور مروجہ سیاست کی خرابیوں پر وہ مذہبی قوت اور عوامی دباؤ کے ذریعے سے...

دینی جماعتیں اور انتخابی سیاست

مولانا عبد الغفار حسن

اس وقت ملک شدید سیاسی واخلاقی بحران کا شکار ہے۔ ان حالات میں یہ ایک اہم سوال ذہنوں میں ابھر رہا ہے کہ دینی جماعتوں کا مستقبل کیا ہے؟ وہ کس طرح قرآن وسنت کی روشنی میں قوم کی رہنمائی کر سکتی ہیں؟ کیا ان کا انتخابی سیاست میں براہ راست حصہ لینا ملک وملت کے لیے مفید ہو سکتا ہے؟ اور کیا اس طرح نفاذ شریعت کی تحریک کام یابی سے ہم کنار ہو سکتی ہے؟ یہ بات عیاں ہے کہ دینی جماعتوں کے رہنما پچھلے انتخابی تجربات سے کوئی خا ص سبق حاصل کرنے پر آمادہ نہیں ہیں اور ایک دفعہ پھر انتخابی دنگل میں کودنے کے لیے بے تاب ہیں۔ دینی جماعتوں میں سب سے زیادہ فعال اور منظم...

اسلامی ریاست میں غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق

مولانا منیر احمد

اسلامی حکومت کے حکمرانوں کو اپنی رعایا کے ساتھ اسلام جس رواداری، حسنِ سلوک، نرم روی، انصاف پسندی، عدل گستری کا نہایت تاکیدی انداز میں پابند کرتا ہے، اس میں مسلم و غیر مسلم میں کوئی فرق و امتیاز روا نہیں رکھتا۔ بلکہ ان کو یہ سبق سکھاتا ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے دروازے اہلِ اسلام اور غیر اہلِ اسلام یہودی، عیسائی، ہندو، سکھ سب پر کھلے رکھے ہیں، ہر ایک کو رزق، ہوا، پانی، روشنی اور آسمان و زمین کی بے شمار نعمتوں سے یکساں استفادے کا حق ہے، کسی کو کسی نعمت سے استفادہ کے حق سے محروم نہیں کیا، اسی طرح جو حکومت قانونِ الٰہی پر عمل پیرا ہو...

حکمران جماعت اور قرآنی پروگرام

حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

قانون کی پابندی کا انتظام ایک جماعت کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے اور وہ حکومت کرنے والی جماعت ہی ہو سکتی ہے۔ قانون کا انتظام کرنے والی جماعت کا فرض ہے کہ وہ امانت دار ہو اور اپنا فرض ادا کرنے والی ہو۔ صحیح طور پر قانون کی پابندی کرنے والی جماعت کا سب سے پہلا کام یہ ہو گا کہ وہ قانون کی تعلیم عام لوگوں کو اسی طرح دینا شروع کرے جیسے باپ اپنی اولاد کو پڑھاتا ہے۔ پھر قانون کی مخالفت کرنے والوں کو سزا دینا بھی انہی لوگوں کے ہاتھ میں ہو گا۔ وہ مخالف جماعتیں یا تو اس پارٹی کے اندر شامل ہوں گی یا باہر۔ جو اندر ہوں گی انہیں قانون توڑنے کی سزا دینے کا نام تعزیر...

عورت کی حکمرانی کی شرعی حیثیت

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مرد اور عورت دونوں نسل انسانی کے ایسے ستون ہیں کہ جن میں سے ایک کو بھی اس کی جگہ سے سرکا دیا جائے تو انسانی معاشرہ کا ڈھانچہ قائم نہیں رہتا۔ اللہ رب العزت نے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کو اپنی قدرت خاص سے پیدا فرمایا اور ان دونوں کے ذریعے نسل انسانی کو دنیا میں بڑھا پھیلا کر مرد اور عورت کے درمیان ذمہ داریوں اور فرائض کی فطری تقسیم کر دی، دونوں کا دائرہ کار متعین کر دیا اور دونوں کے باہمی حقوق کو ایک توازن اور تناسب کے ساتھ طے فرما دیا۔ مرد اور عورت کے درمیان حقوق و فرائض کی اس تقسیم کا تعلق تکوینی امور سے بھی ہے جو نسل انسانی...

عورت کی حکمرانی کی شرعی حیثیت

مولانا مفتی حبیب الرحمٰن خیرآبادی

عورت کی سربراہی کا مسئلہ پاکستان میں آج کل موضوع سخن بنا ہوا ہے۔ ہندوستان میں بھی کچھ لوگ دلچسپی لے رہے ہیں اور اس بارے میں اخبارات میں بعض مفصل تحریریں نظر سے گزریں۔ علاوہ ازیں ایک فتوٰی بھی دیکھنے میں آیا جس میں اسلامی مملکت کے اندر عورت کی سربراہی کو قرآن و حدیث سے اور فقہی روایات سے مطلقًا جائز قرار دیا گیا ہے اور اس فتوے کو دارالعلوم دیوبند کی طرف منسوب کر کے مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند کے نام سے شایع کیا گیا ہے حالانکہ دارالعلوم دیوبند سے جواز کا کوئی فتوٰی نہیں دیا گیا اور نہ اس فتوٰی نویس کا دارالعلوم سے کوئی تعلق ہے۔ اس فتوٰی اور اس...

قرآن و سنت کی تشریح اور اجتہاد علماء کا کام ہے یا پارلیمنٹ کا؟

الشیخ جاد الحق علی جاد الحق

عالمِ اسلام کے قدیم ترین علمی مرکز جامعہ ازہر قاہرہ کے موجودہ سربراہ معالی الدکتور الشیخ جاد الحق علی جاد الحق مدظلہ العالی کا شمار ملت اسلامیہ کی ممتاز ترین علمی شخصیات میں ہوتا ہے اور انہیں دنیا بھر کے علمی مراکز اور حلقوں میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ مدیر ’’الشریعہ‘‘ نے گزشتہ سال ان کی زیارت و ملاقات کے لیے قاہرہ کا سفر کیا مگر ان دنوں جامعہ ازہر میں تعطیلات تھیں اور موصوف قاہرہ میں نہیں تھے اس لیے مقصد سفر کا یہ پہلو تشنہ رہا۔ ملاقات و زیارت کے ساتھ ساتھ یہ خواہش بھی تھی کہ پاکستان میں نفاذ اسلام کی جدوجہد کو جن علمی و فکری مسائل...
1-24 (24)
Flag Counter