ملک سے سود ختم کرنے کے سلسلے میں ابتدائی کوشش کے طور پر اسلامی بینکاری نظام رائج کیا گیا۔ چند اسلامی بینکوں میں سے ’’میزان بینک‘‘ کی ابتدا، ۲۰۰۱ء میں ہوئی۔ سات سال کا عرصہ گزر چکا، ملک بھر میں اس کی شاخیں بڑھتے بڑھتے ۱۶۶ تک پہنچ چکی ہیں۔ ایک بینک’’ بینک الاسلامی‘‘ دو تین سال کے اندر ملک بھر میں ۱۰۲ شاخیں قائم کر کے کام کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی شاید ایک دو اور بینک بھی اسلامی بینکنگ کر رہے ہیں۔ سات سال تک اسلامی بینکنگ رائج رہنے کے بعد اہل فتویٰ علماے کرام نے اس سے شد ید اختلاف کرتے ہوئے مروجہ اسلامی بینکاری کو قطعی غیر شرعی اور غیر اسلامی قرار دیا ہے۔ ناجائز وحرام ہونے کے سلسلے میں فقہی مسائل پر شبہات کے جواب تو حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ ہی دیں گے، کیونکہ یہ صرف اجتہادی صلاحیت رکھنے والے محقق علما ہی کا کام ہے، البتہ اس سلسلے میں جن بعض دیگر باتوں کا ذکر کیا جاتا ہے، ان کے بارے میں چند گزارشات غور فرمانے کے لیے پیش خدمت ہیں۔
۱۔ ایک اہم گزارش یہ ہے کہ اصل مسئلہ کی نوعیت واہمیت کو سمجھنے میں شاید کچھ توجہ کی کمی ہے۔ بات صرف اتنی نہیں ہے کہ لوگوں نے پیسہ رکھنا ہے تو سود سے بچنے کے لیے کرنٹ اکاؤنٹ کھلوا لیں یا غربا کو بینکوں سے جائز طریقہ سے سہولت کے ساتھ قرضے کس طرح ملیں کہ غربا کے مسائل حل ہو جائیں۔ معاملہ کی اہمیت اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے اور اصل مسئلہ بہت بڑا ہے کہ سود جیسا مہلک اور بڑا گناہ، جس کواللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے اور اپنے رسول کی طرف سے ان لوگوں کے لیے اعلان جنگ قرار دیا ہے اور جو ایسا گناہ ہے کہ جس کے معاف نہ ہونے کا خطرہ ہے، جس پر لعنت کی وعید ہے اور جس کے پھیلنے کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دینا کہا گیا ہے، وہ سود ملک کے چھوٹے بڑے تمام اداروں بلکہ معیشت کی رگ رگ میں سرایت کیے ہوئے ہے، لیکن اس کو قابل عمل متبادل طریقے کے ذریعے ختم کرنے کی کوئی ٹھوس کوشش نہیں کی جاتی رہی۔ ریاست و حکومت کے نظام اور اس کے آئین وقانون کو اسلامی بنانے کے لیے علماے کرام کتنی زیادہ کوششیں فرماتے رہے ہیں۔ دینی رسائل میں مضامین لکھے جاتے ہیں، جلسے اور جلوس منعقد کیے جاتے ہیں، تحریکیں چلائی جاتی ہیں، اور قید وبند کی صعوبتیں برداشت کی جاتی ہیں۔ علماے کرام دین کی ایک ایک جزوی اور استنباطی بات کو بھی زندہ رکھنے کے لیے کتنے فکر مند رہتے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ جب جمعہ کے دن کی چھٹی ختم کر دی گئی تو اس کے بحال کرانے کے لیے کتنی کوشش کی گئی۔ لیکن غور فرمایا جائے کہ یہ سب قوانین مکمل اسلامی بن جائیں، لیکن سود اسی طرح باقی رہے تو گویا اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ اعلان جنگ برقرار ہے اور اس صورت حال کو یوں بھی بیان کیا جا سکتاہے کہ عام طورپر کھانا حرام، پینا حرام، اور لباس حرام ہو تو قبولیت کہاں سے ہو گی۔ غربت کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے اسلامی حکومت کے فرائض میں بنیادی ضروریات زندگی (روٹی، کپڑا، ضروری مکان، علاج، تعلیم) کی فراہمی ہے، لیکن اس فرض کی ادائیگی کے لیے جو پیسہ استعمال ہوتا ہے، اس سب کی بنیاد سود ہے۔ اسلامی حکومت کے فرائض میں جہاد جیسے عظیم حکم کو پورا کرنا ہے۔ فرمایا گیا ہے: واعدوا لھم مااستطعتم، کفار کے لیے سامان جنگ کی تیاری کرو، جس قدر ہو سکے۔ اس کی تیاری کے لیے ہر قسم کی اسلحہ ساز فیکٹریاں چاہئیں، ایٹمی قوت چاہیے، ترقی یافتہ ممالک سے جدید ترین طیارے اور دیگر جنگی (بری، بحری، ہوائی) سامان چاہیے۔ یہ سارے کام سود کی بنیاد پر چلنے والے بینکوں سے براہ راست وابستہ ہیں تو گویا ہر لین دین میں، ہر معاہدے میں، ہر خرید وفروخت میں سود ہی سود ہے۔ چنانچہ اسی سود کو ختم کرنے کا جذبہ اور فکر حضرت مولانا مفتی محمد شفیع ؒ میں بھرپور طریقہ سے موجود تھی۔ اپنی آٹھ جلدوں پر مشتمل تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ کے شروع میں شاید ہی کسی اور مسئلہ پر اتنی تفصیل سے بحث کی ہو جتنا کہ سود کے مسئلہ پر کی ہے۔ ( یہ جذبہ اور فکر تو دیگر تمام اکابر علما میں بھی بھر پور طریقے سے موجود تھا اور ہے، لیکن متبادل حل کے لیے قدم اٹھانے کی بات ہو رہی ہے) اسی جذبہ کے تحت سودکو ختم کرنے کے لیے عملی قدم بھی اٹھایا۔ حضرت مفتی صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’ احقر نے چند علما کے مشورے سے بے سود بینکاری کا مسودہ عرصہ ہوا تیار کر بھی دیا تھا اور بینکاری کے بعض ماہرین نے موجودہ دور میں قابل عمل تسلیم بھی کر لیا تھا اور بعض حضرات نے اس کوشروع بھی کرنا چاہا مگر ابھی تک عام تاجروں کی توجہ اس طرف نہ ہونے کے سبب اور حکومت کی طرف اس کی منظوری نہ ہونے کے سبب وہ چل نہیں سکا‘‘۔ (معارف القرآن، ج۱، ص۶۷۸)
اللہ کی قدرت دیکھیے کہ پھر اسی کام کا بیڑا حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، خلف الرشید حضرت مولانا مفتی محمد شفیع ؒ نے اٹھایا۔ اپنی خداداد اجتہادی صلاحیت کے ساتھ بیسیوں سال دن رات محنت کرکے گویا اقتصادیات کے شعبہ میں تخصص حاصل کیا، بالخصوص اسلامی بینکنگ کے شعبہ میں ان کی دسترس اور اس کی باریکیوں سے کما حقہ ان کی واقفیت کو ایک مسلم حیثیت حاصل ہے، چنانچہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ آف پاکستان (شریعت اپیلٹ بنچ) کے ایک ممبر کی حیثیت سے ۲۳؍ دسمبر ۱۹۹۹ء کو سودی نظام ختم کرنے کا عظیم فیصلہ آپ نے تحریر کیا ۔ سود کی حرمت کے ساڑھے گیارہ سو صفحات پر مشتمل اس فیصلہ میں متبادل طریقہ کار کا مفصل لائحہ عمل بھی تجویز کیا گیا ہے۔ پھر ملک سے سودکو ختم کرنے کی کوشش میں انھوں نے ابتدائی طور پر اسلامی بینکنگ شروع کرائی لیکن اب سات سال بعد علماے کرام نے اس مروجہ اسلامی بینکنگ سے باقاعدہ واضح طور پر اختلاف کا اظہار کیا ہے۔ کاش کہ اس اختلاف کے ساتھ ہی متبادل کے طو رپر جائز اور قابل عمل اسلامی بینکاری نظام بھی تجویز کر کے رائج کرنے کی کوشش کی جاتی!
۲۔ اجتہادی صلاحیت رکھنے والے محقق علماے کرام کواپنی علمی تحقیق کی بنیا دپر اختلاف کا حق اور اختیار ہے۔ اختلاف کرتے ہوئے مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کے پیش کردہ اسلامی بینکاری نظام کو ایک طرف کر دیا جائے، لیکن ساتھ ہی متبادل جائز اور قابل عمل اسلامی بینکاری نظام بتا کر رائج کیجیے۔ جب متبادل کی بات کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ آج عوام سود کو چھوڑ نے کے لیے متبادل مانگ رہے ہیں، کل کوچور ڈاکو اپنے جرائم سے باز رہنے کے لیے چوری اور ڈاکہ جیسی افادیت کا حامل متبادل پیشہ علما سے مانگیں گے۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ یہ چور، ڈاکو اور زانی والی مثال اور اس بنیاد پر بنائی گئی بہت سی فرضی مثالیں سمجھنے میں بہت ہی زیادہ مشکل پیش آرہی ہے۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ سود کوباقی اور جاری رکھنے کے لیے سود کامتبادل سودی نظام نہیں مانگا جا رہا بلکہ حرام سودکو ختم کرنے کے لیے جائز اور قابل عمل متبادل طریقہ مانگا جا رہا ہے۔ معیشت کو ریاستی اور حکومتی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ نجی وملی معیشت میں بینکاری نظام جزولازمی بنا دیا گیا ہے۔ اس بینکاری نظام کو ختم کر دینا ممکن نظر نہیں آرہا، لہٰذا بینکنگ سسٹم میں سے حرام سود کو ختم کرکے بینکوں کو چلانے کا طریقہ (جائز متبادل) کیا ہے؟ ان کواسلامی و شرعی اصولوں کے مطابق کس طرح چلایا جائے؟ متبادل طریقہ بھی ایسا جو قابل عمل ہو (ملک جس طرح شروع ہی سے اور آج کل بہت ہی زیادہ مغربی طاقتو ں اور خاص طور پر امریکہ اور آئی ایم ایف کے مضبوط شکنجے کی گرفت میں ہے اور کس کس طرح ان کا اور ان کی شرائط کا پابند ہے، اس کی تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں) اس سلسلے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ علما کے ذمہ صرف شرعی حکم کا اظہار اور اعلان واعلام ہے، حالانکہ اکابر علما کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ متبادل طریقہ بتانا اور پھر لوگوں کو اس طریقے پر ڈالنے کی پوری کوشش کرنا بھی ضروری ہے۔ چنانچہ حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی ؒ فریضہ امت محمدیہ کے تحت فرماتے ہیں
’’جیسے طاعت خود واجب ہے، ویسے ہی دوسروں کی طاعت کے لیے سعی بھی واجب ہے مگر یہ سعی بقدر استطاعت واجب ہے۔‘‘ (دعوت وتبلیغ ص۲۴۸)
متبادل بتانے اور پھر اس پر ڈالنے کی کوشش کے سلسلے میں حضرت فرماتے ہیں :
’’بہرحال انذار کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تووہ جس سے لو گ ناامید ہو جاتے ہیں اور ایک یہ کہ انذار اور اس کے ساتھ ہی اس سے بچنے کی تدبیر بھی بتا دی جائے، مثلاً سلطنت کا ایک حکم اور اس کے ساتھ ہی اس سے بچنے کی تدبیر بھی بیان کر دے۔ اس کو محقق سمجھتا ہے۔ غیر محقق نے چغلی غیبت وغیرہ کا عذاب تو بیان کر دیا، مگر یہ نہ بتایا کہ اس مرض سے نجات کیوں کر ہو سکتی ہے اور ایک محقق شیخ کامل جہاں عذاب بیان کرے گا، وہاں اسباب اس بات سے بچنے کے بھی بیان کرے گا۔ مثلاً امراض مذکورہ سے بچنے کے لیے یہ تدبیر بتائے گا کہ بولو تو سوچ کر بولو کہ کسی کی حکایت تو نہیں جس میں غیبت ہو، یا شکایت تو نہیں جس میں چغلی ہو۔ تو دیکھو کہا انہوں نے بھی، مگر اس طرح کہ ناامید نہیں کیا اور اہل ظاہر اس طرح کہتے ہیں جس سے معلوم ہوکہ ہمیشہ کے لیے مردود ہو گیا، شیطان بن گیا، اوراہل باطن برابر تسلی دیتے رہتے ہیں کہ فکر مت کرو، اس سے بچنا بہت آسان ہے۔ غرض ایک انذار تو یہ ہے کہ بالکل مایوس کر دے، یہ ناجائز۔ اور ایک وہ کہ جس میں نجات کی تدبیر بھی ہو تو یہ جائز۔‘‘ (ایضاً، ۳۳۵)
بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث نقل ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ایک شخص نے (اپنے دل میں) کہا کہ میں (آج) ضرور کچھ صدقہ کروں گا۔ وہ اپنے صدقہ (خیرات کا مال) لے کرنکلا اور ایک چور کے ہاتھ میں دے دیا۔ صبح کو لوگوں میں چرچا ہوا کہ (رات) ایک چور کو صدقہ دیا گیا ہے۔ اس نے کہا، اے اللہ! آپ ہی کے لیے حمد ہے۔ میں (آج پھر) ضرور صدقہ کروں گا۔ وہ (رات کو) پھر صدقہ لے کر نکلا اور ایک زنا کار عورت کو دے دیا۔ صبح کو لوگوں میں چرچا ہوا کہ آج رات ایک زانیہ پر صدقہ کیاگیا ہے۔ اس نے کہا، اے اللہ! آپ ہی کے لیے حمد ہے۔ میں (آج پھر) ضرور صدقہ کروں گا۔ وہ (رات کو) پھر صدقہ لے کر نکلا اور ایک غنی کو دے دیا۔ صبح کوچر چا ہوا کہ آج (رات ) غنی کو صدقہ دیا گیا ہے۔ اس نے کہا، اے اللہ! آپ ہی کے لیے حمد ہے۔ چور ( کے صدقہ ) پر اور زانیہ (کے صدقہ ) پر اور غنی (کے صدقہ ) پر۔ تو ا س کے پاس پیام پہنچا کہ تیرا چور کو صدقہ دینا (بے کار نہیں گیا)، امید ہے کہ وہ چوری سے باز آجائے اور زانیہ پر صدقہ (بھی بیکار نہیں گیا)، امیدہے کہ وہ زنا سے بچ جائے اور غنی پر صدقہ ( بھی بے کار نہیں گیا)، امید ہے کہ اس کو عبرت ہو جائے اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت سے خرچ کرنے لگے۔
اس حدیث کی شرح میں مولانا ظفر احمد عثمانی ؒ تحریر فرماتے ہیں:
’’ چورکے متعلق جو کہا گیا کہ امید ہے کہ وہ اس صدقہ کی وجہ سے چوری سے باز آ جائے، یہ تو ظاہر ہے، کیوں کہ انسان عموماً تنگی اور فقر ہی کی وجہ سے چوری کرتا ہے اور چور کا چوری سے رک جانا بڑی چیز ہے کیوں کہ مسلمان اس کے ضرر سے بچ جائیں گے تو اس کا ثواب صدقہ سے بھی افضل ہے .....لوگ زناکار عورتوں کو صدقہ نہیں دیتے نہ چوروں کو، حالانکہ ان کو صدقہ دینا زیادہ ثواب ہے کہ شاید وہ گناہوں سے توبہ کر لیں..... قانونی طور پر ان افعال کو جرم قرار دیا جائے اور ان پر سزاے تازیانہ یا قید خانہ مقرر کرائی جائے اور مسلمان ریاستوں کو بھی اپنی ریاست میں مسلمانوں کے واسطے اسی قسم کے قانون پاس کرنا چاہیے، نیز زناکار عورتوں کو شادی پر مجبور کیا جائے اور جب تک شادی نہ ہو، صدقات وخیرات سے ان کی خبر گیری کی جائے‘‘ ۔
مولانا ظفر حمد عثمانی ؒ حضرت تھانویؒ کی بتائی ہوئی انذار کی دونوں قسموں ( ناجائز بتانا اور متبادل جائز پر ڈالنے کی کوشش کرنا) کی وضاحت فرمارہے ہیں، بالخصوص حضرت تھانوی کے یہ جملے تواپنے اندر کتنی مٹھاس لیے ہوئے ہیں کہ ’’اور اہل باطن برابر تسلی دیتے رہتے ہیں کہ فکر مت کرو، اس سے بچنا بہت آسان ہے‘‘۔ (سیکولر برطانوی آئین اور دیگر انگریزی قوانین کو ختم کر کے متبادل کے طور پر اسلامی آئین وقانون بنانے اور رائج کرنے کی کس طرح کوششیں کی گئیں، اس کا مختصر ذکر بعد میں آئے گا)۔
۳۔ کتنی لائق تحسین اور قابل قدر ہے علماے کرام کی وہ طویل جدوجہد جس کے نتیجے میں وفاقی شرعی عدالت اور پھر سپریم کورٹ آف پاکستان نے دسمبر ۱۹۹۹ء میں سود کو ناجائز اور حرام قرار دینے کا تاریخی فیصلہ دیا، لیکن حرام قرار دیے جانے کے بعد کسی متبادل کے بغیر کیا اب یہ کیا جائے کہ سودی نظام پر مبنی ملک کے تمام بینکوں کو ختم کر دینے کا اعلان کر دیا جائے؟ اور ان بینکوں کے ذریعے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر جتنے کاروبار ہو رہے ہیں، ان سب کو کالعدم قرار دیا جائے؟ کچھ تو ٹھوس لائحہ عمل بتا دینا چاہیے۔ ایسی مشکل صورت حال کے لیے حضرت مولانا محمد شفیع ؒ ارشاد فرماتے ہیں :
’’جب کوئی مرض عام ہوکر وبا کی صورت اختیار کر لے تو علاج معالجہ دشوار ضرور ہو جاتا ہے ‘لیکن بے کار نہیں ہوتا۔ اصلاح حال کی کوشش انجام کار کامیاب ہوتی ہیں، البتہ صبر واستقلال اور ہمت سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا یہ بھی ارشاد ہے: ’ما جعل اللہ علیکم فی الدین من حرج‘ یعنی ’’اللہ تعالیٰ نے دین کے معاملہ میں تم پر کوئی تنگی نہیں ڈالی‘‘۔ ا س لیے ضرور ی ہے کہ ربا سے اجتناب کا کوئی ایسا راستہ ضرور ہو گا جس میں معاشی اور اقتصادی نقصان بھی نہ ہو، اندرونی و بیرونی تجارت کے دروازے بھی بندنہ ہوں اور ربا سے نجات بھی ہو جائے۔ اس میں پہلی بات تو یہی ہے کہ سطحی نظر میں بینکنگ کے موجودہ اصول کو دیکھتے ہوئے عا م طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بینکنگ سسٹم کا مدار ہی سود پر ہے، اس کے بغیر بینک چل ہی نہیں سکتے، لیکن یہ خیال قطعاً صحیح نہیں۔ ربا کے بغیر بھی بینکنگ سسٹم اسی طرح قائم رہ سکتاہے بلکہ اس سے بہتر اور نافع اور مفید صورت میں آ سکتا ہے، البتہ اس کے لیے ماہرین شریعت اور کچھ ماہرین بینکنگ کے مشورہ اور تعاون سے اس کے اصول از سر نو تجویز کریں تو کامیابی کچھ دور نہیں۔‘‘ (معارف القرآن‘ ج ۱‘ ص ۶۷۷۔۶۷۸)
حضرت مفتی صاحب (جن کے مفتی اعظم ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے) کے اس ارشاد میں کئی باتوں کا واضح جواب موجود ہے۔ مثلاً یہ کہ اسی بینکنگ سسٹم (جس کو یہودی سودی نظام کہہ کر اس میں سے سود کو ختم کرنے کی کوشش ہی کا سرے سے انکار کر دیا جاتا ہے) میں سے حرام سود کو ختم کر کے اسلامی و شرعی طریقو ں کو رائج کیا جا سکتا ہے اور یہ خیال قطعاً صحیح نہیں کہ سود کے بغیر بینک چل ہی نہیں سکتے۔ نہ صرف چل سکتے ہیں بلکہ پہلے سے بھی بہتر اور نافع اور مفید صورت میں آسکتے ہیں۔
۴۔رخصت کو چھوڑ کر عزیمت اختیار کرنا نہایت ہی پسندیدہ راستہ ہے۔ پرعزم حضرات یہی کیا کرتے ہیں، لیکن عزیمت پر عزم حضرات کے اپنے لیے ہی مناسب ہوا کرتی ہے۔ اجتماعی زندگی کے اجتماعی معاملات میں عزیمت کی کوشش سے مشکلات پید اہوتی ہیں اوریہ مشکلات اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ رخصت پر عمل سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ اسلامی ریاست میں عورت کی سربراہی اور مجلس قانون ساز میں خواتین کی رکنیت کو ناجائز قرار دے کر اسے روکنے کی بھر پور کوشش فرمائی گئی اور پھر معروضی حالات کے پیش نظر اکابر علماے کرام نے خود مجالس قانون ساز (پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں) میں خواتین کو باقاعدہ ممبر منتخب کر کے انہیں اجلاسوں میں شریک کیا۔ جدید دور میں اسلام دشمن قوتوں کے عزائم، بین الاقوامی سیاسی حالات اور عالمی مالیاتی اداروں کے شکنجے میں آ جانے جیسے معروضی حالات میں سود جیسے بہت ہی بڑے گناہ کو ختم کرنے کے لیے اگربوقت ضرورت حیلہ اور تاویل سے رخصتوں پر ہی عمل ہو جائے تو مقام شکر اور غنیمت ہے۔حکیم الامت حضرت تھانوی ؒ غیر شرعی ملازمت چھوڑنے کے بارے میں فرماتے ہیں :
’’اسی واسطے جب ہمارے حضرت سے کوئی شخص بیعت ہوکر پوچھتا کہ نوکری چھوڑدوں؟ فرماتے تھے نہیں نہیں، ایسا ہرگز نہ کرنا۔ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ اگر کوئی نوکری ایسی بھی ہو کہ نامشروع ہو اور مشروع نہ ملتی ہو تو نہ چھوڑو، ہاں اپنے کو گناہگار سمجھو۔ اگر کوئی کہے کہ امر نامشروع کے چھوڑنے سے منع کرتے ہیں تو صاحبو! ہم نامشروع کے چھوڑنے سے منع نہیں کرتے بلکہ ایک نامشروع کو سپر بناتے ہیں بہت سے نامشروع کے لیے، یعنی اس وقت اگر چھوڑے گا، نہ معلوم کتنے معاصی میں مبتلا ہو گا۔ کہیں چوری کرے گا، جوا کھیلے گا، جھوٹی گواہی دے گا، لوگوں کا قرض لے لے کرمارے گا اور نہ معلوم کیا کیا آفتیں کرے گا۔ پھر جب آگے بڑھے گا تو یہ خیال ہو گا کہ اے نفس! تو اس قدر معاصی میں مبتلا ہے، تیری نجات کیا ہو گی۔ بس نجات نہ ہو گی تو الگ کرو سارا جھگڑا اور خوب جی کھول کے جو کچھ ہو سکے، کر لو ۔ اے لیجیے، ایک نامشروع کے ترک سے کفر کی حد تک پہنچ گیا ۔۔۔جو شخص دو مصیبتوں میں مبتلا ہو ، اُس کو چاہیے کہ ہلکی مصیبت کو اختیار کرے۔ مثلاً ایک طرف گز کی کھائی ہے اور ایک طرف کنواں ہے جس میں پچاس ہاتھ پانی ہے، وہاں ممکن ہی نہیں کہ گر کر زندہ رہ سکے۔ جب یہ معلوم ہو گیا کہ بغیر گرے پناہ نہیں تو عقل کا فتویٰ تو یہی ہے کہ کھائی اختیار کرے کہ بلا تو ہاتھ منہ ٹوٹنے پر ٹلے گی، جان تو بچ جائے گی۔‘‘ (خطبات ،دعوت و تبلیغ ، ص، ۳۰۱)
استقامت کے عنوان پر حضرت حکیم الامت تقریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ہمارے اندر دو مرض ہیں، افراط و تفریط ۔ اہل تفسیر نے استقامت کی تفسیر میں بھی تفریط کی ہے اور اہل افراط نے اس کی تفسیر میں غلو کیاہے ، پس ہم کو اپنے اندر اعتدال پیداکر کے اپنی اصلاح کرنا چاہیے۔ ہر چند کہ افراط و تفریط دونوں مذموم ہیں مگر افراط زیادہ مذموم ہے ۔۔۔ بہت لوگ تقویٰ میں مبالغہ کرتے ہیں اور وہ اسی کو استقامت سمجھتے ہیں اور اس کو محمود سمجھتے ہیں اور بظاہر یہ محمود معلوم بھی ہوتا ہے، مگر حقیقت میں محمود نہیں کیونکہ مبالغہ کی وجہ سے کسی وقت یہ شخص مایوس بھی ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک تقویٰ کا جو اعلیٰ درجہ ہے، اُس کی تحصیل دشوار ہے اور ادنیٰ درجے کو یہ ناکافی سمجھتا ہے، اس لیے اخیر میں اس کو مایوسی ہو جاتی ہے جس کا انجام تعطل ہے ۔۔۔ اسی لیے شریعت نے غلو سے منع کیا ہے۔ قرآن مجید میں بھی امر ہے: لاتغلو ا فی دینکم ( یعنی اپنے دین میں غلونہ کرو ) اور احادیث میں بھی اس کی سخت ممانعت آئی ہے :من شاق شاق اللّہ علیہ ( جو شخص اپنے اوپر مشقت ڈالتا ہے، اللہ تعالیٰ اُس پر مشقت ڈال دیتے ہیں) کیوں کہ اس میں حدود سے تجاوز ہے اور حدود سے تجاوز کرنا اطاعت نہیں ۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر ایک امر میں دو راستوں کا اختیار دیا جاتا تو آپ سہل کو اختیار فرماتے ۔۔۔ ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی رخصت پر عمل کیاتو بعض صحابہؓ نے اس سے تنزہ کیا اور یہ سمجھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عزائم پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں، آپ تو کمال کو پہنچ چکے ہیں۔ مگر ہم کو عزیمت پر ہی عمل کرنا چاہیے، رخصتوں سے احتیاط کرنی چاہیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ کو سخت ناگواری ہوئی۔ فرمایا ’ما بال اقوام یتنزھون ما اصنع و انا اخشاکم للّہ واتقاکم للّہ‘ (صحیح البخاری ،۸:۳۱) ’’لوگوں کا کیاحال ہے کہ جو کام میں کرتا ہوں، وہ اس سے احتیاط کرتے ہیں حالانکہ میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں اورسب سے بڑھ کر متقی ہوں‘‘ ۔۔۔ وہ اعلیٰ درجہ جس میں تعمق و مبالغہ ہو، مامور بہ نہیں ہے۔ باقی جو مطلب حدیث کا یہ لوگ سمجھتے ہیں، وہ نص کے خلاف ہے۔ حق تعالیٰ نے وسعت سے زیادہ کہیں امر نہیں کیا اور ہر موقع پر جہاں اس قسم کا شبہ واقع ہو، فوراً اشکال رفع کیا ‘‘ ( ایضاً )
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب نور اللہ مرقدہ، جو ہمیشہ اکابر حضرات کے تقویٰ اور پرہیز گاری کی ترغیب دیتے رہتے ہیں، وہ بھی نیت جیسے اہم اور نازک معاملہ میں کس طرح گنجایش پیدا فرماتے ہیں۔ ایک معروف بڑے عالم نے جب اضطراب اور پریشانی کی کیفیت میں حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں تحریر کیا کہ ’’مدرسہ میں بھی پیٹ کی خاطر پڑھالیتا ہوں‘‘ تو حضرت اقدس نے جواب میں ارشاد فرمایا:
’’تم نے لکھا کہ ’’صرف مدرسہ، وہ بھی پیٹ کی خاطر ہے‘‘۔ اسی لیے تو میں شدت سے تنخواہ چھوڑنے کا مخالف ہوں کہ اگر بقول تمہارے پیٹ کی خاطر نہ ہوتی تو مدرسہ چھوڑ دیتے۔ پیٹ ہی کی خاطر سہی، مگر دین کا کام تو ہو رہا ہے۔ تمہیں یاد ہوگا کہ بخاری شریف کے سبق میں، میں ہمیشہ بار بار کہتا رہا کہ اس زمانے میں کسی اہل مدرسہ کو بغیر تنخواہ کے مدرس نہیں رکھنا چاہیے، اس لیے کہ وہ زمانہ ختم ہو گیا جب دین کا کام پیٹ سے اہم سمجھا جاتا تھا، ورنہ یہ بے تنخواہ مدرس جتنا حرج کرتے ہیں اور طلبا کا نقصان کرتے ہیں، اس کے لحاظ سے تو تنخواہ لینا بہت ہی اہم ہے۔‘‘ (مکتوبات شیخ ج ۲ ص ۸۱ طبع سعید اینڈ کمپنی کراچی)
شرعی پردہ میں سہولت پیدا کرنے کے لیے حضرت اقدس مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کئی بھائیوں یابہت سے رشتہ داروں کے ساتھ ایک ہی مکان میں رہنے والوں کے لیے ارشاد فرماتے ہیں:
’’شرعی پردہ کے لیے الگ مکان لینے کی ضرورت نہیں۔ شریعت بہت آسان ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنے بندوں پر بہت وسیع ہے۔ وہ بندوں کو تکلیف اور تنگی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے بلکہ راحت وسہولت میں رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
چھ احتیاطی طریقے بتانے کے بعد فرماتے ہیں:
’’ان احتیاطوں کے باوجود اگر کبھی اچانک کسی غیر محرم کی نظر پڑ جائے تو معاف ہے بلکہ اس طرح بار بار بھی نظر پڑتی رہے، ہزار بار اچانک سامنا ہو جائے تو بھی سب معاف ہے، کوئی گناہ نہیں۔ اس سے پریشان نہ ہوں۔ جو کچھ اپنے اختیار میں ہے، اس میں ہرگز غفلت نہ کریں اور جو اختیار سے باہر ہے، اس کے لیے پریشان نہ ہوں، اس لیے کہ اس پر کوئی گرفت نہیں۔ ہزاروں بار بھی غیر اختیاری طور پر ہو جائے تو بھی معاف، وہاں تو معافی ہی معافی ہے۔‘‘ (شرعی پردہ)
پھلوں کی بیع کے جائز طریقے کے بارے میں حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’’اب آم کی فصل آوے گی اور اکثر مسلمان پھل آنے سے پہلے ان کی بیع کر یتے ہیں۔ شرعاً یہ بیع حرام ہے اور پھل کا کھانا دوسروں کو بھی حرام ہے۔ باغ والوں کی ذرا سی کاہلی سے ساری دنیا حرام کھاتی ہے ...... مگر ایک آسان ترکیب بتلائی گئی تھی جس سے دنیا حرام کھانے سے محفوظ ہو جاتی، مگر افسوس وہ بھی نہ ہو سکی۔ میں نے کہا تھا کہ جو لوگ پھل آنے سے پہلے بیع کر چکے ہوں، وہ پھل آنے کے بعد دوبارہ بیع کر لیا کریں۔ بائع خریدار سے یہ کہے کہ بھائی، ہم نے جو پہلے بیع کی تھی، وہ شرعاً درست نہ تھی، اب ہم اسی قیمت پر اس پھل کی بیع تمہارے ہاتھ دوبارہ کرتے ہیں۔ خریدار کہہ دے میں قبول کرتا ہوں۔ اب اس پھل کا کھانا سب کو حلال ہو جائے گا۔ بتلائیے اس میں کیا مشکل تھی؟ صرف زبان ہلتی تھی۔‘‘ (خطبات، اصلاح ظاہر ص ۷۲، طبع اشرفیہ ملتان)
۵۔بینکنگ سسٹم کو اسلامی بنانے میں ’’حیلہ‘‘ کے استعمال سے یہ خدشہ اور ڈر ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس سے بڑے بڑے گناہ اور جرائم کرنے والوں کے لیے راستہ کھل جائے گا۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ جب حیلہ جائز اور حسن ہے اور اسے دوچار یادس بیس نہیں بلکہ بیسیوں اہم احکامات کے سینکڑوں فقہی مسائل میں آج سے نہیں، صدیوں سے استعمال کیا جاتا رہا ہے ( دینی مدارس میں دینی مقاصد کے حصول کے لیے بھی حیلہ ختیار کیا جاتا ہے) تو آخر بینکنگ میں حرام سود کو ختم کرنے جیسے عظیم مقصد کے لیے اور اسے اسلام کے مطابق بنانے کے لیے ’حیلہ‘ اور ’تاویل‘ استعمال کرنے سے جرائم پیشہ افراد کے لیے گناہوں کا دروازہ کیونکر کھل جائے گا۔ حیلہ اور تاویل کی بات تو چھوڑ ئیے ،جس نے گناہ اور جرائم بلکہ گمراہی کا راستہ ختیار کرناطے کیا ہوا ہو، وہ تو قرآن کی آیتوں سے بھی گمراہی حاصل کر لیتا ہے۔ ہر گمراہ شخص اپنے معتقدات کو قرآن و حدیث ہی سے ثابت کرتا ہے۔ جھوٹ جیسا بڑا گناہ صرف بڑا گناہ ہی نہیں، بہت بڑا گناہ جس نے کرنے کا فیصلہ کیاہو اہو، وہ ’کذب کی نسبت‘ کی دو تین باتوں سے صحیح صحیح مطلب لینے کے بجائے گمراہ کن مطلب بنا لے گا، گانے بجانے والے اپنے غلط کام کے لیے گمراہ کن تاویلیں کر لیتے ہیں جن کا جواب دیگر اکابر علماے کرام کے علاوہ مفتی محمد شفیع ؒ نے اپنی کتاب ’’اسلام اور موسیقی‘‘ میں دیا ہے۔ مولاناحفظ الرحمن سیوہاروی ؒ تحریر فرماتے ہیں
’’ متنبّی کاذب کی تلبیس‘ حضرت یونس علیہ السلام کے واقعہ سے متنبّی پنجاب ( مرزا غلام قادیانی ) نے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے ۔۔۔ لیکن قرآن عزیزکی روشن شہادت قادیانی کے اس حیلہ کو مردود قرار دیتی ہے۔‘‘ ( تفصیل کے لیے دیکھیے قصص القرآن دوم، ص،۵۳۳)
لہٰذا غلط فائدہ اٹھانے والوں اور گمراہ کن تاویلیں کرنے والوں کا تدارک یہ نہیں ہے کہ جس جائز اور صحیح بات کا اچھے مقصد کے حصول کے لیے ذکر کرنا ہے، اُسے گمراہ کن مطلب لیے جانے کے خوف سے چھوڑ دیا جائے، بلکہ جو صحیح بات سے گمراہ کن مطلب لے رہاہے، اس کی غلطی اور گمراہی کی نشان دہی کر کے صحیح بات بتائی اور واضح کی جائے ۔ شروع سے آج تک محقق علما و مفسرین ( اللہ تعالیٰ ان کوبہت ہی جزاے خیر عطا فرمائے) اسی اصول کے تحت مستشرقین و ملحدین کی تلبیسات اور معاندانہ شکوک و شبہات کے جوابات دیے چلے آرہے ہیں۔ بینکنگ میں جائز صورت اختیار کرنے کے لیے حیلہ اور تاویل کے استعمال پر عقلی شبہات کا بھی اظہار کیا جاتا ہے کہ یہ بالکل وہی بات ہوجاتی ہے تو عرض یہ ہے کہ حیلہ میں تو عام طور پر ایسی ہی صورت پیدا ہوتی ہے۔ دیگر معاملات میں بھی عام طور پر عقلی لحاظ سے حیرانگی کا اظہار ہی کیا جاتا ہے کہ نتیجہ کے لحاظ سے تو بالکل وہی صورت نظر آتی ہے۔ پھر ایک دوسری بات اچھے مقصد اور اچھی نیت کی، کی جاتی ہے تو یہاں بھی تو اچھا مقصد اور اچھی نیت ہی ہے کہ بینکنگ سے سود کا خاتمہ کیا جائے اور متبادل جائز بنا کر رائج کرنے کی کوشش کی جائے۔
۶۔اسلامی بینکاری کے بارے میں مولانا محمد عیسیٰ منصوری صاحب نے اعتدال پر مبنی اچھاتجزیہ پیش کیا ہے۔ امریکہ کے موجودہ اقتصادی اور بینکنگ بحران کے بارے میں اپنے مضمون بعنوان ’’سرمایہ دارانہ نظام کے پیداکردہ بحران، اسباب اور حل‘‘ میں اسلامی بنک کی طرف مختصر اشارہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں :
’’ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ دنیا بھرمیں پھیلے ہوئے غیر سودی یا اسلامی بنک اس بحران سے پوری طرح محفوظ ہیں۔ اگرچہ میرے نزدیک موجودہ اسلامی بنک سو فیصد اسلامی نہیں، البتہ اسلام کے مبارک اقتصادی نظام کی طرف ایک کوشش ضرور کہی جا سکتی ہے۔ اس عالمگیریت کے دور میں جب دنیا سکڑ کر ایک گاؤں بن گئی ہے، عالمی اقتصادی نظام پر مغربی سرمایہ داروں کا غلبہ و تسلط قائم ہے، اس منحوس نظام سے پوری طرح آزاد ہو کر مکمل طور پر اسلامی معاشی نظام اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک پوری اسلامی دنیا ہمت کر کے ایک ساتھ اس مبارک غیر سودی نظام کو اپنانے کا فیصلہ نہ کر لے‘‘۔ (ماہنامہ الشریعہ‘ فروری ۲۰۰۹ء)
اسلامی بینکاری کے مجوزین میں سے مقتدر اہل علم خود بھی سو فیصد مطمئن نہیں ہیں۔ وہ بھی اسے اسلام کے مبارک اقتصادی نظام کی طرف ایک اچھی کوشش ہی سمجھتے ہیں اور اس میں جو بعض خامیاں پائی جاتی ہیں، اُن کا ذکر اپنوں میں کرتے بھی رہتے ہیں لیکن اپنوں میں خامیوں کا ذکر تو فکرمندی اور خود احتسابی کے جذبہ کے تحت کیا جاتا ہے تا کہ اس عظیم کام کو سرانجام دینے کے لیے سب مل کر اپنی علمی توانائیاں خامیوں کو دور کرنے میں صرف کریں۔ ہردینی کا م کے اکابر اور قائدین اپنوں میں بیٹھ کر کارکردگی کا جائزہ لیتے رہتے ہیں، خامیوں کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں اور پھر ان خامیوں کو دور کرنے کی تدبیریں سوچتے اور اختیار کرتے رہتے ہیں۔ اپنوں میں بیٹھ کر خامیوں کا ذکر اس لیے نہیں کیا جاتا کہ ان کی وجہ سے اصل دینی کام اور اصل دینی مقصد جس کو پورا کرنے کا سوچ سمجھ کر فیصلہ کر لیا گیا ہے، بے کار قرار دے کر اُسے ترک کر دیا جائے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ تعالیٰ ایک اہم دینی کام میں کوتاہیوں پر ارشاد فرماتے ہیں:
’’کون سا مدرسہ، کون سا مرکز، کون سی خانقاہ اس زمانے میں بلکہ کون سا آدمی ایسا ہے جس میں کوتاہیاں اور تقصیرات نہ ہوں۔ تقصیرات کی صحیح اصلاح کی کوشش ضرور کرتے رہیں۔‘‘ (مکتوبات شیخ ج ۲ ص ۶۷ طبع سعید اینڈ کمپنی کراچی)
اسلامی بینکاری شروع کرنے کا مقصد بینکنگ سے سود کاخاتمہ ہے۔ اس کوشش میں تمام دینی اکابر کا مل جل کر اور اکٹھے ہو کر کام کر ناضروری معلوم ہوتا ہے۔ بینکنگ سے سود کے خاتمہ کی کوشش کی ناکامی کی صورت میں اسلام دشمن قوتوں کے الزامات میں شاید ایک اور بڑے الزام کا اضافہ کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ جدید اقتصادی نظام میں اسلامی طریقوں کو رائج کرنا ناممکن ہے جبکہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ کے ارشاد کے مطابق یہ ممکن بلکہ بہت آسان ہے ۔
۷۔ دینی اور اسلامی جذبات رکھنے والے لوگو ں کو اسلامی بینکنگ کے حوالے سے سب سے زیادہ جو بات پریشان کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ اس سے سرمایہ داروں کو ہی اصل فائدہ ہوتا ہے اور اس سے سرمایہ داری کو ہی فروغ مل رہا ہے اور اس سے غربا کے مسائل حل نہیں ہوتے۔ اس بارے میں عرض ہے کہ سرمایے کے ارتکاز کو روکنے اور غربا کے مسائل حل کرنے کے لیے مکمل اقتصادی نظام کی ضرورت ہے اور پھر اس نظام کی کامیابی کے لیے بہت سی حکومتی اور معاشرتی باتوں کا ہونا ضروری ہے۔ مثلاً ایک اہم بات یہ ہے کہ سرمایہ دار اپنے سرمایے کے پورے حساب کتاب کے ساتھ باقاعدگی سے زکوٰۃ ادا کرتے ہوں، لیکن عام طو رپر بڑے سرمایہ دار اور چھوٹے مالدار ایسا نہیں کرتے۔ پھر اسلامی بینکنگ سے وابستہ تمام لوگوں سے شریعت کی مکمل پابندی کی بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لی گئی ہیں ۔ کاش کہ وہ ان توقعات پر پورا اُتریں، لیکن عام معاشرتی زندگی میں دیکھا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں سے بمشکل چار پانچ فیصد لوگ نماز روزہ کے پابند ہونے کی وجہ سے دیندار سمجھے جاتے ہیں، پھر ان چار پانچ فیصد میں سے بمشکل ایک فیصد بھی نہیں بنتے جو لین دین میں، کاروباری معاملات میں، وراثت کی تقسیم میں، اور اپنی آمدنی و اخراجات (زکوٰۃ کی باقاعدگی سے ادائیگی ) میں شریعت کی مکمل پابندی کرتے ہوں۔ ایسی صورت میں صرف اسلامی بینکنگ سے وابستہ تمام لوگوں سے توقعات پر پورا اُترنے کی اُمید رکھنا صورت حال کا حقیقی تجزیہ معلوم نہیں ہوتا۔ ان کو شریعت کی مکمل پابندی پر تیار کرنے کی کوشش کرنا ضروری ہے اور ایسی کوشش کرتے رہنا چاہیے، لیکن کسی کو پابند کرنا آسان نہیں ہوتا۔ خالص دینی معاملات میں دینی منصب پر فائز حضرات کو بھی پابند کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے، اس کااندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ جامعہ حفصہ اور لال مسجدکے علما کا جذبہ اور مطالبہ صحیح اور قابل قدر ہونے کے باوجود طریق کار سے وقت کے اکابر علماے کرام نے اختلاف کرتے ہوئے بڑے نقصان کے خدشے کا اظہار کیا، لیکن اکابر علما کو اپنے زیر اثر علما کو پابند کرنے میں کتنی مشکل پیش آئی ۔ وفاق المدارس کے اعلامیہ میں کہا گیا :
’’ البتہ اس سلسلہ میں جامعہ حفصہ اسلام آباد کے منتظمین نے جوطریقِ کار اختیار کیاہے، اسے یہ اجلاس درست نہیں سمجھتا اور اس کے لیے نہ صرف وفاق المدارس العربیہ کی اعلیٰ قیادت خود اسلام آباد جا کر متعلقہ حضرات سے متعدد بار بات کر چکی ہے بلکہ وفاق کے فیصلہ اور موقف سے انحراف کے باعث جامعہ حفصہ کا وفاق کے ساتھ الحاق بھی ختم کیا جا چکا ہے۔ یہ اجلاس وفاق المدارس العربیہ کی اعلیٰ قیادت کے موقف اور فیصلے سے جامعہ حفصہ اسلام آباد اور لال مسجد کے منتظمین کے اس انحراف کو افسوس ناک قرار دیتا ہے اور ان سے اپیل کرتاہے کہ وہ اس پر نظر ثانی کرتے ہوئے ملک کی اعلیٰ ترین علمی ودینی قیادت کی سرپرستی میں واپس آ جائیں۔‘‘ (بیّنات، جون ۲۰۰۷ء)
اللہ تعالیٰ شہید ہونے والے منتظمین اور طلبہ وطالبات کی مغفرت فرمائے، ان کے اخلاص کی وجہ سے ان کی قربانی قبول فرمائے اور کوتاہیوں کو معاف فرما کر درجات بلند فرمائے۔ یہ بات صرف اس لیے ذکر کی گئی کہ کسی کو پابند کرنا آسان نہیں ہوتا۔
۸۔ اسلامی بینکنگ سے بہتر اور مثبت نتائج برآمد نہ ہونے کے سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ ایک ہے کسی قانون اور قانونی نظام کو اسلامی بنانا اور ایک ہے اس سے نتائج و اثرات کا حاصل ہونا۔ قانون اور قانونی نظام سے مطلوبہ نتائج و اثرات کے حصول میں بہت سے اُمور متعلق ہوتے ہیں۔ ( یہ ایک تفصیلی بحث ہے ) ان اُمور میں سے ایک اہم ترین امر، قانونی نظام چلانے والوں میں صرف دوچار کا نہیں، ایک اچھی تعداد کا اُسے کامیاب کرنے میں مخلص ہونا ہے۔ اس بات کی وضاحت مختصر طریقہ سے اس طرح کی جاتی ہے کہ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے آئین و قانون کو اسلامی بنانا ضروری قرار دیا گیا۔ علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ نے ۱۹۴۹ء میں قرار داد مقاصد ( سیکولر آئین کا متبادل) پیش کر کے منظور کرائی۔ اس پر بہت خوشی منائی گئی کہ ایک بہت بڑا کام ہو گیا، لیکن نتیجہ کچھ بھی ظاہر نہ ہوا ۔ ۱۹۵۶ء کے آئین میں اسلامی دفعات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا، لیکن کوئی فائدہ نظر نہ آیا ۔ ۱۹۷۳ء کادستور بنا ( جس کو اسلامی بنانے کے لیے مولانا مفتی محمود صاحب ؒ اور دیگر دینی قائدین نے دن رات کام کر کے مسودات تیار کیے اور بھر پور کوشش فرمائی) تمام مذہبی و دینی جماعتیں اور ان کے قائدین نے اس آئین کو مکمل اسلامی قرار دیا، لیکن اسلامی نظام کی برکتیں معمولی سطح پر بھی نہ دیکھی جا سکیں۔ اعلیٰ عدالتوں اور پارلیمنٹ میں بحث کے دوران اور بعض فیصلوں میں کہا گیا کہ قرار داد مقاصد آئین کا باقاعدہ حصہ نہیں، اس لیے قابل نفاذ نہیں، چنانچہ ۱۹۸۵ء میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے اسے آئین کا باقاعدہ حصہ بنا دیا گیا۔ اسی میں ایک اہم بات شامل کی گئی کہ اسمبلی کا ممبر بننے کے لیے نیک، ایماندار اور باکردار ہونا ضروری ہے۔ ۱۹۷۹ء میں پانچ قوانین حدود بھی نافذ ہوئے، زکوٰۃ و عشر کے نفاذ کا حکم جاری ہوا، پانچ سال کی طویل جدو جہد کے بعد ۱۹۹۰ء میں شریعت بل ( نفاذ شریعت ایکٹ ۱۹۹۰) منظور کرایا گیا ( یہ سب کچھ انگریزی قوانین کو ختم کر کے متبادل کے طور پر اسلامی قوانین بنانے کی کوششیں ہی تو ہیں) لیکن ان سب اقدامات کے باوجود اسلامی آئین و قانون کے نفاذ کے معمولی سے بھی ثمرات و برکات نہ دیکھے جا سکے۔ اس بات کے لیے بہت کچھ تحریر کیا جا سکتا ہے، لیکن یہاں صرف حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی ؒ کا مختصر مگر جامع تبصرہ پیش کیا جاتا ہے۔ حضرت والا ’’ اسلامی نظام کی برکات‘‘ کے تحت تحریر فرماتے ہیں:
’’مسلمانوں نے نہایت خلوص و اخلاص سے پاکستان میں نفاذ اسلام کی متعدد بار کوششیں کیں، مگر بے سو د ۔۔۔ قرار داد مقاصد کو دستور پاکستان کا حصہ بنانے کے لیے دباؤ ڈالا گیا، اسلامی نظریاتی کونسل تشکیل دی گئی ، علما نے اس میں بھر پور جدو جہد کی اور حکمرانوں کی راہنمائی کی، آئین میں اسلام سے متصادم دفعات کو اسلامی بنانے کی مخلصانہ مساعی کی گئیں ۔۔۔ مرحوم ضیاء الحق نے اسلامی شوریٰ قائم کی، علما سے تعاون مانگا، علما نے محض جذبہ اخلاص سے اس میں بھی تعاون کیا مگر ’’زمین جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘ کے مصداق آج تک پرنالہ وہیں کا وہیں رہا ۔۔۔ ناخدا یان قوم اگر اپنے دعوے میں مخلص اور سچے ہوتے تو اسلامی نظام کے نفاذ میں ان کی مدد و نصرت فرماتے ‘‘۔ (ماہنامہ بیّنات، ستمبر ۱۹۹۸ء )
ظاہر ہے کہ اس طویل جدوجہد اور بھرپور کوششوں کے باوجود مثبت اور بہتر نتائج نہ نکلنے کا یہ مطلب کوئی بھی اخذ نہیں کرتا کہ اس جدوجہد ہی کو ترک کر دیا جائے، بلکہ سب یہی کہتے ہیں کہ اب تک کی گئی کوششوں کا جائزہ لیا جاتا رہے، کمی اور خامی کو دور کیا جائے اور مزید بہتری کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ اسی اصول کا اطلاق مروجہ اسلامی بینکاری پر بھی کیا جانا چاہیے۔
۹۔ کہا جاتا ہے کہ اسلامی بینکاری رائج کرنے کے لیے حیلوں کو صرف عبوری دور اور مخصوص حالات کے لیے جائز کہہ کر قبول کیا گیا تھا، لیکن اب اس عبوری دور کو مستقل بنا دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ مخصوص حالات تو اب بھی وہی ہیں۔ اسلام دشمن عالمی اقتصادی نظام کا غلبہ وتسلط قائم ہے۔ جب حق تعالیٰ اپنی قدرت اور مہربانی سے بہتر اور موزوں حالات پیدا فرما دیں گے تو عبوری دور بھی ختم ہو جائے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مروجہ اسلامی بینکاری کو بالکل ختم کر دیا جائے اور پہلے سے جاری مکمل سودی بینکاری نظام کو مستقل طور پر جاری رہنے دیا جائے اور گویا اسے قبول کر لیا جائے (اس لیے کہ اسباب کی دنیا میں مستقبل قریب میں اس کے ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے)۔
۱۰۔ دور جدید میں پیش آنے والے مشکل اور پیچیدہ مسائل کو اسلامی بنانے کے سلسلے میں ایک عام اصول کا ذکر کیاجاتا ہے۔ ہر دور میں مشکل اور دقیق مسائل و معاملات کو سمجھنے اور ان کا شریعت کی روح کے مطابق اسلامی وشرعی حل بتانے کے لیے صرف عام علمی قابلیت کی نہیں، بلکہ خاص اجتہادی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ خاص اجتہادی صلاحیت، ہر دور میں تمام علما و مفتیان کرام کو نہیں، صرف گنتی کے چند ممتاز افراد کو حاصل ہوتی ہے۔ ( دنیاوی علوم کی مہارت کا بھی یہی اصول نظر آتا ۔ہے مثلاً آئینی امور کے ماہر سارے وکلا نہیں بلکہ گنتی کے چند صاحبان سمجھے جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں جب بھی اہم آئینی مقدمات کی سماعت ہوئی، آئینی تشریحات کے لیے چند سینئر ترین آئینی ماہرین ہی پیش ہوتے رہے، حالانکہ آئین ایک چھوٹی سی کتاب ہے) یہ صلاحیت بہت کم حضرات میں قدرتی اور وہبی طور پر پائی جاتی ہے۔ اس اہم بات کی وضاحت کے لیے حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب ؒ کی ایک مختصر مگر پُر مغز تصنیف سے چند اقتباسات نقل کیے جاتے ہیں۔ آپ تحریر فرماتے ہیں :
’’پھر فقہاے صحابہ میں فرق مراتب تھا کہ بعض کے ذہن کی رسائی بہت گہری تھی اور بعض کی اس سے کم ۔۔۔ نصوص کے سمجھنے میں فہم و متفاوت ہوتے ہیں، کوئی ظاہر نص تک رہ جاتا ہے، کوئی بطن نص تک پہنچ جاتا ہے ۔۔۔ اسی طرح کائنات امر کے سلسلہ میں بھی نہ ہر فہیم و ذہین مجتہد ہو سکتا ہے نہ ہر دو ر میں مجتہد پیدا ہوتے ہیں بلکہ حکمت ربانی جب کبھی تدین کے کسی مخفی گوشہ کو نمایاں کرنا چاہتی ہے تو خاص خاص ذہنیت کے افراد پیدا کر کے ان کے قلوب میں ذوق اجتہاد ڈالتی ہے اور وہ اپنے خاص وہبی ذوق سے تدین کے ان پہلوؤں کو واضح اور صاف کر کے اور گویا بال کی کھال نکال کر اُمت کے سامنے پیش کر دیتے ہیں جن کے اظہار کی ضرورت ہوتی تھی ۔۔۔ یہ فہم کوئی اکتسابی چیز یا فن نہیں ہے جسے محنت سے حاصل کر لیا جائے بلکہ وہ ملکہ ایک عطاے الٰہی ہے جو خاص خاص افراد امت کو عطا ہوتا ہے، بعینہ اسی طرح جیسے رسالت و نبوت کوئی فن نہیں کہ جس کاجی چاہے محنت کرکے نبی بن جائے ۔۔۔ بہر حال اتنا واضح ہو گیا کہ امت کے لیے ایک درجہ علم خفی کا بھی پیغمبر نے وراثت میں چھوڑا ہے جو کلیات سے استخراج مسائل اور جزئیات سے استنباط دلائل کا ہے او راس کے لیے افراد مخصوص ہیں۔ نیز وہ ایسے مواقع کے لیے ہے کہ یا نص ہی موجود نہ ہو، یا ہو مگر معانی مختلفہ کو محتمل ہو یا متعین المحل ہو مگر یہ محل دقیق اور غامض ہو یا محل بھی واضح ہو مگر اس کی علت مستور ہو جس کا انکشاف ہر فہم نہ کر سکتا ہو۔ تو ایسے مواقع پر بجز اجتہاد و استنباط کے چارہ کا ر نہیں۔‘‘ ( اجتہاد اور تقلید، ص ۳۸ تا ۴۷)
اختلاف کا اصولی حل
مخلص ومحقق اور معتبر اکابر علماے کرام کے درمیان کسی مسئلہ کی تحقیق کے سلسلے میں جب اختلاف ہو جائے تو ان گزرے ہوئے بزرگ اکابر حضرات رحمہم اللہ تعالیٰ کے ارشادات میں مکمل راہنمائی موجود ہے۔ حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ ارشاد فرماتے ہیں:
’’مسئلہ یہ ہے کہ اگر جنگل میں چار آدمی ہوں اور نماز کا وقت آ جاوے اور قبلہ معلوم نہ ہو سکے تو ایسی حالت میں شرعاً جہت تحری قبلہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خوب سوچ لینا چاہیے، جس طرف قبلہ ہونے کا ظن غالب ہو، اسی طرف نمازپڑھ لینی چاہیے۔ اب فرض کیجیے کہ ان چاروں آدمیوں میں اختلاف ہوا۔ ایک کی راے پورب کی طرف، ایک کی پچھم کی جانب، ایک کی دکھن، ایک کی اتر کی طرف قبلہ ہونے کی ہوئی تو اب مسئلہ فقہ کا یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی راے پر عمل کرنا چاہیے اور جس سمت کو اس کی راے میں ترجیح ہو، وہ اسی طرف نماز پڑھے۔ اگر دوسرے کی راے کے موافق پڑھے گا تو نماز نہیں ہوگی، خواہ وہ سمت واقع میں صحیح ہی کیوں نہ ہو۔ اب یہ بات صریحاً ظاہر ہے کہ سمت صحیح کی طرف ان چاروں میں سے ایک ہی کی نماز ہوئی ہوگی، لیکن عند اللہ سب ماجور ہیں۔ ...... ان دونوں نظیروں سے ثابت ہو گیا کہ اختلاف کی حالت میں جس کا بھی اتباع کیا جائے گا، حق تعالیٰ کے نزدیک وہ مقبول ہے، حتیٰ کہ اگر خطا پر بھی ہے تب بھی کوئی باز پرس نہیں بلکہ اجر ملے گا تو ثابت ہو گیا کہ دین کے راستے میں کوئی ناکام نہیں، بلکہ اگر وہ مقلد ہے تو اس کو معذور سمجھا جائے گا اور اگر مجتہد ہے تو اس پربھی ملامت نہیں بلکہ ایک اجر اس خطا کی صورت میں بھی ملے گا۔ ...... علماے حقانی کے اختلاف کے بارے میں پہلے اس کی تحقیق کر لو کہ دونوں علما حقانی ہیں یا نہیں، جب تحقیق ہو جاوے کہ دونوں حقانی ہیں تو اب دونوں کی اتباع میں گنجایش ہے، جس کی بھی موافقت کر لی جائے گی، تعمیل حکم ہو جائے گی اور وہ موجب رضاے خدا ہوگی۔‘‘ (خطبات، اصلاح اعمال ص ۱۳۶ طبع اشرفیہ ملتان)
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب نور اللہ مرقدہ ارشاد فرماتے ہیں:
’’حضرت عمر بن عبد العزیز کا مقولہ گزر چکا کہ ’’صحابہ کرام کے کسی مسئلہ میں اتفاق سے مجھے اتنی خوشی نہیں ہوتی جتنی اختلاف سے‘‘ کیونکہ اختلاف کی وجہ سے گنجایش رہتی ہے۔ یہ اختلاف بڑی مبارک چیز ہے، البتہ مخالفت بری چیز ہے۔ میرے والد صاحب کو حضرت گنگوہیؒ اور حضرت سہارنپوریؒ سے جو تعلق تھا، وہ سب کو معلوم ہے، مگر بعض مسائل میں ان حضرات سے اختلاف بھی تھا۔ میرے حضرت سہارنپوریؒ بعض لوگوں سے خود فرما دیتے تھے کہ فلاں چیز میرے نزدیک جائز نہیں، لیکن مولوی یحییٰ صاحب کے نزدیک جائز ہے۔ تیرا دل چاہے، اوپر جا کر ان سے پوچھ لو اور اس کے موافق عمل کرو۔ خود میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا کہ حضرت کے اخیر زمانہ میں شعبان کے گڑبڑ سے یہ بحث شروع ہوئی کہ آج مطلع صاف ہے، تیس روز پورے ہو جانے کے عد اگر شام کو رویت نہ ہوئی تو کل روزہ رکھنا چاہیے یا نہیں؟ حضرت کا ارشاد مبارک تھا کہ شعبان کے چاند میں جس شہادت پر مدار تھا، بعض وجوہ سے شرعی حجت نہ تھی، اس لیے روزہ ہے اور میرا ناقص خیال تھا کہ وہ حجت شرعی سے صحیح ہے، اس لیے کل کا روزہ نہیں ہے۔ دن بھر بحث رہی۔ شام کو چاند نظر نہ آیا۔ حضرت نے طے فرما دیا کہ میں روزہ رکھوں گا۔ میں نے عرض کیا میرے لیے کیا ارشاد ہے؟ فرمایا کہ میرے اتباع کی ضرورت نہیں، سمجھ میں آ گیا ہو تو روزہ رکھو ورنہ نہیں۔ بالآخر حضرت کا روزہ تھا اور میرا افطار۔ حضرت کے خدام میں متعدد ایسے تھے جنھوں نے افطار کیا اور متعدد نے روزہ رکھا۔ حضرت نے ان سے دریافت بھی نہ فرمایا کہ تم نے افطار کیوں کیا؟‘‘ (تیس مجالس ص ۱۸۰، طبع عمران اکیڈمی اردو بازار لاہور)
حضرت اقدس مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ علما و مفتیان کرام کے لیے تحریر فرماتے ہیں :
’’اختلاف نظر کا وقوع شرعاً و عقلاً لازم ہے اور حدود شرعیہ کے اندر محمود ہے ۔ اس بارے میں میرا ایک مستقل رسالہ ہے ’’کشف الخفاء عن حقیقت اختلاف العلماء ‘‘ اس حقیقت کو ذہن نشین کر کے حدود شرعیہ کے اندر اختلاف نظر کے تحمل کی عادت ڈالیں ۔ اللّہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :و انزلنا الیک الذکر لتبین للناس مانزل الیہم ولعلہم یتفکرون (۱۶۔ ۴۴) اس میں اس حقیقت کی وضاحت ہے کہ رسول اللّہ ﷺ کی تبیین و تشریح کے بعد بھی کئی احکام میں تفکر کی ضرورت پیش آئے گی اس میں تفکر کی دعوت ہے اور تفکر میں تو لازماً اختلاف ہو گا۔ رسول اللّہ ﷺ کی حیات میں ایسے قصے پیش آئے کہ صحابہ کرامؓ کا آپس میں کئی مسئلے پر اختلاف ہو تو ہر ایک نے اپنی رائے پر عمل کیا ۔۔۔ حضرات فقہاء رحمہم اللُہ تعالیٰ مختلف تحقیقات نقل فرمانے کے بعد اپنی رائے پیش کر دیتے ہیں! دوسروں پر زیادہ جرح اور ر دّو قدح نہیں کرتے ۔ علامہ ابن عابدین ؒ ’’شرح عقود رسم المفتی ‘‘ میں بار بار لٰکن لٰکن لٰکن کے تحت اقوال مختلفۃ نقل کرتے چلے جاتے ہیں کہ آخری فیصلہ کرنامشکل ہو جاتا ہے ۔ ان حضرات میں سے کسی کا یہ اصرار نہیں ہوتا کہ جو میں کہہ رہا ہوں لازماً وہی قبول کیا جائے ۔۔۔ حضرت امام ؒ کا یہ طریقہ تھا کہ اپنے تلامذہ کے ساتھ کسی مسئلہ پر غور فرماتے ،بعض مسائل پر کئی کئی دن اجتماعی غور وفکر کے باوجود بھی اتفاق نہ ہوتا تو فرماتے کہ سب دو دو رکعت نفل پڑھیں،نفل پڑھ کر پھر مسئلے پر غور فرماتے اگر پھر بھی اتفاق نہ ہوتا تو فرماتے کہ ہر ایک اپنی تحقیق کے مطابق عمل کرے، استاذ اپنے تلامذہ سے فرما رہے ہیں کہ تحقیق کے بعد اپنی اپنی رائے پر عمل کریں، ختلاف نظر کا تحمل کریں تحمل کی عادت ڈالیں ۔۔۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ گلے سے پکڑے ہی رہے چھوڑے ہی نہیں،تحقیقات ہو گئیں، غور و فکر ہو گیا بحث ہو گئی اب اگر اتفاق ہو تاہے تو ٹھیک اور نہیں ہوتا تو کچھ حرج نہیں ۔۔۔ حضرت گنگوہی ؒ کے پاس کوئی مسئلہ پوچھنے آتا اُسے مسئلہ بتا کر یہ بھی فرما دیتے کہ فلاں کی رائے اس مسئلہ میں میری رائے کے خلاف ہے چاہو تو ان کی رائے پر عمل کر لو ۔۔۔ عوام کے سامنے دوسرے علما پر جرح نہ کریں، علما کے اختلاف کو عوام میں شائع کرنا جائز نہیں۔‘‘ (جواہر الرشید۶:۲۹ ۔۳۳)
آخر میں ایک التجا اور درخواست ہے ،جو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ دل میں ہے، کہ اس تحریر میں اکابر علماے کرام کے ارشادات سمجھ کر بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کی حیثیت بالکل اسکول کے طالب علم کی اُس تحریر کی ہے جو ایک مضمون لکھ کر اپنے خیر خواہ مربی استاد کے سامنے اصلاح کی غرض سے پیش کر دیتا ہے اور مربی استاد طالب علم کو اصلاح کے مشوروں سے نواز دیتا ہے۔ یہاں بھی خیر خواہ اکابر کے مشورہ کی اُمید ہے۔