آراء و افکار

ویڈیو کیمرے کی فقہی حیثیت

ادارہ

(ویڈیو کیمرے سے بنائی جانے والی تصویر کا مسئلہ ہمیشہ سے اختلافی رہا ہے۔ اہل علم کا ایک گروہ اسے ناجائز قرار دینے پر مصر ہے جبکہ دوسرا طبقہ فی نفسہ اس کے مباح ہونے کا قائل ہے۔ اس ضمن میں شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ کے نقطہ نظر کی وضاحت پر مبنی ایک تحریر یہاں شائع کی جا رہی ہے۔ مدیر)۔ استفسار۔ گرامی قدر حضرت والد صاحب دام مجدہم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ کچھ عرصہ سے یہ بات گردش کر رہی ہے کہ آپ شادی کی کسی ایسی تقریب میں شریک تھے جہاں ویڈیو کیمرہ سے تصویریں بنائی جا رہی تھیں۔ اس میں آپ کی تصاویر بھی بنائی گئیں۔ آپ نے ان کو...

قورح، قارون: ایک بے محل بحث

ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی

دسمبر ۲۰۰۵ ؁ء کے ’الشریعہ‘ میں میرا ایک دعوتی واصلاحی نوعیت کا مضمون ’’قرآن کا نظریہ مال ودولت قصہ قارون کی روشنی میں‘‘ شائع ہو اتھا جس میں ضمناً قارون کو بائبل (توراۃ) کا قورح بتایا گیا تھا اور اس کے لیے کوئی حوالہ ضروری نہیں سمجھا گیا تھا، کیونکہ عصر حاضر کے متعدد مترجمین ومفسرین قرآن مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ ، مولانا عبدالماجد دریا بادیؒ اور عبد اللہ یوسف علی نے اپنی تفاسیر میں قارون کو بائبل کا قورح کہا ہے اور یہی عبدالوہاب النجار ازہری علما نے اپنی کتاب قصص الانبیاء میں لکھا ہے۔ (ص ۱۹۲) البتہ میں نے توراۃ کی کتاب ’’گنتی‘‘کے...

مذہبی انتہا پسندی اور اس کا تدارک

پروفیسر اختر حسین عاصم

صاحب کتاب جناب ڈاکٹر ہمایوں عباس شمس نے اپنی کتاب’’مذہبی انتہا پسندی اور اس کا تدارک تعلیمات نبویﷺ کی روشنی میں‘‘ میں اس دور کا ایک انتہائی حساس موضوع چھیڑا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس موضوع پر خوب غوروفکر کیاجائے اور امت کا صاحب دانش اورصاحب علم طبقہ بالخصوص اجتماعی طور پر اس عمل میں شریک ہو۔اس موضوع کے مختلف پہلو سامنے لائے جائیں اور ایک ٹھوس لائحہ عمل تجویز کیاجائے۔یہ بات خوش آئندہے کہ ہمارے نوجوان اسکالر نے اس سلسلے میں قلم اٹھایا ہے۔ ہوسکتاہے کہ ان کی یہ تحریر اس عمل کے لیے مہمیز کا کام دے جائے۔ مصنف نے اپنی اس کتاب کو تین ابواب میں...

اصولوں پر تنقید

طالب محسن

حافظ زبیر صاحب کا ایک طویل مضمون ’الشریعہ‘ (مئی ۲۰۰۶) میں شائع ہوا ہے۔ اس مضمون میں حافظ صاحب نے استاد محترم جناب جاوید احمد صاحب غامدی کے ’’اصولوں‘‘ پر تنقید کی ہے اور بعض اطلاقی مسائل کو بھی بطور مثال زیر بحث لائے ہیں۔ ہم ان اطلاقی مسائل مثلاً رجم کی سزا، حضرت مسیح کی دوبارہ آمد اور دجال وغیرہ پر بحث کو اس وقت تک کے لیے مؤخر کر رہے ہیں جب تک اصول کی بحث مکمل نہیں ہوجاتی۔ حافظ صاحب کے مضمون کا اصولوں سے متعلق حصہ، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ استاد محترم کی کتاب ’’اصول ومبادی‘‘ کے مندرجات پر تنقید نہیں ہے، بلکہ انھوں نے بعض غیر متعلق اقتباسات...

غامدی صاحب کے اصولوں کا ایک تنقیدی جائزہ

حافظ محمد زبیر

’الشریعہ‘ کے جنوری ۲۰۰۶ کے شمارے میں ڈاکٹر محمد امین صاحب کے مضمون کے جواب میں غامدی صاحب کی تائید میں لکھی جانے والی دو تحریریں نظر سے گزریں ، جن کے حوالے سے کچھ گزارشات اہل علم کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ جناب طالب محسن صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ انھوں نے اپنے خط میں ایک بڑی اچھی بات کہی ہے کہ غامدی صاحب پر کی جانے والی تنقیدیں عام طور پر طعن وتشنیع اور تضحیک و استہزا پر مبنی ہوتی ہیں اور صاحب تنقید اپنے لیے قلمی جہاد کا جواز فراہم کرتے ہوئے نوک قلم سے اپنے ہی علم و تقویٰ کا خون کر ڈالتا ہے ۔لیکن کاش کہ طالب محسن صاحب جناب غامدی صاحب کو بھی...

قورح، قارون اور کتاب زبور

محمد یاسین عابد

ماہنامہ الشریعہ کے دسمبر ۲۰۰۵ کے شمارے میں ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی صاحب نے دعویٰ کیا تھا کہ: ’’توراۃ میں بھی قارون کا ذکر ہے لیکن اس میں اس کا ذکر بالکل مختلف انداز سے ہے۔ اس میں اس کی فراوانی دولت کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو متنبہ (Challenge) کیا تھا اور کہا تھا کہ تم اپنے آپ کو اللہ کا برگزیدہ بندہ کہتے ہو اور میں بھی برگزیدہ ہوں کیونکہ مال ودولت میں تم سے زیادہ ہوں۔ (توراۃ، کتاب گنتی، اصحاح ۱۶) .......’’توراۃ کی مذکورہ کتاب اور اسی فصل میں قارون کے خزانے کی تفصیل میں ہے کہ ’’اس کے خزانے کی کنجیاں چمڑے کی...

بائبل کا قورح ہی قرآن کا قارون ہے

ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی

محمد یاسین عابد صاحب نے ’الشریعہ‘ کے فروری ۲۰۰۶ کے شمارے میں میرے ایک مضمون’’قرآن کا نظریہ مال ودولت قصہ قارون کی روشنی میں‘‘ (الشریعہ، دسمبر ۲۰۰۵) کو تنقید سے نوازا ہے اور متعدد سوالات اٹھائے ہیں۔ افسوس کہ ان کا انداز بیاں بڑا جارحانہ اور علمی حیثیت سے گرا ہواہے ۔وہ فرماتے ہیں: ’’غالباً ڈاکٹر صاحب نے کبھی بائبل کھول کر نہیں دیکھی اور سنی سنائی اور غیر مستند معلومات کی بنیاد پر مذکورہ عبارت تورات کی طرف منسوب کر دی۔‘‘ اب میں تو کوئی جارحانہ اسلوب اختیار نہیں کرتا، ہاں اتنا ضرور کہوں گا کہ وہ کبھی کراچی آئیں اور میرا نسخہ بائبل دیکھیں...

کیا ’قارون‘ اور ’قورح‘ ایک ہی شخصیت ہیں؟

محمد یاسین عابد

’الشریعہ‘ دسمبر ۲۰۰۵ء میں ’’اسلام کا نظریہ مال ودولت قصہ قارون کی روشنی میں‘‘ کے زیر عنوان ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی صاحب کا مضمون نظر سے گزرا۔ اس مضمون کے بعض مندرجات ہمارے نزدیک محل نظر ہیں جن کی وضاحت درج ذیل سطور میں کی جا رہی ہے۔ بہت سے علما کی طرح ڈاکٹر صاحب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر (القصص ۷۶۔۷۹، العنکبوت ۳۹، المومن ۲۴) قارون نامی جس سرمایہ دار کا ذکر ہے، وہ وہی شخصیت ہے جس کا نام بائبل میں (گنتی ب ۱۶ و ۲۶:۱۰، خروج ۶: ۲۱، ۱۔تواریخ ۶:۲۲) قورح بتایا گیا ہے۔ یہ بات درست نہیں۔ بائبل کے معروف عالم جناب محمد اسلم رانا...

ماہنامہ ’الشریعہ‘ اور جناب جاوید احمد غامدی

آصف محمود ایڈووکیٹ

(۱) کیا جناب جاوید احمد غامدی مرزا غلام احمد قادیانی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور کیا تعبیر دین میں وہ مرزا غلام احمد کی متعین کردہ راہوں کے راہی ہیں؟ جناب مولانا زاہد الراشدی جیسے جید عالم دین کی زیر نگرانی شائع ہونے والے ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے مطابق اس کا جواب اثبات میں ہے۔ ’’چھڑکے ہے شبنم آئینہ برگ گل پر اب، اے عندلیب وقت وداع بہار ہے‘‘۔ ’’الشریعہ‘‘ کسی دوسرے درجے کے رسالے کا نام نہیں، بلکہ مبالغہ نہ ہو تو میں اسے پاکستان کے چند نمایاں ترین علمی جرائد میں شمار کروں گا۔ جناب عمار خان ناصر بڑی محبت سے ہر ماہ مجھے اس کا شمارہ بھیجتے...

آفتاب عروج صاحب کے خیالات پر ایک نظر

محمد شکیل عثمانی

ماہنامہ الشریعہ اکتوبر ۲۰۰۵ میں اہل تشیع کی تکفیر کے سلسلے میں آفتاب عروج صاحب کا مضمون پڑھا۔ موصوف غلام احمد پرویز صاحب کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور منیر رپورٹ سے استدلال، بحیثیت مجموعی طبقہ علما کی مذمت اور صرف قرآن کو اتحاد ملت کی اساس قرار دینا اس گروہ کی خاص تکنیک ہے۔ آفتاب عروج صاحب نے منیر رپورٹ کے حوالے سے علما پر یہ گھسا پٹا اعتراض دہرایا ہے کہ وہ فسادات پنجاب (۱۹۵۳) کی تحقیقاتی عدالت کے سامنے مسلمان کی متفقہ تعریف پیش نہیں کر سکے تھے۔ منیر رپورٹ سیکولر اور نام نہاد روشن خیال اعتدال پسندوں، منکرین سنت ، قادیانیوں اور مستشرقین...

ناقدین کی خدمت میں (۱)

طالب محسن

استاد محترم جناب جاوید احمد غامدی کے افکار وآرا پر بہت سی تنقیدیں لکھی گئی ہیں اور آئندہ بھی لکھی جائیں گی۔ عام طور پر یہ تنقیدیں محض دشنام طرازی، طعن وتشنیع اور تضحیک واستہزا پر مبنی ہوتی ہیں۔ کچھ اندیشوں اور خدشات کو بنیاد بنا جاتا ہے۔ کچھ اندازے قائم کیے جاتے ہیں جو سراسر سوء ظن پر مبنی ہوتے ہیں۔ کچھ مقاصد طے کیے جاتے ہیں جن کا کوئی ثبوت کسی قول وتحریر میں نہیں ہوتا۔ اور اس طرح صاحب تنقید اپنے لیے قلمی جہاد کا جواز فراہم کرتااور نوک قلم سے اپنے ہی علم وتقویٰ کا خون کر ڈالتا ہے۔ ’المورد‘ میں، چھپنے والی ان تنقیدوں کو غور سے پڑھا جاتا ہے...

ناقدین کی خدمت میں (۲)

حافظ محمد عثمان

’الشریعہ‘ کے دسمبر کے شمارے میں ڈاکٹر محمد امین صاحب کا مضمون ’اسلام اور تجدد پسندی‘ پڑھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں مغربی تہذیب کے حوالے سے تین رویوں کا ذکر کیا ہے اور ان میں سے دوسرے رویے پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’دوسرے وہ حلقہ فکر جو فکری مرعوبیت کا شکار ہو گیا اور ا س نے مغربی تہذیب اور اس کے اصولوں کی ’بڑائی‘ کے آگے سر تسلیم خم کر دیا اور وہ اس چیز کا علم بردار بن گیا کہ اپنے نظام فکر وعمل کو بدل کر اسے اس نئی اور غالب تہذیب سے ہم آہنگ کر دے۔‘‘ اس دوسرے نقطہ نظر کے حاملین میں ڈاکٹر صاحب نے جاوید احمد غامدی صاحب کو بھی شامل...

مِتھ کی بحث پر ایک نظر

پروفیسر میاں انعام الرحمن

محترمہ شاہدہ قاضی ، جو جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغِ عامہ میں تدریس کے فرائض سر انجام دے رہی ہیں ، ان کا روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والا ایک مضمون نہایت دلکش ترجمے کی صورت میں ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے مئی ۲۰۰۵ کے شمارے کی زینت بنا۔ یہ مضمون مجموعی طور پر بہت عمدہ اور مضبوط دلائل پر مشتمل تھا ۔ محترمہ کے پیش کردہ بعض تاریخی حقائق میں ’افسانوی رنگ‘ ڈھونڈنے کی ’جسارت‘ روزنامہ ’جسارت‘ کے کالم نگار جناب شاہ نواز فاروقی نے کی۔ ’الشریعہ‘ نے بحث کے مختلف، متنوع اور متضاد پہلوؤں کو سامنے لانے کی درخشندہ روایت برقرار رکھی اور ’جسارت‘ کی جسارت کو جولائی...

انسان کا حیاتیاتی ارتقا: نظریہ یا حقیقت؟

پروفیسر محمد عمران

سائنسی اصطلاح میں ارتقا ایک ایسا عمل ہے جس میں موجودہ دور کے پودے اور جانور ماضی کی اقسام سے، مختلف اور بتدریج تبدیلیوں کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں۔ ارتقا کے بارے میں مختلف لوگوں نے مختلف نظریات پیش کیے ہیں، لیکن عام طور پر ڈارvن کے نظریہ ارتقا کو زیادہ پزیرائی ملی ہے۔ ارتقا کے تصور کو سمجھنے کے لیے ہمیں ان نظریات پر بھی ایک نظر ڈالنی ہوگی۔ یونانی فلسفیوں میں سے جن لوگوں نے شروع میں ارتقا کے نظریات پیش کیے، ان میں انیکسی مینڈر، زینو فینز، ایمیڈوکلس اور ارسطو نمایاں ہیں۔ انیکسی مینڈر نے چھٹی صدی قبل مسیح میں یہ نظریہ پیش کیا کہ انسان ایک مچھلی...

اہل تشیع کی تکفیر کا مسئلہ

ادارہ

(۱) ماہنامہ الشریعہ شمارہ مئی ۲۰۰۵ میں محترم ڈاکٹر محمد امین صاحب کا مضمون بعنوان ’’شیعہ سنی تنازع اور اس کا پائیدار حل‘‘ نظر نواز ہوا۔ سب سے پہلے تو میں محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب کی خدمت اقدس میں سلام پیش کرنا چاہوں گا کہ فرقہ واریت کے اس لرزہ خیز اور بھیانک دور میں اور بذات خود بھی ایک فرقہ سے متعلق ہو کر ان کے نہاں خانہ دل میں ’’اتحاد بین المسلمین‘‘ کے تصور کا پیدا ہونا ہی ایک بہت بڑی قلب ماہیت ہے۔ اس کی جس قدر بھی ستایش کی جائے، کم ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں استقامت عطا فرمائیں، ان کی حفاظت فرمائیں۔ میری مسلم امہ سے مایوسی کی تاریک...

اسلام اور نظریہ ارتقا

پروفیسر میاں انعام الرحمن

ماہنامہ الشریعہ کے ستمبر ۲۰۰۵ کے شمارے میں ڈاکٹر محمد آصف اعوان صاحب کا مضمون ’’ انسان کا حیاتیاتی ارتقا اور قرآن ‘‘ نظر سے گزرا۔ اس میں ڈاکٹر صاحب نے مختلف اہلِ قلم کی آرا کی روشنی میں انسان کے حیاتیاتی ارتقا کو جیسے تیسے ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ غیر ارضی مظاہر (جیسا کہ انسان کی تخلیق) کو ارضی سیاق و سباق میں کیسے اور کیونکر سمجھا جا سکتا ہے ؟ اس مضمون کے مندرجات صاف چغلی کھا رہے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کے ذہن میں ڈارون کا نظریہ ارتقا ہی غوطے کھا رہا ہے ، جسے اب علمی حلقوں میں متروک خیال کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اگر ماہرِ حیاتیات...

تاریخی افسانے اور ان کی حقیقت

یوسف خان جذاب

جولائی ۲۰۰۵ کے ’الشریعہ‘ میں شاہ نواز فاروقی صاحب کی تحریر، جو انھوں نے پروفیسر شاہدہ قاضی کے مضمون ’’تاریخی افسانے اور ان کی حقیقت‘‘ کے جواب میں لکھی ہے، نظر سے گزری۔ پروفیسر شاہدہ قاضی صاحبہ نے اپنے مذکورہ مضمون میں جو کچھ لکھا، اس سے کلی اتفاق تو نہیں کیا جا سکتا، لیکن انگریزی کے اس فقرے کے مصداق کہ: Allegations are not facts, but they are based on facts، (الزامات حقائق تو نہیں ہوتے، لیکن حقائق پر مبنی ضرور ہوتے ہیں) ان کے مضمون کے سمندر میں حقائق کے موتی تہہ نشیں تھے جس سے ان کی حب الوطنی، اسلام سے ان کے لگاؤ اور حقیقت پسندی پر ان کے غیر متزلزل ایمان کا اندازہ...

انسان کا حیاتیاتی ارتقا اور قرآن

ڈاکٹر محمد آصف اعوان

قرآن پاک کا بغور مطالعہ کرنے سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ ارتقا سنتِ الٰہی ہے اور کارخانہ قدرت میں ہر سو اسی کی کارفرمائی ہے ۔اللہ اپنی ربوبیت سے مختلف انواع کو پیدا کرتا ،انہیں تاریخی مراحل سے گزارتا اور اکملیت کی جانب گامزن رکھتا ہے ۔اللہ اگر چاہے تو کسی بھی چیز کو فوراً مکمل حالت میں نیست سے ہست میں لے آئے لیکن ایسا کرنا اس کی شانِ ربوبیت کے خلاف ہے ۔خلیفہ نصیرالدین صدیقی اپنی کتاب "The Quran And the World Today"میں لفظ ’’ِ رب‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے رقمطراز...

غیر مادی کلچر میں عورت کے سماجی مقام کی تلاش

پروفیسر میاں انعام الرحمن

جب سے یہ کائنات بنی ہے اور جب سے انسان نے زمین پر قدم رکھا ہے ، تب سے اس ارضِ رنگ و بو میں خیر و شر کا معرکہ برپا ہے ۔ اب تک کی معلوم تاریخ کی یہی مختصر داستان ہے۔ اگر ہم انسانی تاریخ کے مخصوص احوال و ظروف پر عمیق نظر رکھتے ہوئے اس کی معنوی شناسائی کے درپے ہوں تو معلوم تاریخ، انسانیت کی جستجو سے عبارت دکھائی دے گی ۔ حقیقت یہ ہے کہ نوعِ انسانی کئی صدیوں سے اپنی ضروریات کے جبر اور تخیلات کی پرواز کے ذریعے مادی کلچر کو منصہ شہود پر لا رہی ہے۔ تلوار، ٹینک، بندوق، ہل، ٹریکٹر، جہاز اور میزائل سے لے کر تفریحی کھیلوں اور آرٹ کے متجسم نمونوں تک انسانی ترقی...

عوامی مفاد کے لیے قبرستان اور مسجد کی جگہ کا استعمال

قاضی محمد رویس خان ایوبی

میر پور میں بطور ضلع مفتی فرائض کی انجام دہی کے چودہ سالہ عرصہ میں بہت سے مسائل سامنے آئے جن پر راقم نے وقتاً فوقتاً شریعت مطہرہ کی روشنی میں جوابات دے کر اور شرعی فتاویٰ جاری کر کے فقہاء اسلام کا نقطہ نظر پیش کیا۔ ان مسائل میں ٹیلی فون پر نکاح وطلاق کی شرعی حیثیت، سرکاری زمینوں پر بغیر اجازت مسجد کی تعمیر، کفار کی عدالتوں کے فیصلہ ہائے تنسیخ نکاح کی شرعی حیثیت، مقدمات زنا میں شرعی ثبوت دست یاب نہ ہونے پر ملزمان کے خلاف کارروائی، حدود آرڈیننس کی خامیاں اور خوبیاں اور دیگر بے شمار انفرادی واجتماعی مسائل زیر بحث آئے۔ ان سطور میں جس موضوع پر...

میڈم شاہدہ قاضی کے افسانے اور حقیقت

شاہ نواز فاروقی

ان دنوں پاکستان میں اسلام، اسلامی تاریخ اور تاریخ پاکستان کے ’’مزے‘‘ آئے ہوئے ہیں۔ کوئی اسلام کو مشرف بہ اعتدال کرنے پر لگا ہوا ہے، کسی نے اسلامی تاریخ کو مشرف بہ حقیقت کرنے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے اور کوئی تاریخ پاکستان کی چولیں درست بٹھانے کے لیے کوشاں ہے۔ نتیجہ یہ کہ ریڈیو اسٹیشنز ہوں یا ٹیلی ویژن چینلز، اخبارات ہوں یا رسائل وجرائد، ہر طرف علم، تحقیق اور فکر کے دریا بہہ رہے ہیں اور ہم جیسوں کا حال Alice in wonder land کی ایلس جیسا ہے۔ کبھی حیران ہو رہے ہیں اور کبھی پریشان۔ جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ کی پروفیسر شاہدہ قاضی نے ڈان کراچی کی ۲۷ ؍مارچ...

تغیر پذیر دنیا اور مسلم ثقافت کی داخلی نفسیات

پروفیسر میاں انعام الرحمن

ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے جون ۲۰۰۵ کے شمارے میں جناب لوئ ایم صافی کا نہایت فکر انگیز مضمون نظر سے گزرا۔ فاضل مضمون نگار نے معروضیت کے تقاضے نبھاتے ہوئے مسلم ثقافت کی داخلی نفسیات کی مختلف پرتوں کو بہت تدبر، بصیرت اور گہرائی سے کھول کھول کر بیان کیا ہے۔ پوسٹ ماڈرن کلچر سے مسلم ثقافت کی اثر پذیری کے حوالے سے دو متضاد رویوں کے حامل گروہوں یعنی روایت پسندوں اور ترقی پسندوں کے نقطہ ہائے نظر اور پھر ان کی تحلیل بھی لوئ ایم صافی نے کمال غیر جانب داری سے کی ہے۔ ہماری رائے میں عالمگیریت کی موجودہ فضا میں ان دو متضاد رویوں کا تجزیہ وتنقیح ایک اور زاویے...

’’سر اقبال‘‘ بنام ’’حسین احمد‘‘ ۔ ماضی کی ایک کہانی کا معما ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب کی روشنی میں

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی

کتابیں لکھے اور چھاپے جانے کی موجودہ گرم بازاری میں اگر کوئی واقعی ’’کتاب‘‘ ہاتھ آ جائے تو کچھ زیاہ ہی اچھی معلوم ہونا قدرتی بات ہے۔ علامہ اقبال کے سوانح حیات میں علامہ کے فرزند ارجمند جسٹس (ریٹائرڈ) ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کے قلم سے نکلی ہوئی ’’زندہ رود‘‘ ایک ایسی ہی کتاب کہی جانے کی مستحق ہے۔ کتاب گو تازہ بتازہ نہیں، مگر راقم سطور کے ہاتھ میں وہ گزشتہ دنوں ہی آئی۔ تین جلدوں میں ہونے کے باوجود دلچسپی کو آخر تک قائم رکھنے والی۔ برصغیر کے پڑھے لکھے لوگوں میں کم ہی ہوں گے جنھیں علامہ کی شاعری سے دلچسپی نہ رہی ہو۔ تھوڑی بہت راقم سطور کے حصہ...

تاریخی افسانے اور ان کی حقیقت

پروفیسر شاہدہ قاضی

کیا دیو مالا کا تاریخ سے کوئی تعلق ہے؟ کیا دیو مالا اور تاریخ ہم معنی الفاظ ہیں؟ یا کیا تاریخ دیومالا ہی کا نام ہے؟ یہ بات مانی جاتی ہے کہ دونوں کے مابین فرق بہت باریک سا ہے۔ نا معلوم زمانے سے انسان اپنی اساسات کی تلاش میں مصروف ہے۔ وہ اس کوشش میں بھی مصروف رہا ہے کہ قدیم زمانے کی داستانوں کی، جو ہمارے اجتماعی شعور کا حصہ بن چکی ہیں، کوئی حقیقی اور قابل فہم بنیاد تلاش کر لے۔ نتیجے کے طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ کنگ آرتھر کے وجود کو ثابت کرنے، ٹرائے شہر کا محل وقوع معلوم کرنے اور اس مقام کو دریافت کرنے کے لیے جہاں متعین طور پر کشتی نوح جا کر رکی تھی،...

’’حدود آرڈیننس: کتاب وسنت کی روشنی میں‘‘ ۔ ’’فکر و نظر‘‘ کے تبصرے کا جائزہ

ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی

فکر ونظر کے شمارہ اکتوبر۔دسمبر ۲۰۰۴ میں راقم کی کتاب ’’حدود آرڈیننس: کتاب وسنت کی روشنی میں‘‘ پر ادارۂ تحقیقات اسلامی کے نامور محقق جناب ڈاکٹر محمد طاہر منصوری کا انتہائی وقیع تبصرہ شائع ہوا جس میں جہاں انھوں نے راقم کی حقیر کاوش کو دل آویز انداز میں سراہتے ہوئے اس کا تفصیلی تعارف پیش کیا، وہاں بعض مباحث پر اپنے تحفظات کا بھی اظہار کیا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ علوم اسلامیہ سے وابستہ دیگر افراد کی طرح راقم بھی طویل عرصے تک یہی سمجھتا رہا کہ حدود آرڈیننس کتاب وسنت سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہوگا اور کبھی اس کے مطالعے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ ان قوانین...

امریکی تعلیمی اداروں میں آزادی فکر کی صورتحال

بشارہ دومانی

آپ کو کوئی کتاب خریدنی یا لائبریری سے جاری کروانی ہے تو ذرا سوچ سمجھ کر کروائیے۔ ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی، آرویلین نیمڈ پیٹریاٹ ایکٹ کے تحت آپ کی نگرانی کر سکتا ہے۔ اس قانون کی ایک اور شق کے مطابق اس بات کا بھی خطرہ موجود ہے کہ اگر کوئی شخص آپ کو خبردار کرے کہ حکومت آپ کے کتابوں کے انتخاب کی نگرانی کر رہی ہے تو اس پر فوجداری مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ کلاس روم میں مطالعے کے لیے مواد تجویز کرتے وقت بھی احتیاط کیجیے۔ چیپل ہل کی یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا پر امریکن فیملی اسوسی ایشن سنٹر فار لا اینڈ پالیسی نے اس بنیاد پر مقدمہ دائر کر دیا تھا...

قربانی کی رسم کا نفسیاتی پہلو

پروفیسر میاں انعام الرحمن

قربانی کا تصور شاید اتنا ہی قدیم ہے جتنی انسان کی معلوم تاریخ ۔ تاریخ کے ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں قربانی کی رسم موجود رہی ہے ۔ یہ رسم اپنے ظاہر میں متنوع ہونے کے باوجود کسی ایسے یکساں جذبے یا داخلی تحریک کی علامت ہے جو تمام انسانوں میں فطری طور پر موجود ہے۔ تاریخ کے صدیوں پر محیط سفر سے ان گنت مثالیں دینے کے بجائے ہم صرف اسی مثال پر اکتفا کریں گے کہ اہلِ روم دوسری پیونک جنگ تک دیوتاؤں کے حضور انسانوں کی قربانی پیش کیا کرتے تھے۔ قربانی کے اس سفاک مظہر کو معاشرے میں عمومی قبولیت حاصل تھی کیونکہ اس کے ذریعے سے لوگوں کے ایک فطری داخلی جذبے کی...

شیعو اور سنیو! تاریخ سے سبق سیکھو

علامہ سید فخر الحسن کراروی

اللہ کو ایک ماننے والو! اسلام نے تمھیں مومن اور مسلم کہا، تم نے اپنے آپ کو شیعہ اور سنی کہنا شروع کر دیا۔ اسلام نے اقرار توحید اور اقرار رسالت کو مدار اسلام قرار دیا، تم نے قبول اسلام کے لیے شرائط میں اپنی طرف سے نئے نئے اضافے کر لیے۔ اسلام نے تمھیں بنیان مرصوص، سیسہ پلائی ہوئی دیوار کہا تھا، لیکن تم نے افتراق پسندی کے باعث اس دیوار آہنی کو تار عنکبوت بنا دیا۔ اسلام نے مرد مومن کی تعریف کی تھی، ’اشداء علی الکفار رحماء بینہم‘ ، آپس میں رحیم، کفار کے مقابلے میں سخت۔ تم نے کافروں سے نرم خوئی اختیار کی اور مسلمانوں سے سختی ودرشتی کا برتاؤ رکھا۔...

جناب احمد البداوی کے خطاب کا ایک جائزہ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

یکم اکتوبر ۲۰۰۴ کو وزیرِ اعظم ملائشیا جناب عبد اللہ احمد بداوی نے میگڈیلن کالج آکسفرڈ یونیورسٹی (برطانیہ ) کے آکسفرڈ مرکز برائے مطالعہ اسلامیات میں خطاب کیا۔ اس خطاب میں پیش کیے گئے نکات کی عمومی نوعیت شاید ہمارے لیے اس اعتبار سے اہم نہ ہو کہ یہ معمول کی باتیں ہیں اورہمارے ہاں زیرِ بحث آتی رہتی ہیں، لیکن جناب عبداللہ احمد بداوی کی فکر کا اظہار چونکہ ایک ایسے پلیٹ فارم پر ہو رہا تھا جو نہ صرف علومِ حاضرہ کے ایک مستند ادارے کی شاخِ زریں ہے بلکہ اس کی بین الاقوامی اہمیت بھی مسلّم ہے، اس لیے اس خطاب کی نوعیت، عمومیت کے دائرے سے باہر آجاتی ہے۔ خطاب...

تحریکِ استشراق اور اس کے اہداف و مقاصد

حافظ محمد سمیع اللہ فراز

استشراق (Orientalism) کی اصطلاح قدیم عربی لغات میں مفقود ہے اور موجودہ مفہوم میں بھی عربوں میں کبھی اس کا استعمال نہیں رہا، بلکہ یہ لفظ غیرمسلم مفکرین کا وضع کردہ ہے جس کے لیے عربی میں ’استشراق ‘کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ لفظ "Orient" بمعنی مشرق اور "Orientalism" کا معنی شرق شناسی یا مشرقی علوم وفنون اور ادب میں مہارت حاصل کرنے کے ہیں۔ مستشرق (استشرق کے فعل سے اسمِ فاعل) سے مراد ایک ایسا شخص ہے جو بتکلف مشرقی بنتا ہو (۱)۔ مستشرق ایک ایسے غیر مشرقی عالم کو کہتے ہیں جو مشرقی علوم، ادب اور معاشرت وغیرہ میں دلچسپی رکھتا ہو، تاہم’ زلفو مدینہ‘ کے دیے گئے معانی...

آئیے! اپنا کتبہ خود لکھیں

پروفیسر میاں انعام الرحمن

تمدنی زندگی کی گہما گہمی میں ہمارے پاس سوچ بچار کے لیے عموماً وقت نہیں ہوتا ۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ویسے بھی غور و فکر کے تقریباً سبھی راستے مسدود کر دیے ہیں ۔ آخر معلومات کے سیلاب میں بہنے والوں کو توقف و ٹھہراؤ کی فرصت کہاں ! جدید عہد کی یہی بربریت ہے۔ ہر شخص کے پاس معلومات کا ڈھیر ہے اور تقریباً ہر شخص بے شعور ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا معلومات ، شعور و آگہی کا بدل ہو سکتی ہیں ؟ مثلاً لوگ جانتے ہیں کہ امریکی صدر کے لیے کم از کم ۳۵ سال کا ہونا ضروری ہے اور پاکستان میں ۱۹۷۳ کے دستور کے تحت صدر کی کم از کم عمر ۴۵ سال ہے۔ اسے ہم معلومات کے زمرے میں شمار...

سیرت نبوی کے مطالعے کی اہمیت اور اس کی نگارش کا طریقہ و منہاج

مولانا محمد یحیی نعمانی

سیرت نبوی کے مطالعے کی اہمیت کے بیان میں اس سے زیادہ اور کسی بات کی ضرورت نہیں ہے کہ اس میں انسانی افراد اور جماعتوں کے لیے وہ کامل اور سد ا بہار نمونہ ہے جس کو اسی لیے تیار کیا گیا تھاکہ فرزندان آدم ہر حال میں اس سے اپنے لیے رہنمائی اور ہدایت کی روشنی حاصل کریں، خاص طور پر اہل ایمان کے لیے اس کا ہر پہلو لائق اقتدا، اور واجب اتباع ہے۔ اللہ کی قدرت اور نبوت محمدی کا اعجاز دیکھئے کہ محمد رسول اللہ کی نبو ت کے ۲۳؍سال کے مختصر عرصہ میں ذات نبوی علی صاحبہا السلام پر ان سارے حالات وکیفیات کا گذر ہوگیا جن سے قیامت تک کسی انسان کا سامنا ہوسکتا ہے فتح وشکست،...

شیعہ سنی تعلقات اور متوازن رویہ ۔ ایک شیعہ عالم کے خیالات

ڈاکٹر یوگندر سکند

مولانا کلب صادق انڈیا کے ممتاز اثنا عشری شیعہ راہنما ہیں۔ ان کا تعلق لکھنو کے ایک ایسے علمی خانوادے سے ہے جس نے ماضی میں کئی علما پیدا کیے۔ ایک ممتاز عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کر چکے ہیں۔ طلبہ اور طالبات کے لیے ایسے تعلیمی ادارے قائم کر کے جن میں اسلامی کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی دی جاتی ہے، انھوں نے معاصر انڈیا میں علما کے لیے ایک نیا لائحہ عمل متعین کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ وہ ہندو مسلم مکالمہ کے ساتھ ساتھ شیعہ سنی اتحاد کے بھی کھلم کھلا داعی ہیں۔ شیعہ سنی تعلقات میں بہتری پیدا...

اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت

مولانا محمد یوسف

ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے جون ۲۰۰۴ء کے شمارے میں پروفیسر میاں انعام الرحمن صاحب کے مضمون ’’دین اسلام کی معاشرتی ترویج میں آرٹ کی اہمیت‘‘ کے توسط سے ان کے تازہ ترین افکار سے آشنائی ہوئی۔ موصوف نے اپنے مضمون میں آرٹ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے علما کے معاشرتی کردار کے حوالے سے یہ شکوہ کیا ہے کہ علما انسانی شعور کو ایڈریس کرنے کے بجائے جذباتی فضا قائم کر کے لوگوں کے جذبات سے کھیل رہے ہیں۔ غالباً اسی جذباتی فضا کا اثر ہے کہ خود میاں صاحب نے اس فضا کو ختم کرنے کے لیے جو انداز تحریر اختیار کیا ہے، وہ بھی شعور انسانی کو کم اور جذبات کو زیادہ اپیل کرنے...

مسئلہ فلسطین یہودی مذہبی پیشوا کی نظر میں

مولانا حبیب نجار

گزشتہ دنوں رابطۃ العالم الاسلامی کے اخبار ’’العالم الاسلامی‘‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے ارض فلسطین اور مسجد اقصیٰ کے بارے میں ایک یہودی مذہبی پیشوا یسرائیل ڈیوڈ کا انٹرویو نظر سے گزرا تو ماہنامہ الشریعہ ستمبر/اکتوبر ۲۰۰۳ء میں مولانا محمد عمار خان ناصر کی تحریر بعنوان ’’مسجد اقصیٰ، یہود اور امت مسلمہ‘‘ ذہن میں گھومنے لگی۔ مولانا موصوف کے اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارض فلسطین اور مسجد اقصیٰ وراثت کے طور پر یہو دکو عطا ہوئی، اس لیے ان کا مسجد اقصیٰ اور ارض فلسطین پر قانونی واخلاقی حق ہے۔ مولانا کے اس مضمون پر تنقیدی...

دین اسلام کی معاشرتی ترویج میں آرٹ کی اہمیت

پروفیسر میاں انعام الرحمن

معاشرے میں چھائی ہوئی ابتری کے پیشِ نظر ہمارے ہاں ایک جملے کی مقبولیت کا گراف مسلسل بلند ہوتا جا رہا ہے۔ وہ مقبولِ عام جملہ یہ ہے کہ ’’لوگ بے دین ہو گئے ہیں ‘‘۔ حالانکہ یہ بات صریحاً غلط ہے، کیونکہ اصل بات یہ ہے کہ جس سوچ کو دین کا نام دیا جا رہا ہے، وہ دین نہیں ہے یا پھر زیادہ سے زیادہ وہ دین کی فقط ایک جہت ہے۔ اسی کی وجہ سے معاشرتی ابتری بڑھ رہی ہے نہ یہ کہ بے دینی اس کا سبب ہے۔ راقم کی نظر میں ہمارے محترم علما جب بھی دین کی بات کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں حقیقتاً ’’ فقہ‘‘ ہوتی ہے اور فقہ کی بھی جزئیات (۱) یہ ایک عظیم فروگزاشت ہے جو تسلسل سے ہو...

SDPI کی رپورٹ کا ایک جائزہ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

پاکستان کی تاریخ محض سیاسی کشمکش کی تاریخ نہیں ہے۔ اپنے قیام کے بعد سے اسے مختلف مسائل کا سامنا رہا ہے۔ ان مسائل کی نوعیت مختلف ہونے کے باوجود ’’تعلیم ‘‘ ہمیشہ موضوع بحث ہونے کے باعث ہر دور کا مشترکہ مسئلہ رہی۔ یہ بات بہرحال تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ تعلیم کے حوالے سے حکومتوں کا رویہ بالخصوص اور غیر حکومتی تنظیموں (NGOs) کا رویہ بالعموم، فقط گفتار تک محدود رہا۔ حکومتی اور غیر حکومتی سطح پرہم لوگ کس حد تک گفتار کے غازی ہیں، ہماری شرح خواندگی اس کی واقعاتی گواہ ہے۔ تعلیم کے حوالے سے ہی وطنِ عزیز میں مختلف طبقات کے درمیان کھینچا تانی جاری رہی۔ پہلے...

برصغیر کی مذہبی فکر کا ایک تنقیدی جائزہ ۔ عالمی سیاست ومعیشت کے تناظر میں

پروفیسر میاں انعام الرحمن

اس وقت عالمِ اسلام اور وطنِ عزیز کی ناگفتہ بہ حالت کے معروضی تجزیے کے لیے جس اخلاقی جرات اور تاریخی شعور کی ضرورت ہے، شاید اس سے دیدہ و دانستہ پہلو تہی برتی جا رہی ہے۔ نتیجے کے طور پر قومی و ملی مورال گرتا جا رہاہے۔ عوام الناس آنکھوں میں سینکڑوں سوالات لیے قائدین کی طرف دیکھ رہے ہیں ، جو اب بھی ایڑیاں اٹھا اٹھا کر’ قد آور‘ ہونے کی ادھیڑ بن میں مبتلا ہیں کہ ان کی اپنی سوچ محدود، منتشر اور غیر منظم ہے۔ ان نام نہاد قائدین نے جماعت، طبقہ، ذات، حیثیت، نسل اور مسلک وغیرہ جیسی خواہشات سے دب کر اپنے نظریات اور کمٹ منٹ کو انتہائی منفی حد تک متاثر کیا...

ارضی نظام کی آسمانی رمز

پروفیسر میاں انعام الرحمن

جدید دور کے ریاستی و جمہوری نظام کی فکری آبیاری ہابس (۱)، لاک(۲) اور روسو (۳)نے کی تھی ، پھر کارل مارکس(۴) نے اپنے عہد کے مخصوص احوال و ظروف کے طفیل اسے ایک نئی جہت سے روشناس کرایا۔ ان مفکرین کے پیش کردہ نظریات اور ان کے اثرات اگرچہ عمومی نوعیت کے حامل رہے ہیں لیکن یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ ان کا پس منظر اور واقعاتی حوالہ جات، مکمل طور پر مقامی ہیں۔ اس طرح ان نظریات کی خوبیوں اور ان میں مضمر آفاقی نکات کے باوجود، ان کا مقامی اور محدود واقعاتی حوالہ بعض تحفظات کو جنم دیتا ہے۔ یہ تحفظات آج کے دور میں نئے انداز اور نئی قوت سے سر ابھار رہے ہیں۔...

فکری و مسلکی تربیت کے چند ضروری پہلو

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

کل سے مختلف مسائل پر گفتگو چل رہی ہے۔ ہم نے صبح کی نشست میں نصاب اور اساتذہ کی تدریسی اور تربیتی مشکلات کے حوالے سے بات کی، جس کے نتیجے میں تفصیلی تجاویز سامنے آئی ہیں۔ اس نشست میں میری گفتگو کا عنوان ہے ’’فکری ومسلکی تربیت کے چند ضروری پہلو‘‘۔ فکری تربیت سے مراد یہ ہے کہ دینی مدارس کے طلبہ جب ایک خاص نصاب کی تعلیم پاکر سوسائٹی میں جاتے ہیں اور انہیں آج کے مسائل اور حالات سے سابقہ پیش آتا ہے تو ان کی فکر اور سوچ کیا ہو؟ ان کا نصب العین اور زندگی کا مقصد کیا ہو؟ ہر آدمی کا کوئی نہ کوئی فکری نصب العین بن جاتا ہے جس کے ارد گرد اس کی زندگی کی ساری...

حدود آرڈیننس : چند تجزیاتی آرا

ادارہ

ہمارا معاشرہ، بہت سے دوسرے فکری اور عملی سوالات کی طرح، اسلامی قوانین کے حوالے سے بھی انتہا پسندی کا شکار ہے۔ ایک طرف جدید مغربی فلسفہ قانون سے متاثر وہ طبقہ ہے جو اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کے باوجود شرعی قوانین کی افادیت اور ان کے قابل عمل ہونے پر سرے سے یقین ہی نہیں رکھتا اور قرآن وسنت کو بطور ماخذ قانون تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ دوسری طرف مذہبی طبقات ہیں جن کے ہاں اسلامی قوانین کے بارے میں یہ تصور رائج ہے کہ گویا وہ کوئی ’’جادو کی چھڑی‘‘ (Magic Wand) ہیں جن کو معاشرے کی اخلاقی تربیت اور عملی حالات اور پیچیدگیوں کا لحاظ رکھے بغیر محض جیسے تیسے...

مسجد اقصیٰ کی تولیت کا حق دار کون؟

مولانا محمد یوسف

روئے زمین پر سب سے محترم ومقدس مقامات مساجد ہیں۔ جناب نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: احب البلاد الی اللہ مساجدہا ۔ ان مساجد میں سے بعض ایسی ہیں جن کو کسی نہ کسی وجہ سے امتیازی مقام حاصل ہے۔ روئے زمین پر قائم تین مساجد ایسی ہیں جن کی طرف تقرب الٰہی کے حصول کی نیت سے باقاعدہ دور دراز سفر کر کے جانے کی ترغیب خود نبی اکرم ﷺ نے دی ہے۔ ارشاد گرامی ہے: لا تشد الرحال الا الی ثلثۃ مساجد المسجد الحرام والمسجد الاقصیٰ ومسجدی۔ درج بالا حدیث مبارکہ میں مسجد حرام اور مسجد نبوی کے ساتھ ساتھ مسجد اقصیٰ کو بھی مقدس مقام شمار کیا گیا ہے۔ اس کی عظمت نہ صرف مسلمانوں...

’’مسجد اقصیٰ ، یہود اور امت مسلمہ‘‘ ۔ ناقدین کی آرا

ادارہ

مدینہ منورہ اور خیبر میں یہود کی بستیوں پر قبضہ اور انہیں جلاوطن کرنے کے بعد ان کی تمام عبادت گاہیں ختم ہو گئی ہیں اور ان کی جگہ مسلمانوں کے مکانات اور عبادت گاہیں تعمیر ہوئی ہیں۔ اسی طرح نجران سے عیسائیوں کی جلاوطنی کے بعد ان کی عبادت گاہیں بھی باقی نہیں رہیں۔ پھر اندلس پر مسلمانوں کا قبضہ ختم ہو جانے کے بعد ان کی ہزاروں عبادت گاہوں کی ہیئت بلکہ ملکیت تبدیل ہو گئی ہے۔ اس کے بعد بھارت میں ہزاروں مساجد ہندوؤں اور سکھوں نے قبضہ کر کے اپنے مکانات اور عبادت گاہوں میں انہیں تبدیل کر لیا ہے اور پاکستان میں ہندوؤں اور سکھوں کے سینکڑوں مندر مسلمانوں...

کیا علاقائی کلچر اور دین میں بُعد ہے؟

پروفیسر میاں انعام الرحمن

ماہنامہ الشریعہ کے نومبر ۲۰۰۳ء کے شمارے میں رئیس التحریر جناب ابو عمار زاہد الراشدی کا مضمون بعنوان ’’خاتون مفتیوں کے پینل کا قیام‘‘ شائع ہوا۔ راشدی صاحب کے طرز استدلال اور وسعت بیان کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس مضمون میں انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں جن نکات پر قلم اٹھایا ہے، ان سب سے اتفاق کرنا پڑتا ہے سوائے آخری چند سطور کے۔ یہ سطریں مذکورہ شمارے کے سرورق پر بھی شائع ہوئی ہیں۔ ’’عورت کے حوالے سے ہماری موجودہ اور مروجہ روایات واقدار کا ایک بڑا حصہ ہمارے علاقائی کلچر سے تعلق رکھتا ہے جسے دین قرار دے کر ان کی ہر حالت میں حفاظت کا تکلف...

سماجی تبدیلی کے نئے افق اور امت مسلمہ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

اپنے ظہور کے بعد سے انسانی معاشرہ نوع بہ نوع تبدیلیوں سے ہمکنار ہوتا چلا آ رہا ہے۔اکیسو یں صدی میں یہ تبدیلیاں رفتار اور نوعیت کے اعتبار سے منفرد کہی جا سکتی ہیں۔اس وقت انسانی آبادی کی بہتات اور اس سے جنم لیتے مختلف النوع مسائل جہاں فکر انگیز ہیں، وہاں تبدیلی کی لہر کو انگیخت کرنے میں بھی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ افراطِ آبادی اور کرپشن سے لے کر توانائی اور پانی کے بحران تک بڑے بڑے مسائل ایسے ہیں جن پر دنیا بھر میں بحث ومباحثہ جاری ہے کہ ان پر کیونکر قابو پایا جا سکتا ہے۔ موجودہ عہد میں عالمی سطح پر جہاں تک نظامات (Systems) کا تعلق ہے، ان کی تشکیلِ...

کشمیر کی سیاسی بیداری میں علمائے دیوبند کا کردار

پروفیسر محمد یونس میو

برصغیر پاک وہند میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے جو فکری، علمی، اصلاحی، عملی اور سیاسی تحریکیں اٹھتی رہی ہیں، ان کے پس منظر میں کسی نہ کسی طرح حضرت مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ، سرسید احمد خان، مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا انور شاہ کشمیری، مولانا احمد رضا خان، سید ابو الاعلیٰ مودودی اور علامہ محمد اقبال کی فکر کارفرما رہی۔ ہر مذہب کے پیروکار اپنا اپنا حصہ ادا کرتے ہیں۔ لیکن جو جامعیت دیوبند کے اہل علم میں ہے، وہ کسی دوسری جگہ نہیں۔ قرآن وحدیث، فقہ وتصوف، سیرت وتاریخ، تقلید واجتہاد، فکر ونظر، نقل واقتباس، معرفت...

سیاسی کے بجائے معاشرتی انقلاب کی ضرورت

محمد موسی بھٹو

تعلیمی اداروں، سماجی اداروں اور اسلام کے نظریاتی اداروں سے وابستہ وہ باصلاحیت افراد جو سیاست میں دینی جدوجہد کے ذریعہ بہت بڑی تبدیلی کی توقع پر معاشرہ کی سطح پر اپنے حصہ کے کام کو معطل کیے ہوئے ہیں یا اس کام کی افادیت کے قائل نہیں، انہیں اس نکتہ پر ضرور غور وفکر کرنا چاہیے کہ اول تو معاشرہ کی سطح پر تبدیلی کے لیے اپنی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال کے بغیر صحت مند سیاسی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ اگر اس طرح کی تبدیلی واقع بھی ہو جائے تو اس تبدیلی میں ان کا کردار نہ ہونے کی وجہ سے وہ خود تو اس عظیم کام کی سعادت سے محروم ہی رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ قوموں کے...

گلوبلائزیشن: عہد جدید کا چیلنج

پروفیسر میاں انعام الرحمن

تاریخ کا ہر عہد تاریخ ساز رہا ہے۔ مورخین نے اپنے اپنے انداز میں ہر عہد کا جائزہ لیا ہے ،جس سے اختلاف ہونے کے باوجود یکسر رد کرنے کا ذمہ دار بننے کوشایدکوئی بھی تیار نہ ہو۔ تاریخی دھارے کی تشریح اور تاریخی عمل کی وضاحت کے ضمن میں بعض مورخین نے واحد عنصرپر زور دیا ہے،مثلاََ مالتھس نے آبادی کی، اسمتھ نے منڈیوں کی، ویبر نے طاقت کی اور مارکس نے طبقات کی بطور واحد عنصر کے نشان دہی کی۔ اسی طرح ۱۹۵۷ء میں Karl Wittfogel نے ایشیائی hydraulic despotism کی تھیوری پیش کی کہ پانی کے ذخائر پر مرکزی کنٹرول کی ضرورت نے استبداد کو جنم دیا ہے۔ مذکورہ نظریات کی یک رخی کے باوجود...

برصغیر کی مذہبی فکر کا ایک تنقیدی جائزہ

الطاف احمد اعظمی

قوموں کے زوال کے مختلف اسباب ہیں۔ان میں سے دو سبب ایسے ہیں جو تقریباََ ہر قوم کے زوال میں کارفرما ملتے ہیں۔ ایک سبب تو عقلی قوت کا اضمحلال ہے جس کے نتیجے میں وہ قوم نہ صرف حکومت کرنے کی اہلیت سے عاری ہو جاتی ہے بلکہ اس میں با صلاحیت افراد کی پیدائش کا سلسلہ بھی بتدریج بند ہو جاتا ہے۔ اس قحط الرجال کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قوم کی زمام اختیار نااہل لوگوں کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے جو قومی معاملات کو رفتہ رفتہ اس حد تک خراب کر دیتے ہیں کہ ان کی اصلاح ناممکن ہو جاتی ہے۔زوال کا دوسرا اہم سبب اخلاقی قوت کا ضعف ہے۔ جب کسی قوم میں عقلی انحطاط کے ساتھ...

اسلامی حکومت سرحد: پس چہ باید کرد

کے ایم اعظم

ملک کے پژمردہ پس منظر میں حالیہ انتخابات میں اسلامی جماعتوں کی غیر معمولی کام یابی امید کی ایک کرن لے کر آئی ہے مگر کئی ایک زعمانے اس شک کا بھی اظہار کیاہے کہ یہ کا میابی اسلامی نقطہ نگاہ سے شاید خاطر خواہ نتائج پر منتج نہ ہوگی۔ معاشرتی طور پر پاکستان کے مسائل نہایت گھمبیرہیں۔ان کا کوئی حل بنیادی اور سٹرکچرل تبدیلیوں کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ بہرحال اس یاد داشت کا مقصد ایک ایسے قابل عمل پروگرام کی تشکیل ہے جس پر فوری طور پر عمل پذیر ہوکر اسلامی حکومت سرحد سرخرو ہوسکتی ہے۔ مجھے تو اس میں بھی مشیت الٰہی نظر آرہی ہے کہ ایک مکمل اسلامی حکومت صرف صوبہ...
< 351-400 (427) >

Flag Counter