سائنسی اصطلاح میں ارتقا ایک ایسا عمل ہے جس میں موجودہ دور کے پودے اور جانور ماضی کی اقسام سے، مختلف اور بتدریج تبدیلیوں کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں۔ ارتقا کے بارے میں مختلف لوگوں نے مختلف نظریات پیش کیے ہیں، لیکن عام طور پر ڈارvن کے نظریہ ارتقا کو زیادہ پزیرائی ملی ہے۔ ارتقا کے تصور کو سمجھنے کے لیے ہمیں ان نظریات پر بھی ایک نظر ڈالنی ہوگی۔ یونانی فلسفیوں میں سے جن لوگوں نے شروع میں ارتقا کے نظریات پیش کیے، ان میں انیکسی مینڈر، زینو فینز، ایمیڈوکلس اور ارسطو نمایاں ہیں۔
انیکسی مینڈر نے چھٹی صدی قبل مسیح میں یہ نظریہ پیش کیا کہ انسان ایک مچھلی کی شکل میں پیدا ہوا اور پھر اپنے چھلکوں کو اتار کر پانی سے خشکی پر نمودار ہوا۔
ایمپیڈوکلس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ پودے اور جانور زمین سے پیدا ہوئے۔ اس کے مطابق جانور مکمل طور پر وجود میں آنے کے بجائے الگ الگ حصوں کی صورت میں پیدا ہوئے۔ بعد میں یہ حصے ارتقا کے عمل کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایک مکمل جسم کی صورت اختیار کر گئے۔
ارسطو (۳۶۴۔۳۲۲ قبل مسیح) نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ماضی میں رہنے والے جاندار اور مادہ نامکمل تھے۔ انھوں نے بتدریج پیچیدہ اور مکمل جانداروں کی صورت اختیار کی۔
لیمارک (۱۸۰۹) ایک فرانسیسی ماہر حیاتیات تھا۔ اس کے نظریے کے مطابق ماحول میں تبدیلیوں کی وجہ سے جسم کے مختلف حصوں کا استعمال کم یا زیادہ ہو جاتا ہے۔ جو حصے زیادہ استعمال ہوتے ہیں، وہ زیادہ کارآمد اور مضبوط ہو جاتے ہیں اور جو زیادہ استعمال نہیں ہوتے، آہستہ آہستہ کمزور اور غیر ضروری ہو جاتے ہیں اور آہستہ آہستہ غائب بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کے مطابق نئی خصوصیات پیدا ہو جاتی ہیں اور نئی نسل میں منتقل ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور اس کی وجہ سے ارتقا کا عمل ہوتا ہے۔
ماہرین کی حالیہ تحقیق کے مطابق لیمارک کے اس نظریے کی تردید ہوتی ہے کہ ماحول کے تمام اکتسابی اثرات (خصوصیات) اولاد میں منتقل ہو جاتی ہیں۔ جدید سائنس یہ ثابت کرتی ہے کہ وہی تبدیلیاں دوسری نسلوں کو منتقل ہوتی ہیں جو کروموسومز یا جینیاتی مادے میں مستحکم ہوتی ہیں۔
ڈارون (۱۸۵۹) کے نظریے کے اہم نکات یہ ہیں:
۱۔ تمام جاندار اپنی نسل کی افزایش کے لیے تعداد میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرتے ہیں۔
۲۔ بقا کی اس جدوجہد میں جو جاندار ماحول کے مطابق اپنے اندر خصوصیات پیدا کر لیتا ہے، وہ زندہ رہنے کے قابل ہوتا ہے اور اس کی نسل آگے بڑھتی ہے۔
۳۔ اگر یہ تبدیلیاں حالات اور موسم اور ماحول کے ناموافق ہوں تو وہ جاندار ناموزوں رہتا ہے اور نتیجے کے طور پر آہستہ آہستہ ناپید ہو جاتا ہے۔
۴۔ جانداروں میں ضروریات زندگی حاصل کرنے اور اپنی بقا کے لیے جدوجہد کے نتیجے میں جو تبدیلیاں رو نما ہوتی ہیں، وہ اگر ماحول اور حالات کے موافق ہوں تو جاندار زندہ رہتے ہیں، لیکن جن جانداروں میں یہ تبدیلیاں موافق نہ ہوں، وہ آہستہ آہستہ ختم ہو جاتے ہیں۔ یہ عمل ’’قدرتی انتخاب‘‘ (natural selection) کہلاتا ہے۔
ڈارون اپنے نظریہ ارتقا یا قدرتی انتخاب میں وضاحت کرتا ہے کہ قدرت انواع کے ان خط وخال کو منتخب کر لیتی ہے جو اس کے ماحول سے مطابقت رکھتے ہوں اور ان خصوصیات کو خارج کر دیتی ہے جو ضروری نہیں ہوتے۔ اس کے لیے وہ اپنڈکس کی مثال دیتا ہے کہ شاید ہزاروں سال قبل یہ نظام انہضام میں مدد دیتی ہو، لیکن اب یہ آنتوں کا ایک زائد حصہ تصور کی جاتی ہے۔ ڈارون کے نزدیک انواع میں تبدیلی ہزاروں سال میں رونما ہوتی ہے۔
قدرتی انتخاب کے نظریے پر کئی اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔ یہاں صرف اہم اعتراضات کا ذکر کریں گے:
۱۔ ڈارون کے بیان کے مطابق ایک نئی جنس (species) کے وجود میں آنے کی وجہ اس میں پیدا ہونے والی تبدیلیاں ہیں جو ماحول کے تحت پیدا ہوتی ہیں، لیکن اس بات کا کوئی یقینی ثبوت نہیں ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں مل کر بالآخر ایک نئی جنس کو وجود میں لانے کا سبب بنیں۔
۲۔ اس نظریے میں ارتقا کی بنیادی وجہ ماحول کے مطابق پیدا ہونے والی تبدیلیوں کو قرار دیا گیا ہے، لیکن یہ بات واضح نہیں کی گئی کہ یہ تبدیلیاں کیسے وجود میں آتی ہیں۔
۳۔ اس نظریے کے مطابق پیدا ہونے والی تمام تبدیلیاں ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی ہیں، جبکہ جدید سائنسی تحقیقات کی رو سے صرف وہی تبدیلیاں اگلی نسلوں کو منتقل ہو سکتی ہیں جو وراثتی مادے (DNA)کے اندر ہوتی ہیں۔
۱۸۵۹ میں جب چارلس ڈارون نے اپنی کتاب ’’اصل انواع‘‘ (Origin of Species) شائع کی جس میں اس نے قدرتی انتخاب کے اصول کے تحت اپنے نظریہ ارتقا کی وضاحت کی تھی تو بحث وتمحیص کا میدان گرم ہو گیا۔ ڈارون نے اپنی اس کتاب میں انسان کو موضوع بحث نہیں بنایا تھا، تاہم یہ بات صاف ظاہر تھی کہ یہ انسان کے بارے میں ہی ہے۔ اس کا نظریہ بہت سی ایسی قدروں کی نفی کرتا تھا جو کہ انجیل میں انسان کی تخلیق سے متعلق بیان کی گئی ہیں۔ بارہ سال بعد ڈارون کی کتاب Descent of Man شائع ہوئی جس میں اس نے قدرتی انتخاب کا فلسفہ بشریات کے حوالے سے پیش کیا۔ بعد میں اس نے اپنی کتاب ’’انسانوں اور جانوروں میں جذبات کا اظہار‘‘ میں نفسیات کے حوالے سے نظریہ ارتقا یا قدرتی انتخاب کے تصور کو ثابت کرنے کی کوشش کی۔
ڈارون کے نظریے کے مطابق تمام موجودہ انواع لاکھوں سال پرانے سادہ جانداروں میں بتدریج رونما ہونے والی حیاتیاتی تبدیلیوں کے ذریعے سے وجود میں آئی ہیں، حتیٰ کہ انسان کا وجود ان کی آخری کڑی ہے۔ ڈارون کو یقین تھا کہ اس سارے عمل کے دوران میں جو انواع وجود میں آئی تھیں اور پھر ختم ہو گئیں، ان کا فاسل ریکارڈ بھی مل جائے گا، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ اگر ماضی میں انواع کے اندر تبدیلیاں وجود میں آئی تھیں تو ان کے بارے میں بہت سا ایسا فاسل ریکارڈ ملنا چاہیے تھا جس کے ملنے کی خود ڈارون توقع کرتا تھا، لیکن ہمارے پاس کوئی ایسا ریکارڈ موجود نہیں جس کی بنیاد پر ہم کہہ سکیں کہ انھیں درمیانی کڑیوں سے انسان وجود میں آیا ہے۔
یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ ڈارون کی طرف یہ بات عام طور پر منسوب کی جاتی ہے کہ انسان بندر کے ارتقا سے وجود میں آیا، جو کہ بالکل غلط ہے۔ ڈارون کا نظریہ اصل میں یہ ہے کہ انسان انھی آباو اجداد سے وجود میں آیا ہے جن سے بندر اور دوسرے میملز وجود میں آئے ہیں۔
بعض سادہ لوح حضرات سائنسی نظریہ ارتقا کو قرآنی آیات سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ ایک غلط طریقہ ہے۔ سائنس ایک انسانی علم ہے اور اس میں کوئی بات کبھی حرف آخر نہیں ہو سکتی۔ سائنس میں نظریات پیش کیے جاتے ہیں اور کچھ عرصے کے بعد ان کا بطلان ثابت ہو جاتا ہے۔ یہاں پیر محمد کرم شاہ صاحب کا ایک اقتباس برمحل ہوگا:
’’یہاں ایک خاص چیز کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ بعض لوگ کائنات کی تخلیق کی تفصیلات قرآن میں تلاش کرنا چاہتے ہیں اور اپنے زمانہ کے مفکرین وفلاسفہ کے نظریات جو مقبول عام ہوتے ہیں، ان کے رنگ میں قرآن کو بھی رنگنا چاہتے ہیں، لیکن ان کا یہ اسلوب فکر قرآن کے متعلق قطعاً دانش مندانہ نہیں، کیونکہ ہر زمانہ کے اہل فکر اپنی ذہنی کاوشوں سے اپنے نظریات واضح کرتے ہیں اور لوگ ان کے زور دار دلائل سے مرعوب ہو کر ان کو حق تسلیم کر لیتے ہیں اور اس باب میں ان کو حرف آخر قرار دیتے ہیں۔ لیکن کچھ عرصہ بعد انھیں مفکرین کے پیروکار اور شاگرد اپنے پیش رو اساتذہ کے نظریات کو غلط ثابت کر دیتے ہیں اورپہلے دلائل سے بھی زیادہ وزنی دلیلوں پر اپنے نئے نظریات کی پرشکوہ عمارت لا کھڑی کرتے ہیں اور ان نظریات کا حشر بھی دیر یا بزود یہی ہوا کرتا ہے۔ اس لیے آیات قرآنی کو کسی قدیم یا جدید نظریہ کا پابند کرنا قرآن کے مزاج کے خلاف ہے۔ کچھ وقت کے لیے کسی نظریہ سے ہم آہنگ کر کے لوگوں کو بتایا جا سکتا ہے کہ قرآن کے ارشادات بھی وہی ہیں جن کو فلاں فلاسفر یا سائنس دان نے پیش کیا ہے، لیکن آپ خود غور فرمائیے اگر کچھ عرصہ بعد ان نظریات کا بطلان ہو گیا تو اس کی زد آیات قرآنی پر نہیں پڑے گی؟ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ قرآن تخلیق کائنات کی تفصیل بیان کرنے والی کتاب نہیں بلکہ یہ رشد وہدایت کا صحیفہ ہے۔ اس میں جہاں کہیں انفسی اور آفاقی آیات کا ذکر کیا گیا ہے، اس کا مدعا فقط اللہ تعالیٰ کی عظمت وکبریائی اور علم وحکمت کو ظاہر کرنا ہے۔‘‘
مآخذ
۱۔ بیالوجی (۲۰۰۳) ڈاکٹر محمد فرید اختر، کفایت اکیڈمی کراچی؍لاہور صفحہ ۱۵۲ تا ۱۵۹
۲۔ دنیا کے عظیم سائنس دان ۔ رقیہ جعفری ، سرفراز احمد۔ اردو سائنس بورڈ ، صفحہ ۳۴۵
۳۔ Biology: Concepts and Connection، نیل کیمپبل، تیسرا ایڈیشن، ص ۲۶۳
۴۔ The Miracle of Creation of DNA، ہارون یحییٰ، گڈ ورڈ بکس، صفحہ ۷۲
۵۔ تفسیر ضیاء القرآن، پیر محمد کرم شاہ، جلد دوم۔ صفحہ ۹۴۹