مسئلہ فلسطین یہودی مذہبی پیشوا کی نظر میں

مولانا حبیب نجار

گزشتہ دنوں رابطۃ العالم الاسلامی کے اخبار ’’العالم الاسلامی‘‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے ارض فلسطین اور مسجد اقصیٰ کے بارے میں ایک یہودی مذہبی پیشوا یسرائیل ڈیوڈ کا انٹرویو نظر سے گزرا تو ماہنامہ الشریعہ ستمبر/اکتوبر ۲۰۰۳ء میں مولانا محمد عمار خان ناصر کی تحریر بعنوان ’’مسجد اقصیٰ، یہود اور امت مسلمہ‘‘ ذہن میں گھومنے لگی۔ مولانا موصوف کے اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارض فلسطین اور مسجد اقصیٰ وراثت کے طور پر یہو دکو عطا ہوئی، اس لیے ان کا مسجد اقصیٰ اور ارض فلسطین پر قانونی واخلاقی حق ہے۔ مولانا کے اس مضمون پر تنقیدی تبصرے سامنے آئے جو الشریعہ دسمبر ۲۰۰۳ء میں شائع ہوئے۔ ان تحریروں میں سے ایک تحریر بعنوان ’’مسجد اقصیٰ کی تولیت کا حق دار کون؟‘‘ الشریعہ اکادمی کے ناظم مولانا محمد یوسف صاحب کی لکھی ہوئی تھی جس میں انھوں نے مسجد اقصیٰ کی تولیت کے حوالے سے قرآن وحدیث سے ٹھوس دلائل پیش کیے اور ایک اصولی نکتہ واضح کیا کہ مساجد کی تولیت کا حق خاندان کی بنیاد پر نہیں بلکہ نظریہ کی بنیاد پر ہے۔ تاہم مولانا عمار خان صاحب نے ماہنامہ الشریعہ اپریل/مئی ۲۰۰۴ء میں مسجد اقصیٰ کی تولیت کا حق مسلمانوں کے لیے تسلیم کرتے ہوئے احاطہ ہیکل کا اپنے خیال کے مطابق ایک معقول حل پیش کیا۔ راقم نے مناسب سمجھا کہ اسرائیلی ریاست اور مسجد اقصیٰ کے متعلق ایک یہودی مذہبی پیشوا کے بیانات کو بھی قارئین ’الشریعہ‘ کے سامنے لایا جائے تاکہ معاملے کی حقیقت مزید کھل کر سامنے آ جائے، کیونکہ عربی کا مشہور مقولہ ہے کہ ’الفضل ما شہدت بہ الاعداء‘ اور ’صاحب البیت ادری بما فیہ‘۔ یسرائیل ڈیوڈ کے خیالات حسب ذیل ہیں:

یہودی مذہبی پیشوا یسرائیل ڈیوڈ فائس نے نیو یارک میں لبنان کے اخبار ’’المستقبل‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے اسرائیلی ریاست کو غیر شرعی اور غیر قانونی قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ دین یہود میں قومیت کا تصور موجود نہیں، اس لیے یہودی ریاست کا قیام تورات کی تعلیمات کے خلاف ہونے کی وجہ سے درست نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’صہیونیت‘‘ کے نام سے فلسطین میں یہودیوں کی نو آبادی قائم کرنے کی تحریک کو صرف سو سال ہوئے ہیں جبکہ تورات کی تعلیمات چار ہزار سال سے چلی آ رہی ہیں۔ یہودیت، دینی تعلیمات کا مجموعہ ہے جبکہ صہیونی تحریک اس دینی مفہوم کو بدنام کر رہی ہے۔ صہیونی تحریک کا یہودی مذہب کو اس طرح استعمال کرنا تورات کی تعلیمات کے منافی اور ان کے پاگل پن کی کھلی دلیل ہے۔ 

انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ صہیونی تحریک کے قیام سے قبل یہود سرزمین عرب میں امن وسکون کے ساتھ رہ رہے تھے اور ارض فلسطین کے بارے میں ان کا کسی قسم کا کوئی مطالبہ نہیں تھا۔ صہیونی تحریک نے یہودیوں کو فلسطین کی طرف ہجرت پر آمادہ کرنے کے لیے خود بھی ان کا قتل عام کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے پاس اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ صہیونی تحریک نے عرب ممالک خصوصاً عراق میں یہودیوں کا قتل عام کیا اور بم دھماکے کروائے تاکہ یہودی فلسطین کی طرف ہجرت پر مجبور ہو جائیں۔ اسی طرح جرمنی میں صہیونی تحریک اور نازیوں کے مابین یہودیوں کے قتل عام کا باقاعدہ معاہدہ طے پایا۔ 

انھوں نے مسئلہ فلسطین کے حل کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم اسرائیل کو بطور ریاست ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ رہا سرزمین فلسطین میں یہودیوں کے قیام کا معاملہ تو یہ عوامی نمائندوں کی صوابدید پر منحصر ہے۔ ارض فلسطین میں رہنا صرف فلسطینیوں کا حق ہے اور گزشتہ سالوں میں صہیونی تحریک نے جو نقصانات کیے ہیں، فلسطینیوں کو ان کا ہرجانہ ملنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ عربوں اور یہودیوں کے مابین یہ نزاع پر امن اور منصفانہ طریقے سے حل ہونی چاہیے تاکہ خون ریزی کا سلسلہ رک سکے۔ مسجد اقصیٰ کے نیچے ہیکل سلیمانی کی موجودگی کے صہیونی دعویٰ کو غلط قرار دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس جگہ پر مسلمانوں کا حق ہے۔ تورات کے حکم کے مطابق یہودیوں کو اس مقام کی ملکیت کا حق تو کجا، ان کا اس میں داخلہ بھی ممنوع ہے۔

آراء و افکار

(جولائی ۲۰۰۴ء)

تلاش

Flag Counter